مظاہرعلوم سہارنپورکے عظیم الشان عالم ومنتظم
حضرت مولانا سید عبداللطیف پورقاضوی
عبداللّٰہ عثمانی دیوبند
شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضوی کی ذات والاصفات علمی ودینی طبقہ میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے،وہ فضل وکمال کے کوہ ہمالہ تھے جہاں تک رسائی ہرکسی کے بس کاکام نہیں ہے ، حضرت مولاناکادورمسعودمدرسہ مظاہرعلوم کی زریں تاریخ کا سنہراباب ہے،ان کے عہدواہتمام میں مظاہرعلوم گوناگوں ترقیات سے ہمکنارہواتھا۔
انہوں نے مظاہرعلوم کے عروج وترقی میں شبانہ روزمحنت کی تھی، اپنی مختصرزندگی میں اپنوں کی ایذارسانیاں بھی بہت برداشت کیں لیکن کبھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے،ان کی زندگی کاایک ایک ورق اور ان کی کتاب حیا کاایک ایک حرف ہم خردوں کے لئے رہبری ورہنمائی کا باعث ہے۔ان کے دوراہتمام میں مظاہرعلوم کا نظام وانصرام بہت ہی معیاری ومثالی تھا حتیٰ کہ اپنی انتظامی اوراصولی صلاحیتوں میں معروف حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی بھی حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضوی کی انتظامی خوبیوں کے معترف ومداح تھے اور ہمیشہ مظاہرعلوم کے نظام کی غائبانہ تعریف کیاکرتے تھے۔شایدیہی وجہ ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی قربتیں اور نزدیکیاں کافی حد تک بڑھی ہوئی تھیں ،ٹھیک اسی زمانہ میں حضرت تھانویؒ مظاہرعلوم کے سرپرست بھی تھے،یہی وہ زمانہ تھا جب مظاہرعلوم کے اساتذہ وملازمین کے ایک بڑے طبقہ نے حضرت تھانویؒ سے اپنااصلاحی تعلق استوارکررکھاتھا۔
مضمون نگارکایہ شکوہ کہ حضرت مولاناعبداللطیفؒ کی ذات گرامی پر بہت کم لکھا گیاہے اس حقیقت اور ناقابل انکارصداقت کا ہمیں بھی اعتراف ہے اورراقم نے حضرت مولاناعبداللطیفؒ کے صاحبزادے حضرت مولانا سید عبدالرؤف عالی مدظلہ ٗسے باربار اس کی درخواست بھی کی تھی کہ والدماجد کی ایک جامع سوانح حیات منظرعام پر آجائے اور حضرت مولانانے بھی ایک سے زائد باروعدہ بھی فرمایا تھا کہ کام چل رہاہے لیکن ہرچیزکاایک وقت متعین ہے چنانچہ وہ کام جو بہت پہلے منظرعام پر آجاناچاہئے تھا ہنوزپردۂ خفامیںرہ کر متعلقین کو خفاہونے کا موقع فراہم کررہاہے۔
حضرت مولاناعالی مدظلہٗ چونکہ خودزبردست صاحب قلم، انشاء پردازعالم دین ہیں اس لئے جس معیار اور جس پایہ کی سوانح مولانالکھ سکتے ہیں ویسی کو ئی اور نہیں لکھ سکتا۔اللہ تعالیٰ کتاب کی ترتیب میں پیش آرہی تمام رکاوٹوں کودورفرمائے۔اگر حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب ؒ کی مطبوعہ یا غیر مطبوعہ کوئی تحریرکسی کے پاس ہوتواس کی نقل ہمیں بھیج کر شکریہ کا موقع فراہم کریں۔ (ناصرالدین مظاہری)
وہ رہے یا نہ رہے نام رہے گا باقی
قابلِ ذکر کوئی کام جو کر جائے گا
آفتابِ اسلام کی روشنی نے نہ صرف زمین عرب کو منور کیا بلکہ اس کی ضوفشانی سے کرۂ ارض کا ہر گوشہ چمک اٹھا، طلوع اسلام سے قبل دنیا جہل وگمراہی کی تاریکی میں سوئی تھی، نورِ ایمانی وآسمانی نے ان اندھیروں کو ایک نئی صبح کا پیغام دیا، عالم انسانی پر مذہب ِاسلام کا سب سے بڑا فیض یہ ہے کہ اس نے دنیا کو ایک ایسی پاک صاف تہذیب وحیات بخشی جس سے یہ زمانہ محروم تھا اس کارِ مقدس کی تکمیل پیغمبر آخر الزماں آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ذریعہ کی گئی اور متعدد خدا ترس بندوں کے توسل سے آج تک جاری ہے اور حقیقتاً یہ ہستیاں روئے زمین کی برگزیدہ شخصیات ہیں مرکز دین ومذہب عرب سے جو لوگ شمع اسلام وایمان لے کر ترک وطن کر کے غیر ممالک میں مقیم ہوئے ان کی فہرست سیکڑوں صفحات پر مشتمل ہے اس میں نہ معلوم کتنے نام وہ ہیں جنہیں اکیسویں صدی نہیں جانتی اسی سلسلہ کی ایک کڑی حضرت سید مودو ہراتی ہیں، بہت کم نسبتیں ہیں جو مسلسل علمی، دینی کاموں سے منسلک چلی آتی ہے۔
حضرت سید مودود ہراتی کی نسبت اس دولتِ عظمیٰ سے مالا مال ہے انیسویں صدی کے آخر میں اسی نسبت میں شیخ الاسلام حافظ القرآن والحدیث حضرت مولانا سید عبداللطیف پورقاضوی سابق ناظم مظاہر علوم سہارنپور کی شخصیت نہایت محترم وبالا ہے حافظ صاحب کے مورثِ اعلیٰ سید مودود ہرات سے ہندوستان آئے، مختلف مقامات پر علمی، دینی خدمات انجام دہی کے بعد یہ خاندان قصبہ پورقاضی میں مقیم ہوگیا حافظ صاحب سید نا حضرت امام حسینؓ کے نسب سے ہیں، مولانا عبداللطیفؒ کے علمی ،درسی ا ور انتظامی کارناموں کا صحیح تعارف کرانے کیلئے سیکڑوں صفحات درکار ہیں اس مختصر تعارفی خاکہ میں ان کے سوانحی وتدریسی کاموں کی ہلکی سی جھلک پیش ہے۔
نام عبد اللطیف ابن مولانا جمعیت علی، ولادت ۱۸۷۹ئ بمقام قصبہ پورقاضی، والد ماجد صاحبِ علم وعمل شخصیت کے مالک تھے جن کی کئی پشتیں علمی، روحانی اور اصلاحی خدمات سے آراستہ چلی آرہی ہیں مولانا عبداللطیف نے قرآن پاک اپنے وطن کے نامور حافظ جناب امانت علیؒ سے حفظ کیا اور ابتدائی تعلیم والد محترم مولانا جمعیت علی سے حاصل کی جو اس وقت بہاول پور میں تدریسی خدمات میں مشغول تھے بعد ازاں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب انبیٹھوی کے ایماء پر مظاہر علوم سہارنپور تشریف لائے اور بقیہ جملہ درس نظامی کی تکمیل کی سعادت انہی بزرگوں کے زیر سایہ حاصل کی آپ نے ۱۳۱۵ھ میں مظاہر علوم میں داخلہ لیا اور ۱۳۲۲ھ میں اعلیٰ نمبرات سے فراغت پائی دورانِ تعلیم بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ کی کتب حضرت مولانا خلیل احمد انبیٹھویؒ سے پڑھیں اور نسائی شریف مولانا عنایت علی سے پڑھی۔ ۱۳۲۳ھ میں حضرت شاہ عبدالرحیم کی تجویز پر مظاہر علوم میں مسند درس سنبھالا اسی سال پہلی بار حج بیت اللہ کو گئے اور پھر ۱۳۲۸ھ میں دوسری بار فریضۂ حج کی سعادت پائی حافظ صاحب کا پہلا نکاح حضرت اقدس مولانا خلیل احمد انبیٹھوی کی صاحبزادی اُمِ سلمیٰ سے ہوا جن سے پیدا شدہ اولاد بچپن میں ہی گزر گئیں، اس کے بعد دوسرا نکاح دار العلوم دیوبند کے اولین فضلاء میں شامل مولانا عبدالحق پورقاضوی کی بیٹی اسعدی خاتون سے ہوا، جن سے رضیہ بیگم ،نعیمہ بیگم اور ایک بیٹے مولانا عبدالرئوف عالی تولد ہوئے،۱۳۳۳ھ میں حضرت سہارنپوریؒ کی روانگیٔ بیت اللہ کے موقع پر آپ کو از خود حضرت سہارنپوریؒ مدرسہ کا اہتمام سونپ گئے۔ ۱۳۳۹ھ میں مدرسہ کی جملہ انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز کیا گیا ان کے عہد نظامت میں مظاہر علوم نے جو ترقی کی وہ مظاہر علوم کی تاریخ کا روشن باب ہے،کتب خانہ کی عمارت کی تعمیر، جدید دار الاقامہ اور اس میں مسجد کی تعمیر اور دار التجوید کی عمارت خاص طور پر قابل ذکر ہیں،مظاہر علوم کی نظامت کے متعلق مدرسہ کی مجلس شوریٰ کی ایک تجویز مندرجہ ذیل ہے۔
’’ناظم ومہتمم تقریباً ایک چیز ہے پہلے سے بھی وہی کام جو اہتمام کا تھا ناظم صاحب کر رہے تھے، بمصالح نام مرحوم پر باقی تھا اب حافظ صاحب ناظم ومہتمم دونوں کے ساتھ موسوم ہوں تاکہ ڈاک وغیرہ جو مہتمم کے نام آتی ہے اس میں دقت نہ ہو اور حسب قانون مطبوعہ جو اختیارات مہتمم کے ہیں وہی حافظ صاحب کے ہیں البتہ دفتر میں مرحوم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک محاسب دیانت دار کا اضافہ ضروری ہے چنانچہ مجلس شوریٰ کے بموجب مولانا الحاج عبداللطیف کو زمام اہتمام بھی سونپی گئی اس طرح پر کہ دو نائب ایک مالیات کا دوسرا تعلیمات کا علیحدہ علیحدہ ہو اور دونوں حافظ صاحب کی زیر نگرانی اپنے متعلقہ امور انجام دیں‘‘۔
مولانا عبداللطیف ؒ نے نہ صرف مظاہر علوم کے منصبِ اہتمام کے فرائض بحسن و خوبی انجام دئے بلکہ مسند درس کو بھی اپنی علمی صلاحیتوں سے جلا بخشی آپ کا بخاری وترمذی شریف جیسی بڑی کتابوں کا درس بہت مقبول تھا نیز دورانِ درس ہزاروں طلبہ نے اپنی علمی تشنگی بجھائی یہ وہ شاگرد وطالبعلم تھے جن کے فیوض و برکات آج بھی روئے زمین پر ظاہر ہیں، اس پچاس سالہ طویل علمی سفر میں نہ معلوم کتنے مسافرانِ علم وعمل نے آپ سے کسبِ فیض کیا ان میں یہ چند نام قابلِ ذکر ہیں۔
محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئیؒ، حضرت مولانا صدیق احمد صاحب باندویؒ، حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد زکریا صاحبؒ، حضرت مولانا محمد ثانی حسنی، فقیہ الامت محمود حسن صاحبؒ، شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مفتی مولانا حبیب الرحمن خیرآبادی، مولانا عاشق الٰہی بلند شہری، رئیس التبلیغ حضرت مولانا یوسف صاحب کاندھلویؒ، الحاج مولانا افتخار الحسن صاحب مدظلہ العالی، مولانا احتشام الحسن کاندھلوی، الحاج مفتی محمد جمیل احمد تھانوی۔
مندرجہ بالا شخصیات نے عالم اسلام کو اپنی تعلیم وتربیت سے جو کچھ بخشا ہے وہ محتاج تعارف نہیں بلاشبہ آسمان علم اور احیاء السنن کے یہ وہ آفتاب وماہتاب ہیں کہ جن کی روشنی میں مسلمانوں نے راہِ حق وصداقت کی منزلیں طے کی ہیں نیز ہندوستان سمیت دیگر ممالک میں بھی اسلامی، روحانی تعلیمات کو عام کیا اور لاتعداد گمراہوں کو صراطِ مستقیم پر چلنا سکھایا……حافظ صاحبؒ کے زمانۂ اہتمام ۱۳۳۳ھ سے ۱۳۷۴ھ تک متعدد دینی مدارس کا قیام عمل میں آیا، یہ دور دینی مدارس کے لیے عہد زرّیں ثابت ہوا بلاشبہ دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم کے فضلاء نے اسلامی دنیا میں ایک نئے دور کی ابتداء کی ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں میں دینی علمی رجحان پیدا کیا نیز دونوں مدرسوں نے مسلمانوں میں باہمی محبت جوش وجذبہ کے ساتھ کام کرنے کا سبق دیا آج ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ قومی اتحاد اور اسلامی تعلیمات دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلا رہے ہیں بلاشبہ ہمارے اکابر علماء ایسے چراغ روشن کر گئے جن کی روشنی تا قیامت پھیلتی رہے گی۔
حضرت حافظ صاحبؒ نے زمانہ اہتمام وتدریس میں نہایت ایمان داری اور خلوص نیت سے کام کیا اورمدرسہ کی ترویج وترقی کے لیے ہزاروں میل کے سفر کئے جن میں ۱۳۲۷ھ میں رنگون، برما وغیرہ کے مقامات قابلِ ذکر ہیں اس کے علاوہ میں مظاہر علوم نے زبردست ترقی کی طلبہ کی تعداد، تعمیرات میں اضافہ ہوا آپ کا دورِ انتظامی تاریخِ مدارس میں سدا قابل رشک رہے گا، مگر افسوس مظاہر علوم کی تاریخ میں حافظ صاحبؒ جیسے مدبر، منتظم اور ممتاز عالم دین کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے تاریخ مظاہر میں صرف ایک صفحہ پر مختصر تعارف کے علاوہ ان کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے اس غیر انصافی کو ارباب مظاہر علوم کی کس فکر سے تعبیر کیا جائے؟ پھر بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے جو چراغ روشن کئے تھے ان کی روشنی سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر غیر ممالک بھی منور ہیں۔
حافظ صاحب نے ۵۰سال مظاہر علوم کی شاندار خدمات انجام دیں بالآخر ۱۹۵۴ء کویہ علم وعرفان اور رشد وہدایت کا پیکر اپنے خالق حقیقی سے جاملا اور اپنے پیچھے ایسے نور افشاں ستارے روشن کر گیا کہ جن کی روشنی میں ہزاروں مسلمانوں کو اپنی اصلاح اور تحصیل علم کے مواقع فراہم ہوتے رہیں گے۔
حضرت حافظ صاحب کی اولاد جسمانی میں ان کے بیٹے حضرت مولانا سید عبدالرئوف عالی اپنی علمی وقلمی صلاحیتوں سے دار العلوم وقف دیوبند کے امور اہتمام کے منصب پر فائز ہیں مگر افسوس کہ آج وہ شدید نسیانی غلبہ کی زد میں ہیں،علاوہ ازیں عربی فارسی اردو کے ان اچھے قلم کاروں میں شامل ہیں جن کی پچاس سالہ قلمی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
٭٭٭
حضرت مولانا سید عبداللطیف پورقاضوی
عبداللّٰہ عثمانی دیوبند
شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضوی کی ذات والاصفات علمی ودینی طبقہ میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے،وہ فضل وکمال کے کوہ ہمالہ تھے جہاں تک رسائی ہرکسی کے بس کاکام نہیں ہے ، حضرت مولاناکادورمسعودمدرسہ مظاہرعلوم کی زریں تاریخ کا سنہراباب ہے،ان کے عہدواہتمام میں مظاہرعلوم گوناگوں ترقیات سے ہمکنارہواتھا۔
انہوں نے مظاہرعلوم کے عروج وترقی میں شبانہ روزمحنت کی تھی، اپنی مختصرزندگی میں اپنوں کی ایذارسانیاں بھی بہت برداشت کیں لیکن کبھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے،ان کی زندگی کاایک ایک ورق اور ان کی کتاب حیا کاایک ایک حرف ہم خردوں کے لئے رہبری ورہنمائی کا باعث ہے۔ان کے دوراہتمام میں مظاہرعلوم کا نظام وانصرام بہت ہی معیاری ومثالی تھا حتیٰ کہ اپنی انتظامی اوراصولی صلاحیتوں میں معروف حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی بھی حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضوی کی انتظامی خوبیوں کے معترف ومداح تھے اور ہمیشہ مظاہرعلوم کے نظام کی غائبانہ تعریف کیاکرتے تھے۔شایدیہی وجہ ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی قربتیں اور نزدیکیاں کافی حد تک بڑھی ہوئی تھیں ،ٹھیک اسی زمانہ میں حضرت تھانویؒ مظاہرعلوم کے سرپرست بھی تھے،یہی وہ زمانہ تھا جب مظاہرعلوم کے اساتذہ وملازمین کے ایک بڑے طبقہ نے حضرت تھانویؒ سے اپنااصلاحی تعلق استوارکررکھاتھا۔
مضمون نگارکایہ شکوہ کہ حضرت مولاناعبداللطیفؒ کی ذات گرامی پر بہت کم لکھا گیاہے اس حقیقت اور ناقابل انکارصداقت کا ہمیں بھی اعتراف ہے اورراقم نے حضرت مولاناعبداللطیفؒ کے صاحبزادے حضرت مولانا سید عبدالرؤف عالی مدظلہ ٗسے باربار اس کی درخواست بھی کی تھی کہ والدماجد کی ایک جامع سوانح حیات منظرعام پر آجائے اور حضرت مولانانے بھی ایک سے زائد باروعدہ بھی فرمایا تھا کہ کام چل رہاہے لیکن ہرچیزکاایک وقت متعین ہے چنانچہ وہ کام جو بہت پہلے منظرعام پر آجاناچاہئے تھا ہنوزپردۂ خفامیںرہ کر متعلقین کو خفاہونے کا موقع فراہم کررہاہے۔
حضرت مولاناعالی مدظلہٗ چونکہ خودزبردست صاحب قلم، انشاء پردازعالم دین ہیں اس لئے جس معیار اور جس پایہ کی سوانح مولانالکھ سکتے ہیں ویسی کو ئی اور نہیں لکھ سکتا۔اللہ تعالیٰ کتاب کی ترتیب میں پیش آرہی تمام رکاوٹوں کودورفرمائے۔اگر حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب ؒ کی مطبوعہ یا غیر مطبوعہ کوئی تحریرکسی کے پاس ہوتواس کی نقل ہمیں بھیج کر شکریہ کا موقع فراہم کریں۔ (ناصرالدین مظاہری)
وہ رہے یا نہ رہے نام رہے گا باقی
قابلِ ذکر کوئی کام جو کر جائے گا
آفتابِ اسلام کی روشنی نے نہ صرف زمین عرب کو منور کیا بلکہ اس کی ضوفشانی سے کرۂ ارض کا ہر گوشہ چمک اٹھا، طلوع اسلام سے قبل دنیا جہل وگمراہی کی تاریکی میں سوئی تھی، نورِ ایمانی وآسمانی نے ان اندھیروں کو ایک نئی صبح کا پیغام دیا، عالم انسانی پر مذہب ِاسلام کا سب سے بڑا فیض یہ ہے کہ اس نے دنیا کو ایک ایسی پاک صاف تہذیب وحیات بخشی جس سے یہ زمانہ محروم تھا اس کارِ مقدس کی تکمیل پیغمبر آخر الزماں آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ذریعہ کی گئی اور متعدد خدا ترس بندوں کے توسل سے آج تک جاری ہے اور حقیقتاً یہ ہستیاں روئے زمین کی برگزیدہ شخصیات ہیں مرکز دین ومذہب عرب سے جو لوگ شمع اسلام وایمان لے کر ترک وطن کر کے غیر ممالک میں مقیم ہوئے ان کی فہرست سیکڑوں صفحات پر مشتمل ہے اس میں نہ معلوم کتنے نام وہ ہیں جنہیں اکیسویں صدی نہیں جانتی اسی سلسلہ کی ایک کڑی حضرت سید مودو ہراتی ہیں، بہت کم نسبتیں ہیں جو مسلسل علمی، دینی کاموں سے منسلک چلی آتی ہے۔
حضرت سید مودود ہراتی کی نسبت اس دولتِ عظمیٰ سے مالا مال ہے انیسویں صدی کے آخر میں اسی نسبت میں شیخ الاسلام حافظ القرآن والحدیث حضرت مولانا سید عبداللطیف پورقاضوی سابق ناظم مظاہر علوم سہارنپور کی شخصیت نہایت محترم وبالا ہے حافظ صاحب کے مورثِ اعلیٰ سید مودود ہرات سے ہندوستان آئے، مختلف مقامات پر علمی، دینی خدمات انجام دہی کے بعد یہ خاندان قصبہ پورقاضی میں مقیم ہوگیا حافظ صاحب سید نا حضرت امام حسینؓ کے نسب سے ہیں، مولانا عبداللطیفؒ کے علمی ،درسی ا ور انتظامی کارناموں کا صحیح تعارف کرانے کیلئے سیکڑوں صفحات درکار ہیں اس مختصر تعارفی خاکہ میں ان کے سوانحی وتدریسی کاموں کی ہلکی سی جھلک پیش ہے۔
نام عبد اللطیف ابن مولانا جمعیت علی، ولادت ۱۸۷۹ئ بمقام قصبہ پورقاضی، والد ماجد صاحبِ علم وعمل شخصیت کے مالک تھے جن کی کئی پشتیں علمی، روحانی اور اصلاحی خدمات سے آراستہ چلی آرہی ہیں مولانا عبداللطیف نے قرآن پاک اپنے وطن کے نامور حافظ جناب امانت علیؒ سے حفظ کیا اور ابتدائی تعلیم والد محترم مولانا جمعیت علی سے حاصل کی جو اس وقت بہاول پور میں تدریسی خدمات میں مشغول تھے بعد ازاں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب انبیٹھوی کے ایماء پر مظاہر علوم سہارنپور تشریف لائے اور بقیہ جملہ درس نظامی کی تکمیل کی سعادت انہی بزرگوں کے زیر سایہ حاصل کی آپ نے ۱۳۱۵ھ میں مظاہر علوم میں داخلہ لیا اور ۱۳۲۲ھ میں اعلیٰ نمبرات سے فراغت پائی دورانِ تعلیم بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ کی کتب حضرت مولانا خلیل احمد انبیٹھویؒ سے پڑھیں اور نسائی شریف مولانا عنایت علی سے پڑھی۔ ۱۳۲۳ھ میں حضرت شاہ عبدالرحیم کی تجویز پر مظاہر علوم میں مسند درس سنبھالا اسی سال پہلی بار حج بیت اللہ کو گئے اور پھر ۱۳۲۸ھ میں دوسری بار فریضۂ حج کی سعادت پائی حافظ صاحب کا پہلا نکاح حضرت اقدس مولانا خلیل احمد انبیٹھوی کی صاحبزادی اُمِ سلمیٰ سے ہوا جن سے پیدا شدہ اولاد بچپن میں ہی گزر گئیں، اس کے بعد دوسرا نکاح دار العلوم دیوبند کے اولین فضلاء میں شامل مولانا عبدالحق پورقاضوی کی بیٹی اسعدی خاتون سے ہوا، جن سے رضیہ بیگم ،نعیمہ بیگم اور ایک بیٹے مولانا عبدالرئوف عالی تولد ہوئے،۱۳۳۳ھ میں حضرت سہارنپوریؒ کی روانگیٔ بیت اللہ کے موقع پر آپ کو از خود حضرت سہارنپوریؒ مدرسہ کا اہتمام سونپ گئے۔ ۱۳۳۹ھ میں مدرسہ کی جملہ انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز کیا گیا ان کے عہد نظامت میں مظاہر علوم نے جو ترقی کی وہ مظاہر علوم کی تاریخ کا روشن باب ہے،کتب خانہ کی عمارت کی تعمیر، جدید دار الاقامہ اور اس میں مسجد کی تعمیر اور دار التجوید کی عمارت خاص طور پر قابل ذکر ہیں،مظاہر علوم کی نظامت کے متعلق مدرسہ کی مجلس شوریٰ کی ایک تجویز مندرجہ ذیل ہے۔
’’ناظم ومہتمم تقریباً ایک چیز ہے پہلے سے بھی وہی کام جو اہتمام کا تھا ناظم صاحب کر رہے تھے، بمصالح نام مرحوم پر باقی تھا اب حافظ صاحب ناظم ومہتمم دونوں کے ساتھ موسوم ہوں تاکہ ڈاک وغیرہ جو مہتمم کے نام آتی ہے اس میں دقت نہ ہو اور حسب قانون مطبوعہ جو اختیارات مہتمم کے ہیں وہی حافظ صاحب کے ہیں البتہ دفتر میں مرحوم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک محاسب دیانت دار کا اضافہ ضروری ہے چنانچہ مجلس شوریٰ کے بموجب مولانا الحاج عبداللطیف کو زمام اہتمام بھی سونپی گئی اس طرح پر کہ دو نائب ایک مالیات کا دوسرا تعلیمات کا علیحدہ علیحدہ ہو اور دونوں حافظ صاحب کی زیر نگرانی اپنے متعلقہ امور انجام دیں‘‘۔
مولانا عبداللطیف ؒ نے نہ صرف مظاہر علوم کے منصبِ اہتمام کے فرائض بحسن و خوبی انجام دئے بلکہ مسند درس کو بھی اپنی علمی صلاحیتوں سے جلا بخشی آپ کا بخاری وترمذی شریف جیسی بڑی کتابوں کا درس بہت مقبول تھا نیز دورانِ درس ہزاروں طلبہ نے اپنی علمی تشنگی بجھائی یہ وہ شاگرد وطالبعلم تھے جن کے فیوض و برکات آج بھی روئے زمین پر ظاہر ہیں، اس پچاس سالہ طویل علمی سفر میں نہ معلوم کتنے مسافرانِ علم وعمل نے آپ سے کسبِ فیض کیا ان میں یہ چند نام قابلِ ذکر ہیں۔
محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئیؒ، حضرت مولانا صدیق احمد صاحب باندویؒ، حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد زکریا صاحبؒ، حضرت مولانا محمد ثانی حسنی، فقیہ الامت محمود حسن صاحبؒ، شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مفتی مولانا حبیب الرحمن خیرآبادی، مولانا عاشق الٰہی بلند شہری، رئیس التبلیغ حضرت مولانا یوسف صاحب کاندھلویؒ، الحاج مولانا افتخار الحسن صاحب مدظلہ العالی، مولانا احتشام الحسن کاندھلوی، الحاج مفتی محمد جمیل احمد تھانوی۔
مندرجہ بالا شخصیات نے عالم اسلام کو اپنی تعلیم وتربیت سے جو کچھ بخشا ہے وہ محتاج تعارف نہیں بلاشبہ آسمان علم اور احیاء السنن کے یہ وہ آفتاب وماہتاب ہیں کہ جن کی روشنی میں مسلمانوں نے راہِ حق وصداقت کی منزلیں طے کی ہیں نیز ہندوستان سمیت دیگر ممالک میں بھی اسلامی، روحانی تعلیمات کو عام کیا اور لاتعداد گمراہوں کو صراطِ مستقیم پر چلنا سکھایا……حافظ صاحبؒ کے زمانۂ اہتمام ۱۳۳۳ھ سے ۱۳۷۴ھ تک متعدد دینی مدارس کا قیام عمل میں آیا، یہ دور دینی مدارس کے لیے عہد زرّیں ثابت ہوا بلاشبہ دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم کے فضلاء نے اسلامی دنیا میں ایک نئے دور کی ابتداء کی ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں میں دینی علمی رجحان پیدا کیا نیز دونوں مدرسوں نے مسلمانوں میں باہمی محبت جوش وجذبہ کے ساتھ کام کرنے کا سبق دیا آج ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ قومی اتحاد اور اسلامی تعلیمات دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلا رہے ہیں بلاشبہ ہمارے اکابر علماء ایسے چراغ روشن کر گئے جن کی روشنی تا قیامت پھیلتی رہے گی۔
حضرت حافظ صاحبؒ نے زمانہ اہتمام وتدریس میں نہایت ایمان داری اور خلوص نیت سے کام کیا اورمدرسہ کی ترویج وترقی کے لیے ہزاروں میل کے سفر کئے جن میں ۱۳۲۷ھ میں رنگون، برما وغیرہ کے مقامات قابلِ ذکر ہیں اس کے علاوہ میں مظاہر علوم نے زبردست ترقی کی طلبہ کی تعداد، تعمیرات میں اضافہ ہوا آپ کا دورِ انتظامی تاریخِ مدارس میں سدا قابل رشک رہے گا، مگر افسوس مظاہر علوم کی تاریخ میں حافظ صاحبؒ جیسے مدبر، منتظم اور ممتاز عالم دین کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے تاریخ مظاہر میں صرف ایک صفحہ پر مختصر تعارف کے علاوہ ان کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے اس غیر انصافی کو ارباب مظاہر علوم کی کس فکر سے تعبیر کیا جائے؟ پھر بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے جو چراغ روشن کئے تھے ان کی روشنی سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر غیر ممالک بھی منور ہیں۔
حافظ صاحب نے ۵۰سال مظاہر علوم کی شاندار خدمات انجام دیں بالآخر ۱۹۵۴ء کویہ علم وعرفان اور رشد وہدایت کا پیکر اپنے خالق حقیقی سے جاملا اور اپنے پیچھے ایسے نور افشاں ستارے روشن کر گیا کہ جن کی روشنی میں ہزاروں مسلمانوں کو اپنی اصلاح اور تحصیل علم کے مواقع فراہم ہوتے رہیں گے۔
حضرت حافظ صاحب کی اولاد جسمانی میں ان کے بیٹے حضرت مولانا سید عبدالرئوف عالی اپنی علمی وقلمی صلاحیتوں سے دار العلوم وقف دیوبند کے امور اہتمام کے منصب پر فائز ہیں مگر افسوس کہ آج وہ شدید نسیانی غلبہ کی زد میں ہیں،علاوہ ازیں عربی فارسی اردو کے ان اچھے قلم کاروں میں شامل ہیں جن کی پچاس سالہ قلمی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
٭٭٭