مخدوم محمد ہاشم سندھی :حیات و آثار

آفتاب علی

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم
بندہ نے حال سندھ ایک فقیہ و محدث،شاہ ولی اللہ کے ہم عصر،مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی،سندھی رحمہ اللہ کی سوانح مرتب کی ہے،خیال آیا کہ ساتھیوں کے فائدے کے لیے اس کو یہاں رکھ دوں
ان شاءاللہ اس کا ایک ایک باب پیش خدمت کیا جائے گا۔
باب اول

[b
]نام و نسب​
[/b]

آپ کا اسم گرامی ’’محمد ہاشم‘‘ہے سلسلہ نسب یوں ہے۔ محمد ہاشم بن عبدالغفور بن عبدالرحمن بن عبداللطیف بن عبدالرحمن بن خیر الدین سندھی بٹھوروی، بہرامپوری، ٹھٹھوی۔ [۱] آپ کے نام کے ساتھ چار نسبتوں کا ذکر کیا گیا ہے، چناں چہ ان کی وجہ جان لیں۔
’’سندھی‘‘ چوں کہ آپ کا تعلق ’’سندھ‘‘ سے تھا اس وجہ سے ’’سندھی‘‘ کہلاتے ہیں۔
’’بٹھوروی‘‘ چوں کہ مخدوم صاحب کی پیدائش میرپور بٹھورہ میں ہوئی اس وجہ سے ’’بٹھوروی‘‘ کہلاتے ہیں۔
’’بہرامپوری‘‘ چوں کہ مخدوم صاحب فراغتِ علم کے بعد یہاں آئے تھے اس وجہ سے آپ ’’بہرامپوری‘‘ کہلاتے ہیں۔
’’ٹھٹھوی‘‘ چوں کہ مخدوم صاحب کا آخر دم تک ٹھٹہ سے تعلق رہا اور اسی میں آباد رہے اس وجہ سے ’’ٹھٹھوی‘‘ کہلاتے ہیں۔
مخدوم صاحب کی ذات پنہور تھی، پنہور قوم کانسب عربوں سے ہے اور ان کا نسب ’’حارث بن عبدالمطلب‘‘ کے ساتھ ملتا ہے یہ لوگ محمد بن قاسم کے ساتھ آئے تھے اور سندھ میں آباد ہوگئے جہاں تک لفظ ’’مخدوم‘‘ کا تعلق ہے یہ کوئی ذات نہیں ہے بلکہ آپ کو علمی جدوجہد اور دینی خدمات سر انجام دینے کی وجہ سے ’’مخدوم‘‘ کہا جانے لگا جب کہ ’’رچرڈ برٹن‘‘ لکھتے ہے کہ ’’مخدوم‘‘ اس وقت سندھ میں ایک عہدہ تھا جس کے لیے بڑے بڑے لوگ خواہش مند ہوتے تھے۔[۲]
پیدائش:
مخدوم صاحب نے ۱۰؍ ربیع الاول ۱۱۰۴ھ بمطابق ۱۶۹۲؍۱۱؍۱۹ بروز جمعرات کی رات ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کی تاریخ پیدائش اس جملے سے نکلتی ہے ’’انْبَتَ اللّٰہ نباتًا حسنًا۔‘‘[۳]

۔۔۔***۔۔۔
تعلیم و اساتذہ​

مخدوم صاحب نے ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی اور اللہ رب العزت نے مخدوم صاحب کو لیاقت و ذکاوت سے نوازا تھا چناں چہ آپ کے والد بزرگوار مخدوم عبدالغفور نے مخدوم صاحب کو ابتدائی تعلیم دی جس میں مخدوم صاحب کو قرآن مجید حفظ کروانے کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی صرف و نحو کی ابتدائی کتب پڑھائیں۔[۴]
ٹھٹہ روانگی:
ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مخدوم صاحب نے مزید حصولِ علم کے لیے ’’ٹھٹہ‘‘ کا رخ کیا جو اس وقت تمام علوم و فنون کا گہوارہ اور بڑے بڑے علمائے کرام اور صوفیائے کرام کا مرکز تھا۔ مخدوم صاحب ٹھٹہ میں مخدوم محمد سعید کے سامنے زانوئے تلمذ ہوئے اور ان سے عربی علوم وفنون کی کتب کا درس لینا شروع کیا چناں چہ مختصر عرصے میں تمام عربی کتب و شروح مکمل کرلیں آپ کی یہ ذکاوت دیکھ کر بڑے بڑے علماء کرام حیران ہوئے اور آپ کی عزت کرنے لگے چناں چہ آپ سب کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ [۵]
مخدوم صاحب علوم و فنون کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مخدوم ضیاء الدین کے پاس علمِ حدیث کا درس لینے حاضر ہوئے چناں چہ نو سال کے عرصے میں مخدوم صاحب تمام علوم سے فارغ التحصیل ہوگئے دوران تعلیم ۱۱۱۳ھ بمطابق ۱۷۰۲ء آپ کے والد محترم مخدوم عبدالغفور دنیا سے رحلت فرما گئے۔[۶]
حرمین شریفین حاضری:
ٹھٹہ سے فراغت کے بعد مخدوم صاحب نے چند سال دینی خدمات انجام دیں پھر حج مبارک اور مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے ۱۱۳۵ھ بمطابق ۱۷۲۲ء میں حرمین شریفین حاضر ہوئے اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مشایخ سے علمِ حدیث، تجوید اور فقہ کے درس لیے اور ان کی اسانید حاصل کیں۔[۷]
اساتذہ:
مخدوم صاحب نے چوں کہ سندھ اور حجاز مقدس کے اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے چناں چہ چند اساتذہ کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ سندھ کے اساتذہ یہ ہیں۔
(۱)مخدوم عبدالغفور۔ (۲)مخدوم محمد سعید ٹھٹھوی۔ (۳)مخدوم ضیاء الدین ٹھٹھوی۔
مخدوم عبدالغفوررحمہ اللہ تعالیٰ:
مخدوم عبدالغفور نہایت جید عالم اور ولی اللہ تھے اور سیوھن کے نامور علمائے کرام میں شمار ہوتے تھے مخدوم محمد ہاشم نے حفظِ قرآن اور ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی مخدوم عبدالغفور ماہ ذی الحجہ ۱۱۱۳ھ بمطابق مئی ۱۷۰۲ء اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے اور آپ کو میر پور بٹھورو میں دفن کیا گیا۔[۸]
مخدوم محمد سعیدٹھٹھوی رحمہ اللہ تعالیٰ:
مخدوم صاحب کے اس استاذ کے حالاتِ زندگی معلوم نہ ہوسکے صرف اتنا معلوم ہوا ہے کہ مخدوم صاحب نے ان سے درس نظامی کا درمیانہ نصاب پڑھا تھا۔ [۹]
مخدوم ضیاء الدین ٹھٹھوی رحمہ اللہ تعالیٰ:
یہ اپنے وقت کے بڑے محدث تھے یہ شیخ شہاب الدین کی اولادمیں سے تھے آپ ۱۰۹۱ھ بمطابق ۱۶۸۰ء ٹھٹہ میں پیدا ہوئے والد کا نام’’ ابراہیم‘‘ اور دادا کا نام ’’ہارون‘‘ تھا اور پھر ٹھٹہ کے مشہور عالم مخدوم عنایت اللہ سے علم حاصل کرنا شروع کیا۔ مخدوم ضیاء الدین نہایت سادہ اور فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے انہوں نے اپنے زمانے کے لوگوں کو بڑا علمی و روحانی فیض پہنچایا۔ اسّی(۸۰) سال کی عمر میں ۱۱۷۱ھ آپ کا انتقال ہوا۔ [۱۰]
مخدوم صاحب کے سندھ کے ان مذکورہ بالا تین مشایخ کے بارے میں تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ یہ تینوں مخدوم صاحب کے استاذ تھے۔ البتہ مزید دو بزرگوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا مخدوم صاحب نے ان سے علم حاصل کیا ہے یا نہیں؟ ان بزرگوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ (۱)مخدوم محمد معین ٹھٹھوی۔ (۲)مخدوم عنایت اللہ ٹھٹھوی۔
مخدوم محمد معین ٹھٹھوی رحمہ اللہ تعالیٰ:
مخدوم محمد معین کی ٹھٹہ میں ولادت ہوئی اس زمانے میں ٹھٹہ علوم و فنون کا گہوارہ تھا آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ان کے علاوہ آپ کے اساتذہ میں شاہ عنایت اللہ کا ذکر ملتا ہے مخدوم محمد معین نے اپنی کتاب ’’دراسات اللبیب‘‘ میں اپنے اساتذہ میں شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالقادر کا بھی ذکر کیا ہے۔
مخدوم محمد معین نے روحانی فیوض کے لیے مخدوم ابوالقاسم نقشبندی سے بیعت کی اور طویل عرصہ اپنے شیخ کی صحبت میں رہے اور ان سے روحانی استفادہ کیا آپ کو اپنے شیخ سے بے انتہاء عقیدت تھی چناں چہ آپ اپنے آپ کو ان کے دَر کا کُتّا کہا کرتے تھے۔
آپ ہر دل عزیز بزرگ تھے چناں چہ امراء اور غرباء آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے اور آپ کے آستانے پر حاضری باعث فخر سمجھتے ٹھٹہ کاگورنر نواب مہابت خان جو اکثر آپ کی خدمت میں رہتا تھا اس کی استدعاء پر آپ نے ’’حلِ اصطلاحات صوفیّہ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی آپ کی چند تصانیف کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱)رسالہ اولہیۃ۔ (۲)شرح رموز عقائد در رموز صوفیہ۔ (۳)اثبات رفع یدین فی الصلوۃ۔ (۴)دراسات اللبیب فی الاسوۃ الحسنۃ الحبیب۔
ان کے علاوہ بھی آپ کی کتب ورسائل ہیں حضرت مولانا رشید احمد نعمانی نے آپ کی کتب کی فہرست ذکر کی ہے آپ چوں کہ عامل بالحدیث تھے چناں چہ آپ نے اسی بارے میں ’’دراسات اللبیب‘‘ لکھی اور اس کتاب کے ردّمیں مخدوم عبداللطیف بن مخدوم محمد ہاشم نے ’’ذب ذباب الدراسات عن المذاہب الاربعۃ المتناسبات‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں بہترین کتاب لکھی،(الحمد للہ بندہ کے پاس یہ کتاب موجود ہے) اسی طرح آپ کے بعض نظریات و رسائل پر مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی نے بھی رد لکھا، ان کوششوں کی وجہ سے مخدوم محمد معین کے نظریات کو ترویج نہ ہوئی۔
بیشتر علمائے کرام نے آپ کے بارے میں تعریفی کلمات کہے ہیں جیسے سید نذیر حسن محدث دہلوی نے آپ کی کتاب’’ دراسات اللبیب‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’’مخدوم محمد معین اپنے زمانے کے بہت بڑے محقق ہیں اور اسلامی علوم پر وسیع نظر رکھتے ہیں‘‘ اسی طرح شیخ فقیر اللہ علوی نے اپنے مکتوبات میں ایک جگہ آپ کو ’’عالم ربانی‘‘ لکھا ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کو آپ سے انتہائی عقیدیت تھی چناں چہ وہ آپ سے ملنے ٹھٹہ آتے تھے ایک مرتبہ شاہ صاحب ملنے آئے اور مخدوم محمد معین کچھ دیر مجلس میں تشریف فرما ہوئے پھر اچانک گھر چلے گئے تھوڑی دیر بعد گھر سے انتقال کی خبر آئی، اسی وقت شاہ صاحب نے بے ساختہ فرمایا’’ ٹھٹہ میں آنا صرف اس دوست کے لیے تھا آج یہ دور ختم ہوا۔‘‘ آپ کی وفات ۱۱۶۱ھ میں ہوئی اور مکلی قبرستان میں آپ کو دفن کیا گیا۔[۱۱]
مولانا دین محمد وفائی اور علامہ غلام مصطفی قاسمی نے مخدوم محمد معین ٹھٹھوی کو مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کا استاد قرار دیا ہے چناں چہ مولانا دین محمد وفائی لکھتے ہیں۔
’’حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی نے سندِ حدیث مخدوم محمد معین سے حاصل کی لیکن بعد میں بعض مسائل میں اختلافات کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان تحریری مناظرے بھی ہوئے۔،،[۱۲]
علامہ غلام مصطفی قاسمی لکھتے ہیں:
’’مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی نے اپنے رسالہ ’’کشف الغطاء‘‘ میں مخدوم محمد معین ٹھٹھوی کو اپنا استاذاور شیخ لکھا ہے۔‘‘[۱۳]
البتہ مخدوم محمد ابراہیم اور اعجاز الحق قدوسی نے مخدوم محمد ہاشم کو مخدوم محمد معین ٹھٹھوی کا استاذ قرار دیا ہے چناں چہ مخدوم محمد ابراہیم اپنی کتاب ’’القسطاس المستقیم‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’بلاشبہ مخدوم محمد معین نے علمِ حدیث مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی سے حاصل کیا تھا۔‘‘[۱۴] مولانا اعجاز الحق قدوسی نے بھی مخدوم محمد معین ٹھٹھوی کو مخدوم محمد ہاشم کا شاگرد قرار دیا ہے۔[۱۵]
لہٰذا مندرجہ بالا حوالوں کی وجہ سے اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ مخدوم محمد معین ٹھٹھوی آپ کے استاد تھے یا نہیں... البتہ اتنی بات ضرور ثابت ہے کہ مخدوم محمد معین ٹھٹھوی آپ کے ہم عصر علماء میں سے تھے۔
مخدوم صاحب کے حرمین شریفین کے اساتذہ مندرجہ ذیل ہیں۔
شیخ عبدالقادر مکی رحمہ اللہ تعالیٰ:
یہ مکہ مکرمہ کے مفتی اور نہایت فصیح و بلیغ شخص تھے علم فقہ میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے، ان کے فتاویٰ کا مجموعہ ’’فتاوی قادریہ‘‘ کے نام سے معروف ہے، ان کی وفات ۱۱۳۸ھ میں ہوئی مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی نے علمِ حدیث ان سے حاصل کیا اور ان کی مرویات کے بارے میں ایک کتاب ’’اتحاف الاکابر بمرویات الشیخ عبدالقادر‘‘ لکھی۔ [۱۶]
شیخ ابوطاہر مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ:
یہ شافعی المسلک عالم تھے نہایت اطاعت گزار اور علم دوست انسان تھے نرم دل والے اور بہت زیادہ رونے والے تھے ان کا انتقال ۱۱۴۵ھ میں ہوا۔ شاہ ولی اللہ نے بھی علمِ حدیث کی اجازت ان سے حاصل کی تھی۔ [۱۷]
ان دو بزرگوں کے علاوہ مخدوم صاحب نے شیخ عبد بن علی مصری اور شیخ علی بن عبدالمالک کردری سے بھی علم حاصل کیا ۔
غلط فہمی کا ازالہ:
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ مخدوم صاحب نے شاہ ولی اللہ سے حرمین شریفین میں علم حاصل کیا۔
لیکن یہ کہنا بالکل درست نہیں ہے کیوں کہ مخدوم صاحب ۱۱۳۵ھ میں حرمین شریفین گئے جب کہ شاہ ولی اللہ اس کے سات یا آٹھ سال بعد ۱۱۴۳ھ میں حرمین شریفین گئے چناں چہ ان کے درمیان یہ تعلق ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا مخدوم امیر احمد عباسی لکھتے ہیں:
’’لم یثبت الی الان لقاء ھما و لا مکاتبھما‘‘۔(اب تک ان دونوں کی ملاقات اور مکاتبت ثابت نہیں ہوئی)۔[۱۸]
البتہ یہ بات الگ ہے کہ یہ دونوں حضرات (مخدوم صاحب اور شاہ ولی اللہ) شیخ ابوطاہر مدنی کے شاگرد ہیں۔
۔۔۔****۔۔۔

بیعت و شیوخ​

مخدوم صاحب جس وقت ۱۱۳۶ھ میں ظاہری علوم کے حصول سے فارغ ہوئے اور حرمین شریفین سے تشریف لے آئے تو باطنی علوم کے حصول کے لیے ٹھٹہ کے مشہور بزرگ مخدوم ابوالقاسم نقشبندی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے بیعت کی درخواست کی تو مخدوم ابوالقاسم نقشبندی نے فرمایا :
’’میرے مریدین کی صورتیں میرے سامنے پیش کی گئی تھیں جن میں تمہاری صورت نہیں تھی۔‘‘
چناں چہ انہوں نے بیعت کرنے سے عذر کردیا تو مخدوم صاحب نے عرض کی کہ حضرت مجھے ایسا شیخ بتلا دیں جن سے اصلاحی تعلق قائم کروں تو حضرت ابوالقاسم نقشبندی نے فرمایا تم سید سعداللہ کے پاس سورت بندر چلے جاؤ اور ان کی خدمت میں رہو‘‘ چناں چہ مخدوم صاحب اصلاحِ نفس کے لیے ان کے پاس ’’سورت بندر ‘‘حاضر ہوئے اور یہاں ایک سال عبادت و ریاضت میں مشغول رہے ایک سال کے بعد سید سعداللہ سورتی نے آپ کو خرقہ خلافت سے نوازا اور ماہِ صفر ۱۱۳۷ھ میں آپ ٹھٹہ واپس آگئے۔[۱۹]
مخدوم صاحب کے شیخ و مرشد سید سعداللہ سورتی تھے البتہ مخدوم صاحب کو مخدوم ابوالقاسم نقشبندی سے بھی انتہائی عقیدت تھی چناں چہ ان دونوں بزرگوں کا مختصر تعارف مندرجہ ذیل پیش کیا جاتا ہے۔
سید سعد اللہ سورتی رحمہ اللہ تعالیٰ:
آپ کا نام سید سعد اللہ بن سید غلام محمد سلونی ہے آپ کی ولادت’’ الٰہ آباد‘‘ کے قریب واقع ’’سلون‘‘ نامی قصبہ میں ہوئی اور’’ سلون‘‘ میں ہی آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی آپ شیخ پیر محمد سلونی کے ہمشیرہ زادے تھے جن کا شمار کبار اولیاء کرام میں ہوتا ہے۔
سید سعداللہ کم سنی ہی میں علوم و فنون کی تحصیل کی طرف مائل ہوئے اور تھوڑی ہی مدت میں تمام علومِ متداولہ میں کامل دسترست حاصل کرلی اور عالمِ شباب ہی میں تعلیم و تربیت، درس و تدریس اور رشد و ہدایت کی مسند پر متمکن ہوگئے اور پرانے اور کہنہ مشق اساتذہ کے دوش بدوش آپ کا چشمہ فیض بھی جاری ہوگیا اسی دور میں آپ نے نہایت گراں قدر کتابیں بھی تصنیف فرمائیں خصوصاً علمِ معرفت، فلسفہ و حکمت اور فنِ منطق میں آپ کی تصانیف بہت بلند مقام رکھتی ہیں۔ جیسے ’’حاشیۃ علی الحکمۃ‘‘ ’’کشف الحق‘‘ ’’رسالۃ فی شرح اربعین بیتا لمثنوی الروی‘‘ اور ’’تحفۃ الرسول‘‘ ’’حاشیۃ یمین الوصول‘‘ علم فقہ میں ہے اور ’’آداب البحث‘‘ علم منطق میں ہے ان کے علاوہ دیگر مایہ ناز کتب ہیں۔
آپ نے اپنے والدِ ماجد سید غلام محمد سے بیعت کی سید سعد اللہ نے زیارتِ حرمین شریفین کا شرف بھی حاصل کیا اور کچھ زمانہ مکہ معظمہ میں مقیم رہے اور یہاں آپ کو بڑی عزت اور مقبولیت حاصل ہوئی مکہ معظمہ کے چھوٹے بڑے خواص و عوام سبھی آپ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اہل مکہ نے آپ سے علم ظاہری اور باطنی حاصل کیا۔
شیخ عبداللہ بصری مکی المتوفی ۱۱۳۴ھ یہ اپنے وقت کے ممتاز ترین علماء میں سے تھے اور ساری دنیا میں مسلّم الثبوت استاد کی حیثیت رکھتے تھے اور آج بھی عرب و عجم کے اکثر علماء کی اجازت کا سلسلہ انہی کی ذات گرامی تک پہنچتا ہے آپ نے قادریہ سلسلہ کا بلند پایہ طریقہ حضرت سید سعداللہ کی خدمت سے حاصل کیا۔ شیخ عبداللہ بصری کے فرزند شیخ سالم نے اپنے والدِ ماجد کی اجازت کے سلسلہ میں ایک رسالہ مرتب کیا ہے اس رسالہ میں شیخ سالم فرماتے ہیں۔
’’مشایخہ فی الطریق و اساتذہ فی الارشاد و التحقیق جملۃ اجلاء منھم العلامۃ المحقق السید سعداللّٰہ الھندی عن السید عبدالشکور عن شاہ مسعود الاسفرا ینی عن الشیخ علی الحسینی عن الشیخ ابراہیم الحسینی عن الشیخ عبداللہ الحسینی عن الشیخ عبیداللّٰہ الحسینی عن الشیخ عبدالرزاق عن سیدنا عبدالقادر الجیلانی قدس اللّٰہ اسرارھم۔‘‘
سید سعداللہ نے حرمین شریفین سے واپس آنے کے بعد سورت (گجرات) کی بندرگاہ میں قیام فرمایا وہاں آپ کے پاس ہر وقت مریدین و معتقدین اور نیاز مندوں کا ایک ہجوم رہا کرتا تھا اور یہیں مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی آپ کی خدمت میں رہ کر فیض یاب ہوئے۔ ۱۱۳۸ھ میں سید سعداللہ کا انتقال ہوا آپ کا مزار بندرگاہ سورت میں ہے۔[۲۰]
مخدوم ابوالقاسم نقشبندی رحمہ اللہ تعالیٰ:
آپ کا اسم گرامی ابوالقاسم اورلقب نورالحق تھا لیکن آپ پورے سندھ میں’’ مخدوم نقشبندی‘‘ کے نام سے مشہور و معروف تھے ابتداءً آپ نے قرآن پاک حفظ کیا پھر علومِ ظاہریہ کی تکمیل کے بعد علومِ باطنیہ کی طرف متوجہ ہوئے شروع میں چند روز مخدوم آدم کے پاس رہے ایک روز مخدوم آدم نے آپ سے فرمایا ’’میاں صاحبزادے آپ میں نہایت عمدہ صلاحیت ہے اگر تم سرہند چلے جاؤ تو وہاں تم اپنی بلند استعداد کے موافق فیوض و برکات سے مستفیض ہوسکوگے‘‘ یہ بات سن کر آپ سرہند تشریف لے گئے اور وہاں حضرت مجدّد الف ثانی کے پوتے خواجہ سیف الدین مجددی سے بیعت ہوئے اور تمام منازلِ سلوک ان کے پاس طے کیں۔ [۲۱]
جب آپ سرہند سے خرقہ خلافت حاصل کرکے سندھ تشریف لائے تو سندھ میں حضرت مجدد کے روحانی سلسلے کو عام کرنے میں آپ نے عظیم الشان جدو جہد شروع کی آپ روزانہ مزدوروں، معماروں اور سبزی فروشوں کو طلب فرماتے اور طریقہ نقشبندیہ کی تعلیم دیتے شام کو جب یہ لوگ رخصت ہونے لگتے تو ان کو روزانہ کی اجرت دے دیتے آہستہ آہستہ عوام و خواص آپ کے حلقے میں شامل ہوئے اور لوگ آپس میں کہا کرتے ’’یہ سلسلہ بھی نیا، طریقہ بھی نیا اور طریقہ تعلیم بھی نیا ہے ‘‘جب یہ سلسلہ عام ہوگیا اور لوگوں میں شعور بیدار ہوگیا تو حضرت نے یہ طریقہ عطاء مسترد کردیا۔[۲۲]
آپ کے زمانے میں ٹھٹہ کا گورنر سیف اللہ خان تھا اس گورنر کے ایک دوست کو مخدوم محمد معین ٹھٹھوی (جن کا ذکر ماقبل گزر چکا ہے یہ حضرت مخدوم ابوالقاسم نقشبندی کے اجل خلفاء میں سے تھے) سے بے حد بغض و عناد تھا اور اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح ٹھٹہ کا گورنر مخدوم محمد معین کے خلاف ہوجائے لیکن اس کی ترکیب کامیاب نہیں ہورہی تھی ایک دن ا س نے ٹھٹہ کے گورنر سے ’’چاچگان‘‘نامی مقام کے فوجداری احکام اپنے لیے حاصل کرلیے کیوں کہ اس جگہ مخدوم محمد معین کی جاگیر تھی اور یہ شخص ان کی جاگیر کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا جب مخدوم محمد معین کو اس کا علم ہوا تو آپ اپنے شیخ مخدوم ابوالقاسم نقشبندی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان کیا آپ اس وقت وضوء فرما رہے تھے واقعہ سنتے ہی لوٹا آپ کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا توآپ نے مخدوم محمد معین کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا’’ مطمئن رہو اس بداندیشن کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا‘‘ چناں چہ جیسے ہی یہ شخص فوجداری احکام لے کر علاقہ’’ چاچگان‘‘ کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں گھوڑا اس طرح بِدکا کہ یہ شخص گھوڑے سے گر پڑا اور اس کا پاؤں رِکاب میں پھنس گیا اور گھوڑا اس کو لے کر دوڑتا رہا اور اسی حال میں اس کا انتقال ہوگیا۔[۲۳]
۷ ؍شعبان ۱۱۳۸ھ میں مخدوم ابوالقاسم اس دنیا سے رحلت فرماگئے آپ کی آخری آرام گاہ مکلی قبرستان میں ہے۔ [۲۴]
ایک مرتبہ سلسلہ مجددیہ کے ایک بزرگ شاہ ضیاء الدین سرہندی مکلی قبرستان میں ’’شیخ جہیہ‘‘ کی قبر پر حاضری دینے آئے جو’’ چراغِ مکلی‘‘ کے نام سے معروف تھے تو آپ کو خواہش ہوئی کہ مخدوم ابوالقاسم کے مزار کی زیارت بھی کرنی چاہیے چناں چہ آپ اِن کے مزار پر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا ’’بیشک ’’شیخ جہیہ‘‘ ’’چراغِ مکلی‘‘ ہے لیکن ’’مخدوم ابوالقاسم ‘‘خورشیدِ مکلی ہے۔ (خورشید کے مقابل چراغ کی کیا حیثیت ہے) [۲۵]
آپ کے چند معروف خلفاء کے نام یہ ہیں۔
(۱)مخدوم محمد معین ٹھٹھوی۔ (۲)شیخ محمد ابراہیم نقشبندی۔ (۳)میاں محمد زمان۔ (۴)سلطان شاہ ہندی۔ (۵)مولانا محمد مقیم۔[۲۶]

۔۔۔****۔۔۔


مراجع​
]اتحاف الاکابر
[۲]سوانح حیات:۵۶
[۳]تذکرہ مشاہیر سندھ: ۲؍۴۵۴
[۴]مقدمہ بذل القوۃ:۶
[۵]سوانح حیات:۵۹
[۶]مقدمہ بذل القوۃ: ۶
[۷]مقدمہ فرائض الاسلام: ۱۴
[۸]سوانح حیات: ۶۰
[۹]مقدمہ بذل القوۃ:۶
[۱۰]نزھۃ الخواطر: ۶؍۱۱۹
[۱۱]تذکرہ مشایخ سندھ ۲۴۲
[۱۲]تذکرہ مشاہیر سندھ: ۱؍۱۵۹
[۱۳]سوانح حیات:۶۲
[۱۴]القسطاس المستقیم: قلمی: ۱۴۷
[۱۵]تذکرہ صوفیاء سندھ: ۲۴۰
[۱۶]مقدمہ بذل القوۃ:۷
[۱۷]مقدمہ بذل القوۃ:۷
[۱۸]مقدمہ بذل القوۃ:۷
[۱۹]سوانح حیات: ۶۹
[۲۰] ماثر الکرام: ۲۹۹،مقدمہ بذل القوۃ:۹
[۲۱]تذکرۃ مشاہیر سندھ: ۱؍۱۳۲
[۲۲]تذکرہ مشایخ سندھ: ۲۲۲
[۲۳]تذکرہ مشائخ سندھ:۲۲۳
[۲۴]تذکرہ صوفیاء سندھ: ۵۱
[۲۵]تذکرہ مشایخ سندھ: ۲۲۶]
[۲۶]تکملہ مقالات الشعراء: ۱۸۵

جاری ہے،،،،
 

محمد طارق محمود

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم۔بہت مفید پوسٹ ہےآفتاب بھائی۔جزاک اللہ خیرا۔ذب ذباب الدراسات کی مجھے سخت ضرورت ہے،کہاں سے مل سکتی ہے؟نیزیہ بھی بتائیں کہ اسپر کسی عالم کا حاشیہ وغیرہ بھی ہے؟برائے مہربانی جواب جلد دیں۔
 
Top