چند مستثنیات کے ماسوا ہر بیماری کا علاج بندہ کے اختیار میں ہے
علاج کے بعد بھی بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔اس میں اسکی موت ہے اور دوسرا بڑھاپا۔موت کسی کی واقع ہونے والی ہے تو کتنی ہی احتیاطی تدابیر اختیار کیوں نہ کرلی جائیں اسے کوئی روک نہیں سکتا اور وہ وقتِ معینہ پر آکر رہے گی . اسی طرح بڑھاپے کو بھی کوئی دوا ٹال نہیں سکتی ، کیوں کہ بڑھاپا طاری ہی اسی لیے ہوتا ہے کہ اب اس کا کام اس دنیا سے ختم ہوگیا اس لیے اسے بڑھاپے کی منزل میں پہنچادیا گیا جس میں وہ کچھ دن مبتلا رہ کراس دنیا سے رخصت ہوجائے گا چنانچہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :اللہ کے بندو ! علاج کراؤ اس لیے اللہ عزوجل نے موت اور بڑھاپے کے سوا جو بھی بیماری اتاری ہے اس کے لیے شفا بھی رکھی ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کے رسو ل ﷺنے فرمایا کہ :ہر بیماری کا علاج اللہ نے پیدا کیا ہے مگر بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں۔
کیا انسان نے بعض بیماریوں کے علاج میں کامیابی حاصل کی ہے؟
باوجود اس کے بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج اطباء ڈھونڈنے میں اب تک ناکام ہیں ۔ یہ انسانوں کی کم علمی ہے نہ کہ خالق کائنات کا نقص اسی لیے تو قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کو مخاطب کیا گیا ہے کہ تم کائنات کی تخلیق پر غو رکیوں نہیں کرتے ، تم اشیاء کے رموز وحقائق کے جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ، تم میں اتنا شعورکیوں نہیں کہ تم نامعلوم چیزوں کا علم حاصل کرسکودنیانے دیکھا ہے کہ انسان جن نامعلوم چیزوں کے جاننے کی کوشش برابر کرتارہا اسے ان میں کامیابی مل گئی۔ کینسر جو کسی زمانے میں لاعلاج بیماری تصور کی جاتی تھی آج اس کا علاج تو نہیں البتہ اس کے انسداد کا حل کافی حد تک تلاش کر لیاگیا ہے . سینکڑوںمریض دوا کے سہارے آج زندہ ہیں اگرچہ ان کو جان کا خطرہ لگارہتاہے یہ کیا کم ہے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ نہیں ہوا ہے۔اگر بیماری پہلے یا دوسرے مرحلے میں ہو اور بر وقت اس اسکا علاج شروع کر دیا گیا تو یہ بیماری بھی ختم ہو جاتی ہے۔خود اللہ کے رسول ا کو اس بات کا اندازہ تھا کہ بعض بیماریوںکا علاج بھی انسان کی دسترس سے باہر ہے ، لہذا آپ نے لوگوں کو اس میں کامیابی حاصل کرنے کی ترغیب دی . چنانچہ آپ انے فرمایا ۔۔:
اللہ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کی شفا بھی اتاری ہے ، جاننے والا اسے جانتا ہے ، نہ جاننے والا نہیں جانتا ۔
حالات اور وقت کے ساتھ آدمی کی ضرورتیں بدلتی رہتی ہے ، پہلے طب میں وہ سہولتیں نہیں تھیں جو آج کے زما نے میں ہیں اور آئندہ بھی مزید سہو لہتیں فراہم ہو ں گی (انشاء اللہ ) جو مریض اور طبیب کے لیے تقویت کا باعث ہونگی چنانچہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہے کہ۔:رسول ا کا ارشاد ہے’’لکل داء دواء ‘‘ مریض اور طبیب دونوں کے لیی تقویت کا با عث ہے۔اس میں علاج کے تلاش کی ترغیب بھی ہے ،اگر مریض کو یہ محسوس ہو کہ اس کا مرض لا علاج نہیں ہے بلکہ اس کا علاج ممکن ہے تو اس کا دل امید سے بھر جائے گا اور مایوسی ختم ہوجائے گی اس سے وہ اپنے اندر نفسیاتی طور پر مرض پر غالب آنے والی توانائی محسوس کرے گا اسی طرح طبیب کو جب معلوم ہوگا کہ ہر بیماری کی اللہ نے دوا رکھی ہے تو تلاش وجستجو اس کے لیی ممکن ہوگی ۔
عیادت سے مریض کی صحت کو تقویت ملتی ہے
یہیں سے عیا دت کی شرعی حیثیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مصیبت اور بیماری میں مبتلاہوتو دوسرے بھائی کو چاہیی کہ وہ اس کی عیادت کے لیی پہنچے اور مریض کو تسلی بخش باتیں سنا کر لوٹے اس سے مریض کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی یہ خیر خواہی مریض کے حق میں اتنی مفید ہوتی ہے کہ کوئی دوا بھی اس کا بدل نہیں ہوتی اور بیمار باتو ں باتوں میں اچھا ہوجاتا ہے اور بستر مرض سے اٹھ کرچلنے پھرنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف مریض کے حق میں فائدہ ہوتا ہے بلکہ عیا دت کے لیی جانے والے شخص کو بھی اللہ تعالیٰ ڈھیر ساری نیکیوں سے نوازتا ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ :’’جو مسلما ن کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں ، اگروہ شام کے وقت اس کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں اور جنت میں اس کے لیی پھل ہوں گے ۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے:’’بیشک مسلمان جب اپنے بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہا ں سے واپس ہونے تک وہ جنت کے پھلو ں میں رہتا ہے۔‘‘ عیادت نہ صرف یہ کہ اپنے قریب ترین رشتہ دار کی کی جائے بلکہ اس کے مستحق سارے لوگ ہیں ۔ بچہ، بوڑھا ، جوان ، عورت ، مرد ،پڑوسی ، یہاں تک کہ غیر مسلموں کی بھی کی جانی چاہیی۔اللہ کے رسول ﷺکا اس پر کثرت سے عمل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو تا کید کے ساتھ فرمایا : ’’بھوکے کو کھا نا کھلاؤ ،مریض کی عیادت کرو ، اور قیدی کو چھڑاؤ ۔‘‘
بیما ری سے گناہ کم ہوتے ہیں
تندرستی کے برقرار رہنے کے لیی ضروری ہے کہ انسانوں کا واسطہ چھوٹی موٹی بیماری سے پڑتا رہے، تاکہ اس کے جسم سے غیر ضروری اجزاء اور فضلات کا اخراج ہوتا رہے ۔ اس کا دوسرا فا ئدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ گناہ کم ہوتے ہیں .کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس بندے سے خفا ہوتا ہے تو اسے بیماری میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ بندہ نے جو گناہ کیا ہے اس کی مدافعت ہو جائے . چنا نچہ اللہ کے رسول ا نے فر ما یا :
’’مسلما نوں کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ اسے کوئی کا نٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے گنا ہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ اگر کسی مؤمن بندے کو یہ اندازہ ہو جائے کہ بیما ری اور مصیبت کے ذریعہ اسے کتنا بڑا فائدہ پہنچنے والا ہے تو وہ یہی چاہے گا کہ ہمیشہ بیماری میں مبتلا رہے . جیسا کہ رسول ا نے فرما یا : جو لوگ عافیت میں ہیں ، قیا مت کے دن جب کہ مصیبت زدوں کو ثواب دیا جائے گا ، یہ چاہیں گے کاش ! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھا لوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جا تے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں بیماری کومسلما نوں کے لیی ایک نعمت اور اس کے گنا ہوں کا کفارہ قرار دیتے ہوئے فرما یا گیا :’’ جس مسلمان کو کا نٹا چبھنے کی یا اس سے بڑی کو ئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کی غلطیوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتاہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:مصیبت اور پریشانیوں میں مبتلا ہونے کے بعد رنجیدہ خاطرنہیں ہو نا چا ہیی بلکہ اسے خدا کا عطیہ اور نعمت تصور کرنا چا ہیی اے میرے بیٹے مصیبت تجھے ہلاک کر نے کے لیی نہیں آتی بلکہ تیرے صبر وایمان کا امتحان لینے آتی ہے .نیز اس کا علاج یہ بھی کہ تو سوچے کہ اگر دنیا میں مصائب و محن نہ ہو تے تو بندے عجب وفرعونیت ،شقاوت قلبی جیسے امراض میں مبتلا ہو جاتے،جن سے آدمی دنیا میں اور آخرت میں ہر جگہ تباہ وبرباد ہو کر رہ جاتا ۔اس لیی یہ تو ارحم الراحمین کا کمال رحمت ہے کہ بعض اوقات وہ مصائب کی دوا استعمال کرادیتا ہے جن کے باعث امراض سے تحفظ رہتا ہے اور صحت عبدیت قائم رہتی ہے .نیز کفر و عدوان اورشرک وغیرہ کے فاسق مادوں کا استفراغ جاری رہتا ہے۔بس پاک ہے وہ جو ابتلاء کے ذریعہ رحم فرماتی ہے اور انعاما ت کے ذریعہ ابتلاء میں ڈال دیتی ہے ۔
بیماری میں صبر کی اہمیت
اللہ تبارک وتعالی اپنے جس بندے سے زیادہ محبت کرتا ہے اسے اتنی ہی بڑی ابتلاء وآزمائش میں بھی مبتلا کرتا ہے تاکہ اندازہ لگائے کہ میرے بندے کامصیبت میں کیا رویہ رہتا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول انے فرمایا :اللہ تعالیٰ جس کے سا تھ خیر کا ارادہ کر تا ہے تو اسے مصیبت میں ڈال دیتا ہے ۔ اسی طرح کی اور دوسری احادیث بھی ہیں جن سے اسی مفہوم کی وضاحت ہوتی ہے .ایسی صورت میں مومن کا رویہ یہ ہو نا چاہیی کہ وہ ہر حال میں صبرکرے اور اسے اپنی تکالیف کا مداوا تصور کرے۔ اگر وہ ناشکری اور جزع و فزع کرتا ہے تو وہ اپنی تکلیف میں اضافہ ہی کرتاہے۔ کیونکہ صبرسے تکالیف میں برداشت کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور اس سے قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:اے ایمان والو! مددطلب کرو صبر اور نماز کے ذریعہ ، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیںانہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے ۔ہم ضرور تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک کے ذریعہ اور مالوں ،جانوں ِاورپھلوں میں کمی کر کے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادو! جن کواگر کوئی مصیبت آتی ہے توکہتے ہیں،ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے ،ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی عنایات اور رحمتیں ہیں اور یہی ہدایت یافتہ ہیں ۔(البقرۃ) بعض صحابہ کرام بیماری میں مبتلاء ہوتے تودوا علاج ترک کردیتے اور صبر وشکر کو ہی اس کا مداواسمجھتے تھے جس کی اللہ کے رسول ا نے ممانعت کی اور فرمایا کہ صحت کو تندرست رکھنے کے لیی دوا بھی ضروری ہے اور صبر بھی ضروری ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے ،کہ ایک عورت مرگی کی بیماری میں مبتلا تھی جب اس پردورہ پڑتاتو اسے اپنے کپڑوں کی خبر نہ رہتی اور وہ بے ستر ہوجاتی تھی اس نے اللہ کے رسول اسے دعا کی درخواست کی ،آپ انے فرمایاتم چاہو تو دعا کرو اور چاہو تو صبر کرو ، اللہ تعا لی اس کے عوض جنت عطا فرمائے گا ،اس پر اس نے کہا تب تو میں صبر کرونگی البتہ آپ دعا فرمائیی !کہ دورہ کی حالت میں میری بے ستری نہ ہو ،آپ انے اس کے لیی دعا فرمائی۔ اس عالم پریشانی میں جو بندہ صبر کر تا ہے اللہ کے نزدیک اس کا مقام بہت بلند ہو جاتا ہے ،جیساکہ باری تعالی کا فرمان ہے:’’وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں تنگی ترشی اورتکلیف میں اور جنگ کے وقت ،یہی لوگ سچے ہیں اور یہی تقوی والے ہیں۔‘‘صبر وشکر کو مؤمن کا خاص وصف قرار دیتے ہوئے اللہ کے رسول ا نے فرمایا:’’ مؤمن کا معاملہ کتنا اچھا ہے ،کہ وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے ،وہ اس کے حق میںبہتر ہوتا ہے یہ بات مؤمن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی ،اگر وہ مسرت سے ہمکنار ہوتو شکر کرتا ہے یہ اس کے لیی بہتر ہوتا ہے اگر تکلیف پہنچتی ہے تو صبرکرتاہے یہ بھی اس کے حق میںبہتر ہوتا ہے۔‘‘ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں نبیوں اور نیک بندو ںکو بڑی مشکلات ، سخت سے سخت بیماری اور آزمائش میں مبتلا کرکے ان کے صبر کا امتحان لیا ہے ،مگر وہ ہر حال میں صبر کرتے رہے ،جس کے صلہ میں اللہ نے ان کے مرتبے کو بلند فرمایا صبر ایوب سے کون واقف نہیں ہے ، حضرت ایوب علیہ السلام مہلک ترین بیماری میں ایک لمبے عرصے تک مبتلارہے لیکن پھربھی انہوں نے صبرکے علاوہ کوئی لفظ شکوہ اپنی زبان پر کبھی آنے نہیں دیااس بیماری میں انکے تمام قریبی لوگ ساتھ چھوڑگئے مگر انکی بیوی اٹھارہ سال تک خدمت کرتی رہیںانکی تکلیف کی شدت کی وجہ سے بعض اوقات انکی بیوی بھی کرب والم میں مبتلا ہوجاتی تھی ایک باربجذبہ ہمدردی انکی بیوی نے کچھ ایسے الفاظ کہے جو صبر ایو ب کے منافی تھے اور خداکی جناب میں شکوہ کا پہلو لیی ہوئے تھے اس پر وہ اپنی مونس و غم خوار بیوی سے ناراض ہوگئے اور کہا کہ تم نے کفران نعمت کی ہے اسکی سزا میں تم کو ضرور دونگا اس صبر کے صلہ میں اللہ نے انکے درجات بلندکئے جس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے۔
اور یاد کرو جب ایوب نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے تو ارحم الرا حمین ہے،ہم نے اس کی پکار سنی اور اسے جو تکلیف تھی وہ دور کردی ۔ہم نے اسے اس کو اہل وعیال دئیی اور اس کے صبر کے ذریعہ نہ صرف دنیوی و اخروی درجات بلند ہوتے ہیں بلکہ اس سے مریض کی صحت پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں کیونکہ جو آڈمی بیماری کی حالت میں صبر کرے گا اسے اپنی تکلیف کا بوجہ ہلکا معلوم ہوگا اور اس کی امیدیں اور نیک خواہشات برآئیں گی چنانچہ مرض چھوٹا ہو یا بڑا، قابل علاج ہو یا لا علاج ہر حال میں اسلام نے صبر کی تعلیم دی ہے ۔جو لوگ مذہبی اقدار کی اہمیت نہیں محسوس کرتے ان کے نزدیک یہ ایک بے معنی نصیحت ہے۔ اس سے انسان کے مسائل حل نہیں ہوتے اور وہ ممکنہ تدابیر بھی اختیار نہیں کرتا ، لیکن یہ صبر کا غلط تصور ہے۔ صبر اس بات کا نام ہے کہ آدمی مشکلات میں جزع ، فزع اور گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کرے ،شکوہ شکایت کی جگہ جم کر ان کا مقابلہ کرے جو تدبیریں اس کے بس میں ہوں ان کو پورے سکون کے ساتھ اختیار کرے اور نتیجہ اللہ کے حولے کردے ، اس سے انسان کی قوت ارادی (will power) مضبوط ہوتی ہے اور آدمی کے اندر خود اعتمادی اور خدا اعتمادی پیدا ہوتی ہے ۔ مریض کے اندر مضبوط قوت ارادی ہو تو وہ مرض کا بڑی ہمت اور پامردی سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جن مریضوں کی قوت ارادی مستحکم ہوتی ہے وہ مایوس اور بے صبر مریضوں کے مقابکہ میں لمبی زندگی پاتے ہیں ۔
موت کی دعا نہیں کرنی چاہیئے
ہر انسان کسی نہ کسی طرح بیماری میں مبتلاہے بعض بیماری قابل علاج ہوتی ہے تو کوئی لا علاج اور زندگی بھر وہ کرب و الم کی دنیا میں زندہ رہتا ہے ، ایسی حالت میں وہ چا ہتا ہے کہ اس لا علاج بیماری اور تکلیف بھری دنیا سے کسی طرح نجات پالے جس کے لیی وہ بعض وقت دعا کرتا ہے کہ اللہ مجھ کو اس تکلیف دہ زندگی سے نکال کر موت دے دے ، جو درست نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندو ں پربیماری اسی لیی طاری کرتا ہے کہ اس کے اندر قوت برداشت کا داعیہ پیدا ہو ، اللہ کے رسول ا نے ایسی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔:تم میں سے کسی شخص کوکوئی تکلیف پہنچے تووہ موت کی تمنا نہ کرے ،اگر کسی وجہ سے بالکل ضروری ہوجائے تو اس طرح کہے: اے اللہ ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ زندہ رہنا میرے حق میں بہتر ہو اور جب موت میرے حق میں بہترہے تو موت دے دے،مصائب ومشکلات اور بیماری تو وقتی چیز ہے ،یہ کبھی جلد رفع ہو جاتی ہے اور کبھی وقت لگتا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اسکا مقابلہ نہ کرے ،اللہ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عیادت کے لیی پیدا کیا ہے تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے ۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ بزدلی ہے اور مومن کے شان کے خلاف اور کفر ان نعمت ہے۔ اندازہ لگائیی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بعض بیماری کا بہتر علاج گرم لوہے سےداغےجانے کا تھا ۔ جس کی تکلیف سے آدمی کی ہڈی چرمر ا جاتی تھی باوجود اس تکلیف کے وہ زندہ رہنے کو ترجیح دیتے تھے ۔بعض روایات میں آتاہے کہ حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ کو بطور علاج گرم لوہے سے سات داغ لگائے گئے ، اس سے انہیں سخت تکلیف ہو ئی با وجود اس کے انھوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے موت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ورنہ تکلیف اتنی سخت ہے کہ میں اللہ سے موت کی دعا کرتا ۔
یہ تو صحابہ کا عمل تھا ،خود اللہ کے رسول ﷺ کو لوہے سے داغےجانے کی تکلیف کا اندازہ تھا ۔باوجود اس کے آپ نے حفظان صحت کے تحت اسکی اجازت دی کہ تم اس طریقہ پر عمل کرکے اپنا علاج کراؤ ،جیساکہ اللہ کے رسول ا نے فرمایا :
شفا تین چیزوں میں ہے ، شہد کا گھونٹ پینے ، پچھنے کا نشان اور آگ سے داغ لگانے میں ۔میںاپنی امت کو داغ لگانے سے منع کرتا ہوں۔کون انسان کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت ہوگی یہ اللہ ہی جانتا ہے اور زندگی اور موت دینے کا حق بھی اسی اللہ کوہے ،انسان کے بس میں اگر یہ چیزہوتی تو دنیا کا نظام درھم برھم ہوکر رہ جاتا ،انسان کادنیا میں زندہ رہنا بھی تقویت اور ترقی درجات کا باعث ہے ، اسی لیی اللہ کے رسول انے منع فرمایا کہ موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیی اس لیی کہ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہوگا اور اگر برا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے تائب ہوجائے ۔
لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کاایک خوبصورت عطیہ ہے جسے اس کی رضا کے حصول اورمرضی کے مطابق ہی استعمال کیا جائے تاکہ اس کی نافرمانی میں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ پر امید رہتا ہے کیونکہ مایوسی کفر ہے
علاج کے بعد بھی بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔اس میں اسکی موت ہے اور دوسرا بڑھاپا۔موت کسی کی واقع ہونے والی ہے تو کتنی ہی احتیاطی تدابیر اختیار کیوں نہ کرلی جائیں اسے کوئی روک نہیں سکتا اور وہ وقتِ معینہ پر آکر رہے گی . اسی طرح بڑھاپے کو بھی کوئی دوا ٹال نہیں سکتی ، کیوں کہ بڑھاپا طاری ہی اسی لیے ہوتا ہے کہ اب اس کا کام اس دنیا سے ختم ہوگیا اس لیے اسے بڑھاپے کی منزل میں پہنچادیا گیا جس میں وہ کچھ دن مبتلا رہ کراس دنیا سے رخصت ہوجائے گا چنانچہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :اللہ کے بندو ! علاج کراؤ اس لیے اللہ عزوجل نے موت اور بڑھاپے کے سوا جو بھی بیماری اتاری ہے اس کے لیے شفا بھی رکھی ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کے رسو ل ﷺنے فرمایا کہ :ہر بیماری کا علاج اللہ نے پیدا کیا ہے مگر بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں۔
کیا انسان نے بعض بیماریوں کے علاج میں کامیابی حاصل کی ہے؟
باوجود اس کے بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج اطباء ڈھونڈنے میں اب تک ناکام ہیں ۔ یہ انسانوں کی کم علمی ہے نہ کہ خالق کائنات کا نقص اسی لیے تو قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کو مخاطب کیا گیا ہے کہ تم کائنات کی تخلیق پر غو رکیوں نہیں کرتے ، تم اشیاء کے رموز وحقائق کے جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ، تم میں اتنا شعورکیوں نہیں کہ تم نامعلوم چیزوں کا علم حاصل کرسکودنیانے دیکھا ہے کہ انسان جن نامعلوم چیزوں کے جاننے کی کوشش برابر کرتارہا اسے ان میں کامیابی مل گئی۔ کینسر جو کسی زمانے میں لاعلاج بیماری تصور کی جاتی تھی آج اس کا علاج تو نہیں البتہ اس کے انسداد کا حل کافی حد تک تلاش کر لیاگیا ہے . سینکڑوںمریض دوا کے سہارے آج زندہ ہیں اگرچہ ان کو جان کا خطرہ لگارہتاہے یہ کیا کم ہے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ نہیں ہوا ہے۔اگر بیماری پہلے یا دوسرے مرحلے میں ہو اور بر وقت اس اسکا علاج شروع کر دیا گیا تو یہ بیماری بھی ختم ہو جاتی ہے۔خود اللہ کے رسول ا کو اس بات کا اندازہ تھا کہ بعض بیماریوںکا علاج بھی انسان کی دسترس سے باہر ہے ، لہذا آپ نے لوگوں کو اس میں کامیابی حاصل کرنے کی ترغیب دی . چنانچہ آپ انے فرمایا ۔۔:
اللہ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کی شفا بھی اتاری ہے ، جاننے والا اسے جانتا ہے ، نہ جاننے والا نہیں جانتا ۔
حالات اور وقت کے ساتھ آدمی کی ضرورتیں بدلتی رہتی ہے ، پہلے طب میں وہ سہولتیں نہیں تھیں جو آج کے زما نے میں ہیں اور آئندہ بھی مزید سہو لہتیں فراہم ہو ں گی (انشاء اللہ ) جو مریض اور طبیب کے لیے تقویت کا باعث ہونگی چنانچہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہے کہ۔:رسول ا کا ارشاد ہے’’لکل داء دواء ‘‘ مریض اور طبیب دونوں کے لیی تقویت کا با عث ہے۔اس میں علاج کے تلاش کی ترغیب بھی ہے ،اگر مریض کو یہ محسوس ہو کہ اس کا مرض لا علاج نہیں ہے بلکہ اس کا علاج ممکن ہے تو اس کا دل امید سے بھر جائے گا اور مایوسی ختم ہوجائے گی اس سے وہ اپنے اندر نفسیاتی طور پر مرض پر غالب آنے والی توانائی محسوس کرے گا اسی طرح طبیب کو جب معلوم ہوگا کہ ہر بیماری کی اللہ نے دوا رکھی ہے تو تلاش وجستجو اس کے لیی ممکن ہوگی ۔
عیادت سے مریض کی صحت کو تقویت ملتی ہے
یہیں سے عیا دت کی شرعی حیثیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مصیبت اور بیماری میں مبتلاہوتو دوسرے بھائی کو چاہیی کہ وہ اس کی عیادت کے لیی پہنچے اور مریض کو تسلی بخش باتیں سنا کر لوٹے اس سے مریض کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی یہ خیر خواہی مریض کے حق میں اتنی مفید ہوتی ہے کہ کوئی دوا بھی اس کا بدل نہیں ہوتی اور بیمار باتو ں باتوں میں اچھا ہوجاتا ہے اور بستر مرض سے اٹھ کرچلنے پھرنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف مریض کے حق میں فائدہ ہوتا ہے بلکہ عیا دت کے لیی جانے والے شخص کو بھی اللہ تعالیٰ ڈھیر ساری نیکیوں سے نوازتا ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ :’’جو مسلما ن کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں ، اگروہ شام کے وقت اس کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں اور جنت میں اس کے لیی پھل ہوں گے ۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے:’’بیشک مسلمان جب اپنے بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہا ں سے واپس ہونے تک وہ جنت کے پھلو ں میں رہتا ہے۔‘‘ عیادت نہ صرف یہ کہ اپنے قریب ترین رشتہ دار کی کی جائے بلکہ اس کے مستحق سارے لوگ ہیں ۔ بچہ، بوڑھا ، جوان ، عورت ، مرد ،پڑوسی ، یہاں تک کہ غیر مسلموں کی بھی کی جانی چاہیی۔اللہ کے رسول ﷺکا اس پر کثرت سے عمل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو تا کید کے ساتھ فرمایا : ’’بھوکے کو کھا نا کھلاؤ ،مریض کی عیادت کرو ، اور قیدی کو چھڑاؤ ۔‘‘
بیما ری سے گناہ کم ہوتے ہیں
تندرستی کے برقرار رہنے کے لیی ضروری ہے کہ انسانوں کا واسطہ چھوٹی موٹی بیماری سے پڑتا رہے، تاکہ اس کے جسم سے غیر ضروری اجزاء اور فضلات کا اخراج ہوتا رہے ۔ اس کا دوسرا فا ئدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ گناہ کم ہوتے ہیں .کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس بندے سے خفا ہوتا ہے تو اسے بیماری میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ بندہ نے جو گناہ کیا ہے اس کی مدافعت ہو جائے . چنا نچہ اللہ کے رسول ا نے فر ما یا :
’’مسلما نوں کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ اسے کوئی کا نٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے گنا ہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ اگر کسی مؤمن بندے کو یہ اندازہ ہو جائے کہ بیما ری اور مصیبت کے ذریعہ اسے کتنا بڑا فائدہ پہنچنے والا ہے تو وہ یہی چاہے گا کہ ہمیشہ بیماری میں مبتلا رہے . جیسا کہ رسول ا نے فرما یا : جو لوگ عافیت میں ہیں ، قیا مت کے دن جب کہ مصیبت زدوں کو ثواب دیا جائے گا ، یہ چاہیں گے کاش ! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھا لوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جا تے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں بیماری کومسلما نوں کے لیی ایک نعمت اور اس کے گنا ہوں کا کفارہ قرار دیتے ہوئے فرما یا گیا :’’ جس مسلمان کو کا نٹا چبھنے کی یا اس سے بڑی کو ئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کی غلطیوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتاہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:مصیبت اور پریشانیوں میں مبتلا ہونے کے بعد رنجیدہ خاطرنہیں ہو نا چا ہیی بلکہ اسے خدا کا عطیہ اور نعمت تصور کرنا چا ہیی اے میرے بیٹے مصیبت تجھے ہلاک کر نے کے لیی نہیں آتی بلکہ تیرے صبر وایمان کا امتحان لینے آتی ہے .نیز اس کا علاج یہ بھی کہ تو سوچے کہ اگر دنیا میں مصائب و محن نہ ہو تے تو بندے عجب وفرعونیت ،شقاوت قلبی جیسے امراض میں مبتلا ہو جاتے،جن سے آدمی دنیا میں اور آخرت میں ہر جگہ تباہ وبرباد ہو کر رہ جاتا ۔اس لیی یہ تو ارحم الراحمین کا کمال رحمت ہے کہ بعض اوقات وہ مصائب کی دوا استعمال کرادیتا ہے جن کے باعث امراض سے تحفظ رہتا ہے اور صحت عبدیت قائم رہتی ہے .نیز کفر و عدوان اورشرک وغیرہ کے فاسق مادوں کا استفراغ جاری رہتا ہے۔بس پاک ہے وہ جو ابتلاء کے ذریعہ رحم فرماتی ہے اور انعاما ت کے ذریعہ ابتلاء میں ڈال دیتی ہے ۔
بیماری میں صبر کی اہمیت
اللہ تبارک وتعالی اپنے جس بندے سے زیادہ محبت کرتا ہے اسے اتنی ہی بڑی ابتلاء وآزمائش میں بھی مبتلا کرتا ہے تاکہ اندازہ لگائے کہ میرے بندے کامصیبت میں کیا رویہ رہتا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول انے فرمایا :اللہ تعالیٰ جس کے سا تھ خیر کا ارادہ کر تا ہے تو اسے مصیبت میں ڈال دیتا ہے ۔ اسی طرح کی اور دوسری احادیث بھی ہیں جن سے اسی مفہوم کی وضاحت ہوتی ہے .ایسی صورت میں مومن کا رویہ یہ ہو نا چاہیی کہ وہ ہر حال میں صبرکرے اور اسے اپنی تکالیف کا مداوا تصور کرے۔ اگر وہ ناشکری اور جزع و فزع کرتا ہے تو وہ اپنی تکلیف میں اضافہ ہی کرتاہے۔ کیونکہ صبرسے تکالیف میں برداشت کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور اس سے قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:اے ایمان والو! مددطلب کرو صبر اور نماز کے ذریعہ ، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیںانہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے ۔ہم ضرور تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک کے ذریعہ اور مالوں ،جانوں ِاورپھلوں میں کمی کر کے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادو! جن کواگر کوئی مصیبت آتی ہے توکہتے ہیں،ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے ،ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی عنایات اور رحمتیں ہیں اور یہی ہدایت یافتہ ہیں ۔(البقرۃ) بعض صحابہ کرام بیماری میں مبتلاء ہوتے تودوا علاج ترک کردیتے اور صبر وشکر کو ہی اس کا مداواسمجھتے تھے جس کی اللہ کے رسول ا نے ممانعت کی اور فرمایا کہ صحت کو تندرست رکھنے کے لیی دوا بھی ضروری ہے اور صبر بھی ضروری ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے ،کہ ایک عورت مرگی کی بیماری میں مبتلا تھی جب اس پردورہ پڑتاتو اسے اپنے کپڑوں کی خبر نہ رہتی اور وہ بے ستر ہوجاتی تھی اس نے اللہ کے رسول اسے دعا کی درخواست کی ،آپ انے فرمایاتم چاہو تو دعا کرو اور چاہو تو صبر کرو ، اللہ تعا لی اس کے عوض جنت عطا فرمائے گا ،اس پر اس نے کہا تب تو میں صبر کرونگی البتہ آپ دعا فرمائیی !کہ دورہ کی حالت میں میری بے ستری نہ ہو ،آپ انے اس کے لیی دعا فرمائی۔ اس عالم پریشانی میں جو بندہ صبر کر تا ہے اللہ کے نزدیک اس کا مقام بہت بلند ہو جاتا ہے ،جیساکہ باری تعالی کا فرمان ہے:’’وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں تنگی ترشی اورتکلیف میں اور جنگ کے وقت ،یہی لوگ سچے ہیں اور یہی تقوی والے ہیں۔‘‘صبر وشکر کو مؤمن کا خاص وصف قرار دیتے ہوئے اللہ کے رسول ا نے فرمایا:’’ مؤمن کا معاملہ کتنا اچھا ہے ،کہ وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے ،وہ اس کے حق میںبہتر ہوتا ہے یہ بات مؤمن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی ،اگر وہ مسرت سے ہمکنار ہوتو شکر کرتا ہے یہ اس کے لیی بہتر ہوتا ہے اگر تکلیف پہنچتی ہے تو صبرکرتاہے یہ بھی اس کے حق میںبہتر ہوتا ہے۔‘‘ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں نبیوں اور نیک بندو ںکو بڑی مشکلات ، سخت سے سخت بیماری اور آزمائش میں مبتلا کرکے ان کے صبر کا امتحان لیا ہے ،مگر وہ ہر حال میں صبر کرتے رہے ،جس کے صلہ میں اللہ نے ان کے مرتبے کو بلند فرمایا صبر ایوب سے کون واقف نہیں ہے ، حضرت ایوب علیہ السلام مہلک ترین بیماری میں ایک لمبے عرصے تک مبتلارہے لیکن پھربھی انہوں نے صبرکے علاوہ کوئی لفظ شکوہ اپنی زبان پر کبھی آنے نہیں دیااس بیماری میں انکے تمام قریبی لوگ ساتھ چھوڑگئے مگر انکی بیوی اٹھارہ سال تک خدمت کرتی رہیںانکی تکلیف کی شدت کی وجہ سے بعض اوقات انکی بیوی بھی کرب والم میں مبتلا ہوجاتی تھی ایک باربجذبہ ہمدردی انکی بیوی نے کچھ ایسے الفاظ کہے جو صبر ایو ب کے منافی تھے اور خداکی جناب میں شکوہ کا پہلو لیی ہوئے تھے اس پر وہ اپنی مونس و غم خوار بیوی سے ناراض ہوگئے اور کہا کہ تم نے کفران نعمت کی ہے اسکی سزا میں تم کو ضرور دونگا اس صبر کے صلہ میں اللہ نے انکے درجات بلندکئے جس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے۔
اور یاد کرو جب ایوب نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے تو ارحم الرا حمین ہے،ہم نے اس کی پکار سنی اور اسے جو تکلیف تھی وہ دور کردی ۔ہم نے اسے اس کو اہل وعیال دئیی اور اس کے صبر کے ذریعہ نہ صرف دنیوی و اخروی درجات بلند ہوتے ہیں بلکہ اس سے مریض کی صحت پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں کیونکہ جو آڈمی بیماری کی حالت میں صبر کرے گا اسے اپنی تکلیف کا بوجہ ہلکا معلوم ہوگا اور اس کی امیدیں اور نیک خواہشات برآئیں گی چنانچہ مرض چھوٹا ہو یا بڑا، قابل علاج ہو یا لا علاج ہر حال میں اسلام نے صبر کی تعلیم دی ہے ۔جو لوگ مذہبی اقدار کی اہمیت نہیں محسوس کرتے ان کے نزدیک یہ ایک بے معنی نصیحت ہے۔ اس سے انسان کے مسائل حل نہیں ہوتے اور وہ ممکنہ تدابیر بھی اختیار نہیں کرتا ، لیکن یہ صبر کا غلط تصور ہے۔ صبر اس بات کا نام ہے کہ آدمی مشکلات میں جزع ، فزع اور گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کرے ،شکوہ شکایت کی جگہ جم کر ان کا مقابلہ کرے جو تدبیریں اس کے بس میں ہوں ان کو پورے سکون کے ساتھ اختیار کرے اور نتیجہ اللہ کے حولے کردے ، اس سے انسان کی قوت ارادی (will power) مضبوط ہوتی ہے اور آدمی کے اندر خود اعتمادی اور خدا اعتمادی پیدا ہوتی ہے ۔ مریض کے اندر مضبوط قوت ارادی ہو تو وہ مرض کا بڑی ہمت اور پامردی سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جن مریضوں کی قوت ارادی مستحکم ہوتی ہے وہ مایوس اور بے صبر مریضوں کے مقابکہ میں لمبی زندگی پاتے ہیں ۔
موت کی دعا نہیں کرنی چاہیئے
ہر انسان کسی نہ کسی طرح بیماری میں مبتلاہے بعض بیماری قابل علاج ہوتی ہے تو کوئی لا علاج اور زندگی بھر وہ کرب و الم کی دنیا میں زندہ رہتا ہے ، ایسی حالت میں وہ چا ہتا ہے کہ اس لا علاج بیماری اور تکلیف بھری دنیا سے کسی طرح نجات پالے جس کے لیی وہ بعض وقت دعا کرتا ہے کہ اللہ مجھ کو اس تکلیف دہ زندگی سے نکال کر موت دے دے ، جو درست نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندو ں پربیماری اسی لیی طاری کرتا ہے کہ اس کے اندر قوت برداشت کا داعیہ پیدا ہو ، اللہ کے رسول ا نے ایسی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔:تم میں سے کسی شخص کوکوئی تکلیف پہنچے تووہ موت کی تمنا نہ کرے ،اگر کسی وجہ سے بالکل ضروری ہوجائے تو اس طرح کہے: اے اللہ ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ زندہ رہنا میرے حق میں بہتر ہو اور جب موت میرے حق میں بہترہے تو موت دے دے،مصائب ومشکلات اور بیماری تو وقتی چیز ہے ،یہ کبھی جلد رفع ہو جاتی ہے اور کبھی وقت لگتا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اسکا مقابلہ نہ کرے ،اللہ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عیادت کے لیی پیدا کیا ہے تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے ۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ بزدلی ہے اور مومن کے شان کے خلاف اور کفر ان نعمت ہے۔ اندازہ لگائیی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بعض بیماری کا بہتر علاج گرم لوہے سےداغےجانے کا تھا ۔ جس کی تکلیف سے آدمی کی ہڈی چرمر ا جاتی تھی باوجود اس تکلیف کے وہ زندہ رہنے کو ترجیح دیتے تھے ۔بعض روایات میں آتاہے کہ حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ کو بطور علاج گرم لوہے سے سات داغ لگائے گئے ، اس سے انہیں سخت تکلیف ہو ئی با وجود اس کے انھوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے موت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ورنہ تکلیف اتنی سخت ہے کہ میں اللہ سے موت کی دعا کرتا ۔
یہ تو صحابہ کا عمل تھا ،خود اللہ کے رسول ﷺ کو لوہے سے داغےجانے کی تکلیف کا اندازہ تھا ۔باوجود اس کے آپ نے حفظان صحت کے تحت اسکی اجازت دی کہ تم اس طریقہ پر عمل کرکے اپنا علاج کراؤ ،جیساکہ اللہ کے رسول ا نے فرمایا :
شفا تین چیزوں میں ہے ، شہد کا گھونٹ پینے ، پچھنے کا نشان اور آگ سے داغ لگانے میں ۔میںاپنی امت کو داغ لگانے سے منع کرتا ہوں۔کون انسان کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت ہوگی یہ اللہ ہی جانتا ہے اور زندگی اور موت دینے کا حق بھی اسی اللہ کوہے ،انسان کے بس میں اگر یہ چیزہوتی تو دنیا کا نظام درھم برھم ہوکر رہ جاتا ،انسان کادنیا میں زندہ رہنا بھی تقویت اور ترقی درجات کا باعث ہے ، اسی لیی اللہ کے رسول انے منع فرمایا کہ موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیی اس لیی کہ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہوگا اور اگر برا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے تائب ہوجائے ۔
لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کاایک خوبصورت عطیہ ہے جسے اس کی رضا کے حصول اورمرضی کے مطابق ہی استعمال کیا جائے تاکہ اس کی نافرمانی میں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ پر امید رہتا ہے کیونکہ مایوسی کفر ہے