ق
قاسمی
خوش آمدید
مہمان گرامی
لڑکیاں اللہ کا انعام ہیں
اسلام کلی مساوات اور عدل کی دعوت دیتا ہے۔ حق تلفی، ظلم و زیادتی اور ناانصافی اسلام کے مزاج رحم و کرم کے خلاف ہے۔ بچوں پر رحم و شفقت کے سلسلہ میں اسلام نے مرد و عورت، مذکر و مؤنث اور نر و مادہ میں کوئی تفریق نہیں کی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مقدس پر عمل ہو۔’’عدل کرو یہی بات تقویٰ سے نزدیک ہے۔‘‘
نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نافذ ہو جو آپ نے حدیث کے ذریعہ دیا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان عدل و مساوات کرو، تم اپنی اولاد کے درمیان عدل و مساوات کرو، تم اپنی اولاد کے درمیان عدل و مساوات اور برابری کرو۔
جب اسلام رخسار کائنات پر جگمگایا دنیا کی ہر چیز منور و تابندہ ہوگئی، کفر و شرک جہالت و بربریت، سفاکیت و درندگی کا خاتمہ ہوا، اسی بدحالی کے دور میں اس صنف نازک کا کوئی ہمدرد و غم گسار نہ تھا، ظلم و ستم کی چکی میں پس پس کر عورت کراہ رہی تھی اور نود میدہ کلیاں شگفتہ ہونے کی آرزو میں سپرد خاک ہوجاتی تھیں، گویا کہ بعض قبائل کے لوگ بچیوں کو زندہ گور غریباں پہنچا دیا کرتے تے، ان کی پیدائش ننگ و عار تھی، عزت وقار عظمت و تقدس پر داغ تھیں، ان کی پیدائش زحمت خیال کی جاتی تھی، اس اضطراب کے عالم میں خدائی آواز نے زندہ درگور ہونے سے بچالیا او ربیٹی کو عظیم نعمت قرار دے کر تصور دے دیا کہ یہ سراپا رحمت ہے زحمت نہیں ہے۔
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دو لڑکیاں پائیں اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی تو وہ دونوں اسے جنت میںد اخل کر وائیںگی اور دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا کہ جس گھر میں تین لڑکیاں ہوں ،ا س گھر میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اسلام نے ہر باپ کو مزاج عطا کیا ہے کہ جب بازار سے کوئی کھانے پینے کی چیز لاؤ تو پہلے لڑکی کو دو بعد میں لڑکے کو دو، کیوںکہ لڑکی کا دل نرم و نازک ہوتا ہے۔ یہ امر مبنی برحقیقت ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب و ادیان کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسا مذہب سوائے مذہب اسلام کے نہیں ہے، جس نے بیٹی کے بارے میں عمدہ فکر و مزاج، عزت و وقار اور ان کے ساتھ ہمدردی و غم گساری کا جذبہ دیا ہے۔ اسلام نے صرف ان کو سپرد خاک ہونے سے بچایا ہی نہیں، بلکہ رنگ و بو کی زینت قرار دے دیا اور ان کی عمدہ تعلیم و تربیت کو جنت میں جانے اور دیگر اخروی نعمتوں سے شاد کام ہونے کا ذریعہ قرار دیا۔ لہٰذا بیٹیوں کی خاطر داری اوردل جوئی زیادہ کریں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ارشاد نبوی ہے کہ جس کے گھر لڑکی پیدا ہو پھر وہ اس کو زندہ دفن نہ کرے، نہ ہی اس کو ذلیل سمجھے اور نہ ہی لڑکے کو اس پر اہمیت دے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔(ابوداؤد شریف)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ہوںگے پھر آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر بتایا۔( مسلم شریف)
بخاری و ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ اپنی لڑکیوں کو پیار و محبت سے پرورش کرینگے تو وہ بچیاں بروز محشر جہنم سے آڑ بن جائیںگی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جب تم اپنے بچوں میں کوئی چیز تقسیم کرو تو لڑکیوں سے شروع کرو کیوںکہ لڑکوں کے مقابل میں لڑکیاں والدین سے زیادہ محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔
عورت حاملہ ہونے کے بعد یہ تمنا کرے کہ لڑکا پیدا ہو اگر لڑکی پیدا ہوجائے تو اس کو زحمت نہ سمجھے۔ چہرہ افسردہ نہ کرے دل کو غمزدہ نہ کرے، حسرت و افسوس کے باعث اپنی ہتھیلی نہ ملے، ناامیدی و مایوسی کا چراغ نہ جلائے، یہ کسی مسلمان عورت کے لیے مناسب نہیں ہے۔
بلکہ خدا کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس عظیم نعمت سے نواز دیا ہے اور اس کی گود بھر دی ہے، اس کے خاموش آنگن میں رنگت بھرنے والی بچی آچکی ہے جو اس کے لیے رحمت بن کر آئی ہے اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آئی ہے، یہ تو خدا وند قدوس کے قبضہ و قدرت میں ہے، جس کو چاہے بیٹا دے جس کو چاہے بیٹی دے۔
وہی شکم مادر میں صورت گری کا حکم دیتا ہے، اس کی قدرت میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے، اس کی عطا کردہ نعمت پر شکر ادا کرے، سینے سے لگائے، اس کو پیار و محبت کی نظر سے دیکھے، اس کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دے تاکہ وہ سرمایۂ آخرت بنے اور جنت میں جانے کا سامان فراہم ہو، اس کو زحمت خیال کرنا اور اس کی پیدائش پر غمزدہ ہوجانا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے، جو کفار کا طریقہ کار ہوتا ہے، معاشرے میں پھیلی ہوئی ایسی بیماری ہے، جس کی کڑی دور جاہلیت سے ملتی ہے، دین اسلام سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے جیسا کہ قرآن مقدس میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے کہ ایک بار رات میں گشت لگا رہے تھے، ایک مکان کے قریب سے گزرے، جہاں ماں اور بیٹی کے درمیان کسی بات پر بحث ہو رہی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنا ماں بیٹی سے کہہ رہی ہے کہ دودھ میں پانی ملا دو اور بیٹی انکار کرتے ہوئے جواب میں کہہ رہی ہے کہ امیرالمومنین نے منع فرمایا ہے۔ ماں نے کہا یہاں امیرالمومنین تو نہیں دیکھ رہے ہیں، بیٹی نے جواب دیا امیر المومنین تو نہیں دیکھ رہے ہیں ان کا خدا تو دیکھ رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بغیر کچھ کہے گھر چلے گئے اور اپنے بیٹے عاصم سے کہا کہ تم اس لڑکی سے نکاح کرلو، انہوں نے پیغام بھیجا اور نکاح کردیا، انہی کی نسل سے عمربن عبدالعزیز جیسا عادل، دین پرور خلیفہ امت کو عطا ہوا، جس پر امت جتنا چاہے فخر کرے کم ہے۔آج رفتہ رفتہ قدم دور جاہلیت کی جانب بڑھ رہے ہیں، بچیوں کی پیدائش ایک بار پھر زحمت خیال کی جارہی ہے، ان کی پیدائش پر خوشیوں کے بجائے سوگ منایا جاتا ہے، رنج و ملال میں مبتلا ہوجاتے ہیں، یہ سب ایمان کی کمزوری کی علامت و نشانی ہے۔ اللہ کی قدرت پر کامل یقین رکھئے کہ جس نے اس لڑکی کو وجود بخشا ہے وہی اس کے رزق کا مالک ہے، ان کو بھی رزق دے گا اور تم کو بھی رزق دیتا ہے اور دے گا۔
بشکریہ جو تھی دنیا