میری پسند

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
اپنی خاطر جگے ہو سوئے ہو
اپنی خاطر ہنسے ہو روئے ہو
کس لیے آج کھوئے کھوئے ہو
تم نے آنسو بہت پیئے اپنے
تم بہت سال رہ لیے اپنے
اب مرے، صرف میرے ہو کر رہو
حسن ہی حسن ہو ، ذہانت ہو
عشق ہوں میں ، تو تم محبت ہو
تم مری بس مری امانت ہو
جی لیے، جس قدر جیے اپنے
تم بہت سال رہ لیے اپنے
اب مرے صرف مرے ہو کر رہو

رہتے ہو رنج و غم کے گھیروں میں
دکھ کے ، آسیب کے بسیروں میں
کیسے چھوڑوں تمہیں اندھیروں میں
تم کو دے دوں گا سب دیے اپنے
تم بہت سال رہ لیے اپنے
اب مرے ، صرف مرے ہو کر رہو

اب مجھے اپنے درد سہنے دو
دل کی ہر بات دل سے کہنے دو
مری بانہوں میں خود کو بہنے دو
مدتوں زخم خود سیے اپنے
تم بہت سال رہ لیے اپنے
اب مرے ، صرف مرے ہو کر رہو​
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
سوچتے سوچتے پھر مجھ کو خیال آتا ہے
وہ میرے رنج ومصائب کا مداواتو نہ تھی

رنگ افشاں تھی مرے دل کے خلاؤں میں مگر
ایک عورت تھی علاجِ غم دنیا تو نہ تھی

میرے ادراک کے ناسور تو رستے رستے
میری ہو کر بھی سہی میرے لئے کیا کر لیتی
حسرت ویاس کی گمبھیر اندھیرے میں بھلا
ایک نازک سی کرن ساتھ کہاں تک دیتی

اس کو رہنا تھا زرو سیم کے ایوانوں میں
رہ بھی جاتی میرے ساتھ تو رہتی کب تک
ایک مغرور سہو کار کی پیاری بیٹی
بھوک اور پیاس کی تکلیف کو سہتی کب تک

ایک شاعر کی تمناؤں کو دھو کہ دے کر
اس نے توڑی ہےاگر پیار بھرے گیت کی لے
اس پہ افسوس ہےکیوں،اس پہ تعجب کیسا
یہ محبت بھی تو احساس کا ایک دھو کہ ہے

پھر بھی انجانے میں جب شہر کی راہوں میں کبھی
دیکھ لیتا ہوں دوشیزہ جمالوں کے ہجوم
روح پر پھیلنے لگتا ہےاداسی کا ہجوم
ذہن میں رینگنے لگتے ہیں خیالوں کے ہجوم

سوچتے سوچتے پھر مجھ کو خیال آتا ہے
وہ مرے رنج ومصائب کا مداوا تو نہ تھی
رنگ افشاں تھی مرے دل کے خیالوں میں مگر
ایک عورت تھی علاج غم دنیا تو نہ تھی

نریش کمار شاد​
 

طالب علم

عمر گزری مری کتابوں میں
رکن
پڑتا ہے کون جنازہ اُن کا
ہوتا ہے قتل زباں سے جن کا
مرتے الفاظ کے گھاؤ سے ہیں
ذوقِ خاموشی ہے مدعا جن کا
 

طالب علم

عمر گزری مری کتابوں میں
رکن
حرفِ غلط نہ تھا، مجھے سمجھا گیا غلط
لکھا گیا غلط کبھی بولا گیا غلط

میں بھی غلط نہ تھا میری باتیں غلط نہ تھیں
مجھ کو میرے کلام کو جانچا گیا غلط

میزان ٹھیک تھا، پلڑے درست تھے
لیکن یہ کون دیکھتا، تولا گیا غلط

مجھ میں نہیں تھے عیب، کسوٹی میں عیب تھے
میرا تھا یہ قصور کہ پرکھا گیا ٖغلط

ظوفاں کے بعد اہلِ تدبر کو ہے یہ فکر
ساحل کا تھا قصور کہ دریا گیا غلط

افراد ہیں غلط یا غلط ہیں تصورات
یا اس معاشرے ہی کو ڈھالا گیا غلط

 
Top