حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا
نام و نسب
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ بعثت سے دس برس پہلے پیدا ہوئیں
نکاح
ابوالعاص بن ربیع جو ان کے خالہ ذاد تھے ان سے انکا نکاح ہوا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو اہل و عیال مکہ میں رہ گئے تھے۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا اسوقت اپنے سسرال میں تھیں غزوہ بدر میں ابوالعاص کفار کی طرف سے شریک ہوئے اور گرفتار ہوئے۔ رہائی اس شرط پر ملی کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو مدینہ کی طرف روانہ کریں گے۔
ہجرتِ مدینہ
ابوالعاص نے مکہ جا کر حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کےساتھ مدینہ کی طرف روانہ کیا کفار سے لڑائی کا خوف تھا اس لئے کنانہ نے ہتھیار بھی ساتھ لے لیئے، مقامِ ذی طویٰ پر پہنچے تو قریش کے چند آدمیوں نے تعاقب کیا، ہبار بن اسود نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو نیزہ مار کر نیچے گرا دیا، کنانہ نے یہ دیکھ کر ترکش سے تیر نکالے اور کہا اب کوئی اگر قریب آیا تو ان تیروں کا نشانے بنے گا۔ لوگ پیچھے ہٹ گئے ابوسفیان سردارانِ قریش کے ساتھ آیا اور کہا کہ تیر روک لو ہم لوگ کچھ گفتگو کر لیں۔ انہوں نے تیر ترکش میں ڈال لیئے ابو سفیان نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھوں سے جو تکلیفیں ہم کو پہنچی ہیں اسکے بعد اگر تم انکی لڑکی کو اعلانیہ مکہ سے نکال کر مدینہ لے گئے تو لوگ ہمیں کمزور کہیں گے ۔ہمیں زینب رضی اللہ عنہا کو روکنے کی ضرورت نہیں جب ہنگامہ کم ہو جائے تو اس وقت انکو خفیہ طور پر لے جانا۔ چند روز کے بعد کنانہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو رات کے وقت لے کر روانہ ہوئے اور مقام بطن پر حضرت زید رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا جو انکو لینے کیلئے پہلے سے وہاں موجود تھے۔حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا جب مدینہ منورہ پہنچیں تو اسوقت تک ان کے شوہر حالتِ شرک میں تھے۔
جمادی الاول سنہ 6 ہجری میں ابوالعاص قریش کے ایک قافلہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی کو 170 سواروں کے ساتھ قافلے کے تعاقب میں بھیجا مقامِ عصیص پر کچھ لوگ گرفتار ہوئے اور مال و اسباب بھی ہاتھ آیا ابوالعاص وہاں سے نکل کر مدینہ پہنچے ان کو حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے پناہ دی اور ان کی شفارش سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کا مال بھی واپس کر دیا۔ ابوالعاص نے مکہ جا کر لوگوں کی امانتیں انہیں واپس کیں اور اسلام قبول کر نے کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت زینب کا دوبارہ نکاح ان کے ساتھ کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابوالعاص کے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ شریفانہ برتاو کی ہمیشہ تعریف کی۔
وفات
نکاح جدید کے بعد صرف دو سال کے عرصے تک حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا زندہ رہیں اور سنہ 8 ہجری میں انہوں نے وفات پائی۔ حضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت امِ عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے انہیں غسل دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر میں اتر کر اپنے نورِ دیدہ کو سپردِ خاک کیا اسوقت چہرہ مبارک پر غم کے آثار نمایاں تھے۔
اولاد
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی اولاد میں ایک بیٹی حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ایک بیٹے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ جو فتح مکہ میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نے جنہوں نے یرموک کے معرکہ میں شہادت پائی۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اپنے شوہر ابوالعاص سے بہت محبت کرتی تھیں۔
بشکریہ الارشاد
نام و نسب
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ بعثت سے دس برس پہلے پیدا ہوئیں
نکاح
ابوالعاص بن ربیع جو ان کے خالہ ذاد تھے ان سے انکا نکاح ہوا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو اہل و عیال مکہ میں رہ گئے تھے۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا اسوقت اپنے سسرال میں تھیں غزوہ بدر میں ابوالعاص کفار کی طرف سے شریک ہوئے اور گرفتار ہوئے۔ رہائی اس شرط پر ملی کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو مدینہ کی طرف روانہ کریں گے۔
ہجرتِ مدینہ
ابوالعاص نے مکہ جا کر حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کےساتھ مدینہ کی طرف روانہ کیا کفار سے لڑائی کا خوف تھا اس لئے کنانہ نے ہتھیار بھی ساتھ لے لیئے، مقامِ ذی طویٰ پر پہنچے تو قریش کے چند آدمیوں نے تعاقب کیا، ہبار بن اسود نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو نیزہ مار کر نیچے گرا دیا، کنانہ نے یہ دیکھ کر ترکش سے تیر نکالے اور کہا اب کوئی اگر قریب آیا تو ان تیروں کا نشانے بنے گا۔ لوگ پیچھے ہٹ گئے ابوسفیان سردارانِ قریش کے ساتھ آیا اور کہا کہ تیر روک لو ہم لوگ کچھ گفتگو کر لیں۔ انہوں نے تیر ترکش میں ڈال لیئے ابو سفیان نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھوں سے جو تکلیفیں ہم کو پہنچی ہیں اسکے بعد اگر تم انکی لڑکی کو اعلانیہ مکہ سے نکال کر مدینہ لے گئے تو لوگ ہمیں کمزور کہیں گے ۔ہمیں زینب رضی اللہ عنہا کو روکنے کی ضرورت نہیں جب ہنگامہ کم ہو جائے تو اس وقت انکو خفیہ طور پر لے جانا۔ چند روز کے بعد کنانہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو رات کے وقت لے کر روانہ ہوئے اور مقام بطن پر حضرت زید رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا جو انکو لینے کیلئے پہلے سے وہاں موجود تھے۔حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا جب مدینہ منورہ پہنچیں تو اسوقت تک ان کے شوہر حالتِ شرک میں تھے۔
جمادی الاول سنہ 6 ہجری میں ابوالعاص قریش کے ایک قافلہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی کو 170 سواروں کے ساتھ قافلے کے تعاقب میں بھیجا مقامِ عصیص پر کچھ لوگ گرفتار ہوئے اور مال و اسباب بھی ہاتھ آیا ابوالعاص وہاں سے نکل کر مدینہ پہنچے ان کو حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے پناہ دی اور ان کی شفارش سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کا مال بھی واپس کر دیا۔ ابوالعاص نے مکہ جا کر لوگوں کی امانتیں انہیں واپس کیں اور اسلام قبول کر نے کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت زینب کا دوبارہ نکاح ان کے ساتھ کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابوالعاص کے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ شریفانہ برتاو کی ہمیشہ تعریف کی۔
وفات
نکاح جدید کے بعد صرف دو سال کے عرصے تک حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا زندہ رہیں اور سنہ 8 ہجری میں انہوں نے وفات پائی۔ حضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت امِ عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے انہیں غسل دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر میں اتر کر اپنے نورِ دیدہ کو سپردِ خاک کیا اسوقت چہرہ مبارک پر غم کے آثار نمایاں تھے۔
اولاد
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی اولاد میں ایک بیٹی حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ایک بیٹے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ جو فتح مکہ میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نے جنہوں نے یرموک کے معرکہ میں شہادت پائی۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اپنے شوہر ابوالعاص سے بہت محبت کرتی تھیں۔
بشکریہ الارشاد