تلاوت قرآن میں اچھی آواز کا مطلب کیا ہے
عبادت کی اصل یہی ہے کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اس میں غیر کا کسی بھی طرح سے خیال نہ آئے ،اسی وجہ سے مخلص اور ریا کار یامومن اور فاسق کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے ،یہ ایک سچائی ہے کہ جس کا باطن پاک ہوتا ہے اس کا ظاہر بھی صاف ستھرا ہوتا ہے ، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز کی امامت کریں یا کسی اور مجلس میں قرآن کی تلاوت کریں تو ان کی آواز سے اللہ کی خشیت اور اس کا ڈر صاف محسوس ہوتا ہے جس کا اثر دوسروں پر بھی پرتا ہے یقینا ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے اجر کے مستحق ہوں گے ، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سب سے اچھی آواز کے ساتھ قرآن پڑھنے والے وہ لوگ ہیں جن کو قرآن پڑھتا ہوا تم سنو تو تمہیں خیال ہو جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ( رواہ ابن ماجہ) اس کے بر خلاف کچھ لوگ اس طرح قرآن پڑھتے ہیں کہ سن کر گمان ہو تا ہے کہ وہ جگہ سے یا بے جا لحن اور آواز کے اتار چڑھاؤ کے فن سے متاثر ہیں ۔مشہور مفسر قرآن حافظ ابن کثیر فر ماتے ہیں کہ شرعاً غرض یہ ہے کہ آواز کو ایسا حسن دیا جائے جو قرآن کے تدبر اس کے سمجھنے ، خشوع وخضوع اور فر مان الٰہی کے آگے جھک جانے پرآمادہ کرے اور گانے کی وہ آواز جو نئے اتار چڑھاو کے ساتھ ہوتی ہے نیز غافل کرنے والی وضع کے ساتھ موسیقی کے اصول پر ہوتی ہے تو قرآ ن اس سے با لا تر اور پاک ہے کہ اس کی تلاوت میں اس قسم کی رعایت کی جائے ۔
شیخ ماوردی فر ماتے ہیں : ایسی آواز کے ساتھ قرأت کرنا کہ لفظ کی ادائیگی میں حرکات داخل کر دے یا خارج کر دے یا ممدود کو قصر کردے یا مقصور کو مد کردے اور ایسی بناوٹ کہ قرآن کے لفظ کا پتہ نہ چلے اور معنیٰ مشتبہ ہو جائے تو یہ حرام ہے ،اس سے پڑھنے والا بھی گنہگار ہوگا اور سننے والا بھی اس لئے کہ ایسے شخص نے قرآن کو اس کے سیدھے نہج سے نکال کرکجی کی طرف اس کا رخ پھیر دیا ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ یہ قرآ ن عربی زبان میں ہے اس میں کوئی کجی نہیں ہے
علامہ ابن القیم فر ماتے ہیں : جسے سلف کے بارے میں علم ہوگا وہ یقینی طور پر یہ جان جائے گا کہ وہ موسیقی کی پُر تکلف آواز میں قرأ ت کر نے سے پاک تھے، ایسی حرکت کے نے کے بجائے وہ اللہ تعالیٰ سے خوف کھاتے تھے ،امام حسن بصری فر ماتے ہیں : اس قرآن کو غلاموں اور بچوں نے پڑھا جنہیں اس کے معانی اور تفسیر کا علم نہیں اور نہ علم تفسیر کو عملی طور پر اختیار کیا انہوں نے ٓیات قرآ ن میں غور بھی کیا تو صرف پہلے لوگوں کی بیان کردہ تفسیر کی حد تک سنو! اللہ کی قسم قرأت قرآن حروف کو یاد کر لینے اور قرآن کے احکام کو ضائع کر دینے سے نہیں ہو سکتی ، یہاں تک بعض لوگ کہتے ہیں :میں نے پورا قرآن پڑھا اور ایک غلطی بھی نہیں کی، حالانکہ اللہ کی قسم اس نے پورے قرآن کو ساقط کردیا ان کے اخلاق واعمال میں قرآن کہیں نظر نہیں آتا۔
بعض لوگ جن کی تربیت صحیح اساتذہ سے نہیں مل پاتی وہ قابل رحم حد تک غلو کا شکار ہوتے ہیں ،وہ اپنی خوش الحانی اور ادائیگی حروف کا کمال دکھانے کے لئے موقع کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں ، کوئی جلسہ یا مجمع مل جائے تو وہاں پر مخلوق کی داد وتحسین لوٹنے کے لئے قرأت شروع کر دیتے ہیں یا وہ نماز کسی ایسی جگہ پڑھیں گے جہاں امامت کرنے کا موقع ملے یا مسجدوں میں بھی صرف ایسی مسجد میں جائیں گے جہاں نمازی کثرت سے رہتے ہو ، حالانکہ یہ نفس کا دھوکہ ہے محض غلط نیت کی وجہ سے انسان اپنی عبادت کو فاسد کر لیتا ہے ۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے تر تیل کے ساتھ تلاوت کا حکم فرمایا ہے، حسن بصری نے بیان کیا کہ وضاحت کے ساتھ الفاظ ادا کرے اور انہیں ان کا حْق (تجوید) دے نہ کاٹ کاٹ کر پڑھے اور نہ جلد بازی کے ساتھ پڑھے ، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ اس طرح تلاوت فر ماتے کہ سننے والا اگر حروف کی تعداد شمار کرنا چاہتا تو وہ شمار کر سکتا تھا ۔
قرآن اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے ،اس کی قدر یہ ہوگی کہ خلوص نیت کے ساتھ اس کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے اس کی تلاوت کی جائے اپنی آواز میں نغمہ وموسیقی کی لہر پیدا کرنے کے بجائے اللہ کی خشیت اور اس کے ڈر کا رنگ چڑھائیں۔