حضرت مولانا محمد فاروق الہ آبادی(1)

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانا محمد فاروق الہ آبادی
مولانااعجاز احمداعظمی
1
زندگی کی کتنی یادیں اورکتنی تاریخیں ہیں جو الہ آبادسے وابستہ ہیں ، الہ آباد میں میرے قیا م کی مدت صرف چار سال تھی ،لیکن مدت خواہ کتنی ہی قلیل ہو چونکہ اس کا دامن ایک عظیم بزرگ ،وقت کے بڑے شیخ طریقت اور ایک بلند پایہ صاحب نسبت شخصیت سے وابستہ ہے ،اس لئے اس کا ہر لمحہ کسی نہ کسی متاع گرانمایہ سے مالامال ہے ،وہاں رہ کر علم وکمال کی ایک ایسی دنیا کاانکشاف ہوا ،جہاں شہرت وناموری کے تمام اسباب موجود تھے ،اگر اس دنیا کے رہنے والے ہر شہرت اورہر ناموری سے بے نیازاپنے اپنے حلقے میں خاموشی سے اپنے استاذ کا پڑھایا ہوا سبق دہرارہے تھے ،انہیں اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ دنیا نے انہیں جانایا ان سے انجان رہی ،وہ جس کی خدمت کررہے تھے بس یہ کافی تھا کہ ان کے آقاومخدوم کو ا ن کی خدمت کی خبر ہے استاذ ان کا کامل تھا ،جو سبق استاذنے پڑھادیا تھا اسے انہوں نے لوح قلب سے مٹنے نہیں دیا،ان سے میرا تعارف ہوا میں ان کیلئے اجنبی تھا مگر انہوں بڑی محبت سے خیر مقدم کیا وہ بہت کچھ تھے مگر ہمیشہ یہی کہتے رہے اور یہی سمجھتے رہے کہ وہ کچھ نہیں ہیں اوراگر کسی نے ان کے اندر کچھ دیکھ لیا تو یہ کہہ کر ٹال گئے کہ یہ استاذکا فیضان نظر ہے ،شیخ کی چشمِ التفات ہے ۔ ع۔ وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم (میں وہی مشت خاک ہوں جو کہ ہوں)
اورجو کچھ نہیں تھا اسے مجلس میں صدر مقام پر بٹھانے کی کوشش کی اوراس کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جیسے وہ کوئی حیثیت رکھتا ہو ،استاذ نے ان کے خمیرمیں خاکساری اورتواضع کو ایسا گوندھ دیا تھا کہ جو بھی ان کے سامنے آیا اپنے کو اس سے پست دیکھا ،حالانکہ وہ بلند تھے ،بہت بلند تھے ۔
آپ نے پہچانا یہ استاذ کون تھا ؟شیخ کا نام نامی کیا تھا ؟میںبتاؤں،وہ عارف باللہ مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ نوراللہ مرقدہ تھے جو اصلاً تو ضلع مئو کے ایک گاؤں فتح پورتال نرجا کے رہنے والے تھے اورزندگی کا بڑا عرصہ وہیں بسر کیا تھا مگر اخیر میں کچھ حالات ایسے آئے کہ پہلے گورکھ پورپھر اس کے بعدالہ آباد تشریف لے گئے ،الہ آبادمیں مدرسہ کا سامان ہوا ،خانقاہ آباد ہوئی ،ان کی وفات کے دس سال کے ان کے مدرسے میں بسلسلۂ تدریس میری حاضری ہوئی ،خانقاہ میں حضرت سے تعلق رکھنے والے بکثرت علماء اورصلحاء تشریف لاتے رہتے تھے ان سے میں اپنی بساط اوراستعداد کے لحاظ سے ملتا رہتا ۔ان کا ایک خاص اندازہوتا ، خاص رنگ ہوتا ،چہرہ پر ذکر کانور،گفتگومیں نرمی ،آنکھوں میں نمی ،چال ڈھال میں تواضع ومسکن ،لباس کی ایک خاص تراش وخراش ،جس سے دل کی صالحیت ٹپکتی ،ان میں سے بعض لوگوں سے ایک دو ملاقات ہی رہی ، بعضوں سے بار بار ملتارہا ۔بعض حضرات کے ساتھ مسلسل رہنا ہوا ۔حضرت مولانا قاری مبین صاحب ،مولانا عبد الرحمن جامی ، مولانا قاری حبیب احمد الہ آبادی ،مولانا انوار احمدکوپا گنجی ،محمد انیس ندوہ سرائے ، جمیل بھائی جانپوری، انیس بھائی الہ آبادی ،داروغہ مشتاق احمد کلہاپوری اوربہت سے دوسرے حضرات ! کچھ مرحوم ہوچکے ،کچھ کمر باندھے تیار بیٹھے ہیں ،کچھ سلامت باکرامت ہیں ،مولانا عبد الرحمن جامی ؒ کا تذکرہ میں نے لکھا ہے اس میں دو تین بزرگوںکا اختصارسے ذکر کیا ہے ۔
انہیں بزرگوں میں جن سے میں بہت متاثر ہوا اوران کی عظمت کو دل نے بے تکلف قبول کیا ،ایک بزرگ حضرت مولانا محمد فاروق تھے ،اتراؤں ضلع الہ آبادکے رہنے والے بھاری بھر کم اوربہت ٹھوس بدن ، رنگ سانولا، داڑھی سفید،ہاتھ میں موٹاساعصا،رفتارمیںقوت بھی اورتواضع بھی ،نیچی نگاہیں ،نرم دم گفتگو،گرم جستجو،سر چھوٹا مگر حافظہ کی قوت بے نظیر،علوم کا ایک خزانہ افضل وکمال میں بلندمرتبہ مگر ملتے تو ساری بڑائیاں خاکسار ی کی چادرمیں اس طر ح سمیٹ دیتے کہ ملنے والے کو احساس بھی نہ ہوتاکہ اس خاک کے پردے میں کیا کیا جلوہ گری ہے ۔
مجھے یادنہیں ہے کہ میری پہلی ملاقات کب اورکس ماحول میں ہوئی !ہا ں اتنا یاد ہے کہ جب ان کی آمد خانقاہ میں ہوئی تو ہرطرف چرچاہوا مولوی فاروق صاحب آئے ،یہ چرچامحبت کے ساتھ تھا ،خوشی کے ساتھ تھا جو دلچسپی اوردلی لگاؤ ترجمان تھا میں بھی ملا مگر وہی خاکساری کی چادرحائل رہی ،مگر پھر با ر بار ان کا آنا ہوتا رہا میں نے دیکھا کہ خانقاہ کے سب چھوٹے بڑے ان سے محبت رکھتے ہیں ان کا احترام کرتے ہیں میں بھی کچھ دیران کی خدمت میں بیٹھنے لگا ان کی باتیں سننے لگا مجھے محسوس ہوا کہ کہ سادگی کے اس پیکرمیں ذہانت وذکاوت ، استحضاروقوت حفظ اورعلم ومعلومات کا یہ ایک گنجینہ ہیں ۔میں بہ نیت استفادہ ان کی گفتگوسنتااورعلم میں اضافہ ہوتا ، ان کی گفتگوسے اندازہ ہوا کہ ان کا مطالعہ وسیع بھی ہے اورعمیق بھی !لیکن اس وسعت کے دائرے میں کوئی کتاب تیسرے درجہ کی نہیں ،وہ ہمیشہ معتبر اوربلند پایہ اصحاب تصنیف کی کتابیں اپنے مطالعہ میں رکھتے ،دوسرے درجہ کی بھی شاذ ونادرہی کوئی کتاب ان کے حریم مطالعہ میں بار پاتی ہے اورگہرائی کایہ حال تھا کہ ہر بات کی تہ میں اتر جاتے اوراس ہر تہ کے آثاررمضمرات کو اپنی گرفت میں لے لیتے ،اس لئے ان کی ہلکی پھلکی گفتگوبھی عالمانہ ہوتی ،پھر میں دیر دیر تک ان کی خدمت می بیٹھنے لگا ۔اوروہ اپنے نطق وتکلم سے معلومات میں اضافہ اوردل میں جلا پیدا کرتے رہتے


جاری​
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانا محمد فاروق الہ آبادی
مولانااعجاز احمداعظمی
2

میں ان کے سامنے طفل مکتب تھا ،علم و ذہانت سے نہ اس وقت بہرہ ور تھا اورنہ اب تک اس کی بوپاسکا ہوں، لیکن گفتگومیں کبھی ان سے اختلاف بھی کر لیتا ،بڑے غضب کا حوصلہ تھا ان کا !بہت غورسے اختلاف کو سنتے ، پورے اطمینان سے اس کو سمجھتے ،اگر اس میں واقعیت ہوتی ،تو بے تکلف قبول کرتے ،ان کے مرتبہ کی بلندی قبول حق سے کبھی مانع نہ ہوتی اوراگر وہ محسوس کرتے کہ اختلاف کرنے والے کی فہم کا قصورہے تو بڑے اچھے اندازمیں سمجھاتے ایسا اندازجس میں نہ مخاطب کی تحقیر ہوتی ،نہ اس کی بد فہمی یا قصورفہم کی شکایت ہوتی نہ اس میں جوش واشتغال ہوتانہ الزامی جواب کی ضرب ہوتی ،ہلکے ہلکے بولتے اوردلائل کے موتی بکھیرتے اوربالآخرمخاطب کو مطمئن کردیتے ۔
مولانا کا شماران علمائے راسخین فی العلم میں ہے جو کھرے کھوٹے کی پرکھ بخوبی رکھتے ہیں جو کسی نظرئے یا کسی شخص کی شہرت عام سے متاثرنہیں ہوتے جب تک کہ تاثر کیلئے دلیل وبرہان کی روشنی نہ ہو نہ کسی حب مال وجاہ کے دباؤمیںوہ غلط کو صحیح کہہ سکتے تھے نہ کسی عمل کی صرف ظاہری افادیت کو دیکھ کر یا اس لئے کہ بہت سے لوگ اس میںشامل ہیں اسے قبول کرتے بلکہ وہ یہ دیکھتے تھے کہ قرآن وسنت سے یا قرآن سے مستنبط اصول وقواعدصحیحہ سے یا ائمہ وفقہاء کی تصریحات سے اس کا ثبوت ملتا ہے یا نہیں اوراگر ملتا ہے تو اس عمل کا کیادرجہ ہے ؟ ان سب باتوں پروہ بہت گہری نظر رکھتے تھے اسی لئے ہمارے دور میں جو دین وشریعت کے نام پر بھانت بھانت کی ٹولیاںبن رہی ہیں ،مختلف نظرئے ایجاد ہورہے ہیںاورہر ٹولی اورہر نظریہ اپنی پشت پر وقت کی مصلحتوں اور زمانے کے تقاضوں کا ایک انباررکھتاہے ،ظاہری نظروالے اس سے متاثربھی ہوتے ہیںمگر مولانا محمد فاروق صاحب ان کو شریعت اوراصول شریعت کی معیار پر پرکھتے تھے اگر اس پر کوئی نظریہ وعمل پورا اُترتاتو اعتراف میں بخل نہیں کرتے تھے اوراگر پور ا نہیں اترتا تو اس کا شرعی حکم بلا خوف ملامت گراںظاہر کردیتے تھے ،اس سلسلے میں بعض اوقات انہیں بہت سی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا مگر جو کچھ انہوں نے حق جانا اس کے اظہار میں کسی فرد یا کسی جماعت کا خوف نہیں کھایا ۔
تبلیغی جماعت کے متعلق ایک استفتاء کے جواب میں انہوں نے مفصل گفتگوکی اورجو کچھ ان کی نگاہ میں حق تھااسے واضح کردیا ، گو کہ اس کے باعث وہ بہت سے عوام وخواص کا نشانۂ ملامت بنے ،مگر کوئی اندیشہ وہ خاطرمیں نہ لائے ،افسوس کہ علماء نے ان کے اس فتوی پر اثباتاًیا منفیاًکوئی توجہ نہ دی اگر ان کی گفتگوحق ہے تو اسے قبول کرنا چاہئے اوراگر اس میں غلطی ہے تو اسے واضح کرنا چاہیے ،مولانا محمد فاروق صاحب بہت وسیع القلب انسان تھے اگر دلائل سے ان کی غلطی واضح کی جاتی تو اسے وہ بے تکلف قبول کرلیتے بلکہ وہ اس کے منتظررہا کرتے تھے بات کی پچ وہ جانتے ہی تھے ان کاوہ فتویٰ آج بھی اہل علم کے لئے لمحہ ٔ فکریہ ہے ۔
مولانا محمد فاروق صاحب نے 1365ھ؁ میں جامعہ مظاہر علوم سہارنپورمیں تعلیم کی تکمیل کی تھی ،ابتدائی اورمتوسطات تک کی تعلیم الہ آبادمیں حاصل کی تھی ،حکیم الامت حضرت تھانوی کے خاص معتقد تھے ،طالب علمی کے زمانے میں تھانہ بھون حضرت کی خدمت میں حاضری بھی دی تھی ،فراغت کے بعد حضرت تھانوی کے خلیفہ اول حضرت تھانوی ؒ کے خلیفہ اول حضرت مولانا محمد عیسیٰ صاحب الہ آبادی علیہ الرحمہ کا دامن تھاما پھر ان کے وصال کے بعد کسی شیخ کامل کی تلاش ہوئی تو طلب وجستجونے مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب علیہ الرحمہ کی خدمت میں فتح پورپہنچایا،یہاں اپنی سلامت طبع،اعتقاد کامل اورذہانت و عقل کی وجہ سے بہت جلد حضرت کی خدمت میںرسوخ حاصل کرلیا ،حضرت کو ان پر بہت اعتماد ہوگیا تھا ،اہم امورمیں حضرت ان سے مشورہ بھی لیتے تھے وہ حضرت کے مزاج شناس تھے ،حضرت کی منشا پہچان کر ان کے مطابق کام کرتے تھے ۔(جاری)
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانا محمد فاروق الہ آبادی
مولانااعجاز احمداعظمی
3

حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جامی علیہ الرحمہ جو حضرت مصلح الامت کے کاتب خاص تھے اورحضرت کے علوم ومعارف کے امین اوران کے مرتب اورشارح وترجمان تھے ،سناتے ہیں کہ حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد جو صاحب خانقاہ تھانہ بھون میں تعلیم وغیرہ کے ذمہ دار تھے ان کی موجود گی میں کچھ انتشارکی کیفیت وہاں ہوئی اورانہیں وہاں سے علیحدہ ہونا پڑا تو حضرت کے بھتیجے مولانا شبیر علی صاحب جو حضرت کی حیات میں مدرسہ اورخانقاہ کے منتظم رہ چکے تھے اوراب کراچی منتقل ہوگئے تھے ،انہوں نے لکھا ’’کہ کسی معتمداورمناسب آدمی کو وہاں مقرر کیا جائے‘‘بہت سے لوگوں کی نگاہ حضرت مصلح الامت پر پڑی اوران سے وہ جگہ سنبھالنے کی درخواست کی حضرت نے تومعذرت کردی البتہ لوگوں کی فرمائش پر اپنے معتمد خاص مولانا محمد فاروق صاحب کو تھانہ بھون بھیج دیا،بھیجتے وقت ان سے فرمایاکہ
’’تم کو دو نصیحتیں کرتا ہوں ان کا برابر خیال رکھنا ایک تویہ کہ وہ ہمارے شیخ کی جگہ ہے وہاںادب کی ساتھ رہنا وہ جگہ پلکوں سے جھاڑو دینے کی ہے ،دو سرے یہ کہ وہاں کسی سے نزاع مت کرنا اور اختلاف نہ کرنا ،لوگ موافق رہیں تو اخلاق کے ساتھ رہنا اورکسی رویہ سے مخالفت کا اندازہ ہوتو خاموشی سے چلے آنا‘‘ ۔
چنانچہ مولانا محمد فاروق صاحب اسی طریقۂ کار پر ثابت قدم رہے اوربڑی مقبولیت حاصل کی مگر کچھ دنوں کے بعد انہیںاندازہ ہوا کہ بات کچھ بگڑنے کا اندیشہ ہے تو خاموشی سے چلے آئے اورحضرت سے پوری صورت حال ذکر کردی حضرت نے اسے پسند کیا۔

مولانا محمد فاروق صاحب کو اپنے تلامذہ اورمتعلقین کی تربیت کا بڑاملکہ تھا وہ بہت شفیق ومہربان تھے ان کے طلبہ ان کی محبت میں اوران کے رنگ میں اتنے پختہ ہوتے ہیں کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے ،اپنے علاقہ اورگاؤں میں رہ کر انہوں نے جس محبت اوردل سوزی سے لوگوں کی تربیت کی ہے اس کا اثر یہ ہے کہ اتراؤں کے لوگ نہایت مہذب اورشائستہ ہیں ،علماء کے بڑے قدر دان ،ان کے سامنے ادب وتواضع کا بہترین ملکہ رکھتے ہیں مولانا عبد الرحمن صاحب جامیؒ کی شہادت یہاں نقل کرتا چلوں،حضرت مصلح الامت ؒ کے حالات کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت والا سے تعلق سے ہی عموماً اوربالخصوص حضرت اقدس کے الہ آباد میں قیام فرمانے کے بعدسے مولانا محمد فاروق صاحب کاجذبۂ اخلاص بھی ترقی کرتا رہا اوراسی کے بعدحضرت اقدس کے ساتھ ان کا تعلق بھی بڑھتا گیا ،چنانچہ حضرت والا کبھی کبھی مولوی محمد فاروق صاحب کے تعلق کے لحاظ سے اتراؤں بھی تشریف لے جانے لگے ،کبھی خود مولوی محمد فاروق صاحب بھی درخواست کرتے اورہمراہ ہوجاتے ، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضرت اٹھتے اورمولوی عبد المجید صاحب کا یا کسی اورکا ہاتھ پکڑتے اورفرماتے چلو اتراؤں چلیں،غرض حضرت اقدس کے اس طرح اچانک پہونچ جانے سے وہاں عید ہوجانے کا منظر مولوی صاحب اکثر بیان کرتے تھے چونکہ یہاں کے عوام بھی مولوی صاحب کے تربیت یافتہ تھے اورطلبہ تو ماشاء اللہ بہت ہی مہذب اورفہیم تھے اس لئے حضرت کو یہاں بہت آرام ملتا پھر ما شاء اللہ ان سب پر مولوی صاحب کا حسن انتظام جسے مولوی صاحب موصوف نے حضرت تھانوی کے حالات وملفوظات اورخود اپنے حضرت کی تربیت سے سیکھا تھا یہ اورحضرت کے لئے راحت رساں ثابت ہوتے ،چنانچہ جانے کو تو حضرت متعدد جگہ تشریف لے گئے لیکن الہ آباد سے کہیں باہر جانے کا مقصد یہیں حاصل ہوتا تھا اسی بناء پر کبھی کبھی یہ فرمادیا کرتے تھے کہ’’ مولوی محمد !میں نے الہ آباد میں گھرلے لیا ہے اگر کہیں دیہات میں رہنے کا ارادہ ہو ا تو یہیں اتراؤں میں گھر بنواؤں گا ۔
غرض یہاں دیہات کے سکون کے علاوہ طلبہ کا مجمع اورمتشرع صورت انسانو ں کا اجتماں ،مولوی محمد فاروق صاحب کا حسن نظم ،لوگوں کا ایثار،ان ساری چیزوںنے اس بستی کے قیام کو موزوںوراحت رساں بنادیا تھا ۔
حالات مصلح الامت ج۔۲،ص۲۷۲)(جاری)
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانا محمد فاروق الہ آبادی

مولانااعجاز احمداعظمی
4

ایک بار دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ نے حضرت مصلح الامت قدس سرہ سے ملاقات کرنی چاہی تو حضرت نے ملاقات کا انتظام اتراؤں میں کیا ،تاکہ الہ آباد کی بھیڑ بھاڑسے الگ یکسوئی سے ملاقات ہوسکے ،چنانچہ مولانامحمد فاروق صاحب علیہ الرحمہ کے یہاں وہ تشریف لائے اوروہاں کے حسنِ انتظام سے بہت متاثرہوئے ۔
اتراؤں اوراس کے آس پاس کی آبادیاں زیادہ تر اہل بدعت پر مشتمل ہیں،وہ بڑے سخت قسم کے اہل بدعت تھے ،مولانا محمد فاروق صاحب نے انہیں کے درمیان رہ کر کام کیا،مناظرے کئے ،تبلیغی دورے کئے ، وعظ وتقریرکے ذریعے لوگوں کو بیدا ر کیا ،بدعت سے دوراورسنت کے قریب کرنے کی انتھک جدوجہدکی اوربحمد اللہ اس میں کامیاب رہے ،وہ اس علاقہ کے معتمدعلیہ عالم تھے انہوں نے اپنے دائرہ کو زیادہ وسیع نہیں کیا ،ایک حلقے میں رہ کر کام کیا اورپختہ کام کیا ۔
الہ آباد میں سنا کرتے تھے کہ سید آباد اسٹیشن پر گر کوئی مولوی یا مولوی صورت آدمی ٹرین سے اترتا ہے تو فوراًکئی آدمی لپکے ہوئے آتے ہیں اس کا استقبال کرتے ہیں اگر اسے اتراؤں جانا ہوتا ہے تو اس کا انتظام کرتے ہیں یا اورکہیں جانا ہو تواس کی مدد کرتے ہیں ایک مرتبہ خانقاہ وصی اللٰہی کے کئی افرادنے جن میں حقیربھی شامل تھا اورسالار قافلہ مولانا عبد الرحمن جامی تھے ،اچانک اتراؤں چلنے کا پروگرام بنایا،مولانا محمد فاروق صاحب کو ئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے اطلاع نہ کرسکے ،الہ آباد سے ٹرین پر سوار ہوئے اورجونہی سید آباداسٹیشن پر ٹرین رُکی ، ہم لوگ ابھی پلیٹ فارم پر قدم رکھ ہی رہے تھے کہ کئی لوگوں نے آکرگھیر لیا،سامان ہاتھوں سے لے لیا ،جامی صاحب کو تو یہ لوگ پہچانتے تھے ،باقی اورکسی سے شناسائی نہ تھی ،وضع قطع پر دینداری کے آثاربھی نہ تھے ،مگر اس طرح بچھے جاتے تھے جیسے انہیں کوئی نعمت غیر مترقبہ ہاتھ آگئی ہو ،ایک شیڈ کی چھت والی عمارت میں ٹھہرایاجس میں سائکلیں رکھی ہوئی تھیں،گرمی کا موسم تھا ،چند ایک نے پنکھے جھیلنے شروع کئے ،پیاس لگی تھی پانی پلایا،معلوم ہوا کہ یہ لوگ اتراؤں ہی کے ہیں،اسٹیشن پر سائیکل اسٹینڈبنائے ہوئے ہیں ،اطراف سے لوگ اسٹیشن پر سائیکلوں سے آتے ہیں اورسائیکل جمع کردیتے ہیں پھر ٹرین سے یا بس سے جہاں جانا ہوتا ہے چلے جاتے ہیں ،پھر لوٹتے وقت واپس لے لیتے ہیں اورکچھ رقم کرائے کی ادا کرتے ہیں انہوں نے ہم لوگوں کے لئے یکہ کا انتظام کیا اورہم لوگ آرام سے اتراؤں پہونچ گئے ،وہاں لوگوں کے ملنے کا اندازسراپاادب وتواضع کا تھا ،مہمان کی راحت کا ہر انتظا م تھا ،مہمان کی مرضی اورراحت کے مطابق وہ خودکو ڈھالتے ،مہمان کو اپنی مرضی پر بالکل نہ چلاتے ،بہت جی لگا وہاں پر!
ان کی محنت اورکام کی برکت کا اندازہ کرنا ہو تو مولانا عبد الرحمن صاحب جامی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان پڑھئے ، جسے انہوں نے حالات مصلح الامت کی تیسری جلد میں ص۔۷ پر مولانا محمد فاروق صاحب کے ہی حوالے سے تحریر فرمایا ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب مولانا محمد فاروق صاحب تھانہ بھون سے واپس آچکے تھے اوراب وہاں جانے کا ارادہ نہ تھا،مولانا جامی صاحب لکھتے ہیں کہ
مکرمی مولوی محمد فاروق صاحب بیان کرتے تھے کہ دوسری بار جب میں تھانہ بھون سے واپس آیا اورپھر حضرت کے پاس فتح پورحاضر ہوا تو حسن اتفاق سے انہیں دنوں مولانا سید ظہورالحسن صاحب کسولوی (حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کے مریدوحضرت مصلح الامت کے خلیفہ اورخانقاہ اشرفیہ تھانہ بھون کے مہتمم)بھی تشریف لائے تھے انہوں نے میرے متعلق حضرت سے کچھ کہا ہوگا اورشاید یہ بھی خواہش ظاہر فرمائی ہو کہ فاروق کی وہاں ضرورت ہے ان سے وہاں کے لوگ خوش اورمطمئن ہیں لوگوں کو نفع ہورہا تھا یہ تو معلوم نہیں کہ حضرت والا نے ان کو کیا جواب دیابہرحال میرا عندیہ چونکہ حضرت کو معلوم ہوچکا تھا اس لئے حضرت نے اپنی خدادادبصیرت سے یہ سوچاکہ ایسی کوئی صورت پیدا ہوجائے کہ مجھے انکار نہ کرنا پڑے ،بلکہ مولوی ظہورالحسن صاحب خودہی مولوی محمد فاروق کووہاں لیجانا مناسب نہ سمجھیں تو بہتر ہے ،چنانچہ مولوی فاروق صاحب کو تنہابلاکر ان سے یہ فرمایا کہ تم مکان واپس جارہے ہو۔ مولوی ظہورصاحب کو بھی اپنے وطن الہ آباد لے جاؤ۔پھر وہ ادھر سے تھانہ بھون چلے جائیں گے ،میں نے اس وقت حضرت والا کے منشا کو قطعی نہیں سمجھا لیکن حکم تھا منظورکرلیا اورمولوی صاحب موصوف سے اپنی جانب سے عرض کیا کہ واپسی پر غریب خانہ الہ آباد تشریف لے چلیں تو آپ کی عنایت ہوگی اسی طرف سے تھانہ بھون چلے جائیے گا ،انہوں نے سنتے ہی کان پرہاتھ دھراارے توبہ توبہ حضرت کے یہاں سے پتہ کٹواؤگے کیا ؟حضرت کیا خیال فرمائیں گے کہ اس طرف لوگ سیر کرنے آتے ہیں اگر فرصت تھی تو وہ ایام یہیں کیوں نہیں گزارے ؟مولوی صاحب نے کہا کہ حضرت والا سے اجازت لینا ہمارے ذمہ ہے بس آپ چلنے کے لئے تیار ہوجائیے ……چنانچہ مولانا ظہور صاحب کو اپنے ہمراہ اتراؤں لے گیا، قرب وجوارمیں اطلاع کرادی بہت سے لوگ ملنے کے لئے آئے ،میں وعظ کی فرمائش کی فرمایا ارے میں وعظ کہاں کہتا ہوں میں نے کہادو چار منٹ کچھ فرمادیجئے ،باقی وقت میں کہہ دوں گا ،چنانچہ مولانا نے وعظ فرمایا اوراچھا وعظ کہا اورمجھ سے فرمایا ماشاء اللہ یہاں تو آپ نے بڑا ہی اچھا ماحول پیدا کررکھا ہے پہلے میرا بھی خیال تھا کہ باصرار آپ کو تھانہ بھون بلاؤں گالیکن یہاں کاکام دیکھ کر اب آ پ کو وہا ں تکلیف دینا ظلم ہے اور ایک جگہ اجاڑکردوسری جگہ کو آباد کرنے کے مرادف ہے بالکل نہیں،آپ کو یہیں کام کرنا چاہیے اوراتنا کام جو یہاں دیکھ رہا ہوں شاید وہاں برسوں کے بعد بھی نہ ہوسکے -
(جاری)
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانا محمد فاروق الہ آبادی

مولانااعجاز احمداعظمی
5
اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ حضرت اقدس نے کیوں مولوی صاحب موصوف کو اتراؤں جانے کیلئے فرمایا تھا ،اس واقعہ سے ناظرین کو اندازہ ہوگیا ہوگاکہ حضرت کو کس درجہ مولوی محمد فاروق صاحب پر اعتماد تھا اورحضرت ان سے کس قدر مطمئن تھے ۔(حالات مصلح الامت ج۔۳ص۔۷)
حضرت مولانا محمد فاروق صاحب علم ومطالعہ کے بڑے شیدائی تھے جوبھی اچھی اورمعیاری کتاب ملتی اسے ازاول تا آخرغورسے پڑھتے ،اس سلسلہ میں انہیں قدیم محققین کی کتابوںسے زیادہ لگاؤتھا ،مالی حالت بہت بہتر نہ تھی اس لئے بیش قیمت کتابیں خرید نہیں سکتے تھے تو اس کا حل انہوں نے یہ نکالاکہ جن کتابوں کا ہونا اپنے پاس وہ ضروری سمجھتے تھے انہیںمحنت کرکے پوری نقل کرلیتے تھے ،امام شاطبی ؒ کی ’’الاعتصام ‘‘کی انہیں بڑی ضرورت تھی ،اس وقت یہ کتاب عام نہیں ہوئی تھی اس کی دو جلد یں ہیں اورہر جلد متوسط ضخامت کی ہے ،ایک صاحب کے یہاں سے مطالعہ کے لئے عاریۃً مانگ کر لائے اوروقت کچھ زیادہ متعین کرالیا اوراسی فرصت میں اول سے آخرتک پوری کتاب نقل کرلی ،مولانا کا خط بڑا پاکیزہ تھا اوربڑا کمال یہ تھا کہ ان سے کتابت کی غلطی بالکل نہیں ہوتی تھی ،کسی مشغولیت میں ہوں ،حالات چاہے کتنا ہی خیال ودماغ کو منتشرکررہے ہوں مگر جب قلم ہاتھ میں لے لیتے تو بالکل یکسوئی ہوجاتی اوربے تکلف لکھتے جاتے ،میں نے کئی ضخیم کتابیں ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی دیکھی ہیں ،بہت صحیح اورصاف تحریردیکھ کر حیرت ہوتی ہے ،طاش کبریٰ زادہ کی ضخیم کتاب جو کئی جلدوں میں ہے ’’مفتاح دارالسعادۃ‘‘اس کا مکمل ترجمہ کرکے خوش خط لکھ رکھا ہے ۔
ان کی محنت اوراستقامت قابل رشک ہے اورحافظہ کی قوت کا یہ حال تھا کہ کتابوں کی عبارتوں کی عبارتیںازبرتھیں اوراس طرح بے تکان سناتے کہ کہیں تشابہ اورالتباس کی نوبت نہ آتی ،الہ آبادمیں ایک صاحب بہت علم دوست تھے ،ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب مرحوم ان کے یہاں جمعہ کے روز شہر کے بعض اہل علم حضرات جمع ہوتے تھے اورکسی علمی موضوع پر گفتگوہوتی تھی ،یہ بندہ بھی اس میں شرکت کرتا تھا ،مولاناالہ آباد تشریف لاتے اورجمعہ کا دن ہو تا تو ڈاکٹر صاحب ان کو بھی دعوت دیتے ،ایسے ہی ایک جمعہ کو کسی موضوع پر بات ہورہی تھی ،مولانانے اپنی گفتگوکے لئے امام غزالیؒ کی ’’احیاء علوم الدین ‘‘کا حوالہ دیا اورساتھ اس کی عبارت پڑھنی شروع کی اور پڑھتے چلے گئے ،میرا اندازہ ہے کہ کم وبیش ایک صفحہ کی عبارت پڑھی اور پھر اس کی توضیح وتشریح کرنے لگے ،میں ان کے حافظہ کی قوت پر سخت حیرت زدہ ہوا ۔
1908ء؁ میں مرادآباد ،میرٹھ ،علی گڈھ اورالہ آبادمیں بھیانک فساد ہوا ،الہ آبادکی خانقاہ بھی اس سے متاثر ہوئی ،جب ذرا سکون ہوا اورحالات درست ہوئے تو گو کہ امن ہوگیا تھا مگر طبیعتیں بہت افسردہ اورشکستہ تھیں ، مسلمانوں پر ایک طرح کا ہر اس چھایا ہوا تھا ،انہیں دنوں مولانا محمد فاروق صاحب خانقاہ میں تشریف لائے ، حضرت مولاناقاری شاہ محمدمبین صاحب کی مجلس ہورہی تھی ،مجلس ختم ہوئی تو قاری صاحب نے مولانا سے فرمایاکہ کچھ بیان فرمادیجئے ،مولانا نے سورۂ قصص کا پہلا رکوع پڑھا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت اورفرعون کے مظالم اورپھر موسیٰ علیہ السلام کی کی اسی کے محل میں پرورش کا تذکرہ ہے پھر اس کی تشریح کرنے لگے ،تسلی اورتقویت کا مضمون بیان فرمارہے تھے اسی دوران انہوں نے مثنوی مولاناروم کا کوئی شعر پڑھاایک شعرپڑھنا تھا کہ ان کے سامنے گویا مثنوی شریف کے تمام دفتر کھل گئے پھر اسی مضمون کے اتنے اشعارانہو ں نے پڑھے اوران کی تشریح کی کہ سارا مجمع ششدررہ گیا اوردلوں میں ایمان تازہ ہوگیا ۔
قاری صاحب نے اس تقریرکے خاتمہ پر فرمایا کہ کیا معلوم تھا کہ آج مولاناروم تشریف لائے ہیں ورنہ ٹیپ ریکارڈلگادیاگیا ہوتا اب درمیان مجلس میں اس کا موقع نہ تھا ۔
اس علمی بلندی اورکمال کے باوجودملاحظہ فرمائیے کہ انہوں نے کبھی ایک منٹ کے لئے بڑائی اورشہرت کی طلب نہیں کی ،زندگی اتراؤں جیسے گاؤں میں گزاردی مگرماشاء اللہ بہت کام کرگئے ،وہ نہات متواضع تھے ،انہوں نے کبھی اپنی کوئی حیثیت نہیں سمجھی ،کوئی علمی بات اپنے کسی بہت چھوٹے سے بھی سنتے ،تو اس طرح سنتے جیسے یہ ان کو معلوم نہ رہی ہواورآج ان کی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے ۔
لیکن تواضع اورخاکساری کے ساتھ غیرت حق کامادہ بھی ان میں خوب تھا ،کوئی ایسا طریقہ کوئی ایسا فرقہ کوئی ایسا نظریہ جو شریعت حقہ سے ٹکراتا ہویا شریعت کی کسی تعلیم کو مسخ کرتا ہو،یا اس سے شریعت کے تحفظ میں فرق پڑتا اسے ان کی غیرت کی گوار ا نہیں کرسکتی تھی ،اس باب میں وہ کسی مداہنت اورنرمی کے روادار نہ تھے ،بریلویت اور رافضیت سے تو ان کا براہ راست مقابلہ تھا ،اس موضوع پر ان کامطالعہ بہت وسیع تھا ،ان کا ذہن بہت مرتب تھا وہ دلائل کو بہت سلیقے سے منطقی انداز پر مرتب کرتے تھے اوراپنے مخاطب سے بھی اسی کا مطالبہ کرتے تھے وہ دلائل وشواہد،آثارونظائرکے فرق کو اچھی طرح سمجھتے تھے اس لئے کوئی چلتی ہوئی بات کہہ کران کے سامنے پیش نہیں پاسکتا ۔
مولانااپنے شیخ کے اوران کے حکم کے بہت وفادار تھے ،شیخ سے وفاداری تو کوئی خاص مشکل کام نہیں ہے اگرمناسبت اورعقیدت ہے تو وہ خود آداب وفاداری کا پابند رکھتی ہے لیکن شیخ کی وفات کے بعد شیخ کے متعلقین ان کی ولاد کے ساتھ بھی وفاداری کو نباہ دینا ایک اہم مسئلہ ہے ،شیخ اوراستاد کی اولاد وں اوران کے متعلقین ومنتسبین سے چونکہ معاصرت کا تعلق ہوتا ہے اورمعاصرت کے نشیب وفراز ظاہر ہے کہ آدمی کی رفتارکو اعتدال پر رہنے نہیں دیتے ایسے وقت میں اپنے توازن اور اعتدال کو باقی رکھنا ایک دشوار کا ہے بکثرت دیکھا گیا ہے کہ کسی بڑے کے دنیا سے گزرجانے کے بعد انہیں سے تعلق رکھنے والے کتنے لوگ کسی عنوان سے اورکسی غرض کو لے کر یا بجاطورپرہی سہی ان کے خاندان سے دوری اورانحراف اختیار کرلیتے
ہیں۔
(جاری)
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانا محمد فاروق الہ آبادی
مولانااعجاز احمداعظمی
6

مولانا محمد فاروق صاحب نے اپنے شیخ ومرشدکے ہر حکم بلکہ ہر منشاء کی تعمیل ان کی زندگی میں بھی کی اوران کی وفات کے بعد بھی !حضرت مصلح الامت کے بعد ان کی خانقاہ اورمدرسہ کا انتظام وانصرام ان کے خلیفہ اوردامادحضرت مولاناقاری مبین صاحب دامت برکاتہم کے ذمہ آیا ،جہاں تک مجھے معلوم ہے حضرت نے اپنی زندگی میں یہ انتظام فرمادیا تھا اوراپنے خاص خاص لوگوں کو اس کی اطلاع بھی کردی تھی اوران کو ہدایت بھی دی تھی کہ قاری صاحب کی موافقت کریں گے ۔
حضرت کی وفات کے بعد جیسا کہ عام دستور ہے کہ بڑے لوگوںکے گزرجانے کے بعد ان کے پسماندگان کے درمیان شیطان کبھی نزاع ڈال دیتا ہے ،یہاں بھی کچھ دراڑپڑی اورمتعددحضرات قاری صاحب سے الگ ہوگئے اورانہوں نے اپنی مستقل حیثیت بنالی لیکن حضرت کے تربیت یافتہ بکثرت حضرات قاری صاحب وہی تعلق رکھتے رہے جو حضرت کی منشا تھی ان میں بہت نمایاںچندحضرات تھے ،خاص طورسے مولانا محمد فاروق صاحب نے اسے خوب نبھایا،پوری زندگی اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں بنائی ،قاری صاحب کے دامن فیض سے وابستہ رہے ، اپنے طالب علموں کو تعلیم کے لئے قاری صاحب کے مدرسہ میں بھیجتے ،کوئی بیعت وارادت کی درخواست کرتا تو اسے حضرت قاری صاحب کی خدمت میںبھیج دیتے ،نرم وگرم اوقات آتے رہے ،مخالف ہوائیں چلتی رہیں لوگ ٹوٹتے رہے ،مگر مولانا محمد فاروق صاحب نے وفاداری کی جس زمین پر قدم جمایا تھا کوئی آندھی انہیں ہلانہ سکی ،غلطی کس سے نہیں ہتوی اورکس سے نہیں ہوسکتی ،اپنے شیخ کے اہل تعلق سے بھی ہوسکتی ہے اورہوتی رہتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیںکہ شیخ کے واسطے سے جو محبت ان سے استوار ہوئی تھی وہ ختم ہوجائے ،آخر شیخ کی محبت تو اب بھی باقی ہے پھر اسی محبت کی سرزمین پر محبتوںکے اورجو پودے اُگے تھے وہ سوکھ کیوں جائیں محبت کی وہ زمین تو اب موجود ہے اپنی اوراولاد کی غلطی قابل درگزرہوسکتی ہے تو کیا اپنے مرکزمحبت کی شاخوںمیں کچھ غلطی اگرواقعی بھی دکھائی دے تو وہ لائق عفوودرگزرنہ ہوگی ۔
یہ نکتہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے تو آدمی اعتدال سے ہٹ کر افراط وتفریط میں پڑجاتا ہے ، مولانامحمد فاروق صاحب ان نکتوںسے خوب واقف تھے اورصرف واقف ہی نہ تھے ،انہیں برتنا بھی خوب جانتے تھے ، ان شاء اللہ وہ اپنے شیخ کے حضورسرخروہوں گے اوران کے اخلاص اورحسن معرفت کا صلہ بارگاہ الٰہی سے ملے گا ۔
مولانا کی صحت ہمیشہ اچھی رہی ،آخر میں شوگر کے مریض ہوگئے تھے مگر ما شاء اللہ مشاغل ومعمولات میں کوئی فرق نہ تھا البتہ جسم سے اضمحلال محسوس ہوتا تھا ،وفات سے دو چارروز پہلے سے بخار رہنے لگا تھا مگر بظاہر تشویش کی کوئی بات نہ تھی ۔۴۱صفر۱۲۴۱ھ؁ کو شب میں میں ساڑھے بارہ بجے جان جانِ آفریںکے سپرد کی ، زندگی کی انہی منزلوںکویہ بوڑھامسافرطے کرچکا تھا اب تھک گیا تھا اسے نیند آگئی ،اسے خاکساری پسند تھی ، زندگی بھر اسی کی مشق کی تھی ،مٹی کا چھوٹا سا مکان بنا ،مٹی کا بستر بچھا ،مٹی کی چادر اوڑھی اورقیامت کی نیند سوگیا ۔ اللہ تعالیٰ اس خاکی مکان پر اوراس کے خاکسارمکین پر اپنی رحمت کا سایہ کرے اس کی مغفرت کرے اس کے درجات کو بلند فرمائے ۔آمین
 
Last edited by a moderator:

أضواء

وفقہ اللہ
رکن
df960bc9d81wm2.gif
 
Top