معافی اور درگزر، یہ ایک پھول کی مانند ہیں۔ اس کے باعث انسان ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں اور یہ "معافی" انسانوں کے مابین connectivity کا کام دیتی ہے۔ جو لوگ معافی مانگنے سے محروم ہو جاتے ہیں وہ انسان کے درمیان رابطے اور تعلق کے پل کو توڑ دیتے ہیں اور ایک وقت ضرور آتا ہے کہ ان کو خود کسی وجہ سے آدمیوں اور انسانوں کے پاس جانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن وہ پل ٹوٹا ہوا ہوتا ہے۔ اگرہم ایک انسان سے کوئی زیادتی کرتے ہیں یا انسان کا کوئی گناہ کرتے ہیں اور پھر وہ انسان خدانخواستہ فوت ہو جاتا ہے یا برطانیہ یا کینیڈا جا کر آباد ہو جاتا ہے تو پھر ہمیں اس انسان کے پاس جا کر معافی مانگنے میں بڑی مشکل درپیش ہوتی ہے لیکن اگر ہم خدا کے گناہگار ہوں اور ہمارا ضمیر اور دل ہمیں کہے کہ "یار تو نے یہ بہت بڑا گناہ کیا اور تجھے اپنے رب سے معافی مانگنی چاہیے۔" تو اس صورت میں ہمیں سب سے بڑی آسانی یہ ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے خدا کو کہیں جا کر ڈھونڈنا نہیں پڑتا، تلاش نہیں کرنا پڑتا کیونکہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے، اس لیے ہمارے بابے اس بات پر زور دیتے ہیں اور ہمارے بابا جی ہمیں اکثر و بیشتر یہ کہا کرتے تھے کہ "انسان کے معاملے میں بہت احتیاط کیا کرو اور کوئی ایسا گناہ یا غلطی کی سرزدگی سے بچا کرو جو انسان سے متعلق ہو، کیونکہ انسان سے کیے گناہ یا ظلم کی معافی اس سے ملے گی۔ اگر تم سے کوئی خدا کا گناہ ہو جاتا ہے تو یہ اور بات ہے، وہ رحیم و کریم ہے اور ہر جگہ موجود ہے، اس سے معافی کسی بھی وقت مانگی جا سکتی ہے۔ اگر وہ انسان کھو گیا تو مارے جاوّ گے۔"
زاویہ سے اقتباس
زاویہ سے اقتباس