وہی چراغ بجھا جس کی لوقیامت
حضرت مولاناشاہ ابرارالحق ہردوئی کاانتقال:ایک عظیم ملی خسارہ
گزشتہ چند سالوںمیں علماء حقہ اس تیزی اوربرق رفتاری سے ہم سے جدا ہوئے ہیں جیسے کسی تسبیح کادھاگہ ٹوٹ گیا ہواوریکے بعد دیگرے تسبیح کے سبھی دانے گرنے لگے ہوں۔
یوں تو اس دنیا میں جو بھی آیا ہے سووہ جانے ہی کے لئے آیا ہے لیکن بعض کے جانے سے دنیا اطمینان کا سانس لیتی ہے تو بعض کے جانے سے پوری انسانیت پر حزن وغم اوررنج والم کا سماں طاری ہوجاتا ہے ۔
ماضی قریب میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید علی میاں ندویؒ ،مجاہد ملت حضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ ، حضرت مولانا سید احمد ہاشمیؒ ،فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین مظاہریؒ ،حضرت مولانا محمد رضوان القاسمیؒ ، پیر طریقت حضرت مولانا شاہ قاری عبد الرحیم بجنوریؒ ،حضرت مولانا قاری شریف احمدگنگوہی ؒ اورملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے دھڑکتادل رکھنے والے جناب ابراہیم سلیمان سیٹھ جیسی ہستیوںکی جدائی پر عالم اسلام سسکیاںہی لے رہا تھا کہ ایک اورحادثہ فاجعہ پیش آگیا یعنی مظاہر علوم (وقف)سہارنپورکے ممتازفاضل وعالم …سلوک واحسان اورتزکیہ وعرفان کے ناخدا،علوم آلیہ وعالیہ کے شناور…حکیم الامت ،مجدد الملت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی ؒ کے کسبی اوروہبی علوم کے امین …دین وملت کے مخلص ،فعال اورجفاکش خدمت گار… امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے باب میں اپنی مثال آپ …تقویٰ وطہارت ،زہد وقناعت ، صفائی ونفاست ،نظم وانتظام، اصول پسندی ،اتباع سنت ،اصلاح وتربیت، وعظ وارشاد،پندوموعظت اوراحقاق حق وابطال باطل میں ممتاز … منکرات پر روک ٹوک ،اپنے تمام معاصرین میں سب سے اعلیٰ سب سے برتر…سیکڑوںدینی مدارس ومکاتب کے بانی وناظم… مکاتیب اسلامیہ کے سلسلہ میں سب سے پہلے سب سے آگے … تجوید وقراء ت اوراسلام کی کلیدی وبنیاد ی تعلیم کیلئے دن کے اجالے اوررات کی تاریکی دونوں میں فکر مند … سلوک واحسان ،تزکیہ وتجلیہ میں ہمہ دم اور ہمہ وقت کوشاں رہنے والے …عالم اسلام کے دلوںکی دھڑکن اورسیکڑوںعلماء وصلحاء کے پیرومرشد …حضرت اقدس مولاناشاہ ابرارالحق حقیؒ بھی گزشتہ ۸؍ربیع الثانی ۱۴۲۶ھ مطابق ۱۷؍مئی ۲۰۰۵ئ بروز منگل رات ۹ بجے عمر عزیزکی ۸۷بہاریں دیکھ کر مولائے حقیقی سے جا ملے ۔ ؎
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
ابتدائی حالات :۔حضرت محی السنۃ ؒ کا آبائی وطن پلول ہے لیکن آپ کے والدماجدجناب مولوی محمود الحق حقی صاحب ؒجو حضرت تھانویؒ کے گہرے عقیدت منداورمجاز صحبت تھے انہوں نے وکالت کاپیشہ اختیار کیااورہردوئی کو اپنا مسکن بنایاوہیں۲۰دسمبر۱۹۲۰ء (۱۳۳۹ھ )کو آپؒ کی ولادت ہوئی ،آپ کاسلسلۂ نسب حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ سے جا ملتا ہے اسی لئے اس خانوادہ کے حضرات برکت کے لئے اپنے اپنے ناموںکے ساتھ’’ حقی‘‘ کی نسبت لگاتے رہے ہیں ۔
تعلیم :۔حضرت میاںاصغر حسین صاحب دیوبندیؒ نے آپ کو سب سے پہلے بسم اللہ پڑھا کر تعلیم کا آغازکرایا پھرعربی فارسی اوراردو کی تعلیم گھر پر حاصل کی، کچھ عرصہ تک انجمن اسلامیہ ہردوئی میں حضرت مولانا انوار احمدصاحبؒ انبیہٹوی مظاہری سے بھی تعلیم حاصل کی، پھرشوال المکرم ۱۳۴۹ھ م ۱۹۳۱ئمیں دنیائے اسلام کے معروف ادارہ مظاہر علوم (وقف)کا رخ کیا اوریہاںداخلہ لے کر درج ذیل کتب پڑھیں۔
کافیہ، شر ح مأۃ عامل ،نحومیر، دستورالمبتدی ،کبریٰ ،مفیدالطالبین ،تیسیرالمنطق ،قال اقول،ہدایۃ النحو مذکورہ کتابوں کو جس محنت اوردلجمعی کے ساتھ پڑھا اس کا اندازہ مظاہر علوم (وقف)کے تعلیمی ریکارڈ سے ہوتا ہے کہ شروع کی چھ کتابوںمیں کل بیس نمبرات میں سے بیس ا وربعد کی دو کتابوںمیں انیس اورمؤخر الذکرکتاب میں ساڑھے سترہ نمبرات حاصل کئے تھے ۔
مدرسہ کے تعلیمی ریکارڈکے مطابق آپ نے کل ۹سال تعلیم حاصل کی چنانچہ سن وارکتابوں کی تفصیلات درج ذیل ہیں ۔
۱۹۳۲ئ :نفحۃ الیمن ۔قدوری۔منیۃ المصلی ۔بحث فعل ۔،نورالایضاح۔ تہذیب۔مرقات۔ کافیہ۔شرح تہذیب
۱۹۳۳ئ :اصول الشاشی ۔بحث اسم ۔کنزالدقائق ،میر قطبی ۔تلخیص المفتاح ۔قطبی تصدیقات
۱۹۳۴ئ :مختصرالمعانی۔سلم العلوم ۔شرح وقایہ۔نورالانوار۔ہدیہ سعیدیہ
۱۹۳۵ئ:ہدایہ ۔مشکوٰۃ شریف ۔جلالین شریف ۔مقدمہ مشکوٰۃ ،نخبۃ الفکر،رشیدیہ
۱۹۳۶ئ :مظاہر علوم کی رودادکے مطابق اس سال بخاری اورنسائی کاامتحان دے کر آپ بیمار ہوگئے، جب کہ مدرسہ کے ریکارڈسے پتہ چلتا ہے کہ بخاری ،ترمذی اورابوداؤدکا امتحان دیکربیمار ہوئے ،باقی کتابوں کا امتحان نہ دے سکے ، اس لئے اہل مدرسہ نے آپ کے لئے تجویز کیا کہ
’’جو کتابیںباقی ہیں ان کی تکمیل ضروری ہے ، تمام کتب دورۂ حدیث شریف میں امتحان دینا ہوگا ‘‘
چنانچہ ۱۹۳۷ئ کو پھر مدرسہ میں داخل ہوکربخاری شریف ،مسلم شریف،ترمذی شریف ابوداؤدشریف ،نسائی ، طحاوی ،شمائل ترمذی ،مؤطاامام محمد،مؤطاامام مالک ؒاورابن ماجہ شریف پڑھیں۔
اس سال دورہ ٔ حدیث شریف میں آپ او ل نمبرات سے کامیاب ہوئے اور مبلغ دس روپے نقد اوردرج ذیل کتب بطور انعام حاصل کیں۔
انہاء السکن ۔احیاء السنن ۔استدراک الحسن ۔اعلاء السنن ۔اشرف السوانح۔تشکیل سندات البخاری ،مغلظات مرزا۔
ایجا ز القواعد۔سامان عاجز۔پہاڑہ اردو۔(دورۂ حدیث شریف کے نمبرات کا چارٹ اسی شمارے میں موجود ہے)
فراغت کے بعد مزید دو سال تعلیم حاصل کی جن کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
۱۹۳۸ئ :بیضاوی شریف ۔رسم المفتی ۔ترمذی شریف ۔شمائل ترمذی۔مدارک التنزیل ۔سراجی شریف
۱۹۳۹ئ :اقلیدس ۔تصریح۔متنبی ۔خلاصۃ الحساب ۔صدرا ۔شمس بازغہ ،توضیح وتلویح۔ شرح چغمینی ،سبع شداد۔
عروض المفتاح۔ مسلم الثبوت ۔دیوان حماسہ ۔
یہاں تعلیم کے دوران خارج میں بھی ماہر اساتذہ سے تعلیم کے حصول کا مبارک سلسلہ جاری رکھا چنانچہ ایک طرف تجوید وقرأت میں تخصص وامتیاز کے لئے حضرت قاری عبد الخالق صاحبؒ امام جامع مسجد سہارنپور کا انتخاب کیا تودوسری طرف مدرسہ کے دیگر اساتذہ سے بھی خارج اوقات میں خارجی کتب پڑھنے کا شرف حاصل کیا چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ سے الفوزالکبیر،لمعات ،سطعات،ہوامع،شمس بازغہ،قاضی مبارک پڑھنے کے علاوہ نصاب کی کتب میں المختصر القدوری،مختصرالمعانی(فن ثالث )وغیرہ ساری کتابیں خارج اوقات میں پڑھیں ،حضرت مفتی محمود حسن ؒ نے مختصرالمعانی کا فن ثانی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبد اللطیف صاحبؒ سے پڑھنے کا مشورہ دیا ،حضرت مولانا ابرارالحق ؒ نے حضرت ناظم صاحبؒ کے سامنے اپنی درخواست پیش کی ،حضرت نے فرمایا کہ تہجد کے بعد پڑھا سکتا ہوں،حضرت مولانا ابرارالحق ؒ نے حضرت مفتی محمود حسن ؒ کو حضرت ناظم صاحبؒ کی شرط سے آگاہ کیا، تو حضرت مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ منظور کرلو اور یہ شرط کرلو کہ تہجد کے وقت اٹھانا آپ کی ذمہ داری ہوگی ،اس طرح خارج میں حضرت مولانا عبد اللطیف ؒ سے مختصرالمعانی کا باب ثانی پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔
۱۹۴۳ئمیں جس وقت آپ یہاں تیسری جماعت میں زیر تعلیم تھے آپ کی فطری اورخوابیدہ صلاحیتوں میں کس قدر نکھا ر پیدا ہوچکا تھا ،اس کااندازہ دارالافتاء مظاہر علوم وقف کے اس ریکارڈ سے ہوتا ہے جہاں آپ کے علمی استفتاء موجود ہیں جو آپ نے مستفتی کی حیثیت سے کئے تھے ،چنانچہ بطور’’ مشتے نمونہ ازخروارے ‘‘ایک سوال جو داڑھی کے دھونے اورمسح سے متعلق ہے ہدیہ ناظرین کرتا ہوں۔
’’کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ مسح لحیہ فرض ہے یا غسل لحیہ ہر دو صورت میںربع ہے یا ثلت ہے یا کل ؟یا مسح ما یلاقی البشرۃ ویا غسلہ اوراس میں اگر اختلاف ہے تو مع ادلہ اورقول مختار کیا ہے تحریر فرمائیں ۔
ابرارالحق ،متعلم مدرسہ ہذا ۲۵؍۱۱؍۱۳۵۲ھ
اہل علم حضرات بخوبی واقف ہیں کہ اس قسم کا علمی تحقیقی اوراختلافی سوال وہی کرسکتا ہے جس کی متعلقہ مسئلہ پر گہری نظر ہوورنہ داڑھی کا دھونا یا اس پر مسح کرنا ربع ،ثلث اورکل کی قید،مسح ما یلاقی البشرۃ پر نظر،اختلاف الائمہ مع ادلہ اورقول مختار(مفتیٰ بہ )کاسوال ایک عام شخص اورکم پڑھا لکھا طالب علم نہیں کرسکتا ۔
حضرت محی السنۃ کی تعلیمی محنت ،خدا داد صلاحیت اور اساتذہ کرام کے فیضانِ نظرکی بدولت آپ شروع ہی سے مظاہر علوم میں مخصوص پہچان بنا چکے تھے ،اساتذہ اورارباب مدرسہ کو ان سے لگا ؤتھا ۔
اس علمی استفتاء کا محققانہ جواب حضرت مفتی سعید احمد صاحب اجراڑوی ؒ نے تحریر فرمایاجس پر تائیدی اورتوثیقی دستخط استاذ الکل شیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبد اللطیف پورقاضویؒ نے ثبت فرمائے ۔جواب درج ذیل ہے ۔
’’حامداً ومصلیاً ومسلماً!غسل لحیہ میںفقہاء احناف کے اقوال مختلف ہیں تقریباً آٹھ اقوال ہیں (۱)مسح کل (۲)مسح ربع (۳)مسح ثلث (۴)مسح ما یلاقی البشر ۃ (۵)غسل ربع (۶)غسل ثلث (۷)غسل کل (۸)عدم غسل ومسح ۔لیکن لحیہ کثہ غیر مسترسل میںصحیح اورمفتی بہ روایت یہ ہے کہ تمام کو دھویا جائے علاوہ ازیں تمام روایات مرجوح عنہ ہیںجیساکہ بحر الرائق ،بدائع الصنائع ،در مختار میں ہے وغسل جمیع اللحیۃ فرض یعنی عملیاً ایضاً علی المذھب الصحیح المفتی بہ المرجوح الیہ وما عدا ھذہ الروایۃ یجب غسلہ ولا مسحہ بل یسن وان الخفیفۃ التی تری بشرتھا یجب غسل ما تحتھا ۔
لحیہ خفیفہ کا دھونا واجب ہے اورمسترسل کا دھونا مسنون ہے ۔
سعید احمد ۲۶؍ذی قعدہ ۱۳۵۲ھ
صحیح عبد اللطیف عفااللہ عنہ ۔۲۷؍ذی قعدہ ۱۳۵۲ھ
درس نظامی سے فراغت کے بعد یہیں مظاہر علوم میںمعین مدرس ہوگئے اور فارسی کتب کا درس آپ سے متعلق کیا گیا کچھ عرصہ بعد اپنے پیر ومرشدحضرت تھانوی ؒ کے حکم وایماء پر مدرسہ جامع العلوم کانپورمیں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے پھر حضرت تھانوی ؒ کی حسب ایماء مدرسہ اسلامیہ فتح پورہنسوہ پہنچے اوروہاں بھی مختصر عرصہ تعلیمی خدمت انجام دی ۔
۱۳۶۲ھ میں حضرت تھانویؒ کے حکم پر ہردوئی ؒمیں مدرسہ اشرف المدارس قائم کرکے طویل زمانہ تک درجات ابتدائی اوراوسط کی تعلیم دیتے رہے اورتا حیات اس مدرسہ کی خدمت انجام دی ،اخیر میں تو دورۂ حدیث کا باقاعدہ آغاز فرمادیا تھا۔
مظاہر علوم میں دورانِ تعلیم اپنی متواضعانہ اورمنکسرانہ طبیعت اورکتابی دلچسپیوں کے باعث یہاں کے اساتذہ واکابرکی نظروں میںخصوصی مقام بنالیا تھا ۔
پروفیسر احمد سعید صاحب نے بزم ِاشرف کے چراغ میں لکھا ہے
’’دوران طالب علمی آپ نے اپنی صالح اورملکوتی زندگی کواس طرح پیش کیا کہ مدرسہ کے اساتذہ اورطلبہ آپ کی طرز زندگی سے بہت متاثر ہوئے ‘‘
عارف باللہ حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندویؒ جس سال یہاں مظاہر علوم میں دورہ حدیث شریف میں شریک تھے ،اس سال حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنیؒ نے ابو داؤد شریف کے سبق میں فرمایا تھاکہ
’’طالب علم اگر طالب علمی کے زمانے سے صاحب نسبت نہ ہوا تو کچھ نہ ہوا ،مولانا ابرارالحق صاحب کو اللہ پاک نے طالب علمی ہی کے زمانے میں یہ دولت عطا فرمائی تھی‘‘۔(تذکرۃ الصدیق ص ۴۶۰ج۲)
یہاں قیام کے دوران آپ نے اپنا اصلاحی وروحانی تعلق حضرت حکیم الامت ؒ سے استوار کیااورہر ہفتہ تھانہ بھون جانے کا معمول بنالیا،والدماجد کا حضرت تھانوی ؒ سے قدیم تعلق توتھاہی، خود مظاہر علوم میں آپ کے اساتذہ حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒاورحضرت مولانا محمد اسعد اللہ ؒ کابھی حضرت تھانویؒ سے اصلاحی وروحانی تعلق تھا اس کے علاوہ حضرت تھانویؒ مظاہر علوم کے سرپرست بھی تھے اوریہاں اکثر وبیشتر حاضری ہوتی رہتی تھی پھر مظاہر علوم کے علمی وروحانی ماحول نے بھی آپ پر بہت اثر کیا ،ان حالات کی مناسبت سے حضرت محی السنۃ ؒ کشاں کشاںسلسلۂ تھانوی سے قریب ترہوتے چلے گئے اوربالآخر صرف ۲۲ ؍ سال کی عمر میںبارگاہِ تھانوی سے خلعت خلافت حاصل کرلی ۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
آپ کی پوری تعلیم یہیں مظاہرعلوم میں ہوئی ہے، آپ کے ابتدائی اساتذہ میںحضرت مولاناامیر احمدکاندھلوی ؒ ، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الجبار اعظمیؒ،حضرت مولانا نورمحمدؒ ،حضرت مولانا عبد الشکورؒ،حضرت مولانا محمد اسعد اللہ ؒ، حضرت قاری مفتی سعید احمد اجراڑوی ؒ،حضرت مولانا محمد زکریا قدوسی گنگوہیؒ اورحضرت علامہ صدیق احمد کشمیریؒ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
آپ نے بخاری شریف جلد اول اورابوداؤد شریف مکمل شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی ؒ سے، بخاری شریف جلد ثانی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبد اللطیف پورقاضویؒ سے ،مسلم شریف اورنسائی شریف حضرت مولانا منظور احمد خانؒ سے،ترمذی شریف وطحاوی شریف حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒ سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا ۔
زمانہ طالب علمی سے ہی استاذ الکل شیخ الاسلام حضرت مولاناسید عبد اللطیف ؒ ناظم مدرسہ سے خصوصی مناسبت رہی اورحضرت رحمۃ اللہ علیہ کے خادم خاص بھی رہے ۔
سند حدیث کا مبارک سلسلہ استاذ محترم حضرت مولانا محمد زکریا صاحب ؒ سے ہوتا ہوا حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوریؒ،حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی ؒ،حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری،حضرت مولانا شاہ محمداسحق محدث دہلویؒ سے ہوتا ہوا مسند الہند حضرت مولانا شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی ؒسے جاملتا ہے ۔
مظاہر علوم میں اپنے دیگر اساتذہ کرام بالخصوص حضرت حجۃ الاسلام مولانا محمد اسعد اللہ ؒ، قطب العالم حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ اورمفتی ٔ اعظم حضرت مفتی سعید احمد اجراڑیؒ سے خصوصی تعلق رکھا اورفراغت کے بعد دعوتی سلسلہ میںجب کبھی مغربی یوپی آنا ہوا تو مادر علمی مظاہرعلوم وقف میں ضرورتشریف لاتے، مدرسہ کے حالات معلوم کرتے ،کبھی مؤذن کو بلاکراذان کی تصحیح فرماتے ،تو کبھی امام کے سلام اورتکبیر وغیرہ کو درست فرماتے ۔
آپ نے اپنی مادر علمی مظاہر علوم وقف سہا رنپور کے چار دورنظامت کو دیکھا (۱)استا ذ الکل حضرت مولانا سید عبد اللطیف پورقاضویؒ(از۱۳۴۷ھ تا۱۳۷۳ھ)(۲)حضرت مولانا محمد اسعد اللہ رامپوریؒ (از۱۳۷۴ھ تا۱۳۹۹ھ) (۳)حضرت مولانامفتی مظفر حسین اجراڑویؒ (از۱۴۰۰ھ تا۱۴۲۴ھ)(۴)حضرت مولانا محمدسعیدی مدظلہٗ (از۱۴۲۴ھ تا حال) مذکورہ سبھی حضرات سے تعلق رکھا ۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحبؒ کا بہت احترام فرماتے تھے ،ہمیشہ مکاتبت اور مراسلت رہی ،مدرسہ اشرف المدارس کے نظم کے سلسلہ میں حضرت مفتی صاحبؒ سے معلوم کرتے رہے کہ اس سلسلہ میں مظاہر علوم میںہمارے بزرگوں کی کیا روایت رہی ہے،مظاہر علوم (وقف)کا اس سلسلہ میںکیا قانون ہے؟کیا اصول ہیں؟مشاہرہ جات کا کیا معمول ہے ؟اس قسم کے بہت سے مسائل میں برابر رجوع فرماتے رہے ۔
منکرات کے سلسلہ میں اپنے تمام معاصرین سے بڑھے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی خوش سلیقگی کے ساتھ منکرات ومنیہات پر روک ٹوک کا ملکہ عطا فرمایا تھا کہ مخاطب کو پشیمانی نہیں ہوتی تھی ،ان کی پوری زندگی اتباع سنت محمد یﷺ کے سانچے میں ڈھل گئی تھی، ان کو دیکھ کر اللہ کی یاد آتی تھی، جس بات کو کہتے بڑے اچھے اندازمیںکہتے کہ مخاطب پر فوری اثر ہوتا تھا، اصول پسندی میں وہ اپنے مرشد حضرت حکیم الامتؒ کا پرتوَ تھے تو نظم وانتظام میں اپنے استاذشیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبد اللطیف پورقاضویؒ کا عکس جمیل تھے،سوزدروں میں اپنے استاذ حضرت مولاناعبد الرحمن کامل پوری ؒتھے توجذب ومعرفت میں حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب غوریؒ نظر آتے تھے، اخلاص وفنائیت میں حضرت مولانا شاہ عبد الغنیؒ پھول پوریؒ تھے توعلوم وفنون اور سلوک وطریقت میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب ؒکی نظیراور تواضع وانکساری میں عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد پرتاب گڑھیؒ محسوس ہوتے، انہوں نے بزرگوںکی روایات اوران کے قائم کردہ خطوط ونقوش پر چل کر دکھلادیا اورثابت کردیا کہ ؎
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
وہ کون سا عقدہ ہے جو وَا ہو نہیں سکتا
قرآن کریم کو تصحیح لفظی کے ساتھ پڑھنا اورپڑھاناان کی زندگی کا اہم خاصہ تھا ،ان کا مرتب کردہ قاعدہ نورانی (ہردوئی والا)جس قدر مقبول ہوا اورمدارس ومکاتب میں جس قدر پذیرائی ہوئی اس سے حضرت ہردو ئیؒ کے خلوص اورجذب دروں کا پتہ چلتا ہے ۔
حضرت ہردوئی ؒ بہت اصول پسند تھے ان کے مدرسہ اشرف المدارس اورآپ کے زیر انتظام دیگر مدارس اورشاخوںمیں جتنے اساتذہ کا تقرر ہوتا تھا چاہے کسی بھی عہدہ پر ہواس کے لئے قاعدہ نورانی کا امتحان اورمشق ضروری تھی اس سے دوبڑے فائدے تھے ایک تو مدرس صاحب کو قرآن کریم صحیح قواعد کے ساتھ پڑھنا آجاتا تھا اوردوسرا فائدہ یہ ہوتاتھا کہ نفس مرجاتا تھا، خاکساری وتواضع کی صفات پیدا ہوجاتی تھیں ،غرو ر وتکبر،انانیت اورنفس پرستی کا دوردور تک شائبہ نہیں رہتا تھا ۔
آپ کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ اساتذہ ومدرسین کا کسی نہ کسی بزرگ شخصیت سے تعلق اورروحانی واصلاحی رابطہ ضرورہوکہ ایسے حضرات کی ذات سے مدرسہ کے اصول وقانون کے خلاف کسی بات کے سرزد ہونے کا امکان بہت کم ہوتاہے پھر جب استاذ کے اندر خشیت وللہیت ہوگی تو شاگردوں کو بھی اس سے سبق ملے گا اورپوری جماعت سلوک واحسان کے رنگ میںرنگتی چلی جائے گی اوردوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خلاف قانون کسی امر کے سرزد ہونے پر براہ راست پیر ومرشد سے رجوع کرکے اس کا اخراج آسان ہوتا ہے ۔
نظم وانتظام کے ساتھ ساتھ اپنے ماتحتوںکی ضروریا ت کا خیال ،ان کے مشاہرہ جات میں حسب ضرورت اضافہ ،صفائی وستھرائی پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے ،صفائی وستھرائی کے معاملہ میں تو ان کے بہت سے واقعات ہیں کبھی کسی مدرسہ میں پہنچے تو بلا اطلاع مطبخ ،غسل خانوں اوربیوت الخلاؤںکا چکر لگایا تاکہ پتہ چلے کہ مدرسے والے کہاں تک صفائی پسند ہیں ۔
بندیل کھنڈکے ایک بڑے مدرسہ میںبلا اطلاع پہنچ کر سیدھے مطبخ میں داخل ہوئے وہاں دیکھا کہ طباخ حضرات نیکر پہن کر روٹیاں لگارہے ہیں،رانیں کھلی ہوئی ہیں، اہل مدرسہ پر بہت بگڑے کہ جب اس لباس میںروٹیاںپکائی جائیں گی اوران کو طلبہ کھائیں گے تو ان کے اندرکہاں سے برکت پیدا ہوگی؟ ۔
ایک بڑے مدرسہ پہنچے اورناظم مدرسہ کو حکم دیا کہ اذان سنائیںایک اہم مفتی کو سورہ فاتحہ سنانے پرمامور فرمایا اذان میں غلطیاںبتائیں،سورہ فاتحہ کی قراء ت میں خامیاںنکالیں ،لیکن کسی نے اپنی کسر شان نہیں سمجھی ۔
قصبہ لہر پور، ضلع سیتاپورکے ایک بڑے مدرسہ میں سالانہ اجلاس میں شرکت اس شرط کے ساتھ منظورفرمالیا کہ اشتہارمیں میرا نام نہیں ہوگا لیکن اہل مدرسہ نے نام لکھ دیا جس کی وجہ سے حضرتؒ جلسہ میں تشریف نہیں لائے ،منتظمین نے بڑی منت سماجت کی ،حیلے بہانے تراشے ،پریس کی غلطی بتلائی ،کاتب کو خاطی ٹھہرایا،لیکن حضرتؒ یہی فرماتے رہے کہ آج کل علماء وعدہ خلاف ہوگئے ہیں،جب یہی حضرات عہدو پیمان کو توڑنے لگیں گے تو پھر وعدوں کو کون پورا کرے گا ۔
آپ ایسے جلسوں اوراجتماعات میں کبھی شرکت نہیں فرماتے تھے جہاں ضرورت سے زائد بجلی وروشنی کا نظم ہو،قمقموں کی جگمگاہٹ ،غیر ضروری سجاوٹ اوراسٹیج کی پرتکلف بناوٹ پر وہ بہت بر افروختہ ہوتے تھے اسی طرح جہاں فوٹو کھینچے جارہے ہوں،اسراف ہورہا ہووہاں بھی تشریف نہیں لے جاتے تھے ۔
سیتاپورمیں آپ کے ایک معتقد نے اپنی بیٹی کے نکاح میں مدعو کیا نکاح پڑھانے کی درخواست کی، درخواست منظورہوگئی ،وقت مقررہ پر پہنچ کر نکاح پڑھایا اورواپس چلنے لگے ،داعی نے عرض کیا کہ حضرت کھانا بالکل تیارہے ،کوئی تکلف نہیں ہے ،کھانا تناول فرمالیجئے ،فرمایا صرف نکاح پڑھانے کی بات کی تھی سو وہ ہوچکا ہے کھانے کی کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی اس لئے کھانا نہیں کھاؤں گا ،داعی صاحب مزاج آشنا تھے، اس لئے خاموش ہوگئے اورحضرت ؒ واپس تشریف لے آئے ۔
دوران تقریرآپ کا معمول تھا کہ آپ چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے دائیں اوربائیں بٹھاتے تھے اوربڑے حضرات کوسامنے بٹھاتے تھے اوراس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ یہی بچے آگے چل کر قوم کے داعی اورخدمت گار بنیں گے ،دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ مقررین کو دیکھنے کے لئے یہ بار باراٹھنے اوراچک اچک کر دیکھنے کی کوشش نہیں کریں گے اورتیسرا فائدہ یہ ہے کہ قریب ہونے کی وجہ سے سوئیں گے نہیں ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے ،بڑی خوبیوں کے مالک تھے ،موت تو ہر ایک کو آنی ہے، لیکن آپ کی رحلت اس معنی کر بہت اہم ہے کہ آپ حضرت حکیم الامتؒ کے آخری خلیفہ تھے ،جن کی ذات گرامی سے پوری دنیا روشنی حاصل کرتی تھی ،افسوس کہ ۸؍ربیع الثانی ۱۴۲۶ھ منگل کے دن رات ۹ بجے سلسلہ تھانوی کا وہ ستارہ بھی غروب ہوگیا ؎
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
٭٭٭
حضرت مولاناشاہ ابرارالحق ہردوئی کاانتقال:ایک عظیم ملی خسارہ
گزشتہ چند سالوںمیں علماء حقہ اس تیزی اوربرق رفتاری سے ہم سے جدا ہوئے ہیں جیسے کسی تسبیح کادھاگہ ٹوٹ گیا ہواوریکے بعد دیگرے تسبیح کے سبھی دانے گرنے لگے ہوں۔
یوں تو اس دنیا میں جو بھی آیا ہے سووہ جانے ہی کے لئے آیا ہے لیکن بعض کے جانے سے دنیا اطمینان کا سانس لیتی ہے تو بعض کے جانے سے پوری انسانیت پر حزن وغم اوررنج والم کا سماں طاری ہوجاتا ہے ۔
ماضی قریب میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید علی میاں ندویؒ ،مجاہد ملت حضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ ، حضرت مولانا سید احمد ہاشمیؒ ،فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین مظاہریؒ ،حضرت مولانا محمد رضوان القاسمیؒ ، پیر طریقت حضرت مولانا شاہ قاری عبد الرحیم بجنوریؒ ،حضرت مولانا قاری شریف احمدگنگوہی ؒ اورملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے دھڑکتادل رکھنے والے جناب ابراہیم سلیمان سیٹھ جیسی ہستیوںکی جدائی پر عالم اسلام سسکیاںہی لے رہا تھا کہ ایک اورحادثہ فاجعہ پیش آگیا یعنی مظاہر علوم (وقف)سہارنپورکے ممتازفاضل وعالم …سلوک واحسان اورتزکیہ وعرفان کے ناخدا،علوم آلیہ وعالیہ کے شناور…حکیم الامت ،مجدد الملت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی ؒ کے کسبی اوروہبی علوم کے امین …دین وملت کے مخلص ،فعال اورجفاکش خدمت گار… امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے باب میں اپنی مثال آپ …تقویٰ وطہارت ،زہد وقناعت ، صفائی ونفاست ،نظم وانتظام، اصول پسندی ،اتباع سنت ،اصلاح وتربیت، وعظ وارشاد،پندوموعظت اوراحقاق حق وابطال باطل میں ممتاز … منکرات پر روک ٹوک ،اپنے تمام معاصرین میں سب سے اعلیٰ سب سے برتر…سیکڑوںدینی مدارس ومکاتب کے بانی وناظم… مکاتیب اسلامیہ کے سلسلہ میں سب سے پہلے سب سے آگے … تجوید وقراء ت اوراسلام کی کلیدی وبنیاد ی تعلیم کیلئے دن کے اجالے اوررات کی تاریکی دونوں میں فکر مند … سلوک واحسان ،تزکیہ وتجلیہ میں ہمہ دم اور ہمہ وقت کوشاں رہنے والے …عالم اسلام کے دلوںکی دھڑکن اورسیکڑوںعلماء وصلحاء کے پیرومرشد …حضرت اقدس مولاناشاہ ابرارالحق حقیؒ بھی گزشتہ ۸؍ربیع الثانی ۱۴۲۶ھ مطابق ۱۷؍مئی ۲۰۰۵ئ بروز منگل رات ۹ بجے عمر عزیزکی ۸۷بہاریں دیکھ کر مولائے حقیقی سے جا ملے ۔ ؎
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
ابتدائی حالات :۔حضرت محی السنۃ ؒ کا آبائی وطن پلول ہے لیکن آپ کے والدماجدجناب مولوی محمود الحق حقی صاحب ؒجو حضرت تھانویؒ کے گہرے عقیدت منداورمجاز صحبت تھے انہوں نے وکالت کاپیشہ اختیار کیااورہردوئی کو اپنا مسکن بنایاوہیں۲۰دسمبر۱۹۲۰ء (۱۳۳۹ھ )کو آپؒ کی ولادت ہوئی ،آپ کاسلسلۂ نسب حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ سے جا ملتا ہے اسی لئے اس خانوادہ کے حضرات برکت کے لئے اپنے اپنے ناموںکے ساتھ’’ حقی‘‘ کی نسبت لگاتے رہے ہیں ۔
تعلیم :۔حضرت میاںاصغر حسین صاحب دیوبندیؒ نے آپ کو سب سے پہلے بسم اللہ پڑھا کر تعلیم کا آغازکرایا پھرعربی فارسی اوراردو کی تعلیم گھر پر حاصل کی، کچھ عرصہ تک انجمن اسلامیہ ہردوئی میں حضرت مولانا انوار احمدصاحبؒ انبیہٹوی مظاہری سے بھی تعلیم حاصل کی، پھرشوال المکرم ۱۳۴۹ھ م ۱۹۳۱ئمیں دنیائے اسلام کے معروف ادارہ مظاہر علوم (وقف)کا رخ کیا اوریہاںداخلہ لے کر درج ذیل کتب پڑھیں۔
کافیہ، شر ح مأۃ عامل ،نحومیر، دستورالمبتدی ،کبریٰ ،مفیدالطالبین ،تیسیرالمنطق ،قال اقول،ہدایۃ النحو مذکورہ کتابوں کو جس محنت اوردلجمعی کے ساتھ پڑھا اس کا اندازہ مظاہر علوم (وقف)کے تعلیمی ریکارڈ سے ہوتا ہے کہ شروع کی چھ کتابوںمیں کل بیس نمبرات میں سے بیس ا وربعد کی دو کتابوںمیں انیس اورمؤخر الذکرکتاب میں ساڑھے سترہ نمبرات حاصل کئے تھے ۔
مدرسہ کے تعلیمی ریکارڈکے مطابق آپ نے کل ۹سال تعلیم حاصل کی چنانچہ سن وارکتابوں کی تفصیلات درج ذیل ہیں ۔
۱۹۳۲ئ :نفحۃ الیمن ۔قدوری۔منیۃ المصلی ۔بحث فعل ۔،نورالایضاح۔ تہذیب۔مرقات۔ کافیہ۔شرح تہذیب
۱۹۳۳ئ :اصول الشاشی ۔بحث اسم ۔کنزالدقائق ،میر قطبی ۔تلخیص المفتاح ۔قطبی تصدیقات
۱۹۳۴ئ :مختصرالمعانی۔سلم العلوم ۔شرح وقایہ۔نورالانوار۔ہدیہ سعیدیہ
۱۹۳۵ئ:ہدایہ ۔مشکوٰۃ شریف ۔جلالین شریف ۔مقدمہ مشکوٰۃ ،نخبۃ الفکر،رشیدیہ
۱۹۳۶ئ :مظاہر علوم کی رودادکے مطابق اس سال بخاری اورنسائی کاامتحان دے کر آپ بیمار ہوگئے، جب کہ مدرسہ کے ریکارڈسے پتہ چلتا ہے کہ بخاری ،ترمذی اورابوداؤدکا امتحان دیکربیمار ہوئے ،باقی کتابوں کا امتحان نہ دے سکے ، اس لئے اہل مدرسہ نے آپ کے لئے تجویز کیا کہ
’’جو کتابیںباقی ہیں ان کی تکمیل ضروری ہے ، تمام کتب دورۂ حدیث شریف میں امتحان دینا ہوگا ‘‘
چنانچہ ۱۹۳۷ئ کو پھر مدرسہ میں داخل ہوکربخاری شریف ،مسلم شریف،ترمذی شریف ابوداؤدشریف ،نسائی ، طحاوی ،شمائل ترمذی ،مؤطاامام محمد،مؤطاامام مالک ؒاورابن ماجہ شریف پڑھیں۔
اس سال دورہ ٔ حدیث شریف میں آپ او ل نمبرات سے کامیاب ہوئے اور مبلغ دس روپے نقد اوردرج ذیل کتب بطور انعام حاصل کیں۔
انہاء السکن ۔احیاء السنن ۔استدراک الحسن ۔اعلاء السنن ۔اشرف السوانح۔تشکیل سندات البخاری ،مغلظات مرزا۔
ایجا ز القواعد۔سامان عاجز۔پہاڑہ اردو۔(دورۂ حدیث شریف کے نمبرات کا چارٹ اسی شمارے میں موجود ہے)
فراغت کے بعد مزید دو سال تعلیم حاصل کی جن کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
۱۹۳۸ئ :بیضاوی شریف ۔رسم المفتی ۔ترمذی شریف ۔شمائل ترمذی۔مدارک التنزیل ۔سراجی شریف
۱۹۳۹ئ :اقلیدس ۔تصریح۔متنبی ۔خلاصۃ الحساب ۔صدرا ۔شمس بازغہ ،توضیح وتلویح۔ شرح چغمینی ،سبع شداد۔
عروض المفتاح۔ مسلم الثبوت ۔دیوان حماسہ ۔
یہاں تعلیم کے دوران خارج میں بھی ماہر اساتذہ سے تعلیم کے حصول کا مبارک سلسلہ جاری رکھا چنانچہ ایک طرف تجوید وقرأت میں تخصص وامتیاز کے لئے حضرت قاری عبد الخالق صاحبؒ امام جامع مسجد سہارنپور کا انتخاب کیا تودوسری طرف مدرسہ کے دیگر اساتذہ سے بھی خارج اوقات میں خارجی کتب پڑھنے کا شرف حاصل کیا چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ سے الفوزالکبیر،لمعات ،سطعات،ہوامع،شمس بازغہ،قاضی مبارک پڑھنے کے علاوہ نصاب کی کتب میں المختصر القدوری،مختصرالمعانی(فن ثالث )وغیرہ ساری کتابیں خارج اوقات میں پڑھیں ،حضرت مفتی محمود حسن ؒ نے مختصرالمعانی کا فن ثانی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبد اللطیف صاحبؒ سے پڑھنے کا مشورہ دیا ،حضرت مولانا ابرارالحق ؒ نے حضرت ناظم صاحبؒ کے سامنے اپنی درخواست پیش کی ،حضرت نے فرمایا کہ تہجد کے بعد پڑھا سکتا ہوں،حضرت مولانا ابرارالحق ؒ نے حضرت مفتی محمود حسن ؒ کو حضرت ناظم صاحبؒ کی شرط سے آگاہ کیا، تو حضرت مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ منظور کرلو اور یہ شرط کرلو کہ تہجد کے وقت اٹھانا آپ کی ذمہ داری ہوگی ،اس طرح خارج میں حضرت مولانا عبد اللطیف ؒ سے مختصرالمعانی کا باب ثانی پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔
۱۹۴۳ئمیں جس وقت آپ یہاں تیسری جماعت میں زیر تعلیم تھے آپ کی فطری اورخوابیدہ صلاحیتوں میں کس قدر نکھا ر پیدا ہوچکا تھا ،اس کااندازہ دارالافتاء مظاہر علوم وقف کے اس ریکارڈ سے ہوتا ہے جہاں آپ کے علمی استفتاء موجود ہیں جو آپ نے مستفتی کی حیثیت سے کئے تھے ،چنانچہ بطور’’ مشتے نمونہ ازخروارے ‘‘ایک سوال جو داڑھی کے دھونے اورمسح سے متعلق ہے ہدیہ ناظرین کرتا ہوں۔
’’کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ مسح لحیہ فرض ہے یا غسل لحیہ ہر دو صورت میںربع ہے یا ثلت ہے یا کل ؟یا مسح ما یلاقی البشرۃ ویا غسلہ اوراس میں اگر اختلاف ہے تو مع ادلہ اورقول مختار کیا ہے تحریر فرمائیں ۔
ابرارالحق ،متعلم مدرسہ ہذا ۲۵؍۱۱؍۱۳۵۲ھ
اہل علم حضرات بخوبی واقف ہیں کہ اس قسم کا علمی تحقیقی اوراختلافی سوال وہی کرسکتا ہے جس کی متعلقہ مسئلہ پر گہری نظر ہوورنہ داڑھی کا دھونا یا اس پر مسح کرنا ربع ،ثلث اورکل کی قید،مسح ما یلاقی البشرۃ پر نظر،اختلاف الائمہ مع ادلہ اورقول مختار(مفتیٰ بہ )کاسوال ایک عام شخص اورکم پڑھا لکھا طالب علم نہیں کرسکتا ۔
حضرت محی السنۃ کی تعلیمی محنت ،خدا داد صلاحیت اور اساتذہ کرام کے فیضانِ نظرکی بدولت آپ شروع ہی سے مظاہر علوم میں مخصوص پہچان بنا چکے تھے ،اساتذہ اورارباب مدرسہ کو ان سے لگا ؤتھا ۔
اس علمی استفتاء کا محققانہ جواب حضرت مفتی سعید احمد صاحب اجراڑوی ؒ نے تحریر فرمایاجس پر تائیدی اورتوثیقی دستخط استاذ الکل شیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبد اللطیف پورقاضویؒ نے ثبت فرمائے ۔جواب درج ذیل ہے ۔
’’حامداً ومصلیاً ومسلماً!غسل لحیہ میںفقہاء احناف کے اقوال مختلف ہیں تقریباً آٹھ اقوال ہیں (۱)مسح کل (۲)مسح ربع (۳)مسح ثلث (۴)مسح ما یلاقی البشر ۃ (۵)غسل ربع (۶)غسل ثلث (۷)غسل کل (۸)عدم غسل ومسح ۔لیکن لحیہ کثہ غیر مسترسل میںصحیح اورمفتی بہ روایت یہ ہے کہ تمام کو دھویا جائے علاوہ ازیں تمام روایات مرجوح عنہ ہیںجیساکہ بحر الرائق ،بدائع الصنائع ،در مختار میں ہے وغسل جمیع اللحیۃ فرض یعنی عملیاً ایضاً علی المذھب الصحیح المفتی بہ المرجوح الیہ وما عدا ھذہ الروایۃ یجب غسلہ ولا مسحہ بل یسن وان الخفیفۃ التی تری بشرتھا یجب غسل ما تحتھا ۔
لحیہ خفیفہ کا دھونا واجب ہے اورمسترسل کا دھونا مسنون ہے ۔
سعید احمد ۲۶؍ذی قعدہ ۱۳۵۲ھ
صحیح عبد اللطیف عفااللہ عنہ ۔۲۷؍ذی قعدہ ۱۳۵۲ھ
درس نظامی سے فراغت کے بعد یہیں مظاہر علوم میںمعین مدرس ہوگئے اور فارسی کتب کا درس آپ سے متعلق کیا گیا کچھ عرصہ بعد اپنے پیر ومرشدحضرت تھانوی ؒ کے حکم وایماء پر مدرسہ جامع العلوم کانپورمیں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے پھر حضرت تھانوی ؒ کی حسب ایماء مدرسہ اسلامیہ فتح پورہنسوہ پہنچے اوروہاں بھی مختصر عرصہ تعلیمی خدمت انجام دی ۔
۱۳۶۲ھ میں حضرت تھانویؒ کے حکم پر ہردوئی ؒمیں مدرسہ اشرف المدارس قائم کرکے طویل زمانہ تک درجات ابتدائی اوراوسط کی تعلیم دیتے رہے اورتا حیات اس مدرسہ کی خدمت انجام دی ،اخیر میں تو دورۂ حدیث کا باقاعدہ آغاز فرمادیا تھا۔
مظاہر علوم میں دورانِ تعلیم اپنی متواضعانہ اورمنکسرانہ طبیعت اورکتابی دلچسپیوں کے باعث یہاں کے اساتذہ واکابرکی نظروں میںخصوصی مقام بنالیا تھا ۔
پروفیسر احمد سعید صاحب نے بزم ِاشرف کے چراغ میں لکھا ہے
’’دوران طالب علمی آپ نے اپنی صالح اورملکوتی زندگی کواس طرح پیش کیا کہ مدرسہ کے اساتذہ اورطلبہ آپ کی طرز زندگی سے بہت متاثر ہوئے ‘‘
عارف باللہ حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندویؒ جس سال یہاں مظاہر علوم میں دورہ حدیث شریف میں شریک تھے ،اس سال حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنیؒ نے ابو داؤد شریف کے سبق میں فرمایا تھاکہ
’’طالب علم اگر طالب علمی کے زمانے سے صاحب نسبت نہ ہوا تو کچھ نہ ہوا ،مولانا ابرارالحق صاحب کو اللہ پاک نے طالب علمی ہی کے زمانے میں یہ دولت عطا فرمائی تھی‘‘۔(تذکرۃ الصدیق ص ۴۶۰ج۲)
یہاں قیام کے دوران آپ نے اپنا اصلاحی وروحانی تعلق حضرت حکیم الامت ؒ سے استوار کیااورہر ہفتہ تھانہ بھون جانے کا معمول بنالیا،والدماجد کا حضرت تھانوی ؒ سے قدیم تعلق توتھاہی، خود مظاہر علوم میں آپ کے اساتذہ حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒاورحضرت مولانا محمد اسعد اللہ ؒ کابھی حضرت تھانویؒ سے اصلاحی وروحانی تعلق تھا اس کے علاوہ حضرت تھانویؒ مظاہر علوم کے سرپرست بھی تھے اوریہاں اکثر وبیشتر حاضری ہوتی رہتی تھی پھر مظاہر علوم کے علمی وروحانی ماحول نے بھی آپ پر بہت اثر کیا ،ان حالات کی مناسبت سے حضرت محی السنۃ ؒ کشاں کشاںسلسلۂ تھانوی سے قریب ترہوتے چلے گئے اوربالآخر صرف ۲۲ ؍ سال کی عمر میںبارگاہِ تھانوی سے خلعت خلافت حاصل کرلی ۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
آپ کی پوری تعلیم یہیں مظاہرعلوم میں ہوئی ہے، آپ کے ابتدائی اساتذہ میںحضرت مولاناامیر احمدکاندھلوی ؒ ، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الجبار اعظمیؒ،حضرت مولانا نورمحمدؒ ،حضرت مولانا عبد الشکورؒ،حضرت مولانا محمد اسعد اللہ ؒ، حضرت قاری مفتی سعید احمد اجراڑوی ؒ،حضرت مولانا محمد زکریا قدوسی گنگوہیؒ اورحضرت علامہ صدیق احمد کشمیریؒ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
آپ نے بخاری شریف جلد اول اورابوداؤد شریف مکمل شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی ؒ سے، بخاری شریف جلد ثانی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبد اللطیف پورقاضویؒ سے ،مسلم شریف اورنسائی شریف حضرت مولانا منظور احمد خانؒ سے،ترمذی شریف وطحاوی شریف حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒ سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا ۔
زمانہ طالب علمی سے ہی استاذ الکل شیخ الاسلام حضرت مولاناسید عبد اللطیف ؒ ناظم مدرسہ سے خصوصی مناسبت رہی اورحضرت رحمۃ اللہ علیہ کے خادم خاص بھی رہے ۔
سند حدیث کا مبارک سلسلہ استاذ محترم حضرت مولانا محمد زکریا صاحب ؒ سے ہوتا ہوا حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوریؒ،حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی ؒ،حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری،حضرت مولانا شاہ محمداسحق محدث دہلویؒ سے ہوتا ہوا مسند الہند حضرت مولانا شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی ؒسے جاملتا ہے ۔
مظاہر علوم میں اپنے دیگر اساتذہ کرام بالخصوص حضرت حجۃ الاسلام مولانا محمد اسعد اللہ ؒ، قطب العالم حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ اورمفتی ٔ اعظم حضرت مفتی سعید احمد اجراڑیؒ سے خصوصی تعلق رکھا اورفراغت کے بعد دعوتی سلسلہ میںجب کبھی مغربی یوپی آنا ہوا تو مادر علمی مظاہرعلوم وقف میں ضرورتشریف لاتے، مدرسہ کے حالات معلوم کرتے ،کبھی مؤذن کو بلاکراذان کی تصحیح فرماتے ،تو کبھی امام کے سلام اورتکبیر وغیرہ کو درست فرماتے ۔
آپ نے اپنی مادر علمی مظاہر علوم وقف سہا رنپور کے چار دورنظامت کو دیکھا (۱)استا ذ الکل حضرت مولانا سید عبد اللطیف پورقاضویؒ(از۱۳۴۷ھ تا۱۳۷۳ھ)(۲)حضرت مولانا محمد اسعد اللہ رامپوریؒ (از۱۳۷۴ھ تا۱۳۹۹ھ) (۳)حضرت مولانامفتی مظفر حسین اجراڑویؒ (از۱۴۰۰ھ تا۱۴۲۴ھ)(۴)حضرت مولانا محمدسعیدی مدظلہٗ (از۱۴۲۴ھ تا حال) مذکورہ سبھی حضرات سے تعلق رکھا ۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحبؒ کا بہت احترام فرماتے تھے ،ہمیشہ مکاتبت اور مراسلت رہی ،مدرسہ اشرف المدارس کے نظم کے سلسلہ میں حضرت مفتی صاحبؒ سے معلوم کرتے رہے کہ اس سلسلہ میں مظاہر علوم میںہمارے بزرگوں کی کیا روایت رہی ہے،مظاہر علوم (وقف)کا اس سلسلہ میںکیا قانون ہے؟کیا اصول ہیں؟مشاہرہ جات کا کیا معمول ہے ؟اس قسم کے بہت سے مسائل میں برابر رجوع فرماتے رہے ۔
منکرات کے سلسلہ میں اپنے تمام معاصرین سے بڑھے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی خوش سلیقگی کے ساتھ منکرات ومنیہات پر روک ٹوک کا ملکہ عطا فرمایا تھا کہ مخاطب کو پشیمانی نہیں ہوتی تھی ،ان کی پوری زندگی اتباع سنت محمد یﷺ کے سانچے میں ڈھل گئی تھی، ان کو دیکھ کر اللہ کی یاد آتی تھی، جس بات کو کہتے بڑے اچھے اندازمیںکہتے کہ مخاطب پر فوری اثر ہوتا تھا، اصول پسندی میں وہ اپنے مرشد حضرت حکیم الامتؒ کا پرتوَ تھے تو نظم وانتظام میں اپنے استاذشیخ الاسلام حضرت مولانا سید عبد اللطیف پورقاضویؒ کا عکس جمیل تھے،سوزدروں میں اپنے استاذ حضرت مولاناعبد الرحمن کامل پوری ؒتھے توجذب ومعرفت میں حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب غوریؒ نظر آتے تھے، اخلاص وفنائیت میں حضرت مولانا شاہ عبد الغنیؒ پھول پوریؒ تھے توعلوم وفنون اور سلوک وطریقت میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب ؒکی نظیراور تواضع وانکساری میں عارف بااللہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد پرتاب گڑھیؒ محسوس ہوتے، انہوں نے بزرگوںکی روایات اوران کے قائم کردہ خطوط ونقوش پر چل کر دکھلادیا اورثابت کردیا کہ ؎
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
وہ کون سا عقدہ ہے جو وَا ہو نہیں سکتا
قرآن کریم کو تصحیح لفظی کے ساتھ پڑھنا اورپڑھاناان کی زندگی کا اہم خاصہ تھا ،ان کا مرتب کردہ قاعدہ نورانی (ہردوئی والا)جس قدر مقبول ہوا اورمدارس ومکاتب میں جس قدر پذیرائی ہوئی اس سے حضرت ہردو ئیؒ کے خلوص اورجذب دروں کا پتہ چلتا ہے ۔
حضرت ہردوئی ؒ بہت اصول پسند تھے ان کے مدرسہ اشرف المدارس اورآپ کے زیر انتظام دیگر مدارس اورشاخوںمیں جتنے اساتذہ کا تقرر ہوتا تھا چاہے کسی بھی عہدہ پر ہواس کے لئے قاعدہ نورانی کا امتحان اورمشق ضروری تھی اس سے دوبڑے فائدے تھے ایک تو مدرس صاحب کو قرآن کریم صحیح قواعد کے ساتھ پڑھنا آجاتا تھا اوردوسرا فائدہ یہ ہوتاتھا کہ نفس مرجاتا تھا، خاکساری وتواضع کی صفات پیدا ہوجاتی تھیں ،غرو ر وتکبر،انانیت اورنفس پرستی کا دوردور تک شائبہ نہیں رہتا تھا ۔
آپ کا ایک معمول یہ بھی تھا کہ اساتذہ ومدرسین کا کسی نہ کسی بزرگ شخصیت سے تعلق اورروحانی واصلاحی رابطہ ضرورہوکہ ایسے حضرات کی ذات سے مدرسہ کے اصول وقانون کے خلاف کسی بات کے سرزد ہونے کا امکان بہت کم ہوتاہے پھر جب استاذ کے اندر خشیت وللہیت ہوگی تو شاگردوں کو بھی اس سے سبق ملے گا اورپوری جماعت سلوک واحسان کے رنگ میںرنگتی چلی جائے گی اوردوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خلاف قانون کسی امر کے سرزد ہونے پر براہ راست پیر ومرشد سے رجوع کرکے اس کا اخراج آسان ہوتا ہے ۔
نظم وانتظام کے ساتھ ساتھ اپنے ماتحتوںکی ضروریا ت کا خیال ،ان کے مشاہرہ جات میں حسب ضرورت اضافہ ،صفائی وستھرائی پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے ،صفائی وستھرائی کے معاملہ میں تو ان کے بہت سے واقعات ہیں کبھی کسی مدرسہ میں پہنچے تو بلا اطلاع مطبخ ،غسل خانوں اوربیوت الخلاؤںکا چکر لگایا تاکہ پتہ چلے کہ مدرسے والے کہاں تک صفائی پسند ہیں ۔
بندیل کھنڈکے ایک بڑے مدرسہ میںبلا اطلاع پہنچ کر سیدھے مطبخ میں داخل ہوئے وہاں دیکھا کہ طباخ حضرات نیکر پہن کر روٹیاں لگارہے ہیں،رانیں کھلی ہوئی ہیں، اہل مدرسہ پر بہت بگڑے کہ جب اس لباس میںروٹیاںپکائی جائیں گی اوران کو طلبہ کھائیں گے تو ان کے اندرکہاں سے برکت پیدا ہوگی؟ ۔
ایک بڑے مدرسہ پہنچے اورناظم مدرسہ کو حکم دیا کہ اذان سنائیںایک اہم مفتی کو سورہ فاتحہ سنانے پرمامور فرمایا اذان میں غلطیاںبتائیں،سورہ فاتحہ کی قراء ت میں خامیاںنکالیں ،لیکن کسی نے اپنی کسر شان نہیں سمجھی ۔
قصبہ لہر پور، ضلع سیتاپورکے ایک بڑے مدرسہ میں سالانہ اجلاس میں شرکت اس شرط کے ساتھ منظورفرمالیا کہ اشتہارمیں میرا نام نہیں ہوگا لیکن اہل مدرسہ نے نام لکھ دیا جس کی وجہ سے حضرتؒ جلسہ میں تشریف نہیں لائے ،منتظمین نے بڑی منت سماجت کی ،حیلے بہانے تراشے ،پریس کی غلطی بتلائی ،کاتب کو خاطی ٹھہرایا،لیکن حضرتؒ یہی فرماتے رہے کہ آج کل علماء وعدہ خلاف ہوگئے ہیں،جب یہی حضرات عہدو پیمان کو توڑنے لگیں گے تو پھر وعدوں کو کون پورا کرے گا ۔
آپ ایسے جلسوں اوراجتماعات میں کبھی شرکت نہیں فرماتے تھے جہاں ضرورت سے زائد بجلی وروشنی کا نظم ہو،قمقموں کی جگمگاہٹ ،غیر ضروری سجاوٹ اوراسٹیج کی پرتکلف بناوٹ پر وہ بہت بر افروختہ ہوتے تھے اسی طرح جہاں فوٹو کھینچے جارہے ہوں،اسراف ہورہا ہووہاں بھی تشریف نہیں لے جاتے تھے ۔
سیتاپورمیں آپ کے ایک معتقد نے اپنی بیٹی کے نکاح میں مدعو کیا نکاح پڑھانے کی درخواست کی، درخواست منظورہوگئی ،وقت مقررہ پر پہنچ کر نکاح پڑھایا اورواپس چلنے لگے ،داعی نے عرض کیا کہ حضرت کھانا بالکل تیارہے ،کوئی تکلف نہیں ہے ،کھانا تناول فرمالیجئے ،فرمایا صرف نکاح پڑھانے کی بات کی تھی سو وہ ہوچکا ہے کھانے کی کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی اس لئے کھانا نہیں کھاؤں گا ،داعی صاحب مزاج آشنا تھے، اس لئے خاموش ہوگئے اورحضرت ؒ واپس تشریف لے آئے ۔
دوران تقریرآپ کا معمول تھا کہ آپ چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے دائیں اوربائیں بٹھاتے تھے اوربڑے حضرات کوسامنے بٹھاتے تھے اوراس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ یہی بچے آگے چل کر قوم کے داعی اورخدمت گار بنیں گے ،دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ مقررین کو دیکھنے کے لئے یہ بار باراٹھنے اوراچک اچک کر دیکھنے کی کوشش نہیں کریں گے اورتیسرا فائدہ یہ ہے کہ قریب ہونے کی وجہ سے سوئیں گے نہیں ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے ،بڑی خوبیوں کے مالک تھے ،موت تو ہر ایک کو آنی ہے، لیکن آپ کی رحلت اس معنی کر بہت اہم ہے کہ آپ حضرت حکیم الامتؒ کے آخری خلیفہ تھے ،جن کی ذات گرامی سے پوری دنیا روشنی حاصل کرتی تھی ،افسوس کہ ۸؍ربیع الثانی ۱۴۲۶ھ منگل کے دن رات ۹ بجے سلسلہ تھانوی کا وہ ستارہ بھی غروب ہوگیا ؎
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
٭٭٭