میری سنوجوگوش حقیقت نیوش ہے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
میری سنوجوگوش حقیقت نیوش ہے
ناصرالدین مظاہری
جس دورمیں ہم لوگ سانس لے رہے ہیں اس کو مختصرلفظوں میں ’’دورقحط الرجال ‘‘کہاجاسکتاہے ،کوئی مجلس ، کوئی جماعت،کوئی تنظیم ،کوئی ادارہ اور کوئی سوسائٹی ایسی نہیں ہے جس کو کام کے افرادکی کمی کااحساس اور شکوہ نہ ہو۔
اگرغائرانہ نظرڈالی جائے تو اس احساس کے شاکی ،افرادکی کمی کے لئے شکوہ سنج اورکام کے افرادنہ ملنے کی شکایت سب سے زیادہ مسلمانوں کو ہے اور یہ بھی ناقابل انکارسچائی ہے کہ سب سے کم شکوہ یہودیوں کوہے۔
پوری دنیاکے کل یہودی صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی تعدادکے برابربھی نہیں ہیں،لیکن ان کی سوچ،فکرونظرکی وسعت،منصوبہ بندی ،اتحادویک جہتی اورایک دوسرے کیلئے ہمدردی ومروت کا اندازہ اس سے کیاجاسکتاہے کہ پوری دنیامیں اگرکہیں بھی کسی یہودی مفادات یایہودی شخص کسی بھی ناگہانی آفت سے دوچارہوتاہے تو ( صرف ۶۰؍سال قبل وجودمیں آنے والا) غاصب وقابض ملک اسرائیل اپنے تمام تروسائل اورذرائع کا استعمال کرکے اس کاپائدارحل تلاش کرلیتاہے،لیکن مسلمان حکومتیں،بااقتدارشخصیتیں اور بااثرمسلمان دنیاکے کسی بھی ملک اورخطہ کے مسلمانوں کی انفرادی یا اجتماعی مشکل کاحل تلاش کرنے میں ناکام نظرآتے ہیں، حالانکہ مسلمانوں کی اپنی ستاون حکومتیں ہیں،ان کے اپنے مالیاتی ذخائراور معدنیاتی خزینے ہیں ،تیل،گیس،پیٹرول،سونے اورچاندی کے معادن انھیں کے پاس ہیں،دنیاکی سب سے بڑی مجموعی فوجی طاقت بھی مسلمانوں کے پاس ہے،دنیاکے اہم راستے،ہوائی اور زمینی گزرگاہیں بھی مسلمانوں کے پاس ہیںلیکن ان سب کے باوجودہماراکوئی وجوداورعالمی سوسائٹی میں ہماراکوئی شمارنہیں ہے…آخراس کی وجہ کیاہے…؟
وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنے مسلمان ہونے کے احساس کوکھودیاہے،ایک مؤمن کیلئے سب سے بڑاجوسرمایہ ہوتاہے اس سرمایہ سے ہم دست بردارہوگئے ہیں،ہمارے پاس اڑنے کیلئے جودست وبازوتھے، پروازکیلئے جوفضائیں تھیں ان سب پر غیروں نے قبضہ جمالیااورہم اسی خوش فہمی کاشکاربنے رہے کہ سب کچھ ہمارے پاس ہے،ہم نے حالات کا رونارونے کو فرض منصبی تصورکرلیا،اسلام اور مسلمانوں پرجبروتشددکومسلم حکومتوں کے سرتھوپ کرخاموش ہوگئے ،معاش ومعادکے معاملہ میں اللہ پرتکیہ کرنے کے بجائے عالمی اورسوئس بینکوں پربھروسہ کربیٹھے،اپنی جماعت اور جمعیت کومتحدکرنے کے بجائے ہم خوداغیارکی جماعت کارُکن بن گئے،اپنی دنیاآپ پیداکرنے کے بجائے دوسروں کے رحم وکرم پراپنی زندگی گزارنے کودانائی اور حکمت عملی سمجھ بیٹھے ،نتیجہ یہ ہواکہ ہم اپنی ہی سوسائٹی کے لئے اجنبی،ناکارہ اورعضومعطل تصورکئے جانے لگے،پروازکے لئے ہزاروں وسعتیں ،فضائیں اورآسمان ہونے کے باوجودہماراعرصہ حیات ہم پر تنگ ہوگیا۔
آج دنیامیں ہراہم معاشی نظام پریہودیوں کا قبضہ ہے،پوری دنیاکاسب سے طاقتورادارہ میڈیا یہودیوں کے قبضہ میں ہے،پوری دنیاکاسب سے مالدارعالمی بینک یہودیوں کاہے،امریکہ کے سرکاری یانیم سرکاری ہربڑے شعبہ کی سربراہی یہودی کرتاہے،امریکی جاسوسی نظام سے لے کردنیاکے ترقی پذیراورترقی یافتہ ملکوں کے فوجی نظام کویہودیوں کے مشاق تربیت یافتہ فوجیوں سے ٹریننگ مل رہی ہے۔
یہودیوں کودنیاکے مذکورہ کلیدی شعبہ جات پرمکمل گرفت کی وجہ کیاہے؟وجہ جاننے کے لئے تاریخ کے صفحات کوپلٹناہوگا۔
مشہورعیسائی ظالم حکمراں ہٹلرکویہودی خباثتوں اورچیرہ دستیوں کابخوبی علم تھا،اس نے محسوس کیاکہ روئے زمین پراس قوم سے زیادہ مفسد،فتنہ پردار،عیارومکاراورظالم وجابرکوئی اور قوم نہیں ہے چنانچہ ہٹلرنے اس وقت یہودیوں کی ایک بڑی جمعیت جولاکھوں پرمشتمل تھی گھیرگھارکربکریوں کی طرح جرمن ہنکاکرلے گیااور لاکھوں یہودیوں کوبے دریغ قتل کردیا کی بات ہے۔
اس قتل عام سے بچ جانے والے مٹھی بھریہودی اپنی جان بچاتے اور دم دباتے دنیاکے طول وعرض میں بھاگتے پھرے،انھیں نہ تو کہیں جائے قرارمل سکی اور نہ ہی راہ فرارمیسرآسکی،لیکن جویہودی جہاں بھی تھا آپس میں ایک دوسرے سے مربوط رہانتیجہ کے طورپرسوئزرلینڈکے شہربازل میں ۳۰۰اہم یہودی رہنماجمع ہوئے اورپوری دنیاکو اپنی مٹھی میں لینے کادستورالعمل طے کیا،اس دستورکوعام اصطلاح میں ’’یہودی پروٹوکول‘‘کہاجاتاہے۔چنانچہ اس پروٹوکول کے مطابق کام شروع ہوا،منصوبہ بندی،حکمت علمی،رازداری جوکسی بھی مقصدکوپانے میں کلیدکی حیثیت رکھتی ہے اس کو ہمہ وقت پیش نظررکھاگیااوراس کارزلٹ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ۔
یہودیوں نے اپنی شکست کابدلہ کتنی حکمت اورتدبیرسے لیاکہ دوسری تمام قومیں ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘کامصداق بن گئیں۔لیکن مسلمان جوہردورمیں ظلم کا شکارہوا…ہرعہدمیں اس پر غیروں نے شکنجہ کسا…ہرظالم حکمراں نے گاجرمولی کی طرح کاٹا…ہرنزلہ مسلمانوں کی گردنوں پرگرا…لیکن مسلمان خواب غفلت سے بیدارنہیں ہوا…ہم اپنے کرداروعمل سے دوسروں کو مرعوب کرنے کے بجائے خودہی مرعوب ہوگئے۔
ایک بارحضرت خالدبن عبدالرحمن بغدادآئے توابوجعفرمنصوربغدادی نے آپ سے پوچھاکہ آپ تو خلفاء بنوامیہ میں تشریف لاتے رہے ہیں بتائیے کہ ان کے اورمیرے دورحکومت میں کیافرق ہے اورآپ نے راستے میں مختلف صوبوں کے عاملین کو کیساپایا؟
حضرت خالدؒنے برجستہ فرمایاکہ میں نے تمہارے عاملین(افسران )کودیکھاجن کے مظالم کی انتہانہیں ہے ،حالانکہ بنوامیہ کے عہدمیں کوئی ظلم نہیں تھا۔
منصورعباسی نے یہ جچاتلااور حق جواب سن کرندامت کے احساس سے گردن جھکالی اورکچھ دیرکے بعدسراٹھایااورگویاہواکہ اچھے عمال(افسران)نہیں ملتے،ہم کیاکریں؟
حضرت خالدؒنے فرمایاکہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒفرمایاکرتے تھے کہ حاکم کی مثال ایک بازارکی سی ہے جس میں وہی مال آتاہے جواس میں چلتاہے،اگروہ نیک ہوتاہے تومقربین اس کے پاس نیک لوگوں کو لاتے ہیں اور اگر وہ بدکارہوتاہے تومقربین اس کی خدمت میں بدکاروں کو پیش کرتے ہیں۔(حکایات عزیمت ص ۲۸)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادعالی اعْمَالُکُم عُمَّالکم (جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسے ہی تمہارے حکمراں )اپنی جگہ بالکل برحق ہے،ہمارے اعمال کی نحوست سے حکمراں متعین ہوتے ہیں’’شامت اعمالِ ماصورت نادرگرفت‘‘ایک مسلم اصول ہے۔
اگرکسی شخص کوپرکھناہوتواس کیلئے سب سے اہم نکتہ ہمارے اکابرنے یہ فرمایاہے کہ اس کے مصاحبین اورمجلس نشین پرنظرکرو،اگرمجلس میں عارفین کی آمدزیادہ ہے تو ایسا شخص اپنے وقت کا عارف ہوگا،اگراس کی مجلس میں علماء اور اہل علم کی کثرت سے آمد ہوتی رہتی ہے تو ایسا شخص نیک اور صالح عالم ہوگا،اہل علم کی مجلس میں زرداوں اوردنیاداروں کی آمدزیادہ ہوتی ہوتو ایساشخص عالم دین نہیں عالم دنیاہوگا۔جوعالم مالداروں کے پاس آتاجاتاہواس سے دوررہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
اللہ کی خوب خوب رحمتیں نازل ہوں حضرت فقیہ الاسلام مولانامفتی مظفرحسین ؒکی قبرمبارک پر،میں نے خود دیکھاہے کہ آپ کی مجلس میں کباراہل علم ،عارفین ،کاملین اور مخلصین کی بکثرت آمدہوتی تھی،آپ کی مجلس غیبت،جھوٹ،چغل خوری اوردنیاداری کی باتوں سے خالی رہتی تھی،لوگ خالی ہاتھ آتے تھے اوردامن مراد بھرکرجاتے تھے ،آپ کی مجلس میں بیٹھ کرطمانینت قلبی کاحصول ہوتاتھا،لوگ دعاؤں کی درخواست لے کرحاضر ہوتے اور خوش وخرم واپس جاتے تھے، رفق ونرمی،مروت ومحبت اورشفقت وعنایت کے دریاآپ کی ذات سے بہتے محسوس ہوتے تھے ۔
آپ ؒکی خدمت میں بمبئی شہرکے کچھ مخیرحضرات حاضر ہوئے اور خصوصی مجلس میں عرض کیاکہ حضرت آج کام کے افرادکیوں پیدانہیں ہورہے ہیں؟حضرت نے فرمایاکہ کام کے افراداس لئے پیدانہیں ہورہے ہیں کہ آپ لوگوں نے چندہ کے نام پر زکوٰۃ دینے کا معمول بنالیاہے،زکوٰۃ کومال کامیل کہاگیاہے،ظاہرہے مال کا میل کھاکردلوں میں تازگی،ذہن وفکرمیں نورانیت پیدانہیں ہوتی ،نورانیت تو آپ کی امدادسے پیداہوسکتی ہے جس سے آج کے مدارس محروم ہیں،دوسری طرف مدارس نے زیادہ سے زیادہ طلبہ کوداخل کرناشروع کردیاکیونکہ آپ لوگوں نے ایک معمول بنالیاکہ جہاں طلبہ زیادہ ہوں گے وہاں چندہ زیادہ دیں گے نتیجہ یہ ہواکہ طلبہ پر جو محنت ہونی چاہئے تھی ہمارے طلبہ اس سے محروم ہوگئے۔
دسمبر۲۰۰۹ء میں ایک ادارہ کے ذمہ دارکی دردمندانہ تحریرپڑھنے کوملی کہ
’’رمضان المبارک سے قبل کئی حضرات کو اورمدارس کے بڑے ذمہ داران کو عرض کررکھاتھاکہ کوئی اچھاقاری اگرمل جائے تو اس کوبھیج دیجئے!مگرابھی تک نہیں مل سکاہے،اسی طرح ایک فاضل یاعالم کے لئے کئی بڑے اساتذہ اوربڑے ذمہ داران سے اوربعض اپنے بے تکلف دوستوں سے گزارش کی کہ کوئی اچھاعالم دیدیجئے مگرتقریباًسب کا ایک ہی جواب ہے کہ’’ آدمی نہیں‘‘(نقوش اسلام ماہ نومبردسمبر۲۰۰۹ئ:مولانامحمدمسعودعزیزی ندوی)
کام کے آدمی نہ ملنے کا شکوہ ،وہ بھی ’’خیرامت ‘‘میں کس قدرافسوسناک ہے ،ہندوستان میں لاکھوں مدارس ہیں اگرہرمدرسہ سے سال میں صرف ایک قاری اورایک عالم پیدا ہوجائے تو کروڑوں حفاظ ،قراء ،علماء اوردعاۃ ومبلغین تیارہوجائیں گے۔
ہندوستان میں ۳۵؍کروڑمسلمان ہیں ،اگرفی صدمسلمانوں پر ایک کام کاآدمی تیارہوجائے تو ۳۵؍لاکھ کام کے افرادہمارے درمیان ہوسکتے ہیں،اس سے سے بھی زیادہ وسعت سے کام لیاجائے اورفی ہزار مسلمانوں پر ایک ہی کام کافردمان لیاجائے تب بھی یہ تعداد۳؍لاکھ پچاس ہزارہوجائے گی جوظاہرہے کہ ایک بڑے ملک کو چلانے اور کسی بھی نظام عمل کوسنبھالنے کی کفیل ہوسکتی ہے۔
چندسال پہلے یوپی کی حکومت نے اردوٹیچروںکی تقرریاں شروع کیں تواس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے بہت سے کافرمطلق نے اردوداں اوراردواداروں سے رجوع کیاکہ انھیں اردوسکھادی جائے تاکہ اردو ٹیچرس میں ان کا بھی نام آسکے۔
حج بیت اللہ جوخالص اسلامی شعارہے لیکن کس قدرتعجب کی بات ہے کہ ہندوستان میں حج کے امورکاسب سے کلیدی عہدہ غیرمسلم کے پاس ہوتاہے۔
اسی طرح ہندوستان میں اوقاف کی اہم حیثیت ہے اور تیسرے نمبرپرسب سے بڑی جائداداوقاف کی ہے لیکن مجموعی طورپران کی دیکھ ریکھ کے لئے کلیدی عہدہ غیروں کے پاس ہے۔
ہندوستان میں سِکھ شایدسب سے کم ہیں لیکن طاقت اورروزگارکے اعتبارسے سب سے آگے ہیں، خودیوپی میں اہم سرکاری اداروں پرجوحکمراں مسلط ہیں ان کو دیکھ کرقول رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے ساختہ زبان پر آجاتاہے وان تری الحفاۃ العراۃ العالۃ رعاء الشاء یتطاولون فی البنیان(تم دیکھوگے کہ ننگے پیر اورننگے سر،بکریاں چرانے والے اونچی اونچی بلڈنگوں میں ڈینگیں ماریں گے )
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے چھوٹوں کوآگے بڑھائیں، نئے دماغوں ،نئے چہروں اورنئے عزم وارادوں سے لیس نئی نسل کوکام کے بہترسے بہترطریقے بتلائیں اوران کو دین کا سچا،اچھااورپکاخادم بنائیں، دینی مدارس کی روح کوبرقراررکھیں،وہاں زیرتعلیم طلبہ کی تعلیم وتربیت پر ایسی توجہ اوردلچسپی لیں جواپنے بچوں کے سلسلہ میں لیتے ہیں۔
افرادسازی کی ایسی فیکٹریوں کو وجودبخشیں جس سے کبھی کوئی خام مال پیدانہ ہو،دین کودین کے سچے خادم ہروقت اورہمہ وقت مل سکیں اورپھر قوم کایہ دکھڑا اوررونابھی دورہوجائے کہ قحط الرجال کازمانہ ہے،افرادسازی نہیں ہورہی ہے،رازی اورغزالی پیدانہیں ہورہے ہیں،عوام کو ان کی توقعات کے مطابق علمائ،حفاظ،قرا،دعاۃ اورمبلغین ومقررین نہیں مل پارہے ہیں۔
 
Top