کچھ ٍعرصہ قبل ایک مجاہد کمانڈر محمد عبداللہ سے لاہور میں ملاقات ہوئی جو روس کے غاصبانہ اور ظالمانہ قبضہ کے دور میں افغانستان میں جھاد فی سبیل اللہ میں عملی طور پہ شامل رہے ۔ مجاہد عبداللہ نے میدان جہاد کے مختلف واقعات اور جہاد میں عملی طور پہ شامل ہونے کی جو داستان سنائی ہے وہ میں آپ دوستوں کی نظر کرتا ہوں ۔ مجاہد عبداللہ کہتے ہیں ۔ ۔ ۔
جب روس نے افغانستان پہ ظالمانہ قبضہ کیا اور افغان مسلمانوں کا جینا حرام کردیا ، مسلمان ماں، بہن ، بیٹیوں کی عزتوں کو کھلونا بنا دیا ، ظلم وستم کا بازار گرم کر دیا ۔ ہر روز کوئی نا کوئی ظلم و ستم پر ممبنی داستانِ ظلم سننے کو ملتی ۔جس سے دل ہل جاتا ۔ ۔ ۔ میں اللہ کے دربار میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے ہاتھ بلند کر دیتا اور ساتھ ساتھ یہ بھی دعا کرتا کہ یا اللہ مجھے بھی توفیق دے کہ میں عملی طور پہ جہاد میں حصہ لے سکوں ۔ ۔ ۔ آخر اللہ کریم نے میری دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور میں جہادِ افغانستان میں شامل ہونے کے لئے ماں باپ کی اجازت سے روانہ ہو گیا ۔ میران شاہ کے کے علاقہ سے افغان رہبر کی قیادت میں افغانستان میں داخل ہوئے ، اور خوست کے مقام میں غنڈ سلمان فارسی میں ٹرینگ حاصل کی ٹرینگ کے بعد امیر صاحب نے ہماری تشکیل آخری مورچہ پر جہاں مجاہدین اور روسی فوج کے درمیان لڑائی جاری تھی کر دی ،ہمارا قافلہ پندرہ افراد پہ مشتمل تھا ، ہمارے پاس اسلحہ میں کلاشن کوف ، راکٹ لانچر اور گرنیڈ موجود تھے ، تقریباتین دن کے سفر کے بعد ہم اس مقام پہ پنہچے جہاں ایک طرف روسی فوجی اور دوسری طرف مجاہدین ڈٹے ہوئے تھے ، مجاہدین نے بہت والہانہ انداز میں ہمارا استقبال کیا اور ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے بہت عرصے سے بچھڑے دو بھائی یا دو دوست اچانک مل گئے ہوں کمانڈر صاحب بھی ایسے مل رہے تھے جیسے بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے مل رہا ہو ، سب سے پہلے ہماری آمد پہ نعرہ تکبیر بلند کیا گیا جس کا جواب مجاہد بھائیوں نے دیا اور بہت دیر تک اللہ اکبر کی صدا بلند و بالا پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس ہماری سماعتوں کو جلا بخشتی رہی ، اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے والے چند مجاہد تھے مگر جب یہ صدا بلند و بالا پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آئی تو ایسا لگا کہ جیسے اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ہوں ، تکبیر کے ساتھ ساتھ کلاشن کوف کے برسٹ فضا میں داغے گئے ، عجیب سماں اور عجیب انداز تھا اس استقبال کا ۔ ہمیں ایک مورچہ میں بٹھایا گیا، کہوہ اور خشک روٹی کے ساٹھ ضیافت کی گئی جس کا مزہ اور سرورعجیب تھا ، نماز کے بعد ہمیں کہا گیا کہ آپ لوگ آرام کر لیں ، ا( ان تمام اوقات میں جو چیز سب سے اہم تھی وہ مجاہدین کا نماز اور تہجد کا پابند ہونا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ مجاہدین کا برتاو جو اپنے مجاہد بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے قابلِ رشک ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ اتنا پیار دو سگے بھائیوں کے درمیان بھی نہ ہو گا جو مجاہدین میں ہوتا ہے ، ہر موقعہ پر اپنی ذات پہ اپنے دوسرے بھائی کو ترجیح دینا ، اپنے جزبات و خیالات کو دبا دینا اور اپنے مجاہد بھائی کی بات کو فوقیت دینا ، وہاں تو ہر بندہ ایثار کا پیکر نظر اٹا تھا ،۔
مجاہد عبداللہ کہتے ہیں تین دن کے بعدکمانڈر صاحب نے ہماری تشکیل ایک دوسرے محاذ پر جو افغانستان کے صوبہ تالقان کے علاقہ یلور میں تھا کر دی ،ہم دس مجاہد جن میں بندہ محمد عبداللہ ، محمد دود ، محبوب غزنی ، ابو عثمان، ابوحارث ، ابو شعیب وغیرہ شامل تھے ایک رہبر کی قیادت میں روانہ ہوئے ، اور تین دن کی مسافت کے بعد ہم محاذ پہ پنہچ گئے ، یہ سارا سفر پیدل تھا ، جہاں افغان مجاہدین ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے ، افغان کمانڈر جنت گل ( یہ ایک عظیم کمانڈر اور عظیم انسان تھے بعد میں ایک معرکہ میں شہید ہو گئے ) نے ہمیں کہا کہ آج آپ آرام فرمائیں کل ان شاء اللہ بات ہو گی ، ہم منگل کے دن یلور میں پہنچے تھے ، یلور میں سردی بہت تھی ہر طرف برف ہی برف تھی ، پانی بھی برف گرم کر کے پیتے تھے ، ایک غار کے اندر ہمارا مسکن تھا ، جہاں ہر وقت آگ جلتی رہتی تھی ، اور مجاہدین ایک دوسرے کو تلاوت قرآن ،جہادی ترانے اور اشعار سناتے رہتے تھے ، دوسرے دن یہ طے پایا کہ کل جمعرات کو عصر کی نماز کے بعد دشمن کی چھاونی پر حملہ کیا جائے گا ، اس کے لئے بیس ساتھیوں کا انتخاب کیا گیا جن میں میں یعنی محمد عبداللہ ، محمد دود ، محبوب غزنی ، ابو حارث ، ابو شعیب ، ابو عثمان ،عجب خان ، دریاخان وغیرہ شامل تھے اور ہماری قیادت کمانڈر عجب گل کے ہاتھ میں تھی ، چناچہ دوسرے دن ہم عصر کی نماز سے پہلے مطلوبہ مقام پہ پہنچ گئے جہاں سے روسی فوجی دو سو میٹر کے فاصلے پہ صاف نظر آرہے تھے ، چناچہ دو ساتھیوں کو پہرے پہ بٹھا کر باقی بھائیوں نے نماز عصر ادا کی ، شہادت اور فتح و نصرت کی دعائیں مانگی گئیں ، نماز کے بعد جو دو بھائی پہرے پہ بیٹھے تھے انہوں نے نماز ادا کی ، کمانڈر صاحب نے دو بھائیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ میں جیسے ہی نعرہ تکبیر بلند کروں گا تو تم دشمن پر فائرنگ کرو گے اور ہم دس بھائیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ تم ایک دوسرے کو کورنگ فائرنگ کرتے ہوئے دشمن کی طرف بڑو گئے ، چناچہ جیسے ہی تکبیر بلند ہوئی اس کے ساتھ ہی فائرنگ شروع ہو گئی اور ہم نے دشمن کی طرف بھاگنا شروع کردیا ، سامنے والا مورچہ تو تکبیر سنتے ہی خالی ہو گیا تھا اس مورچہ میں موجود اسلحہ پہ مجاہدین کا قبضہ ہو گیا ، اب ہم نے اپنے ساتھیوں کو تقسیم کر لیا ، مورچہ پہ دود بھائی اور محبوب غزنی کی ڈیوٹی لگی اور ان سے کہا کہ جب تم محسوس کرو تو آگے آجانا ، میں یعنی عبداللہ اور ابو حارث اور ابو عثمان آگے چلے گئے ، میں دائیں طرف اور ابو حارث اور ابو عثمان نے بائیں طرف پوزیشن سنبھال لی ، دشمن ہمارے بلکل قریب تھا جس مقام پر میں تھا وہاں وہاں سے تقریبا پچیس گز کے فاصلے پر پتھروں کا مورچہ بنا ہوا تھا جس میں دو روسی فوجی موجود تھے اور اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے ، ہمارے پاس اسلحہ کم تھا اس لئے ہم دیکھ دیکھ کر فائرنگ کر رہے تھے ، دوسری طرف ابو حارث اور ابو عثمان دشمن کے بلکل قریب تھے ان کا انداز بہت جاحانہ تھا گویا کہ وہ جام شہادت کے لئے بے قرار تھے ، تھوڑی دیر کے بعد ابو حارث کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر ابو عثمان جنت میں پہنچ گیا ، میں نے پوچھا کیا ہوا؟ابو حارث نے بتایا کہ جب ہم لڑ رہے تھے تو ابو عثمان نے مجھ سے کہا واللہ مجھے جنت کی خوشبو ان پہاڑوں سے آرہی ہے ، تو میرے دل نے کہا کہ یہ شہید ہونے والا ہے ، ابو حارث نے بتایا کہ ہمارے سامنے جو دشمن تھا وہ پکے مورچہ میں موجود تھا جس کی وجہ سے گولی اثر نہیں کر رہی تھی ، ابو عثمان نے گرنیڈ نکال کر پھینکا وہ مورچہ کے اندر گرنے کی بجائے باہر گر گیا ابو عثمان نے سمجھا کہ اندر گرا ہے ،گرنیڈ کے پھٹنے کے بعد ابو عثمان اٹھ کر دیکھنے لگا تو دشمن کی طرف سے آنے والی گولی اس کے سینے میں لگی جس سے وہ سجدے میں گر گیا جب سجدہ سے اٹھا تو دوسری گولی اس کی پیشانی میں لگی جس وہ شہید ہو گیا ۔ اللہ کریم اس نوجوان کے درجات بلند فرمائے آمین ۔اب میں اور ابو حارث دونوں اپنی اپنی جگہ پر دشمن پہ فائرنگ کر رہے تھے ، ایک گولی میرے کپڑوں کو سراخ کرتی ہوئی گزر گئی ، محبوب غزنی یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے اوپر والے مورچہ سے پوچھا لگی تو نہیں ؟ میں نے کہا کہ نہیں ،اس کے بعد محبوب غزنی میرے پاس آگیا اور کہنے لگا یار اوپر مزہ نہیں آرہا تھا ، اب وہ میرے دائیں طرف آکر متصل بیٹھ گیا اس کے پاس راکٹ لانچر اور میرے پاس کلاشن کوف تھی ، غزنی نے کہا دیکھو میرا نشانہ یہ کہہ کر اس نے ایک راکٹ فائر کیا جو بلکل نشانہ پہ لگا جس سے مورچہ تباہ ہو گیا ، تھوڑی دیر کے بعد ایک راکٹ میری بائیں طرف آکر گرا جس کی وجہ سے میں بھی لیٹ گیا اور غزنی بھی لیٹ گیا ، جب گرد و غبار ختم ہوا تو میں نے غزنی سے پوچھا کہیں لگا تو نہیں تو اس نے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا کہ یہاں لگا ہے ، میں نے دیکھا کہ اس کی گردن اورسینے سے خون کے فوارے نکل رہے ہیں میں پریشان ہوگیا ،محبوب غزنی کہنے لگا کہ یار پریشان کیوں ہوتے ہو اس کے ساتھ اس نے میرے دائیں کندھے پر اپنااپنا ہاتھ اور سر رکھا اور دو مرتبہ اشھدان الاالٰہ الااللہ واشھدان محمدا عبدہ ورسولہ پڑھا اور جام شہادت کرگیا ۔ یہ تقریبا مغرب کے قریب کا وقت تھا بعد میں محمد داود میرے پاس آگیا اور ہم دونوں نے محبوب غزنی کو اٹھایا اور قریب ہی ایک چٹان جس پہ برف جمی ہوئی تھی لٹا دیا ،اور خود قتال میں شریک ہوگے ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ابو حارث زخمی ہو گیا ہے اور اس کی پیشانی سے خون جاری ہے ،ابو حارث مجھے کہنے کہ میری گولیاں ختم ہو گئی ہیں مجھے گولیاں دو میں نے کہا تم پیچھے چلے جاو میں تمہاری جگہ پہ لڑتا ہوں مگر وہ کہتا تھا کہ واللہ جنت قریب ہے تم مجھے پیچھے نہ بھیجو داود بھائی نے بھی بہت اصرار کیا تب وہ مانا اور پیچھے چلا گیا ، میں ابو حارث کی جگہ پہ آگیا میں نے دیکھا کہ یہ دشمن کے قریب ترین جگہ تھی ، اور دشمن کا مورچہ بہت پختہ تھا جس کی وجہ سے اس پہ گولی کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ، میں سوچ رہا تھا کہ کیا کروں اسی اثنا میں ایک چیچن مجاہد میرے پاس آیا اور کہنے لگا کیا بات ہے میں نے اس کو مورچہ دکھایا کہ یہ بہت بڑی رکاوٹ ہے اس نے اپنا خنجر نکالا جس پہ اللہ اکبر لکھا ہوا تھا اور مجھے کہنے لگا میں اس چٹان پر چڑھنے لگا ہوں تم فائرنگ کرو تاکہ دشمن سر نہ اٹھاپائے اور جب میں جنمپ لگاو تو فائرنگ بند کر دینا ، میں نے کہا ٹھیک ہے وہ چٹان پہ چڑھنے لگا تو میں نے فائرنگ تیز کر دی اور جیسے ہی اس نے جنمپ لگایا میں نے فائرنگ بند کردی ، وہ سیدھا مورچے کے اندر گرا اور تقریبا دو منٹ کے بعد وہ کھڑا ہوا تو دشمن کا سر اس کے خنجر پہ لٹکا ہوا تھا جسے دیکھتے ہی میں نے تکبیر بلند کی ، یہ معرکہ تقریبا رات دو بجے تک جاری رہا اور دو بجے تک مجاہدین نے اس چھاونی پر قبضہ کرلیا جس سے پندرہ قیدی اور بہت سارا اسلحہ مال غنیمت میں ہمارے ہاتھ لگا ، جب ہم لڑائی سے فارغ ہوئے تو اپنے دونوں بھائیوں کے نماز جنازہ اور تدفین کے لئے جمع ہوئے جو نماز مغرب سے پہلے شہید ہوئے تھے ، جب ہم نے ان کو اٹھایا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آٹھ گھنٹے برف پر پڑا رہنے کے باوجود ان دونوں شہیدوں کے جسم تروتازہ تھے تھوڑی بہت بھی اکڑاہٹ نہ تھی ، جب ہم نے ان کو اٹھا یا تو ابو عثمان کے ایک پاوں کا جوتا کھل گیا تو ابو حارث فورا ٓگے بڑھا اور کہنے لگا ٹھرو یارو مجھے اسے جوتا پہنانے دو کیونکہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شہید اسی حالت میں اٹھایا جاتا ہے جس حالت میں شہید ہو ، میں نہیں چاہتا کہ کل جب ابو عثمان اپنی قبر سے اٹھے تواس کا ایک پاوں ننگا ہو ، پھر ان دونوں شہیدوں ابوعثمان اور محبوب غزنی کا جنازہ پڑا گیا اور دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا ،
شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے ۔ ۔ لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
اس پوری لڑائی میں ہمارے دو بھائی شہید اور ایک بھائی ابو حارث زخمی ہوئے ، اور دشمن کے تئیس فوجی مارے گے اور پندرہ گرفتار ہوئے َ۔ ۔ ۔
(جاری ہی)
جب روس نے افغانستان پہ ظالمانہ قبضہ کیا اور افغان مسلمانوں کا جینا حرام کردیا ، مسلمان ماں، بہن ، بیٹیوں کی عزتوں کو کھلونا بنا دیا ، ظلم وستم کا بازار گرم کر دیا ۔ ہر روز کوئی نا کوئی ظلم و ستم پر ممبنی داستانِ ظلم سننے کو ملتی ۔جس سے دل ہل جاتا ۔ ۔ ۔ میں اللہ کے دربار میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے ہاتھ بلند کر دیتا اور ساتھ ساتھ یہ بھی دعا کرتا کہ یا اللہ مجھے بھی توفیق دے کہ میں عملی طور پہ جہاد میں حصہ لے سکوں ۔ ۔ ۔ آخر اللہ کریم نے میری دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور میں جہادِ افغانستان میں شامل ہونے کے لئے ماں باپ کی اجازت سے روانہ ہو گیا ۔ میران شاہ کے کے علاقہ سے افغان رہبر کی قیادت میں افغانستان میں داخل ہوئے ، اور خوست کے مقام میں غنڈ سلمان فارسی میں ٹرینگ حاصل کی ٹرینگ کے بعد امیر صاحب نے ہماری تشکیل آخری مورچہ پر جہاں مجاہدین اور روسی فوج کے درمیان لڑائی جاری تھی کر دی ،ہمارا قافلہ پندرہ افراد پہ مشتمل تھا ، ہمارے پاس اسلحہ میں کلاشن کوف ، راکٹ لانچر اور گرنیڈ موجود تھے ، تقریباتین دن کے سفر کے بعد ہم اس مقام پہ پنہچے جہاں ایک طرف روسی فوجی اور دوسری طرف مجاہدین ڈٹے ہوئے تھے ، مجاہدین نے بہت والہانہ انداز میں ہمارا استقبال کیا اور ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے بہت عرصے سے بچھڑے دو بھائی یا دو دوست اچانک مل گئے ہوں کمانڈر صاحب بھی ایسے مل رہے تھے جیسے بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے مل رہا ہو ، سب سے پہلے ہماری آمد پہ نعرہ تکبیر بلند کیا گیا جس کا جواب مجاہد بھائیوں نے دیا اور بہت دیر تک اللہ اکبر کی صدا بلند و بالا پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس ہماری سماعتوں کو جلا بخشتی رہی ، اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے والے چند مجاہد تھے مگر جب یہ صدا بلند و بالا پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آئی تو ایسا لگا کہ جیسے اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ہوں ، تکبیر کے ساتھ ساتھ کلاشن کوف کے برسٹ فضا میں داغے گئے ، عجیب سماں اور عجیب انداز تھا اس استقبال کا ۔ ہمیں ایک مورچہ میں بٹھایا گیا، کہوہ اور خشک روٹی کے ساٹھ ضیافت کی گئی جس کا مزہ اور سرورعجیب تھا ، نماز کے بعد ہمیں کہا گیا کہ آپ لوگ آرام کر لیں ، ا( ان تمام اوقات میں جو چیز سب سے اہم تھی وہ مجاہدین کا نماز اور تہجد کا پابند ہونا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ مجاہدین کا برتاو جو اپنے مجاہد بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے قابلِ رشک ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ اتنا پیار دو سگے بھائیوں کے درمیان بھی نہ ہو گا جو مجاہدین میں ہوتا ہے ، ہر موقعہ پر اپنی ذات پہ اپنے دوسرے بھائی کو ترجیح دینا ، اپنے جزبات و خیالات کو دبا دینا اور اپنے مجاہد بھائی کی بات کو فوقیت دینا ، وہاں تو ہر بندہ ایثار کا پیکر نظر اٹا تھا ،۔
مجاہد عبداللہ کہتے ہیں تین دن کے بعدکمانڈر صاحب نے ہماری تشکیل ایک دوسرے محاذ پر جو افغانستان کے صوبہ تالقان کے علاقہ یلور میں تھا کر دی ،ہم دس مجاہد جن میں بندہ محمد عبداللہ ، محمد دود ، محبوب غزنی ، ابو عثمان، ابوحارث ، ابو شعیب وغیرہ شامل تھے ایک رہبر کی قیادت میں روانہ ہوئے ، اور تین دن کی مسافت کے بعد ہم محاذ پہ پنہچ گئے ، یہ سارا سفر پیدل تھا ، جہاں افغان مجاہدین ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے ، افغان کمانڈر جنت گل ( یہ ایک عظیم کمانڈر اور عظیم انسان تھے بعد میں ایک معرکہ میں شہید ہو گئے ) نے ہمیں کہا کہ آج آپ آرام فرمائیں کل ان شاء اللہ بات ہو گی ، ہم منگل کے دن یلور میں پہنچے تھے ، یلور میں سردی بہت تھی ہر طرف برف ہی برف تھی ، پانی بھی برف گرم کر کے پیتے تھے ، ایک غار کے اندر ہمارا مسکن تھا ، جہاں ہر وقت آگ جلتی رہتی تھی ، اور مجاہدین ایک دوسرے کو تلاوت قرآن ،جہادی ترانے اور اشعار سناتے رہتے تھے ، دوسرے دن یہ طے پایا کہ کل جمعرات کو عصر کی نماز کے بعد دشمن کی چھاونی پر حملہ کیا جائے گا ، اس کے لئے بیس ساتھیوں کا انتخاب کیا گیا جن میں میں یعنی محمد عبداللہ ، محمد دود ، محبوب غزنی ، ابو حارث ، ابو شعیب ، ابو عثمان ،عجب خان ، دریاخان وغیرہ شامل تھے اور ہماری قیادت کمانڈر عجب گل کے ہاتھ میں تھی ، چناچہ دوسرے دن ہم عصر کی نماز سے پہلے مطلوبہ مقام پہ پہنچ گئے جہاں سے روسی فوجی دو سو میٹر کے فاصلے پہ صاف نظر آرہے تھے ، چناچہ دو ساتھیوں کو پہرے پہ بٹھا کر باقی بھائیوں نے نماز عصر ادا کی ، شہادت اور فتح و نصرت کی دعائیں مانگی گئیں ، نماز کے بعد جو دو بھائی پہرے پہ بیٹھے تھے انہوں نے نماز ادا کی ، کمانڈر صاحب نے دو بھائیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ میں جیسے ہی نعرہ تکبیر بلند کروں گا تو تم دشمن پر فائرنگ کرو گے اور ہم دس بھائیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ تم ایک دوسرے کو کورنگ فائرنگ کرتے ہوئے دشمن کی طرف بڑو گئے ، چناچہ جیسے ہی تکبیر بلند ہوئی اس کے ساتھ ہی فائرنگ شروع ہو گئی اور ہم نے دشمن کی طرف بھاگنا شروع کردیا ، سامنے والا مورچہ تو تکبیر سنتے ہی خالی ہو گیا تھا اس مورچہ میں موجود اسلحہ پہ مجاہدین کا قبضہ ہو گیا ، اب ہم نے اپنے ساتھیوں کو تقسیم کر لیا ، مورچہ پہ دود بھائی اور محبوب غزنی کی ڈیوٹی لگی اور ان سے کہا کہ جب تم محسوس کرو تو آگے آجانا ، میں یعنی عبداللہ اور ابو حارث اور ابو عثمان آگے چلے گئے ، میں دائیں طرف اور ابو حارث اور ابو عثمان نے بائیں طرف پوزیشن سنبھال لی ، دشمن ہمارے بلکل قریب تھا جس مقام پر میں تھا وہاں وہاں سے تقریبا پچیس گز کے فاصلے پر پتھروں کا مورچہ بنا ہوا تھا جس میں دو روسی فوجی موجود تھے اور اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے ، ہمارے پاس اسلحہ کم تھا اس لئے ہم دیکھ دیکھ کر فائرنگ کر رہے تھے ، دوسری طرف ابو حارث اور ابو عثمان دشمن کے بلکل قریب تھے ان کا انداز بہت جاحانہ تھا گویا کہ وہ جام شہادت کے لئے بے قرار تھے ، تھوڑی دیر کے بعد ابو حارث کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر ابو عثمان جنت میں پہنچ گیا ، میں نے پوچھا کیا ہوا؟ابو حارث نے بتایا کہ جب ہم لڑ رہے تھے تو ابو عثمان نے مجھ سے کہا واللہ مجھے جنت کی خوشبو ان پہاڑوں سے آرہی ہے ، تو میرے دل نے کہا کہ یہ شہید ہونے والا ہے ، ابو حارث نے بتایا کہ ہمارے سامنے جو دشمن تھا وہ پکے مورچہ میں موجود تھا جس کی وجہ سے گولی اثر نہیں کر رہی تھی ، ابو عثمان نے گرنیڈ نکال کر پھینکا وہ مورچہ کے اندر گرنے کی بجائے باہر گر گیا ابو عثمان نے سمجھا کہ اندر گرا ہے ،گرنیڈ کے پھٹنے کے بعد ابو عثمان اٹھ کر دیکھنے لگا تو دشمن کی طرف سے آنے والی گولی اس کے سینے میں لگی جس سے وہ سجدے میں گر گیا جب سجدہ سے اٹھا تو دوسری گولی اس کی پیشانی میں لگی جس وہ شہید ہو گیا ۔ اللہ کریم اس نوجوان کے درجات بلند فرمائے آمین ۔اب میں اور ابو حارث دونوں اپنی اپنی جگہ پر دشمن پہ فائرنگ کر رہے تھے ، ایک گولی میرے کپڑوں کو سراخ کرتی ہوئی گزر گئی ، محبوب غزنی یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے اوپر والے مورچہ سے پوچھا لگی تو نہیں ؟ میں نے کہا کہ نہیں ،اس کے بعد محبوب غزنی میرے پاس آگیا اور کہنے لگا یار اوپر مزہ نہیں آرہا تھا ، اب وہ میرے دائیں طرف آکر متصل بیٹھ گیا اس کے پاس راکٹ لانچر اور میرے پاس کلاشن کوف تھی ، غزنی نے کہا دیکھو میرا نشانہ یہ کہہ کر اس نے ایک راکٹ فائر کیا جو بلکل نشانہ پہ لگا جس سے مورچہ تباہ ہو گیا ، تھوڑی دیر کے بعد ایک راکٹ میری بائیں طرف آکر گرا جس کی وجہ سے میں بھی لیٹ گیا اور غزنی بھی لیٹ گیا ، جب گرد و غبار ختم ہوا تو میں نے غزنی سے پوچھا کہیں لگا تو نہیں تو اس نے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا کہ یہاں لگا ہے ، میں نے دیکھا کہ اس کی گردن اورسینے سے خون کے فوارے نکل رہے ہیں میں پریشان ہوگیا ،محبوب غزنی کہنے لگا کہ یار پریشان کیوں ہوتے ہو اس کے ساتھ اس نے میرے دائیں کندھے پر اپنااپنا ہاتھ اور سر رکھا اور دو مرتبہ اشھدان الاالٰہ الااللہ واشھدان محمدا عبدہ ورسولہ پڑھا اور جام شہادت کرگیا ۔ یہ تقریبا مغرب کے قریب کا وقت تھا بعد میں محمد داود میرے پاس آگیا اور ہم دونوں نے محبوب غزنی کو اٹھایا اور قریب ہی ایک چٹان جس پہ برف جمی ہوئی تھی لٹا دیا ،اور خود قتال میں شریک ہوگے ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ابو حارث زخمی ہو گیا ہے اور اس کی پیشانی سے خون جاری ہے ،ابو حارث مجھے کہنے کہ میری گولیاں ختم ہو گئی ہیں مجھے گولیاں دو میں نے کہا تم پیچھے چلے جاو میں تمہاری جگہ پہ لڑتا ہوں مگر وہ کہتا تھا کہ واللہ جنت قریب ہے تم مجھے پیچھے نہ بھیجو داود بھائی نے بھی بہت اصرار کیا تب وہ مانا اور پیچھے چلا گیا ، میں ابو حارث کی جگہ پہ آگیا میں نے دیکھا کہ یہ دشمن کے قریب ترین جگہ تھی ، اور دشمن کا مورچہ بہت پختہ تھا جس کی وجہ سے اس پہ گولی کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ، میں سوچ رہا تھا کہ کیا کروں اسی اثنا میں ایک چیچن مجاہد میرے پاس آیا اور کہنے لگا کیا بات ہے میں نے اس کو مورچہ دکھایا کہ یہ بہت بڑی رکاوٹ ہے اس نے اپنا خنجر نکالا جس پہ اللہ اکبر لکھا ہوا تھا اور مجھے کہنے لگا میں اس چٹان پر چڑھنے لگا ہوں تم فائرنگ کرو تاکہ دشمن سر نہ اٹھاپائے اور جب میں جنمپ لگاو تو فائرنگ بند کر دینا ، میں نے کہا ٹھیک ہے وہ چٹان پہ چڑھنے لگا تو میں نے فائرنگ تیز کر دی اور جیسے ہی اس نے جنمپ لگایا میں نے فائرنگ بند کردی ، وہ سیدھا مورچے کے اندر گرا اور تقریبا دو منٹ کے بعد وہ کھڑا ہوا تو دشمن کا سر اس کے خنجر پہ لٹکا ہوا تھا جسے دیکھتے ہی میں نے تکبیر بلند کی ، یہ معرکہ تقریبا رات دو بجے تک جاری رہا اور دو بجے تک مجاہدین نے اس چھاونی پر قبضہ کرلیا جس سے پندرہ قیدی اور بہت سارا اسلحہ مال غنیمت میں ہمارے ہاتھ لگا ، جب ہم لڑائی سے فارغ ہوئے تو اپنے دونوں بھائیوں کے نماز جنازہ اور تدفین کے لئے جمع ہوئے جو نماز مغرب سے پہلے شہید ہوئے تھے ، جب ہم نے ان کو اٹھایا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آٹھ گھنٹے برف پر پڑا رہنے کے باوجود ان دونوں شہیدوں کے جسم تروتازہ تھے تھوڑی بہت بھی اکڑاہٹ نہ تھی ، جب ہم نے ان کو اٹھا یا تو ابو عثمان کے ایک پاوں کا جوتا کھل گیا تو ابو حارث فورا ٓگے بڑھا اور کہنے لگا ٹھرو یارو مجھے اسے جوتا پہنانے دو کیونکہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شہید اسی حالت میں اٹھایا جاتا ہے جس حالت میں شہید ہو ، میں نہیں چاہتا کہ کل جب ابو عثمان اپنی قبر سے اٹھے تواس کا ایک پاوں ننگا ہو ، پھر ان دونوں شہیدوں ابوعثمان اور محبوب غزنی کا جنازہ پڑا گیا اور دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا ،
شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے ۔ ۔ لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
اس پوری لڑائی میں ہمارے دو بھائی شہید اور ایک بھائی ابو حارث زخمی ہوئے ، اور دشمن کے تئیس فوجی مارے گے اور پندرہ گرفتار ہوئے َ۔ ۔ ۔
(جاری ہی)