یوم ختم نبوت
اللہ ربّ العزت نے جب اس گلشن ہستی کو آباد کیا تو اس میں اپنی سب سے احسن و اشرف تخلیق انسان کو بسایا اور اس زمین پر انسانوں کی رشد و ہدایت اور تعلیم و تربیت کے لیے پاک ہستیاں انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ یہ اللہ کی چنی ہوئی گراں قدر ہستیاں مختلف اوقات میں، مختلف مقامات پر ، مختلف ادوار میں اور مختلف اقوام کی طرف تشریف لاتی رہیں اور بنی نوع انسان کی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی رہیں۔ انبیائے کرام علہیم السلام کی آمد کا یہ سلسلہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر سید البشر، خلاصۂ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔اس سلسلہ نبوت میں سب سے پہلے نبی آدم علیہ السلام اور سب سے آخری نبی امام الانبیائ، خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آدم علیہ السلام سے پہلے کوئی نبی نہیں اور حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔ دین اسلام میں اس عقیدہ کو ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ کہتے ہیں۔ دین اسلام کی عظیم الشان عمارت اسی عقیدہ پر کھڑی ہے۔ یہ عقیدہ عقائد اسلام میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عقیدہ میں معمولی سی لچک انسان کو ایمان کی بلندیوں سے کفر کی پستیوں میں کرا دیتی ہے۔ اس عقیدہ کی اہمیت و حیثیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی سو (۱۰۰) آیات حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا واشگاف اعلان کرتی ہیں اور خاتم المرسلین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو سو دس (۲۱۰) مرتبہ سے زائد اپنی زبان مبارک سے اس عقیدہ کی حقانیت پر گواہی دیتے ہیں۔
قرآن و سنت کی قطعی نصوص سے ثابت ہے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا گیا، آپ ﷺ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کسی شخص کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ و خاتم النبیین۔ (الاحزاب:۴۰)
ترجمہ:نہیں ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ، لیکن آپ اللہ کے رسول اور آخر الانبیاء ہیں۔
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں، آپﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔
امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں۔
’’فھذا الآیۃ نص فی انہ لا نبی بعدہ واذا کان لا نبی بعدہ فلا رسول بالطریق الاولیٰ ، والاخری: لأن مقام الرسالۃ أخص من مقام نبوۃ فان کلّ رسول نبی ولا ینعکس وبذٰلک وردت الأحادیث المتواترۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من حدیث جماعۃ من الصحابۃ رضی اللہ عنھم۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج۳، ص: ۴۹۳)
ترجمہ:’’ یہ آیت اس مسئلے میں نص ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ، کوئی رسول بدرجہ اولیٰ نہیں ہو سکتا، کیوں کہ مقام نبوت، مقام رسالت سے عام ہے کیوں کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا اور اس مسٔلے پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی و رسول نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث وارد ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہیں۔‘‘
حجتہ الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ ’’الاقتصاد فی الاعتقاد‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ان الامۃفھمت بالاجماع من ھٰذا اللفظ و من قرائن احوالہ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابدا… و انہ لیس فیہ تاویل ولاتخصیص، فمنکر ھٰذا لایکون الامنکر الاجماع۔‘‘ (الاقتصاد فی الاعتقاد ص ۱۲۳)
ترجمہ: ’’بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی ہو گا اور نہ رسول اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں، پس اس کا منکر یقینا اجماع امت کا منکر ہے۔‘‘
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جہاں کہیں ہم سے نبوت کا اقرار کروایا ہے یا جس جگہ کسی وحی کو ہمارے لیے ماننا ضروری قرار دیا ہے۔ وہاں صرف پہلے انبیاء کی نبوت و وحی کا ہی ذکر ملتا ہے۔ اگر کسی نبی نے بعد میں بھی آنا ہوتا تو پہلے انبیاء کی نسبت اس کا ذکر زیادہ لازمی تھا اور اس پر تنبیہ کرنا ازحد ضروری تھا، کیوں کہ پہلے انبیاء کی وحییں تو گزر چکیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ قرآن پاک میں صرف پہلے کی وحیوں کا ذکر ہے بعد کا کوئی ذکر نہیں ۔
مسئلہ ختم نبوت کو قرآن پاک میں کھلے لفظوں میں بیان فرمانا صاف اور روشن دلیل ہے اس بات کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخصیت کو نبوت یا رسالت عطا نہیں کی جائے گی۔ مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیے:
’’یومنوں بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاٰخرۃ ھم یوقنون‘‘ (بقرہ: ۴۰)
ترجمہ:’’ ایمان لائے اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا آپ کی طرف اور اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا آپ سے پہلے اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ہیں۔‘‘
’’یا اھل الکتاب ھل تنقمون منّا الا ان امنا باللہ وما انزل الینا و ما انزل من قبلک‘‘ (نساء : ۱۶۲)
ترجمہ: ’’اے کتاب والو! کیا ضد ہے تم کو ہم ہی سے مگر یہی کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو نازل ہوا ہم پر اور جو نازل ہوچکا پہلے۔‘‘
مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف ان کتابوں اور وحیوں کی اطلاع دی ہے اور ہم سے صرف ان ہی انبیاء کو ماننے کا تقاضا کیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اگر آپ ﷺ کے بعد کسی نبی نے آنا ہوتا تو یہاں لفظ قبلک کے ساتھ بعدہٗ بھی ہوتا۔ لیکن آپ ﷺ آخری نبی ہیں ان کے بعد کسی نبی یا رسول کا آنا محال ہے اس لیے ان آیات میں صرف آپ ﷺ سے پہلے کی وحیوں کاہی ذکر ہے۔
رخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزم خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں
نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متواتر احادیث میں اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا اور ختم نبوت کی ایسی تشریح بھی فرما دی کہ اس کے بعد آپ ﷺ کے آخری نبی ہونے میں کسی شک و شبہ اور تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
’’حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا، مگر اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ لگا دی گئی؟ آپﷺ نے فرمایا: میں وہی اینث ہوں اور میں نبیوں (کے سلسلے) کو ختم کرنے والا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب المناقب ،ج۱، ص:۵۰۱)
اس حدیث میں آپ ﷺ نے ختم نبوت کی ایک محسوس مثال بیان فرمائی ہے اور اہل عقل جانتے ہیں کہ محسوسات میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی۔
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں مین انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی: (۱)مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں، (۲) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے، (۳) مال غنیمت میرے لیے حلال کر دیا گیا ہے، (۴) روئے زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنا دیا گیا ہے،(۵) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے،(۶) اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، ج ۱، ص ۱۹۹۔ مشکوٰۃ ص ۵۱۲)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ (علیہما السلام) سے تھی۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور مسلم کی ایک رویت میں ہے کہ : ’’میرے بعد نبوت نہیں۔‘‘
یہ حدیث متواتر ہے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے علاوہ ۱۴ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت سے بھی مروی ہے۔ واضح رہے کہ جو حدیث دس سے زیادہ صحابہ کرام سے مروی ہو، حضرات محدثین اسے احادیث متواترہ میں شمار کرتے ہیں، چونکہ یہ حدیث دس سے زیادہ صحابہ کرام سے مروی ہے اس لیے مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس کو متواترات میں شمار کیا ہے۔
اگر مسئلہ ختم نبوت پر مشتمل تمام شواہد (قرآن و حدیث اور امت کے اقوال) کو جمع کریں تو یقینا اس کے لیے صفحات کا ایک بڑا دفتر درکار ہے۔
ایمان اور اسلام دراصل کچھ عقائد اور کچھ احکام کا نام ہے یہ کوئی انسان کا بنایا ہوا مذہب نہیں کہ جیسا عقل میں آیا کر لیا، یا جس چیز کی ضرورت محسوس کی اس کے مطابق مذہب کو موڑ لیا۔ اسلام نام ہے اس دنی کا جو اللہ تعالیٰ نے حضور آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مسلمانوں کی ہدایت کے لیے قیامت تک کے لیے بھیجا ہے۔ اس کے کچھ احکام اصولی ہیں اور کچھ فروعی ۔ اصولی احکام اور عقائد میں کسی طور پر بھی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ مثال کے طور پر اللہ کی وحدانیت ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت، نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج وغیرہ ایسے احکام ہیں جن میں سے کسی ایک حکم میں تبدیلی کرنے سے ایمان اور اسلام کی عمارت قائم نہیں رہتی۔ کوئی شخص اللہ کی توحید میں کسی کو شریک کرے وہ مشرک کہلائے گا۔ کوئی شخص نماز کا انکار کرے وہ شخص مسلمان نہیں کہلا سکتا اگرچہ اایسے ہر دو اشخاص مذہب کی باقی تمام باتوں کو تسلیم کرتے ہوں۔ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی کی حیثیت سے نہ ماننا یہ سب کفریہ عقائد ہیں۔
اسلام کے قرن اوّل میں جن بد بخٹ و بد باطن لوگوں نے خانہ ساز نبوت کا لباس پہن کر خلق خدا کو ابدی گمراہی اور لعنت میں دھکیلا ان میں مسیلمہ کذاب سب سے سربرآوردہ تھا۔ اس کا اصل نام مسیلمہ بن کبیر بن حبیب تھا۔ یہ شخص کذاب یمامہ کے لقب سے مشہور ہے۔ جب اس نے جھوٹا دعویٰ نبوت کیا تو اس کی عمر سو سال سے بھی متجاوز تھی۔
جب نبی آخر الزماں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیائے رسالت چارون طرف پھیلنا شروع ہوئی اور بنی آدم سرچشمہ نبوت سے ہدایت پانے کے لیے اکناف عالم سے آنے لگے تو مسیلمہ کذاب نے بھی بنی حنیفہ کی معیت میں خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مشروط بیعت کی درخواست پیش کر دی یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنا جانشین بنا دیں۔ اس وقت آپ ﷺ کے سامنے ایک کھجور کی ٹہنی رکھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے مسیلمہ! اگر تم امر خلافت میں مجھ سے یہ شاخ خرما بھی مانگو تو میں دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
تقدس کے دوکاندار اور خانہ ساز نبی اپنے سلسلہ تزویر میں کلام الہٰی جو دنیا میں قیام صداقت کے لیے نازل ہوا تھا۔ اس کے نام سے مکر و فریب کا کاروبار جاری رکھتے ہوئے ذرا بھی خدا سے نہیں شرمائے۔ مسیلمہ نے قرآن پاک کے مقابلے میں بعض مسجع اور بے سروپا عبارتیں لکھ کر ان کو کلام الہٰی کی حیثیت سے پیش کیا۔ مسیلمہ کا ’’کلام وحی‘‘ ایسا مضحکہ خیز ہے کہ ذوق سلیم رکھنے والے مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں۔ اس نے سورۃ الفیل کے مقابلے میں ایک سورۃ بنائی۔
الفیل وما الفیل ذنب و بیل و خرطوم طویل ان ذلک من خلق ربنا الجلیل
ترجمہ: ہاتھی، اور وہ ہاتھی کیا ہے؟ اس کی بدنما دم اور لمبی سونڈ ہے۔ یہ ہمارے ربّ جلیل کی مخلوق ہے۔‘‘
مسیلمہ نے سچے نبیوں کے مقابلے میں معجزات دکھانے کی کوشش بھی کی۔ لیکن قدرت الہٰی نے اس کا الٹا اثر دکھایا۔ جس کنوئیں میں مسیلمہ نے اپنا لعاب ڈالا وہ کنواں سوکھ گیا۔ جس شخص کی لمبی عمر کے لیے دعا کی وہ فوراً مر گیا۔ برکت کے لیے جس بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا وہ بچے گنجے ہوگئے۔ جس کی آشوب زدہ آنکھوں پر اپنا لعاب لگایا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نابینا ہو گیا۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ختم نبوت کے تحفظ کی پہلی جنگ یمامہ کے مقام پر مسیلمہ کذاب ہی کے خلاف لڑی گئی۔ اس جنگ میں سب سے پہلے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ اور آخر میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے لشکر کی کمان فرمائی۔ اس پہلے معرکۂ ختم نبوت میں بارہ سو (۱۲۰۰) صحابہ کرام و تابعین شہید ہوئے۔ جس میں سات سو (۷۰۰) قرآن پاک کے حافظ و قاری اور ستر بدری صحابہ شامل تھے۔
گھروں سے تا در زنداں وہاں سے مقتل تک
ہر امتحان سے تیرے جاں نثار گزرے ہیں
مسیلمہ کذاب کا لشکر چالیس ہزار (۴۰۰۰۰) پر مشتمل تھا جس میں سے بائیس ہزار میدان جنگ میں ڈھیر ہوئے۔
تاریخ میں جب کبھی کسی شخص نے اس عقیدۂ ختم نبوت میں رخنہ اندازی کرکے نبوت کا دعویٰ کیا تو اسے باجماع امت ہمیشہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے تیس جھوٹے نبیوں کی خبر دی ہے۔
انہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین و لا نبی بعدی۔
ترجمہ : قریب ہے کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
ایک اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کذابون کے ساتھ دجالون کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے۔ جس کے معنی دھوکہ باز کے ہیں۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو خبردار کیا کہ میرے بعد جو مدعیان نبوت پیدا ہوں گے وہ کھلے لفظوں سے اسلام سے اعلیحدگی کا اعلان کرنے کی بجائے دجل و فریب اور جھوٹ سے کام لیں گے چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ آپ کے بعد جتنے بھی مدعیان نبوت پیدا ہوئے انہوں نے ہمیشہ اسی دجل و تلبیس سے کام لیا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے اپنے دعوائے نبوت کو چمکانے کی کوشش کی۔ لہذا امت مسلمہ قرآن و سنت کے متواتر ارشادات کے مطابق عمل کرتی آئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا خواہ وہ مسیلمہ کذاب کی طرح کلمہ گو ہو، اسے اور اس کے متبیعین کو بلا تامل کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ چاہے وہ عقیدہ ختم نبوت کا کھلم کھلا منکر ہو یا مسیلمہ کی طرح یہ کہتا ہو کہ آپ ﷺ کے بعد چھوٹے چھوٹے نبی آسکتے ہیں یا سجاع کی طرح یہ کہتا ہو کہ مردوں کی نبوت ختم اور عورتیں اب بھی نبی بن سکتی ہیں۔یا مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح اس بات کا مدعی ہو کہ غیر تشریعی ظلی اور بروزی اور امتی نبی ہو سکتے ہیں۔ جھوٹے نبیوں کے فتنوں میں مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کا فتنہ چھودھویں صدی کا عظیم فتنہ ہے۔ جسے انگریز نے اپنی اغراض اور مقاصد مذمومہ کی خاطر جنم دیا اور پھر اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے اس کو خوب پھیلانے کی کوشش کی۔ علمائے اسلام نے اس کی زندگی میں ہی تعاقب شروع کر دیا جو اب تک جاری ہے۔ ۱۸۸۰ء سے مرزا قادیانی نے مختلف دعاوی کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے چند دعاوی یہ ہیں۔
۱۸۸۰ء میں ملہم من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا
۱۸۸۲ء میں مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔
۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔
۱۸۹۹ء میں ظلی بروزی نبوت کا دعویٰ کیا۔
۱۹۰۱ء میں مستقل صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔
مرزا قادیانی کے کچھ دعاوی اس کی کتابوں کے حوالاجات اصل عبارات پیش خدمت ہیں۔
’’جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعے سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے۔‘‘ (کتاب البریہ ، ص ۱۸۳، خزائن ج ۱۳، ص ۲۰۱)
الہام: جعلنک المسیح بن مریم (ہم نے تجھ کو مسیح بن مریم بنایا) ان کو کہہ دے کہ میں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں۔‘‘ (تذکرہ ، ص ۱۸۶ طبع سوم۔ ازالہ اوہام ص ۴۳۴ ، خزائن ج ۳ ص ۴۴۲)
’’میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں۔ یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی۔‘‘ (ایک غلی کا ازالہ، ص ۷۔روحانی خزائن ج ۱۸، ص ۲۱۱)
’’سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ (دافع البلاء ، ص ۱۱۔ روحانی خزائن ج ۱۸، ص ۲۳۱)
مرزا قادیانی کی زندگی میں سب سے پہلے علمائے لدھیانہ نے ۱۸۸۴ء میں اس کی تکفیر کی۔پھر جوں جوں اس کا کفر واضح ہوتا گیا تو تمام علمائے کرام نے بالاتفاق اس کے کفر کا فتویٰ دے کر علمائے لدھیانہ کی تائید فرمائی۔
مرزا قادیانی کی وفات کے بعد جب یہ فتنہ ایک مستقل اور منظم جماعت کی شکل اختیار کر گیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں محدث العصر حضرت علامہ سید انورشاہ کاشمیری رحمہ اللہ کو متوجہ کر دیا۔ انہوں نے علمی محاسبہ کے ساتھ ساتھ جماعتی طور پر مقابلہ کرنے کے لیے خطیب الہند حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے انہیں امیر شریعت مقرر کیا۔ ان کی پوری جماعت مجلس احرار اسلام کو اس فتنہ کے مقابلے کے لیے کھڑا کر دیا۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان کے بعد حضرت مولانا عطا اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے خالصتاً اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے ایک مذہبی جماعت مجلس تحفظ ختم نبوت کی بنیاد رکھی۔ جس کے پہلے امیر حضرت مولانا عطا اللہ شاہ بخاری منتخب ہوئے۔ مجلس نے اس فتنہ کا علمی اور عملی محاسبہ کرنے کے لیے مبلغین کی ایک کھیپ تیار فرمائی جو تحریر و تقریر غرضیکہ ہر محاذ پر اس فتنہ کا مقابلہ کرتی ہے۔ پھر خواجہ خواجگان حضرت مولانا خان محمد صاحب رحمہ اللہ کے دور امارت میں اس کو بین الاقوامی سطح تک ترقی دی گئی تو اس کے نام میں عالمی کا اضافہ کر دیا گیا۔ جو اس وقت بھی پوری دنیا میں اس فتنہ کے تعاقب میں علمی اور عملی جدوجہد میں مصروف کار ہے۔
۱۹۴۷ء میں ہندوستان آزاد ہوا اور ملک تقسیم ہو کر پاکستان ایک الگ ملک بنا تو قادیانیوں کو قادیان چھوڑ کر پاکستان آنا پڑا اور انہوں نے دریائے چناب کے کنارے ایک وسیع اراضی کا رقبہ لے کر اپنا ایک گاؤں آباد کیا اور اس کا نام انتہائی دجل و فریب سے ربوہ رکھا۔ تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں جب ربوہ قرآنی لفظ پڑھیں تو اس سے یہی ربوہ سمجھیں لفظ تو وہی رہا لیکن اس کا مصداق و محل بد ل گیا۔ تقریباً پچاس سال بعد ۱۷ نومبر ۱۹۹۸ء کو صوبائی اسمبلی پنجاب نے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے ربوہ کا نام تبدیل کر کے چناب نگر رکھا۔
قادیانیوں کا معمول تھا کہ وہ ربوہ (چناب نگر) سے گزرنے والی ٹرینوں میں اپنا تبلیغی لٹریچر تقسیم کیا کرتے تھے۔نشتر میڈیکل کالج ، ملتان کے طلبہ تفریحی دورہ کی غرض سے ٹرین میں سوار تھے قادیانیوں نے معمول کے مطابق اپنا تبلیغی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کیا۔ مسلمان طلبا اس فتنہ سے بحوبی آگاہ تھے اس لیے قادیانی لٹریچر کی تقسیم پر مسلمان طلبہ اشتعال میں آگئے قادیانیوں کی ان سے تلخ کلامی ہوئی اور ٹرین روانہ ہو گئی اور کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا۔ ہفتے کے بعد جب وہ اسی ٹرین سے ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو واپس ہوئے تو سرگودھا اسٹیشن کے بعد مختلف اسٹیشنوں سے قادیانی نیم فوجی تنظیم خدام الاحمدیہ کے رضا کار سوار ہوتے رہے اورربوہ (چناب نگر ) کاقادیانی اسٹیشن ماسٹر ہر اسٹیشن سے ٹرین کی آمد کی اطلاع حاصل کرتا اور اپنی جماعت کو دیتا۔ جب گاڑی ربوہ اسٹیشن پر پہنچی تو پہلے سے موجود قادیانی غنڈوں نے سابقہ قادیانی جماعت کا سربرادہمرزا طاہر کی قیادت میںڈبے کا گھیراؤ کر لیا۔ اور تمام طلبہ کو آہنی سلاخوں لوہے کے تاروں، آہنی مکوں،ہاکیوں ڈنڈوںسے حملہ کیا گیا، ان کو خوب مارا پیٹا گیا ۔ تمام طلبہ شدید زخمی ہوئے لہو لہان ہوئے۔ ان کا سامان لوٹ لیا گیا۔ غرضیکہ ان طلبہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے۔ اس پر پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا اور یہ احتجاج ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ اس واقعہ کے رد عمل میںپورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہونے لگے۔ حکومت میں نے پہلے پہل اس تحریک کو بزور دبانے کی کوشش کی اور گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ جب حالات اس سے کنٹرول نہ ہوئے تو کرفیوں نافذ کر دیا گیا۔لیکن ختم نبوت کے پروانے ان حالات سے ڈرنے والے کہاں۔ ہر مسلمان اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر آقا نامدار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر کٹ مرنے کے لیے تیار تھا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت وقت نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا۔ اور مولانا شاہ احمد نورانی نے پرائیویٹ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ جس پر ۲۸ معزز اراکین کے دستخط تھے۔ یہ بل حزت اختلاف کی طرف سے تھا اور حزب اختلاف کے قائد مولانا مفتی محمود صاحب تھے۔ ان دنوں قائد ایوان جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ انہوں نے سانحہ ربوہ (چناب نگر) پر غور اور قادیانی مسئلہ پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دیا اور سرکاری طور پر بل وزیر قانون جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کیا۔ جناب اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خاں کی صدارت میں معزز ایوان میں قادیانی مسئلہ پر بحث شروع ہوگئی۔ قادیانی اور لاہوری گروپ نے اپنے اپنے محضرنامے پیش کیے۔ قادیانی گروپ کے محضر نامے کے جواب میں ’’ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ نامی محضرنامہ تیار کیا گیا۔ قادیانی گروپ کے سربراہ مرزا ناصر احمد کو قومی اسمبلی میں زبانی طور پر بھی کمیٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے یا سوالات کے جوابات و جرح کے لیے بلایا گیا تھا۔ ۵ سے ۱۱ اور ۲۰ سے ۲۱ اگست ۱۹۷۴ء تک کل گیارہ روز مرزا ناصر احمد قادیانی پر جرح ہوئی۔ ۲۷۔۲۸ اگست کو لاہوری گروپ کے صدرالدین، عبدالمنان عمر اور مسعود بیگ پر دو روز جرح ہوئی۔ ۵۔۶ ستمبر ۱۹۷۴ء کو اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹا ۔ ان کا اسمبلی کے اراکین کے سامنے دو روزہ مفصل بیان ہوا۔ اس سارے عرصے میں مسلمانوں پر امید و یاس کی کیفیت طاری تھی۔ ۶ ستمبر کی شام علمائے کرام سخت پریشان تھے۔ علمائے کرام کے سامنے ساری تحریک کے حالات اور مسلمانوں کا خون تھا۔ راجہ بازار میں تعلیم القرآن میں جلسہ ہو رہا تھا۔ علما کی تقاریر ہو رہی تھیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا عوام کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ بھٹو صاحب کی زیر صدارت رات ۱۲ بجے کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب ذہین آدمی تھے۔ وہ پہلے سے فیصلہ دل میں کیے ہوئے تھے کہ مسئلے کو عوام کی خواہشات کے مطابق حل کر کے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیں گے لیکن وہ اس مسئلے کی مشکلات اور رکاوٹوں سے بھی باخبر تھے۔ صوبائی و ضلعی انتظامیہ کو تحریک کو کچلنے کی ہدایت ، فوج کا اسلحہ سمیت شہروں میں متعین ہونا، یہ محض مرزائی و مرزائی نواز طاقتوں کی توجہ دوسری طرف پھیرنے کے لیے تھا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ۷؍ستمبر۱۹۷۴ء کی قومی اسمبلی کی تقریرکا اختتام ان الفاظ میں کیا :
"Mr. Speaker: Sir, I do not want to say anything more. I have said what I felt on this matter and this is not a decision of a single man, as I have said. Again I repeat this is a religious issue. It is a decision affecting our faith and it is a decision of the whole house, of the entire nation. It is a decision according to the sentiments of the people. I do not think it was humanly possible for this house to do more. I do not think it was humanly possibly for this house to do anything less if a permanent solution to this problem was required."
(National assembly Official report, Volume V Contains Nos. 27 to 39 7th september, 1974)
ترجمہ:
’’ جناب اسپیکر: میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اس معاملے کے بارے میں میرے جو احساسات تھے میں انہیں بیان کر چکا ہوں۔یہ فیصلہ کسی ایک فرد کا فیصلہ نہیں ہے۔جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں میں ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے، یہ ایک ایسافیصلہ ہے جو ہمارے عقائد سے متعلق ہے اور یہ فیصلہ پورے ایوان کا فیصلہ ہے اور پوری قوم کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق ہے۔ میرے خیال میں یہ انسانی طاقت سے باہر تھا کہ یہ ایوان اس سے بہتر کچھ فیصلہ کر سکتا، اور میرے خیال میں یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ اس مسئلے کو دوامی طور پر حل کرنے کے لیے موجودہ فیصلے سے کم کوئی اور فیصلہ ہو سکتا تھا۔‘‘
آخر وہ وقت آگیاجب ختم نبوت کے پروانوں کی قربانیاں رنگ لائیں اور حق کی فتح ہوئی، اللہ ربّ العزت نے فضل فرمایا۔ ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کی شام قومی اسمبلی و سینٹ نے متفقہ طور پر مرزائیوں، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا، یوں یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ کفر ہار گیا، اسلام جیت گیا، ختم نبوت کا بول بالا ہوا۔ الحق لعلواولا یعلیحق سربلند ہوتا ہے نہ کہ پست، شام کو ریڈیو ، ٹی وی ، دوسرے روز اخبارات کے ذریعے قوم کو جب اس خبر کی اطلاع ہوئی تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ قادیانیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا اور ان کو غیر مسلم اقلیتوں کے تمام حقوق بھی دیئے۔ لیکن قادیانیوں نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا اور اب تک وقتاً فوقتاً وہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔وہ اب بھی تمام مسلمانوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور خود کو مسلمان سمجھتے ہیں۔اور کچھ قادیانی نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ ہمیں غیر مسلم اقلیت قرار دے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ کو کوئی حق حاصل نہیں تھا تو قادیانی جماعت کے اس وقت کے سربراہان پارلیمنٹ کے سامنے اس معاملے میں اپنی صفائی بیان کرنے حاضر کیوں ہوئے تھے۔ اگر خوانخواستہ فیصلہ قادیانیوں کی منشا کے مطابق ہو جاتا تو پارلیمنٹ کو حق حاصل ہوتا۔ اب جبکہ فیصلہ عین اسلام کے اصولوں کے مطابق ہوا اور قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جا چکے ہیںتو پارلیمنٹ کے استحقاق پر شک چہ معنی دارد۔
مرزا قادیانی کو نبی نہ ماننے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی سمجھنے والے مسلمانوں کے بارے میں مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب میں کچھ یوںصفحات سیاہ کرتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ الہامات ص ۶۰۰ طبع دوم از مرزا غلام احمد قادیانی)
اسی تناظر میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود ابن مرزا غلام احمد قادیانی نے مسلمانوں کے بارے میں لکھا ہے:
’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت ص ۳۵۔ از مرزا بشیر الدین محمود ابن مرزا غلام احمد قادیانی)
ان حوالاجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرقہ باطلہ قادیانیہ تمام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اور خود کو پکا اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور اپنی جان سے زیادہ مجھے عزیز نہ سمجھے۔‘‘اس حدیث پر عمل کر کے تحریک ختم نبوت میں مسلمان قوم نے ثابت کر دیا کہ فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت ہی کامل ایمان کی نشانی ہے۔ تاج و تخت ختم نبوت زندہ باد
یہ مضمون پاکستان کے ایک روزنامہ میں چھپ چکا ہے۔ راقم ضرب فاروقی
اللہ ربّ العزت نے جب اس گلشن ہستی کو آباد کیا تو اس میں اپنی سب سے احسن و اشرف تخلیق انسان کو بسایا اور اس زمین پر انسانوں کی رشد و ہدایت اور تعلیم و تربیت کے لیے پاک ہستیاں انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ یہ اللہ کی چنی ہوئی گراں قدر ہستیاں مختلف اوقات میں، مختلف مقامات پر ، مختلف ادوار میں اور مختلف اقوام کی طرف تشریف لاتی رہیں اور بنی نوع انسان کی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی رہیں۔ انبیائے کرام علہیم السلام کی آمد کا یہ سلسلہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر سید البشر، خلاصۂ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔اس سلسلہ نبوت میں سب سے پہلے نبی آدم علیہ السلام اور سب سے آخری نبی امام الانبیائ، خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آدم علیہ السلام سے پہلے کوئی نبی نہیں اور حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔ دین اسلام میں اس عقیدہ کو ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ کہتے ہیں۔ دین اسلام کی عظیم الشان عمارت اسی عقیدہ پر کھڑی ہے۔ یہ عقیدہ عقائد اسلام میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عقیدہ میں معمولی سی لچک انسان کو ایمان کی بلندیوں سے کفر کی پستیوں میں کرا دیتی ہے۔ اس عقیدہ کی اہمیت و حیثیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی سو (۱۰۰) آیات حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا واشگاف اعلان کرتی ہیں اور خاتم المرسلین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو سو دس (۲۱۰) مرتبہ سے زائد اپنی زبان مبارک سے اس عقیدہ کی حقانیت پر گواہی دیتے ہیں۔
قرآن و سنت کی قطعی نصوص سے ثابت ہے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا گیا، آپ ﷺ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کسی شخص کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ و خاتم النبیین۔ (الاحزاب:۴۰)
ترجمہ:نہیں ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ، لیکن آپ اللہ کے رسول اور آخر الانبیاء ہیں۔
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں، آپﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔
امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں۔
’’فھذا الآیۃ نص فی انہ لا نبی بعدہ واذا کان لا نبی بعدہ فلا رسول بالطریق الاولیٰ ، والاخری: لأن مقام الرسالۃ أخص من مقام نبوۃ فان کلّ رسول نبی ولا ینعکس وبذٰلک وردت الأحادیث المتواترۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من حدیث جماعۃ من الصحابۃ رضی اللہ عنھم۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج۳، ص: ۴۹۳)
ترجمہ:’’ یہ آیت اس مسئلے میں نص ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ، کوئی رسول بدرجہ اولیٰ نہیں ہو سکتا، کیوں کہ مقام نبوت، مقام رسالت سے عام ہے کیوں کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا اور اس مسٔلے پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی و رسول نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث وارد ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہیں۔‘‘
حجتہ الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ ’’الاقتصاد فی الاعتقاد‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ان الامۃفھمت بالاجماع من ھٰذا اللفظ و من قرائن احوالہ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابدا… و انہ لیس فیہ تاویل ولاتخصیص، فمنکر ھٰذا لایکون الامنکر الاجماع۔‘‘ (الاقتصاد فی الاعتقاد ص ۱۲۳)
ترجمہ: ’’بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی ہو گا اور نہ رسول اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں، پس اس کا منکر یقینا اجماع امت کا منکر ہے۔‘‘
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جہاں کہیں ہم سے نبوت کا اقرار کروایا ہے یا جس جگہ کسی وحی کو ہمارے لیے ماننا ضروری قرار دیا ہے۔ وہاں صرف پہلے انبیاء کی نبوت و وحی کا ہی ذکر ملتا ہے۔ اگر کسی نبی نے بعد میں بھی آنا ہوتا تو پہلے انبیاء کی نسبت اس کا ذکر زیادہ لازمی تھا اور اس پر تنبیہ کرنا ازحد ضروری تھا، کیوں کہ پہلے انبیاء کی وحییں تو گزر چکیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ قرآن پاک میں صرف پہلے کی وحیوں کا ذکر ہے بعد کا کوئی ذکر نہیں ۔
مسئلہ ختم نبوت کو قرآن پاک میں کھلے لفظوں میں بیان فرمانا صاف اور روشن دلیل ہے اس بات کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخصیت کو نبوت یا رسالت عطا نہیں کی جائے گی۔ مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیے:
’’یومنوں بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاٰخرۃ ھم یوقنون‘‘ (بقرہ: ۴۰)
ترجمہ:’’ ایمان لائے اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا آپ کی طرف اور اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا آپ سے پہلے اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ہیں۔‘‘
’’یا اھل الکتاب ھل تنقمون منّا الا ان امنا باللہ وما انزل الینا و ما انزل من قبلک‘‘ (نساء : ۱۶۲)
ترجمہ: ’’اے کتاب والو! کیا ضد ہے تم کو ہم ہی سے مگر یہی کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو نازل ہوا ہم پر اور جو نازل ہوچکا پہلے۔‘‘
مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف ان کتابوں اور وحیوں کی اطلاع دی ہے اور ہم سے صرف ان ہی انبیاء کو ماننے کا تقاضا کیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اگر آپ ﷺ کے بعد کسی نبی نے آنا ہوتا تو یہاں لفظ قبلک کے ساتھ بعدہٗ بھی ہوتا۔ لیکن آپ ﷺ آخری نبی ہیں ان کے بعد کسی نبی یا رسول کا آنا محال ہے اس لیے ان آیات میں صرف آپ ﷺ سے پہلے کی وحیوں کاہی ذکر ہے۔
رخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزم خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں
نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متواتر احادیث میں اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا اور ختم نبوت کی ایسی تشریح بھی فرما دی کہ اس کے بعد آپ ﷺ کے آخری نبی ہونے میں کسی شک و شبہ اور تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
’’حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا، مگر اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ لگا دی گئی؟ آپﷺ نے فرمایا: میں وہی اینث ہوں اور میں نبیوں (کے سلسلے) کو ختم کرنے والا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب المناقب ،ج۱، ص:۵۰۱)
اس حدیث میں آپ ﷺ نے ختم نبوت کی ایک محسوس مثال بیان فرمائی ہے اور اہل عقل جانتے ہیں کہ محسوسات میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی۔
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں مین انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی: (۱)مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں، (۲) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے، (۳) مال غنیمت میرے لیے حلال کر دیا گیا ہے، (۴) روئے زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنا دیا گیا ہے،(۵) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے،(۶) اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، ج ۱، ص ۱۹۹۔ مشکوٰۃ ص ۵۱۲)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ (علیہما السلام) سے تھی۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور مسلم کی ایک رویت میں ہے کہ : ’’میرے بعد نبوت نہیں۔‘‘
یہ حدیث متواتر ہے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے علاوہ ۱۴ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت سے بھی مروی ہے۔ واضح رہے کہ جو حدیث دس سے زیادہ صحابہ کرام سے مروی ہو، حضرات محدثین اسے احادیث متواترہ میں شمار کرتے ہیں، چونکہ یہ حدیث دس سے زیادہ صحابہ کرام سے مروی ہے اس لیے مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس کو متواترات میں شمار کیا ہے۔
اگر مسئلہ ختم نبوت پر مشتمل تمام شواہد (قرآن و حدیث اور امت کے اقوال) کو جمع کریں تو یقینا اس کے لیے صفحات کا ایک بڑا دفتر درکار ہے۔
ایمان اور اسلام دراصل کچھ عقائد اور کچھ احکام کا نام ہے یہ کوئی انسان کا بنایا ہوا مذہب نہیں کہ جیسا عقل میں آیا کر لیا، یا جس چیز کی ضرورت محسوس کی اس کے مطابق مذہب کو موڑ لیا۔ اسلام نام ہے اس دنی کا جو اللہ تعالیٰ نے حضور آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مسلمانوں کی ہدایت کے لیے قیامت تک کے لیے بھیجا ہے۔ اس کے کچھ احکام اصولی ہیں اور کچھ فروعی ۔ اصولی احکام اور عقائد میں کسی طور پر بھی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ مثال کے طور پر اللہ کی وحدانیت ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت، نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج وغیرہ ایسے احکام ہیں جن میں سے کسی ایک حکم میں تبدیلی کرنے سے ایمان اور اسلام کی عمارت قائم نہیں رہتی۔ کوئی شخص اللہ کی توحید میں کسی کو شریک کرے وہ مشرک کہلائے گا۔ کوئی شخص نماز کا انکار کرے وہ شخص مسلمان نہیں کہلا سکتا اگرچہ اایسے ہر دو اشخاص مذہب کی باقی تمام باتوں کو تسلیم کرتے ہوں۔ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی کی حیثیت سے نہ ماننا یہ سب کفریہ عقائد ہیں۔
اسلام کے قرن اوّل میں جن بد بخٹ و بد باطن لوگوں نے خانہ ساز نبوت کا لباس پہن کر خلق خدا کو ابدی گمراہی اور لعنت میں دھکیلا ان میں مسیلمہ کذاب سب سے سربرآوردہ تھا۔ اس کا اصل نام مسیلمہ بن کبیر بن حبیب تھا۔ یہ شخص کذاب یمامہ کے لقب سے مشہور ہے۔ جب اس نے جھوٹا دعویٰ نبوت کیا تو اس کی عمر سو سال سے بھی متجاوز تھی۔
جب نبی آخر الزماں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیائے رسالت چارون طرف پھیلنا شروع ہوئی اور بنی آدم سرچشمہ نبوت سے ہدایت پانے کے لیے اکناف عالم سے آنے لگے تو مسیلمہ کذاب نے بھی بنی حنیفہ کی معیت میں خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مشروط بیعت کی درخواست پیش کر دی یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنا جانشین بنا دیں۔ اس وقت آپ ﷺ کے سامنے ایک کھجور کی ٹہنی رکھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے مسیلمہ! اگر تم امر خلافت میں مجھ سے یہ شاخ خرما بھی مانگو تو میں دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
تقدس کے دوکاندار اور خانہ ساز نبی اپنے سلسلہ تزویر میں کلام الہٰی جو دنیا میں قیام صداقت کے لیے نازل ہوا تھا۔ اس کے نام سے مکر و فریب کا کاروبار جاری رکھتے ہوئے ذرا بھی خدا سے نہیں شرمائے۔ مسیلمہ نے قرآن پاک کے مقابلے میں بعض مسجع اور بے سروپا عبارتیں لکھ کر ان کو کلام الہٰی کی حیثیت سے پیش کیا۔ مسیلمہ کا ’’کلام وحی‘‘ ایسا مضحکہ خیز ہے کہ ذوق سلیم رکھنے والے مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں۔ اس نے سورۃ الفیل کے مقابلے میں ایک سورۃ بنائی۔
الفیل وما الفیل ذنب و بیل و خرطوم طویل ان ذلک من خلق ربنا الجلیل
ترجمہ: ہاتھی، اور وہ ہاتھی کیا ہے؟ اس کی بدنما دم اور لمبی سونڈ ہے۔ یہ ہمارے ربّ جلیل کی مخلوق ہے۔‘‘
مسیلمہ نے سچے نبیوں کے مقابلے میں معجزات دکھانے کی کوشش بھی کی۔ لیکن قدرت الہٰی نے اس کا الٹا اثر دکھایا۔ جس کنوئیں میں مسیلمہ نے اپنا لعاب ڈالا وہ کنواں سوکھ گیا۔ جس شخص کی لمبی عمر کے لیے دعا کی وہ فوراً مر گیا۔ برکت کے لیے جس بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا وہ بچے گنجے ہوگئے۔ جس کی آشوب زدہ آنکھوں پر اپنا لعاب لگایا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نابینا ہو گیا۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ختم نبوت کے تحفظ کی پہلی جنگ یمامہ کے مقام پر مسیلمہ کذاب ہی کے خلاف لڑی گئی۔ اس جنگ میں سب سے پہلے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ اور آخر میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے لشکر کی کمان فرمائی۔ اس پہلے معرکۂ ختم نبوت میں بارہ سو (۱۲۰۰) صحابہ کرام و تابعین شہید ہوئے۔ جس میں سات سو (۷۰۰) قرآن پاک کے حافظ و قاری اور ستر بدری صحابہ شامل تھے۔
گھروں سے تا در زنداں وہاں سے مقتل تک
ہر امتحان سے تیرے جاں نثار گزرے ہیں
مسیلمہ کذاب کا لشکر چالیس ہزار (۴۰۰۰۰) پر مشتمل تھا جس میں سے بائیس ہزار میدان جنگ میں ڈھیر ہوئے۔
تاریخ میں جب کبھی کسی شخص نے اس عقیدۂ ختم نبوت میں رخنہ اندازی کرکے نبوت کا دعویٰ کیا تو اسے باجماع امت ہمیشہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے تیس جھوٹے نبیوں کی خبر دی ہے۔
انہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین و لا نبی بعدی۔
ترجمہ : قریب ہے کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
ایک اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کذابون کے ساتھ دجالون کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے۔ جس کے معنی دھوکہ باز کے ہیں۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو خبردار کیا کہ میرے بعد جو مدعیان نبوت پیدا ہوں گے وہ کھلے لفظوں سے اسلام سے اعلیحدگی کا اعلان کرنے کی بجائے دجل و فریب اور جھوٹ سے کام لیں گے چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ آپ کے بعد جتنے بھی مدعیان نبوت پیدا ہوئے انہوں نے ہمیشہ اسی دجل و تلبیس سے کام لیا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے اپنے دعوائے نبوت کو چمکانے کی کوشش کی۔ لہذا امت مسلمہ قرآن و سنت کے متواتر ارشادات کے مطابق عمل کرتی آئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا خواہ وہ مسیلمہ کذاب کی طرح کلمہ گو ہو، اسے اور اس کے متبیعین کو بلا تامل کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ چاہے وہ عقیدہ ختم نبوت کا کھلم کھلا منکر ہو یا مسیلمہ کی طرح یہ کہتا ہو کہ آپ ﷺ کے بعد چھوٹے چھوٹے نبی آسکتے ہیں یا سجاع کی طرح یہ کہتا ہو کہ مردوں کی نبوت ختم اور عورتیں اب بھی نبی بن سکتی ہیں۔یا مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح اس بات کا مدعی ہو کہ غیر تشریعی ظلی اور بروزی اور امتی نبی ہو سکتے ہیں۔ جھوٹے نبیوں کے فتنوں میں مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کا فتنہ چھودھویں صدی کا عظیم فتنہ ہے۔ جسے انگریز نے اپنی اغراض اور مقاصد مذمومہ کی خاطر جنم دیا اور پھر اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے اس کو خوب پھیلانے کی کوشش کی۔ علمائے اسلام نے اس کی زندگی میں ہی تعاقب شروع کر دیا جو اب تک جاری ہے۔ ۱۸۸۰ء سے مرزا قادیانی نے مختلف دعاوی کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے چند دعاوی یہ ہیں۔
۱۸۸۰ء میں ملہم من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا
۱۸۸۲ء میں مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔
۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔
۱۸۹۹ء میں ظلی بروزی نبوت کا دعویٰ کیا۔
۱۹۰۱ء میں مستقل صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔
مرزا قادیانی کے کچھ دعاوی اس کی کتابوں کے حوالاجات اصل عبارات پیش خدمت ہیں۔
’’جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعے سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے۔‘‘ (کتاب البریہ ، ص ۱۸۳، خزائن ج ۱۳، ص ۲۰۱)
الہام: جعلنک المسیح بن مریم (ہم نے تجھ کو مسیح بن مریم بنایا) ان کو کہہ دے کہ میں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں۔‘‘ (تذکرہ ، ص ۱۸۶ طبع سوم۔ ازالہ اوہام ص ۴۳۴ ، خزائن ج ۳ ص ۴۴۲)
’’میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں۔ یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی۔‘‘ (ایک غلی کا ازالہ، ص ۷۔روحانی خزائن ج ۱۸، ص ۲۱۱)
’’سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ (دافع البلاء ، ص ۱۱۔ روحانی خزائن ج ۱۸، ص ۲۳۱)
مرزا قادیانی کی زندگی میں سب سے پہلے علمائے لدھیانہ نے ۱۸۸۴ء میں اس کی تکفیر کی۔پھر جوں جوں اس کا کفر واضح ہوتا گیا تو تمام علمائے کرام نے بالاتفاق اس کے کفر کا فتویٰ دے کر علمائے لدھیانہ کی تائید فرمائی۔
مرزا قادیانی کی وفات کے بعد جب یہ فتنہ ایک مستقل اور منظم جماعت کی شکل اختیار کر گیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں محدث العصر حضرت علامہ سید انورشاہ کاشمیری رحمہ اللہ کو متوجہ کر دیا۔ انہوں نے علمی محاسبہ کے ساتھ ساتھ جماعتی طور پر مقابلہ کرنے کے لیے خطیب الہند حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے انہیں امیر شریعت مقرر کیا۔ ان کی پوری جماعت مجلس احرار اسلام کو اس فتنہ کے مقابلے کے لیے کھڑا کر دیا۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان کے بعد حضرت مولانا عطا اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے خالصتاً اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے ایک مذہبی جماعت مجلس تحفظ ختم نبوت کی بنیاد رکھی۔ جس کے پہلے امیر حضرت مولانا عطا اللہ شاہ بخاری منتخب ہوئے۔ مجلس نے اس فتنہ کا علمی اور عملی محاسبہ کرنے کے لیے مبلغین کی ایک کھیپ تیار فرمائی جو تحریر و تقریر غرضیکہ ہر محاذ پر اس فتنہ کا مقابلہ کرتی ہے۔ پھر خواجہ خواجگان حضرت مولانا خان محمد صاحب رحمہ اللہ کے دور امارت میں اس کو بین الاقوامی سطح تک ترقی دی گئی تو اس کے نام میں عالمی کا اضافہ کر دیا گیا۔ جو اس وقت بھی پوری دنیا میں اس فتنہ کے تعاقب میں علمی اور عملی جدوجہد میں مصروف کار ہے۔
۱۹۴۷ء میں ہندوستان آزاد ہوا اور ملک تقسیم ہو کر پاکستان ایک الگ ملک بنا تو قادیانیوں کو قادیان چھوڑ کر پاکستان آنا پڑا اور انہوں نے دریائے چناب کے کنارے ایک وسیع اراضی کا رقبہ لے کر اپنا ایک گاؤں آباد کیا اور اس کا نام انتہائی دجل و فریب سے ربوہ رکھا۔ تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں جب ربوہ قرآنی لفظ پڑھیں تو اس سے یہی ربوہ سمجھیں لفظ تو وہی رہا لیکن اس کا مصداق و محل بد ل گیا۔ تقریباً پچاس سال بعد ۱۷ نومبر ۱۹۹۸ء کو صوبائی اسمبلی پنجاب نے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے ربوہ کا نام تبدیل کر کے چناب نگر رکھا۔
قادیانیوں کا معمول تھا کہ وہ ربوہ (چناب نگر) سے گزرنے والی ٹرینوں میں اپنا تبلیغی لٹریچر تقسیم کیا کرتے تھے۔نشتر میڈیکل کالج ، ملتان کے طلبہ تفریحی دورہ کی غرض سے ٹرین میں سوار تھے قادیانیوں نے معمول کے مطابق اپنا تبلیغی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کیا۔ مسلمان طلبا اس فتنہ سے بحوبی آگاہ تھے اس لیے قادیانی لٹریچر کی تقسیم پر مسلمان طلبہ اشتعال میں آگئے قادیانیوں کی ان سے تلخ کلامی ہوئی اور ٹرین روانہ ہو گئی اور کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا۔ ہفتے کے بعد جب وہ اسی ٹرین سے ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو واپس ہوئے تو سرگودھا اسٹیشن کے بعد مختلف اسٹیشنوں سے قادیانی نیم فوجی تنظیم خدام الاحمدیہ کے رضا کار سوار ہوتے رہے اورربوہ (چناب نگر ) کاقادیانی اسٹیشن ماسٹر ہر اسٹیشن سے ٹرین کی آمد کی اطلاع حاصل کرتا اور اپنی جماعت کو دیتا۔ جب گاڑی ربوہ اسٹیشن پر پہنچی تو پہلے سے موجود قادیانی غنڈوں نے سابقہ قادیانی جماعت کا سربرادہمرزا طاہر کی قیادت میںڈبے کا گھیراؤ کر لیا۔ اور تمام طلبہ کو آہنی سلاخوں لوہے کے تاروں، آہنی مکوں،ہاکیوں ڈنڈوںسے حملہ کیا گیا، ان کو خوب مارا پیٹا گیا ۔ تمام طلبہ شدید زخمی ہوئے لہو لہان ہوئے۔ ان کا سامان لوٹ لیا گیا۔ غرضیکہ ان طلبہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے۔ اس پر پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا اور یہ احتجاج ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ اس واقعہ کے رد عمل میںپورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہونے لگے۔ حکومت میں نے پہلے پہل اس تحریک کو بزور دبانے کی کوشش کی اور گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ جب حالات اس سے کنٹرول نہ ہوئے تو کرفیوں نافذ کر دیا گیا۔لیکن ختم نبوت کے پروانے ان حالات سے ڈرنے والے کہاں۔ ہر مسلمان اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر آقا نامدار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر کٹ مرنے کے لیے تیار تھا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت وقت نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا۔ اور مولانا شاہ احمد نورانی نے پرائیویٹ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ جس پر ۲۸ معزز اراکین کے دستخط تھے۔ یہ بل حزت اختلاف کی طرف سے تھا اور حزب اختلاف کے قائد مولانا مفتی محمود صاحب تھے۔ ان دنوں قائد ایوان جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ انہوں نے سانحہ ربوہ (چناب نگر) پر غور اور قادیانی مسئلہ پر سفارشات مرتب کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دیا اور سرکاری طور پر بل وزیر قانون جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کیا۔ جناب اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خاں کی صدارت میں معزز ایوان میں قادیانی مسئلہ پر بحث شروع ہوگئی۔ قادیانی اور لاہوری گروپ نے اپنے اپنے محضرنامے پیش کیے۔ قادیانی گروپ کے محضر نامے کے جواب میں ’’ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ نامی محضرنامہ تیار کیا گیا۔ قادیانی گروپ کے سربراہ مرزا ناصر احمد کو قومی اسمبلی میں زبانی طور پر بھی کمیٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے یا سوالات کے جوابات و جرح کے لیے بلایا گیا تھا۔ ۵ سے ۱۱ اور ۲۰ سے ۲۱ اگست ۱۹۷۴ء تک کل گیارہ روز مرزا ناصر احمد قادیانی پر جرح ہوئی۔ ۲۷۔۲۸ اگست کو لاہوری گروپ کے صدرالدین، عبدالمنان عمر اور مسعود بیگ پر دو روز جرح ہوئی۔ ۵۔۶ ستمبر ۱۹۷۴ء کو اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹا ۔ ان کا اسمبلی کے اراکین کے سامنے دو روزہ مفصل بیان ہوا۔ اس سارے عرصے میں مسلمانوں پر امید و یاس کی کیفیت طاری تھی۔ ۶ ستمبر کی شام علمائے کرام سخت پریشان تھے۔ علمائے کرام کے سامنے ساری تحریک کے حالات اور مسلمانوں کا خون تھا۔ راجہ بازار میں تعلیم القرآن میں جلسہ ہو رہا تھا۔ علما کی تقاریر ہو رہی تھیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا عوام کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ بھٹو صاحب کی زیر صدارت رات ۱۲ بجے کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب ذہین آدمی تھے۔ وہ پہلے سے فیصلہ دل میں کیے ہوئے تھے کہ مسئلے کو عوام کی خواہشات کے مطابق حل کر کے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیں گے لیکن وہ اس مسئلے کی مشکلات اور رکاوٹوں سے بھی باخبر تھے۔ صوبائی و ضلعی انتظامیہ کو تحریک کو کچلنے کی ہدایت ، فوج کا اسلحہ سمیت شہروں میں متعین ہونا، یہ محض مرزائی و مرزائی نواز طاقتوں کی توجہ دوسری طرف پھیرنے کے لیے تھا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ۷؍ستمبر۱۹۷۴ء کی قومی اسمبلی کی تقریرکا اختتام ان الفاظ میں کیا :
"Mr. Speaker: Sir, I do not want to say anything more. I have said what I felt on this matter and this is not a decision of a single man, as I have said. Again I repeat this is a religious issue. It is a decision affecting our faith and it is a decision of the whole house, of the entire nation. It is a decision according to the sentiments of the people. I do not think it was humanly possible for this house to do more. I do not think it was humanly possibly for this house to do anything less if a permanent solution to this problem was required."
(National assembly Official report, Volume V Contains Nos. 27 to 39 7th september, 1974)
ترجمہ:
’’ جناب اسپیکر: میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اس معاملے کے بارے میں میرے جو احساسات تھے میں انہیں بیان کر چکا ہوں۔یہ فیصلہ کسی ایک فرد کا فیصلہ نہیں ہے۔جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں میں ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے، یہ ایک ایسافیصلہ ہے جو ہمارے عقائد سے متعلق ہے اور یہ فیصلہ پورے ایوان کا فیصلہ ہے اور پوری قوم کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق ہے۔ میرے خیال میں یہ انسانی طاقت سے باہر تھا کہ یہ ایوان اس سے بہتر کچھ فیصلہ کر سکتا، اور میرے خیال میں یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ اس مسئلے کو دوامی طور پر حل کرنے کے لیے موجودہ فیصلے سے کم کوئی اور فیصلہ ہو سکتا تھا۔‘‘
آخر وہ وقت آگیاجب ختم نبوت کے پروانوں کی قربانیاں رنگ لائیں اور حق کی فتح ہوئی، اللہ ربّ العزت نے فضل فرمایا۔ ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کی شام قومی اسمبلی و سینٹ نے متفقہ طور پر مرزائیوں، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا، یوں یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ کفر ہار گیا، اسلام جیت گیا، ختم نبوت کا بول بالا ہوا۔ الحق لعلواولا یعلیحق سربلند ہوتا ہے نہ کہ پست، شام کو ریڈیو ، ٹی وی ، دوسرے روز اخبارات کے ذریعے قوم کو جب اس خبر کی اطلاع ہوئی تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ قادیانیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا اور ان کو غیر مسلم اقلیتوں کے تمام حقوق بھی دیئے۔ لیکن قادیانیوں نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا اور اب تک وقتاً فوقتاً وہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔وہ اب بھی تمام مسلمانوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور خود کو مسلمان سمجھتے ہیں۔اور کچھ قادیانی نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ ہمیں غیر مسلم اقلیت قرار دے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ کو کوئی حق حاصل نہیں تھا تو قادیانی جماعت کے اس وقت کے سربراہان پارلیمنٹ کے سامنے اس معاملے میں اپنی صفائی بیان کرنے حاضر کیوں ہوئے تھے۔ اگر خوانخواستہ فیصلہ قادیانیوں کی منشا کے مطابق ہو جاتا تو پارلیمنٹ کو حق حاصل ہوتا۔ اب جبکہ فیصلہ عین اسلام کے اصولوں کے مطابق ہوا اور قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جا چکے ہیںتو پارلیمنٹ کے استحقاق پر شک چہ معنی دارد۔
مرزا قادیانی کو نبی نہ ماننے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی سمجھنے والے مسلمانوں کے بارے میں مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب میں کچھ یوںصفحات سیاہ کرتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ الہامات ص ۶۰۰ طبع دوم از مرزا غلام احمد قادیانی)
اسی تناظر میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود ابن مرزا غلام احمد قادیانی نے مسلمانوں کے بارے میں لکھا ہے:
’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت ص ۳۵۔ از مرزا بشیر الدین محمود ابن مرزا غلام احمد قادیانی)
ان حوالاجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرقہ باطلہ قادیانیہ تمام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اور خود کو پکا اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور اپنی جان سے زیادہ مجھے عزیز نہ سمجھے۔‘‘اس حدیث پر عمل کر کے تحریک ختم نبوت میں مسلمان قوم نے ثابت کر دیا کہ فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت ہی کامل ایمان کی نشانی ہے۔ تاج و تخت ختم نبوت زندہ باد
یہ مضمون پاکستان کے ایک روزنامہ میں چھپ چکا ہے۔ راقم ضرب فاروقی