شاگردان بانی درس نطامی ( ملا نظام الدین سہالوی) تیسرا دور قسط 3
تیسرے دور کے علماء میں مفتی ظہور اللہ ابن ملا ولی ( پیدائش 1174،مطابق 1760ء۔ وفات 17ربیع الاول 1254،مطابق 19مئی 1840) ملک العلماء ملا حیدر ابن ملا مبین (وفات 12 محرم 1254 مطابق 28مارچ 1840 ) مولانا ولی اللہ ( پیدائش 1182ھ مطابق 1760 ۔وفات 1270ھ ،مطابق 1853ء )مولانا ظہور علی (وفات 30 رمضان 1275 ، مطابق 1858 ) مولانا عبد الولی ( پیدائش 1189 مطابق 1775ء۔وفات 22شعبان 1279 ،مطابق 12 فر وی 1883) اور ان کے کم عمر معاصرین
ملا بر ہان الحق ( پیدائش محرم 1214 ھ ،مطابق جون 1799 ء ۔وفات 12محرم 1295 ،مطابق 1878ء ) مفتی محمد یوسف ( پیدائش 1233ح ، مطابق 1808 ۔وفات 1286 ھ،مطابق 1870ء) مولانا عبد الرزاق ( پیدائش 23ذی الحجہ 1236ح ، مطابق 29 ستمبر ۔وفات 5 صفر 1307 ھ،مطابق 21 اکتوبر 1889) ،مو لانا نعمت اللہ ( متوفی محرم 1290ھ ، مطابق 3 مارچ 1883ء ) مولانا رحمت اللہ ( متوفی 17 جمادی الاولیٰ 1305ھ ،مطابق یکم فر وری 1888) مولا عبد الحلیم ابن مولانا امین اللہ ( پیدا ئش 21 شعبان 1239ھ ،مطابق 21 اپریل 1824ء ۔وفات 29 شعبان 1285ھ مطابق 15 دسمبر 1868ء ) فلک علم کے روشن ستارے تھے ۔ان حضرات میں ملا ظہور اللہ اپنے والد اور چچا ملا حسن کے شاگرد تھے اور سرکار اودھ میں عہدہ افتاء ان کے سپرد تھا لیکن اس عہدے سے متعلق مصروفیات کے با وجود سلسلہ درسوتدریس جاری رہا ۔
ان کی تالیفات میں تمام کتب درسیہ خاص کر کتب فقہ پر مختلف حواشی ہیں جن میں زوائد ثلٰثہ پر مطول حواشی اور شمس با زغہ کے رسالہ دوحہ کی شرح خصوصیت کے حامل ہیں۔
ملک العلماء ملا حیدر ابن ملا مبین نے کتب درسیہ اپنے والد اور مفتی ظہور اللہ صاحب سے پڑھیں ۔ کچھ وجوہات کی بنیاد پر ترک وطن کرکے حیدرآباد میں مستقل قیام فر مایا۔آپ کی تالیفات میں ایک رسالہ منطق میں ایک رسالہ اوراد میں ،ایک رسالہ کیفیات حج میں اور اکثر کتب درسیہ پر حواشی ہیں۔
مولانا ولی اللہ نے مولانا عبد القدوس ابن مفتی محمدیعقوب ، مفتی ظہور اللہ اور اپنے چچا ملا مبین سے تحصل علم کیا اور ساری عمردرس وتدریس اور خدمت علم میں بسر کی۔بدقسمتی سے آپ کی تالیفات وتصنیفات میں بہت کافی ضائع ہو گئیں ۔پھر بھی مندرجہ ذیل باقی ہیں ۔ حاشیہ میر زاہد، حاشیہ بر میر زاہد ملا جلالی ، حاشیہ بر شرح ہدایت الحکمت للصدر شیرازی ، حاشیہ بر حاشیہ کمال شرح العقائد الجلالی ،رسالہ ابقا طہارت ،ایک رسالہ بحث تشکیک میں ، شرح سلم العلوم نفائس الملکوت م ،شرح مسلم الثبوت ( دو ضخیم جلدوں میں ) حاشیہ بر میز زاہد شرح مواقف ،آداب السلاطین یعنی رسالہ سر مباحث سلطنت وریاست ، نررۃ المو منین وتنبیہ الغافلین فی مناقب آں سید المر سلین ، شرح غایت العلوم ، شرح معارج العلوم ، کشف الاسرار فی خصائص سید الابرار ،حاشیہ ہدایہ ( چار ضخیم جلدوں میں عبادات ومعاملات پر ) تذکرۃ المیزان ، تذکرہ شرح مسلم مولانا احمد عبد الحی ، تکملہ شرح مسلم ملا حسن ، تفسیر معدن الجواہر ( سات جلدوں میں)
ان تمام تا لیفات کے علاوہ فن رجال میں پر مولانا کی دو اہم فارسی تصانیف ہیں یعنی عمدۃ الوسائل اور اتمصان اربعہ ۔ان میں اول الذکر حضرت قطب الاقطاب حضرت سید عبد الرزاق بانسوی اور ان کے خلفاء ، ملا قطب شہید اور ملا نظام الدین کے بعض تلامذہ کے حالات ہیں اور ثانی الذکر مولانا انوار الحق کی سوانح عمری ہے ۔