ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک بہترین سلسلہ شروع کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں
وہ ہے جمیع ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اجمعین کی سوانح حیات اور پاکیزہ سیرت
ان شاء اللہ تھوڑے ہی دنوں میں جمیع امھات المؤمنین کی پاکیزہ زندگی کےمتعلق تمام مضامین پیش کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا
نام ونسب
خدیجہ نام ام ہند کنیت طاہرہ لقب سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے
خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ،قصی پر پہنچ کر آپ کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سےمل جاتاہے۔
والدہ کانام فاطمہ بنت زائدہ تھااورلوی بن بن غالب کے دوسرےبیٹے عامر کی اولاد تھیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والداپنے قبیلے میں نہایت معززشخص تھےمکہ آکر اقامت کی عبدالدارابن قصی کے جو ان کے چچا کے بیٹے تھےحلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی جن کے بطن سے عام الفیل سے ۱۵ سال قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پیداہوئی(بحوالہ طبقات ابن سعدج۸ ص ۸،۱۰)
سن شعور کو پہنچیں تواپنے پاکیزہ اخلاق کی بناپرطاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں(بحوالہ۔اصابہ ج ۸ ص ۶۰)
نکاح اول
باپ نے ان صفات کا لحاظ رکھ کر شادی کے لیے ورقہ بن نوفل کو جو برادرزادہ اور تورات وانجیل کےبہت بڑے عالم تھے منتخب کیا ۔لیکن پھر کسی وجہ سے یہ نسبت نہیں ہوسکیاور ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے نکاح ہوگیا
(بحوالہ۔استیعاب ج ۲ ص ۳۷۵)
ابو ہالہ کے بعدعتیق بن عابدمخزومی کے عقد نکاح میں آئیں۔
اسی زمانہ میں حرب الفجار(جنگ)چھڑی جس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد لڑائی کے لیے نکلےاور مارے گئے
(بحوالہ۔طبقات ج۸ ص ۹)یہ عام الفیل سے 20 سال بعد کا واقعہ ہے
۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آنحضرت ﷺ کے عقد نکاح میں
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی دولت وثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کو اپنا گرویدہ بنالیا تھااور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں تھالیکن کارکنان قضاوقدر کی نگاہ انتخاب کسی اورپر پڑ چکی تھی۔آنحضرت ﷺ مال تجارت لیکر ملک شام سے واپس آئے توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانےشادی کا پیغام بھیجا۔نفیسہ بنت مینہ (یعلی بن امیہ کی ہمشیرہ )اس خدمت پر مامور ہوئی۔آپﷺ نے منظور فرمایا(بحوالہ۔طبقات ج ۱۔ص ۸۴)
اور شادی کی تاریخ مقررہوگئی ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد محترم اگرچہ وفات پاچکے تھے تاہم ان کے چچاعمروبن اسد زندہ تھےعرب میں عورتوں کویہ آزادی حاصل تھی کہ شادی بیاہ کے متعلق خود گفتگوکرسکتی تھیں۔اسی بناپر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے چچا کے ہوتے ہوئےبراہ راست تمام مراتب ومراسم طے کیے۔
معین تاریخ پر حضرت خواجہ ابوطالب اور تمام رؤسائے خاندان جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لیکر آئےحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع کیا تھاحضرت خواجہ ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھاعمروبن اسد کے مشورے سے۵۰۰ سوطلائی درہم مہرقرار پایااور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حرم نبوت ہوکرام المؤمنین کے شرف سے ممتاز ہوئیں۔
اس وقت آنحضرت ﷺ ۲۵ سال کے تھےاورحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر۴۰ سال تھی یہ بعثت سے ۱۵ سال پہلے کا واقعہ ہے
(بحوالہ۔صحیح بخاری ج ۱ص ۲،۳)
۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اسلام قبول کرنا
۱۵ برس کے بعد جب آنحضرت ﷺ پیغمبر ہوئےاور فرائض نبوت کواداکرناچاہاتوسب سے پہلے حضرت حدیجہ رضی اللہ عنہاکو یہ پیغام سنایاوہ سننے سے پہلے مؤمن تھیں،،سبحان اللہ۔۔کیونکہ ان سے زیادہ آپﷺ صدق دعوی کاکوئی شخص فیصلہ نہیں کرسکتاتھا۔(بحوالہ۔صحیح بخاری ج۱ باب بدء الوحی)
اولاد
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہت سی اولاد ہوئی ابوہالہ سے جوان کے پہلے شوہر تھےدوبچے پیداہوئےجن کے نام ہالہ اور ہندتھے ۔دوسرے شوہریعنی عتیق سے ایک لڑکی پیداہوئی آنحضرت ﷺسے چھ اولادیں ہوئیںدوصاحبزادےجو بچپن میں انتقال کرگئےاور چار صاحبزادیاں سب کے نام درج ذیل ہیں
(۱)حضرت قاسم رضی اللہ عنہ ۔یہ آنحضرت ﷺ کے سب سے بڑے بیٹے تھےان ہی کے نام پرآپ ﷺکی کنیت ابو القاسم ہے
وہ صغر سنی میں ہی انتقال کرگئے جب بمشکل چلنا شروع ہوئے تھے
(۲)حضرت زینب رضی اللہ عنہا یہ آپ ﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں
(۳)حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ انھوں نے نہایت کم عمر پائی ۔یہ چونکہ زمانہ نبوت میں پیداہوئے تھےاس لیے طیب اورطاہرکے لقب سے مشہورہوئے
(۴)حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
(۵)حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا
(۶)حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا
(بحوالہ۔طبقات ابن سعد ج۸ص۱۱)
۔
وفات
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد۲۵ برس تک زندہ رہیں
اور۱۱ رمضان ۱۰ نبوی اور ہجرت سے تین سال قبل۶۴ سال ۶ ماہ کی عمر میں اس فانی دنیا سے رخصت ہوکرعقبی کی طرف رخت سفر باندھ کر مالک حقیقی سے جاملیں
(بحوالہ۔بخاری ج۱ص۵۵۱)
چونکہ نماز جنازہ اس وقت تک تک مشروع نہیں ہوئی تھی اس لیےان کی لاش اسی طرح دفن کردی گئی۔
آنحضرت ﷺ خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کوداعی اجل کے سپرد کردیا
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی قبرجحون میں ہے اور مرجع خلائق ہے
(بحوالہ۔طبقات ابن سعد ج ۸ ص ۱۱

بشکریہ اردونامہ
 
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
اللہ کرے زورقلم اور ہو زیادہ
شکریہ
 
Top