پرویزیت کیا ہے،

بے باک

وفقہ اللہ
رکن
منکرِ قرآن وحدیث غلام احمد پرویز




تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کو دو قسم کے لوگوں نے ہمیشہ سخت نقصان پہنچایاہے‘ ایک کفار ومشرکین جن میں یہود وہنود اور نصاریٰ اورتمام

ملت کفر شامل ہے‘ اور دوسرے ملحدین یعنی وہ لوگ جو دل سے منافقین اور دشمنانِ اسلام ہوتے ہوئے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں

دینِ حق کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں‘ پہلے والے گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اسلام کے کھلے دشمن ہوتے ہیں‘ان

کی دشمنی‘ ان کا وار اور ان کا خبثِ باطن کھل کر سامنے آتاہے اور ان سے بچاؤ کی تدبیر بھی نسبتاً آسان ہوتی ہے‘ جبکہ مؤخر الذکر دشمنانِ

اسلام کا ظاہری حال چونکہ مسلمانوں جیسا ہوتا ہے‘ بلکہ کبھی اپنے آپ کو ظلِ نبی اور کبھی اہلِ قرآن وغیرہ بتاکر پکے مسلمان ہونے کا

دعویٰ کرتے ہیں‘ لہذا ان کی اسلام دشمنی ‘ ریشہ دوانیاں اور خبثِ باطن بھی کھل کر سامنے نہیں آتا اور یہ لوگ مارے آستین بن کر مسلمانوں

کو ڈستے رہتے ہیں۔ برٹش حکومت کے محکمہٴ انفارمیشن کے ایک وفادار ملازم چوہدری غلام احمد پرویز نے اپنے ملحدانہ سفر کا آغاز اس

خطہ کے اکابر علمأ حق کے خلاف اپنی تند وتیز بلکہ سوقیانہ تحریروں سے کیا‘ اور پھر آہستہ آہستہ احادیثِ رسول اکرم ا پر ہاتھ صاف کیا‘
ابتداء میں چونکہ وہ اپنے آپ کو مسٹر محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا شیدائی اور ان کے طریق پر کار بند ظاہر کرتے ہوئے اپنے آپ کو

صحیح خادمِ دین گردانتا تھا‘ اس لئے اس کا دجل مسلمانوں پر فوراً واضح نہ ہو سکا‘ مگر علمأ حق نے جلدہی اس کا علمی تعاقب کیا اور اس

کے دجل وفسوں کا پردہ چاک کیا۔


پرویز کا خبثِ باطن اس وقت کھل کر سامنے آیا جب اس نے احادیثِ رسول اکرم ا کا انکار کیا اور بے باکانہ انداز میں برملا اظہار کیا کہ

احادیث‘ قرآن کے خلاف عجمی سازش ہیں‘ اور یہ رسولِ اکرم (صلعم) کے دوسو سال بعد مرتب ہوئی ہیں‘ لہذا یہ ناقابلِ اعتبار ہیں‘ یہاں تک کہ

پرویز نے ”اصح الکتب بعد کتاب اللہ“ (بخاری شریف) کے بارے میں بکواس کردی کہ: چنانچہ اس باطل نظریہ کے بموجب وہ منکرِ حدیث کے

نام سے مشہور ہوا‘ اب جب بھی کہیں منکرِ حدیث کا ذکر آتاہے تو پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذہنوں میں پرویز کا مکروہ چہرہ آجاتاہے۔

پرویز اینڈ کمپنی چونکہ اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے ہیں جس سے یہ تأثر ملتا ہے کہ وہ قرآنی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہیں‘ لہذا عوام

الناس کے ذہنوں میں یہ ایک عام تأثر پیدا ہوتا ہے کہ پرویز صرف منکرِ حدیث ہے اور وہ قرآنی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہے۔ لہذا ہم یہ

صراحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پرویز جس طرح منکرِ حدیث ہے‘ اسی طرح وہ منکرِ قرآن بھی ہے‘ کیونکہ اس نے قرآنی آیات کے

متعین اور متوارث معانی ومفاہیم کو بدل کر ان کو اپنا وضع کردہ لباس پہنایا ہے‘ اس کے نزدیک کلمہ‘ نماز‘ زکوٰة‘ روزہ‘ حج‘قربانی وغیرہ کے

وہ معنیٰ نہیں ہیں جوکہ مسلمانوں میں عہد نبوی سے لے کر تاحال مشہور ومتعارف ہیں‘ بلکہ اصل معانی وہ ہیں جو تیرہ سو برس بعد صرف

غلام احمد پرویز کو سمجھنا نصیب ہوئے ہیں اور جن سے آج تک پوری امت مسلمہ بے گانہ اور بے خبر رہی ہے‘ ذیل میں غلام احمد پرویز

کی تصانیف کے اقتباسات کی روشنی میں اس کے باطل نظریات کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے‘ تاکہ مسلمان اپنے آپ کو اور اپنے دوست

احباب کو اس مارّ آستین سے بچانے کی کوشش کرے۔

،،،
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
الحمد للہ بہت ہی پر مغز مراسلہ ہے
مزید قسطوں کا انتظار رہے گا۔
 

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
بہت ہی دلچسپ و مفید ہے ۔۔۔جزاک اللہ
مجھے حیرانی ہوتی ہے سب پڑھ کے اور جان کے کیسے کیسے فتنے ہیں
اللہ سبکو بچا کے رکھے ۔۔آمین
 

بے باک

وفقہ اللہ
رکن
ماہنامہ بینات سے جو جامعہ العلوم الاسلامیہ ، کراچی سے شائع ہوا یہاں سے یہ مضمون لیا گیا ہے ،
اس کا لنک یہ ہے
فتنہٴ پرویزیت!

اس پُر آشوب دور میں علمی وعملی فتنوں کا سیلاب ہرطرف سے امڈ رہا ہے ، کوئی گوشہ ایسا نہیں رہا جہاں سے کسی نہ کسی فتنہ کا چشمہ نہ ابلتا ہو،اور جس طرح اسلامی حکومتوں کے خلاف تمام طاغوتی طاقتیں متحد ہوکر تہیہ کر چکی ہیں کہ ان اسلامی دولتوں کو صفحہ ٴ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹادیں اسی طرح یہ حکومتیں گمراہ کن افکار کے ذریعہ اس کی جد وجہد میں مصروف ہیں کہ کسی طرح دین اسلام کے کسی بھی خد وخال کو صحیح باقی نہ رہنے دیا جائے۔ بڑی بڑی نامور حکومتیں اونچی سطح پر اس تدبیر میں مشغول ہیں کہ کسی طرح اسلامی شعائر اور اسلامی خصوصیات مٹ جائیں۔ بڑی بڑی خطیر رقمیں اس کام کے لئے نکالی جارہی ہیں اور ایسے مشہور ملحدین جو مستشرقین کی تربیت میں اپنے استادوں سے بھی گوئے سبقت لے جاچکے ہیں ان کو منتخب کرکے ان کے ذریعہ یہ کام کیا جارہا ہے، ان ملعون طاغوتی طاقتوں کو اصل دشمنی دینِ اسلام سے ہے، اگر وہ اسلامی حکومتوں کو ختم نہ کر سکیں تو پھر اس کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ ان ملکوں سے صحیح اسلام کی روح نکال دیں، اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے دو محاذوں پر بڑی تیزی کے ساتھ کام کیا جارہا ہے۔
ایک یہ کہ نئی نسل جو دینی اقدار، دینی عقائد اور دینی مسائل سے ناآشنا ہے، اس کے سامنے اسلام کی ایسی تعبیر کی جائے کہ اگر کسی کفر صریح پر اسلامی لیبل لگا دیا جائے تو وہ اسی کو اسلام سمجھنے لگے ۔ دوسری طرف اہلِ حق اور اربابِ دین میں مختلف ذرائع سے اتنا شدید اختلاف وانتشار پیدا کردیا جائے کہ ان کی قوت مفلوج ہوکر رہ جائے۔ ظاہر ہے کہ جب ملحدین کو ٹوکنے والے کسی اور دھندے میں مشغول ہوں گے تو اسلام کو ذبح کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں آئے گا۔
اعدائے اسلام کی ریشہ دوانیوں کا سبب
درحقیقت اعدائے اسلام کی ریشہ دوانیوں کا سبب تمام اسلامی ممالک میں (پاکستان ہو یا انڈیا، مصر ہو یا مراکش والجزائر) مسلمانوں کی غفلت اور اسلام سے تعلق کی کمی ہے، کسی جگہ نہ دینِ اسلام کی علمی روح باقی رہی نہ عملی قالب سالم وباقی رہا، پھر برائے نام اسلام کا جو بھی حشر ہو زیادہ مستبعد نہیں، پھر ان سب پر مستزاد یہ فتنہ ہے کہ اسلام کے نادان دوست نہ معلوم نادانستہ یا دانستہ کسی خود غرضی کی بناء پر خدمتِ اسلام کے نام پر اسلام کی جڑیں اکھاڑرہے ہیں۔ فیا غربة الاسلام! فتنہ ٴ انکار ِ حدیث (فتنہ ٴ پرویزیت)
کسے معلوم نہیں کہ فتنہ انکارِ ختم نبوت کے بعد اس سرزمین میں سب سے بڑا فتنہ انکارِ حدیث کا پیدا ہوا جو عام طور سے فتنہ ٴ پرویزیت کے نام سے معروف ہے اور جس نے اسلام کے بنیادی اصول تمام مسائل کو مجروح کرنے کی کوشش کی، عقائد، عبادات، اخلاق، اعمال، شعائر، اسلامی معاشرت، اسلامی اقتصادی نظام وغیرہ کسی چیز کو بھی نہیں چھوڑا جس کو مجروح نہ کیا ہو اور اپنے زعمِ باطل میں اسے ختم نہ کیا ہو، آخر مجبور ہوکر علماء حق نے اپنی مسئولیت کے پیش نظر ان کفریات سے نقاب اٹھایا اور حق کو واضح کیا۔
سکندر مرزا آنجہانی کے عہدِ حکومت میں ۵۸ء میں جو کلوکیم لاہور میں ہوا تھا اور تمام اسلامی ملکوں کے اربابِ علم موجود تھے جب پرویز کے مقالات سامنے آئے تو مصری، شامی اور مغربی وغیرہ تمام اہلِ علم نے ان کے خلاف متفقہ آواز اٹھائی کہ یہ صریح کفر ہے اور اسلام کے نام پر یہ صریح کفر قابل برداشت نہیں، اس موقعہ پر غلام احمد پرویز کی جو رسوائی ہوئی وہ اپنی نظیر آپ تھی، جس کی وجہ سے سکندر مرزا کا سارا کھیل ناکام رہا اور اس طرح پاکستان کے لاکھوں روپے غارت ہوگئے، اس ناکامی کے بعد امریکن فاؤنڈیشن کمیٹی نے فوراً ہی دوسرا کلوکیم کراچی میں منعقد کرلیا، لیکن اس کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، لیکن افسوس اور صد افسوس! کہ آج دوبارہ بعض اربابِ قلم جن پر حسنِ ظن بھی رہتا ہے نہ معلوم کیوں خامہ فرسائی کررہے ہیں کہ پرویز سے اختلاف فروعی ہے اور علماء کو تکفیر کا فتویٰ واپس لے لینا چاہئے، اور کسی جدید تالیف میں چند باتیں اپنے مزاج کی دیکھ کر اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوگئے انا للہ! پرویز صاحب کی یہ نئی کتاب جس سے متاثر ہوکر ہمارے بعض اربابِ قلم علماء کو فتویٰ واپس لینے کا مشورہ دے رہے ہیں، ابھی تک ہماری نظر سے نہیں گذری۔ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں اسلام کے بارے میں کیا کچھ لکھا گیا ہوگا، تاہم فرض کر لیجئے کہ یہ کتاب صحیح حقائق سے لبریز بھی ہو اور کوئی بات اس میں کفر کی نہ بھی ہو ، لیکن جب تک تمام سابق ریکارڈ کی، جو کفریات سے مالا مال ہے،مسٹر پرویز تردید نہ کریں تو ایک کتاب میں چند اچھی باتیں لکھ دینے کو کیسے رجوع الی الحق سمجھ لیا جائے؟ کیا اربابِ کفر اور دشمنانِ اسلام تمام باتیں کفر کی کرتے ہیں؟ نہیں بلکہ بسا اوقات اچھے اچھے حقائق بھی ظاہر کرتے ہیں، کائنات اور کونیات ربانیہ کے اسرار ورموز خفیہ ظاہر کرتے ہیں اور اس کائنات کے حقائقِ باطنیہ سے پردے اٹھاکر تمام عالم کو ان سے روشناس کراتے ہیں، لیکن یہ حقائق اپنی جگہ اور ان کا کفر اور کفریہ کارنامے اپنی جگہ، کیا ضروری ہے کہ جھوٹا آدمی ہربات جھوٹی ہی کیا کرے؟ ہرگز نہیں! تو پھر چند باتوں کے پسند آنے سے سابق کی تمام غلط باتیں کیسے صحیح ہوجائیں گی؟
پرویزی تحقیقاتِ ملحدانہ پر ایک نظر
ہم یہاں مسٹر پرویز کے بحر الحاد کے چند قطرے پیش کرتے ہوئے اہل عقل وانصاف سے اپیل کرتے ہیں کہ براہ کرم! ان ”پرویزی تحقیقات“ پر دوبارہ نظر ڈالیں اور پھر خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ کیا یہ فروعی مسائل ہیں یا اسلام کے بنیادی اصولی اساسی مسائل ہیں؟ جن کی جڑوں پر مسٹر پرویز نے تیشہ چلاکر شجرِ اسلام کو کاٹنے کی کوشش کی ہے، حوالہ جات بغرض اختصار نہیں دیئے، مکمل تفصیلات کے لئے مدرسہ عربیہ اسلامیہ کی شائع کردہ کتاب ”علماء امت کا متفقہ فتویٰ“ پرویز کافر ہے“ کا مطالعہ کیا جائے۔
۱…”قرآن کریم میں جہاں اللہ ورسول ا کا ذکر آیا ہے، اس سے مراد مرکز نظامِ حکومت ہے“۔
۲…”رسول کو قطعاً یہ حق نہیں کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے“۔
۳…”رسول کی اطاعت نہیں، کیونکہ وہ زندہ نہیں“۔
۴…”ختم نبوت“ سے مراد یہ ہے کہ اب دنیا میں انقلاب شخصیتوں کے ہاتھوں نہیں، بلکہ تصورات کے ذریعہ رونما ہواکرے گا۔ اب سلسلہ ٴ نبوت ختم ہوگیا ہے، اسکے معنی یہ ہیں کہ اب انسانوں کو اپنے معاملات کے فیصلے آپ کرنے ہوں گے الخ“۔ ۵…”اب رہا یہ سوال کہ اگر اسلام میں ذاتی ملکیت نہیں تو پھر قرآن میں وراثت وغیرہ کے احکام کس لئے دیئے گئے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن انسانی معاشرے کو عبوری دور کے لئے بھی ساتھ کے ساتھ راہنمائی دیتا چلا جاتا ہے، ورثہ، قرضہ، لین دین اور خیرات سے متعلق احکام عبوری دور سے متعلق ہیں“۔
۶…”صحیح قرآنی خطوط پر قائم شدہ مرکزِ ملت اور اس کی مجلس شوریٰ کا حق ہے کہ وہ قرآنی اصول کی روشنی میں صرف ان جزئیات کو مرتب کرے، جن کی قرآن نے کوئی تصریح نہیں کی، پھر یہ جزئیات ہر زمانہ میں ضرورت پر تبدیل کی جاسکتی ہیں، یہی اپنے زمانہ کے لئے شریعت ہیں۔
۷…”جن اصول کا میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے وہ قانون اور عبادت دونوں پر منطبق ہوگا، نماز کی کسی جزئ شکل میں جس کا تعین قرآن نے نہیں کیا، اپنے زمانے کے کسی تقاضے کے ماتحت کچھ رد وبدل ناگزیر سمجھے تو وہ ایسا کرنے کی اصولاً مجاز ہوگی الخ“۔
۸…مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھنے کے لئے جو سازش کی گئی اس کی پہلی کڑی یہ عقیدہ پیدا کرنا تھا کہ رسول کو اس وحی کے علاوہ جو قرآن میں محفوظ ہے ایک اور وحی بھی دی گئی تھی، یہ وحی روایات میں ملتی ہے، دیکھتے دیکھتے روایات کا ایک انبار جمع ہوگیا اور اسے اتباعِ سنت ِرسول اللہ قرار دے کرامت کو اس میں الجھادیا، یعنی یہ جھوٹ مسلمانوں کا مذہب بن گیا، وحی غیر متلو اس کا نام رکھ کر اسے قرآن کے ساتھ قرآن کی مثل ٹھیرادیاگیا، ان احادیث مقدسہ کے جو حدیث کی صحیح ترین کتابوں میں محفوظ ہیں اور جو ملاّ کی غلط نگہی اور کوتاہ اندیشی سے ہمارے دین کا جز بن رہی ہیں، سلام علیک کیجئے اور ہاتھ ملا لیجئے، جنت مل گئی، دو مسلمان جب مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ انہیں بخش دیتا ہے، اب مسجد میں چلئے اور وضو کیجئے، جنت حاضر ہے الخ“۔
۹…”اور آج جو اسلام دنیا میں مروج ہے وہ زمانہ قبل از قرآن کا مذہب ہو تو ہو، قرآنی دین سے اس کا کوئی واسطہ نہیں الخ“۔
۱۰…”خدا عبارت ہے ان صفات ِ عالیہ سے جنہیں اپنے اندر منعکس کرنا چاہتا ہے، اس لئے قوانین ِ خداوندی کی اطاعت درحقیقت انسان کی اپنی فطرت ِ عالیہ کے نوامیس کی اطاعت ہے“۔
۱۱…”قرآن ماضی کی طرف نگاہ رکھنے کے بجائے ہمیشہ مستقبل کو سامنے رکھنے کی تاکید کرتا ہے، اسی کا نام ایمان بالآخرت ہے“۔
۱۲…”بہرحال مرنے کے بعد کی جنت اور جہنم مقامات نہیں، انسانی ذات کی کیفیات ہیں“۔
۱۳…”ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب کرتے ہیں، ملائکہ کے آدم کے سامنے جھکنے سے مراد یہ ہے کہ یہ قوتیں جنہیں انسان مسخر کرسکتا ہے، انہیں انسان کے سامنے جھکاہوا رہنا چاہئے الخ“۔
۱۴…”آدم کوئی خاص فرد نہیں تھا، بلکہ انسانیت کا تمثیلی نمائندہ تھا، قصہ آدم کسی خاص فرد کا قصہ نہیں، بلکہ خود آدمی کی داستان ہے جسے قرآن نے تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے الخ“۔
۱۵…”رسول اکرم ا کو قرآن کے سوا کوئی معجزہ نہیں دیاگیا“۔
۱۶…”واقعہ ٴ اسراء“ اگر یہ خواب کا نہیں تو یہ حضور کی شبِ ہجرت کا بیان ہے، اس طرح مسجد اقصیٰ سے مراد مدینہ کی مسجد نبوی ہوگی جسے آپ نے وہاں جاکر تعمیر فرمایا“۔
۱۷…”مجوسی اساورہ نے یہ سب کچھ اس خاموشی سے کیا کہ کوئی بھانپ نہ سکا، انہوں نے ”تقدیر“ کے مسئلے کو اتنی اہمیت دی کہ اسے مسلمانوں میں جزء ایمان بنادیا“۔
۱۸…”اب ہماری صلاة وہی ہے جومذہب میں پوجا پاٹ یا ایشور بھگتی کہلاتی ہے، روزے وہی ہیں جنہیں مذہب میں برت کہتے ہیں، زکوٰة وہی شے ہے جسے مذہب دان خیرات کرکے پکارتا ہے، ہمارا حج مذہب کی یا تراہے، آپ نے دیکھا کہ کس طرح دین (نظام زندگی) یکسر مذہب بن کررہ گیا، ان امور کو نہ افادیت سے کچھ تعلق ہے نہ عقل وبصیرت سے کچھ واسطہ الخ“۔
۱۹…”قرآن کریم نے نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہا بلکہ قیامِ صلاة یعنی نماز کے نظام کے قیام کا حکم دیا ہے، عجم میں مجوسیوں کے ہاں پرستش کی رسم کو نماز کہا جاتا تھا، لہذا صلاة کی جگہ نماز نے لے لی الخ“۔
۲۰…”زکوٰة اس ٹیکس کے علاوہ اور کچھ نہیں جو اسلامی حکومت مسلمانوں پر عائد کرے، اس ٹیکس کی کوئی شرح متعین نہیں کی گئی الخ“۔
۲۱…”حج عالم اسلامی کی بین الملی کانفرنس کا نام ہے، اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کے خورد ونوش کے لئے جانور ذبح کرنے کا ذکر قرآن میں ہے الخ“۔
۲۲…”یہ عقیدہ کہ بلا سمجھے قرآن کے الفاظ دہرانے سے ثواب ہوتا ہے، یکسر غیر قرآنی عقیدہ ہے، یہ عقیدہ درحقیقت عہد سحر کی یادگار ہے“۔
یہ چند کفریات ”مشتے نمونہ از خروارے“ کے طور پر ذکر کئے گئے، ان کے حوالہ جات اور پوری تفصیل اور ان کے جوابات اور جوابات کی تصدیق پر علماء امت کے دستخطوں کے لئے مکمل اور مفصل کتابی صورت میں فتویٰ ملاحظہ فرمائیں۔ خدارا مسٹر پرویز کی ان تصریحات کو سامنے رکھ کربتایئے کہ اللہ ورسول، اطاعتِ اللہ ورسول، جنت، دوزخ، یوم آخرت، ختم نبوت، نماز، روزہ، زکوٰة، حج، تلاوتِ قرآن، قربانی اور تقدیر سے انکار، شریعتِ اسلامیہ کے منسوخ ہونے کا دعویٰ، احکامِ قرآنی محض عبوری دور کے لئے تھے، اب ان کا حکم باقی نہیں، وراثت، خیرات وصدقہ وغیرہ وغیرہ تمام احکام وقتی تھے، اب مرکزِ ملت کو اختیار ہے کہ جو فیصلہ صادر کرے، حق ہے۔ انا للہ! آخر اسلام کی کون سی چیز باقی رہ گئی، جس پر مسٹر پرویز نے ہاتھ صاف نہ کیا ہو، حدیث عجمی سازش ہے، حدیث کا انبار بے معنی چیز ہے اور اب جو اسلام مسلمانوں کے پاس ہے وہ سب ”افسانہٴ ٴ عجم“ ہے، وغیر ذلک من الہفوات والاکاذیب۔
بتایئے! کیا یہ مسائل فروعی مسائل ہیں؟ اور اگر یہ فروعی مسائل ہیں تو اصولی مسائل کیا ہوں گے؟ اور کیا تکفیر کبھی بھی فروعی مسائل کے انکار سے ہوتی ہے؟قرآن ، حدیث، تمام عبادات، تمام احکامِ شرعیہ، بیک جنبش قلم ختم کردیئے گئے پھر بھی ”سب اچھا“ ہے اور اسلام بخیر ہے؟ اسلام کی قریبی تاریخ میں مرزا کے سوا آج تک اتنا بڑا ملحد پیدا نہیں ہوا جس نے بیک وقت تمام شریعت کی اس طرح تحریف کی ہو،گویا مرزا غلام احمد قادیانی کی روح چودھری غلام احمد پرویز میں آگئی ہے، ڈاکٹر فضل الرحمن سابق ڈائرکٹر مجلس تحقیقاتِ اسلامی یہ سب ایک طرح کے دین اسلام کو مسخ کرنے والے ہیں، افسوس کہ اسلام اتنا غریب الدیار بن گیا ہے کہ جو بے رحم زندیق وملحد آئے اسلام کو ذبح کرے، جس طرح چاہے اس کی شہ رگ پر کند چھری چلائے، کوئی چھڑانے والا نہیں؟ ہاں! ان ملاحدہ کو ٹوکنے والے ظالم ہیں؟ انا لله وانا الیہ راجعون۔ تصور بھی اس کا نہیں ہوسکتا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر ایسے ایسے گمراہ وملحد اس آزادی کے ساتھ اسلام کی گردن پر چھری چلائیں گے کہ کوئی آہ بھی نہ کر سکے گا، ایک طرف یہ دردناک صورتِ حال ہے، دوسری طرف اسلامی ثقافت اور ”محبت رسول“ کے نام پر خرافات وبے حیائی وبے دینی کے وہ روح فرسامناظر کہ الامان والحفیظ۔ ایک طرف سراسر الحاد وزندیقیت کے مناظر دوسری طرف دین کی محبت کے نام پر بے دینی وبے حیائی کے مناظر ”فیاغربة الاسلام ویا خیبة المسلمین“ ۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور اس مملکت پاکستان کی سرزمین کو صحیح اسلام کا نمونہ بنادے اور ایسی مثالی حکومت قائم فرمائے جو تمام عالمِ اسلام کی دینی وسیاسی قیادت کرسکے۔
 

بے باک

وفقہ اللہ
رکن
220px-G_A_Parvez.jpg


غلام احمد پرویز ۔۔تاریخ پیدائش 9 جولائی ، 1903 ء میں بٹالا ضلع گرداسپور میں پیدا ہوئے اور 24 فروری 1985 ء کو ان کی وفات ہوئی ، 1927 میں انڈین حکومت میں وزارہ داخلہ میں کام کرتے رہے ۔1947 میں پاکستان بننے کے بعد سنٹرل گورنمنٹ میں رہے وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے مشیر تھے، 1955 میں ریٹائر ہوئے ،
ان کی شادی ہوئی ، لیکن ان کی اولاد نہیں ھوئی ،
مندرجہ ذیل کتابیں مشہور ہیں اس کے ساتھ ساتھ ماھنامہ “طلوع اسلام“ بھی شائع ہوتا رہا ،
اس کی کتب اس جگہ سے مطالعہ کی جا سکتی ہیں،
http://www.parwez.tv/lughat-ul-quran.html
http://www.parwez.tv/books.html?start=30
لغات القرآن (4 جلدیں )
مفھوم القرآن (3 جلدیں)
تبويب القرآن (3 جلدیں)
نظام ربوبیت
تصوف اور حقيقت
قرآني فيصلے (5 جلدیں)
إبليس وآدم
أسباب زوال الامم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“نظام ربوبیت“ مطالب الفرقان “ اور ان کی کتب پر سیر حاصل تبصرہ کے لیے آپ یہ کتب دیکھیے ،
1:تفسیر مطالب الفرقان کا علمی و تحقیقی جائزہ (اپ ڈیٹ)
مصنف ڈاکٹر پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی
2:احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ
مصنف ارشاد الحق اثری
3:جناب غلام احمد پرویز کے نظام ربوبیت پر ایک نظر
مصنف ڈاکٹر پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی
4:قربانی کی شرعی حیثیت اور پرویزی دلائل پر تبصرہ
مصنف محمد ابراہیم کمیرپوری
ان کتب کا مطالعہ یہاں سے کریں ،
http://kitabosunnat.com/kutub-libra.../radd-fitna-inkar-e-hadees/41-parvaiziat.html
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا بھر کے علما کا غلام احمد پرویز پر فتویٰ کفر،،،

مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح غلام احمد پرویز کے کفر پر بھی سب امت کا اجماع ہے ،

غلام احمد پرویز کے کفریہ نظریات کے پیش نظر عرب و عجم کے سینکڑوں علماء اُمت نے متفقہ طور پر یہ فتویٰ صادر کیا ہے کہ ”غلام احمدپرویز کو اپنے عقائد و نظریات کی وجہ سے کافر قرار دیا جاتا ہے۔“
یہ فتویٰ ۸x۵ سائز کے دو سو چھپن (256) صفحات پر محیط ہے جسے ”پرویز کے بارے میں علما کا متفقہ فتویٰ“ کے نام سے مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیو ٹاؤن کراچی نے کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔
اس کتاب کے آغاز میں مولانا محمد منظور نعمانی اور محمد عبدالرشید نعمانی کی دو اِدارتی تحریریں بھی شامل ہیں جو اس فتویٰ کے پس و پیش حقائق کی وضاحت کرتی ہیں۔

اس کتاب کے ابتدائی تیس (30) صفحات میں سائل کا استفتا شائع کیا گیا ہے جن میں سائل نے پرویز کے کفریہ و شرکیہ عقائد (مثلاً اللہ اور رسول کا غلط تصور، مرکز ِملت کی اختراع، انکارِ حدیث، ارکانِ اسلام کی ملحدانہ تعبیر، تقدیر و آخرت اور ملائکہ وغیرہ سے انکار وغیرہ) خود پرویز کی کتابوں اور تحریروں سے بحوالہ ذکر کرنے کے بعد یہ فتویٰ طلب کیا ہے کہ

”حضرات علمائے کرام از روئے شرع بیان فرمائیں کہ اس فرقہ کے بانی اور اس کے متبعین کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ لوگ مسلمان ہیں؟ اور ان کے ساتھ اسلامی تعلقات رکھنا مثلاً ان سے نکاح کرنا، مسلمانوں کے قبرستان میں ان کو دفن کرنا اور ان کی میت پر نماز جنازہ پڑھنا اور ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا جائز ہے؟ اور کیا وہ کسی مسلمان کے وارث ہوسکتے ہیں؟ بینوا تو جروا“

اس سوال کے تفصیلی جواب، پرویز پر فتویٰ کفر اور اس فتویٰ پر پاکستان بھر کے تمام مکتبہ فکر کے علما کی تصدیق و تائید اگلے دو سو بیس (220) صفحات پر محیط ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ

سب سے پہلے ولی حسن ٹونکی  (مفتی و مدرّس مدرسہٴ عربیہ اسلامیہ کراچی)، محمد یوسف بنوری (شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ کراچی) اور محمد عبدالرشید نعمانی (رفیق شعبہٴ تصنیف، مدرسہ عربیہ کراچی) کا سو صفحات پر مشتمل مشترکہ تفصیلی جواب ہے جس میں مذکورہ تینوں علما نے مضبوط دلائل کی روشنی میں پرویز کے چالیس چھوٹے بڑے نظریات کا بھرپور جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان عقائد ونظریات کا صریح طور پر کفریہ ہونا ثابت کیا ہے۔ مثلاً پرویز کے اس نظریہ کہ ”رسول کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی سے اپنی اطاعت کرائے“ پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ

”ایسا کہنا قطعاً کفر ہے، اطاعت ِرسول دین کے مسلمات میں سے ہے۔ امت ِمحمدیہ علی صاحبہا التحیات والتسلیمات نے اطاعت ِرسول کو ہمیشہ دین کا جزوِلاینفک سمجھا ہے۔ رسول پرایمان لانے کامطلب ہی اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہے اور نہ صرف یہ کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ضروری ہے بلکہ ہر رسول مطاع ہوتا تھا اور ہر اُمت پر اپنے رسول کی اطاعت فرض و لازم تھی۔ دیکھئے قرآن کریم کس طرح حصر کے ساتھ بیان کررہا ہے: ﴿وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ … اطاعت رسول کا انکار درحقیقت رسول سے برأت و بیزاری ہے جو سراسر کفر ہے۔“ (ص44 تا 52)

اس کے بعد کتاب ہذا کے صفحہ 136تا 139میں دارالعلوم، دیوبند کی طرف سے مذکورہ تفصیلی سوال کے جواب میں پرویز پرفتویٰ کفر صادر کیا گیا ہے۔ جس کی ابتدائی عبارت اس طرح ہے کہ

”غلام احمد پرویز کے جو خیالات و معتقدات سوال میں نقل کئے گئے ہیں وہ تقریباً سب کے سب الحاد و زندقہ اور کفریات پر مشتمل ہیں اور بلاشبہ ان کا معتقد دائرہ اسلام سے خارج ہے۔“ (ص: 136)

اس کے بعد کتاب ہذا کے صفحہ 140سے 200 تک پاکستان بھر کے تمام فقہی مکاتب فکر کے مشہور ومعروف علمائے کرام کے تصدیقی دستخط ثبت ہیں کہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیو ٹاؤن کراچی اور دارالعلوم دیوبند کی طرف سے پرویز اور اس کے نظریات کے معتقد پر کفر کا فتویٰ عین حق و صواب ہے۔ ان علما کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز (1028) ہے۔جس میں ہرشہر کے نمائندہ علماء، تمام دینی درسگاہوں اور مذہبی جماعتوں کے زعما اور تمام مکاتب ِفکر کی چیدہ چیدہ شخصیات شامل ہیں۔چند معروف علما کے نام یہ ہیں:

مولانا محمد داؤد غزنوی، حافظ عبداللہ محدث روپڑی، عبدالغفار سلفی، عبدالخالق رحمانی، حافظ عبدالقادر روپڑی، حافظ محمد اسماعیل ذبیح… مولانامفتی محمود،مفتی محمد شفیع، مولانا احمدعلی لاہوری، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا ظفر احمد عثمانی، محمد ادریس کاندھلوی… مولانا غلام غوث ہزاروی، محمد عبد الحامد قادری، محمد عبد السلام قادری، محمد عبد الحلیم چشتی، محمد سلیم الدین چشتی، عبد الکریم قاسمی، محمد بہاء الحق قاسمی وغیرہ

آخر میں کتاب کے صفحہ 221تا 228 پر مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم کی طرف سے پرویز کے مذکورہ عقائد کو عربی زبان میں تحریر کرکے عرب بلادِ اسلامیہ سے بھی فتویٰ طلب کیا گیا ہے۔چنانچہ صفحہ 229سے 255(آخر کتاب) تک بلادِ عربیہ سے موصول ہونے والے مختلف فتاویٰ کے عربی متن درج ہیں جن میں متفقہ طور پر پرویز اور اس کے معتقدات کے حامل کو صریح طور پر کافر قرار دیا گیا ہے۔ یہ فتاویٰ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور شام ومصر وغیرہ کے بڑے جید علمائے کرام اور حکومتی مناصب پر فائز حضرات کی طرف سے صادر کئے گئے ہیں۔
(حافظ مبشر حسین لاہوری، ماہنامہ محدث ، فتنہ انکار حدیث نمبر)
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی میری

تمام تر حوالوں اور ویب لنک نے مضمون کی افادیت کو 100گنا بڑھا دیا ہے
اللہ تعالیٰ محترم یو نس عزیز صاحب کو ہمیشہ شاداں وفرحاں رکھے۔
 
Top