RE: اولادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مختصر تعارف: 2 :
حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنھا
نام و نسب
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی بیٹی ہیں۔ بعثت نبوت سے دس سال پہلے پیدا مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمراس وقت تیس برس تھی ۔ ان کی ولدہ کا نام حضرت سیدہ خدیجتہ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا ہے۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی ہیں
ابتدائی حالات
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو جس طر ح سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے پہلے ہی اعلان پر اسلام قبول فرمالیا ۔ اسی طرح اپ کی اولاد بھی مشرف با اسلام ہوئی ۔ اس وقت سیدہ زینب کی عمر دس سال تھی :البدایہ وانھایہ ج ۳ ص۱۱۳
نکاح
حضرت زینب کا نکاح حضرت ابوالعاص بن ربیع بن عبد العزی بن عبد شمس بن عبد مناف سے ہوا ۔ حضرت ابوالعاص کا نسب چہارم پشت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مل جاتا ہے ۔ حضرت ابوالعاص مکہ کے صا حب ثروت شریف اور امانت دار انسان تھے۔ حضرت ابوالعاص حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے خواہرزادہ ہیں۔ ان کی والدہ کانام ہالہ بنت خویلد بن یاسد ہے جو حضرت خدیجہ کی حقیقی بہن ہیں اور حضرت خدیجہ حضرت ابوالعاص کی خالہ ہیں۔ ابوالعاص حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خا لہ زاد بھائی ہیں ۔ حضرت فاطمہ اور حضرت زینب حقیقی بہنیں ہیں اس بنا پر حضرت علی اور حضرت ابوالعاص آپس میں ہم زلف ٹھرے ۔
مشرکین مکہ کے نا پاک عزائم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین مکہ ہر طرح کی تکالیف پہنچائیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لا الٰہ الا اللہ کی صدا سے پورے مکہ میں انقلاب برپا کر دیا مشرکین مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید تکلیف پہنچانے کے لیے حضرت ابوالعاص کو اس بات اکسایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب کوطلاق دے دو اور قبیلہ قریش میں سے تم جس عورت سے نکاح کرنا چاہو ہم وہ عورت پیش کر سکتے ہیں۔ جواب میں حضرت ابوالعاص نے فرمایا قال لاوللہاذن لاافارق صا حبتی اللہ کی قسم میں اپنی بیوی سے ہر گز جدا نہیں ہوسکتا ؛ذخائرالعقبی ص۷۵۱۔ البدایہ لابن کثیر ج۳ ص۱۱۳
شعب ابی طالب میں محصوری کے ایام میں بھی ابوالعاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے محصورین کے لیے خوراک کی فراہمی کا بندوبست کرتے رہے ۔البدایہ ج۳ص۲۱۳ ۔
اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ابوالعاص نےہماری دامادی کی بہترین رعایت کی اور اس کا حق ادا کر دیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت ابوالعاص نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا
نبوت کے تیرھویں سال جب حضور صلی اللہ علیہوسلم نے مکہ سے ہجرت فرمائی۔ اس وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا مکہ میں اپنے سسرال کے ہاں تھیں۔ ہجرت کے بعد اسلام کا ایک دوسرا دور شروع ہوتا ہے مدنی زندگی میں اسلام اور کفر کے درمیان بڑی بڑی جنگیں لڑی گئی ان میں ایک مشہور جنگ غزوہ بدر کے نام سے معروف ہے اور اس جنگ بدر میں حضرت ابوالعاص رضی اللہ تعالی عنہ کفار کی طرف سے جنگ میں شریک ہو کر آئے ۔
جنگ بدر میں جب اہل اسلام کو فتح ھو گئی تو جنگی قاعدہ کے مطابق شکست خوردہ کفار کو اہل اسلام نے قید کر لیا اور ان قیدیوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے داماد حضرت ابوالعاص بھی شامل تھے ۔مسلمانوں کی طرف سے یہ فیصلہ ہوا ۔جو قیدی لائے گئے ہیں ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جاے ۔اہل مکہ نے اپنے اپنے قیدیوں کو چھوڈانے کے لیے فدیے اور معاوضے بھیجنے شروع کیے ۔ اس ضمن میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند حضرت ابوالعاص کی رہای کے لیے اپنا وہ ہار جو ان کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا بھیجا مدینہ شریف میں یہ فدیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیے گے ۔ اور حضت ابوالعاص کا فدیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی طرف سے ہار کی شکل میں پیش ہوا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نظر فرمائی تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بلا اختیار رقت کی کیفیت طاری ہو گئی ۔اوراس کو دیکھ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یاد تازہ ہو گئی ۔نبی کریم صلی اللہ ؑ علیہ وسلم کی اس کیفیت کے اثر میں تمام صحابہ متاثر ہوے۔
اس وقت اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا اگر تم ابوالعاص کو رہا کر دو اور زینب کا ہارواہس کر دو تو تم ایسا کر سکتے ہو ۔اس وقت صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپ کا ارشاد درست ہے ہم ابوالعاص کو بلا فدیہ رہا کرتے ہیں ۔اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا ہار واپس کرتے ہیں ۔
اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت ابوالعاص سے وعدہ لیا ۔کہ جب مکہ واپس پہنچیں تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ہمارے ہاں مدینہ بھیج دینا ۔چناچہ حضرت ابوالعاص نے وعدہ کر لیا ۔تو انہیں بلا معاو ضہ رہا کر دیا گیا :دلائلانبوہ للبیہقی ص۳۲۴ ج۲ :مسنداحمدبن حنبل ص۳۲۴ ؛
ابوداودشریف ج۲ ص۳۶۷ مشکوہ شریف ص۶۴۳ ؛البدایہ وانھایہص۲۱۳ج۳
حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ رہا ہو کر مکہ اے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہاکوتمام احوال ذکر کیے اور مدینہ جانے کی اجازت دے دی ۔اور جو وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تھا وہ ایام بھی اگے تو حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کے ساتھ روانہ کیا ۔کنانہ نے اپنی قوس اورترکش کو بھی ساتھ لیا ۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہاسواری کے اوپر کجاوہ میں تشریف فرما تھی ۔اورکنانہ اگے اگے ساتھ چل رہا تھا ۔ اس دوران اہل مکہ کواطلاع ہو گئی جب وادی ذطوی کے پاس پہنچے تو مکہ والے پیچھے سے پہنچ گے ہبار بن اسود نے ظلم کرتے ہوے نیزہ مار کر سیدہ کو اونٹ سے گرا دیا جس سے اپ زخمی ہوگئی اور حمل ساقطہو گیا ۔کنانہ نے اپنا ترکش کھول دیا اور اندازی شروع کر دی اور کہا جو بھی قریب اے گا اس کو تیروں سے پرو دیا جائے گا ۔کفار نے کہا کہ اپنے دشمن کی بیٹی کوعلانیہ جانے تو لوگ ہمیں کزور سمجھیں گے ۔اس لیے انہیں چند یوم بود رات کی تاریکی میں لے جانا ۔کنانہ نے راے تسلیم کر لی اور چند دنوں کے بعد رات کے وقت مکہ سے باہر مدینہ سے اے ہوے صحابہ حضرت زید بن حارثہ اور ان کے پاس پہنچایا پس وہ دونوں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو لیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گے؛البدایہ وانھایہ ص۳۳۰ ج۳۔زرقانی ج۳ص۲۲۳
ابوالعاص رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام
مکہ مکرمہ سے قریش کا ایک قافلہ جمادی الاول ۶ ہجری میں شام کے لیے عازم سفر ہوا اور ابوالعاص بھی اس قافلہ میں شریک تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مے حضرت زید بن حارثہ کو ۰۷۱سواروں کے ہمراہقافلہ کے تعاقب کے لیے روانہ کیا ۔ اور مقام عیص میں قافلہ ملا کچھ لوگ گرفتار ہوے اور باقی بھاگنے میں کامیاب ہوگے ۔حضرت ابوالعاص حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لاے تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ان کو پناہ دے دی ۔اس کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی سفارش پر تمام مال و اسباب ان کے حوالے کر دیا ۔حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے مکہ جاکر جس جس کا مال تھا اس کے حوالہ کیا اور پوچھا کسی کا مال تو میرے ذمہ باقی نہیں ۔تو تمام لوگوں نے کہا ۔فجزاک اللہ خیرا فقدوجدناک وقیاکریما ۔ اللہ تمہیں جزائے خیر دیہم نے تمہیں بڑا شریف اور وفادار پایا ہے صاس کے بعد قریش مکہ کے سامنے اسلام کا اعلان کیا اور مکہ سے مدینہ منورہ تشریف لے اے ۔ تو حضورنے حضرت زینب کو ان کے حوالے کدیا
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی فضیلت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس لخت جگر نے اسلام کے لیے پجرت کی اور تمام مصائب والام دین کے لیے برداشت کئے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر جب دربار رسالت میں ائیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہوسلم فرماتے ہیں ۔ھی خیربناتی ا صیبت فی ھی افضل بناتی اصیبت فی ۔ میری بیٹیوں میں زینب بہترین بیٹی ہے جس کو میری وجہ سے ستایا گیا ۔یہ افضل بیٹی ہے جس کو میری وجہ سے روکا گیا ۔ :مجمع الزوائدللہیثمی ج۹ ص۲۱۳:دلائل النبوہ للبیہقی ج۲ ص۴۲۶:
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی اولا
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی تمام اولاد حضرت ابوالعاص بن الربیع سے ہوئی ۔ان میں ایک صاحبزادہ جس کا نام علی تھا۔اور ایک صاحبزادی جس کا نام امامہ بنت ابوالعاص تھا اور ایک صاحبزادہ صغر سنی میں ہی فوت ہو گیا ،
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بیٹے حضرت علی رضی اللہ عنہ بن حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں پرورش پاتے رہے ۔ اور جب مکہ فتح ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی سواری کے پیچھے بٹھایا تھا ۔اور یرموک کے معرکہ میں شہید ہوے ۔اور بعض کے نزدیک یہ قریب البلوغ ہو کر فوت ہوے۔ :اسدالغابہ لابن کثیر ج۴ ص۴۱۔الاصابہ لابن حجر عسقلانی ج۲ ص۵۰۳ :
حضرت علی رضی اللہ عنہ بن حضرت ا بوالعاص رضی اللہ عنہ اور حضرت امامہ رضی اللہ عنہا بنت حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی محبت فرمایا کرتے ۔ ایک دفعہ نبی کریم نماز کے لیے تشریف لائے کہ حضرت امامہ رضی اللہ عنہا حضور کے دوش پر سوار ہیں ۔اپ نے ایسی حالت میں نماز ادا فرمائی ۔جب رکوع جاتے تو اتار دیتے جب کھڑے ہوتے تو اٹھا لیتے :بخاری شریف ج ۱ ص۷۴ ۔مسلم شریف ج ۱ ص۲۰۵ ۔ مسند ابو داود ظیالسی ص۸۵ ۔ابو داود شریف ج۱ ص ۱۳۲۔ صحیح ابن حبان ج۲ ص۳۱۳ :
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم کی خدمت میں بیش قیمت ہار بطور ہدیہ ایا ۔اس وقت اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن تشریف فرما تھیں اور یہی حضرت امامہ صحن میں کھیل رہی تھیں ۔اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات سے پوچھا یہ ہار کیسا ہے ۔سب نے کہا کہ ایسا خوبصوت ہار تو ہم نے کبھی دیکھا ہی نہیں ۔تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔لادفعتھا الی احب اھلی الی۔ یہ ہار میں اس کو دوں گا جو میرے اہل بیت میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے
۔پھر اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ قیمتی ہار خود اپنے دست مبارک سے حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کے گلے میں پہنادیا اسدالغابہ ج۵ ص۴۰۰۔مجمع الزوائد للھیثمی ج۹ ص۲۵۴ ۔الفتح ربانی ج۲۲ ص۴۲۰ الاصابہ ج ۴ ص۲۳۰ :
امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہما سے حضرت علی بن ابی طالب ر ضی اللہ عنہ کانکاح
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے انتقال سے قبل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی تھی کہ اگر میرے بعد شادی کریں تو میری بڑی بہن کی بیٹی امامہ کے ساتھ کرنا ۔ وہ میری اولاد کے حق میں میری قائمقام ہو گی
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس وصیت کے مطابق ۱۲ ھ میں حضرت امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا اور حضرت زبیر بن عوامؓ نے اپنی نگرانی میں ان کی شادی حضرت علی سے کر دی ۔ یہ نکاح مسلّم بین الفریقین ہے ۔ اہلسنت اور شیعہ حضرات اپنے اپنے مقام میں اس کو ذکر کیا کرتے ہیں
مزید تفصیل کے لئے رجوع فرمائیں : الاصابۃ ج ۳ ص ۴۳۳
انواالنعمانیہ ج ۱ ص ۳۶۷
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال پرملال
حضرت زینب رضی اللہ عنہا مکہ سے مدینہ تشریف لاتے ہوئیں تو دوران حجرت ہبار بن اسود کے نیزہ سے زخمی ہوئی تھیں ۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہاکا وہی زخم دوبارہ تازہ ہو گیا جو ان کی وفات کا سبب بنا ۔اسی وجہ سے بڑے بڑے اکابرین ، صاحب قلم حضرات نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ فکانوا یرونھا ماتت شھیدہ ‘‘
حافظ ابن کثیر نے لکھا کہ ان کو شہیدہ کے نام سے تعبیر کیا جانا چاہیئے ۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غمزدہ ہوئے اور تمام بہنیں اس حادثہ فاجعہ سے اور تمام عورتیں شدت جذبات سے رو دیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سیدہ کی وفات کا سن کر حاضر ہوئے عورتوں کو روتا دیکھ کر آپ نے منع فرمایا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اے عمر سختی سے ٹھر جائیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : شیطانی آ وازیں نکالنے سے پرہیز کریں ۔ پھر فرمایا : جو آنسو آ نکھوں سے بہتے ہیں اور دل غمگین ہوتا ہے تو یہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کی رحمت سے ہے
( مشکوٰۃ شریف ص ۱۵۲ )
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا اعزاز
سیدہ کے غسل کا اہتمام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں ہوا ۔ حضرت ام ایمن، حضرت سودہ ، حضرت ام سلمہ ، حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنھن نے غسل دیا
حضرت ام عطیہ فرماتیں ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد تشریف لائے اور فرمایا کہ زینب کے نہلانے کا انتظام کرو پانی میں بیری کے پتے ڈال کر ابالا جائے اور اس پانی کے ساتھ غسل دیاجائے ۔ اور غسل کے بعد کافور کی خوشبو لگائی جائے جب فارغ ہو جائیں تو مجھے اطلاع کرنا پس ہم نے اطلاع کر دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند اتارکر جسم اطہر سے عنایت فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میرے اس تہبند کو کفن کے ساتھ رکھ دو ( بخاری ج ۱ ص ۱۸۷ ۔ مسلم ج ۱ ص ۳۰۴)
سیدہ کا جنازہ
جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا جنازہ تیار ہو گیا تو بڑے اعزا ز و اکرام کے ساتھ پردہ داری سے میت کو تدفین کے لئیے لے جایا گیا
سیدہ کا ایک اور اعزاز
خالق ار ض و سمٰوات نے حضرت زینب کو یہ اعزاز بھی دیا کہ ان کا جنازہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا اور روایات میں آتا ہے ’’ وصلی علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ حوالہ انساب الاشراف ج ۱ ص ۴۰۰
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی قبر میں خود اترے
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کا انتقال ہوا تو صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں سیدہ کو دفنانے کے لئے حاضر ہوئے ۔ ہم قبر پر پنہچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت مغموم تھے ۔ ہم میں سے کسی کو بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ قبر کی لحد بنانے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس تشریف فرما ہوئے اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس بیٹھ گئے ۔ اسی اثناء میں آپ کو اطلاع کی گئی کہ قبر تیار ہو گئی ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود قبر کے اندر تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد باہر تشریف لائے تو آپ کا چہرہ انور کھلا ہوا تھا اور غم کے آثار کچھ کم تھے ۔ اب عشاق عرض کرتے ہیں : یا رسول اللہ اس سے پہلے آپ کی طبیعت بہت مغموم نظر آرہی تھی اب آپ کی طبیعت میں بشاشت ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔ قبر کی تنگی اور خوف ناکی میرے سامنے تھی اور سیدہ زینب کی کمزوری اور ضعف بھی میرے سامنے تھا اس بات نے مجھے رنجیدہ خاطر کیا پس میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ زینب کے لئے اس حالت کو آسان فرما دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے منظور فرما لیا اور زینب کے لئے آسانی فرما دی
( مجمع الزوائد للہیثمی ج ۳ ص ۴۷ ۔ کنزالعمال ج ۸ ص ۱۲۰)
میں نے بڑے اختصار کے ساتھ سیدہ زینب بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پیدائش تا وفات لھ دیئے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بڑی لخت جگر کے ساتھ کیسا مشفقانہ معاملہ تھا کہ زندگی میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل رہی اور وفات کے بعد تمام معاملات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں ہوئے ۔ ۔ ۔
رضی اللہ تعالٰی عنہا