مولانا محمدابراہیم سیالکوٹی، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری کے بہت قریبی دوست ہونے کے باعث علماء دیوبند سے بھی اتنے ہی قریب تھے، اکثر فرماتے:
“امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا احترام مجھے رُوحانی طور پر بتلایا گیا ہے، میں اُن شخصوں کو جن کوحضرت امام سے حسنِ عقیدت نہیں ہے کہا کرتا ہوں "أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَايَرَى"(ترجمہ:-اب کیا تم اُس سے جھگڑتے ہو اُس پر جو اُس نے دیکھا )۔ (النجم:12) میں نے جوکچھ عالم بیداری اور ہوشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے ۔
(تاریخ اہلِ حدیث:79)
جوشخص ائمہ دین اور خصوصاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بے ادبی کرتا ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا۔
(تاریخ اہلِ حدیث:428، نقلا عن الحافظ عبدالمنان)
آپ نے تاریخ اہلِ حدیث کے نام سے محدثین اور اپنے اکابر جماعت کی ایک تاریخ لکھی، اس میں آپ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی ذکر کیا، آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس دہلی اس کوشائع کرنا چاہتی تھی؛ لیکن وہ لوگ اس پررضامند نہ تھے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کومحدثین میں ذکر کیا جائے انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ حضرت امام صاحب کا ذکر اس کتاب سے نکال دیں مولانا ابراہیم صاحب نے کتاب ان سے واپس لے لی؛ مگرامام صاحب کا نام اس کتاب سے نہ نکالا اور فرمایا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا نام محدثین سے کبھی الگ نہیں ہوسکتا۔
سیدابوبکر غزنوی نے اپنے والد مولانا محمدداؤد غزنوی کے سوانح حیات میں مولانا محمداسحاق بھٹی کا ایک مقالہ بھی درج کیا ہے، اس میں آپ سیدمحمدداوؤد غزنوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ائمہ کرام کا اُن کے دل میں انتہائی احترام تھا، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اسمِ گرامی بے حد عزت سے لیتے، ایک دن میں اُن کی خدمت میں حاضر تھا کہ جماعت اہلِ حدیث کی تنظیم سے متعلق گفتگو شروع ہوئی، بڑے دردناک لہجہ میں فرمایا:
مولوی اسحاق! جماعت اہلِ حدیث کوحضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے ہرشخص ابوحنیفہ ابوحنیفہ کررہا ہے، کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے توامام ابوحنیفہ کہہ دیتا ہے؛ پھراُن کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ وہ تین حدیثیں جانتے تھے یازیادہ سے زیادہ گیارہ؛ اگرکوئی بڑا احسان کرے تووہ اُنہیں سترہ حدیثوں کا عالم گردانتا ہے، جولوگ اتنےجلیل القدر امام کے بارے میں یہ نقطہ نظر رکھتے ہوں ان میں اتحاد اور یک جہتی کیوں کرپیدا ہوسکتی ہے"۔
(مولانا داؤد غزنوی:136)
ان دنوں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت جوآپ نے اپنے بیٹے حماد کے نام لکھی، نئی نئی طبع ہوکر آئی تھی، آپ اسے آنے جانے والوں کودکھاتے اور فرماتے، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی نظر کم از کم پانچ لاکھ احادیث پر تھی، اب بھی جماعت اہلِ حدیث میں اچھے خاصے لوگ ملیں گے جوائمہ کرام اور فقہاء اسلام کا خاصا احترام کرتے ہیں؛ لیکن افسوس کہ چند ناعاقبت اندیش متعصب افراد کی جسارت اور دوسروں کی اس پر مصلحت کیش خاموشی پوری جماعت کواہل السنت والجماعت سے باہر کھڑا کرتی ہے، اناللہ وانا الیہ راجعون؛ لیکن افسو س کہ ان کے خطیب قسم کے علماء اور جماعت میں اپنی جھوٹی شخصیت اُبھارنے والے فقہ حنفی سے برسرِعام کھیلتے ہیں، حضرت امام کے علم حدیث کاتمسخراڑاتے ہیں اور یہ مسخرے نہیں جانتے کہ حضرت امام کی روحانی بددعا جس کے بھی شاملِ حال ہوئی وہ قادیانی ہوکرمرا یارفض کی گود میں گیا یااسے منکرینِ حدیث میں جگہ ملی اور یاوہ پاگل ہوگیا، سلامتی سے اُسے یہاں سے رخصتی نہیں ہوی، "اعاذنا اللہ من سوء الادب فی الائمۃ المجتھدین"۔
یہ درست ہے کہ اس حلقے میں بعض حضرات معتدل مزاج بھی تھے؛ انہوں نے کوشش کی کہ جماعت کومطلق العنان ہونے سے بچایا جائے اور انہیں پابند کیا جائے کہ کسی مسئلہ میں سلف کی حدود سے نہ نکلیں، اس جذبہ سے بہت سے لوگ سلفی کہلائےپہلے جولوگ قال اللہ اور قال الرسول کے سوا کچھ نہ سنتے تھے، اب سلف کی پیروی میں فخر محسوس کرنے لگے، یہ اِن لوگوں میں پہلی نظریاتی تبدیلی ہے جوعمل میں آئی ہے
ہمیں پورا احساس ہے کہ موضوعِ زیربحث اہلِ حدیث (باصطلاحِ جدید “فرقہ اہلحدیث“) کا تعارف ہے، یہ چند باتیں ہم نے صرف تاریخی پہلو سے کہی ہیں، کسی فریق کے کسی موقف کا اثبات یاابطال ہرگز پیشِ نظر نہیں، حدیث کے طلبہ کے لیئے حدیث سے متعلق جملہ مباحث لائقِ مطالعہ ہوتے ہیں، ہم نے ضرورت کے مطابق یہ تاریخی نقشہ آپ کے سامنے پیش کردیا ہے، کسی عزیز نے کسی بات پرکوئی گرانی محسوس کی ہوتو ہم اس سے معذرت خواہ ہیں، تاریخی حقائق سے صرفِ نظر توکی جاسکتی ہے؛ لیکن انہیں مٹایا نہیں جاسکتا، یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ جودرخت تقریباً ایک صدی پہلے ترکِ تقلید کے نام سے بویا گیا تھا اس کے نکیلے کانٹوں سے خود اس کے داعی بھی خون آلودہ ہوئے بغیر نہ رہے سکے، غزنوی حضرات اس لیے ان مفاسد سے بچےرہے کہ وہ سلوک واحسان کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی کی کتاب "اثبات الالہام والبیعۃ"، یہ کتاب مولوی غلام علی قصوری کی ایک کتاب کے جواب میں لکھی گئی تھی، مقلدین کے بارے میں آپ کا نظریہ تھا:
"مذاہب اربعہ حق ہیں اور ان کا آپس کا اختلاف ایسا ہے جیسا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بعض مسائل کا اختلاف ہوا کرتا تھا، باوجود اختلاف کے ایک دوسرے بغض وعداوت نہیں رکھتے اور باہم سب وشتم نہیں کرتے مثل خوارج وروافض کے، صلحاء اور ائمہ دین کی محبت جزوِ ایمان ہے"۔
(اثبات الالہام والبیعۃ:6،طبع دوم)
مولانا محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:
“مولوی رشید احمد صاحب کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ خاکسار (مولانا محمد حسین بٹالوی صاحب) کو جو سبیل الارشاد میں کئی جگہ “فرقہ غیر مقلدین“ کہا گیا ہے یہ مجھے ناگوار گزرا ہے ہم لوگ جو اس گروہ سے علم کی طرف منسوب ہیں۔ منصوصات میں قرآن و حدیث کے پیرو ہیں اور جہاں نص نہ ملے وہاں صحابہ تابعین و ائمہ مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں خصوصاً آئمہ مزھب حنفی کی جن کے اصول و فروغ کی کتب ہم لوگوں کے مطالعہ میں رہتی ہیں“۔
(اشاعۃ السنہ۔ج23،ص290)
“خاکسار نے رسالہ نمبر6 جلدنمبر 20 کے صفحہ 201 اپنے بعض اخوان اور احباب اہلحدیث کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر ان کو اجتہاد مطلق کا دعوٰی نہیں اور جہاں نص قرآنی اور حدیث نہ ملے وہاں تقلید مجتہدین سے انکار نہیں تو وہ مزہب حنفی یا شافعی(جس مزہب کے فقہ و اصول پر بوقت نص نہ ملنے کے وہ چلتے ہوں) کی طرف اپنے آپ کو منسوب کریں“۔
(اشاعۃ السنہ،ج23،ص291)
“جس مسئلہ میں مجھے صحیح حدیث نہیں ملتی اس مسئلہ میں میں اقوال مزہب امام سے کسی قول پر صرف اس حسن ظنی سے کہ اس مسئلہ کی دلیل ان کو پہنچی ہوگی تقلید کرلیتا ہوں ۔ ایسا ہی ہمارے شیخ و شیخ الکل (میاں صاحب) کا مدت العمری عمل رہا“۔
(اشاعۃ السنہ،ج22،ص310)
محمد حسین بٹالوی مزید فرماتے ہیں۔
“اگر آپ کو اجتہاد مطلق کا دعوٰی نہیں ہے اور جہاں نص نہ ملے وہاں تقلید مجتہدین سے انکار نہیں ۔۔۔حضرت شیخنا و شیخ الکل سید محمد نزیر حسین دھلوی صاحب شمد العلماء بھی ایسے ہی تھے وہ اہلحدیث کے سردار بھی تھے اور حنفی بھی کہلاتے تھے اور حنفی مزہب کی کتب متون و شرح اور فتاوٰی پر فتوٰی دیتے تھے“۔
(اشاعۃالسنۃ،ج23،ص290)
مزید یہ کہ سیرت ثنائی کے محشی “میاں صاحب“ کے متعلق لکھتے ہیں۔
“فقہ حنفیہ پر حدیث سے زیادہ عبور تھا“۔
(حاشیہ سیرت ثنائی ،ص120)
مولانا بٹالوی صاحب کی مزید بات پڑہیں ۔
“یہ بلا قادیانی کے اتباع کی اکثر اسی فرقہ میں پھیلی ہے جو عامی و جاہل ہوکر مطلق تقلید کے تارک و غیر مقلد بن گئے ہیں یا ان لوگوں میں جو نیچری کہلاتے ہیں ۔ جو درحقیقت اس قسم کے غیر مقلدوں کی برانچ (شاخ) ہیں۔“
(اشاعۃ السنۃ،ص271،ج15)
جب نام نہاد اہلحدیث دھڑا دھڑ مرزائ عیسائی اور مرتد ہوتے دیکھے تو پھر اپنا پچیس سالہ تجربہ بیان کیا ان الفاظ میں ۔
“پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق (ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں) اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کو سلام کربیٹھتے ہیں۔ کفر و ارتداد و فسوق کے اسباب دنیا میں اور بھی بکثرت موجود ہیں ۔ مگر دینداروں کے بے دین ہوجانے کے لئے بے علمی کے ساتھ ترک تقلید بڑا بھاری سبب ہے گروہ اہل حدیث میں جو بے علم یا کم از کم ترک مطلق تقلید کے مدعی ہیں وہ ان نتائج سے ڈریں۔ اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوتے جاتے ہیں“۔
(اشاعۃ السنۃ نمبر2،جلد11،مطبوعہ 1888ء)
“امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا احترام مجھے رُوحانی طور پر بتلایا گیا ہے، میں اُن شخصوں کو جن کوحضرت امام سے حسنِ عقیدت نہیں ہے کہا کرتا ہوں "أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَايَرَى"(ترجمہ:-اب کیا تم اُس سے جھگڑتے ہو اُس پر جو اُس نے دیکھا )۔ (النجم:12) میں نے جوکچھ عالم بیداری اور ہوشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے ۔
(تاریخ اہلِ حدیث:79)
جوشخص ائمہ دین اور خصوصاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بے ادبی کرتا ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا۔
(تاریخ اہلِ حدیث:428، نقلا عن الحافظ عبدالمنان)
آپ نے تاریخ اہلِ حدیث کے نام سے محدثین اور اپنے اکابر جماعت کی ایک تاریخ لکھی، اس میں آپ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی ذکر کیا، آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس دہلی اس کوشائع کرنا چاہتی تھی؛ لیکن وہ لوگ اس پررضامند نہ تھے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کومحدثین میں ذکر کیا جائے انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ حضرت امام صاحب کا ذکر اس کتاب سے نکال دیں مولانا ابراہیم صاحب نے کتاب ان سے واپس لے لی؛ مگرامام صاحب کا نام اس کتاب سے نہ نکالا اور فرمایا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا نام محدثین سے کبھی الگ نہیں ہوسکتا۔
سیدابوبکر غزنوی نے اپنے والد مولانا محمدداؤد غزنوی کے سوانح حیات میں مولانا محمداسحاق بھٹی کا ایک مقالہ بھی درج کیا ہے، اس میں آپ سیدمحمدداوؤد غزنوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ائمہ کرام کا اُن کے دل میں انتہائی احترام تھا، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اسمِ گرامی بے حد عزت سے لیتے، ایک دن میں اُن کی خدمت میں حاضر تھا کہ جماعت اہلِ حدیث کی تنظیم سے متعلق گفتگو شروع ہوئی، بڑے دردناک لہجہ میں فرمایا:
مولوی اسحاق! جماعت اہلِ حدیث کوحضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے ہرشخص ابوحنیفہ ابوحنیفہ کررہا ہے، کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے توامام ابوحنیفہ کہہ دیتا ہے؛ پھراُن کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ وہ تین حدیثیں جانتے تھے یازیادہ سے زیادہ گیارہ؛ اگرکوئی بڑا احسان کرے تووہ اُنہیں سترہ حدیثوں کا عالم گردانتا ہے، جولوگ اتنےجلیل القدر امام کے بارے میں یہ نقطہ نظر رکھتے ہوں ان میں اتحاد اور یک جہتی کیوں کرپیدا ہوسکتی ہے"۔
(مولانا داؤد غزنوی:136)
ان دنوں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت جوآپ نے اپنے بیٹے حماد کے نام لکھی، نئی نئی طبع ہوکر آئی تھی، آپ اسے آنے جانے والوں کودکھاتے اور فرماتے، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی نظر کم از کم پانچ لاکھ احادیث پر تھی، اب بھی جماعت اہلِ حدیث میں اچھے خاصے لوگ ملیں گے جوائمہ کرام اور فقہاء اسلام کا خاصا احترام کرتے ہیں؛ لیکن افسوس کہ چند ناعاقبت اندیش متعصب افراد کی جسارت اور دوسروں کی اس پر مصلحت کیش خاموشی پوری جماعت کواہل السنت والجماعت سے باہر کھڑا کرتی ہے، اناللہ وانا الیہ راجعون؛ لیکن افسو س کہ ان کے خطیب قسم کے علماء اور جماعت میں اپنی جھوٹی شخصیت اُبھارنے والے فقہ حنفی سے برسرِعام کھیلتے ہیں، حضرت امام کے علم حدیث کاتمسخراڑاتے ہیں اور یہ مسخرے نہیں جانتے کہ حضرت امام کی روحانی بددعا جس کے بھی شاملِ حال ہوئی وہ قادیانی ہوکرمرا یارفض کی گود میں گیا یااسے منکرینِ حدیث میں جگہ ملی اور یاوہ پاگل ہوگیا، سلامتی سے اُسے یہاں سے رخصتی نہیں ہوی، "اعاذنا اللہ من سوء الادب فی الائمۃ المجتھدین"۔
یہ درست ہے کہ اس حلقے میں بعض حضرات معتدل مزاج بھی تھے؛ انہوں نے کوشش کی کہ جماعت کومطلق العنان ہونے سے بچایا جائے اور انہیں پابند کیا جائے کہ کسی مسئلہ میں سلف کی حدود سے نہ نکلیں، اس جذبہ سے بہت سے لوگ سلفی کہلائےپہلے جولوگ قال اللہ اور قال الرسول کے سوا کچھ نہ سنتے تھے، اب سلف کی پیروی میں فخر محسوس کرنے لگے، یہ اِن لوگوں میں پہلی نظریاتی تبدیلی ہے جوعمل میں آئی ہے
ہمیں پورا احساس ہے کہ موضوعِ زیربحث اہلِ حدیث (باصطلاحِ جدید “فرقہ اہلحدیث“) کا تعارف ہے، یہ چند باتیں ہم نے صرف تاریخی پہلو سے کہی ہیں، کسی فریق کے کسی موقف کا اثبات یاابطال ہرگز پیشِ نظر نہیں، حدیث کے طلبہ کے لیئے حدیث سے متعلق جملہ مباحث لائقِ مطالعہ ہوتے ہیں، ہم نے ضرورت کے مطابق یہ تاریخی نقشہ آپ کے سامنے پیش کردیا ہے، کسی عزیز نے کسی بات پرکوئی گرانی محسوس کی ہوتو ہم اس سے معذرت خواہ ہیں، تاریخی حقائق سے صرفِ نظر توکی جاسکتی ہے؛ لیکن انہیں مٹایا نہیں جاسکتا، یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ جودرخت تقریباً ایک صدی پہلے ترکِ تقلید کے نام سے بویا گیا تھا اس کے نکیلے کانٹوں سے خود اس کے داعی بھی خون آلودہ ہوئے بغیر نہ رہے سکے، غزنوی حضرات اس لیے ان مفاسد سے بچےرہے کہ وہ سلوک واحسان کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی کی کتاب "اثبات الالہام والبیعۃ"، یہ کتاب مولوی غلام علی قصوری کی ایک کتاب کے جواب میں لکھی گئی تھی، مقلدین کے بارے میں آپ کا نظریہ تھا:
"مذاہب اربعہ حق ہیں اور ان کا آپس کا اختلاف ایسا ہے جیسا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بعض مسائل کا اختلاف ہوا کرتا تھا، باوجود اختلاف کے ایک دوسرے بغض وعداوت نہیں رکھتے اور باہم سب وشتم نہیں کرتے مثل خوارج وروافض کے، صلحاء اور ائمہ دین کی محبت جزوِ ایمان ہے"۔
(اثبات الالہام والبیعۃ:6،طبع دوم)
مولانا محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:
“مولوی رشید احمد صاحب کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ خاکسار (مولانا محمد حسین بٹالوی صاحب) کو جو سبیل الارشاد میں کئی جگہ “فرقہ غیر مقلدین“ کہا گیا ہے یہ مجھے ناگوار گزرا ہے ہم لوگ جو اس گروہ سے علم کی طرف منسوب ہیں۔ منصوصات میں قرآن و حدیث کے پیرو ہیں اور جہاں نص نہ ملے وہاں صحابہ تابعین و ائمہ مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں خصوصاً آئمہ مزھب حنفی کی جن کے اصول و فروغ کی کتب ہم لوگوں کے مطالعہ میں رہتی ہیں“۔
(اشاعۃ السنہ۔ج23،ص290)
“خاکسار نے رسالہ نمبر6 جلدنمبر 20 کے صفحہ 201 اپنے بعض اخوان اور احباب اہلحدیث کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر ان کو اجتہاد مطلق کا دعوٰی نہیں اور جہاں نص قرآنی اور حدیث نہ ملے وہاں تقلید مجتہدین سے انکار نہیں تو وہ مزہب حنفی یا شافعی(جس مزہب کے فقہ و اصول پر بوقت نص نہ ملنے کے وہ چلتے ہوں) کی طرف اپنے آپ کو منسوب کریں“۔
(اشاعۃ السنہ،ج23،ص291)
“جس مسئلہ میں مجھے صحیح حدیث نہیں ملتی اس مسئلہ میں میں اقوال مزہب امام سے کسی قول پر صرف اس حسن ظنی سے کہ اس مسئلہ کی دلیل ان کو پہنچی ہوگی تقلید کرلیتا ہوں ۔ ایسا ہی ہمارے شیخ و شیخ الکل (میاں صاحب) کا مدت العمری عمل رہا“۔
(اشاعۃ السنہ،ج22،ص310)
محمد حسین بٹالوی مزید فرماتے ہیں۔
“اگر آپ کو اجتہاد مطلق کا دعوٰی نہیں ہے اور جہاں نص نہ ملے وہاں تقلید مجتہدین سے انکار نہیں ۔۔۔حضرت شیخنا و شیخ الکل سید محمد نزیر حسین دھلوی صاحب شمد العلماء بھی ایسے ہی تھے وہ اہلحدیث کے سردار بھی تھے اور حنفی بھی کہلاتے تھے اور حنفی مزہب کی کتب متون و شرح اور فتاوٰی پر فتوٰی دیتے تھے“۔
(اشاعۃالسنۃ،ج23،ص290)
مزید یہ کہ سیرت ثنائی کے محشی “میاں صاحب“ کے متعلق لکھتے ہیں۔
“فقہ حنفیہ پر حدیث سے زیادہ عبور تھا“۔
(حاشیہ سیرت ثنائی ،ص120)
مولانا بٹالوی صاحب کی مزید بات پڑہیں ۔
“یہ بلا قادیانی کے اتباع کی اکثر اسی فرقہ میں پھیلی ہے جو عامی و جاہل ہوکر مطلق تقلید کے تارک و غیر مقلد بن گئے ہیں یا ان لوگوں میں جو نیچری کہلاتے ہیں ۔ جو درحقیقت اس قسم کے غیر مقلدوں کی برانچ (شاخ) ہیں۔“
(اشاعۃ السنۃ،ص271،ج15)
جب نام نہاد اہلحدیث دھڑا دھڑ مرزائ عیسائی اور مرتد ہوتے دیکھے تو پھر اپنا پچیس سالہ تجربہ بیان کیا ان الفاظ میں ۔
“پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق (ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں) اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کو سلام کربیٹھتے ہیں۔ کفر و ارتداد و فسوق کے اسباب دنیا میں اور بھی بکثرت موجود ہیں ۔ مگر دینداروں کے بے دین ہوجانے کے لئے بے علمی کے ساتھ ترک تقلید بڑا بھاری سبب ہے گروہ اہل حدیث میں جو بے علم یا کم از کم ترک مطلق تقلید کے مدعی ہیں وہ ان نتائج سے ڈریں۔ اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوتے جاتے ہیں“۔
(اشاعۃ السنۃ نمبر2،جلد11،مطبوعہ 1888ء)