عقیدہ ختم نبوت ومدعیان ِ نبوت

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
عقیدہ ختم نبوت دینِ اسلام میں ایک اساسی حیثیت رکھتا ہے‘ جس پر ایمان لانا بصدق دل وجاں ہرمسلمان پر ضروری ہے‘ لیکن اس کرہٴ ارض پر ان گنت ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے کہ جنہوں نے اسلام کی متین بنیادوں کو خام کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے انکار ختم نبوت کا سہارا لیا۔
اس فتنہ کے ابھرنے پر امت مسلمہ بہت سی سرافگندیوں سے دوچار ہوئی‘ چنانچہ سب سے پہلے مسیلمہ کذاب جس نے حضور اکے عہد میمون کے آخری ایام میں جعلی نبوت کی چادر تان لی اور اپنے دام فریب میں بے شمار خلق خدا کو پھنسایا تو حضرت ابوبکر صدیق نے جھوٹے مدعی نبوت اور ان کے چیلوں کا قلع قمع کرنے کے لئے حضرت خالد بن ولید کی سرکر دگی میں صحابہ کرام کا ایک لشکر جرار تشکیل دیا‘ جنہوں نے ان کے خلاف مجاہدانہ اور سرفروشانہ جذبہ کے ساتھ میدان کا رزار گرم کیا اور ہمیشہ کے لئے ان کو آغوش لحد سلادیا۔
صحابہ کرام کے اس اجماعی اقدام نے مسئلہ ختم نبوت میں کسی رخنہ کو جگہ نہ پانے دی اور یہ عقیدہ بلا کسی تاویل وتخصیص کے آگے منتقل ہوتا رہا ،لیکن اس کے بعد بھی کئی مدعیان نبوت نے انکار ختم نبوت کرکے جہنم کے لئے ایندھن فراہم کیا‘ جن میں ایک کنف مرزاغلام احمد قادیانی سرفہرست نظر آتا ہے۔
ہندوستان پرعرصہ دراز سے مسلط فرنگی حکومت اس بارے میں بڑی پریشان تھی کہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو کس طرح لگام دی جائے‘ کیونکہ وہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کی ایک جھلک ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں دیکھ چکے تھے‘ اب وہ اس انقلابی مذہبی جذبہ کی ہندوستان سے ہمیشہ کے لئے بیخ کنی پر مجبور تھے۔
۱۸۵۷ء میں انگریزی مرزبوم کو اپنے وفاداروں اور باغیوں کا بخوبی علم ہوچکا تھا‘ چونکہ اس معرکہ میں مرزا غلام احمد کے والد مرزا غلام مرتضیٰ نے انگریزوں کی دست نگری کو بھانپا تھا اور ان کی فراخدلی سے دستگیری کی تھی تو اس لئے اپنے مذموم مقاصد کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے انگریزوں نے قادیان میں اپنے وفادار پر نظر امید جمائی اور مصنوعی نبوت کا تاج مرزا غلام احمد کے سر پر رکھا۔
مرزا نے انگریز کے ظل عاطفت کو اپنی جعلی نبوت کے پرچار کے لئے سایہ رحمت زعم کیا اور حکومت وقت کے زیر سایہ پھلنا پھولنا شروع کیا‘ مرزا کو چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں کی قیادت کا ذبہ کے خواب دکھلا رکھے تھے تو اس لئے اس پر ہروقت تخت شاہی اور جاہ وحشم کے حصول کا سودا سوار رہتا تھا‘ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی‘ اس لئے اگر کبھی مسلمان آزادی کی چنگاری روشن کرتے بھی تو اس کو اپنے مقصد کے حصول میں سنگ راہ سمجھ کر گل کرنے کی سعی بلیغ کرتے پھر انگریز کا خود کاشتہ پودا آہستہ آہستہ اپنے گل افشاں کرنے لگا اور اپنی کذب بیانی اور الحادی تعبیرات سے امت کے افراد کو اپنی گودمیں گیرنے لگا‘ یوں امت مرحومہ کی وحدت کے عظیم قلعے میں بڑا شگاف پیدا ہوا تو قرآن وسنت کے علمبرداروں نے ان کی غلط تاویلات اور دسیسہ کاریوں کا پردہ چاک کیا اور جدید نبوتوں کی راہ ہموار کرنے والی الحادی تعبیرات کی خرمن پر بجلی بن کر گرے اور اس حقیقت کوروز روشن کی طرح واضح کیا کہ اب آفتاب رسالت کے بعد نوع انسانی کو کسی اور چراغ نبوت کی چنداں ضرورت نہیں‘ اس لئے کہ اب ہرایک اسی کے بحر شریعت سے سیراب ہوگا اور ہربھوکا اسی کے دسترخوان سے شکم سیر ہوگا اور ہرخائف اسی کے حریم امن میں پناہ پائے گا۔ کوئی نہیں جس کا نام اس کے نام سے اونچا ہوسکے اور کوئی نہیں جو اس کے بعد اپنی طرف دعوت دینے کا حق رکھتا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
لکھتاہوں خون دل سے یہ الفاظ احمریں
بعد از رسول ہاشمی کوئی نبی نہیں
 

بے باک

وفقہ اللہ
رکن
عبداللہ آتھم ایک عیسائی اور مرزا غلام احمد قادیانی کا مناظرہ اور اس کا حال
عبداللہ آتھم ایک مرتد عیسائی کے ساتھ مرزا قادیانی کا مناظرہ ہوا۔
مرزا کا دعویٰ تھا کہ میں مثیلِ مسیح ہوں۔ عیسائیوں نے میدانِ مناظرہ میں ایک مردہ لا کر رکھ دیا، ایک کوڑھی اور ایک اندھا لے آئے اور مرزا سے مطالبہ کیا کہ قرآن پاک میں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ وہ مردوں کو زندہ، اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے تھے۔ اگر تو سچا مسیح ہے تو اپنی مسیحائی دکھا کہ یہ مردہ زندہ ہو جائے، اندھا بینا ہو جائے اور کوڑھی تندرست ہو جائے۔

مرزا نے کہا کہ میں آج رات استخارہ کروں گا اگر اللہ کی طرف سے مجھے ایسا کرنے کی اجازت مل گئی تو میں ایسا کروں گا ورنہ نہیں۔ عیسائیوں نے کہا عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی ان کاموں کیلیے استخارہ نہیں کیا تھا تُو جھوٹا ہے حیلے بہانے کرتا ہے۔ بہرحال عیسائیوں نے ایک رات کی مہلت دے دی کہ آپ اللہ تعالیٰ سے صلاح مشورہ کر کے یہ کام کر دکھائیں۔

مرزا قادیانی اگلے دن آیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مناظرہ بند کرو کیونکہ یہ ماننے والے نہیں اور پیشن گوئی کی کہ آج کی تاریخ ( ۵ جون ۱۸۹۳) سے مخالف مناظر پندرہ ماہ کے اندر اندر بسزائے موت ہاویہ میں جا گرے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور مرزا نے لکھا میں اس وقت یہ اقرار کرتا ہوں اگر یہ پیشن گوئی جھوٹی نکلی یعنی جو فریق خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کو تیار ہوں، مجھ کو ذلیل کیا جائے، منہ سیاہ کیا جائے، میرے گلے میں رسہ ڈالا جائے، مجھ کو پھانسی دی جائے، ہر ایک بات کیلیے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا ضرور کرے گا ضرور کرے گا۔ زمین و آسمان ٹل جائیں مگر اس کی باتیں نہیں ٹلیں گی اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی سمجھو۔ (جنگ مقدس صفحہ ۱۸۹)

پیشن گوئی کی میعاد ۵ ستمبر ۱۸۹۴ تھی مگر آتھم نے اس تاریخ تک نہ تو عیسائیت سے توبہ کی، نہ اسلام کی طرف رجوع کیا اور نہ ہی بسزائے موت ہاویہ میں گرا۔ مرزا نے اس کو مارنے کیلیے ٹونے ٹوٹکے بھی کیے۔ آخری دن چنوں پر سورۃ الفیل کا وظیفہ بھی پڑھا اور ساری رات قادیان میں مرزا اور مرزائیوں نے بڑی آہ زاری کے ساتھ ’’یا اللہ آتھم مر جائے‘‘ کی دعائیں بھی کیں مگر سب بے سود ہوا۔ نہ آتھم پر ٹونے ٹوٹکوں کا اثر ہوا اور نہ خدا نے مرزا قادیانی کی آہ زاری اور بددعاؤں کو آتھم کے حق میں قبول فرمایا۔ آخرکار مرزا قادیانی اپنے قول کے مطابق جھوٹا، ذلیل، روسیاہ، سب سے بڑا شیطان، سب سے بڑا بدکار اور سب سے بڑا لعنتی ثابت ہوا۔

۵ستمبر کو عیسائی صلیب اور سیاہی لیکر مرزا کا منہ کالا کرنے پہنچ گئے لیکن پولیس نے ان کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ وہ بار بار للکارتے رہے کہ او کمینے انسان تو اپنے آپ کو ’’کاسر (توڑنے والا) صلیب‘‘ کہتا ہے لیکن آج صلیبی پولیس کی وجہ سے ہی تیرا سر گردن پر ٹکا ہوا ہے۔ آخر وہ مرزا کے دروازہ پر یہ شعر لکھ کر چلے گئے


ڈھیٹ اور بے شرم بھی ہوتے ہیں دنیا میں مگر
سب پر سبقت لے گئی ہے بے حیائی آپ کی
پنجہ آتھم سے ہے مشکل رہائی آپ کی
توڑ ڈالے گا آتھم نازک کلائی آپ کی

میں عیسائیوں نے اپنی فتح کے جلوس نکالے۔ وہ گلیوں میں ناچتے تھے اور اسلام اور پیغمبر اسلام کا مذاق اڑاتے تھے۔ (سراج منیر صفحہ ۱۸)

اس پیشن گوئی کے غلط ہونے کی وجہ سے مرزا کا سالا مرزا سعید احمد عیسائی ہو گیا اور کئی مرزائی بھی عیسائی ہو گئے۔ (کتاب البریہ صفحہ ۱۰۵)

اس پیشن گوئی اور اپنے جھوٹے ہونے کے باوجود مرزا لکھتا ہے میں بہت پریشان بیٹھا تھا کہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا جو سر سے پاؤں تک لہو لہان تھا۔ اس نے کہا کہ آج آسمان پر سارے فرشتے میری طرح ماتم کر رہے ہیں کہ آج اسلام کا بہت مذاق اڑایا گیا لیکن اس کے باوجود مرزا نے پوری ڈھٹائی سے لکھا جو ہماری فتح کا قائل نہیں اسے ولدالحرام بننے کا شوق ہے۔ (انوارالاسلام صفحہ۱۱)
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
لکھتاہوں خون دل سے یہ الفاظ احمریں
بعد از رسول ہاشمی کوئی نبی نہیں

جزاک اللہ خیراً
 
Top