آنگڑائی بھی وہ لینے نہ پاے اٹھا کے ہاتھ : نظام رامپوری

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
آنگڑائی بھی وہ لینے نہ پاے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دے مسکرا کے ہاتھ

یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگایں غیر
اور اسکی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ

قاصد ترے بیان سے دل ایسا ٹہر گیا
گویا کہ کسی نے رکه دیا سینے پے آکے ہاتھ

کوچہ سے تیرے اٹھیں تو پھر جاہیں ہم کہاں
بیٹھے ہیں یاں تو دونو جہاں سے اٹھا کے ہاتھ

دینا وہ اسکا ساغر مے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر ادھر کو ،ادھر کو بڑھا کے ہاتھ


نظام رامپوری​
 

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
محاکاتی حکایت سے ماخوذ ہے۔اس کا مطلب ہوتاہے واقعہ کی ہوبہوتصویر کھینچ دینا۔
انگڑائی والا شعر پڑھیں اورپھر غورکریں کہ کیااس میں واقعتا اس کی تصویر نہیں کھینچی گئی ہے کہ انگڑائی لیتے ہوئے جب محبوب سامنے ہوتوکیاہوتاہے۔ اسی طرح حسرت کی وہ غزل ننگے پائوں آنایاد ہے محاکاتی شعر
شعر کی بہترین مثال ہے
 
Top