ملفوظات حضرت مفتی محمود حسن صاحبؒ

محمد اشرف يوسف

وفقہ اللہ
رکن
تصوف شاہی فن ہے
ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا عبدالقادر صاحب رائپوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ تصوف شاہی فن ہے، اس کے لیے شاہی مزاج چاہیے، مثلاً حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ اور حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ جیسا دماغ چاہیے، اب یہ ہم گاؤں ندیوں کے سرآپڑا ہے۔
ہمارا استغفار بھی کثیر استغفار کامحتاج ہے
ارشاد فرمایا کہ حضرت سری سقطیؒ فرمایا کرتے تھے "استعفار نایحتاج الی استغفار کثیر" (ہمارا استغفار بھی کثیر استغفار کا محتاج ہے) اس لیے کہ ہمارا استغفار زبانی ہے، قلبی نہیں پس وہ استہزاء کے درجہ میں ہے، جیسے کوئی شخص کسی کوجوتا مارے اور پھرمعافی مانگے مگرندامت ہونہیں (کہ یہ معافی طلب کرنا نہیں بلکہ استہزاء ہے)۔
حقیقت خُلق
ارشاد فرمایا کہ لوگوں نے "خُلق" چکنی چپڑی اور ہنس ہنس کر بات کرنے کا نام رکھ لیا ہے؛ خواہ دلوں میں بغض ہی کیوں نہ ہو، حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کا قول "الکوکب الدری" میں نقل کیا گیا ہے کہ خُلق مخلوق کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنے کوکہتے ہیں، جس سے خالق بھی راضی ہو، چکنی چپڑی بات کرنے سے جب کہ دلوں میں بغض ہوخالق کہاں راضی ہوتا ہے اور مخلوق کوبغض قلبی کا علم ہوجائے تووہ بھی کہاں راضی ہے۔
شیخ کے ساتھ محبت وعقیدت
ارشاد فرمایا کہ شیخ سے فیض پہنچنے کا مدار (شیخ کے ساتھ) محبت وعقیدت (رکھنے پر) ہے، ایک صاحب نے کہا کہ محبت کے لیے توعقیدت لازم ہے، اس لیے تنہا محبت ہی اصل ٹھہری توارشاد فرمایا کہ محبت کے لیے عقیدت لازم نہیں، باپ کوبیٹے سے جب کہ اس کے حالات صحیح نہ ہوں محبت ہوتی ہے، مگرعقیدت نہیں ہوتی۔
غیبت کی اقسام
ارشاد فرمایا کہ علامہ بن عابدین شامیؒ نے لکھا ہے کہ غیبت کی مختلف اقسام ہیں، مثلاً کسی کی تعریف سن کر طنزاً یہ کہے کہ جی ہاں، میں اس کوجانتا ہوں، وہ کیسا ہے؟ یہ بھی غیبت ہے، کسی کی برائی لکھے یہ بھی غیبت ہے، کسی کا عیب زبان سے بیان کرے یہ بھی غیبت ہے اور اشارہ سے کسی کا عیب بیان کرے یہ بھی غیبت ہے؛ نیزیہ بھی لکھا ہے کہ غیبت کی سخت ترین صورت یہ ہے کہ غیبت کرنے پر جب کوئی منع کرے توکہے کہ میں غیبت کب کررہا ہوں، میں توواقعہ بیان کررہا ہوں، سچ مچ کہہ رہا ہوں، اس لیے کہ جب بات سچی ہو اور بری لگتی ہو وہی توغیبت ہے؛ پس! وہ اپنے اس جواب سے اس کوجائز قرار دے رہا ہے؛ حالانکہ اس کی ممانعت نصِ قطعی سے ثابت ہے (ارشادِ خداوندی ہے) "وَلَايَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا" (الحجرات:۱۲) (تم میں سے ایک، ایک کی غیبت نہ کرے) گویا اس کا قول نصِ قطعی کی تردید کومستلزم ہے (اور نص قطعی کی تردید کا اشد ہونا ظاہر ہے)۔
کسی کوبرا کہنا
ارشاد فرمایا کہ کسی کوبرا کہنے سے اس کی برائی تودور ہوتی نہیں؛ البتہ خود برائی میں شریک ہوجاتا ہے
(پس ایسا کام کیوں کیا جائے، جس میں نہ اپنا نفع نہ دوسرے کا بلکہ اپنا نقصان ہے)۔
استغفار کی اہمیت
ارشاد فرمایا کہ ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ نبی کریمﷺ ایک ایک مجلس میں ستر ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار کی کیا اہمیت ہے) اور اس کے ہم کتنے محتاج ہیں، کہ نبی کریمﷺ باوجود اپنی شان میں:
"لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَاتَأَخَّرَ"۔
(الفتح:۲)
ترجمہ:تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف فرمادے۔
(بیان القرآن)
وارد ہونے کے باوجود معصوم ہونے کے ایک ایک مجلس میں اتنا استغفار کرتے تھے توہمیں باوجود سراپا تقصیر ہونے کے کتنا استغفار کرنا چاہیے۔
پریشان کن خیالات کا دفعیہ
ارشاد فرمایا کہ پریشان کن خیالات کودفع کرنے کے درپہ نہوجئے درود شریف کی کثرت رکھئے ان کی وجہ سے کام بند نہ کیجئے جیسے کوئی آدمی بازار جاتا ہے، وہاں طرح طرح کی آواز، ہارن کی، کتوں کے بھونکنے کی آواز سنتا ہے، طرح طرح کی چیزیں دیکھتا ہے؛ لیکن ان کی وجہ سے اپنا کام بند نہیں کرتا
(بند کرنا بڑی بات ہے، اس میں کچھ کمی بھی نہیں آنے دیتا؛ بلکہ اس کوپورا پورا انجام دیتا ہے)۔
اعمال کے ضائع ہونے کے تین سبب
ارشاد فرمایا کہ حضرت گنگوہیؒ فرماتے تھے کہ انسان کے کیے کرائے کے ضائع ہونے کے تین سبب ہوتے ہیں، اوّل ناموافق کھانا، دوم ناجنس کی صحبت، سوم ارتکاب معصیت (پس سالک کے لیے ضروری ہے کہ ان تینوں امور سے بالکلیہ اجتناب کرے؛ تاکہ اس خسرانِ عظیم سے محفوظ رہ سکے)۔
لطیفہ غیبی
ارشاد فرمایا کہ حضرت (مولانا رشید احمد صاحب) گنگوہیؒ سے کسی نے شکایت کی کہ رات کوخواب میں تہجد کے لیے کوئی صاحب روزآنہ جگادیا کرتے تھے ایک روز میں نے اٹھنے میں سستی کی تووہ خواب بند ہوگیا اس پر حضرت گنگوہیؒ نے ارشاد فرمایا:
"لطیفۂ غیبی مہمانیست نازک مزاج کہ بادنی بے التفاتی رومیگرداند"۔
ترجمہ:یعنی لطیفہ غیبی ایسا نازک مزاج مہمان ہے جو ذراسی بے توجہی سے منہ موڑلیتا ہے۔
(اس لیے سالک کوچاہیے کہ ایسے لطائف کی قدر کرے اس کوفضلِ خدا سمجھ کر اس کا زیادہ سے زیادہ شکرادا کرے۔
بیماری کی وجہ سے ترکِ عمل
ارشاد فرمایا کہ اگرکوئی شخص نیک عمل کرتا تھا؛ پھربیماری کی وجہ سے وہ عمل نیک نہیں کرپاتا تو(حق تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے) ملائکہ کوحکم ہوتا ہے کہ بیماری کے زمانے میں بھی اس کے اس نیک عمل کولکھتے رہو، جس کووہ صحت کے زمانہ میں کرتا تھا (اور اب بیماری کی وجہ سے نہیں کررہا ہے) پھرجب وہ ٹھیک ہوجائے توپھر شروع کردے؛ اگرصحت کے بعد نہ کرے گا توپھر نہ لکھا جائے گا (احقرجامع ومرتب عرض کرتا ہے کہ اس میں بڑی تسلی ہے ان حضرات کے لیے جوبیماری یاکسی اور معقول عذر کی وجہ سے اپنا معمول پورا نہ کرسکیں اور اس کے فوت ہونے پر ان کوافسوس ہو)۔
مصائب بھی نعمت ہیں
ارشاد فرمایا کہ مسلمان جب تک مصائب میں مبتلا نہیں ہوتا حق تعالیٰ شانہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا
(اس لیے مصائب بھی بندۂ مؤمن کے لیے اللہ پاک کی بڑی نعمت ہیں)۔
رمضان شریف میں کسی عمل کی عادت
ارشاد فرمایا کہ رمضان شریف میں جس عمل نیک کا کوئی شخص معمول بنالیتا ہے تواس کا کرنا رمضان شریف کے بعد سہل ہوتا ہے، رمضان شریف کے بعد اس کی عادت رہتی ہے؛ اسی طرح اگرکوئی شخص رمضان شریف میں گناہ کرتا ہے تواس کے اثرات رمضان کے بعد بھی باقی رہتے ہیں اور اگر عادت بنالیتا ہے تورمضان شریف کے بعد بھی اس کی عادت رہتی ہے، اس کا چھوٹنا بہت دشوار ہوتا ہے
(اس لیے اس ماہِ مبارک کوطاعات اور اعمالِ صالحہ سے مشغول رکھے اور لغویات ومعاصی سے بہت ہی اجتناب کرے کہ ان میں مشغول رہنا بڑی محرومی ہے، حق تعالیٰ شانہٗ ہم سب کی حفاظت فرمائیں)۔
معمول کا ناغہ کردینا
ارشاد فرمایا کہ کسی معمول کوکبھی کبھی ناغہ کرتے رہنے سے اس پردوام دشوار ہوجاتا ہے (اس لیے حتی المقدور سالک کواپنا معمول ناغہ نہ ہونے دینا چاہیے، جس طرح بن سکے اس کوپورا کرنے کی کوشش کرے اس کے ثمرات وبرکات پورے طور پر جب ہی میسر آسکتے ہیں، جب کہ اس پردوام اختیار کرے، حدیث پاک میں بھی اسی عمل کواحب الاعمال کہا ہے، جس پر مداومت ہو، ارشادِ نبوی ہے "أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ"
(بخاری، كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا،بَاب فَضِيلَةِ الْعَمَلِ الدَّائِمِ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ وَغَيْرِهِ،حدیث نمبر:۵۹۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)
رواہ الشیخان، حق تعالیٰ شانہ کے نزدیک وہ عمل زیادہ محبوب ہے جس پر دوام ہوگووہ عمل تھوڑا ہی ہو)۔
توبہ کی تلقین پر توبہ سے انکار
ارشاد فرمایا کہ جوشخص توبہ کی تلقین کرنے پر یہ کہے کہ میں کیوں توبہ کروں؟ میں نے کیا قصور کیا ہے؟ توفقہاء نے اس کے لیے بڑا سخت کلمہ لکھا ہے، میں اس کوکہہ نہیں سکتا (میرے خیال میں اس کی وجہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا قول میں نے کیا قصور کیا؟ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ معصوم ہے، خطا سے پاک ہے؛ حالانکہ مطابق حدیث نبوی "کُلُّکُمْ خَطَاؤنَ وَخَیْرالْخَطَائِیْن التَّوَّابُوْنَ الْمُسْتَغْفِرُوْنَ" ہرشخص بجز انبیاء کرام علیہم السلام کے خطا کار ہے، پس! اس کا یہ قول مستلزم ہے اس قسم کی حدیث کی تردید کوجومعمولی چیز نہیں؛ بلکہ امرِعظیم ہے)۔
مجلس شیخ میں عامی شخص کا ادب
ارشاد فرمایا کہ عامی شخص کوشیخ کی مجلس میں آنکھیں بند کرکے تسبیح پڑھتے رہنا چاہیے ایسا نہ ہوکہ شیخ کے کسی عمل سے بسبب اپنی نادانی کے بدظن ہوجائے اور فیض سے محروم رہے۔
حسن ظن کے لیے دلیل کی حاجت نہیں
ارشاد فرمایا کہ حسن ظن (جوکہ مطلوب ہے کہا گیا ہے "ظُنُّوْا بِالْمُوْمِنِیْنَ خَیْرًا" مسلمان کے ساتھ اچھا گمان رکھو) کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں؛ سوء ظن (جوکہ مذموم ہے اس سے اجتنا ب کا حکم ہے، ارشاد خداوندی ہے "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ" (الحجرات:۱۲) ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچا کرو (بیان القرآن)) کی دلیل نہ ہونا اور مسلمان کا اسلام ہی اس کے لیے کافی ہے؛ البتہ سوء ظن کے لیے مستقل دلیل کی حاجت نہیں ہے
(بغیر دلیل معتدبہ کے کسی کے ساتھ بدگمانی گناہ ہے، حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد "إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ"
(الحجرات:۱۲) بعض گمان گناہ ہوتے ہیں)۔
مشائخ کا عوام کوخلاف ورزی کرنے پر تنبیہ نہ کرنا
ارشاد فرمایا کہ حضرت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ مشائخ نے عوام کی عادت خراب کی ہے کہ خلاف ورزی کرنے پر ان کوتنبیہ نہیں کرتے اور اس کا نام اخلاق رکھا ہے، یہ اخلاق نہیں اہلاک ہے۔
دین کی طلب پیدا کرنا
ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا الیاس صاحبؒ (بانی تبلیغی جماعت) فرمایا کرتے تھے کہ اس دور میں سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں دین کی طلب نہیں ان کے دلوں میں دین کی طلب پیدا کردی جائے۔
دنیا عالمِ تلبیس ہے
ارشاد فرمایا کہ یہ دنیا عالمِ تلبیس ہے، ایک ہی صف میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین کھڑے ہوتے تھے؛ اسی طرح دلائل حقہ کے ساتھ دلائل باطلہ ملتبس ہیں۔
طریق کار کی غلطی
ارشاد فرمایا کہ مسلمان حکومت کے خلاف ناخوشی کے اظہار کے لیے جلسے کرتے ہیں ان سے کیا ہوتا ہے، ہم کو چاہیے کہ حکومت والوں کے دلوں میں اپنی اتنی قدر پیدا کر دیں جس سے کہ وہ ہماری خفگی وناراضگی کوبالکل برداشت نہ کرسکیں اور یہ ظاہر ہے کہ احکامِ شرع پرپورے پورے عامل بننے سے ہوگا، خالی زبان سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کا دعویٰ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
نسبت کی تعریف
ارشاد فرمایا کہ حضرت رائپوریؒ ثانی سے کسی نے سوال کیا کہ نسبت کس کوکہتے ہیں؟ توفرمایا کہ اخلاقِ فاضلہ اور اعمالِ صالحہ کی توفیق کونسبت کہتے ہیں
(یعنی حضورِاقدسﷺ کے جتنے اخلاق ہیں ان میں سے ایک ایک خلق کواختیار کیا جائے اور جتنے عمل اللہ اور اس کے رسول کومحبوب ہیں ان کوکیا جائے اور جتنے عمل ان کومبغوض وناپسند ہیں ان سے اجتناب کیا جائے بس اسی کا نام نسبت ہے، فرمودۂ حضرت قدس سرہٗ)۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواپنے اوپرنفاق کا اندیشہ
ارشاد فرمایا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی جماعت اپنے اوپر نفاق کا اندیشہ رکھتی تھی
(ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے بدر میں شریک ہونے والے تیس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوپایا سب کے سب اپنے اوپر نفاق کا اندیشہ رکھتے تھے
(جمع الفوائد:۲/۱۶۲) اس کے علاوہ اور بھی اس طرح کی روایات ہیں، جب صحابہ کرامؓ اپنے اوپر نفاق کا اندیشہ رکھتے ہیں توغیروں کوتوبدرجہ اولیٰ اس کا اندیشہ ہونا چاہیے)۔
نفع وضرر اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے
ارشاد فرمایا کہ ایک سال بعض جگہ سے اطلاع ملی کہ یہاں بالکل بارش نہیں جس کی وجہ سے فصل برباد ہورہی ہے، بعض جگہ سے خبر آئی کہ یہاں بارش بہت ہے، زمین میں پانی ٹھہرگیا جس کی وجہ سے فصل بیکار ہوگئی؛ اسی طرح جب میں پنجاب بھالپور گیا تودیکھا شاندار فصل ہے، پکی کھڑی ہے نہ بارش کی کمی ہے نہ زیادتی؛ مگر کھیتی کاٹنے والا کوئی نہیں اس لیے کہ سب شدید بخار میں مبتلا ہیں؛ پھرفرمایا کہ اس دنیا میں جس چیز پراعتماد ہوتا ہے، حق تعالیٰ شانہٗ اس کوناکام بنادیتے ہیں؛ اسی طرح جوچیز نفع دینے والی سمجھی جاتی ہے، اس کونقصان دہ ثابت کردیتے ہیں
(جیسا کہ کھیتی کاٹنے والوں پراعتماد تھا، ان کوبیمارکرکے ناکام بنادیا، بارش نفع کی چیز سمجھی جاتی ہے، اس کو نقصان دہ اور کھیتی کوتلف کرنے والا بنادیا)۔
بیوی سے وطی میں اجر ہے
ارشاد فرمایا کہ اگربیوی سے اس نیت کے ساتھ وطی کی جائے کہ نظر محفوظ رہے نامحرم پرنہ پڑے تواس میں اجر ہے:
"لَکَ فِیْ جِمَاعِ زَوْجتک أَجْر"۔
(مجموعہ چہلِ حدیث:۳۱، مطبوعہ: یحیویٰ سہارنپور)
ترجمہ:تیرےلیے اپنی بیوی سے جماع کرنے میں اجر ہے۱۲۔
حقیقتِ تقویٰ
ارشاد فرمایا کہ حضرت عمرؓ نے ایک صحابی سے دریافت کیا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے پوچھا کبھی خاردار وادی کانٹوں والے راستہ پر چلے ہو؟۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا جی ہاں! دریافت کیا کیسے چلے ہو؟ فرمایا دامن سمیٹ کر اور بدن کوبچاکر کہیں ایسا نہ ہو کوئی کانٹا بدن یاکپڑوں میں لگ جائے، فرمایا کہ بس! اسی کا نام تقویٰ ہے؛ پھر فرمایا (حضرت قدس سرہٗ نے) روزہ دار روزہ کی حالت میں مختلف چیزیں کھانے پینے کی دیکھتا ہے؛ مگرچکھتا نہیں اس اندیشہ سے کہ کہیں حلق سے نیچے اُترکر روزہ کوفاسد نہ کردے؛ حالانکہ منہ میں کسی چیز کے رکھنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا؛ مگرپھربھی اس کوفکر ہوتی ہے؛ اسی طرح جب لڑکی کی منگنی کردی جاتی ہے توخود اس کوبھی اور اس کے گھروالوں کوبھی فکر ہوجاتی ہے؛ ایسا نہ ہو کہ لڑکی سے کوئی ایسا امرسرزد ہوجائے جولڑکے یالڑکے والوں کوپسند نہ ہو اور ان کوخبر ہوجانے پر رشتہ منقطع کرنے کی نوبت آئے، بس! اس طرح کی فکر ہرمعاملہ میں ہوجائے ایسا نہ ہوکہ کوئی قول وفعل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مرضی کے خلاف صادر ہو یہی ہے تقویٰ۔
پیٹ بھرکر کھانا
ارشاد فرمایا کہ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے "الشبع بدعۃ حدثت بعدالمأتین" یعنی پیٹ بھرکھانا ایسی بدعت ہے جودوسری صدی ہجری کے بعد وجود میں آئی ہے
(مگربدعت سے مراد اصطلاحی بدعت نہیں جس کوحدیثِ پاک میں ضلالت کہاگیا ہے)۔
زبان کی حفاظت
ارشاد فرمایا کہ زبان حق تعالیٰ شانہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس سے مختلف پاکیزہ اعمال (طاعات وعبادات تلاوت ذکر تسبیح استغفاروغیرہ) کیئے جاتے ہیں، اس کوانہی میں مشغول رکھنا چاہیے گندی چیزوں میں جھوٹ، غیبت، چغلخوری، بہتان، گالی گلوچ وغیرہ میں اس کومشغول کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی صاف ستھرے کپڑے کوغلاظت میں ڈالدیا جائے۔
زبان ملک نہیں امانت ہے
ارشاد فرمایا کہ زبان اپنی ملک نہیں کہ اس سے جوچاہو کام لو؛ بلکہ امانت ہے، اس لیے اس کوانہی کاموں میں مشغول رکھنا چاہیے، جن کے لیے یہ عطا کی گئی ہے، یعنی ذکر تلاوت وغیرہ میں گندے کام یعنی غیبت، چغلخوری وغیرہ سے اس کوبچانا چاہیے
(ایک موقع پرحضورﷺ نے حضرت معاذؓ سے زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اِس کولایعنی باتوں سے روکو؛ انہوں نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے نبیﷺ! کیا ہم سے مواخذہ کیا جائیگا، ان باتوں پرجوہم زبان سے بولتے ہیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے معاذؓ تجھ کوتیری ماں ضائع کرے بہت سے لوگوں کوجہنم میں منہ کے بل زبان کی کٹی ہوئی کھیتیاں ہی ڈالیں گی)۔
(مشکوٰۃ:۱/۱۴)
سب سے افضل دعائیں
ایک صاحب نے کچھ مطبوعہ دعائیں
(جن کے بڑے بڑے فضائل بھی لکھے تھے؛ حالانکہ وہ اسی طرح ان کے فضائل احادیث سے ثابت نہ تھے) حضرت کودکھلائیں اور دریافت کیا کہ ان دعاؤں کا پڑھنا کیسا ہے؟۔
توملاحظہ فرماکر ارشاد فرمایا کہ دعائیں توصحیح ہیں اور ان کا پڑھنا بھی درست ہے؛ مگراس نیت سے پڑھنا کہ یہ سب احادیث سے ثابت ہیں درست نہیں؛ نیز فرمایا کہ سب سے افضل دعائیں وہ ہیں جوقرآنِ پاک میں وارد ہیں ان کے بعد وہ جوحدیث شریف سے ثابت ہیں۔
فرشتے جب چاہیں تلاوت نہیں کرسکتے
ارشاد فرمایا جوملائکہ وحی لانے پر مقرر تھے وہ وحی لاکر پہنچاگئے جب اور جس وقت بھی جی چاہے، وہ تلاوت کرلیں، اس پر وہ قادر نہیں، یہ نعمتِ عظمیٰ انسان کوحاصل ہے کہ جب چاہے تلاوت کرلے پس! مسلمان کوچاہیے کہ اس نعمتِ عظمیٰ کی قدر کرے اورجس قدر ہوسکے کلامِ پاک کی تلاوت میں مشغول رہے کہ بہت ہی اجروثواب کا کام ہے، ایک ایک حرف پردس دس نیکیاں ملتی ہیں
(یہ بھی اس وقت جب کہ بے وضو نماز سے باہر تلاوت کرے باوضو نماز سے باہر تلاوت کرے توایک حرف پر پچیس نیکیاں ملتی ہیں اورنماز میں بیٹھ کر تلاوت کرے توایک حرف پر پچاس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں اور نماز میں کھڑے ہوکر تلاوت کرے توایک حرف پرسو نیکیاں دیجاتی ہیں
(قالہ علی احیاء العلوم:۱/۲۷۵))۔
آنے والوں کے قدم نجات کا ذریعہ
ایک صاحب نے حضرت کے پاس لکھا کہ لوگوں کی اپنے پاس آمد ورفت سے وحشت ہوتی ہے، جی تنگ ہوتا ہے اور ان پر غصہ آتا ہے توبندہ (مرتب) کومخاطب بناکر املاکراتے ہوئے، ارشاد فرمایا کہ:حضرت حاجی امداداللہ صاحب نوراللہ مرقدہٗ نے فرمایا کہ آنے والوں کے قدموں کواپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں، جوآتے ہیں وہ خود نہیں آتے؛ بلکہ بھیجے جاتے ہیں
(من جانب اللہ آتے ہیں، ان کی خدمت ظاہر ہے کہ نجات کا ذریعہ ہے)۔
خدمت کا ثمرہ
ارشاد فرمایا: "ہرکہ خدمت کرد اومخدوم شد" جوشخص اپنے بڑوں کی خدمت کرتا ہے حق تعالیٰ شانہ اس کومخدوم بنادیتے ہیں، اس کے چھوٹے اس کے لیے خادم بن جاتے ہیں۔
ایک شعر کا مطلب
سوال: اس شعر کا کیا مطلب ہے؟ شعر یہ ہے: ؎
بمے سجادہ رنگین کن گرت پیرمغاں گوید کہ سالک بے خبر نبود زراہ ورسم منزلہا
ترجمہ:مصلے کوشراب میں رنگین کرلو اگرپیرمغاں ہے، اس لیے کہ سالک منزل کی راہ ورسم سے بے خبر نہیں ہوتا۔
جواب:ارشاد فرمایا کہ جوشخص علم، عمل، تقویٰ، ورع اور اخلاق وغیرہ میں کامل ہوگا وہ خلافِ شرع کا حکم نہیں دے گا، اس لیے اس کی اطاعت کروگووہ کسی ایسے کام کا حکم کرے جوبظاہر خلافِ شرع معلوم ہو؛ لیکن دعویٰ کرنے کوتوبہت ہیں کہ میں ایسا ہوں ویسا ہوں؛ مگرہوتے ہیں ایسے خال خال ہی۔
شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے شعرِ بالا کے متعلق سوال
پھرفرمایا کہ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ کے یہاں ایک طالب علم تھا اس نے شاہ صاحب سے اس شعر کا مطلب پوچھا شاہ صاحبؒ نے اس سے ایک رات فرمایا کہ فلاں جگہ فلاں طوائف کے یہاں جاؤ، کچھ رقم بھی وہاں کے خرچ کے لیے دی، یہ سن کربڑا حیران.. آخرشاہ صاحبؒ کیا فرمارہے ہیں، شاہ صاحب نے پھر کہا اور اصرار کے ساتھ کہا تومجبوراً وہاں گیا، ساتھ میں مصلی بھی لے گیا اوررات بھروہاں باہر نفلیں پڑھ کر صبح کوواپس آگیا، شاہ صاحبؒ نے دریافت فرمایا کہ کہو رات کیسی گزری؟ اس نے بتایا، شاہ صاحبؒ نے اگلی شب پھر بھیجا یہ اس رات بھی صبح تک نفلیں پڑھ کر آگیا، جب رات آئی توشاہ صاحب نے پھربھیجا یہ گیا اور کچھ حصہ رات کا نفلوں میں گزار کر مصلی لپیٹ کر رکھدیا کہ دیکھنا توچاہئے آخرماجرا کیا ہے، شاہ صاحب روزانہ بھیجتے ہیں، اتنے میں آہ آہ کی آواز اس کے کان میں پڑی، یہ اندر گیا اور اس طوائف سے آہ آہ کرنے کی وجہ معلوم کی، اس نے بتایا کہ اب تک تومیری عصمت محفوظ تھی، اب مجھے فکر ہے؛ کیونکہ آج تونے جلدی ہی مصلی اٹھالیا، اس نے پوچھا کہ جب تیری عصمت محفوظ ہے تویہاں تیرا قیام کیسے؟ یہاں تودوسری طرح کی عورتیں رہتی ہیں، اس نے جواب دیا کہ میری شادی ایک نوجوان سے ہوئی تھی، جب بارات مجھے لیکر چلی توراستہ میں ڈاکوؤں نے بارات کولوٹ لیا اور مجھے بھی یہاں لاکرفروخت کرگئے، اس طالب علم نے تحقیق کی اس کا وطن پوچھا اس کے والد کا نام پوچھا شوہر کا نام وغیرہ معلوم کیا، تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اس کی بیوی ہے اور یہ اس کا شوہر ہے، اس نے پوچھا آپ کہاں رہے؟ اس نے بتلایا کہ جب بارات لٹ گئی میں نے بھی شاہ صاحبؒ کے یہاں آکر طالب علمی اختیار کرلی، اس کے بعد جوکچھ ہونا تھا ہوا، صبح کوشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا توشاہ صاحبؒ اس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گئے اور فرمایا کہو بھائی! اس شعر کا مطلب سمجھ میں آگیا، اس نے جواب دیا: جی ہاں! خوب سمجھ میں آگیا۔
مدرسین کے لیے جامع نصیحت
ایک صاحب نے تحریراً عرض کیا کہ میں فلاں مدرسہ میں پڑھاتا ہوں اور فلاں سے بیعت ہوں، آپ کچھ نصائح فرمادیں، اس پر ارشاد فرمایا کہ طلبہ اور کتابوں کا پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کریں، طلبہ کواپنا محسن سمجھیں کہ انہوں نے آپ کے علوم کی تخم ریزی کے لیے اپنے قلوب کوپیش کیا اور اس طرح آپ کے علوم متعدی ہوئے؛ ورنہ تومحدود ہوکر رہ جاتے، اس لیے صلبی اولاد کی طرح اپنے طلبہ پر شفقت کریں آپ کی خامیوں کوآپ کے اساتذۂ کرام نے دور کیا ہے، اپنے طلبہ کی خامیوں کوآپ دور کریں جوکتاب پڑھائیں، پورے مطالعہ کے بعد پڑھائیں؛ اگرچہ متعدد بار پڑھاچکے ہوں، حق تعالیٰ شانہ ہرمطالعہ میں کچھ نہ کچھ نیا فیض عطا فرماتے ہیں، دل سے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ علم وعمل میں برکت دے۔
بیعت بغرضِ خلافت
میرے والد صاحب سناتے تھے کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں کوئی گاؤں کا آدمی آیا، بیعت ہوا اس کے بعد کچھ دیرتک توخاموش رہا کہ حضرت ہی خود ارشاد فرمائیں گے؛مگرجب حضرت نے کچھ نہ فرمایا توبولا ہجرت جی! وہ سجراپجرا مجھے بھی دیدیا ہوتا، حضرت نے فرمایا توکیا کرے گا؟توجواب دیا کہ میں بھی تھاری طرح مرید مراد کرلیا کرونگا۔
حضرت تھانویؒ سے سوال خلافت
حضرت تھانویؒ کی خدمت میں ایک شخص نے دوروپیہ کا ہدیہ پیش کیا اور عرض کیا کہ مجھے بھی خلافت دیدی ہوتی؟ حضرت نے فرمایا خلافت اتنی سستی ہے؟ دوروپیہ میں توکسبت
(یعنی نائی کا وہ تھیلا وغیرہ جس میں وہ اپنے اوزار استرہ، قینچی وغیرہ رکھتا ہے) بھی نہیں آتی خلافت کیا ملے گی۔
فائدہ: منشاء ان دونوں واقعوں کے ذکر کا یہ ہے کہ مشائخ کی خدمت میں حاضر ہونا،بیعت ہونا اپنی اصلاح کی نیت سے ہونا چاہیےخلافت ومجاز بننے کا خیال ہرگز نہ ہونا چاہئے کہ یہ محرومی کا سبب ہے، اس کے ہوتے ہوئے فیض نہیں پہنچتا۔
اہل اللہ کوستانے سے بہت ہی ڈرنا چاہیے
(ایک عبرت ناک واقعہ)
کچھ روافض نے ایک بزرگ کا مذاق بنانا چاہا، فرضی طور پر ایک شخص کومردہ بنایا اور چار پائی پر لٹاکر ان بزرگ کے پاس گئے کہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھادیں، طے یہ کیا تھا کہ جب وہ نماز پڑھائیں گے تودوتین تکبیر ہوجانے کے بعد وہ شخص جس کومیت بنایا گیا ہے ان بزرگ کولپٹ جائے، ان بزرگ نے کہا کہ اس کوغسل تودلادو تب نماز پڑھیں گے انہوں نے کہا کہ غسل تودے رکھا ہے، فرمایا کہ وہ غسل معتبر نہیں پھرغسل دو، اس پروہ اس کووہاں سے اُٹھاکر لے آئے دیکھا تووہ مرا پڑا ہے؛ اسی لیے ان بزرگ نے غسل کے لیے فرمایا تھا کہ زندگی کا غسل معتبر نہیں مرنے کے بعد غسل دینا چاہیے۔
فائدہ:ان لوگوں نے ان بزرگ کوستانا چاہا، حق تعالیٰ شانہ نے اس کا انتقام لے لیا، اہل اللہ کوستانے سے بہت ہی ڈرنا چاہیے کہ ان کی الٹی بھی سیدھی ہوجاتی ہے، حدیثِ قدسی میں ہے کہ جوشخص میرے ولی سے دشمنی رکھتا ہے، اس کواذیت دیتا ہے، اس سے میرا اعلانِ جنگ ہے۔
(کذا فی البخاری)
علم کوعمل کی تلاش
ارشاد فرمایا ،علم عمل کوتلاش کرتا ہے، عمل نہ ہونے پررخصت ہوجاتا ہے، جیسے کوئی آدمی اونٹ پرسوار مکان کے دروازہ پر اس کے مالک کوآواز دیتا ہے، اس کے جواب نہ دینے پر چلاجاتا ہے، پھر فرمایا علم ایک نور ہے اور جہالت ظلمت ہے؛ اسی واسطے جب کوئی چیز سمجھ میں آجاتی ہے توکہا جاتا ہے کہ مجھے روشنی مل گئی، اندھیرے سے روشنی میں آگیا۔
کتے کا تقویٰ
ارشاد فرمایا کتا ایک ٹانگ اُٹھاکر ایسے طریق سے پیشاب کرتا ہے کہ اس کی ٹانگ اور جسم کا کوئی حصہ ملوث نہ ہو، یہ اس کا تقویٰ ہے، یعنی احتیاط ہے۔
فائدہ: اس سے مادی ومعنوی گندگیوں سے بچنے کا جوسبق ہمیں ملتا ہے ظاہر ہے۔
آدمی اپنے آپ کوبے قصور نہ سمجھے
کسی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت عامل وغیرہ سے بہت پریشان ہوں سحروآسیب ہے یاکچھ اور، دعا وتوجہ فرمائیں۔
ارشاد فرمایا: آدمی اپنے آپ کوبے قصور نہ سمجھے خبر نہیں کونسی بات پر کس طرح پکڑ ہوجائے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی سمجھتا ہے کہ میں نے کوئی قصور نہیں کیا حالانکہ بے خبری میں وہ اس کوکئے ہوئے ہوتا ہے، اس پرپکڑ ہوجاتی ہے۔
مرید کوشیخ کے ساتھ غائبانہ ربط
عرض:مرید کوشیخ کے ساتھ غائبانہ ربط کیسے رہتا ہے؟ قلبی طور پر استفادہ جاری کھنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟۔
ارشاد:یہ الفاظ کی باتیں نہیں باقی اتنا سمجھ لوکہ آدمی جب کسی شیخ کواپنا مقتدا مان لیتا ہے، ان کے اقوال واعمال کا اتباع کرتا ہے، ہرچیز میں اس کی کوشش کرتا ہے کہ ان کے طریقے کواختیار کرے تواس سے آہستہ آہستہ ربط پیدا ہوجاتا ہے، جیسے مولانا الیاس صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ میں نے حضرت مولانا خلیل احمدصاحبؒ کی خدمت میں خط لکھا تھاکہ میرا دل چاہتا ہے کہ چندروز حضرت کی خدمت میں رہوں، حضرت نے فرمایا کہ تم کومجھ سے کچھ حاصل کرنے کے لیے یہاں آنے کی ضرورت نہیں دورنزدیک سب برابر ہے، جوفائدہ یہاں آکر ہوسکتا ہے، وہی فائدہ وہاں بیٹھے بیٹھے ہوگا؛ اسی طرح مولانا ظفراحمد صاحب تھانویؒ مدرسہ مظاہر علوم کے بالائی کمرے میں تہجد کے وقت ذکر میں مشغول تھے ایک دم ان کی طبیعت میں تقاضہ پیدا ہوا کہ نیچے چلوں، نیچے آکر دیکھا توحضرت سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہیں، مولانا کودیکھ کر فرمایا کہ اندر سے چار پائی لاکر یہاں ڈالدو؛ انہوں نے چار پائی ڈالدی، حضرت لیٹ گئے، یہ جاکرپھرذکر میں مشغول ہوگئے وہ جوتقاضہ تھا ختم ہوگیا۔
نسبت مع اللہ کی حقیقت
عرض: نسبت مع اللہ کی حقیقت کیا ہے؟۔
ارشاد: اللہ سے ایک خاص قسم کا تعلق پیدا ہوجائے کہ آدمی اس کی نافرمانی نہ کرے، اس کی اطاعت کرتا رہے، ہرکام میں نیت خالص رکھے اور اس فکر میں رہے کہ وہ مجھ سے راضی ہوجائے ناراض نہ ہو؛ یہاں تک کہ یہ تعلق قوی ہوجائےتواس کونسبت مع اللہ کہتے ہیں، حضرت تھانویؒ نے ایساہی فرمایا ہے۔
اصلاح بغیر سختی کے ہوسکتی ہے
عرض: اصلاح بغیر سختی کے ہوسکتی ہے یانہیں؟۔
ارشاد:ہرایک کی اصلاح بغیر سختی کے ہوجائے ایسا بھی نہیں اور ہرایک کی اصلاح سختی سے ہوجائے ایسا بھی نہیں؛ بلکہ کسی کے لیے نرمی اور کسی کے لیے سختی کی ضرورت پیش آتی ہے "طرق الوصولِ الی اللہ بعددانفاس الخلائق" اللہ تعالیٰ تک پہونچنے کے راستے اتنے ہیں جتنے مخلوق کے سانس ہیں، صر ف ایک دونہیں، باقی یہ ذوقی چیز ہے، حضرت تھانویؒ کا ذوق یہ ہے کہ بغیرسختی کے اصلاح نہیں ہوتی؛ چنانچہ اس کے شواہد ان کوملتے چلے گئے، دوسروں کا ذوق اس سے مختلف ہے۔
یہ بھی ایک طریقہ ہے اصلاح کا
پھرفرمایا کہ ایک شخص دیوبند آئے مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ان کے مہمان خانہ میں ٹھہرگئے، اب ناشتہ کا وقت ہوتا توحاضرِ خدمت دن کا کھانا، رات کا کھانا ہوتا توحاضرِ خدمت؛ مگرنماز کے وقت غائب؛ کیونکہ وہ نماز نہیں پڑھتے تھے، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے ایک رشتہ دار نے جووہاں پڑھتے تھے، انہیں ڈانٹ دیا کہ آپ عجیب آدمی ہیں، کھانے میں حاضر نماز میں غائب، نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کوعلم ہوا، توحضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کوڈانٹا کہ وہ خدا کا قصور کرتے ہیں، آپ کا قصور نہیں کرتے، آپ ہوتے کون ہیں ڈانٹنے واے؛ اسی روز سے انہوں نے نماز شروع کردی، یہ طریقہ بھی ہے اصلاح کا۔
ایضاً
پھرفرمایا کہ ایک صاحب حضرت (مدنی رحمۃ اللہ علیہ) کے پیردبانے بیٹھے بہت ہی عقیدت مندی کے ساتھ، حضرت کوکچھ نیند کا اثر ہوا، انہوں نے موقع غنیمت سمجھا، جیب میں سے بٹوا نکال لیا، حضرت بالکل سوتے ہوئے بن گئے؛ گویا ان کوخبر ہی نہیں؛ یہاں تک کہ وہ اُٹھ کرچلے گئے؛ اسی طرح ایک جگہ تشریف لے گئے، کھانا کھاکر لیٹےشیروانی اتار کرکھونٹی پرٹانگ دی ایک صاحب آئے اور بہت ہی احتیاط سے پیسے نکال کرلے گئے، حضرت کے پاس ان کے علاوہ اور پیسے تھے نہیں، اس لیے قرض لےکر سفرپورا کیا؛ مگراس کے بعد وہ اتنے متاثر ہوئے کہ کبھی چوری نہیں کی یہ بھی ایک طریقہ ہے، اصلاح کا مگر اس طریقہ میں اپنے نفس پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔
مولانا گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں اصلاح میں سختی
فرمایا: حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادآبادیؒ اصلاح میں سختی کرتے تھے، بہت ڈانٹتے تھے اور ایسی سختی کرتے کہ مولانا تھانویؒ جیسے آدمی گھبراگئے، مولانا تھانویؒ نے خود لکھا ہے (یعنی کانپور سے گنج مرادآباد مولانا سے ملنے جانے کا واقعہ) پھر فرمایا کہ مولانا فضل الرحمن صاحبؒ کے یہاں حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی آئے ہیں اور وہ تین دعا کرکے آئے، ایک تویہ کہ کسی سے راستہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئے، بغیرراستہ پوچھے وہاں تک پہونچ جاؤں، ایک یہ کہ مجھ سے ناراض نہ ہوں، ایک یہ کہ مجھے دعادیدیں؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ راستہ پوچھنے کی نوبت نہیں آئی، بغیر راستہ پوچھے وہاں پہنچ گئے، ناراض بھی نہیں ہوئے، ان پر اور دعا بھی دیدی؛ پھرفرمایا کہ: مفتی عزیزالرحمن صاحب دیوبندیؒ بھی ان کے یہاں آئے ہیں، ان کودور سے آتے دیکھ کر ہی ناراض ہوگئے کہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں، واپس ہوجاؤ، وہ واپس ہوگئے اس کے بعد یکایک الہام ہوا کہ بڑے اونچے آدمی ہیں، فوراً ایک آدمی بھیجا کہ ایسی ایسی صورت کے آدمی ہیں ان کوبلاکر لاؤ، وہ گیا اور مفتی صاحب کوبلالایا یہ آگئے ان کا اعزاز فرمایا۔
ذکر "لَاإِلٰہ إِلَّااللہ" میں ہردس مرتبہ پر کلمہ پورا کرنے کی حکمت
ایک صاحب کوذکرِ جہری تلقین فرمایا کہ دوسومرتبہ "لَاإِلٰہ إِلَّااللہ" پڑھ لیا کریں اس طرح کہ ہردس مرتبہ پر کلمہ پورا کرلیا کریں "مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ" اس واسطے کہ"لَاإِلٰہ إِلَّااللہ" کی تاثیر گرم ہے، اس میں اعتدال پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہ "مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ" سے حاصل ہوتا ہے۔
مراقبہ کس لیے ہوتا ہے
عرض:آپ کوکبھی کسی وقت مولانا احمد رضا خان صاحب کے متعلق مراقبہ میں نظر آیا کہ کس حالت میں ہیں؟۔
ارشاد: کیا مراقبے اسی لیے ہوا کرتے ہیں کہ دنیا بھرکے لوگوں کے عیوب اور گناہ ٹٹولیں، مراقبہ اس لیے نہیں ہوتا، مراقبہ اپنے گناہوں کے لیے ہوتا ہے کہ اپنےگناہوں کودیکھیں اور غورکریں کہ ان سے توبہ کی کیا صورتیں ہیں، باقی میں ان کی شان میں کچھ کہتا نہیں، میں نے کبھی ان کے متعلق نازیبا لفظ نہیں کہا، ان کے لوگ مجھے براکہہ لیں؛ مگرمیں نہیں کہتا۔
عرض:ایک بزرگ فرمارہےتھے کہ مولانا احمد رضاخان صاحب میں اتنا زیادہ عشقِ رسول تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عشق کے طفیل ان کومعاف کردیں۔
"بہ مئے سجادہ رنگین گرت پیرِمغاق گوید" مع واقعہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ
مولانا حامدمیاں صاحبؒ نے سوال کیا کہ حضرت! "بہ مئے سجادہ رنگین کن گرت پیرمغاں گوید" کا کیا مطلب ہے، تواس پرفرمایا کہ قصہ مشہور ہے، اورنگ زیب عالمگیرؒکی حکومت میں کسی ہندولڑکی پرنظر پڑگئی کسی پولیس افسر کی، پولیس افسر مسلمان تھا اسے پسند آگئی یہ اندر بیٹھ گئی، اس پولیس افسر نے کیا کیا، جب اس کی شادی کا وقت آیا، اس کا ڈولاتیار ہوا، اس پولیس افسر نے مطالبہ کیا کہ پہلی رات ڈولا میرے یہاں رہےگا، لڑکی اس کے لیے تیار نہیں؛ حتی کہ کوشش کرکے لڑکی نے براہِ راست اورنگ زیب عالمگیرؒ سے عرض کیا؛ انہوں نے کچھ سوچا، سوچنے کے بعد کہا کہ تمھیں اس کی بات مان لینی چاہئے، لڑکی نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ توکہا کہ بیٹی اسکا کہنا مان لو، تواس نے اور تعجب سے کہا کہ آپ مجھے بیٹی بھی کہہ رہے ہیں اور ایسی بات کے لیے کہہ رہے ہیں، آپ بتائے کہ اگرواقعی میں آپ کی بیٹی ہوں اور ایسا معاملہ ہوتو کیا آپ برداشت کریں گے؛ تواورنگ زیبؒ نے کہا کہ ہمارا حکم توماننا ہی پڑیگا، اب وہ لڑکی آگے کیا بولے، کچھ نہیں کہا؛ چنانچہ طے ہوگیا، اس پولیس افسر کے یہاں جانا، وہ پولیس افسر (ڈولا اس کے گھر جانے سے پہلے) نذرانۂ عقیدت لیکر آیا، ماتحتوں کوخیرات تقسیم کی اور بادشاہِ وقت کے سامنے نذرانۂ عقیدت لے کرگیا، خوشی ومسرت کے ساتھ ساتھ؛ چونکہ سب حال معلوم ہوگیا تھا کہ اورنگ زیبؒ نے یہ کہا، لڑکی نے یہ کہا، جب افسر نذرانہ لیکر آیا توپوچھا یہ نذرانہ کیسا ہے؟ کیا بات ہے، کہا وہی تواورنگ زیب عالمگیرؒ نے زور سے ایک تھپڑمارا جس سے اس کا سرپھٹ گیا اور بڑی عبرت ناک سزادی اور کہا کہ ڈولا دولہا کے ہی گھر جائیگا، لڑکی سے کہہہ رہے ہیں کہ کہنا ماننا پڑے گا، بات کیا ہے پورے طور پر دیکھنا تھا کہ شکایت غلط تونہیں؛ تاکہ آئندہ کسی کی جرأت نہ ہو، دیکھنے والوں کوتو معلوم ہوکہ بری سخت بات کہہ رہے ہیں اورنگ زیب عالمگیرؒ باقاعدہ صاحب طریقت اور صاحب نسبت شخص ہیں اور وہ ایسی بات کہہ رہے ہیں، کچھ بات ضرور ہے، باقی جس طرح کھرے کھوٹے روپئے چلتے ہیں، اس لائن میں بھی کھرے کھوٹے چلتے ہیں، کھوٹے کھرے بن کراس پر اشکال کرتے ہیں، یہ نہایت خطرناک چیز ہے، اس واسطے جوشخص اپنے لیے پیرمغاں بنائے، اس کے متعلق خوب تحقیق کرلے کہ واقعی یہ ظاہروباطن کا ماہر ہے یانہیں؛ اگرہے توپھر اب آگے کچھ اور پوچھنا ہی نہیں، جس کے پاس علمِ ظاہر بھی ہے اور علمِ باطن بھی ہے، تزکیہ نفس کئے ہوئے ہے، تصور بھی نہیں کرسکتا شراب کا جوآپ پیرِمغاں کی طرف منسوب کررہے ہیں۔
یہ صورت توشراب پینے والے کی نہیں
ایک زمانہ میں شیخ الحدیث صاحبؒ دلی جایا کرتے تھے، اکیلے جایا کرتے تھے، کسی اسٹیشن پرپیاس شدید لگ رہی تھی، سامنے دیکھا توبوتلیں ہیں، دوکان ہے، اس سے خرید نے کے لیے پہونچ گئے، اس نے ایک نظر ڈالی اور کہا کہ آپ کے پینے کی نہیں یہ سمجھے کہ یوں دیکھا ہوگا کہ طالب علم آدمی ہے، اس کے پاس پیسے نہیں ہونگے توکہا کہ پیسے جتنے کہوگے اتنے دیدونگا، بوتل دیدو، اس نے کہا: نہیں دیتا، شیخ نے فرمایا کہ بات توبتادو، تواس نے ڈانٹ کے کہا کہ نہیں بیچتا میں آپ کے ہاتھ، آپ یہاں سے جائیے، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ چلے آئے، بات کیا ہے، دراصل وہ شراب کی بوتلیں تھیں، اللہ نے بچایا، یہ توبے خبری میں پہونچ گئے تھے، اس نے دیکھ کرسمجھ لیا کہ یہ مغالطہ میں آگئے ہیں، یہ صورت توشراب پینے والے کی ہے نہیں (پھرمولانا حامد میاں صاحبؒ سے مخاطب ہوکر فرمایا) حضرت مولانا وصی اللہ صاحبؒ نے حکیم افہام اللہ صاحبؒ سے کتنے عرصہ پہلے کہدیا تھا کہ یہ تمہارے پاس آئینگے، ذرا ان کا خیال رکھنا، آپ ان کے یہاں گئے اورحکیم افہام اللہ صاحبؒ نے آپ کا خیال رکھا، بس جوعلم ظاہر اور علم باطن میں کامل ہے تووہ غلط بات کہے گاہی نہیں لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے اس کی بات کوغلط کہہ رہے ہیں؛ لیکن درحقیقت وہ غلط بات نہیں کہے گا۔
لمّۃ الشیطان اور لمّۃ الملک میں فرق اور شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ
کسی صاحب کے استفسار پرارشاد فرمایا کہ لمّۃ الشیطان (شیطانی اثر) اور لمّۃ الملک (فرشتہ کا اثر) میں فرق علم سے ہوگا؟ اس کے بعد فرمایا کہ پیرانِ پیرسیدعبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکشوف ہوا توکشف کی حالت میں ایسا لگا کہ میں اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوگیا ہوں؛ اسی حالت میں سخت پیاس محسوس ہوئی، فوراً ایک سونے کا پیالہ دکھائی دیا جومیرے جانب بڑھا، تامل ہوا کہ پیئوں یانہ پیئوں؛ کیونکہ سونے کا برتن استعمال کرنا ناجائز ہے، اس کے بعد خیال ہوا کہ اللہ ہی نے حرام کیا ہے اور وہی دے رہے ہیں؛ پھرخیال ہوا کہ نہیں پیئوں گا؛ کیونکہ شریعتِ محمدیﷺ میں نسخ نہیں، یہ یقین کرلینے کے بعد لاحول پڑھا، پڑھتے ہی شیطان بھاگ گیا؛ لیکن ایک ٹانگ مارگیا کہ تواپنے علم کے ذریعہ بچ گیا؛ ورنہ اتنوں کومیں نے اس مقام پرلاکر جہنم میں ڈالا ہے، میں نے کہا علم کے ذریعہ نہیں؛ بلکہ فضلِ خداوندی سے بچا ہوں، اس پر مولانا محمدشاہ گنگوہیؒ نے عرض کیا معلوم ہوا کہ اصل چیز فضلِ خداوندی ہے اور علم ذریعہ احساس ہے، حضرت نے ارشاد فرمایا: جی ہاں۔
علماء کی غیبت تباہی ہے
ارشاد فرمایا کہ علامہ عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے "الیواقیت والجواہر" سے نقل کیا ہے کہ "لحوم العلماء مسمومۃ" اس کا مطلب یہ ہے کہ علماء کا گوشت زہریلا ہوتا ہے، ارشاد ہے، آیتِ کریمہ:
"وَلَايَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ"۔
(الحجرات:۱۲)
ترجمہ:اورکوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کوپسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس کوتم ناگوار سمجھتے ہو۔
(بیان القرآن)
مراد یہ ہے کہ ان کی غیبت دین ودنیا دونوں کی تباہی، بربادی ہے، اس سے احتراز لازم ہے، بس حق تعالیٰ حفاظت فرمائے۔
بدنظری کا علاج
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت نامحرموں پرنظر پڑنے سے نہیں بچاجاتا اس کے لیے دعا فرمادیں، ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے ہرآنکھ پردوکواڑ لگارکھے ہیں، جب غلط جگہ نظر پڑے فوراً ان کوبند کرلو، دوسری طرف منہ پھیرلیا کرو، اچانک بلاارادہ نظر پڑگئی تواس پر کوئی گناہ نہ ہوگا، ہاں اس نظرکوباقی رکھے گا یابالاختیار نظر ڈالے گا توگناہ ہوگا، اس لیے کہ معصیت وہ چیز ہے جواختیار سے ہو۔
طالبِ علم کا نصب العین
طالب علم کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ حضورِاقدسﷺ کواللہ نے جوہدایات دیکربھیجا تھا، ان کی تفصیلات معلوم کریں؛ تاکہ اپنی زندگی ان کی زندگی کے موافق بنائیں؛ کیونکہ رنج وخوشی دونوں ہی قسم کے حالات پیش آتے ہیں، طالب علم کومعلوم ہونا چاہیے کہ ان حالات میں میرا نصب العین کیا ہوگا، وسوسے توآتے ہی ہیں، ان کا علاج بس یہی ہے کہ ان کی طرف توجہ نہ کی جائے، تسبیحات جس قدر دل لگاکر ادا کی جائینگی اسی قدر نفع ہوگا، طالب علم کویہ نیت کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کومعلوم کریں کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے اور کن باتوں سے راضی ہوتا ہے، راضی ہونے والی باتوں پر عمل کریں، ناراض ہونے والی باتوں سے پرہیز کریں، سارا دین ایک دم ہی قابومیں نہیں آجاتا اللہ تعالیٰ توفیق دے آپ کو بھی مجھے بھی۔
مصالحت کا طریقہ
ارشاد: جب دوفریقوں میں باہم منازعت ہوپھر وہ مصالحت کے لیے آمادہ ہوں تواس کے لیے ضروری ہے کہ جوخدائے پاک اور رسولِ اکرمﷺ کے منشا کے بھی خلاف ہے اور اس کی سزا بھی سخت ہے؛ پھراس پر قلب سے نادم ہوکر مکافات کے لیے آمادہ ہوں؛ خواہ اس کے لیے کتنی بھی قربانی دینی پڑے؛ اگریہ جذبہ قلب میں ہے تومصالحت، مصالحت ہے جس کے ذریعہ سے منازعت ختم ہوجاتی ہے اور اللہ پاک کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں؛ اگریہ جذبہ نہیں بلکہ کسی خارجی دباؤ سے مصالحت کی جارہی ہے، مثلاً کوئی لالچ ہے، یاڈر، یابدنامی، یابے عزتی کا خوف ہے تووہ حقیقی مصالحت نہیں؛ بلکہ مخادعت (دھوکہ دہی) ہے، ہرفریق دوسرے کودھوکہ دینے کی کوشش کریگا اور نزاع کی جڑختم نہیں ہوگی؛ بلکہ قلوب میں پختہ ہوجائے گی، جس کا نتیجہ ظاہر ہے۔

غصہ کا علاج
ایک شخص کے استفسار پر ارشاد فرمایا کہ اگرکسی کی خلافِ طبع بات پر غصہ آجائے تویہ سمجھ کرپینا چاہیے کہ یہ میرے گناہوں کا کفارہ ہے اور یہ شخص دھوبی ہے، جس طرح دھوبی کپڑے سے میل کوصاف کرتا ہے؛ اسی طرح یہ شخص میرے قلب سے گناہوں کوصاف کررہا ہے۔
اکابر کے قول وفعل میں تاویل
عرض: بزرگانِ دین سے بظاہر خلافِ شرع کوئی بات صادر ہوجاتی ہے تواس میں تاویل کی جاتی ہے؛ جب کہ عام لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں برتا جاتا اس کی کیا وجہ ہے۔
ارشاد: چونکہ ان حضرات کی زندگی شریعت کے مطابق ہوتی ہے، اس لیے شاذ ونادر بظاہر کوئی امرخلافِ شریعت ان سے سرزد ہوتا ہے، تواس کوان کے عام حالاتِ زندگی کے موافق بنانے کے لیے اور پوری زندگی کی روشنی میں اس کا صحیح محل تلاش کرنے کے لیے تاویل کی جاتی ہے، اوّل تومسلمان سے نیک گمان رکھنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں؛ کیونکہ اس کا اسلام خود اس بات کا مقتضی ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ ظن رکھا جائے؛ مگرجب کہ وہ ارکانِ اسلام کومکمل طور پربجالارہا ہے اور غلط کاموں سے بچ رہا ہے تویہ حسنِ ظن اور بڑھ جاتا ہے؛ پھرجس قدر اس شخص میں احکامِ شرع پرپختگی آتی جاتی ہے، اسی قدر اس کے ساتھ نیک گمان بڑھتا چلاجاتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کا اتباع کیا جاتا ہے، اس کی بات مانی جاتی ہے، ایسی حالت میں اگرکوئی امر بظاہر خلافِ شریعت اس سے صادر ہوتا ہے تواس کی زندگی کے یہ سب حالات بتاتے ہیں کہ وہ شخص ایسا نہیں کرسکتا، ایسا نہیں کہہ سکتا، ایسانہیں ہوسکتا۔
کیا عورت بیعت کرسکتی ہے؟
عرض: حضرت عورتیں بھی بیعت کرسکتی ہیں؟۔
ارشاد: فرمایا کہ: تذکرۃ الرشید:۲/۳۳۷ میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے کہ اگرعورتوں کوبیعت کرنے کی اجازت ہوتی تومیری صفیہ مرید کیا کرتی۔
بیعت کیا چیز ہے کس لیے ہوتے ہیں؟
استفسار کیا گیا کہ مرید کس کوکہتے ہیں؟۔
ارشاد: فرمایا کہ مولوی وکیل عبداللہ جان صاحب نے حضرت سہارنپوریؒ سے پوچھا تھا بیعت کیا چیز ہے؟ کس لیے ہوتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ مرید توبہ کرتا ہے اور مراد (شیخ)کواس پرگواہ بناتا ہے وہ کہتے تھے کہ مراد کا لفظ پیر کے معنی میں اس روز میںنے پہلی بار سنا تھا، اس سے طبیعت میں شبہ پیدا ہوا کہ توبہ توخدا کے سامنے کی جاتی ہے اور وہ دل کی حالات سے خوب واقف ہے، اس کوگواہ کی کیا ضرورت ہے "يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَاتُخْفِي الصُّدُورُ" (غافر:۱۹) "ترجمہ:وہ آنکھوں کی چوری کوجانتا ہے اور ان کوبھی جوسینوں میں پوشیدہ ہیں" (بیان القرآن) خود ہی دل میں جواب آیا کہ انسان کے اعضاء بھی تووہاں (آخرت میں) میں گواہی دیں گے لہٰذا گواہی پرکیا اشکال مولوی صاحب موصوف بڑے زیرک اور وسیع المطالعہ شخص تھے، دل میں کافی شکوک وشبہات لیکر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے کہ آج بحث کرونگا؛ مگربات اتنی ہی ہوپائی تھی کہ تمام شکوک وشبہات دفع ہوگئے، اس کے بعد حضرت سے بیعت کی درخواست کی حضرت نے فرمایا کہ آپ کوبیعت کی کیا ضرورت ہے؛ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے توکبھی ضرورت سمجھ کرکوئی کام کیا نہیں؛ انگریزی معاشرت رکھتا ہوں وہ بلاضرورت، بیعت بھی بلاضرورت ہی ہوجاؤنگا، اس کے بعد بیعت ہوگئے اور حضرت نے ان کواسمِ ذات کا ورد بتایا جتنا کثرت سے ہوسکے پھران کے حالات بہت عجیب ہوگئے تھے اللہ نے بہت کچھ نوازا تھا۔
 

محمد اشرف يوسف

وفقہ اللہ
رکن
ذکرجہری کوذکر سری پرترجیح
ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے حضرت تھانویؒ کے پاس لکھا کہ میں ذکرسراً کرتا ہوں، جہراً نہیں کرتا، جس کی دووجہ ہیں، ایک یہ کہ زور سے ذکر کرنے میں سونےوالوں کی نیند خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، دوسرے یہ کہ زور سے ذکر کرونگا تولوگ مجھے بزرگ سمجھیں گے، جس سے طبیعت میں اپنی بڑائی پیدا ہوگی، حضرت نے جواب دیا کہ آپ ذکر زور سے ہی کیا کریں، رہا امرِ اوّل سواس کی تدبیر یہ ہے کہ تنہائی میں کیا کریں جہاں کوئی سویا ہوا نہ ہو، مثلاً مسجد میں اور وہاں بھی اتنے زور سے نہیں کہ محلہ کے لوگ پریشان ہوجائیں گے، رہا امرِدوم سوغور کریں کہ جب آپ ذکر میں بیٹھ کر سردھنیں گے تولوگ آپ کوبزرگ کیا پاگل سمجھیں گے اور نفس نے یہ کہہ کر کہ آپ کوبزرگ نہ سمجھیں ایسی تدبیر سمجھائی کہ لوگ آپ کو بزرگ سمجھیں اور وہ اسی طرح ہے کہ جب آپ آنکھ بند کرکے گردن جھکاکر ذکر سری میں بیٹھیں گے تولوگ سمجھیں کے کہ حضرت ملأ اعلی کی سیرکررہے ہیں اور نکتہ کی بات اس میں یہ ہے کہ آدمی سے عمل کی پابندی دشوار ہوتی ہے، جب آپ جہراً ذکر کریں گے توکچھ لوگوں کوتومعلوم ہوہی جائے گا کہ آپ ذکر کرتے ہیں، اخیررات میں اُٹھتے ہیں، مثلاً مسجد کے مؤذن کوعلم ہوجائیگا؛ پھرکوئی دن ایسا بھی ہوگا کہ نیند غالب ہوگی، سستی ہوگی، اٹھ نہیں پائیں گے، ذکر نہیں کریں گے، تومؤذن وغیرہ کوپتہ چل جائے گا کہ آج میاں اُٹھے نہیں اور جب ذکر سری کریں گے تواس کا کسی کو پتہ نہیں ہوگا کہ اُٹھے کہ نہیں اپنی سستی وکمزوری چھپی رہے گی، اپنی کمزوری وسستی پرپردہ پڑا رہیگا۔
ہرجائی مرید
ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں نے تصوف میں ایک کتاب لکھی ہے، میں نے کہا بہت اچھا اس نے کہا کہ میں پیرتلاش کررہا ہوں، میں نے کہا کہ تصوف میں کتاب پہلے ہی لکھ دی پیر اب تلاش کررہے ہو، اس نے کہا کہ مجھے ایسا پیر چاہئے جودل کی بات بتلادے، میں نے کہا کہ ہمارے اکابر کوتومعاف کرو، میرے پاس کئی روز ٹھہرے، کھانے کے لیے میرے ساتھ جاتے تھے، شیخ کے مکان پر، اسی اثناء میں مولانا الیاس صاحبؒ تشریف لائے ان سے دسترخوان پر کہا کہ میں آپ سے مرید ہونا چاہتا ہوں، حضرت شیخؒ نے لقمہ دیا کہ راستہ چلتوں کا دامن پکڑتے ہو،بیعت ہونا ہے توجاؤ نظام الدین۔
حضرت مولانا الیاس صاحبؒ نے تھوڑی دیر سرجھکایا پھرسراُٹھا کر فرمایا کہ ایک گروہ اور چیلے کا قصہ سناتھا، کوئی شخص کسی گرو کے پاس پہنچا دیکھا کہ ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھےہیں، چاروں طرف خادمین ہیں، معلوم کیا یہ کون ہیں؟ کسی نے جواب دیا کہ یہ گروہ ہیں، اس نے پوچھا کہ ان کا کیا کام ہے، بتلایا کہ ان کوجس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اپنے چیلوں کوحکم کرتے ہیں، کبھی غصہ آتا ہے توان پر ناراض ہوتے ہیں؛ پھر اس نے خادمین کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ بتلایا کہ یہ چیلے ہیں، پوچھا کہ ان کا کیا کام ہے؟بتلایا کہ اپنے گرو کی خدمت کرتے ہیں، آٹے کی ضرورت ہوتی ہے آٹالاتے ہیں، لکڑی لاتے ہیں، غرض یہ کہ ہرضرورت پوری کرتے ہیں، اس پر اس شخص نے کہا کہ پہلے تومیرا جی چاہتا تھا کہ مجھے چیلہ بنوادو، اب تومجھے گروبنوادو، اس واقعہ کوسنا کر حضرت مولانا الیاس صاحبؒ نے فرمایا کہ پہلے چیلے توگرو ہی بننا چاہتے تھے اور اب توخدا بننا چاہیں یعنی یوں چاہتے ہیں کہ مرید ہوکر خدا کی صفات ہمارے اندر آجائیں، اس کے بعد حضرت مولانا الیاس صاحبؒ نے اس شخص سے فرمایا کہ میاں زکریا نے ٹھیک کہا تم میرے پاس آؤتم مجھے دیکھو! میں تمھیں دیکھوں؛ پھردیکھنا کیا رائے ہے؛ پھرمولانا الیاس صاحبؒ تو چلے گئے دہلی اور حضرت رائپوریؒ تشریف لائے ان کے پاس بیٹھ کر ان مہمان نے حضرت رائپوریؒ سے کہا کہ میں آپ سے بیعت ہونا چاہتا ہوں، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ مفتی جی تمہارے مہمان بڑے ہرجائی ہیں، میں نے عرض کیا اور کیا کوئی بھلا آدمی میرے پاس مہمان آتا ہے، جیسا میں ویسا میرا مہمان؛ پھربیعت ہوگئے تھے، حضرت رائپوری رحمۃ اللہ علیہ سے۔
جوگی کے ذریعہ کلمہ کی اشاعت
ارشاد فرمایا کہ دہلی میں ایک بزرگ تھے؛ انہوں نے ایک مرید کی تربیت کی جب دیکھا کہ پختہ ہوگئے ہیں توفرمایا کہ ملتان جاؤ، تبلیغ کے لیے وہ چلے، جوانی کا جوش، گرم خون چلتے چلتے پانی پت پہنچے پیدل کا راستہ تھا وہاں ایک جوگی رہتا تھا، آس پاس سے کوئی مسلمان گزرتا تواس کے قلب پر ایمان پر حملہ کرتا، بڑا صاحب تصرف تھا، اس کوان کا علم ہوا،تواپنے مقام ہی سے تصرف شروع کیاخوب زور لگائےمگر کامیاب نہ ہوا،تب سامنے آیا اورپوچھاتوکون ہے؟کہاں جاتا ہے؟کیاکہتا ہے؟انہوں نے کہا میں مسلمان ہوں،ملتان جاتا ہوں ،کہتا ہوں لاالہ الااللہ،جوگی کےقلب پر ایک ضرب لگائی جس سےوہ باؤلاہوگیا،وہاں سے بھاگااورجوشخص راستہ میں ملتا،اس سے کہتا دیکھو ادھر مت جانا ادھر ایک مسلمان ملتان جاتا ہے جوکہتا ہے لاالہ الاللہ ا سکی مت سننا ،آیا تھا ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے ان کا ایماان سلب کرنے کےلئے مگر انہوں نے اس کوذریعہ بنالیا کلمہ کی اشاعت کا ادھر ان کےشیخ کو اس واقعہ کاادراک ہوا،اس سے گرانی ہوئی،تکدر ہوا،ادھرسے مرید کو احساس ہوا کہ پاؤر ہاؤس سے کرنٹ نہیں آرہا ہے اس لئے بجائے آگے چلنے کے پیچھےلوٹے،جب دہلی پہنچے توڈانٹ پڑی کہ تم کو راستہ کی تبلیغ کے لئے بھیجا تھا؟ہرگز نہیں! ملتان کی تبلیغ کے لئے بھیجا تھا، پھر ایک چلہ اپنے یہاں مجاہدات کرائے اور تاکید کرکے ملتان بھیجا یہ وہاں گئے اور تبلیغ شروع کی تقریباً اسی ہزار آدمی ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے کتنا بڑافیض پہنچا، یہ حضرات سمجھتے تھے کہ جو قوت ہمیں ملی ہے وہ دین کی اشاعت کے لئے ملی ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ مسلمان کو جوقوت بھی ملی ہے مادی جسمانی روحانی سب دین کے لئے ہے۔
کیاغیراللہ کاتصورشرک ہے
ارشاد فرمایا کہ ایک شخص نے دہلی میں مجھ سے کہاکہ آپ نے فتاوی محمودیہ میں تصور شیخ کو جائز قراردیا ہے حالانکہ تصور تو صرف حق تعالی شانہ کا ہونا چاہئے،غیراللہ کا تصور شرک ہے،میں نہ کہا حق تعالی شانہ کا تصور تو ہو ہی نہیں سکتا اس لئے کہ تصور اس چیز کا ہوسکتا ہے جس کے لیے صورت ہو اور حق تعالی اس سے مبرا ہیں(ولا مصور ای ذی صورۃ وشکل(شرح عقائد:۳۸)،لایحد ولا یتصور(سلم العلوم:۲))پھرآپ نے غیراللہ کے تصور کو شرک کہدیا،ہر آدمی کےذہن میں پچاسوں چیزوں کا تصور ہوتا ہے کیاوہ سب مشرک ہیں آپ کے ذہن میں بھی کسی نہ کسی چیز کا تصور ہوگاکیاآپ بھی مشرک ہوگئے۔
شیخ کے پاس زیادہ وقت نہ گزارے
ارشاد:۔آج کل (شیخ سے فیض حاصل کرنے کی)استعداد اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ اکتساب فیض مشکل ہوگیا ہے،اس لئے شیخ کےپاس زیادہ وقت نہ گزارے بلکہ حسب فرصت تھوڑے وقت کے لئے حاضر ہو اور ضروری بات کرکے واپس ہوجائے اور شیخ کی ہدایت کے موافق عمل کرتا رہے اگر زیادہ وقت شیخ کی خدمت میں رہےگا تو دومہلک بیماریوں میں سے کسی ایک میں مبتلا ہوگا یاتو اپنےزعم میں شیخ کی عبادت کو کم سمجھ کر شیخ سے بدظن ہوگا جو بڑی محرومی کاسبب ہے یا اس کی عبادت واعمال کو زیادہ سمجھ کر اپنے شیخ کو ہی سب کچھ سمجھے گا اور دوسرے مشائخ کو حقیر جانےگا ان کی کچھ وقعت ذہن میں نہ ہوگی اس کا مہلک ہونا بھی ظاہر ہے۔
اصلاح قلب کے لئے عمل
عرض:طالب علموں کو کیا عمل کرنا چاہئے جس سے اصلاح قلب ہو؟
ارشاد:حضرت انسؓ کو حضور اقدسﷺ نے فرمایا:
يَا بُنَيَّ إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِيَ لَيْسَ فِي قَلْبِكَ غِشٌّ لِأَحَدٍ فَافْعَلْ ثُمَّ قَالَ لِي يَا بُنَيَّ وَذَلِكَ مِنْ سُنَّتِي وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجَنَّةِ
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ،حدیث نمبر:۲۶۰۲)
ترجمہ:میرے بیٹے اگرتو ایسا کرسکے کہ صبح وشام تیرے دل میں کسی کی طرف سے کدورت نہ ہو تو کرگزر یعنی سب کی طرف سے دل صاف رکھ یہ میری سنت ہے اور جوشخص میری سنت سے محبت کرتا ہے اور جومجھ سے محبت کرتا ہے وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
اور آج کل تو طالب علموں کے لئے بہت ہلکی سی چیز ہے وہ یہ کہ کھانا پیٹ بھر کر نہ کھایاکریں۔
میاں عبدالرحیم ولایتی کا کشف
ارشاد فرمایا کہ میاں عبدالرحیم ولایتی شاہ عبدالرحیم رائپوری کے پہلے شیخ بھی بڑے صاحب کشف تھے رات میں مراقبہ کرکے تمام مریدین ومتوسلین کے حالات معلوم کرلیتے اورجن سے کوئی غلط فعل صادر ہوتا دیکھتے صبح کو انکے پاس خط لکھوادیتے کہ میرے چاند (یہ تکیہ کلام تھا)ایسا ہرگز نہ کرو۔
توحیدمطلب
ارشاد فرمایا کہ مولوی عبدالرحمن صاحب نے بیان فرمایا تھا کہ انبالہ کے ایک شخص کسی بزرگ کے مرید تھے جو کسی پہاڑی پر رہتے تھے اور ان مرید کو پنجابی ملا سے پکارا کرتے تھے مرید سال بھر میں ایک دفعہ پیر سے ملنے جاتے جب بوڑھے ہوگئے تو پہاڑ پر چڑھنا مشکل ہوگیا ایک دفعہ جارہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ انبالہ میں فلاں بزرگ کی قبر ہے کیا اچھا ہوکہ ان سے استفادہ کی اجازت مل جائے،سوچتے سوچتے ہی وہاں پہونچے توپیر صاحب نےفرمایا کہ تمہارے یہاں فلاں بزرگ کامزار ہے بس وہیں چلے جایاکرو کہ اب پہاڑ پر چڑھا نہیں جاتا ،یہ بڑےخوش ہوئے کہ کچھ عرض معروض کے بغیر ہی اجازت مل گئی،غرض! وہاں سے آئےاور انبالہ ہی میں مدفون بزرگ کے مزارپرحاضر ہونا شروع کردیا انہوں نے ان کا مزاج درست کردیا،تہجد کے لئے اٹھےتو صاحب قبر کہتے ہیں کہ ہمارے بیٹے فلاں جگہ ہے،ان کے گھوڑوں کے لئے گھاس دانہ نہیں انہیں گھاس دانہ لاکر دو یہ گئے اور گھاس لاکر دیا، ذکرکرنے بیٹھے تو کہا اجی وہاں اصطبل میں لید پڑی ہوئی ہے اس کو جاکر صاف کرو اس پر ان مرید نے سوچا کہ اس سے تو وہی اچھا تھا کہ سال بھر میں صرف ایک ہی دفعہ پہاڑ پرچڑھناپڑھتا تھا اب جو مزار پر حاضر ہوئے تو صاحب قبر نے ان کو ڈانٹ دیا ،کہدیا ہمارے پاس آنے کی ضرورت نہیں جاؤ ان ہی کے پاس جن کے یہاں پہلے پہاڑ پر جایا کرتے تھے پھر (حضرت قدس سرہ نے) فرمایاکہ توحید مطلب حاصل نہ ہونے کا یہی اثر ہوتا ہے کہ سالک کچھ نہیں کرپاتا محروم رہتا ہے۔
مصیبت دور ہونے کے لئے دعا کرنا
عرض:دفع مصائب کے لئے دعا کرنا رضا بالقضا کے منافی تو نہیں ؟
ارشاد:اس طرح دعا کرنا کہ یااللہ یہ مصائب بھی تیری رحمت ہیں اوران کا ہٹ جانا بھی تیری رحمت ہے ہم اپنے ضعف وکمزوری کی بناپر مصائب کی رحمت کو برداشت نہیں کرسکتے اس لئے اس رحمت کواس رحمت (مصائب کے دفعیہ)سے بدل دے، اس طرح دعا کرنا رضا بالقضا کے منافی نہیں۔
مستورات کو بیعت کرنے کا طریقہ
عرض:جو مستورات آپ(شیخ)کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکیں ان کو بیعت کرنے کی کیاصورت ہے؟
ارشاد:آپ کو آپ کے شیخ نے بیعت کرتے وقت جو کلمات کہلائے تھے ان مستورات سے کہیں کہ تازہ وضو کرکے مصلی پر دورکعت نفل پڑھ کر بیٹھیں پھر وہی الفاظ کہہ لیں جوآپ کےشیخ نے کہلائے تھے بس بیعت ہوگئی اس کے بعد آہستہ آہستہ تعلیم کرنا شروع کردیں باقی ذکر جہری نہ بتادیں سری بتلائیں۔
اسم اعظم
عرض:اسم اعظم کےساتھ جودعا مانگی جائے وہ ضرور قبول کی جاتی ہے،دریافت طلب امر یہ ہے کہ اسم اعظم کیا ہے؟
ارشاد:جب آدمی کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور بے اختیاری کےعالم میں اس کی زبان سے حق تعالی شانہ کو پکارنے کے لئے جونام نکلتا ہے وہی اسم اعظم ہے،مثلاً پانی میں ڈوب رہا ہے ،آگ چڑھی آرہی ہے اوراس کو گھیر رہی ہے اس وقت میں حق تعالی شانہ کے جس نام سے دعا مانگتا ہے بے اختیاری کی حالت میں وہی اسم اعظم ہے ،باقی عامہ علماء ومشائخ لفظ اللہ کو اسم اعظم کہتے ہیں ،حضرت رائے پوری کے وقت میں ایک صاحب مولانا واجد علی صاحب تھے جن کو کشف قبور بھی ہوتا تھا اور حضرت رائے پوری کشف سے متعلق چیزیں ان کو سنوایا کرتے تھے انہوں نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اسم اعظم لفظ اللہ ہے یہ مجھے میکائیل علیہ السلام نے بتلایا ہے ۔
بہت سی خرابیوں کی جڑ
عرض:کچھ نصیحت فرمادیجئے؟
ارشاد:شیخ سعدیؒ کے پیر ومرشد شیخ شہاب الدین سہر وردیؒ نے ان کو دونصیحتیں فرمائی تھیں ،ایک یہ کہ اپنے کو اچھا نہ سمجھنا ایک یہ کہ دوسرے کو حقیر نہ جاننا، بہت سی خرابیاں انہی سے پیدا ہوتی ہیں۔
گشت مقدم ہے یا معمولات
عرض:ایک طرف مقامی گشت ہے دوسری طرف اسی وقت اپنے معمولات ہیں تو گشت میں شریک ہوں یا معمولات پورے کروں؟
ارشاد:گشت کے وقت گشت میں شریک ہوں اور معمولات دوسرے وقت میں پورا کریں۔
عرض:میرے ذمہ مدرسہ میں پڑھانابھی ہے اور بھی دیگر کام ہیں پھرگشت میں کیسے شرکت کروں؟
ارشاد:وقت میں فراخی بھی ہے تنگی بھی ہے ،جیسے ربڑ کھینچنے سے کھچتی بھی ہے اور چھوڑنے سے سکڑجاتی ہے
وقت میں تنگی اور فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
کھینچنے سے بڑھتی ہے چھوڑنے سے جاتی ہے سکڑ

اعمال مبتدعین اوراشغالِ صوفیاء میں فرق
عرض:اعمال مبتدعین اوراشغالِ صوفیاء میں کیا فرق ہے؟
ارشاد:تذکرۃ الرشید میں ایک مکاتبت مولانا گنگوہیؒ اورمولانا تھانویؒ کےدرمیان ہے اس کو دیکھ لیجئے، مختصر یہ کہ مبتدعین اپنے اعمال کوایمان کاجز سمجھتے ہیں یعنی ان کوضروری سمجھتے ہیں اور صوفیاء اپنے اشغال کو بدرجۂ فرض نہیں سمجھتے بمنزلہ مندوبات سمجھتے ہیں؛ بلکہ جہاں ضرورت نہیں سمجھتے وہاں چھوڑبھی دیتے ہیں؛ بلکہ کبھی کبھی ناجائز بھی کہدیتے ہیں جیسا کہ آنے والے واقعہ سے ظاہر ہے۔
ضربیں لگانے کی اجازت نہیں
ارشاد:حضرت مولانا الیاس صاحبؒ کےوالد حضرت گنگوہیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے اعمال مشائخ سے مناسبت نہیں حضرت گنگوہیؒ نےفرمایا احسان حاصل ہے؟ عرض کیا کہ وہ الحمدللہ اتباع سنت کی برکت سے حاصل ہے اس پر ارشاد فرمایا کہ آپ کو ذکر کی ضربیں لگانے کی اجازت اور گنجائش نہیں یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی گلستاں بوستاں پڑھ کر کہے کہ میں آمد نامہ (فارسی کی پہلی کتاب)پڑھنا چاہتا ہوں ۔
احسانی کیفیت کی علامت
عرض:اتباع سنت سے احسانی کیفیت حاصل ہوجانے کی کیاعلامت ہے؟
ارشاد:سنت ایک کھلی کتاب ہے اگر سب اعمال اس کے مطابق ہیں توسمجھا جائےگا کہ احسان حاصل ہے۔
نماز میں خیالات آئیں تو کیا کرے
عرض:نماز میں وساوس آتے ہیں اس کا کیاعلاج ہے؟
ارشاد:اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ اپنے کسی محترم محبوب کے پاس جانا چاہتے ہیں،اس نےآپ کو طلب بھی کیا ہے اور آپ کو وہاں جانے سے وہ خوش بھی ہے مگر راستے میں اس کتے پلے ہوئے ہیں جو آپ کو بھونکتے ہیں اب آپ کے لئی تین صورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ آپ وہاں سے لوٹ جائیں ،بھاگ جائیں اس صورت میں کتے اور میادہ بھونکیں گے ان ککی آواز سن کر دوسرے کتے بھی بھونکیں گے اور جب آپ بھاگیں گے احتمال ہے کہ کہیں ٹھوکر لگے کہیں ٹکر لگے یہ مستق مصیبت ہے بہر حال آپ اپنے مخدوم ومحبوب سے بعید ہوتے چلے جایں گے دوسری صورت یہ ہے کہ آپ وہیں کھڑے ہوکر ان کتوں سے لڑنے لگیں احتمال ہے کہ کتا آپ کو کاٹ لےیا کتے کو آپ ماردیں ایک صورت میں آپ کا نقصان ایک صورت میں محبوب کا نقصان اور جتنے وقت آپ محبوب ومخدوم کے پاس رہنا چاہتے ہیں وہ کتوں سے لڑنے میں خرچ ہوجائےگا تیسری صورت یہ ہے کہ آپ کتوں کے بھنکنے پر وہیں کھڑے ہوکر اپنے مخدوم ومحبوب کو آواز دیں کہ میں آپ کی خدمت میں آنا چاہتا ہوں یہ کتے رکاوٹ ڈال رہے ہیں وہ وہیں سےکتوں کوڈانٹ پلائےگا کتے خاموش ہوجائیں گے وار آپ کے لئے راستہ صاف ہوجائےگا یہ صورت سب سے بہتر ہے کوشش کریں کہ اس صورت پر قابو حاصل ہوجائے یعنی حق تعالی سے مدد طلب کریں دعا کریں۔
فائدہ:خیالات اور ہیں وساوس اور ہیں،جن سے ایمان میں خلل پیدا ہو،مثلاً آسمان کو کس نے پیدا کیا؟اللہ نے! زمین کو کس نے پیداکیا؟ اللہ نے! سورج کو کس نے پیدا کیا؟ اللہ نے! چاند کو کس نے پیدا کیا؟ اللہ نے! اور اللہ کو کس نے پیدا کیا، یہ ہے خطرناک چیز۔
(حدیث میں ہے کہ اگر اس طرح کی نوبت آئے تواللہ کی پناہ طلب کرے اور اس قسم کے تفکرات سے دوسری طرف ذہن منتقل کرلے:عَنْ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ،قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ مَنْ خَلَقَ كَذَا مَنْ خَلَقَ كَذَا حَتَّى يَقُولَ مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ)
کسی بزرگ کو ایک ہی وقت متعدد مقامات میں دیکھنا
عرض:بزرگوں کو بیک وقت متعدد جگہ پر دیکھتے ہیں یہاں بھی موجود وہاں بھی موجود، خانۂ کعبہ میں بھی موجود اور دوسری جگہ بھی موجودیہ کس طرح ہے؟
ارشاد:آپ نے کسی بزرگ کو دیکھا ہے ؟اس طرح کچھ نہیں وجود اشخاصی ہے ،مجاہدات کےذریعہ جسم پر روح کاغلبہ ہوجاتا ہے جس جسم پر روح کاغلبہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے پرتو روح جسم کو روحانی بنالیتی ہے یہاں بھی موجود وہاں بھی موجود۔
تصرف باطنی کامطلب اور حضرت سہارنپوری کاواقعہ
عرض:تصرف باطنی کامطلب کیاہے؟
ارشاد:میرٹھ میں ایک عالم تھے مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ جو دیوبندبھی رہے ہیں اور سہارنپور میں بھی مدرس رہے ہیں،حضرت شیخ الہندؒ سے بیعت تھے جس زمانہ میں حضرت شیخ الہند مالٹا کی جیل میں تھے اس زمانہ میں ان پر یہ کیفیت طاری ہوئی کہ خودکشی کو جی چاہتا ہے،چاقو اٹھاتے ہیں ،کنواں جھانکتے ہیں کہ بس کسی طرح مرجائیں، ذکر وشغل سے بھی طبیعت اکتا گئی،اپنے شیخ بھی وہاں موجود نہیں، انہوں نے خط لکھاسہارنپور حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ کو،مولانا نے جواب دیا تعجب ہے کہ آپ نے مجھے اس کام کا اہل کیوں سمجھا، میں کہاں اور یہ کام کہاں،جب بہت پریشان ہوئے تو میرٹھ سے دیوبند آئے، دیوبند سے سہارنپور اور سہارنپور سے تھانہ بھون جانے کا ارادہ کیا ،مولانا تھانوی کے پاس، مگر تھانہ بھون جانے والی گاڑی نہیں ملی،چھوٹ گئی، اس لئے مجبوراً مدرسہ مظاہر علوم آئے ،حضرت سہارنپوری نے سینہ سے لگایااپنے پاس بٹھایابات چیت کی پھرفرمایاتعجب ہےتم نے ایسا کیوں لکھا بھلا میں اس کا اہل کہاں، انہوں نے ذرا ہمت سے کام لیااور کہا کہ حضرت اگر کوئی کہے کہ آپ اس کے اہل نہیں تو اعتراض تو حضرت گنگوہی پر ہوگا کہ انہوں نے نا اہل کو خلیفہ بنایا،آپ کو جس در سے سب کچھ ملا ہےمیں نے بھی وہیں پرورش پائی ہے میں مستحق رحم ہوں میرے حال پر رحم کیجئےتو فرمایا اچھا، اس کے بعد ذکر بتلایا، تیرہ تسبیح میں تھوڑے سے تغیر کے ساتھ اور فرمایا کہ اخیر شب میں تہجد کےوقت یہ ذکر اتنے زور سے کرنا کہ مجھ تک اس کی آواز پہنچے، مدرسہ کے قریب مولانا کا مکان تھا،انہوں نے کہا چھوڑدیجئے مجھ سے نہیں ہوگا یہ ذکر ،مولانا سہارنپوری نے فرمایا گھبراؤ نہیں جو کچھ کررہےہوکرتے رہو، ہمارے حضرت کے یہاں بھی ایک شخص آئے تھے ان کا بھی یہی حال تھا تو ہمارے حضرت نے بھی ان کو یہی بتایا تھا، غرض اخیر شب میں انہوں نے ذکر کیا پھر صبح نماز کےبعد خود تو حجرہ میں چلےگئے اور ان کو کہہ دیا کہ یہاں دروازہ کےقریب بیٹھ جاؤ آنکھیں بند کرکے؛ چنانچہ وہ بیٹھ گئے وہ کہتے تھے میں نہیں جانتا اندر بیٹھے ہوئے کیا کررہے تھے،جس سے مجھے اپنا قلب زخمی محسوس ہورہا تھا اور اس میں پیپ بھری ہوئی ہے اور حضرت دبادبا کر وہ پیپ نکال رہے ہیں میں کبھی کبھی چونک پڑتا دیکھتا کہ حضرت تو یہاں نہیں ہیں وہ تو اندر ہیں، اشراق کی نماز پڑھ کر حجرہ سے باہر نکلے اور مسکرا کر فرمایا کیا حال ہے؟انہوں نے عرض کیا الحمدللہ ٹھیک ہے ،فرمایا اچھا آؤ اپنے ساتھ لےگئے بخاری شریف کاسبق پڑھانے کے لئے، حضرت مختصر تقریر کےعادی تھےمگر میں نے الٹے سیدھے سوالات شروع کردئے حضرت نے ایک سوال کے کئی کئی جواب دئے اور بعض جوابوں سے متعلق فرمایا اس کو کتابوں میں تلاش نہیں کرنا یہ کتابی نہیں ہے، سبق کے جو انوار وبرکات میں نے دیکھے اور وہاں کھلی آنکھوں سے نظر آئے میں نے اور کہیں نہیں دیکھے،اشراق کے بعد میں حضرت سے عرض کیا کہ میں تھانہ بھون کا ارادہ کیا تھا؟
تو فرمایا کہ ضرور ہو آؤ باقی واپسی میں ایک روز یہاں کے لئے اور رکھنا کہ ابھی خامی رہ گئی ہے، میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا خامی رہ گئی ہے خیر میں تھانہ بھون گیا اور اگلے روز واپس آگیا اور بجائے ایک دن کے دودن حضرت کے پاس سہارنپور ٹھہرا ،اب محسوس ہوتا تھا کہ قلب میں کوئی چیز بھری جارہی ہے جس سے طاقت پیدا ہورہی ہے گویا پہلی حاضری میں قلب کوصاف کیا گندگیوں سے اور دوسری حاضری میں قوت بھری روشنی بھری اس کے بعد فرمایا اب اطمینان ہے جاؤ۔
اور وہ جو فرمایا تھا پہلے کہ تعجب ہے مجھے اس کام کا اہل کیوں سمجھ لیا اس کی وجہ یہ تھی کہ جس زمانہ میں یہ سہارنپور میں تھے حضرت کے معتقد نہ تھے علمی اعتبار سے تو مانتے تھے؛ لیکن باطنی اعتبار سے (جس کو تم پوچھ رہے ہو)نہیں مانتے تھے مگر جب پریشانی ہوئی تو یہی سمجھ میں آیا کہ یہ کام ان سے ہی ہوسکتا ہے تو یہ کہہ کر دل میں جو بےاعتقادی تھی اس کو نکال دیا اب اعتقاد قائم ہوگیا اور نفع بھی ہوگیا۔
 
Top