بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
انصار اللہ ویب سائٹ پیش کرتے ہیں: خواتین کے جہادی میگزین ’’الشامخہ‘‘ کا ایک مجاہد کی بیوہ ’’ام مھند‘‘ سے دل لرزا دینے والا انٹرویو
ایک مجاہد کی بیوہ ’’ام مھند‘‘ سے دل لرزا دینے والا انٹرویو
جب رات کا اندھیرا چھاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔میں اپنے آنسؤ دریا کی طرح بہاتی ہوں
پوشیدہ جگہوں سے ستارے نمودارہوکرآتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے رب سے عبادتوں میں گلا کرتی ہوں
جو صلہ مل گیا اس کے شکر کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے نیک بندوں کی صحبت مانگتی ہوں
اپنے ان گنت آنسؤوں کو چھپا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر صبح کا استقبال کرتی ہوں
انٹرویو ڈاؤن لوڈ کریں:
پی ڈی ایف،یونی کوڈ
http://www.mediafire.com/?477flbdwy65y8zu
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
خواتین کےجہادی میگزین ’’الشامخہ‘‘ کاایک مجاہد کی بیوہ ’’ام مھند‘‘ سے دل لرزا دینے والا انٹرویو
ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم
اللہ تعالیٰ نے ام مھند پر اپنی رحمتیں برسائیں ،جنھیں ایک مجاہد کی بیوی اور ان کے بچوں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اب وہ ایک شہید (جیسا کہ ہم گمان کرتے ہیں) کی بیوہ ہیں۔ان کے شوہر ارض الجہاد میں اللہ کے دشمن صلیبیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے، اللہ ان کو قبول کرے اور ان کے درجات بلند کرے۔
ان کی اہلیہ ہمارے ساتھ اس انٹرویو میں موجود ہیں:
سوال: سب سے پہلے، آپ کے شوہر (تقبلہ اللہ)کے بارے میں اور میدان جہاد پر جانے کے بارے میں بات کرنے سے پہلے، ہم آپ سے آپ دونوں کا شروع سے قصہ جاننا چاہیں گے۔ اگر وہ مجاہد تھے تو آپ دونوں کی شادی کب ہوئی۔۔۔کیا انھوں نے قافلہ جہاد میں بعد میں شمولیت اختیار کی؟
ام مھند: سب تعریفیں اللہ کے لئے اسی طرح ہوکہ جس طرح اس عظیم الشان ذات اور عظیم اقتدار والے رب کے لئے ہونی چاہئیں۔ درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر ان کے اہل و عیال پرؓ اور ان کے تمام صحابہ اکرام(رضوان اللہ اجمعین) پر۔۔۔
اس ملاقات کو منعقد کرنے کا پرمیں آپ کا شکریہ اداکرتی ہو اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ آپ کو اور مجھے اس امت (مسلمہ) کے حق کے لئےبہترین کام کرنے میں کامیابی نصیب فرمائے، اور اس سے پہلے کہ ہم بات کریں ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ یہ معاملہ اللہ کی طرف سے خالصتاً کامیابی اور نعمت ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں حق پر ثابت رکھے (آمین)۔
اللہ کا شکر ہے میں ایک دینی گھرانے میں بڑی ہوئی، مگرمیری زندگی کا اصلی مقصد اس وقت اللہ کے لئے کام کرنا نہیں تھا، بلکہ وکالت اور پیروی کرنا تھی ۔ میں بوسنیا کے واقعات کے بارے میں اور اس کے بعد چیچنیا کے جہاد کے بارے میں خصوصی دلچسپی رکھتی تھی۔ پھر میں نے مجاہدین کی پہلی ویڈیو دیکھی (جو کہ چیچنیا میں عید کی خوشیوں کے بارے میں تھی)۔ مجھے ایسا لگا کہ اس جہاں میں ہمارے ساتھ ایک الگ ہی دنیا بستی ہے جس کے مکین اصحاب رسول ؓ کے دور کے لوگ ہیں اور میں کبھی کتابیں (صحابہ اکرام ؓ کی زندگی کے واقعات کے متعلق کتابیں) پڑھتے تھکتی نہیں تھی اور جب بھی مجھے جہاد کی تڑپ ہوتی، میں اپنے آپ سے کہتی ؛ تم ان میں سے کہاں ہو؟ اور راستہ کہاں ہے؟ وہ کیسے اور یہ کیسے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایک مجاہد سے شادی کروں گی۔ میں اپنے آپ سے پوچھا کرتی تھی کہ وہ کہاں سے آئے گا؟ میں اپنے گھر والوں کو کیسے راضی کروں گی؟!!! کون مجھے سمجھے گا اور کون میرے اہداف و مقاصد کو سمجھے گا؟!!! مجھے اس ذلت آمیز زندگی نے بیمار کر دیا تھا اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں شادی اس وقت تک نہیں کروں گی جب تک شادی دین کے بنیادی اصولوں سے بالاتر ہوئی۔ میں اس حد تک چلی گئی کہ جب بھی میں رات کے آخری پہر میں اٹھتی تو میں دعا کرتی کہ میں شادی کئے بغیر ہی مر جاؤاور اس دھوکے والی زندگی سے آزاد ہو جاؤ۔ اس طرح کئی سال گزر گئے اور مجھے احساس ہوا کہ مجھے اب تک موت نہیں آئی ہے!!! اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے میرے والدین نے بھی شادی کے حوالے سے زور دینا شروع کر دیا، پھر میں نے دعا کی کہ کیوں نہ میں اللہ سے دعا کروں کہ وہ مجھے مجاہد شوہر نصیب کر دے کیونکہ وہ رب تو ہر چیز پر قادر ہے۔
’’اور تمھارا رب کہتا ہے کہ تم مجھ سے مانگو میں تمھیں ضرور سنوں گا‘‘ (سورۃ الغافر: ۶۰)
’’بھلا (اللہ کے سوا)کون ہے جوبے قرار کی دعا قبول کرتا ہے اوربرائی کو دور کرتا ہے ‘‘ (سورۃ نمل: ۶۲)
جہاں تک میرے شوہر کا تعلق ہے ـ اللہ ان کو قبول کرے ـ تو ان کا بھی یہی معاملہ تھا، وہ بھی جہاد کے راستے کے متلاشی تھے اور اس کے لئے اللہ سے دعا کرتے رہتے تھے اور یہ بھی دعا کرتے رہتے تھے کہ ان کو شادی نہیں کرنی، اور پھر وہ اللہ سے اپنی خواہشات کی دعا کرتے رہتے ، وہ کہا کرتے تھے کہ ان کو ایسی بیوی بالکل نہیں چاہیے کہ جو تنخواہ کے آنے پر یہ کہنا شروع ہوجائے کہ مجھے کپڑے اور ہیرے و جواہرات چاہیے، بلکہ ایسی بیوی چاہیے جو کہے کہ اتنا افغانستان کے لئے ہے اتنا چیچنیا کے لئے وغیرہ وغیرہ۔
راستہ ڈھونڈتے وقت اور جہاد میں شمولیت اختیار کرتے وقت بھی ایسا نہیں تھا کہ جیسا ہونا چاہیے۔ میں اس عرصہ کو ایسا بیان کرتی ہوں کہ گویا ایسے جذبات و احساسات کہ جو عملی جامہ سے عاری ہوں۔ جب ہماری ملاقات ہوئی تو انھوں نے پوچھا : تمھیں کہاں رہنا ہے۔۔۔ میرے گھروالوں کے قریب یا اپنے؟
میں نے کہا: مجھے یہاں گھر نہیں چاہیے، بلکہ ہمارا گھر افغانستان ہوگا۔
اللہ کے اذن سے شادی کے بعد میں ان سے کہا کرتی تھی کہ میں نے جو بھی اللہ سے آپ کے بارے میں مانگا، مجھے ملا (اچھے اخلاق، اعلیٰ عزم اور علم)، مگر مجھے ایک چیز نہیں ملی (میرا مطلب عملی جہاد تھا) اور وہ کہا کرتے تھے (اللہ ان کی شہادت قبول کرے) تو اللہ سے دعا کرتی رہو حتیٰ کہ وہ قبول ہو جائے۔
سوال: وہ دن کیسا تھا جب وہ روانہ ہو رہے تھے اور الودع کہہ رہے تھے؟
ام مھند: پلک جھپکتے ہی ہماری رفاقت کا با ب بند ہو گیا۔۔۔ بحر حال یہ تو فانی دنیا ہے، میں نے کتنا سوچا تھا اور امید کی تھی کہ میرے مجاہد شوہر جہاد کے راستے پر کاربند ہوں اور میری یہ تمنا بہت جلدی پوری ہوئی، مگر اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اور خشوع وخضوع سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور ایمانداری کے ساتھ ،صحیح راستے کا چناؤ کرنا ہی اصلی کامیابی ہے۔ اللہ نے ان کو چن لیا اور کامیاب کیا (نحسبہ کذالک واللہ حسبہ)۔
’’یہ اللہ کی نعمتیں ہیں‘‘ (سورۃ جمعہ ۴)
ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ایسی عظیم نعمت کا سوال کرتے ہیں۔
اب میں ان کی روانگی سے پہلے کے لمحات کا ذکر کرنے کی کوشش کرتی ہوں، وہ جذبات اور خواہشات سے لبریز تھے، اور راہ جہاد پر سوچے سمجھے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، ہم نے کئی بارسوچا، ہم نے تو نشر یاتی کام بھی کیا اور فنڈ بھی جمع کئے، مگر ہر ہدف کے لئے ایک راستہ متعین ہے اورہر مقصد کے حصول کے لئے ویسا ہی عمل درکار ہوتا ہے۔ اپنے نفس سے جہاد کر نے کے لئے اور میدان رباط وجہاد تک پہنچنے کے لئے (چاہے آپ ارض الجہاد میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں) تیاری اور تلاش کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔
جہاد کے مختلف درجوں کے متعلق شک میں نہ پڑیں، یقیناً یہ سارے جہاد کے طریقے ہیں مگر سب کی فضیلت یکسر نہیں ہے اور اللہ اُس کو ہی نصیب کرتا ہے جس سے وہ راضی ہو۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو راستے کے شروع میں ہی کھڑے ہونے تک محدود کر لیتے ہیں،یہ ایسا ہی ہے جیسے ، رکی ہوئی، چلتی سیڑھی (Escalator) کے شروع میں ہم کھڑے ہو جائیں اور دوسری طرف پہنچنے کا انتظار کریں!
ہجرت سے کچھ عرصہ قبل میں نے غور کیا کہ ان میں واقعی تبدیلیاں اور جذبات، عزائم و خیالات میں غیر معمولی گرمی رونما ہو رہی ہیں، (اللہ ان کی شہادت کو قبول کرے) جیسے کوئی سوگوار ماں اپنے بچے کی تلاش میں ہو، تاہم جب بھی وہ کسے بندے میں خیر دیکھتے تو اس سے چپک جاتے حتیٰ کہ ان کو معلوم ہوتا کہ اس بندے کو جہاد کے راستے کے متعلق کوئی معلومات نہیں ہیں، پھر وہ رنج و غم میں مبتلاہو جاتے۔ میں ان کے چہرے پر نور بھی دیکھتی اور اس سے مجھے اندازہ ہوتا کہ ان کی روانگی کے دن قریب ہیں اور یہ ان کے آخری دن ہیں اور ملاقات کا سورج غروب ہونے کو ہے،اور ہماری جدائی کے دن بھی قریب ہیں، میں اپنے آنسوؤں کو ان سے چھپا لیتی اور ان کو اپنے احساسات کے بارے میں جھوٹ بھی بولتی حتیٰ کہ یہ خوش خبری آگئی کہ ان کو ایک قافلے کے ساتھ روانہ ہونا ہوگا۔۔۔۔
اس اچھی خبر کے باوجود، میرے لئے یہ ایک بڑا دھچکا تھا کیونکہ میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ میرے بغیر ہی چلے جائیں گے، مگر پھر مجھے خیال آیا کہ مجھے ان کی حمایت کرنی چاہیے نہ کہ ان کے راستے میں روڑے اٹکاؤں، تاہم میں ان کوابھارتی رہی تاکہ وہ ثابت قدم رہیں اور یہ راستہ ان کے لئے بند نہ ہو۔ پھر انھوں نے سفر کے لئے کاغذی کاروائی شروع کردی اور پھر وہ ایک بہت سخت مشکل میں پھنس گئے کہ جیسے جیسے وقت قریب آتا جا رہا تھا اور وہ اس کا حل تلاش نہیں کر پا رہے تھے، وہ ایک قسم کا امتحان تھا۔ حوصلہ شکنی کرنے والے عناصرکا زور بڑھتا جا رہا تھا اورانہیں روکنے کے لیے ہر طرف سے ان پر بڑے سے بڑے جہاد سے پیچھے ہٹنے کےمحرک حملہ آور ہورہے تھے ، ’’یہ اس کا بیٹا ہے ، اس کو پیار کون دے گا اور کھلائے گا کون؟‘‘، یہ سن کر ان کا لگاؤ اپنے بیٹے سے اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ گھر سے باہر نہیں نکلتے جب تک کہ اپنے بیٹے کو بلا کر پیار نہ کر لیں۔اور ’’ وہ اپنے بچوں کو کہاں چھوڑے گا؟‘‘، ’’اپنے بھائیوں اور والدہ کے لئے کوئی درھم دینار نہیں چھوڑ کر جا رہا (کچھ کمایا ہی نہیں)‘‘۔ کوئی کہتا کہ ’’اس کو جانے سے پہلے اپنے والدین اور اپنے ماتحت لوگوں کے لئے کوئی بندوبست کرنا چاہیے، جن کو اس کی اشد ضرورت ہے‘‘۔ ایک اور کہتا کہ ’’اس کو مال سے جہاد کرنا چاہیے اور اس سے جہاد کو زیادہ فائدہ ہوگا بنسبت جان سے جہاد کرنے کے‘‘ (اس کی بات تو ٹھیک ہے مگر وہ جس زاویے سے کہہ رہا تھا وہ غلط تھا)۔ یہ تو ایک جان ہے اور اللہ کی جنت کی قیمت تو بہت زیادہ ہے اور اگر جہاد کو لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی (کیا آج جہاد کو جانوں کی ضرورت نہیں؟)۔ مگر اللہ کے اذن سے پھر معاملہ آسان ہوگیا اور وہ ایک اضافی دن کے لئے بھی نہیں رُکے، اور آخری حوصلہ شکن بات یہ تھی کہ تم اتنے عرصے سے کاغذی کاموں میں مصروف تھے، اپنے بیوی بچوں کو الودع کرنے کے لئے ایک دن مزید رک جاؤ۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ہر لمحہ جو وہ ہمارے ساتھ گزار رہے تھےوہ ہمیں جہاں سے زیادہ عزیز تھا مگر میں بھی ان کی طرح خوف زدہ تھی کہ ہمارے لئے راستہ مزید مشکل ہوجائے گا ،اگر ہم کمزور پڑگئے۔ میں نے لوگوں کے رویے کی بالکل حمایت نہیں کی اور ان کو حوصلہ دیتی رہی کہ اللہ کے نام کے ساتھ ڈٹے رہیں۔ ان کے دوست ایک ایک کر کے پیچھے ہٹتے گئے، جنھوں نے وعدہ کیا ہوا تھا اور قسم کھائی ہوئیں تھیں۔ جیسے جیسے روانگی کا دن قریب آتا کوئی نہ کوئی معذرت کر لیتا، ہم اللہ سے ان کے لئے دعا گو ہیں۔ حتیٰ کہ روانگی سے ایک دن پہلے ان کے آخری دوست نے ان سے رخصت مانگ لی۔۔۔۔پھر میرے شوہر میرے پاس آنسؤوں بھری آنکھوں کے ساتھ آئے اور کہا ؛ کاش کہ تم مرد ہوتیں کہ میں تمھیں اپنے ساتھ لے جاتا!!!
انھوں نے اکیلے ہی لخت سفر باندھا۔۔۔۔۔ہجرت کے لئے۔۔۔۔۔اور اللہ ان کے ساتھ تھا۔
جہاں تک احساسات کا تعلق ہے ،تو الفاظ اس کو بیان نہیں کر سکتے، کیونکہ ہم انسان ہیں اور جب آنحضرت ﷺ سے آنسؤوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا؛ ’’یہ اللہ کی طرف سے بندوں پر ایک رحمت ہے‘‘، وہ ایسے حسین احساسات تھے جن میں بہت خوشی بھی تھی اور بہت غم بھی۔
خوشی کی مسکراہٹ اور غموں کے آنسؤوں کی ایک ایسی شدید کشمکش سی تھی کہ چہرے پر ایسی مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی کہ زبردستی آنسو رکے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔خوشی اس بات کی کہ اللہ نے ان کے راستے کے لئے آسانی فرمائی، اور افسوس اس بات کا کہ ہم جدا ہو چکے ہیں اور وہ اچھے لوگوں سے جا ملے ہیں۔ میں نے بہت کوشش کی تھی کہ اپنی جدائی کے غم کو چھپاؤں اور خوشی کا اظہار کروں۔ ان کے جانے کی تیاری کے لئے میں نے خود ان کے تمام کاغذات کو ایسے جمع کیا جیسے کوئی ماں اپنے بیٹےکی شادی کے لئے اسے تیار کر رہی ہو، در حقیقت آخری لمحات میں میری آنکھوں سے آنسؤوں نکل آئے تھے مگر میں نے فوراً قابو میں کر لئے ، یہ ایک خالص کامیابی تھی جو میرے رب کی توفیق سے مجھے نصیب ہوئی ،تاحال یہ کہ وہ روانہ نہ ہوگئے، اور اس کے بعدتو مجھے ایسا لگا جیسے گویا میری روح ان کے اندر ہے۔
سوال: آپ کے بچوں کے کیا تاثرات تھے اور کیا ان کو پتا ہے کہ ان کے والد کہاں ہیں؟ اور کیا وہ اپنے والد کو یاد کرتے ہیں؟
ام مھند: بچے ان کو یاد کرتے ہیں اور ان کے بارے میں پوچھتے ہیں، کبھی کبھی وہ روتے بھی ہیں، خصوصاً ان کی روانگی کے بعد شروع کے دنوں میں تو وہ بہت روتے تھے۔ ان میں سے ایک کا تو حال یہ تھا کہ وہ بہت عرصے تک انتظار کرتا رہا اور وہ دروازے کے سامنے یا کھڑکی کے ساتھ سوجاتا اور جب دروازے پر دستک ہوتی تو وہ اپنے والد کا نام پکارتے ہوئے دروازے کی طرف لپکتا۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ وہ یہ تصوّر کرتا نظر آتا ہے کہ وہ ان کے سامنے کھڑا ہے اور ان سے باتیں کررہا ہے ، ان کو ہنسا رہا ہے اور پھر وہ چھلانگ لگاتا ہے جیسے ان سے کھیل رہا ہو۔ اس کو ان کے نکلنے کے دن اور الوداع کے آخری لمحات بہت اچھی طرح یاد ہیں، جبکہ میں سمجھ رہی تھی کہ وہ اس سے بالکل ناواقف ہےمگر ان کی روانگی کے مناظر اس کی یاداشت میں سما گئے ہیں اور بہت عرصے بعد بھی میں نے اسے واضح تفصیلات کے ساتھ ان مناظر کو بیان کرتے ہوئے سنا! بہت کم عمر سے ہی یہ بچے مجاہدین کی نشرکردہ ویڈیوز دیکھتے رہے ہیں، خصوصاً امیر خطاب ؒ کی، اور وہ کبھی ان کو دیکھتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں۔ اس ڈر سے کہ کہیں یہ لوگوں میں یہ باتیں نہ کریں اور لوگوں کو پتا چلے، میں ان کو ان کے والد کی جہاد کی طرف ہجرت کے متعلق نہیں بتا سکی، کیونکہ جہاد کی طرف ہجرت اس ملک میں بہت ہی کم بھائی کرتے ہیں اور اللہ کی ذات ہی بہترین حامی و مدد گار اور بہترین کارساز ہے جس پر ہم بھروسہ کرتے ہیں۔ پھر بڑا بیٹا (جو کہ ہے تو چھوٹا ہی) ان ویڈیوز اور اپنے والد کی غیر موجودگی کو آپس میں منسلک کرتا ہے اور وہ اپنی مجاہدین سے محبت کی وجہ سے ان کے بارے میں پوچھتا ہے اور یہ کہ وہ کیسے سوتے ہیں اور پھر پوچھتا تھا کہ ’’ان کے بچے کہاں ہوتے ہیں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بچے تو ہوتے ہیں مگر وہ ان کو اپنی ماؤں کے ساتھ محنت مشقت کرنے کے لئے چھوڑ جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ میرے ابّا بھی انہی کی طرح چلے گئے ہیں۔۔۔ کیا ایسے ہی ہے؟ نہیں نہیں ،ایسا ہی ہے۔۔۔ میں انہی کی طرح کروں گا‘‘۔
جب اس کو یہ بات سمجھ آگئی تو میں نے اس کو ٹھنڈاکیا اور سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کے لئے ابھی کیا مناسب ہے اور پھر میں نے اس سے کہا کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور پھر میں اس کو حضرت ابراھیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ کا قصہ سنایا اور درس دیا کہ اللہ کے دین کے لئے ہمیں محبوب ترین چیزوں کو قربان کرنے کے لئے بھی تیار رہنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔
اللہ کا شکر ہے ان باتوں سے ان کو ٹھنڈک ملی اور اپنے والدکا اس مقصد کے لئے گھر کو چھوڑنا ان کے لئے خوشی کی بات تھی اور اس سے ان کا جہاد سے لگاؤ بھی بڑھ گیا، الحمدللہ۔ جہاں تک ان کو ان کے والد کی شہادت کے بارے میں بتانے کا تعلق ہے ، تو میں ان سے احتیاط کی بنا پر چھپاتی رہی مگر ایک بہن نے ان کو بتایا۔ وہ بہن میرے سب سے بڑے بیٹے کو ایک طرف لے کر گئیں اور کہا کہ تمہیں مجاہدین اچھے لگتے ہیں اور اس کو شہادت کے بارے میں بتانے لگ گئیں اور شہادت کی تمنا بڑھائی اور اس سے کہا کہ ؛ کیا تم چاہتے ہو کہ تمھارے والد بھی شہید ہوں، شیخ ابومصعب الزرقاویؒ کی طرح اور خطاب ؒ کی طرح اور وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس بہن نے اس کو بتایا (کہ تمھارے والد شہید ہوگئے ہیں)، وہ اس خبر پر بہت خوش ہوا اور اس کی طبیعت بھی بحال ہوئی اور اس نے جا کر یہ باتیں اپنے چھوٹے بھائیوں کو بھی بتائیں اور ان کو بھی اتنی ہی مسرت ہوئی۔
یقیناً وہ انہیں ابھی بھی یاد کرتے ہیں اور ان کے بارے میں سوچتے ہیں، خصوصاً ان وقتوں میں کہ جب وہ ان کے دوستوں کو دیکھتے ہیں۔ کبھی وہ غم کرتے ہیں اور وہ بچوں کے والد کا کردار ادا کرتے ہیں اور نام بھی ان کے والد والا ہی رکھ لیتے ہیں، مگر ایک دوسرے کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ وہ ، انشاءاللہ، جنتوں میں ہیں، اور یہ اللہ کو پسند ہے کہ ہم اپنے نفسانی خوہشات کو روک کر وہ کریں جو اللہ کو پسند ہےاور اس کا اجر ہمیں جنت میں ملے گا، ہم اس سے اس کی رحمتوں کا سوال کرتے ہیں، اور الحمدللہ یہ معاملہ غم کا باعث نہیں رہا ۔
’’أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۶۲) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (۶۳)لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ(۶۴) وَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ۚ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۶۵)‘‘ [سورۃ یونس]
سن رکھو کہ جواللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (۶۲) (یعنی) جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگار رہے (۶۳)ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔الله کی باتیں بدلتی نہیں۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے (۶۴)اور (اے پیغمبر) ان لوگوں کی باتوں سے آزردہ نہ ہونا (کیونکہ) عزت سب الله ہی کی ہے وہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے (۶۵)
سوال: وہ آپ کو اپنے ہمراہ کیوں نہیں لے گئے؟
ام مھند: جہاد کے لئے عورتوں اور بچوں کو ساتھ لے جانے کے لئے اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ راستہ اور جگہ مناسب ہوں۔ شاید وہ لوگ جنہوں نے عورتوں کے ہمراہ ہجرتیں کیں وہ پہلے سے راستے کے بارے میں جانتے اور ضروریات کے بارے میں جانتے ہونگے، مگر میرے شوہر کو ڈر تھا کہ کہیں وہ کسی ایسی چیز کے ساتھ منسلک نہ ہو جائیں جو ان کےراستے میں رکاوٹ کا باعث ہواور انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ محفوظ راستہ تلاش کریں گے اور پھر وہ اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ انہوں نے اس کی کوشش بھی کی اور ہم بھی تیا ر ہوگئے مگر ان کی شہادت ہمارے دوبارہ ملنے سے پہلے واقع ہوگئی ، انا للہ وانا الیہ راجعون، میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ ہمیں ، ان کے بیٹوں کو اور ہمارے خاندان کو، اعلیٰ ترین مخلوق کے ساتھ ، فردوس اعلیٰ میں اکٹھا کرے۔ آمین
سوال: کیا یہ عورت کے لئے ممکن ہے کہ وہ جہاد پر ابھارنے والی ہو یا روکنے والی؟
ام مھند:بے شک۔۔۔۔ کافی بہن بھائیوں کے لئے یہ ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور وہ شادی کو جہاد کے لئے رکاوٹ کا باعث سمجھتے ہیں یا مخالفت کا۔ ساری بات یہ ہے کہ ایک ایمانی دین دار عورت سے شادی کریں ورنہ آپ ناکام ہونگے۔ عورت مرد کی طرح ہی ہوتی ہے، اگر دنیا کی رونق اور مزے ، اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے اوپر غالب آجائیں، پھر تو جہاد سے پلٹانے میں اور مصائب کھڑے کرنے میں وہ سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔۔۔ ہم اللہ تعالیٰ سے خیر کے طلب گار ہیں۔ اسی طرح وہ جہاد پر ابھارنے میں بھی سب سے آگے ہوتی ہے اگر اس کے دل میں ایمان داخل ہو جائے اور وہ راہ حق کو جانتی ہو۔
وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ (سورۃ اسراء ۹۷)
اور جس شخص کوالله ہدایت دے وہی ہدایت یاب ہے
جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ۔۔۔۔۔ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے۔
عورتوں کاابھارنے میں اور حمایت کرنےمیں بہت اہم کردار ہوتا ہے، (خصوصاً) شروع میں ۔۔۔
جب ہم اس کردار کو صحیح طرح سے نہیں سمجھتے تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوتی ہے۔۔۔ جب عورت کسی چیز سے مطمئن ہوتی ہے تو وہ اپنے ارد گرد، اللہ کے اذن سے، ویسا ہی ماحول تشکیل دیتی ہے۔وہ اپنے بچوں کو درس دے گی اور جہاد کے لئے ابھارے گی حتیٰ کہ وہ مجاہد بن جائیں اور پھر ان کے ساتھ رہے گی یہاں تک کہ وہ، اللہ تعالیٰ کے اذن سے، اپنی مراد پا لیں۔
تاہم ہر مجاہد کی یہ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی کوئی، اللہ کے اذن سے، حمایت کرے ، اصلاح کرے اور اس کی مدد کرے، اور مخلوقات میں سے بہترین مخلوق کی مثال لے لیجئے (رسول اکرم ﷺ)، جب سب سے پہلے قرآن نازل ہوا تو اپنے دوست کے گھر نہیں گئے نہ ہی اپنے چچا کے گھر گئے جنہوں نے آپؐ کو پالا پوسا تھا نہ ہی آپ ؐ غار میں عبادت کرتے رہے، بلکہ وہ اپنی محبت کرنے والی بیوی ، حضرت خدیجہ ؓ کے پاس گئے، جنہوں نے ان کا استقبال کیا اور ان کو اطمینان دلایا۔ وہ پہلی خاتون تھیں جو ایمان لائیں اور جنہوں نے امت محمدی ؐ میں شمولیت اختیار کی، اور ہم اس عظیم کردار کو ادا کرنے کا اپنے رب سے سوال کرتے جیسا آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کے بارے کہا؛
’’وہ مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ نہیں لائے تھے۔ وہ مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ سمجھ رہے تھے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں، اور انہوں نے میری مدد اپنے مال سے اس وقت کی جب لوگ نہیں کر رہے تھے۔‘‘
جہاد کےحکم کے بعد بھی ایسی خواتین تھیں جن کا کردار بھی بہت اہم تھا اور جنہوں نے معاونت بھی کی، عائشہؓ اور دیگر کچھ صحابیاتؓ نے ، جب جہاد میں عورتوں کی ضرورت پڑی تو جنگ میں، پیاسوں کو پانی پلایا اور زخمیوں کی مرہم پٹی کی۔ وہ حضرت صفیہؓ تھیں جنہوں نے سب سے عملاً جہاد کیا جب انہوں نے ایک یہودی کو جہنم واصل کردیا جو کہ مسلمان کے قلعے کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا جبکہ اس وقت اس کو روکنے کے لئے کوئی مرد موجود نہیں تھا۔ حضرت ام عمارہؓ بھی ایک مثال ہیں کہ جب انہوں نے غزوہ احد میں آپؐ کی حفاظت کی اور آپؐ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’احد والے دن جب بھی میں دائیں یا بائیں دیکھتا تو مجھے وہ میرا دفع کرتے نظر آتیں‘‘
سوال: آپ کے باقی خاندان والے اور عمومی طور پر یہ معاشرہ آپ کو کس نگاہ سے دیکھتا ہےیہ سامنے رکھتے ہوئے کہ آپ ایک مجاہد کی اہلیہ ہیں (یا دہشتگرد کی جیسا کہ معاشرے میں سمجھا جاتا ہے)؟
ام مھند: جیسے کہ ہر معاشرے میں مجاہدین کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنے والے اور مخالفت اور مذمت کرنے والے موجود ہوتے ہیں، اسی حساب سے مجاہدین کی بیویوں کے ساتھ برتاؤ اور نکتہ ٔ نظر رکھا جاتا ہے۔
جہاں تک میرے خاندان کا تعلق ہے تو اپنی بیٹی سے پیار اور ہمدردی کے باوجود وہ ڈر کی وجہ سے پیچھے ہی رہتے ہیں، اس بات کے ڈر سے کہ کہیں یہ اپنے خاوند کی دعوت اور عقائد کو فروغ نہ دے، اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے، مگر جو جہاد سے پیچھے بیٹھے رہتے ہیں ان کو خطروں کا اور اللہ کے لئے قربانیوں کا ڈر ہوتا ہے ! جیسے ان کے لئے کبھی سب سے اہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ میں اپنا ماضی بھلا دوں اور اسی لئے مجھے دوبارہ شادی کرنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ جو کچھ بھی ہوا اس کے نعم البدل کے طور پرعام لوگوں کی طرح زندگی بسر کر لے ۔
جہاں تک معاشرے کا تعلق ہے تو ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ بزدلی کی وجہ سے ہم سے مکمل قطع تعلق ہوجاتے ہیں جیسے ہی ان کو پتا لگتا ہے کہ یہ بندہ دہشت گرد (مجاہد) تھا حالانکہ وہ پہلے دہائیوں تک ان کا دوست رہا ہوگا۔ ایسے بھی ہیں جو ہمارے ساتھ یا بچوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں اور کچھ عرصے تک ان کے بارےمیں پوچھتے رہتے ہیں اور پھر پلٹ جاتے ہیں اور سارے معاملات کو بھلا دیتے ہیں جیسے انہوں نے مجاہدین بھائیوں کو اور قیدیوں کو بھلا دیا ہے۔ ظاہر ہے ایسے لوگ بھی ہیں جو کبھی ان کوبھلا نہیں سکتے اور ان کے اقوال و افعال ایک جیسے ہیں۔ اللہ کا فضل ہے، ایسے لوگ بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں، خصوصاً کھلی فتوحات کی نشانیوں کے ساتھ اور لوگوں کی نظروں میں ، مجاہد امت (امت مسلمہ) کے ہاتھوں، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ذلت کے بعد۔۔۔ اور جہاں تک ہماری تائید کرنے والی بہنیں ہیں، تو وہ عزت اور وفاداری کے ساتھ ہمیں دیکھتی ہیں ۔
سوال: آپ کو شہادت کی خبر کیسے ملی؟
ام مھند: الحمدللہ !یہ ایک ایسی خبر تھی جس کا اثر مجھے ان کی الوادع کی وجہ سے نہ تھا اور نہ ہی مجھے بعد میں اس کی وجہ سے نفسیاتی مسائل ہوئے، مگر اہم بات یہ تھی کہ میں، اس پورے عرصے میں، اس خبر کے انتظار میں نہیں تھی، اور یہ میری ایک غلطی تھی۔ اس لئے نہیں کہ موت سے بھاگا جائے کیونکہ وہ تو اللہ نے تقدیر (غیب) میں لکھی ہوئی ہے۔۔۔بلکہ میں تو ہر وقت اللہ سے یہ امید کر رہی تھی کہ وہ واپس آئیں اور مجھے اپنے ساتھ ہجرت کروالیں اور یہ کہ میری امید کامیاب ہو جائے۔ الا ماشاءاللہ
میں کتنی تمنا کرتی تھی کہ میں ارض الہجرت میں رہوں، اپنی مہاجر بہنوں کے ساتھ، مجاہدین کے کپڑے دھوں، ان کے بچوں کی پرورش کروں اور ان کے زخمیوں کی مرہم پٹی کروں، شہادت کی منتظر رہوں جب تک چن نہیں لی جاتی (اے اللہ مجھے نامراد نہ کرنا اور مجھے مایوس بھی نہ کرنا)۔
مگر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کرلیا تھا اور ایسا ہی ہوا اور ہم اللہ سے اچھائی کے طلبگار ہیں۔۔۔
’’وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (سورۃ بقرۃ ۲۱۶)‘‘
’’مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو) الله ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘
جب مجھے اس کا پتا چلا تو میں نے اس وقت کسی کو نہیں بتایا۔ اور جب لوگوں نے مجھ میں فرق محسوس کیا تو میں نے مختلف بہانے بنا کر ان کو ٹال دیا ، وہ سمجھے کہ میں بیمار ہوں ، میں ان کے ساتھ مصنوعی طور پر ہی تھی جبکہ میری روح ایک دنیا میں گم تھی۔ جب رات کا وقت آیا تو میری روح ماضی کی یادوں اور ان کے ساتھ گزرے ایام کا سوچنے میں گم ہو گئی اور بے بہا آنسو نکل گئے، کیونکہ محبوب لوگوں کی جدائی بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے، اور یہ کیسے نہیں ہو جب کہ وہ اس امت کے ایک جانباز تھے، ہم ان کے بارے میں یہ ہی گمان کرتے ہیں اور اللہ کے سامنے کوئی صفائی بیان نہیں کرتے۔ جب بھی میں افسردہ اور غمگین ہوتی ہوں تو میرا نفس مجھے اپنی باتیں اپنی کسی بہن سے کرنے کا کہتا ہے کیونکہ وہ مجھ سے بہت قریب ہیں اور میری بہت اچھی سہیلیاں ہیں،بہرحال اللہ تعالیٰ بہترین مددگار اور غموں اور خوشیوں میں بہترین ساتھی ہے، اورمیں اپنے رازوں کو سجدوں میں اپنے رب کے ساتھ شیئر کرنے میں ہی آرام محسوس کرتی تھی۔
(اے اللہ ! ہمیں نمازوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی توفیق دے)
جیسا کہ ایک ابن عباس ؓ سے مروی حدیث میں مذکور ہے : ’’اللہ کو یاد رکھو، وہ تمھاری حفاظت کرے گا، اللہ کو یاد رکھو،تو اس کو اپنے سامنے پاؤ گے، اور اللہ کو سکون اور خوش حالی میں یاد رکھو، وہ تمہیں برے وقتوں میں یاد رکھے گا۔ اگر کچھ بھی مانگنا ہو تو اللہ سے مانگو، اگر مدد مانگنی ہو تو اللہ سے مانگو۔ قلم اٹھا لئے گئے اور سیاہی خشک ہو گئی۔ اب اگر ساری مخلوق مل کر تمہیں کوئی فائدہ پہنچانا چاہے، تو نہیں پہنچا سکتی اگر اللہ نہیں چاہتا ہو۔ اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں، تو وہ نہیں پہنچا سکتے، اگر اللہ نہ چاہے۔ ہر کام میں اللہ کا شکر ادا کرو اور اسی پر توکل کرو، اور جان رکھو کہ جو چیز تم کو ناپسندیدہ لگتی ہے اس پر صبر کرنا بہت اچھا ہے۔ اور یہ کہ کامیابی صبر کے بعد آتی ہے، سکون دکھ کے بعد ہی ملتا ہے، اور آسانی مشکلات بعد۔‘‘
بےشک میں اس پر عمل کرتی رہی یہاں تک کہ اللہ نے مجھے پریشانیوں سے دور کر کے آسانی دی اور میرا غم دور ہوا (حالانکہ مجھے ابھی بھی افسوس ہے، مگر الحمد للہ بے صبری نہیں ہے) ۔ اور جب چند لوگوں کو پتا چلا تو میں نے ان سے کہا کہ مبارکباد دیں اور مٹھائی تقسیم کریں تو کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ بیٹھے؛ ہم تو سوچ رہے تھے کہ کیسے تعزیت کریں، پھر ہم نے سوچا کہ اس سے ہی پوچھ لیتے ہیں۔۔۔۔ سبحان اللہ۔
میرا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اپنے افسوس سے میں ان کو جہاد سے حوصلہ شکن نہ کروں اور ان کو یہ موقع نہ دوں کہ وہ جہاد پر جانے کی مذمت کریں، کیونکہ میں ان کو یہ کہتا سنتی تھی کہ اس نے شادی کیوں کی اگر اس کو جہاد پر جانا تھا؟ اپنی روانگی سے اس نے اپنے بیوی بچوں کو کیوں سزا دی؟ جہاد سے پیچھے بیٹھے رہنے کے مختلف بہانے۔۔۔۔
ہم اللہ سے ہدایت کے طلبگار ہیں۔
جب رات کا اندھیرا چھاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔میں اپنے آنسؤ دریا کی طرح بہاتی ہوں
پوشیدہ جگہوں سے ستارے نمودارہوکرآتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے رب سے عبادتوں میں گلا کرتی ہوں
جو صلہ مل گیا اس کے شکر کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے نیک بندوں کی صحبت مانگتی ہوں
اپنے ان گنت آنسؤوں کو چھپا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر صبح کا استقبال کرتی ہوں
اللہ کا شکر ہے کہ اس ہی کے اذن سے اچھے اعمال کئے جاتے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں اس زندہ ا ور ہمیشہ رہنے والی ذات سے کہ وہ ہمیں ، ہمارے بچوں کو اور ہمارے خاندان والوں کو فردوس ِ اعلیٰ میں اکھٹا کرے، انبیاء، صدیقین، صالحین اور شہداء کے ساتھ۔۔۔۔ آمین
سوال: آپ ان بہنوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی جو کہ اللہ کے راستے میں اپنے شوہر وں کو کھو چکی ہیں؟
ام مھند: میری صالح بہنیں اور رحمدل مائیں، وہ جنہوں نے اپنے شوہر اور بیٹے کھوئے ۔۔۔۔۔ اے وہ کہ جس نے اللہ کے لئے اپنے عزیزوں کو قربان کیا، جیسا کہ ہم آپ پر گمان کرتے ہیں اور اللہ ہی کافی ہے۔ میں آپ کو نصیحت نہیں کر رہی بلکہ میں آپ سے نصیحت اور راستہ طلب کرتی ہوں۔ مجاہدین کی بیویوں کے ساتھ ساتھ آپ لوگ بھی ایک مثال ہیں، آپ ذلت اور پستی کے وقت امت کی بیٹیاں ہیں۔ میں اپنے آپ کو اور اپنی بہنوں کو یاد دلانے کے لئے یہ کہوں گی کہ نیت میں اخلاص اور اللہ سے بہترین امید اور جزاء کے ساتھ قربانیاں دینا ہی اس امتحان میں اصل کامیابی ہے۔
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورۃ التغابن ۱۱)
کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر الله کے حکم سے۔ اور جو شخص الله پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ اور الله ہر چیز سے باخبر ہے
پھر آپ کو اللہ کی نعمتوں کا اندازہ ہوگا کہ جس نے آپ کو سیدھا راستہ دکھایا اور وقت کے مطابق صحیح راستہ بتایا، جس سے آپ کا غم خوشی میں بدل گیا، اور جس سے آپ کی فکر مندی، ثابت قدمی اور قربانیوں میں بدل گئی۔ اے فخر سے کھڑے پہاڑ اور بے قابو تیز دریا کی مثل بہنوں ، آپ مقام ِفراز پر ہیں اور ایسے بلند شہسوار بہت تیز اپنی منزل کی طرف چلتے ہیں، حتیٰ کہ، اللہ کے اذن سے، اپنا مقصد پا جاتے ہیں۔ اس راہ میں قدم رکنے نہ پائیں حتیٰ کہ آپ جنتوں میں ان سے جاملیں، جن کے ساتھ آپ اس قافلے کی راہی بنی تھیں، اور فتح یا شہادت کے بغیر نہیں ہو سکتا، تاہم اس راہ پر چلتی رہیں، اس سبیل کی رکاوٹوں سے کمزور نہ پڑیں اور نہ ہی لوگوں کی مذمتوں کی پرواہ کریں، جو کہ آپ کو اس عظیم راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں اور جہاد سے پیچھے رہنے والوں کی رضاء کی خاطر واپس نہ پلٹیں۔
اور اس وجہ سے شیطان سے دھوکہ نہ کھائیں کہ ہم مجاہد یا شہید کی بیویاں ہیں، ہم اللہ سے پناہ مانگتے ہیں شیطان مردود سے۔ اور ایسا نہ ہو کہ آپ شفاعت کی امید لئے رک جائیں، ابھی بھی آپ کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے، تاہم اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہماری مدد کرے اور ہمیں کامیاب کرے۔ خبردار رہیں کہ قیامت والے دن خاندان والے کسی کام کے نہیں ہونگے کیونکہ ہر آدمی اپنے نفس کا ہی ذمہ دار ہوگا ، جو کچھ اس نے کمایا، اسے اسی کا صلہ ملے گا، اور یہ ہر مرد و عورت پر فرض ہے کہ اللہ کے احکامات کی پیروی کرے۔ اور جدائی کے دروازوں پر ہی نہیں رک جائیں، بلکہ یہ تو ایک نئے راستے کی شروعات ہیں، جو کہ مزید مشکلات اور آزمائشوں میں گھرا نظر آتا ہے، مگر اللہ سے مدد طلب کریں اور دعا کریں کہ وہ ثابت قدمی نصیب کرے اور ہمیشہ ایمان اور صبر کو تھامے رکھیں اور قرآنی آیات کا ذکر کثرت سے کریں۔
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۖ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ(۱۹۵) لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ (۱۹۶) مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ (۱۹۷) لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ (۱۹۸) وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (۱۹۹) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (۲۰۰)[سورۃ ال عمران]
تو ان کے پرردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا تم ایک دوسرے کی جنس ہو تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کیے گئے میں ان کے گناہ دور کردوں گا اور ان کو بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں (یہ) الله کے ہاں سے بدلہ ہے اور الله کے ہاں اچھا بدلہ ہے (۱۹۵) (اے پیغمبر) کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تمہیں دھوکا نہ دے (۱۹۶) (یہ دنیا کا) تھوڑا سا فائدہ ہے پھر (آخرت میں) تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے (۱۹۷) لیکن جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے ان کے لیے باغ ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) ان میں ہمیشہ رہیں گے (یہ) الله کے ہاں سے (ان کی) مہمانی ہے اور جو کچھ الله کے ہاں ہے وہ نیکو کاروں کے لیے بہت اچھا ہے (۱۹۸) اور بعض اہلِ کتاب ایسے بھی ہیں جو الله پر اور اس (کتاب) پر جو تم پر نازل ہوئی اور اس پر جو ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور الله کے آگے عاجزی کرتے ہیں اورالله کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہیں لیتے یہی لوگ ہیں جن کا صلہ ان کے پروردگار کے ہاں تیار ہے اور الله جلد حساب لینے والا ہے (۱۹۹) اے اہل ایمان (کفار کے مقابلے میں) ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں پر جمے رہو اور الله سے ڈرو تاکہ مراد حاصل کرسكو (۲۰۰)
یاد رکھیں کہ یہ دنیا کی زندگی تو فانی ہے، اس کو چھوڑ دیں اور اللہ کی فرمانبرداری کی طرف متوجہ ہو جائیں، کیونکہ اخروی جنتوں میں کوئی تکلیفیں نہیں ہونگی اور اُدھر آپ کی روح مطمئن ہوگی اور ہمارا مہربان رب ہم سے خوش اور راضی ہوگا۔
اس انٹر ویو کے اختتام میں ہم ، اللہ رب العزت کے اسمائے حسنی اور تمام تعریفوں کے ساتھ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے مجاہد بھائیوں کو کامیابی نصیب کرے۔آمین