حضرت مولانا محمد فاروق الہ آبادی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانا محمدفاروق الہ آبادی​

ناصرالدین مظاہری
حضرت مولانامحمدفاروق الہ آبادی کون ہیں؟کیاہیں؟کیسے ہیں؟کچھ بھی نہیں معلوم تھااگرفقیہ الاسلام استاذناحضرت مولانامفتی مظفرحسین نوراللہ مرقدہ کی زبان فیض ترجمان سے آپؒکے متعلق خصوصی مجلسوں اورُروحانی محفلوں میں بلندوبالاکلمات اورمناقب نہ سنتا۔
مفتی صاحب کی مجلس میں جن صاحبان علم ودانش کو بیٹھنے کی سعادت ملی ہے،جنہیں آپؒ کی بزم میں اکتساب فیض کاموقع ملاہے،جن حضرات کواپنے افکارواذہان کی پراگندگی اورژولیدگی کوصیقل کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی ہے وہ گواہی دیں گے کہ حضرت مفتی صاحبؒکی مجلس میں جہاں اکابرعلماء وصلحاء کے تذکرے ہوتے تھے وہیں معاصرین کی خدمات اورقدردانی بھی پورے طورپرنظرآتی تھی۔
راقم آثم نے بارہاحضرت مفتی صاحبؒ کی زبانی حضرت مولانامحمدفاروقؒکاتذکرہ سنااورتواترکی حدتک ذکرخیرسے یہ اندازہ کرنے پرمجبورہواکہ شایدیہ بزرگ متقدمین میں سے ہوں گے یامظاہرعلوم کے ابتدائی زمانہ کے فارغین میں رہے ہوں گے۔لیکن جب میرے دوست مولانامفتی محمدنعیم سلمہ مظاہرعلوم میں پڑھنے کیلئے حاضرہوئے اوران سے علیک سلیک بڑھی توپتہ چلاکہ موصوف نہ صرف اُن ہی مولانا محمدفاروقؒ کے مدرسہ سے پڑھ کرآئے ہیں بلکہ مفتی صاحب کی عنایات ونوازشات،دعاؤں اورتوجہات سے مالامال بھی رہے ہیں،یہ تودنیاکااصول ہے کہ مریض کوجہاں کہیں فائدہ پہنچتاہے اس کاتذکرہ اورتعریف کرنے میں خودکومجبورپاتاہے،مفتی محمدنعیم کی بھی کیفیت کچھ ایسی ہی تھی،علاقائی،زبانی،معاشرتی اورتمدنی قربتوں نے ہم دونوں کوایک دوسرے سے مانوس کردیا،مفتی محمدنعیم بات بات پرمولانا کاتذکرہ کچھ ایسے عاشقانہ البیلے اندازمیں کرتے کہ سیکڑوں میل کے فاصلوں کے باوجودمولاناکی ذات میرے لئے اجنبی نہیں رہی، مولانااپنے چھوٹوںکے ساتھ کیامعاملہ فرماتے تھے،مولاناکی مجلس کاکیااندازہوتاتھا،مولانااپنے بڑوں کے ساتھ کیسارویہ اپناتے تھے،اکابرحضرات کی نظروں میں مولاناکی کیاوقعت وعظمت تھی،تھانہ بھون میں مولانانے کس انداز میں خدمت انجام دی،خانقاہ اشرفیہ تھانہ بھون ہویاخانقاہ شہ وصی اللہ الہ آباد،خانقاہ شیخ زکریامہاجرمدنی ہویاخانقاہ شہ اسعداللہ،خانقاہ شہ ابرارہویاخانقاہ حضرت صدیق،خانقاہ رائے بریلی ہویاخانقاہ پرتابگڑھ،خانقاہ پھول پور ہویاخانقاہ مظفرہرجگہ مولانامحمدفاروقؒیکساں شفقتوں اورمحبتوں کے ساتھ یادکئے جاتے تھے۔کہیں تومولاناکی صلاحیتوں کے تذکرے ہوتے تھے توکہیں آپ کی بلاغتوں کے چرچے،کہیں آپ کی حدیث دانی موضوع سخن بنتی توکہیں معقولات ومنقولات کی تعریفیں،کہیں آپ کی قلمی خدمات پربات ہوتی توکہیں دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں آپ کی خدادادبصیرت وفراست اوراحقاق حق زبان زدہوتی،کہیں آپ کاوعظ وتقریرمجلس کی زینت بنتی توکہیں آپ کا’’مدرسہ فاروقیہ‘‘ خیرکے ساتھ یادکیاجاتا،کہیں آپ کے ان بڑوں کاتذکرہ ہوتاجنہوں نے مولاناکی ذات کو’’کندن ‘‘بنایاتھااورکہیں مولاناکے ان شاگردان رشید کا ذکرخیر ہوتاجن کی تعلیم وتربیت پرمولانانے خصوصی توجہ اورذاتی دلچسپی کامعاملہ فرمایا۔غرض مولاناکی زندگی شبانہ روزمحنت ،نہ تھکنے والادماغ،حوصلہ مندعزم وعزیمت، پیکرصبروتحمل،تعلیم وتعلم،تزکیہ وتجلیہ،شفقت ومروت، عجزوانکساری، حلم وبردباری،تواضع وفنائیت،کم گوئی وگوشہ نشینی، خاکساری وللہیت، صلاحیت وصالحیت اوربصیرت وفراست سے عبارت تھی۔
درس نظامی پرمولاناکی گرفت مثالی اورمعیاری تھی،درس نظامی کی ہرکتاب مولاناکے لئے سہل اورآسان تھی،ادق وپیچیدہ موضوع، مشکل ابحاث و عبارات،عالمانہ وفاضلانہ استعارات وکنایات اورحل عبارات میں مولانااپنے اساتذہ کاعکس وپرتوتھے،کسی بھی مجلس میں مرعوبیت کے احساس سے بالاتر،کسی بھی اسٹیج پراپنی علمی جلالت وعظمت کے باعث بلندتر،مناظرانہ رزم اورعالمانہ بزم ہرجگہ آپ کی علمی جلوہ ریزی اورنکتہ سنجی یکساں طورپرجلوہ بکھیرتی نظرآتی تھی۔
وراثتوں کے جھگڑے،جانشینی کے رگڑے،مسندوکرسی کاحرص،منصب کالالچ،حب جاہ وحب مال کامرض ،اقتدارپرنظر،جلدسے جلدبڑابننے کاشوق،بڑابننے کے چکرمیں بڑوں کی تعلیمات ہی کو پس پشت ڈال دینے کی عادت چہارسونظرآرہی ہے،بڑے مدرسے ہوں یاچھوٹے مکاتب،دینی ادارے ہوں یاتحریکی جماعتیں،سیاسی میدان ہوسماجی تنظمیں ،کرسی واقتدارکے لئے کیاکچھ نہیں ہورہاہے،بڑے بڑوں نے دوسروں کی قبائے عظمت کواتارنے کے چکرمیںخوداپنی ردائے عصمت تارتارکرلی ہے لیکن یہ سب تباہ کاریاں تب ہی رونماہوتی ہیں جب ہمارادل اخلاص سے اورہمارافکرخوف خداسے خالی وعاری ہوجاتاہے۔چنانچہ کہنے والوں نے کہا
وہیں دست و گریباں پاؤگے اللہ والوں میں
جہاں ذکرخدا زائد ہے اور خوف خدا کم ہے
حضرت مولانامحمد علی مونگیریؒ ہوںـیاحضرت مولاناعبدالغنی بارہ بنکویؒ،حضرت مولاناشاہ محمدابرارالحق ہردوئی ؒہوں یاعارف باللہ حضرت مولاناقاری سیدصدیق احمدباندویؒ،حضرت مولاناعبدالحلیم جون پوریؒ ہوں یاحضرت مولاناقاری شریف احمدگنگوہیؒ ،حضرت مولانامحمدفاروق الہ آبادیؒ یاحضرت مولانا نذیر احمدؒ سیال کوٹی غرض ایک دونہیں متعددایسے حضرات ہیں جنہوں نے خودکنواں کھودکرپانی پینے کامزاج بنائے رکھا،دوسروں کی بیساکھیوں کے سہارے چلنے میں عاراوردوسروں کی خدمات اورکارناموں کواپنی جانب منسوب کرنے کوتوہین سمجھا۔
ہمارے حضرت مولانامحمدفاروق ؒکوان کے بڑوں نے جوسبق دیاتھا،پوری عمراسی کورٹنے اوردہرانے میں صرف کیا،اپنے آپ کوہرایسی جگہ سے بچائے رکھاجہاں سستی شہرت اورنام ونمودکاشائبہ گزرسکتاہے،حالانکہ ایسے لوگ اگرکسی بڑے ادارہ یااپنی مادرعلمی سے وابستہ ہوکرخدمت انجام دیتے توشایدان حضرات کافیض بیکراں مزیدعام ہوتالیکن یہ حضرات سمجھتے تھے کہ اپنے اساتذہ،اپنے بڑوں اوراپنی مادرعلمی کے لگے بندھے’’ اصولوں‘‘ اور’’مصلحتوں ‘‘میں گُھٹ کرانسان آزادی کے ساتھ نہ توکام کرسکتاہے اورنہ ہی وہاں کی تدریسی وتعلیمی زندگی میں ایسا ممکن ہے شایدیہی وجہ تھی کہ حضرت مولانامحمد علی مونگیریؒ نے ۱۲۹۳ھ میں مظاہرعلوم سے فارغ ہونے کے بعدمونگیراورلکھنؤکواپنی علمی وروحانی عظمتوں کامحوربنایا۔حضرت مولاناعبدالغنی بارہ بنکویؒ نے ۱۳۳۵ھ میں مظاہرعلوم سے فراغت وفضیلت کے بعدبارہ بنکی کواپنی توجہات کامرکزبنایا،حضرت مولانا نذیر احمد سیال کوٹی ؒنے ۱۳۶۰ھ میں سندفراغ کے حصول کے بعد مدرسہ اشرف العلوم رحیم یار خان (پاکستان )کووجودباجودسے نوازکرتشنگان علم وفن کو سیرابی وفیضیابی کاموقع عطاکیا، حضرت مولاناشاہ ابرارالحقؒنے ۱۳۵۶ھ میں مظاہرعلوم سے فراغت کے بعدکفروبدعت کے گڑھ ہردوئی میں اپنی خانقاہ سجائی توعارف باللہ حضرت مولاناقاری سیدصدیق احمدباندویؒنے ۱۳۶۳ھ میں مظاہرعلوم سے اکتساب فیض کے بعدمشرقی یوپی کے بالکل اخیرمیں جہاں اللہ تعالیٰ کے نام تک سے ناآشنامسلمانوں کی بڑی تعدادبسی ہوئی تھی،جہاں دین توکیادین کے نام اورمفہوم تک سے لوگ ناآشناتھے یعنی باندہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں علمی وروحانی ادارے کی بنیادرکھی اورگاؤں گاؤں جاکرخلق خداکادامن تھام تھام کرایک خداکی عبادت اورپرستش پرآمادہ کرکے صحیح مسلمان بنانے کاکلیدی کردارادافرمایا،حضرت مولاناقاری شریف ؒاحمدنے دیوبندسے فراغت وفضیلت کے بعدمدرسہ اشرف العلوم کے نام سے گنگوہ میں علمی چشمہ جاری کیاجہاں سے ہزاروں تشنگان علم وروحانیت فیض پارہے ہیں،ٹھیک یہی مثال حضرت مولانامحمدفاروقؒکی بھی ہے جنہوں نے ۱۳۶۵ھ میں مظاہر علوم سے فراغت پائی اورملت کے فکر،قوم کے درد،معاشرہ کی اصلاح،بدعت کے خاتمہ،کلام الہی کی اشاعت،توحیدکے غلغلہ،عقیدہ کی پختگی،جہالت وضلالت کے خاتمہ،اسلام کی ترویج اورآزادی کے ساتھ سنت نبویہ کی خوشبوبکھیرنے کی خاطرالہ آبادکے اس حلقہ اورحصہ کواپنی توجہات کامنبع ومعدن بنایاجہاں ایک طرف توبدعت وگمراہی اپنے شباب پرتھی توکفرکے گھنگھوربادل ہرسومنڈلاتے نظرآتے تھے،جہاں اسلام اوراسلامی تعلیمات کسی ایسے ہی پختہ کارمردحق آگاہ کی منتظرتھیں جواسلام کے بوڑھے شجرمیں تازگی ونموکی نئی روح پھونک سکے سواللہ کے فضل وکرم اوراس کی توفیقات سے مولانامحمدفاروقؒ اپنے مشن،اپنی تحریک اوراپنے کرداروعمل میں صدفیصدکامیابی وکامرانی کے ساتھ حیات مستعارکواللہ کی الوہیت اوررسول کی رسالت کی تبلیغ میں صرف کرکے چلے گئے۔
اولئک آبائی فجئنی بمثلم
اذا جمعتنا یا جریرالمجامع
جس طرح بناوٹ کے اصولوںسے حقائق پرپردہ ڈالناممکن نہیںہے ،جس طرح کاغذ کے پھولوں سے حقیقی خوشبوکاآنابعیدازعقل وقیاس ہے، جہاں خوشبودارپھول ہوگا،خوشبوکے متلاشی بھونرے ضرورآئیں گے،جہاں نوراورروشنی کی جگمگاہٹ ہوگی وہاں پتنگوں کاآنابھی ضروری ہے،جہاں چشمہ ہوگاوہاں پیاسے توآئیں گے ہی،سوتحصیل ہنڈیہ کادورافتادہ گاؤں ’’اُترؤں‘‘جوکل تک بدعت زدہ تھاآج سنتوں کی خوشبوسے معطراورمعنبرہے،وہی گاؤں جہاں کل تک خودمولاناضیق محسوس کرتے تھے آج بدعت وضلالت ہی ضیق محسوس کرنے پرمجبورہے،کل تک جس گاؤں میں دیوبندی عالم یامسلک حق کے ترجمان کابولنابھی جرم تصورکیاجاتاتھامگرآج اسی گاؤں میں’’مدرسہ فاروقیہ‘‘نامی ادارہ دین اوردیوبندیت کاعظیم مرکزبناہواہے۔
مولانانے اس گاؤں سے اپنی تحریک کی شروعات کرکے یہ ثابت کردیاکہ مردان حرکے لئے وسائل کافقدان کوئی معنیٰ نہیں رکھتا،عزم اورعزیمت کے خوگروں کے لئے ساحل کی دوری ،موجوں کاتموج،پہاڑوں کی رکاوٹیں،موسموں کاتغیراورماحول کی کثافت کوئی بھی چیزحقیقی رکاوٹ نہیں بن سکتی، جن صالحین کامزاج ہی قصرسلطانی پرنشیمن اوررین بسیرابنانے کے بجائے پہاڑوں اورپربیج وادیوں میں خیمہ زن ہونے کاہوتوایسے لوگ اپنے مضبوط کرداراورپختہ عزائم کی بدولت حالات کے رخ اورطوفانوں کی جہتیں بدل دیاکرتے ہیں ، حضرت مولانامحمدفاروقؒ کی کیامخالفتیں نہیں کی گئیں،مخالفین نے مخالفتوں کے ایک سے ایک طوفان پیداکرنے کی ناکام کوششیں کیںلیکن حضرت مولاناہرحال میں یہ کہتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔
مصائب میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
مجھے ناکامیوں پراشک افشانی نہیں آتی
خودحضرت مولانامحمدفاروق ؒنے اس وقت کے حالات کاتذکرہ کرتے ہوئے تحریرفرمایاہے کہ
’’۱۹۴۷ئ؁ میںجب بندہ نے مظاہر علوم سے دورہ حدیث پاک سے فارغ ہوکر وطن میںسکونت اختیار کی اس وقت ملک کے حالات نہایت ابتر تھے پورا ملک تقسیم کے نتیجے میں فسادکی لپیٹ میں تھا ہر طرف کشت وخون کا بازار گرم تھا ،نہایت ہی بد امنی اورافراتفری کا عالم تھا ،اہل باطل ایسے وقت کی تاک میں رہتے ہیں ،چنانچہ گاؤںگاؤں،قصبہ قصبہ عیسائی مشن کی طرف سے ہندوستان میں پادری پھیل گئے اوراپنے مذہب کی تبلیغ شروع کردی ،اس سلسلہ میں قصبہ ہنڈیہ ،قصبہ پھولپوراورقصبہ بادشاہ پورشہر الہ آبادمیں بھی پادریوںکی جماعتیں ڈیرے ڈال کرتبلیغی سرگرمیوںمیں مصروف ہوگئیں۔عوام مسلمانوں میں بھی اس کا چرچاہونے لگا ،بندہ کم عمر، ناتجر بہ کارعلی الخصوص عیسائی مذہب کی معلومات سے عاری تھا ،مگر بمنہ وکرمہ تعالیٰ دینی ومذہبی غیرت وحمیت کاجذبہ اورجوش دل میں موجزن تھا ،ٹوٹی پھوٹی تقریربھی کرلیتا تھا،لہٰذاجابجاگاؤںاورقصبات میں پہنچ کرمذہب اسلام کی اہمیت اورخوبیاںبیان کرتانیز پیغمبر اسلام کی سیرۃ مقدسہ پرروشنی ڈالتا تھا پادری صاحبان تو جلدہی اپنے پروگرام کے مطابق جا چکے تھے‘‘ ۔(صداقت رسالت محمد یہ ص۱و۲)
آپ کبھی بھی حالات سے بددل نہیں ہوئے،کبھی کمرہمت نہیں ہاری،کبھی پیٹھ نہیں پھیری،کبھی خواہ مخواہ کی مصلتحوں کاشکارنہیں ہوئے، کبھی بدعت وضلالت سے سمجھوتہ نہیں کیا،کبھی اپنے فکراورنظریہ میں لوچ اورنرمی پیدانہیں ہونے دی،کبھی مداہنت فی الدین سے کام نہیں لیا،حق بات کابرملااظہارآپ کی طبیعت ثانیہ تھی،حقائق کاتسلیم کرلیناآپ کی عادت شریفہ تھی،وسائل کی قلت،مسائل کی کثرت ،معاش کی تنگی سب کچھ کے باجودآپ کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی،تقریروقلم،زبان وبیان،تصنیف وتالیف،درس وتدریس، وعظ ومناظرہ،انتظام وانصرام،مدرسہ وخانقاہ اورپھرگھریلوضروریات کی مکمل ذمہ داریوں کے باوجودآپ کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت ودیعت فرمائی تھی ،آپ مہینوںکاکام ہفتوں میں اورہفتوں کاکام دنوں میں نمٹالیتے تھے،سادگی اورعاجزی نے آپ کے خفیہ جوہرکوکھلنے کاموقع نہیں دیا،آپ چھوٹوں کااحترام بھی اسی طرح کرتے تھے جیسے اپنے بڑوں کاکرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ چھوٹاہویابڑا،عالم ہویاداعی،خطیب ہویا مصنف،مصلح ہویامنتظم، مفکرہویافقیہ سبھی طبقات میں مولاناکی عظمت وعزت کی یکسانیت قابل دیداورلائق شنیدتھی۔
آپ کی مجلس میں علمی رنگ جھلکتاتھاتوگھریلوزندگی میں شفقت وکرم نوازی اپنے عروج پرنظرآتی تھی،مدرسہ کی چہاردیواری میں آپ بہترین منتظم تھے تواساتذہ اورعلماء کے لئے آپ کے دل میں ان کی قدرومنزلت کے کنول کھلتے محسوس ہوتے تھے،منبرومحراب اورتقریرومناظرہ کی نوبت آتی تومخالف کے حق میں شمشیربے نیام تھے،بڑوں میں چھوٹے اورچھوٹوں میں بڑے غرض ہرماحول میں آپ کی مقبولیت اورعظمت بدرجہ اتم تھی۔شایدکسی نے ایسی ہی شخصیتوں کی طرف اپنے اس شعرمیں اشارہ کیاہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
بہترسمجھتاہوں کہ نامورصاحب علم وقلم حضرت مولانامحمداعجازاعظمی مدظلہ کی کتاب’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘سے بطورنمونہ ایک اقتباس نقل کرتا چلوں جس سے اندازہ ہوگاکہ ایک بڑے صاحب علم کی نظرمیں دوسرے بڑے صاحب علم کی کیاحیثیت تھی،مولانالکھتے ہیں۔
’’مولانا کا شماران علمائے راسخین فی العلم میں ہے جو کھرے کھوٹے کی پرکھ بخوبی رکھتے ہیں جو کسی نظرئے یا کسی شخص کی شہرت عام سے متاثرنہیں ہوتے جب تک کہ تاثر کیلئے دلیل وبرہان کی روشنی نہ ہو نہ کسی حب مال وجاہ کے دباؤمیںوہ غلط کو صحیح کہہ سکتے تھے نہ کسی عمل کی صرف ظاہری افادیت کو دیکھ کر یا اس لئے کہ بہت سے لوگ اس میںشامل ہیں اسے قبول کرتے بلکہ وہ یہ دیکھتے تھے کہ قرآن وسنت سے یا قرآن سے مستنبط اصول وقواعدصحیحہ سے یا ائمہ وفقہاء کی تصریحات سے اس کا ثبوت ملتا ہے یا نہیں اوراگر ملتا ہے تو اس عمل کا کیادرجہ ہے ؟ ان سب باتوں پروہ بہت گہری نظر رکھتے تھے اسی لئے ہمارے دور میں جو دین وشریعت کے نام پر بھانت بھانت کی ٹولیاںبن رہی ہیں ،مختلف نظرئے ایجاد ہورہے ہیںاورہر ٹولی اورہر نظریہ اپنی پشت پر وقت کی مصلحتوں اور زمانے کے تقاضوں کا ایک انباررکھتاہے، ظاہری نظروالے اس سے متاثربھی ہوتے ہیںمگر مولانا محمدفاروق صاحبؒ ان کو شریعت اوراصول شریعت کی معیار پر پرکھتے تھے اگر اس پر کوئی نظریہ وعمل پورا اُترتاتو اعتراف میں بخل نہیں کرتے تھے اوراگر پور ا نہیں اترتا تو اس کا شرعی حکم بلا خوف ملامت گراںظاہر کردیتے تھے، اس سلسلے میںبعض اوقات انہیںبہت سی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا مگر جو کچھ انہوں نے حق جانا اس کے اظہار میں کسی فرد یا کسی جماعت کا خوف نہیں کھایا ۔‘‘(کھوئے ہوؤں کی جستجو)
عموماً دیکھنے میں آیاہے کہ انتظامی امورمیں مصروف لوگ تصنیف وتالیف اوردرس وتدریس کے میدان میں کوئی قابل ذکرخدمات انجام نہیں دے پاتے ہیں لیکن حضرت مولانامحمدفاروقؒکی حیات مبارکہ یہاں بھی شش جہت بلکہ ہمہ جہت نظرآتی ہے،آپ نے جوکتابیں تصنیف فرمائی ہیں وہ دورحاضرکے عام مصنفین کی طرح محض خانہ پری اورسرسری نہیں بلکہ مآخذومظان کے اعتبارسے خوداس لائق ہیں کہ دوسرے صاحبان علم وقلم آپ کی کتابوں کے حوالہ جات لکھنے پر خودکومحبورپائیں،حدیث افک پرآپ کی لکھی ہوئی کتاب اتنی معیاری، علمی،تحقیقی اورمدلل ہے کہ شایداس موضوع پراردوزبان میں اس سے معیاری کوئی کتاب دستیاب نہیں ہے ۔
تبلیغی جماعت سے ہمیں نہ توکوئی اعتراض ہے اورنہ ہی بیر،اس جماعت کی خدمات کے جلی نقش ونقوش چہاردانگ میں صاحبان بصیرت محسوس کرسکتے ہیں،البتہ جہال کے ہاتھوں میں اس کی قیادت سے کچھ ایسی خامیاں اورکوتاہیاں پیداہوگئی ہیں جواس جماعت کیلئے موجب تشویش ہیں ،صاحبان ادارک نے بہت پہلے ان خامیوں کومحسوس کرلیاتھالیکن ان خامیوںکوزبان پرلانے میں خداجانے کتنی زبانیں گنگ ہوگئیں،کتنے قلم خشک ہوگئے ،کتنے ضمیرنے حالات سے سمجھوتہ کرلیا،کتنی سچائیاں اورصداقتیں ان کے ساتھ دفن ہوگئیں وہ کام جوبہت پہلے ہوجاناچاہئے تھا،امت کی اصلاح کاوہ پہلوجس پرخصوصی توجہ دینے کی ضرورت تھی افسوس کہ مصلحتوں کے جال نے ’’نہی عن المنکر‘‘ کے اس فریضہ سے امت کومحروم کئے رکھا،کچھ حضرات نے نکیربھی کی تووہ نکیر’’نقارخانہ میں طوطی کی آواز‘‘ثابت ہوئی،بعض مصلحین نے چاہاکہ اس سلسلہ میں آوازبلندکریں لیکن انہوں نے بھی خاموش رہنے میں عافیت محسوس کی …حضرت مولانامحمدفاروقؒجن کی زندگی کا مشن اورتحریک ہی یہ تھی کہ حق کابول بالاہو،حق اپنی پوری عظمت ووقارکے ساتھ معاشرہ کاحصہ بن جائے،پوری قوم حق اورحقانیت کی دلدادہ ہوجائے،امت میں حق بات تسلیم کرلینے کامزاج پیداہوجائے،مصلحتوں کے عفریت سے ہماری نسل نکل کراحقاق حق کی خاطرسردھڑکی بازی لگادے ،اس مزاج اوراس مشن کے زیادہ لوگوں کوتواحقرنے نہیں دیکھالیکن جن کودیکھاان میں چندنام جوپوروں پرنہیں انگلیوں پرگناسکتاہوں ان میں محی السنۃ حضرت مولاناشاہ ابرارالحق ؒہردوئی،ترجمان ِحق حضرت مولانامفتی عبدالقدوس رومیؒ،غازی اسلام حضرت مولانانسیم احمدغازی مظاہری اورحضرت مولانا محمدفاروق الہ آبادیؒخصوصیت کے ساتھ لائق ہیں جن کے شبانہ روز کااکثروقت اوران کی دُھن اوردَھن کاوقیع حصہ احقاق حق میں گزرتاتھا۔چنانچہ تبلیغی جماعت کی اصلاح کے عزم وارادہ کولے کرحضرت مولانا محمدفاروقؒنے پہلے ’’مروجہ تبلیغی جماعت کاشرعی حکم‘‘ نامی کتابچہ لکھا اورپھراسی کتابچہ کومفصلاً’’الکلام البلیغ فی احکام التبلیغ‘‘ نامی کتاب تصنیف فرمائی جواپنے موضوع پرایک مکمل اورمستندکتاب ہے،حضرت مولانانے اصولی نقطۂ نظرسے اس جماعت میں دَرآنے والی کمیوں اورخامیوں کی نشاندہی کرکے امت کوصحیح راہ دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔
اِس کے علاوہ بھی آپ کی درجنوں علمی وتحقیقی کتابیں صاحبا ن علم وفن کودعوت مطالعہ دینے کیلئے مطبوعہ موجود ہیں اوردرجنوں کتابیں ہنوزپردۂ خفامیں رہنے کی وجہ سے اہل علم کواُن کے وارثین ومتعلقین سے خفاہونے کاموقع فراہم کررہی ہیں۔
جس طرح حضرت مولانامحمدفاروقؒتصنیف وتالیف اورقرطاس وقلم کے بہترین شہسوارتھے اسی طرح ان کے گہربارقلم سے کبھی کبھی نعت ومنقبت پرمشتمل کچھ ایسے اشعاربھی نکلے ہیں جن میں عشق حقیقی کی جھلک ،عشق نبوی کی تڑپ اورعشق مرشدکی کسک بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے لیکن مولانانے نظم ونعت کواپنامشغلہ نہیں بنایااگرکبھی اشعارواردہوئے تونوک قلم پرآکرزیبِ قرطاس کردئے ورنہ آپ کااصل میدان دعوت وتبلیغ،وعظ وارشاد،درس وتدریس اورصلاح واصلاح رہا،آپ کے دل کی گرماہٹ،آپ کے فکرکی نرماہٹ،آپ کے جذب اورسوزوسازنے الحمدللہ ایک طرف تومخالفین کی تحریک کوسبوتاژکیاہے تودوسری طرف آپ کی مدلل تحریروں نے باطل کوازسرنوسوچنے پرمجبورکردیاہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانامحمدفاروق نوراللہ مرقدہ کوجنت الفردوس میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاقرب عطافرمائے اوران کی تحریک ، ان کے علمی کارناموں اوراحقاق حق کے سلسلہ کوآپ ہی جیسے مردان حق کیش وحق کوش عطافرمائے تاکہ چراغوں سے چراغ جلتے رہیں،نورکابول بالارہے ،حق کوفتح وکامرانی نصیب ہو اورباطل کل کی طرح آج اورآج کی طرح کل بھی ذلیل وخوارہوتارہے اورمسلمان یہ آیت کریمہ گنگناتارہے جاء الحق وذھق الباطل ان الباطل کان ذھوقا۔
۱۵؍صفر۱۴۲۱ھ؁ مطابق ۲۳مئی ۲۰۰۰ئ؁کو آپ نے ہمیشہ کے لئے آنکھیں موندلیں۔اناللہ واناالیہ راجعون​
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
ماشآء اللہ۔
محترم مظاہری صاحب! آپ نے حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیعت وطریقت پر روشنی نہیں ڈالی کہ کن سے اصلاحی تعلق رہا؟
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بصیرت آموز مضمون پر شکریہ۔
جن اکابرین ا کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں کچھ شخصیات سے واقفیت ہے ۔حضرت مولانا اعجاز اعظمی دامت برکاتہم مربی واستاذہیں۔مولانا عبد الحلیم جون پوری رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے ماموں مولانا حنیف صاحب بستوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہمارے پورے خاندان ہی پر ہی نہیں پورے قصبے پر احسان عظیم ہے ۔
ہمیں بھی تبلیغی جماعت سے کچھ بیر نہیں۔اس گئے گزرے دور میں مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا جلایا چراغ ہی پوری قوت کے ساتھ شرق وغرب میں روشن ہے البتہ ان خامیوں وخرابیوں سے بھی فرار ناممکن ہے جو چور دروازوں سے در آئی ہیں۔واقعی حضرت مولانا فاروق رحمۃ اللہ علیہ بڑے ہی دل گردے کے آدمی تھے ۔جہاں بڑے بڑے مصلحت کی چادر اوڑہ لیتے ہیں۔ الکلام البلیغ فی احکام التبلیغ‘‘ نامی کتاب تصنیف فرماکر ثابت کر دیا حق گوئی وبیباکی جماعت دیوبند کا ہی طرہ امتیاز ہے ۔اللہ مولانا کو غریق رحمت فر مائے ۔تمنا ہے کاش یہ کتاب الغزالی ڈیجیٹل لائبریری کی زینت بنے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
فقیہ العصر مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اور فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی عبدالشکور ترمذی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی تبلیغی جماعت میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے متعلق بہت اہم کتابیں لکھیں، پڑھنے کے لائق ہیں۔
افسوس! آج ہمارے ہاں ایسی جہالت پیدا ہو چکی ہے کہ ایسے علماء کو تبلیغی جماعت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ملفوظات میں ہے آپ نے فرمایا کہ علماء کے پاس سیکھنے جائیں نہ کہ سکھانے جائیں، اور علمائے کرام کو اس جماعت پر نظر رکھنے کو فرمایا تاکہ کوئی خرابی نہ پیدا ہو جائے، کیونکہ اس میں زیادہ تر طبقہ عوام الناس کا ہوتا ہے۔
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
مفتی ناصرمظاہری نے کہا ہے:
حضرت مولاناشاہ محمدوصی اللہ الہ آبادی خلیفہ حضرت تھانوی سے
حضرت مفتی صاحب ! صلاحی تعلق کا تزکرہ بھی ضرور کیا کریں ۔ شکریہ
اور مضمون شئیر فرمانے پر بہت بہت شکریہ ۔ جزاک اللہ خیرا
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
یارنبیل بھائی!اصلاحی تعلق کے تذکرہ کے بغیربھی کام چلالیاکرو۔اب جوشخص خودمصلح ہو،اس سے عوام الناس کودینی نفع پہنچ رہاہوں اس کوکیاپڑی ہے کہ وہ پوچھتاپھرے کہ جناب عالی آپ کاکس سے اصلاحی تعلق ہے؟آپ بتائیں کہ آپ کاکس سے تعلق ہے اگرکسی سے نہ ہواہوتوپھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آگے میں کچھ نہیں کہتاارمغان صاحب خودہی جواب باصواب عنایت فرماکرشکرگزارفرمائیں گے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
محترم مظاہری صاحب! آپ کے آگے احقر کچھ بھی نہیں، ایک بات عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مِری زندگی کا حاصل مِری زیست کا سہارا
تِرے عاشقوں میں جینا تِرے عاشقوں میں مَرنا
مجھے کچھ خبر نہیں تھی تِرا دَرد کیا ہے یا رَب
تِرے عاشقوں سے سیکھا تِرے سنگِ دَر پہ مَرنا​
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
مظاہری صاحب ارمغان بھائی اور میری طرف سے بھی آپ کی نظر

مِری زندگی کا حاصل مِری زیست کا سہارا
تِرے عاشقوں میں جینا تِرے عاشقوں میں مَرنا
مجھے کچھ خبر نہیں تھی تِرا دَرد کیا ہے یا رَب
تِرے عاشقوں سے سیکھا تِرے سنگِ دَر پہ مَرنا
 
Top