بالآخر اردو میں بھی بچوں کے لئے کارٹون/کامکس کی ویب سائیٹ کا اجرا ہو گیا۔
آج ہر طرف کتاب کا نہیں بلکہ "ویڈیو" کا چرچا ہے۔ بچوں کے ہاتھوں میں موبائل ہے تو اس میں 3gp ویڈیوز ، نیٹ پر ہیں تو یوٹیوب ویڈیوز ، ٹی۔وی کے سامنے ہیں تو پوگو یا کارٹون نیٹ ورک ۔۔۔
لالہ ! اچھی بات ہے ، ویڈیو دیکھو ضرور مگر ایک بات یہ بھی یاد رکھو کہ اس سے سمعی اور بصری علم تو حاصل ہوگا مگر لکھنے پڑھنے کی صلاحیتیں کچھ زیادہ ابھر نہیں پائیں گی۔
جدید تکنالوجی سے خاطرخواہ استفادہ اچھی بات ہے مگر اس سے ہر قسم کی انسانی صلاحیتوں کو جلا ملنی چاہئے یعنی بولنا ، سننا ، دیکھنا ، سوچنا ، سمجھنا ، پڑھنا ، لکھنا وغیرہ۔
مکی ماؤس ، ٹام اور جیری ، سوپر مین ، اسپائیڈر مین ۔۔۔ کی ویڈیو دیکھنے یا ان کی کامکس پڑھنے میں ایک فرق یہ ہے کہ :
کارٹون/کامکس کو کتاب میں پڑھنے سے آپ کے ذخیرہ الفاظ (vocabulary) میں اضافہ ممکن ہے ، املا اور گرامر میں سدھار آ سکتا ہے ، لکھنے پڑھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ممکن ہے اور بہت ممکن ہے کہ آپ خود بھی آگے چل کر ایک اچھے قلمکار بنیں۔
ویسے ہم اردو والوں میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ شور و غوغا ضرور مچاتے ہیں کہ اردو ختم ہو رہی ہے ، لکھنے پڑھنے والے کم ہو رہے ہیں ۔۔۔۔
ارے تو بھیا ، شور مچانے سے کیا ہوگا؟ وہ محاورہ ہی یاد آئے گا کہ "چور مچائے شور !" لولزز
نئی نسل کو سامنے لائیے انہیں اردو لکھنے پڑھنے کی ترغیب دلائیے ۔۔۔ مگر خدارا وہ والی اردو مت سکھائیں کہ جسے پڑھ کر بندہ ہاتھ میں فرقہ / مسلک / طبقہ / جماعت / گروہ کی ننگی تلوار تھامے "جہادی" بن کر سامنے آئے اور اپنے کاز کو "تبلیغ دین" سے کم کا درجہ دینے تیار نہ ہو ۔۔۔
دوسری طرف ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ بندہ ذرا پڑھ لکھ کر اکبر اعظم کے "دین الٰہی" پر کاربند ہو جائے۔
بین بین راہ بھی تو ہوتی ہے ۔۔۔ جو اعتدال کی راہ ہے۔
اردو کی نئی نسل کو سامنے لانے کے لئے بچوں سے ہی شروعات کی جانی چاہئے۔ اور بچوں کی دلچسپیوں کی کھوج سیدھے کارٹون کہانیوں اور کامکس تک لے جاتی ہے۔ پہلے ہی ہمارے ہاں بچوں کے رسائل گنے چنے نظر آتے ہیں اور اس میں ڈھونڈنے پر بھی شاید ایک آدھ بار کوئی کارٹونی کہانی مل جائے۔ حالانکہ انٹرنیٹ کے اس دور میں انگریزی/ہندی کی کامکس کی اردو ڈبنگ کوئی مشکل کام نہیں۔
بہرحال ۔۔۔ اب اگر بچوں کی کارٹون ویب سائیٹ کی شروعات ہو ہی چکی ہے تو ہمیں اس پر خوشی ہے کہ اس کے ایک مترجم کے طور پر ہماری محنت بھی اس میں شامل ہے۔ مگر ہماری خواہش ہے کہ کچھ مزید لکھنے والے بھی ترجمے کے کام میں ہاتھ بٹائیں تاکہ بچوں کو اردو سکھانے کے اس ذریعے میں تنوع ، انفرادیت اور وسعت پیدا ہو سکے۔
آج ہر طرف کتاب کا نہیں بلکہ "ویڈیو" کا چرچا ہے۔ بچوں کے ہاتھوں میں موبائل ہے تو اس میں 3gp ویڈیوز ، نیٹ پر ہیں تو یوٹیوب ویڈیوز ، ٹی۔وی کے سامنے ہیں تو پوگو یا کارٹون نیٹ ورک ۔۔۔
لالہ ! اچھی بات ہے ، ویڈیو دیکھو ضرور مگر ایک بات یہ بھی یاد رکھو کہ اس سے سمعی اور بصری علم تو حاصل ہوگا مگر لکھنے پڑھنے کی صلاحیتیں کچھ زیادہ ابھر نہیں پائیں گی۔
جدید تکنالوجی سے خاطرخواہ استفادہ اچھی بات ہے مگر اس سے ہر قسم کی انسانی صلاحیتوں کو جلا ملنی چاہئے یعنی بولنا ، سننا ، دیکھنا ، سوچنا ، سمجھنا ، پڑھنا ، لکھنا وغیرہ۔
مکی ماؤس ، ٹام اور جیری ، سوپر مین ، اسپائیڈر مین ۔۔۔ کی ویڈیو دیکھنے یا ان کی کامکس پڑھنے میں ایک فرق یہ ہے کہ :
کارٹون/کامکس کو کتاب میں پڑھنے سے آپ کے ذخیرہ الفاظ (vocabulary) میں اضافہ ممکن ہے ، املا اور گرامر میں سدھار آ سکتا ہے ، لکھنے پڑھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ممکن ہے اور بہت ممکن ہے کہ آپ خود بھی آگے چل کر ایک اچھے قلمکار بنیں۔
ویسے ہم اردو والوں میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ شور و غوغا ضرور مچاتے ہیں کہ اردو ختم ہو رہی ہے ، لکھنے پڑھنے والے کم ہو رہے ہیں ۔۔۔۔
ارے تو بھیا ، شور مچانے سے کیا ہوگا؟ وہ محاورہ ہی یاد آئے گا کہ "چور مچائے شور !" لولزز
نئی نسل کو سامنے لائیے انہیں اردو لکھنے پڑھنے کی ترغیب دلائیے ۔۔۔ مگر خدارا وہ والی اردو مت سکھائیں کہ جسے پڑھ کر بندہ ہاتھ میں فرقہ / مسلک / طبقہ / جماعت / گروہ کی ننگی تلوار تھامے "جہادی" بن کر سامنے آئے اور اپنے کاز کو "تبلیغ دین" سے کم کا درجہ دینے تیار نہ ہو ۔۔۔
دوسری طرف ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ بندہ ذرا پڑھ لکھ کر اکبر اعظم کے "دین الٰہی" پر کاربند ہو جائے۔
بین بین راہ بھی تو ہوتی ہے ۔۔۔ جو اعتدال کی راہ ہے۔
اردو کی نئی نسل کو سامنے لانے کے لئے بچوں سے ہی شروعات کی جانی چاہئے۔ اور بچوں کی دلچسپیوں کی کھوج سیدھے کارٹون کہانیوں اور کامکس تک لے جاتی ہے۔ پہلے ہی ہمارے ہاں بچوں کے رسائل گنے چنے نظر آتے ہیں اور اس میں ڈھونڈنے پر بھی شاید ایک آدھ بار کوئی کارٹونی کہانی مل جائے۔ حالانکہ انٹرنیٹ کے اس دور میں انگریزی/ہندی کی کامکس کی اردو ڈبنگ کوئی مشکل کام نہیں۔
بہرحال ۔۔۔ اب اگر بچوں کی کارٹون ویب سائیٹ کی شروعات ہو ہی چکی ہے تو ہمیں اس پر خوشی ہے کہ اس کے ایک مترجم کے طور پر ہماری محنت بھی اس میں شامل ہے۔ مگر ہماری خواہش ہے کہ کچھ مزید لکھنے والے بھی ترجمے کے کام میں ہاتھ بٹائیں تاکہ بچوں کو اردو سکھانے کے اس ذریعے میں تنوع ، انفرادیت اور وسعت پیدا ہو سکے۔