درد میں ڈوبی ہوئی ایک داستان ہے زندگی
لڑ کھڑاتی حسرتوں کا کارواں ہے زندگی
ہر گھڑی ہے تلخیوں کی دھول چہرے پر اٹی
آج کے انسان پر کتنی گراں ہے زندگی
کس طرح ہموار ہونگے درد کے یہ فاصلے
جب سکوں جاوداں کے درمیان ہے زندگی
جل رہی ہیں نفرتوں کی آگ میں اہل وفا
الفتوں کی لاش پر ماتم کناں ہے زندگی
لٹ رہا ہے آج اہل علم و فن کا بھی وجود
انسانیت کے نام پر بار گراں ہے زندگی
جذبۂ احساس کے فقدان کا ماتم نہ کر
درد دل کے واسطے ملتی خان ہے زندگی
سید تصّور حسن تصّور