منکرِ قرآن وحدیث غلام احمد پرویز
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کو دو قسم کے لوگوں نے ہمیشہ سخت نقصان پہنچایاہے‘ ایک کفار ومشرکین جن میں یہود وہنود اور نصاریٰ اورتمام
ملت کفر شامل ہے‘ اور دوسرے ملحدین یعنی وہ لوگ جو دل سے منافقین اور دشمنانِ اسلام ہوتے ہوئے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں
دینِ حق کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں‘ پہلے والے گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اسلام کے کھلے دشمن ہوتے ہیں‘ان
کی دشمنی‘ ان کا وار اور ان کا خبثِ باطن کھل کر سامنے آتاہے اور ان سے بچاؤ کی تدبیر بھی نسبتاً آسان ہوتی ہے‘ جبکہ مؤخر الذکر دشمنانِ
اسلام کا ظاہری حال چونکہ مسلمانوں جیسا ہوتا ہے‘ بلکہ کبھی اپنے آپ کو ظلِ نبی اور کبھی اہلِ قرآن وغیرہ بتاکر پکے مسلمان ہونے کا
دعویٰ کرتے ہیں‘ لہذا ان کی اسلام دشمنی ‘ ریشہ دوانیاں اور خبثِ باطن بھی کھل کر سامنے نہیں آتا اور یہ لوگ مارے آستین بن کر مسلمانوں
کو ڈستے رہتے ہیں۔ برٹش حکومت کے محکمہٴ انفارمیشن کے ایک وفادار ملازم چوہدری غلام احمد پرویز نے اپنے ملحدانہ سفر کا آغاز اس
خطہ کے اکابر علمأ حق کے خلاف اپنی تند وتیز بلکہ سوقیانہ تحریروں سے کیا‘ اور پھر آہستہ آہستہ احادیثِ رسول اکرم ا پر ہاتھ صاف کیا‘
ابتداء میں چونکہ وہ اپنے آپ کو مسٹر محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا شیدائی اور ان کے طریق پر کار بند ظاہر کرتے ہوئے اپنے آپ کو
صحیح خادمِ دین گردانتا تھا‘ اس لئے اس کا دجل مسلمانوں پر فوراً واضح نہ ہو سکا‘ مگر علمأ حق نے جلدہی اس کا علمی تعاقب کیا اور اس
کے دجل وفسوں کا پردہ چاک کیا۔
پرویز کا خبثِ باطن اس وقت کھل کر سامنے آیا جب اس نے احادیثِ رسول اکرم ا کا انکار کیا اور بے باکانہ انداز میں برملا اظہار کیا کہ
احادیث‘ قرآن کے خلاف عجمی سازش ہیں‘ اور یہ رسولِ اکرم (صلعم) کے دوسو سال بعد مرتب ہوئی ہیں‘ لہذا یہ ناقابلِ اعتبار ہیں‘ یہاں تک کہ
پرویز نے ”اصح الکتب بعد کتاب اللہ“ (بخاری شریف) کے بارے میں بکواس کردی کہ: چنانچہ اس باطل نظریہ کے بموجب وہ منکرِ حدیث کے
نام سے مشہور ہوا‘ اب جب بھی کہیں منکرِ حدیث کا ذکر آتاہے تو پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذہنوں میں پرویز کا مکروہ چہرہ آجاتاہے۔
پرویز اینڈ کمپنی چونکہ اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے ہیں جس سے یہ تأثر ملتا ہے کہ وہ قرآنی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہیں‘ لہذا عوام
الناس کے ذہنوں میں یہ ایک عام تأثر پیدا ہوتا ہے کہ پرویز صرف منکرِ حدیث ہے اور وہ قرآنی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہے۔ لہذا ہم یہ
صراحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پرویز جس طرح منکرِ حدیث ہے‘ اسی طرح وہ منکرِ قرآن بھی ہے‘ کیونکہ اس نے قرآنی آیات کے
متعین اور متوارث معانی ومفاہیم کو بدل کر ان کو اپنا وضع کردہ لباس پہنایا ہے‘ اس کے نزدیک کلمہ‘ نماز‘ زکوٰة‘ روزہ‘ حج‘قربانی وغیرہ کے
وہ معنیٰ نہیں ہیں جوکہ مسلمانوں میں عہد نبوی سے لے کر تاحال مشہور ومتعارف ہیں‘ بلکہ اصل معانی وہ ہیں جو تیرہ سو برس بعد صرف
غلام احمد پرویز کو سمجھنا نصیب ہوئے ہیں اور جن سے آج تک پوری امت مسلمہ بے گانہ اور بے خبر رہی ہے‘ ذیل میں غلام احمد پرویز
کی تصانیف کے اقتباسات کی روشنی میں اس کے باطل نظریات کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے‘ تاکہ مسلمان اپنے آپ کو اور اپنے دوست
احباب کو اس مارّ آستین سے بچانے کی کوشش کرے۔
،،،
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کو دو قسم کے لوگوں نے ہمیشہ سخت نقصان پہنچایاہے‘ ایک کفار ومشرکین جن میں یہود وہنود اور نصاریٰ اورتمام
ملت کفر شامل ہے‘ اور دوسرے ملحدین یعنی وہ لوگ جو دل سے منافقین اور دشمنانِ اسلام ہوتے ہوئے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں
دینِ حق کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں‘ پہلے والے گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اسلام کے کھلے دشمن ہوتے ہیں‘ان
کی دشمنی‘ ان کا وار اور ان کا خبثِ باطن کھل کر سامنے آتاہے اور ان سے بچاؤ کی تدبیر بھی نسبتاً آسان ہوتی ہے‘ جبکہ مؤخر الذکر دشمنانِ
اسلام کا ظاہری حال چونکہ مسلمانوں جیسا ہوتا ہے‘ بلکہ کبھی اپنے آپ کو ظلِ نبی اور کبھی اہلِ قرآن وغیرہ بتاکر پکے مسلمان ہونے کا
دعویٰ کرتے ہیں‘ لہذا ان کی اسلام دشمنی ‘ ریشہ دوانیاں اور خبثِ باطن بھی کھل کر سامنے نہیں آتا اور یہ لوگ مارے آستین بن کر مسلمانوں
کو ڈستے رہتے ہیں۔ برٹش حکومت کے محکمہٴ انفارمیشن کے ایک وفادار ملازم چوہدری غلام احمد پرویز نے اپنے ملحدانہ سفر کا آغاز اس
خطہ کے اکابر علمأ حق کے خلاف اپنی تند وتیز بلکہ سوقیانہ تحریروں سے کیا‘ اور پھر آہستہ آہستہ احادیثِ رسول اکرم ا پر ہاتھ صاف کیا‘
ابتداء میں چونکہ وہ اپنے آپ کو مسٹر محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا شیدائی اور ان کے طریق پر کار بند ظاہر کرتے ہوئے اپنے آپ کو
صحیح خادمِ دین گردانتا تھا‘ اس لئے اس کا دجل مسلمانوں پر فوراً واضح نہ ہو سکا‘ مگر علمأ حق نے جلدہی اس کا علمی تعاقب کیا اور اس
کے دجل وفسوں کا پردہ چاک کیا۔
پرویز کا خبثِ باطن اس وقت کھل کر سامنے آیا جب اس نے احادیثِ رسول اکرم ا کا انکار کیا اور بے باکانہ انداز میں برملا اظہار کیا کہ
احادیث‘ قرآن کے خلاف عجمی سازش ہیں‘ اور یہ رسولِ اکرم (صلعم) کے دوسو سال بعد مرتب ہوئی ہیں‘ لہذا یہ ناقابلِ اعتبار ہیں‘ یہاں تک کہ
پرویز نے ”اصح الکتب بعد کتاب اللہ“ (بخاری شریف) کے بارے میں بکواس کردی کہ: چنانچہ اس باطل نظریہ کے بموجب وہ منکرِ حدیث کے
نام سے مشہور ہوا‘ اب جب بھی کہیں منکرِ حدیث کا ذکر آتاہے تو پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذہنوں میں پرویز کا مکروہ چہرہ آجاتاہے۔
پرویز اینڈ کمپنی چونکہ اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے ہیں جس سے یہ تأثر ملتا ہے کہ وہ قرآنی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہیں‘ لہذا عوام
الناس کے ذہنوں میں یہ ایک عام تأثر پیدا ہوتا ہے کہ پرویز صرف منکرِ حدیث ہے اور وہ قرآنی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہے۔ لہذا ہم یہ
صراحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پرویز جس طرح منکرِ حدیث ہے‘ اسی طرح وہ منکرِ قرآن بھی ہے‘ کیونکہ اس نے قرآنی آیات کے
متعین اور متوارث معانی ومفاہیم کو بدل کر ان کو اپنا وضع کردہ لباس پہنایا ہے‘ اس کے نزدیک کلمہ‘ نماز‘ زکوٰة‘ روزہ‘ حج‘قربانی وغیرہ کے
وہ معنیٰ نہیں ہیں جوکہ مسلمانوں میں عہد نبوی سے لے کر تاحال مشہور ومتعارف ہیں‘ بلکہ اصل معانی وہ ہیں جو تیرہ سو برس بعد صرف
غلام احمد پرویز کو سمجھنا نصیب ہوئے ہیں اور جن سے آج تک پوری امت مسلمہ بے گانہ اور بے خبر رہی ہے‘ ذیل میں غلام احمد پرویز
کی تصانیف کے اقتباسات کی روشنی میں اس کے باطل نظریات کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے‘ تاکہ مسلمان اپنے آپ کو اور اپنے دوست
احباب کو اس مارّ آستین سے بچانے کی کوشش کرے۔
،،،