عقیدہ ختم نبوت دینِ اسلام میں ایک اساسی حیثیت رکھتا ہے‘ جس پر ایمان لانا بصدق دل وجاں ہرمسلمان پر ضروری ہے‘ لیکن اس کرہٴ ارض پر ان گنت ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے کہ جنہوں نے اسلام کی متین بنیادوں کو خام کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے انکار ختم نبوت کا سہارا لیا۔
اس فتنہ کے ابھرنے پر امت مسلمہ بہت سی سرافگندیوں سے دوچار ہوئی‘ چنانچہ سب سے پہلے مسیلمہ کذاب جس نے حضور اکے عہد میمون کے آخری ایام میں جعلی نبوت کی چادر تان لی اور اپنے دام فریب میں بے شمار خلق خدا کو پھنسایا تو حضرت ابوبکر صدیق نے جھوٹے مدعی نبوت اور ان کے چیلوں کا قلع قمع کرنے کے لئے حضرت خالد بن ولید کی سرکر دگی میں صحابہ کرام کا ایک لشکر جرار تشکیل دیا‘ جنہوں نے ان کے خلاف مجاہدانہ اور سرفروشانہ جذبہ کے ساتھ میدان کا رزار گرم کیا اور ہمیشہ کے لئے ان کو آغوش لحد سلادیا۔
صحابہ کرام کے اس اجماعی اقدام نے مسئلہ ختم نبوت میں کسی رخنہ کو جگہ نہ پانے دی اور یہ عقیدہ بلا کسی تاویل وتخصیص کے آگے منتقل ہوتا رہا ،لیکن اس کے بعد بھی کئی مدعیان نبوت نے انکار ختم نبوت کرکے جہنم کے لئے ایندھن فراہم کیا‘ جن میں ایک کنف مرزاغلام احمد قادیانی سرفہرست نظر آتا ہے۔
ہندوستان پرعرصہ دراز سے مسلط فرنگی حکومت اس بارے میں بڑی پریشان تھی کہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو کس طرح لگام دی جائے‘ کیونکہ وہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کی ایک جھلک ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں دیکھ چکے تھے‘ اب وہ اس انقلابی مذہبی جذبہ کی ہندوستان سے ہمیشہ کے لئے بیخ کنی پر مجبور تھے۔
۱۸۵۷ء میں انگریزی مرزبوم کو اپنے وفاداروں اور باغیوں کا بخوبی علم ہوچکا تھا‘ چونکہ اس معرکہ میں مرزا غلام احمد کے والد مرزا غلام مرتضیٰ نے انگریزوں کی دست نگری کو بھانپا تھا اور ان کی فراخدلی سے دستگیری کی تھی تو اس لئے اپنے مذموم مقاصد کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے انگریزوں نے قادیان میں اپنے وفادار پر نظر امید جمائی اور مصنوعی نبوت کا تاج مرزا غلام احمد کے سر پر رکھا۔
مرزا نے انگریز کے ظل عاطفت کو اپنی جعلی نبوت کے پرچار کے لئے سایہ رحمت زعم کیا اور حکومت وقت کے زیر سایہ پھلنا پھولنا شروع کیا‘ مرزا کو چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں کی قیادت کا ذبہ کے خواب دکھلا رکھے تھے تو اس لئے اس پر ہروقت تخت شاہی اور جاہ وحشم کے حصول کا سودا سوار رہتا تھا‘ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی‘ اس لئے اگر کبھی مسلمان آزادی کی چنگاری روشن کرتے بھی تو اس کو اپنے مقصد کے حصول میں سنگ راہ سمجھ کر گل کرنے کی سعی بلیغ کرتے پھر انگریز کا خود کاشتہ پودا آہستہ آہستہ اپنے گل افشاں کرنے لگا اور اپنی کذب بیانی اور الحادی تعبیرات سے امت کے افراد کو اپنی گودمیں گیرنے لگا‘ یوں امت مرحومہ کی وحدت کے عظیم قلعے میں بڑا شگاف پیدا ہوا تو قرآن وسنت کے علمبرداروں نے ان کی غلط تاویلات اور دسیسہ کاریوں کا پردہ چاک کیا اور جدید نبوتوں کی راہ ہموار کرنے والی الحادی تعبیرات کی خرمن پر بجلی بن کر گرے اور اس حقیقت کوروز روشن کی طرح واضح کیا کہ اب آفتاب رسالت کے بعد نوع انسانی کو کسی اور چراغ نبوت کی چنداں ضرورت نہیں‘ اس لئے کہ اب ہرایک اسی کے بحر شریعت سے سیراب ہوگا اور ہربھوکا اسی کے دسترخوان سے شکم سیر ہوگا اور ہرخائف اسی کے حریم امن میں پناہ پائے گا۔ کوئی نہیں جس کا نام اس کے نام سے اونچا ہوسکے اور کوئی نہیں جو اس کے بعد اپنی طرف دعوت دینے کا حق رکھتا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
لکھتاہوں خون دل سے یہ الفاظ احمریں
بعد از رسول ہاشمی کوئی نبی نہیں
اس فتنہ کے ابھرنے پر امت مسلمہ بہت سی سرافگندیوں سے دوچار ہوئی‘ چنانچہ سب سے پہلے مسیلمہ کذاب جس نے حضور اکے عہد میمون کے آخری ایام میں جعلی نبوت کی چادر تان لی اور اپنے دام فریب میں بے شمار خلق خدا کو پھنسایا تو حضرت ابوبکر صدیق نے جھوٹے مدعی نبوت اور ان کے چیلوں کا قلع قمع کرنے کے لئے حضرت خالد بن ولید کی سرکر دگی میں صحابہ کرام کا ایک لشکر جرار تشکیل دیا‘ جنہوں نے ان کے خلاف مجاہدانہ اور سرفروشانہ جذبہ کے ساتھ میدان کا رزار گرم کیا اور ہمیشہ کے لئے ان کو آغوش لحد سلادیا۔
صحابہ کرام کے اس اجماعی اقدام نے مسئلہ ختم نبوت میں کسی رخنہ کو جگہ نہ پانے دی اور یہ عقیدہ بلا کسی تاویل وتخصیص کے آگے منتقل ہوتا رہا ،لیکن اس کے بعد بھی کئی مدعیان نبوت نے انکار ختم نبوت کرکے جہنم کے لئے ایندھن فراہم کیا‘ جن میں ایک کنف مرزاغلام احمد قادیانی سرفہرست نظر آتا ہے۔
ہندوستان پرعرصہ دراز سے مسلط فرنگی حکومت اس بارے میں بڑی پریشان تھی کہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو کس طرح لگام دی جائے‘ کیونکہ وہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کی ایک جھلک ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں دیکھ چکے تھے‘ اب وہ اس انقلابی مذہبی جذبہ کی ہندوستان سے ہمیشہ کے لئے بیخ کنی پر مجبور تھے۔
۱۸۵۷ء میں انگریزی مرزبوم کو اپنے وفاداروں اور باغیوں کا بخوبی علم ہوچکا تھا‘ چونکہ اس معرکہ میں مرزا غلام احمد کے والد مرزا غلام مرتضیٰ نے انگریزوں کی دست نگری کو بھانپا تھا اور ان کی فراخدلی سے دستگیری کی تھی تو اس لئے اپنے مذموم مقاصد کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے انگریزوں نے قادیان میں اپنے وفادار پر نظر امید جمائی اور مصنوعی نبوت کا تاج مرزا غلام احمد کے سر پر رکھا۔
مرزا نے انگریز کے ظل عاطفت کو اپنی جعلی نبوت کے پرچار کے لئے سایہ رحمت زعم کیا اور حکومت وقت کے زیر سایہ پھلنا پھولنا شروع کیا‘ مرزا کو چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں کی قیادت کا ذبہ کے خواب دکھلا رکھے تھے تو اس لئے اس پر ہروقت تخت شاہی اور جاہ وحشم کے حصول کا سودا سوار رہتا تھا‘ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی‘ اس لئے اگر کبھی مسلمان آزادی کی چنگاری روشن کرتے بھی تو اس کو اپنے مقصد کے حصول میں سنگ راہ سمجھ کر گل کرنے کی سعی بلیغ کرتے پھر انگریز کا خود کاشتہ پودا آہستہ آہستہ اپنے گل افشاں کرنے لگا اور اپنی کذب بیانی اور الحادی تعبیرات سے امت کے افراد کو اپنی گودمیں گیرنے لگا‘ یوں امت مرحومہ کی وحدت کے عظیم قلعے میں بڑا شگاف پیدا ہوا تو قرآن وسنت کے علمبرداروں نے ان کی غلط تاویلات اور دسیسہ کاریوں کا پردہ چاک کیا اور جدید نبوتوں کی راہ ہموار کرنے والی الحادی تعبیرات کی خرمن پر بجلی بن کر گرے اور اس حقیقت کوروز روشن کی طرح واضح کیا کہ اب آفتاب رسالت کے بعد نوع انسانی کو کسی اور چراغ نبوت کی چنداں ضرورت نہیں‘ اس لئے کہ اب ہرایک اسی کے بحر شریعت سے سیراب ہوگا اور ہربھوکا اسی کے دسترخوان سے شکم سیر ہوگا اور ہرخائف اسی کے حریم امن میں پناہ پائے گا۔ کوئی نہیں جس کا نام اس کے نام سے اونچا ہوسکے اور کوئی نہیں جو اس کے بعد اپنی طرف دعوت دینے کا حق رکھتا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
لکھتاہوں خون دل سے یہ الفاظ احمریں
بعد از رسول ہاشمی کوئی نبی نہیں