تصوف شاہی فن ہے
ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا عبدالقادر صاحب رائپوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ تصوف شاہی فن ہے، اس کے لیے شاہی مزاج چاہیے، مثلاً حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ اور حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ جیسا دماغ چاہیے، اب یہ ہم گاؤں ندیوں کے سرآپڑا ہے۔
ہمارا استغفار بھی کثیر استغفار کامحتاج ہے
ارشاد فرمایا کہ حضرت سری سقطیؒ فرمایا کرتے تھے "استعفار نایحتاج الی استغفار کثیر" (ہمارا استغفار بھی کثیر استغفار کا محتاج ہے) اس لیے کہ ہمارا استغفار زبانی ہے، قلبی نہیں پس وہ استہزاء کے درجہ میں ہے، جیسے کوئی شخص کسی کوجوتا مارے اور پھرمعافی مانگے مگرندامت ہونہیں (کہ یہ معافی طلب کرنا نہیں بلکہ استہزاء ہے)۔
حقیقت خُلق
ارشاد فرمایا کہ لوگوں نے "خُلق" چکنی چپڑی اور ہنس ہنس کر بات کرنے کا نام رکھ لیا ہے؛ خواہ دلوں میں بغض ہی کیوں نہ ہو، حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کا قول "الکوکب الدری" میں نقل کیا گیا ہے کہ خُلق مخلوق کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنے کوکہتے ہیں، جس سے خالق بھی راضی ہو، چکنی چپڑی بات کرنے سے جب کہ دلوں میں بغض ہوخالق کہاں راضی ہوتا ہے اور مخلوق کوبغض قلبی کا علم ہوجائے تووہ بھی کہاں راضی ہے۔
شیخ کے ساتھ محبت وعقیدت
ارشاد فرمایا کہ شیخ سے فیض پہنچنے کا مدار (شیخ کے ساتھ) محبت وعقیدت (رکھنے پر) ہے، ایک صاحب نے کہا کہ محبت کے لیے توعقیدت لازم ہے، اس لیے تنہا محبت ہی اصل ٹھہری توارشاد فرمایا کہ محبت کے لیے عقیدت لازم نہیں، باپ کوبیٹے سے جب کہ اس کے حالات صحیح نہ ہوں محبت ہوتی ہے، مگرعقیدت نہیں ہوتی۔
غیبت کی اقسام
ارشاد فرمایا کہ علامہ بن عابدین شامیؒ نے لکھا ہے کہ غیبت کی مختلف اقسام ہیں، مثلاً کسی کی تعریف سن کر طنزاً یہ کہے کہ جی ہاں، میں اس کوجانتا ہوں، وہ کیسا ہے؟ یہ بھی غیبت ہے، کسی کی برائی لکھے یہ بھی غیبت ہے، کسی کا عیب زبان سے بیان کرے یہ بھی غیبت ہے اور اشارہ سے کسی کا عیب بیان کرے یہ بھی غیبت ہے؛ نیزیہ بھی لکھا ہے کہ غیبت کی سخت ترین صورت یہ ہے کہ غیبت کرنے پر جب کوئی منع کرے توکہے کہ میں غیبت کب کررہا ہوں، میں توواقعہ بیان کررہا ہوں، سچ مچ کہہ رہا ہوں، اس لیے کہ جب بات سچی ہو اور بری لگتی ہو وہی توغیبت ہے؛ پس! وہ اپنے اس جواب سے اس کوجائز قرار دے رہا ہے؛ حالانکہ اس کی ممانعت نصِ قطعی سے ثابت ہے (ارشادِ خداوندی ہے) "وَلَايَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا" (الحجرات:۱۲) (تم میں سے ایک، ایک کی غیبت نہ کرے) گویا اس کا قول نصِ قطعی کی تردید کومستلزم ہے (اور نص قطعی کی تردید کا اشد ہونا ظاہر ہے)۔
کسی کوبرا کہنا
ارشاد فرمایا کہ کسی کوبرا کہنے سے اس کی برائی تودور ہوتی نہیں؛ البتہ خود برائی میں شریک ہوجاتا ہے
(پس ایسا کام کیوں کیا جائے، جس میں نہ اپنا نفع نہ دوسرے کا بلکہ اپنا نقصان ہے)۔
استغفار کی اہمیت
ارشاد فرمایا کہ ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ نبی کریمﷺ ایک ایک مجلس میں ستر ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار کی کیا اہمیت ہے) اور اس کے ہم کتنے محتاج ہیں، کہ نبی کریمﷺ باوجود اپنی شان میں:
"لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَاتَأَخَّرَ"۔
(الفتح:۲)
ترجمہ:تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف فرمادے۔
(بیان القرآن)
وارد ہونے کے باوجود معصوم ہونے کے ایک ایک مجلس میں اتنا استغفار کرتے تھے توہمیں باوجود سراپا تقصیر ہونے کے کتنا استغفار کرنا چاہیے۔
پریشان کن خیالات کا دفعیہ
ارشاد فرمایا کہ پریشان کن خیالات کودفع کرنے کے درپہ نہوجئے درود شریف کی کثرت رکھئے ان کی وجہ سے کام بند نہ کیجئے جیسے کوئی آدمی بازار جاتا ہے، وہاں طرح طرح کی آواز، ہارن کی، کتوں کے بھونکنے کی آواز سنتا ہے، طرح طرح کی چیزیں دیکھتا ہے؛ لیکن ان کی وجہ سے اپنا کام بند نہیں کرتا
(بند کرنا بڑی بات ہے، اس میں کچھ کمی بھی نہیں آنے دیتا؛ بلکہ اس کوپورا پورا انجام دیتا ہے)۔
اعمال کے ضائع ہونے کے تین سبب
ارشاد فرمایا کہ حضرت گنگوہیؒ فرماتے تھے کہ انسان کے کیے کرائے کے ضائع ہونے کے تین سبب ہوتے ہیں، اوّل ناموافق کھانا، دوم ناجنس کی صحبت، سوم ارتکاب معصیت (پس سالک کے لیے ضروری ہے کہ ان تینوں امور سے بالکلیہ اجتناب کرے؛ تاکہ اس خسرانِ عظیم سے محفوظ رہ سکے)۔
لطیفہ غیبی
ارشاد فرمایا کہ حضرت (مولانا رشید احمد صاحب) گنگوہیؒ سے کسی نے شکایت کی کہ رات کوخواب میں تہجد کے لیے کوئی صاحب روزآنہ جگادیا کرتے تھے ایک روز میں نے اٹھنے میں سستی کی تووہ خواب بند ہوگیا اس پر حضرت گنگوہیؒ نے ارشاد فرمایا:
"لطیفۂ غیبی مہمانیست نازک مزاج کہ بادنی بے التفاتی رومیگرداند"۔
ترجمہ:یعنی لطیفہ غیبی ایسا نازک مزاج مہمان ہے جو ذراسی بے توجہی سے منہ موڑلیتا ہے۔
(اس لیے سالک کوچاہیے کہ ایسے لطائف کی قدر کرے اس کوفضلِ خدا سمجھ کر اس کا زیادہ سے زیادہ شکرادا کرے۔
بیماری کی وجہ سے ترکِ عمل
ارشاد فرمایا کہ اگرکوئی شخص نیک عمل کرتا تھا؛ پھربیماری کی وجہ سے وہ عمل نیک نہیں کرپاتا تو(حق تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے) ملائکہ کوحکم ہوتا ہے کہ بیماری کے زمانے میں بھی اس کے اس نیک عمل کولکھتے رہو، جس کووہ صحت کے زمانہ میں کرتا تھا (اور اب بیماری کی وجہ سے نہیں کررہا ہے) پھرجب وہ ٹھیک ہوجائے توپھر شروع کردے؛ اگرصحت کے بعد نہ کرے گا توپھر نہ لکھا جائے گا (احقرجامع ومرتب عرض کرتا ہے کہ اس میں بڑی تسلی ہے ان حضرات کے لیے جوبیماری یاکسی اور معقول عذر کی وجہ سے اپنا معمول پورا نہ کرسکیں اور اس کے فوت ہونے پر ان کوافسوس ہو)۔
مصائب بھی نعمت ہیں
ارشاد فرمایا کہ مسلمان جب تک مصائب میں مبتلا نہیں ہوتا حق تعالیٰ شانہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا
(اس لیے مصائب بھی بندۂ مؤمن کے لیے اللہ پاک کی بڑی نعمت ہیں)۔
رمضان شریف میں کسی عمل کی عادت
ارشاد فرمایا کہ رمضان شریف میں جس عمل نیک کا کوئی شخص معمول بنالیتا ہے تواس کا کرنا رمضان شریف کے بعد سہل ہوتا ہے، رمضان شریف کے بعد اس کی عادت رہتی ہے؛ اسی طرح اگرکوئی شخص رمضان شریف میں گناہ کرتا ہے تواس کے اثرات رمضان کے بعد بھی باقی رہتے ہیں اور اگر عادت بنالیتا ہے تورمضان شریف کے بعد بھی اس کی عادت رہتی ہے، اس کا چھوٹنا بہت دشوار ہوتا ہے
(اس لیے اس ماہِ مبارک کوطاعات اور اعمالِ صالحہ سے مشغول رکھے اور لغویات ومعاصی سے بہت ہی اجتناب کرے کہ ان میں مشغول رہنا بڑی محرومی ہے، حق تعالیٰ شانہٗ ہم سب کی حفاظت فرمائیں)۔
معمول کا ناغہ کردینا
ارشاد فرمایا کہ کسی معمول کوکبھی کبھی ناغہ کرتے رہنے سے اس پردوام دشوار ہوجاتا ہے (اس لیے حتی المقدور سالک کواپنا معمول ناغہ نہ ہونے دینا چاہیے، جس طرح بن سکے اس کوپورا کرنے کی کوشش کرے اس کے ثمرات وبرکات پورے طور پر جب ہی میسر آسکتے ہیں، جب کہ اس پردوام اختیار کرے، حدیث پاک میں بھی اسی عمل کواحب الاعمال کہا ہے، جس پر مداومت ہو، ارشادِ نبوی ہے "أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ"
(بخاری، كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا،بَاب فَضِيلَةِ الْعَمَلِ الدَّائِمِ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ وَغَيْرِهِ،حدیث نمبر:۵۹۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)
رواہ الشیخان، حق تعالیٰ شانہ کے نزدیک وہ عمل زیادہ محبوب ہے جس پر دوام ہوگووہ عمل تھوڑا ہی ہو)۔
توبہ کی تلقین پر توبہ سے انکار
ارشاد فرمایا کہ جوشخص توبہ کی تلقین کرنے پر یہ کہے کہ میں کیوں توبہ کروں؟ میں نے کیا قصور کیا ہے؟ توفقہاء نے اس کے لیے بڑا سخت کلمہ لکھا ہے، میں اس کوکہہ نہیں سکتا (میرے خیال میں اس کی وجہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا قول میں نے کیا قصور کیا؟ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ معصوم ہے، خطا سے پاک ہے؛ حالانکہ مطابق حدیث نبوی "کُلُّکُمْ خَطَاؤنَ وَخَیْرالْخَطَائِیْن التَّوَّابُوْنَ الْمُسْتَغْفِرُوْنَ" ہرشخص بجز انبیاء کرام علیہم السلام کے خطا کار ہے، پس! اس کا یہ قول مستلزم ہے اس قسم کی حدیث کی تردید کوجومعمولی چیز نہیں؛ بلکہ امرِعظیم ہے)۔
مجلس شیخ میں عامی شخص کا ادب
ارشاد فرمایا کہ عامی شخص کوشیخ کی مجلس میں آنکھیں بند کرکے تسبیح پڑھتے رہنا چاہیے ایسا نہ ہوکہ شیخ کے کسی عمل سے بسبب اپنی نادانی کے بدظن ہوجائے اور فیض سے محروم رہے۔
حسن ظن کے لیے دلیل کی حاجت نہیں
ارشاد فرمایا کہ حسن ظن (جوکہ مطلوب ہے کہا گیا ہے "ظُنُّوْا بِالْمُوْمِنِیْنَ خَیْرًا" مسلمان کے ساتھ اچھا گمان رکھو) کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں؛ سوء ظن (جوکہ مذموم ہے اس سے اجتنا ب کا حکم ہے، ارشاد خداوندی ہے "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ" (الحجرات:۱۲) ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچا کرو (بیان القرآن)) کی دلیل نہ ہونا اور مسلمان کا اسلام ہی اس کے لیے کافی ہے؛ البتہ سوء ظن کے لیے مستقل دلیل کی حاجت نہیں ہے
(بغیر دلیل معتدبہ کے کسی کے ساتھ بدگمانی گناہ ہے، حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد "إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ"
(الحجرات:۱۲) بعض گمان گناہ ہوتے ہیں)۔
مشائخ کا عوام کوخلاف ورزی کرنے پر تنبیہ نہ کرنا
ارشاد فرمایا کہ حضرت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ مشائخ نے عوام کی عادت خراب کی ہے کہ خلاف ورزی کرنے پر ان کوتنبیہ نہیں کرتے اور اس کا نام اخلاق رکھا ہے، یہ اخلاق نہیں اہلاک ہے۔
دین کی طلب پیدا کرنا
ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا الیاس صاحبؒ (بانی تبلیغی جماعت) فرمایا کرتے تھے کہ اس دور میں سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں دین کی طلب نہیں ان کے دلوں میں دین کی طلب پیدا کردی جائے۔
دنیا عالمِ تلبیس ہے
ارشاد فرمایا کہ یہ دنیا عالمِ تلبیس ہے، ایک ہی صف میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین کھڑے ہوتے تھے؛ اسی طرح دلائل حقہ کے ساتھ دلائل باطلہ ملتبس ہیں۔
طریق کار کی غلطی
ارشاد فرمایا کہ مسلمان حکومت کے خلاف ناخوشی کے اظہار کے لیے جلسے کرتے ہیں ان سے کیا ہوتا ہے، ہم کو چاہیے کہ حکومت والوں کے دلوں میں اپنی اتنی قدر پیدا کر دیں جس سے کہ وہ ہماری خفگی وناراضگی کوبالکل برداشت نہ کرسکیں اور یہ ظاہر ہے کہ احکامِ شرع پرپورے پورے عامل بننے سے ہوگا، خالی زبان سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کا دعویٰ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
نسبت کی تعریف
ارشاد فرمایا کہ حضرت رائپوریؒ ثانی سے کسی نے سوال کیا کہ نسبت کس کوکہتے ہیں؟ توفرمایا کہ اخلاقِ فاضلہ اور اعمالِ صالحہ کی توفیق کونسبت کہتے ہیں
(یعنی حضورِاقدسﷺ کے جتنے اخلاق ہیں ان میں سے ایک ایک خلق کواختیار کیا جائے اور جتنے عمل اللہ اور اس کے رسول کومحبوب ہیں ان کوکیا جائے اور جتنے عمل ان کومبغوض وناپسند ہیں ان سے اجتناب کیا جائے بس اسی کا نام نسبت ہے، فرمودۂ حضرت قدس سرہٗ)۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواپنے اوپرنفاق کا اندیشہ
ارشاد فرمایا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی جماعت اپنے اوپر نفاق کا اندیشہ رکھتی تھی
(ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے بدر میں شریک ہونے والے تیس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوپایا سب کے سب اپنے اوپر نفاق کا اندیشہ رکھتے تھے
(جمع الفوائد:۲/۱۶۲) اس کے علاوہ اور بھی اس طرح کی روایات ہیں، جب صحابہ کرامؓ اپنے اوپر نفاق کا اندیشہ رکھتے ہیں توغیروں کوتوبدرجہ اولیٰ اس کا اندیشہ ہونا چاہیے)۔
نفع وضرر اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے
ارشاد فرمایا کہ ایک سال بعض جگہ سے اطلاع ملی کہ یہاں بالکل بارش نہیں جس کی وجہ سے فصل برباد ہورہی ہے، بعض جگہ سے خبر آئی کہ یہاں بارش بہت ہے، زمین میں پانی ٹھہرگیا جس کی وجہ سے فصل بیکار ہوگئی؛ اسی طرح جب میں پنجاب بھالپور گیا تودیکھا شاندار فصل ہے، پکی کھڑی ہے نہ بارش کی کمی ہے نہ زیادتی؛ مگر کھیتی کاٹنے والا کوئی نہیں اس لیے کہ سب شدید بخار میں مبتلا ہیں؛ پھرفرمایا کہ اس دنیا میں جس چیز پراعتماد ہوتا ہے، حق تعالیٰ شانہٗ اس کوناکام بنادیتے ہیں؛ اسی طرح جوچیز نفع دینے والی سمجھی جاتی ہے، اس کونقصان دہ ثابت کردیتے ہیں
(جیسا کہ کھیتی کاٹنے والوں پراعتماد تھا، ان کوبیمارکرکے ناکام بنادیا، بارش نفع کی چیز سمجھی جاتی ہے، اس کو نقصان دہ اور کھیتی کوتلف کرنے والا بنادیا)۔
بیوی سے وطی میں اجر ہے
ارشاد فرمایا کہ اگربیوی سے اس نیت کے ساتھ وطی کی جائے کہ نظر محفوظ رہے نامحرم پرنہ پڑے تواس میں اجر ہے:
"لَکَ فِیْ جِمَاعِ زَوْجتک أَجْر"۔
(مجموعہ چہلِ حدیث:۳۱، مطبوعہ: یحیویٰ سہارنپور)
ترجمہ:تیرےلیے اپنی بیوی سے جماع کرنے میں اجر ہے۱۲۔
حقیقتِ تقویٰ
ارشاد فرمایا کہ حضرت عمرؓ نے ایک صحابی سے دریافت کیا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے پوچھا کبھی خاردار وادی کانٹوں والے راستہ پر چلے ہو؟۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا جی ہاں! دریافت کیا کیسے چلے ہو؟ فرمایا دامن سمیٹ کر اور بدن کوبچاکر کہیں ایسا نہ ہو کوئی کانٹا بدن یاکپڑوں میں لگ جائے، فرمایا کہ بس! اسی کا نام تقویٰ ہے؛ پھر فرمایا (حضرت قدس سرہٗ نے) روزہ دار روزہ کی حالت میں مختلف چیزیں کھانے پینے کی دیکھتا ہے؛ مگرچکھتا نہیں اس اندیشہ سے کہ کہیں حلق سے نیچے اُترکر روزہ کوفاسد نہ کردے؛ حالانکہ منہ میں کسی چیز کے رکھنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا؛ مگرپھربھی اس کوفکر ہوتی ہے؛ اسی طرح جب لڑکی کی منگنی کردی جاتی ہے توخود اس کوبھی اور اس کے گھروالوں کوبھی فکر ہوجاتی ہے؛ ایسا نہ ہو کہ لڑکی سے کوئی ایسا امرسرزد ہوجائے جولڑکے یالڑکے والوں کوپسند نہ ہو اور ان کوخبر ہوجانے پر رشتہ منقطع کرنے کی نوبت آئے، بس! اس طرح کی فکر ہرمعاملہ میں ہوجائے ایسا نہ ہوکہ کوئی قول وفعل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مرضی کے خلاف صادر ہو یہی ہے تقویٰ۔
پیٹ بھرکر کھانا
ارشاد فرمایا کہ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے "الشبع بدعۃ حدثت بعدالمأتین" یعنی پیٹ بھرکھانا ایسی بدعت ہے جودوسری صدی ہجری کے بعد وجود میں آئی ہے
(مگربدعت سے مراد اصطلاحی بدعت نہیں جس کوحدیثِ پاک میں ضلالت کہاگیا ہے)۔
زبان کی حفاظت
ارشاد فرمایا کہ زبان حق تعالیٰ شانہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس سے مختلف پاکیزہ اعمال (طاعات وعبادات تلاوت ذکر تسبیح استغفاروغیرہ) کیئے جاتے ہیں، اس کوانہی میں مشغول رکھنا چاہیے گندی چیزوں میں جھوٹ، غیبت، چغلخوری، بہتان، گالی گلوچ وغیرہ میں اس کومشغول کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی صاف ستھرے کپڑے کوغلاظت میں ڈالدیا جائے۔
زبان ملک نہیں امانت ہے
ارشاد فرمایا کہ زبان اپنی ملک نہیں کہ اس سے جوچاہو کام لو؛ بلکہ امانت ہے، اس لیے اس کوانہی کاموں میں مشغول رکھنا چاہیے، جن کے لیے یہ عطا کی گئی ہے، یعنی ذکر تلاوت وغیرہ میں گندے کام یعنی غیبت، چغلخوری وغیرہ سے اس کوبچانا چاہیے
(ایک موقع پرحضورﷺ نے حضرت معاذؓ سے زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اِس کولایعنی باتوں سے روکو؛ انہوں نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے نبیﷺ! کیا ہم سے مواخذہ کیا جائیگا، ان باتوں پرجوہم زبان سے بولتے ہیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے معاذؓ تجھ کوتیری ماں ضائع کرے بہت سے لوگوں کوجہنم میں منہ کے بل زبان کی کٹی ہوئی کھیتیاں ہی ڈالیں گی)۔
(مشکوٰۃ:۱/۱۴)
سب سے افضل دعائیں
ایک صاحب نے کچھ مطبوعہ دعائیں
(جن کے بڑے بڑے فضائل بھی لکھے تھے؛ حالانکہ وہ اسی طرح ان کے فضائل احادیث سے ثابت نہ تھے) حضرت کودکھلائیں اور دریافت کیا کہ ان دعاؤں کا پڑھنا کیسا ہے؟۔
توملاحظہ فرماکر ارشاد فرمایا کہ دعائیں توصحیح ہیں اور ان کا پڑھنا بھی درست ہے؛ مگراس نیت سے پڑھنا کہ یہ سب احادیث سے ثابت ہیں درست نہیں؛ نیز فرمایا کہ سب سے افضل دعائیں وہ ہیں جوقرآنِ پاک میں وارد ہیں ان کے بعد وہ جوحدیث شریف سے ثابت ہیں۔
فرشتے جب چاہیں تلاوت نہیں کرسکتے
ارشاد فرمایا جوملائکہ وحی لانے پر مقرر تھے وہ وحی لاکر پہنچاگئے جب اور جس وقت بھی جی چاہے، وہ تلاوت کرلیں، اس پر وہ قادر نہیں، یہ نعمتِ عظمیٰ انسان کوحاصل ہے کہ جب چاہے تلاوت کرلے پس! مسلمان کوچاہیے کہ اس نعمتِ عظمیٰ کی قدر کرے اورجس قدر ہوسکے کلامِ پاک کی تلاوت میں مشغول رہے کہ بہت ہی اجروثواب کا کام ہے، ایک ایک حرف پردس دس نیکیاں ملتی ہیں
(یہ بھی اس وقت جب کہ بے وضو نماز سے باہر تلاوت کرے باوضو نماز سے باہر تلاوت کرے توایک حرف پر پچیس نیکیاں ملتی ہیں اورنماز میں بیٹھ کر تلاوت کرے توایک حرف پر پچاس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں اور نماز میں کھڑے ہوکر تلاوت کرے توایک حرف پرسو نیکیاں دیجاتی ہیں
(قالہ علی احیاء العلوم:۱/۲۷۵))۔
آنے والوں کے قدم نجات کا ذریعہ
ایک صاحب نے حضرت کے پاس لکھا کہ لوگوں کی اپنے پاس آمد ورفت سے وحشت ہوتی ہے، جی تنگ ہوتا ہے اور ان پر غصہ آتا ہے توبندہ (مرتب) کومخاطب بناکر املاکراتے ہوئے، ارشاد فرمایا کہ:حضرت حاجی امداداللہ صاحب نوراللہ مرقدہٗ نے فرمایا کہ آنے والوں کے قدموں کواپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں، جوآتے ہیں وہ خود نہیں آتے؛ بلکہ بھیجے جاتے ہیں
(من جانب اللہ آتے ہیں، ان کی خدمت ظاہر ہے کہ نجات کا ذریعہ ہے)۔
خدمت کا ثمرہ
ارشاد فرمایا: "ہرکہ خدمت کرد اومخدوم شد" جوشخص اپنے بڑوں کی خدمت کرتا ہے حق تعالیٰ شانہ اس کومخدوم بنادیتے ہیں، اس کے چھوٹے اس کے لیے خادم بن جاتے ہیں۔
ایک شعر کا مطلب
سوال: اس شعر کا کیا مطلب ہے؟ شعر یہ ہے: ؎
بمے سجادہ رنگین کن گرت پیرمغاں گوید کہ سالک بے خبر نبود زراہ ورسم منزلہا
ترجمہ:مصلے کوشراب میں رنگین کرلو اگرپیرمغاں ہے، اس لیے کہ سالک منزل کی راہ ورسم سے بے خبر نہیں ہوتا۔
جواب:ارشاد فرمایا کہ جوشخص علم، عمل، تقویٰ، ورع اور اخلاق وغیرہ میں کامل ہوگا وہ خلافِ شرع کا حکم نہیں دے گا، اس لیے اس کی اطاعت کروگووہ کسی ایسے کام کا حکم کرے جوبظاہر خلافِ شرع معلوم ہو؛ لیکن دعویٰ کرنے کوتوبہت ہیں کہ میں ایسا ہوں ویسا ہوں؛ مگرہوتے ہیں ایسے خال خال ہی۔
شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے شعرِ بالا کے متعلق سوال
پھرفرمایا کہ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ کے یہاں ایک طالب علم تھا اس نے شاہ صاحب سے اس شعر کا مطلب پوچھا شاہ صاحبؒ نے اس سے ایک رات فرمایا کہ فلاں جگہ فلاں طوائف کے یہاں جاؤ، کچھ رقم بھی وہاں کے خرچ کے لیے دی، یہ سن کربڑا حیران.. آخرشاہ صاحبؒ کیا فرمارہے ہیں، شاہ صاحب نے پھر کہا اور اصرار کے ساتھ کہا تومجبوراً وہاں گیا، ساتھ میں مصلی بھی لے گیا اوررات بھروہاں باہر نفلیں پڑھ کر صبح کوواپس آگیا، شاہ صاحبؒ نے دریافت فرمایا کہ کہو رات کیسی گزری؟ اس نے بتایا، شاہ صاحبؒ نے اگلی شب پھر بھیجا یہ اس رات بھی صبح تک نفلیں پڑھ کر آگیا، جب رات آئی توشاہ صاحب نے پھربھیجا یہ گیا اور کچھ حصہ رات کا نفلوں میں گزار کر مصلی لپیٹ کر رکھدیا کہ دیکھنا توچاہئے آخرماجرا کیا ہے، شاہ صاحب روزانہ بھیجتے ہیں، اتنے میں آہ آہ کی آواز اس کے کان میں پڑی، یہ اندر گیا اور اس طوائف سے آہ آہ کرنے کی وجہ معلوم کی، اس نے بتایا کہ اب تک تومیری عصمت محفوظ تھی، اب مجھے فکر ہے؛ کیونکہ آج تونے جلدی ہی مصلی اٹھالیا، اس نے پوچھا کہ جب تیری عصمت محفوظ ہے تویہاں تیرا قیام کیسے؟ یہاں تودوسری طرح کی عورتیں رہتی ہیں، اس نے جواب دیا کہ میری شادی ایک نوجوان سے ہوئی تھی، جب بارات مجھے لیکر چلی توراستہ میں ڈاکوؤں نے بارات کولوٹ لیا اور مجھے بھی یہاں لاکرفروخت کرگئے، اس طالب علم نے تحقیق کی اس کا وطن پوچھا اس کے والد کا نام پوچھا شوہر کا نام وغیرہ معلوم کیا، تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اس کی بیوی ہے اور یہ اس کا شوہر ہے، اس نے پوچھا آپ کہاں رہے؟ اس نے بتلایا کہ جب بارات لٹ گئی میں نے بھی شاہ صاحبؒ کے یہاں آکر طالب علمی اختیار کرلی، اس کے بعد جوکچھ ہونا تھا ہوا، صبح کوشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا توشاہ صاحبؒ اس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گئے اور فرمایا کہو بھائی! اس شعر کا مطلب سمجھ میں آگیا، اس نے جواب دیا: جی ہاں! خوب سمجھ میں آگیا۔
مدرسین کے لیے جامع نصیحت
ایک صاحب نے تحریراً عرض کیا کہ میں فلاں مدرسہ میں پڑھاتا ہوں اور فلاں سے بیعت ہوں، آپ کچھ نصائح فرمادیں، اس پر ارشاد فرمایا کہ طلبہ اور کتابوں کا پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کریں، طلبہ کواپنا محسن سمجھیں کہ انہوں نے آپ کے علوم کی تخم ریزی کے لیے اپنے قلوب کوپیش کیا اور اس طرح آپ کے علوم متعدی ہوئے؛ ورنہ تومحدود ہوکر رہ جاتے، اس لیے صلبی اولاد کی طرح اپنے طلبہ پر شفقت کریں آپ کی خامیوں کوآپ کے اساتذۂ کرام نے دور کیا ہے، اپنے طلبہ کی خامیوں کوآپ دور کریں جوکتاب پڑھائیں، پورے مطالعہ کے بعد پڑھائیں؛ اگرچہ متعدد بار پڑھاچکے ہوں، حق تعالیٰ شانہ ہرمطالعہ میں کچھ نہ کچھ نیا فیض عطا فرماتے ہیں، دل سے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ علم وعمل میں برکت دے۔
بیعت بغرضِ خلافت
میرے والد صاحب سناتے تھے کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں کوئی گاؤں کا آدمی آیا، بیعت ہوا اس کے بعد کچھ دیرتک توخاموش رہا کہ حضرت ہی خود ارشاد فرمائیں گے؛مگرجب حضرت نے کچھ نہ فرمایا توبولا ہجرت جی! وہ سجراپجرا مجھے بھی دیدیا ہوتا، حضرت نے فرمایا توکیا کرے گا؟توجواب دیا کہ میں بھی تھاری طرح مرید مراد کرلیا کرونگا۔
حضرت تھانویؒ سے سوال خلافت
حضرت تھانویؒ کی خدمت میں ایک شخص نے دوروپیہ کا ہدیہ پیش کیا اور عرض کیا کہ مجھے بھی خلافت دیدی ہوتی؟ حضرت نے فرمایا خلافت اتنی سستی ہے؟ دوروپیہ میں توکسبت
(یعنی نائی کا وہ تھیلا وغیرہ جس میں وہ اپنے اوزار استرہ، قینچی وغیرہ رکھتا ہے) بھی نہیں آتی خلافت کیا ملے گی۔
فائدہ: منشاء ان دونوں واقعوں کے ذکر کا یہ ہے کہ مشائخ کی خدمت میں حاضر ہونا،بیعت ہونا اپنی اصلاح کی نیت سے ہونا چاہیےخلافت ومجاز بننے کا خیال ہرگز نہ ہونا چاہئے کہ یہ محرومی کا سبب ہے، اس کے ہوتے ہوئے فیض نہیں پہنچتا۔
اہل اللہ کوستانے سے بہت ہی ڈرنا چاہیے
(ایک عبرت ناک واقعہ)
کچھ روافض نے ایک بزرگ کا مذاق بنانا چاہا، فرضی طور پر ایک شخص کومردہ بنایا اور چار پائی پر لٹاکر ان بزرگ کے پاس گئے کہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھادیں، طے یہ کیا تھا کہ جب وہ نماز پڑھائیں گے تودوتین تکبیر ہوجانے کے بعد وہ شخص جس کومیت بنایا گیا ہے ان بزرگ کولپٹ جائے، ان بزرگ نے کہا کہ اس کوغسل تودلادو تب نماز پڑھیں گے انہوں نے کہا کہ غسل تودے رکھا ہے، فرمایا کہ وہ غسل معتبر نہیں پھرغسل دو، اس پروہ اس کووہاں سے اُٹھاکر لے آئے دیکھا تووہ مرا پڑا ہے؛ اسی لیے ان بزرگ نے غسل کے لیے فرمایا تھا کہ زندگی کا غسل معتبر نہیں مرنے کے بعد غسل دینا چاہیے۔
فائدہ:ان لوگوں نے ان بزرگ کوستانا چاہا، حق تعالیٰ شانہ نے اس کا انتقام لے لیا، اہل اللہ کوستانے سے بہت ہی ڈرنا چاہیے کہ ان کی الٹی بھی سیدھی ہوجاتی ہے، حدیثِ قدسی میں ہے کہ جوشخص میرے ولی سے دشمنی رکھتا ہے، اس کواذیت دیتا ہے، اس سے میرا اعلانِ جنگ ہے۔
(کذا فی البخاری)
علم کوعمل کی تلاش
ارشاد فرمایا ،علم عمل کوتلاش کرتا ہے، عمل نہ ہونے پررخصت ہوجاتا ہے، جیسے کوئی آدمی اونٹ پرسوار مکان کے دروازہ پر اس کے مالک کوآواز دیتا ہے، اس کے جواب نہ دینے پر چلاجاتا ہے، پھر فرمایا علم ایک نور ہے اور جہالت ظلمت ہے؛ اسی واسطے جب کوئی چیز سمجھ میں آجاتی ہے توکہا جاتا ہے کہ مجھے روشنی مل گئی، اندھیرے سے روشنی میں آگیا۔
کتے کا تقویٰ
ارشاد فرمایا کتا ایک ٹانگ اُٹھاکر ایسے طریق سے پیشاب کرتا ہے کہ اس کی ٹانگ اور جسم کا کوئی حصہ ملوث نہ ہو، یہ اس کا تقویٰ ہے، یعنی احتیاط ہے۔
فائدہ: اس سے مادی ومعنوی گندگیوں سے بچنے کا جوسبق ہمیں ملتا ہے ظاہر ہے۔
آدمی اپنے آپ کوبے قصور نہ سمجھے
کسی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت عامل وغیرہ سے بہت پریشان ہوں سحروآسیب ہے یاکچھ اور، دعا وتوجہ فرمائیں۔
ارشاد فرمایا: آدمی اپنے آپ کوبے قصور نہ سمجھے خبر نہیں کونسی بات پر کس طرح پکڑ ہوجائے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی سمجھتا ہے کہ میں نے کوئی قصور نہیں کیا حالانکہ بے خبری میں وہ اس کوکئے ہوئے ہوتا ہے، اس پرپکڑ ہوجاتی ہے۔
مرید کوشیخ کے ساتھ غائبانہ ربط
عرض:مرید کوشیخ کے ساتھ غائبانہ ربط کیسے رہتا ہے؟ قلبی طور پر استفادہ جاری کھنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟۔
ارشاد:یہ الفاظ کی باتیں نہیں باقی اتنا سمجھ لوکہ آدمی جب کسی شیخ کواپنا مقتدا مان لیتا ہے، ان کے اقوال واعمال کا اتباع کرتا ہے، ہرچیز میں اس کی کوشش کرتا ہے کہ ان کے طریقے کواختیار کرے تواس سے آہستہ آہستہ ربط پیدا ہوجاتا ہے، جیسے مولانا الیاس صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ میں نے حضرت مولانا خلیل احمدصاحبؒ کی خدمت میں خط لکھا تھاکہ میرا دل چاہتا ہے کہ چندروز حضرت کی خدمت میں رہوں، حضرت نے فرمایا کہ تم کومجھ سے کچھ حاصل کرنے کے لیے یہاں آنے کی ضرورت نہیں دورنزدیک سب برابر ہے، جوفائدہ یہاں آکر ہوسکتا ہے، وہی فائدہ وہاں بیٹھے بیٹھے ہوگا؛ اسی طرح مولانا ظفراحمد صاحب تھانویؒ مدرسہ مظاہر علوم کے بالائی کمرے میں تہجد کے وقت ذکر میں مشغول تھے ایک دم ان کی طبیعت میں تقاضہ پیدا ہوا کہ نیچے چلوں، نیچے آکر دیکھا توحضرت سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہیں، مولانا کودیکھ کر فرمایا کہ اندر سے چار پائی لاکر یہاں ڈالدو؛ انہوں نے چار پائی ڈالدی، حضرت لیٹ گئے، یہ جاکرپھرذکر میں مشغول ہوگئے وہ جوتقاضہ تھا ختم ہوگیا۔
نسبت مع اللہ کی حقیقت
عرض: نسبت مع اللہ کی حقیقت کیا ہے؟۔
ارشاد: اللہ سے ایک خاص قسم کا تعلق پیدا ہوجائے کہ آدمی اس کی نافرمانی نہ کرے، اس کی اطاعت کرتا رہے، ہرکام میں نیت خالص رکھے اور اس فکر میں رہے کہ وہ مجھ سے راضی ہوجائے ناراض نہ ہو؛ یہاں تک کہ یہ تعلق قوی ہوجائےتواس کونسبت مع اللہ کہتے ہیں، حضرت تھانویؒ نے ایساہی فرمایا ہے۔
اصلاح بغیر سختی کے ہوسکتی ہے
عرض: اصلاح بغیر سختی کے ہوسکتی ہے یانہیں؟۔
ارشاد:ہرایک کی اصلاح بغیر سختی کے ہوجائے ایسا بھی نہیں اور ہرایک کی اصلاح سختی سے ہوجائے ایسا بھی نہیں؛ بلکہ کسی کے لیے نرمی اور کسی کے لیے سختی کی ضرورت پیش آتی ہے "طرق الوصولِ الی اللہ بعددانفاس الخلائق" اللہ تعالیٰ تک پہونچنے کے راستے اتنے ہیں جتنے مخلوق کے سانس ہیں، صر ف ایک دونہیں، باقی یہ ذوقی چیز ہے، حضرت تھانویؒ کا ذوق یہ ہے کہ بغیرسختی کے اصلاح نہیں ہوتی؛ چنانچہ اس کے شواہد ان کوملتے چلے گئے، دوسروں کا ذوق اس سے مختلف ہے۔
یہ بھی ایک طریقہ ہے اصلاح کا
پھرفرمایا کہ ایک شخص دیوبند آئے مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ان کے مہمان خانہ میں ٹھہرگئے، اب ناشتہ کا وقت ہوتا توحاضرِ خدمت دن کا کھانا، رات کا کھانا ہوتا توحاضرِ خدمت؛ مگرنماز کے وقت غائب؛ کیونکہ وہ نماز نہیں پڑھتے تھے، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے ایک رشتہ دار نے جووہاں پڑھتے تھے، انہیں ڈانٹ دیا کہ آپ عجیب آدمی ہیں، کھانے میں حاضر نماز میں غائب، نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کوعلم ہوا، توحضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کوڈانٹا کہ وہ خدا کا قصور کرتے ہیں، آپ کا قصور نہیں کرتے، آپ ہوتے کون ہیں ڈانٹنے واے؛ اسی روز سے انہوں نے نماز شروع کردی، یہ طریقہ بھی ہے اصلاح کا۔
ایضاً
پھرفرمایا کہ ایک صاحب حضرت (مدنی رحمۃ اللہ علیہ) کے پیردبانے بیٹھے بہت ہی عقیدت مندی کے ساتھ، حضرت کوکچھ نیند کا اثر ہوا، انہوں نے موقع غنیمت سمجھا، جیب میں سے بٹوا نکال لیا، حضرت بالکل سوتے ہوئے بن گئے؛ گویا ان کوخبر ہی نہیں؛ یہاں تک کہ وہ اُٹھ کرچلے گئے؛ اسی طرح ایک جگہ تشریف لے گئے، کھانا کھاکر لیٹےشیروانی اتار کرکھونٹی پرٹانگ دی ایک صاحب آئے اور بہت ہی احتیاط سے پیسے نکال کرلے گئے، حضرت کے پاس ان کے علاوہ اور پیسے تھے نہیں، اس لیے قرض لےکر سفرپورا کیا؛ مگراس کے بعد وہ اتنے متاثر ہوئے کہ کبھی چوری نہیں کی یہ بھی ایک طریقہ ہے، اصلاح کا مگر اس طریقہ میں اپنے نفس پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔
مولانا گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں اصلاح میں سختی
فرمایا: حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادآبادیؒ اصلاح میں سختی کرتے تھے، بہت ڈانٹتے تھے اور ایسی سختی کرتے کہ مولانا تھانویؒ جیسے آدمی گھبراگئے، مولانا تھانویؒ نے خود لکھا ہے (یعنی کانپور سے گنج مرادآباد مولانا سے ملنے جانے کا واقعہ) پھر فرمایا کہ مولانا فضل الرحمن صاحبؒ کے یہاں حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی آئے ہیں اور وہ تین دعا کرکے آئے، ایک تویہ کہ کسی سے راستہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئے، بغیرراستہ پوچھے وہاں تک پہونچ جاؤں، ایک یہ کہ مجھ سے ناراض نہ ہوں، ایک یہ کہ مجھے دعادیدیں؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ راستہ پوچھنے کی نوبت نہیں آئی، بغیر راستہ پوچھے وہاں پہنچ گئے، ناراض بھی نہیں ہوئے، ان پر اور دعا بھی دیدی؛ پھرفرمایا کہ: مفتی عزیزالرحمن صاحب دیوبندیؒ بھی ان کے یہاں آئے ہیں، ان کودور سے آتے دیکھ کر ہی ناراض ہوگئے کہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں، واپس ہوجاؤ، وہ واپس ہوگئے اس کے بعد یکایک الہام ہوا کہ بڑے اونچے آدمی ہیں، فوراً ایک آدمی بھیجا کہ ایسی ایسی صورت کے آدمی ہیں ان کوبلاکر لاؤ، وہ گیا اور مفتی صاحب کوبلالایا یہ آگئے ان کا اعزاز فرمایا۔
ذکر "لَاإِلٰہ إِلَّااللہ" میں ہردس مرتبہ پر کلمہ پورا کرنے کی حکمت
ایک صاحب کوذکرِ جہری تلقین فرمایا کہ دوسومرتبہ "لَاإِلٰہ إِلَّااللہ" پڑھ لیا کریں اس طرح کہ ہردس مرتبہ پر کلمہ پورا کرلیا کریں "مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ" اس واسطے کہ"لَاإِلٰہ إِلَّااللہ" کی تاثیر گرم ہے، اس میں اعتدال پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہ "مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ" سے حاصل ہوتا ہے۔
مراقبہ کس لیے ہوتا ہے
عرض:آپ کوکبھی کسی وقت مولانا احمد رضا خان صاحب کے متعلق مراقبہ میں نظر آیا کہ کس حالت میں ہیں؟۔
ارشاد: کیا مراقبے اسی لیے ہوا کرتے ہیں کہ دنیا بھرکے لوگوں کے عیوب اور گناہ ٹٹولیں، مراقبہ اس لیے نہیں ہوتا، مراقبہ اپنے گناہوں کے لیے ہوتا ہے کہ اپنےگناہوں کودیکھیں اور غورکریں کہ ان سے توبہ کی کیا صورتیں ہیں، باقی میں ان کی شان میں کچھ کہتا نہیں، میں نے کبھی ان کے متعلق نازیبا لفظ نہیں کہا، ان کے لوگ مجھے براکہہ لیں؛ مگرمیں نہیں کہتا۔
عرض:ایک بزرگ فرمارہےتھے کہ مولانا احمد رضاخان صاحب میں اتنا زیادہ عشقِ رسول تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عشق کے طفیل ان کومعاف کردیں۔
"بہ مئے سجادہ رنگین گرت پیرِمغاق گوید" مع واقعہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ
مولانا حامدمیاں صاحبؒ نے سوال کیا کہ حضرت! "بہ مئے سجادہ رنگین کن گرت پیرمغاں گوید" کا کیا مطلب ہے، تواس پرفرمایا کہ قصہ مشہور ہے، اورنگ زیب عالمگیرؒکی حکومت میں کسی ہندولڑکی پرنظر پڑگئی کسی پولیس افسر کی، پولیس افسر مسلمان تھا اسے پسند آگئی یہ اندر بیٹھ گئی، اس پولیس افسر نے کیا کیا، جب اس کی شادی کا وقت آیا، اس کا ڈولاتیار ہوا، اس پولیس افسر نے مطالبہ کیا کہ پہلی رات ڈولا میرے یہاں رہےگا، لڑکی اس کے لیے تیار نہیں؛ حتی کہ کوشش کرکے لڑکی نے براہِ راست اورنگ زیب عالمگیرؒ سے عرض کیا؛ انہوں نے کچھ سوچا، سوچنے کے بعد کہا کہ تمھیں اس کی بات مان لینی چاہئے، لڑکی نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ توکہا کہ بیٹی اسکا کہنا مان لو، تواس نے اور تعجب سے کہا کہ آپ مجھے بیٹی بھی کہہ رہے ہیں اور ایسی بات کے لیے کہہ رہے ہیں، آپ بتائے کہ اگرواقعی میں آپ کی بیٹی ہوں اور ایسا معاملہ ہوتو کیا آپ برداشت کریں گے؛ تواورنگ زیبؒ نے کہا کہ ہمارا حکم توماننا ہی پڑیگا، اب وہ لڑکی آگے کیا بولے، کچھ نہیں کہا؛ چنانچہ طے ہوگیا، اس پولیس افسر کے یہاں جانا، وہ پولیس افسر (ڈولا اس کے گھر جانے سے پہلے) نذرانۂ عقیدت لیکر آیا، ماتحتوں کوخیرات تقسیم کی اور بادشاہِ وقت کے سامنے نذرانۂ عقیدت لے کرگیا، خوشی ومسرت کے ساتھ ساتھ؛ چونکہ سب حال معلوم ہوگیا تھا کہ اورنگ زیبؒ نے یہ کہا، لڑکی نے یہ کہا، جب افسر نذرانہ لیکر آیا توپوچھا یہ نذرانہ کیسا ہے؟ کیا بات ہے، کہا وہی تواورنگ زیب عالمگیرؒ نے زور سے ایک تھپڑمارا جس سے اس کا سرپھٹ گیا اور بڑی عبرت ناک سزادی اور کہا کہ ڈولا دولہا کے ہی گھر جائیگا، لڑکی سے کہہہ رہے ہیں کہ کہنا ماننا پڑے گا، بات کیا ہے پورے طور پر دیکھنا تھا کہ شکایت غلط تونہیں؛ تاکہ آئندہ کسی کی جرأت نہ ہو، دیکھنے والوں کوتو معلوم ہوکہ بری سخت بات کہہ رہے ہیں اورنگ زیب عالمگیرؒ باقاعدہ صاحب طریقت اور صاحب نسبت شخص ہیں اور وہ ایسی بات کہہ رہے ہیں، کچھ بات ضرور ہے، باقی جس طرح کھرے کھوٹے روپئے چلتے ہیں، اس لائن میں بھی کھرے کھوٹے چلتے ہیں، کھوٹے کھرے بن کراس پر اشکال کرتے ہیں، یہ نہایت خطرناک چیز ہے، اس واسطے جوشخص اپنے لیے پیرمغاں بنائے، اس کے متعلق خوب تحقیق کرلے کہ واقعی یہ ظاہروباطن کا ماہر ہے یانہیں؛ اگرہے توپھر اب آگے کچھ اور پوچھنا ہی نہیں، جس کے پاس علمِ ظاہر بھی ہے اور علمِ باطن بھی ہے، تزکیہ نفس کئے ہوئے ہے، تصور بھی نہیں کرسکتا شراب کا جوآپ پیرِمغاں کی طرف منسوب کررہے ہیں۔
یہ صورت توشراب پینے والے کی نہیں
ایک زمانہ میں شیخ الحدیث صاحبؒ دلی جایا کرتے تھے، اکیلے جایا کرتے تھے، کسی اسٹیشن پرپیاس شدید لگ رہی تھی، سامنے دیکھا توبوتلیں ہیں، دوکان ہے، اس سے خرید نے کے لیے پہونچ گئے، اس نے ایک نظر ڈالی اور کہا کہ آپ کے پینے کی نہیں یہ سمجھے کہ یوں دیکھا ہوگا کہ طالب علم آدمی ہے، اس کے پاس پیسے نہیں ہونگے توکہا کہ پیسے جتنے کہوگے اتنے دیدونگا، بوتل دیدو، اس نے کہا: نہیں دیتا، شیخ نے فرمایا کہ بات توبتادو، تواس نے ڈانٹ کے کہا کہ نہیں بیچتا میں آپ کے ہاتھ، آپ یہاں سے جائیے، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ چلے آئے، بات کیا ہے، دراصل وہ شراب کی بوتلیں تھیں، اللہ نے بچایا، یہ توبے خبری میں پہونچ گئے تھے، اس نے دیکھ کرسمجھ لیا کہ یہ مغالطہ میں آگئے ہیں، یہ صورت توشراب پینے والے کی ہے نہیں (پھرمولانا حامد میاں صاحبؒ سے مخاطب ہوکر فرمایا) حضرت مولانا وصی اللہ صاحبؒ نے حکیم افہام اللہ صاحبؒ سے کتنے عرصہ پہلے کہدیا تھا کہ یہ تمہارے پاس آئینگے، ذرا ان کا خیال رکھنا، آپ ان کے یہاں گئے اورحکیم افہام اللہ صاحبؒ نے آپ کا خیال رکھا، بس جوعلم ظاہر اور علم باطن میں کامل ہے تووہ غلط بات کہے گاہی نہیں لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے اس کی بات کوغلط کہہ رہے ہیں؛ لیکن درحقیقت وہ غلط بات نہیں کہے گا۔
لمّۃ الشیطان اور لمّۃ الملک میں فرق اور شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ
کسی صاحب کے استفسار پرارشاد فرمایا کہ لمّۃ الشیطان (شیطانی اثر) اور لمّۃ الملک (فرشتہ کا اثر) میں فرق علم سے ہوگا؟ اس کے بعد فرمایا کہ پیرانِ پیرسیدعبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکشوف ہوا توکشف کی حالت میں ایسا لگا کہ میں اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوگیا ہوں؛ اسی حالت میں سخت پیاس محسوس ہوئی، فوراً ایک سونے کا پیالہ دکھائی دیا جومیرے جانب بڑھا، تامل ہوا کہ پیئوں یانہ پیئوں؛ کیونکہ سونے کا برتن استعمال کرنا ناجائز ہے، اس کے بعد خیال ہوا کہ اللہ ہی نے حرام کیا ہے اور وہی دے رہے ہیں؛ پھرخیال ہوا کہ نہیں پیئوں گا؛ کیونکہ شریعتِ محمدیﷺ میں نسخ نہیں، یہ یقین کرلینے کے بعد لاحول پڑھا، پڑھتے ہی شیطان بھاگ گیا؛ لیکن ایک ٹانگ مارگیا کہ تواپنے علم کے ذریعہ بچ گیا؛ ورنہ اتنوں کومیں نے اس مقام پرلاکر جہنم میں ڈالا ہے، میں نے کہا علم کے ذریعہ نہیں؛ بلکہ فضلِ خداوندی سے بچا ہوں، اس پر مولانا محمدشاہ گنگوہیؒ نے عرض کیا معلوم ہوا کہ اصل چیز فضلِ خداوندی ہے اور علم ذریعہ احساس ہے، حضرت نے ارشاد فرمایا: جی ہاں۔
علماء کی غیبت تباہی ہے
ارشاد فرمایا کہ علامہ عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے "الیواقیت والجواہر" سے نقل کیا ہے کہ "لحوم العلماء مسمومۃ" اس کا مطلب یہ ہے کہ علماء کا گوشت زہریلا ہوتا ہے، ارشاد ہے، آیتِ کریمہ:
"وَلَايَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ"۔
(الحجرات:۱۲)
ترجمہ:اورکوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کوپسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس کوتم ناگوار سمجھتے ہو۔
(بیان القرآن)
مراد یہ ہے کہ ان کی غیبت دین ودنیا دونوں کی تباہی، بربادی ہے، اس سے احتراز لازم ہے، بس حق تعالیٰ حفاظت فرمائے۔
بدنظری کا علاج
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت نامحرموں پرنظر پڑنے سے نہیں بچاجاتا اس کے لیے دعا فرمادیں، ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے ہرآنکھ پردوکواڑ لگارکھے ہیں، جب غلط جگہ نظر پڑے فوراً ان کوبند کرلو، دوسری طرف منہ پھیرلیا کرو، اچانک بلاارادہ نظر پڑگئی تواس پر کوئی گناہ نہ ہوگا، ہاں اس نظرکوباقی رکھے گا یابالاختیار نظر ڈالے گا توگناہ ہوگا، اس لیے کہ معصیت وہ چیز ہے جواختیار سے ہو۔
طالبِ علم کا نصب العین
طالب علم کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ حضورِاقدسﷺ کواللہ نے جوہدایات دیکربھیجا تھا، ان کی تفصیلات معلوم کریں؛ تاکہ اپنی زندگی ان کی زندگی کے موافق بنائیں؛ کیونکہ رنج وخوشی دونوں ہی قسم کے حالات پیش آتے ہیں، طالب علم کومعلوم ہونا چاہیے کہ ان حالات میں میرا نصب العین کیا ہوگا، وسوسے توآتے ہی ہیں، ان کا علاج بس یہی ہے کہ ان کی طرف توجہ نہ کی جائے، تسبیحات جس قدر دل لگاکر ادا کی جائینگی اسی قدر نفع ہوگا، طالب علم کویہ نیت کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کومعلوم کریں کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے اور کن باتوں سے راضی ہوتا ہے، راضی ہونے والی باتوں پر عمل کریں، ناراض ہونے والی باتوں سے پرہیز کریں، سارا دین ایک دم ہی قابومیں نہیں آجاتا اللہ تعالیٰ توفیق دے آپ کو بھی مجھے بھی۔
مصالحت کا طریقہ
ارشاد: جب دوفریقوں میں باہم منازعت ہوپھر وہ مصالحت کے لیے آمادہ ہوں تواس کے لیے ضروری ہے کہ جوخدائے پاک اور رسولِ اکرمﷺ کے منشا کے بھی خلاف ہے اور اس کی سزا بھی سخت ہے؛ پھراس پر قلب سے نادم ہوکر مکافات کے لیے آمادہ ہوں؛ خواہ اس کے لیے کتنی بھی قربانی دینی پڑے؛ اگریہ جذبہ قلب میں ہے تومصالحت، مصالحت ہے جس کے ذریعہ سے منازعت ختم ہوجاتی ہے اور اللہ پاک کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں؛ اگریہ جذبہ نہیں بلکہ کسی خارجی دباؤ سے مصالحت کی جارہی ہے، مثلاً کوئی لالچ ہے، یاڈر، یابدنامی، یابے عزتی کا خوف ہے تووہ حقیقی مصالحت نہیں؛ بلکہ مخادعت (دھوکہ دہی) ہے، ہرفریق دوسرے کودھوکہ دینے کی کوشش کریگا اور نزاع کی جڑختم نہیں ہوگی؛ بلکہ قلوب میں پختہ ہوجائے گی، جس کا نتیجہ ظاہر ہے۔
غصہ کا علاج
ایک شخص کے استفسار پر ارشاد فرمایا کہ اگرکسی کی خلافِ طبع بات پر غصہ آجائے تویہ سمجھ کرپینا چاہیے کہ یہ میرے گناہوں کا کفارہ ہے اور یہ شخص دھوبی ہے، جس طرح دھوبی کپڑے سے میل کوصاف کرتا ہے؛ اسی طرح یہ شخص میرے قلب سے گناہوں کوصاف کررہا ہے۔
اکابر کے قول وفعل میں تاویل
عرض: بزرگانِ دین سے بظاہر خلافِ شرع کوئی بات صادر ہوجاتی ہے تواس میں تاویل کی جاتی ہے؛ جب کہ عام لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں برتا جاتا اس کی کیا وجہ ہے۔
ارشاد: چونکہ ان حضرات کی زندگی شریعت کے مطابق ہوتی ہے، اس لیے شاذ ونادر بظاہر کوئی امرخلافِ شریعت ان سے سرزد ہوتا ہے، تواس کوان کے عام حالاتِ زندگی کے موافق بنانے کے لیے اور پوری زندگی کی روشنی میں اس کا صحیح محل تلاش کرنے کے لیے تاویل کی جاتی ہے، اوّل تومسلمان سے نیک گمان رکھنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں؛ کیونکہ اس کا اسلام خود اس بات کا مقتضی ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ ظن رکھا جائے؛ مگرجب کہ وہ ارکانِ اسلام کومکمل طور پربجالارہا ہے اور غلط کاموں سے بچ رہا ہے تویہ حسنِ ظن اور بڑھ جاتا ہے؛ پھرجس قدر اس شخص میں احکامِ شرع پرپختگی آتی جاتی ہے، اسی قدر اس کے ساتھ نیک گمان بڑھتا چلاجاتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کا اتباع کیا جاتا ہے، اس کی بات مانی جاتی ہے، ایسی حالت میں اگرکوئی امر بظاہر خلافِ شریعت اس سے صادر ہوتا ہے تواس کی زندگی کے یہ سب حالات بتاتے ہیں کہ وہ شخص ایسا نہیں کرسکتا، ایسا نہیں کہہ سکتا، ایسانہیں ہوسکتا۔
کیا عورت بیعت کرسکتی ہے؟
عرض: حضرت عورتیں بھی بیعت کرسکتی ہیں؟۔
ارشاد: فرمایا کہ: تذکرۃ الرشید:۲/۳۳۷ میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے کہ اگرعورتوں کوبیعت کرنے کی اجازت ہوتی تومیری صفیہ مرید کیا کرتی۔
بیعت کیا چیز ہے کس لیے ہوتے ہیں؟
استفسار کیا گیا کہ مرید کس کوکہتے ہیں؟۔
ارشاد: فرمایا کہ مولوی وکیل عبداللہ جان صاحب نے حضرت سہارنپوریؒ سے پوچھا تھا بیعت کیا چیز ہے؟ کس لیے ہوتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ مرید توبہ کرتا ہے اور مراد (شیخ)کواس پرگواہ بناتا ہے وہ کہتے تھے کہ مراد کا لفظ پیر کے معنی میں اس روز میںنے پہلی بار سنا تھا، اس سے طبیعت میں شبہ پیدا ہوا کہ توبہ توخدا کے سامنے کی جاتی ہے اور وہ دل کی حالات سے خوب واقف ہے، اس کوگواہ کی کیا ضرورت ہے "يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَاتُخْفِي الصُّدُورُ" (غافر:۱۹) "ترجمہ:وہ آنکھوں کی چوری کوجانتا ہے اور ان کوبھی جوسینوں میں پوشیدہ ہیں" (بیان القرآن) خود ہی دل میں جواب آیا کہ انسان کے اعضاء بھی تووہاں (آخرت میں) میں گواہی دیں گے لہٰذا گواہی پرکیا اشکال مولوی صاحب موصوف بڑے زیرک اور وسیع المطالعہ شخص تھے، دل میں کافی شکوک وشبہات لیکر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے کہ آج بحث کرونگا؛ مگربات اتنی ہی ہوپائی تھی کہ تمام شکوک وشبہات دفع ہوگئے، اس کے بعد حضرت سے بیعت کی درخواست کی حضرت نے فرمایا کہ آپ کوبیعت کی کیا ضرورت ہے؛ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے توکبھی ضرورت سمجھ کرکوئی کام کیا نہیں؛ انگریزی معاشرت رکھتا ہوں وہ بلاضرورت، بیعت بھی بلاضرورت ہی ہوجاؤنگا، اس کے بعد بیعت ہوگئے اور حضرت نے ان کواسمِ ذات کا ورد بتایا جتنا کثرت سے ہوسکے پھران کے حالات بہت عجیب ہوگئے تھے اللہ نے بہت کچھ نوازا تھا۔
ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا عبدالقادر صاحب رائپوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ تصوف شاہی فن ہے، اس کے لیے شاہی مزاج چاہیے، مثلاً حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ اور حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ جیسا دماغ چاہیے، اب یہ ہم گاؤں ندیوں کے سرآپڑا ہے۔
ہمارا استغفار بھی کثیر استغفار کامحتاج ہے
ارشاد فرمایا کہ حضرت سری سقطیؒ فرمایا کرتے تھے "استعفار نایحتاج الی استغفار کثیر" (ہمارا استغفار بھی کثیر استغفار کا محتاج ہے) اس لیے کہ ہمارا استغفار زبانی ہے، قلبی نہیں پس وہ استہزاء کے درجہ میں ہے، جیسے کوئی شخص کسی کوجوتا مارے اور پھرمعافی مانگے مگرندامت ہونہیں (کہ یہ معافی طلب کرنا نہیں بلکہ استہزاء ہے)۔
حقیقت خُلق
ارشاد فرمایا کہ لوگوں نے "خُلق" چکنی چپڑی اور ہنس ہنس کر بات کرنے کا نام رکھ لیا ہے؛ خواہ دلوں میں بغض ہی کیوں نہ ہو، حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کا قول "الکوکب الدری" میں نقل کیا گیا ہے کہ خُلق مخلوق کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنے کوکہتے ہیں، جس سے خالق بھی راضی ہو، چکنی چپڑی بات کرنے سے جب کہ دلوں میں بغض ہوخالق کہاں راضی ہوتا ہے اور مخلوق کوبغض قلبی کا علم ہوجائے تووہ بھی کہاں راضی ہے۔
شیخ کے ساتھ محبت وعقیدت
ارشاد فرمایا کہ شیخ سے فیض پہنچنے کا مدار (شیخ کے ساتھ) محبت وعقیدت (رکھنے پر) ہے، ایک صاحب نے کہا کہ محبت کے لیے توعقیدت لازم ہے، اس لیے تنہا محبت ہی اصل ٹھہری توارشاد فرمایا کہ محبت کے لیے عقیدت لازم نہیں، باپ کوبیٹے سے جب کہ اس کے حالات صحیح نہ ہوں محبت ہوتی ہے، مگرعقیدت نہیں ہوتی۔
غیبت کی اقسام
ارشاد فرمایا کہ علامہ بن عابدین شامیؒ نے لکھا ہے کہ غیبت کی مختلف اقسام ہیں، مثلاً کسی کی تعریف سن کر طنزاً یہ کہے کہ جی ہاں، میں اس کوجانتا ہوں، وہ کیسا ہے؟ یہ بھی غیبت ہے، کسی کی برائی لکھے یہ بھی غیبت ہے، کسی کا عیب زبان سے بیان کرے یہ بھی غیبت ہے اور اشارہ سے کسی کا عیب بیان کرے یہ بھی غیبت ہے؛ نیزیہ بھی لکھا ہے کہ غیبت کی سخت ترین صورت یہ ہے کہ غیبت کرنے پر جب کوئی منع کرے توکہے کہ میں غیبت کب کررہا ہوں، میں توواقعہ بیان کررہا ہوں، سچ مچ کہہ رہا ہوں، اس لیے کہ جب بات سچی ہو اور بری لگتی ہو وہی توغیبت ہے؛ پس! وہ اپنے اس جواب سے اس کوجائز قرار دے رہا ہے؛ حالانکہ اس کی ممانعت نصِ قطعی سے ثابت ہے (ارشادِ خداوندی ہے) "وَلَايَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا" (الحجرات:۱۲) (تم میں سے ایک، ایک کی غیبت نہ کرے) گویا اس کا قول نصِ قطعی کی تردید کومستلزم ہے (اور نص قطعی کی تردید کا اشد ہونا ظاہر ہے)۔
کسی کوبرا کہنا
ارشاد فرمایا کہ کسی کوبرا کہنے سے اس کی برائی تودور ہوتی نہیں؛ البتہ خود برائی میں شریک ہوجاتا ہے
(پس ایسا کام کیوں کیا جائے، جس میں نہ اپنا نفع نہ دوسرے کا بلکہ اپنا نقصان ہے)۔
استغفار کی اہمیت
ارشاد فرمایا کہ ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ نبی کریمﷺ ایک ایک مجلس میں ستر ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار کی کیا اہمیت ہے) اور اس کے ہم کتنے محتاج ہیں، کہ نبی کریمﷺ باوجود اپنی شان میں:
"لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَاتَأَخَّرَ"۔
(الفتح:۲)
ترجمہ:تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف فرمادے۔
(بیان القرآن)
وارد ہونے کے باوجود معصوم ہونے کے ایک ایک مجلس میں اتنا استغفار کرتے تھے توہمیں باوجود سراپا تقصیر ہونے کے کتنا استغفار کرنا چاہیے۔
پریشان کن خیالات کا دفعیہ
ارشاد فرمایا کہ پریشان کن خیالات کودفع کرنے کے درپہ نہوجئے درود شریف کی کثرت رکھئے ان کی وجہ سے کام بند نہ کیجئے جیسے کوئی آدمی بازار جاتا ہے، وہاں طرح طرح کی آواز، ہارن کی، کتوں کے بھونکنے کی آواز سنتا ہے، طرح طرح کی چیزیں دیکھتا ہے؛ لیکن ان کی وجہ سے اپنا کام بند نہیں کرتا
(بند کرنا بڑی بات ہے، اس میں کچھ کمی بھی نہیں آنے دیتا؛ بلکہ اس کوپورا پورا انجام دیتا ہے)۔
اعمال کے ضائع ہونے کے تین سبب
ارشاد فرمایا کہ حضرت گنگوہیؒ فرماتے تھے کہ انسان کے کیے کرائے کے ضائع ہونے کے تین سبب ہوتے ہیں، اوّل ناموافق کھانا، دوم ناجنس کی صحبت، سوم ارتکاب معصیت (پس سالک کے لیے ضروری ہے کہ ان تینوں امور سے بالکلیہ اجتناب کرے؛ تاکہ اس خسرانِ عظیم سے محفوظ رہ سکے)۔
لطیفہ غیبی
ارشاد فرمایا کہ حضرت (مولانا رشید احمد صاحب) گنگوہیؒ سے کسی نے شکایت کی کہ رات کوخواب میں تہجد کے لیے کوئی صاحب روزآنہ جگادیا کرتے تھے ایک روز میں نے اٹھنے میں سستی کی تووہ خواب بند ہوگیا اس پر حضرت گنگوہیؒ نے ارشاد فرمایا:
"لطیفۂ غیبی مہمانیست نازک مزاج کہ بادنی بے التفاتی رومیگرداند"۔
ترجمہ:یعنی لطیفہ غیبی ایسا نازک مزاج مہمان ہے جو ذراسی بے توجہی سے منہ موڑلیتا ہے۔
(اس لیے سالک کوچاہیے کہ ایسے لطائف کی قدر کرے اس کوفضلِ خدا سمجھ کر اس کا زیادہ سے زیادہ شکرادا کرے۔
بیماری کی وجہ سے ترکِ عمل
ارشاد فرمایا کہ اگرکوئی شخص نیک عمل کرتا تھا؛ پھربیماری کی وجہ سے وہ عمل نیک نہیں کرپاتا تو(حق تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے) ملائکہ کوحکم ہوتا ہے کہ بیماری کے زمانے میں بھی اس کے اس نیک عمل کولکھتے رہو، جس کووہ صحت کے زمانہ میں کرتا تھا (اور اب بیماری کی وجہ سے نہیں کررہا ہے) پھرجب وہ ٹھیک ہوجائے توپھر شروع کردے؛ اگرصحت کے بعد نہ کرے گا توپھر نہ لکھا جائے گا (احقرجامع ومرتب عرض کرتا ہے کہ اس میں بڑی تسلی ہے ان حضرات کے لیے جوبیماری یاکسی اور معقول عذر کی وجہ سے اپنا معمول پورا نہ کرسکیں اور اس کے فوت ہونے پر ان کوافسوس ہو)۔
مصائب بھی نعمت ہیں
ارشاد فرمایا کہ مسلمان جب تک مصائب میں مبتلا نہیں ہوتا حق تعالیٰ شانہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا
(اس لیے مصائب بھی بندۂ مؤمن کے لیے اللہ پاک کی بڑی نعمت ہیں)۔
رمضان شریف میں کسی عمل کی عادت
ارشاد فرمایا کہ رمضان شریف میں جس عمل نیک کا کوئی شخص معمول بنالیتا ہے تواس کا کرنا رمضان شریف کے بعد سہل ہوتا ہے، رمضان شریف کے بعد اس کی عادت رہتی ہے؛ اسی طرح اگرکوئی شخص رمضان شریف میں گناہ کرتا ہے تواس کے اثرات رمضان کے بعد بھی باقی رہتے ہیں اور اگر عادت بنالیتا ہے تورمضان شریف کے بعد بھی اس کی عادت رہتی ہے، اس کا چھوٹنا بہت دشوار ہوتا ہے
(اس لیے اس ماہِ مبارک کوطاعات اور اعمالِ صالحہ سے مشغول رکھے اور لغویات ومعاصی سے بہت ہی اجتناب کرے کہ ان میں مشغول رہنا بڑی محرومی ہے، حق تعالیٰ شانہٗ ہم سب کی حفاظت فرمائیں)۔
معمول کا ناغہ کردینا
ارشاد فرمایا کہ کسی معمول کوکبھی کبھی ناغہ کرتے رہنے سے اس پردوام دشوار ہوجاتا ہے (اس لیے حتی المقدور سالک کواپنا معمول ناغہ نہ ہونے دینا چاہیے، جس طرح بن سکے اس کوپورا کرنے کی کوشش کرے اس کے ثمرات وبرکات پورے طور پر جب ہی میسر آسکتے ہیں، جب کہ اس پردوام اختیار کرے، حدیث پاک میں بھی اسی عمل کواحب الاعمال کہا ہے، جس پر مداومت ہو، ارشادِ نبوی ہے "أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ"
(بخاری، كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا،بَاب فَضِيلَةِ الْعَمَلِ الدَّائِمِ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ وَغَيْرِهِ،حدیث نمبر:۵۹۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)
رواہ الشیخان، حق تعالیٰ شانہ کے نزدیک وہ عمل زیادہ محبوب ہے جس پر دوام ہوگووہ عمل تھوڑا ہی ہو)۔
توبہ کی تلقین پر توبہ سے انکار
ارشاد فرمایا کہ جوشخص توبہ کی تلقین کرنے پر یہ کہے کہ میں کیوں توبہ کروں؟ میں نے کیا قصور کیا ہے؟ توفقہاء نے اس کے لیے بڑا سخت کلمہ لکھا ہے، میں اس کوکہہ نہیں سکتا (میرے خیال میں اس کی وجہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا قول میں نے کیا قصور کیا؟ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ معصوم ہے، خطا سے پاک ہے؛ حالانکہ مطابق حدیث نبوی "کُلُّکُمْ خَطَاؤنَ وَخَیْرالْخَطَائِیْن التَّوَّابُوْنَ الْمُسْتَغْفِرُوْنَ" ہرشخص بجز انبیاء کرام علیہم السلام کے خطا کار ہے، پس! اس کا یہ قول مستلزم ہے اس قسم کی حدیث کی تردید کوجومعمولی چیز نہیں؛ بلکہ امرِعظیم ہے)۔
مجلس شیخ میں عامی شخص کا ادب
ارشاد فرمایا کہ عامی شخص کوشیخ کی مجلس میں آنکھیں بند کرکے تسبیح پڑھتے رہنا چاہیے ایسا نہ ہوکہ شیخ کے کسی عمل سے بسبب اپنی نادانی کے بدظن ہوجائے اور فیض سے محروم رہے۔
حسن ظن کے لیے دلیل کی حاجت نہیں
ارشاد فرمایا کہ حسن ظن (جوکہ مطلوب ہے کہا گیا ہے "ظُنُّوْا بِالْمُوْمِنِیْنَ خَیْرًا" مسلمان کے ساتھ اچھا گمان رکھو) کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں؛ سوء ظن (جوکہ مذموم ہے اس سے اجتنا ب کا حکم ہے، ارشاد خداوندی ہے "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ" (الحجرات:۱۲) ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچا کرو (بیان القرآن)) کی دلیل نہ ہونا اور مسلمان کا اسلام ہی اس کے لیے کافی ہے؛ البتہ سوء ظن کے لیے مستقل دلیل کی حاجت نہیں ہے
(بغیر دلیل معتدبہ کے کسی کے ساتھ بدگمانی گناہ ہے، حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد "إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ"
(الحجرات:۱۲) بعض گمان گناہ ہوتے ہیں)۔
مشائخ کا عوام کوخلاف ورزی کرنے پر تنبیہ نہ کرنا
ارشاد فرمایا کہ حضرت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ مشائخ نے عوام کی عادت خراب کی ہے کہ خلاف ورزی کرنے پر ان کوتنبیہ نہیں کرتے اور اس کا نام اخلاق رکھا ہے، یہ اخلاق نہیں اہلاک ہے۔
دین کی طلب پیدا کرنا
ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا الیاس صاحبؒ (بانی تبلیغی جماعت) فرمایا کرتے تھے کہ اس دور میں سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں دین کی طلب نہیں ان کے دلوں میں دین کی طلب پیدا کردی جائے۔
دنیا عالمِ تلبیس ہے
ارشاد فرمایا کہ یہ دنیا عالمِ تلبیس ہے، ایک ہی صف میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین کھڑے ہوتے تھے؛ اسی طرح دلائل حقہ کے ساتھ دلائل باطلہ ملتبس ہیں۔
طریق کار کی غلطی
ارشاد فرمایا کہ مسلمان حکومت کے خلاف ناخوشی کے اظہار کے لیے جلسے کرتے ہیں ان سے کیا ہوتا ہے، ہم کو چاہیے کہ حکومت والوں کے دلوں میں اپنی اتنی قدر پیدا کر دیں جس سے کہ وہ ہماری خفگی وناراضگی کوبالکل برداشت نہ کرسکیں اور یہ ظاہر ہے کہ احکامِ شرع پرپورے پورے عامل بننے سے ہوگا، خالی زبان سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کا دعویٰ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
نسبت کی تعریف
ارشاد فرمایا کہ حضرت رائپوریؒ ثانی سے کسی نے سوال کیا کہ نسبت کس کوکہتے ہیں؟ توفرمایا کہ اخلاقِ فاضلہ اور اعمالِ صالحہ کی توفیق کونسبت کہتے ہیں
(یعنی حضورِاقدسﷺ کے جتنے اخلاق ہیں ان میں سے ایک ایک خلق کواختیار کیا جائے اور جتنے عمل اللہ اور اس کے رسول کومحبوب ہیں ان کوکیا جائے اور جتنے عمل ان کومبغوض وناپسند ہیں ان سے اجتناب کیا جائے بس اسی کا نام نسبت ہے، فرمودۂ حضرت قدس سرہٗ)۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواپنے اوپرنفاق کا اندیشہ
ارشاد فرمایا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی جماعت اپنے اوپر نفاق کا اندیشہ رکھتی تھی
(ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے بدر میں شریک ہونے والے تیس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوپایا سب کے سب اپنے اوپر نفاق کا اندیشہ رکھتے تھے
(جمع الفوائد:۲/۱۶۲) اس کے علاوہ اور بھی اس طرح کی روایات ہیں، جب صحابہ کرامؓ اپنے اوپر نفاق کا اندیشہ رکھتے ہیں توغیروں کوتوبدرجہ اولیٰ اس کا اندیشہ ہونا چاہیے)۔
نفع وضرر اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے
ارشاد فرمایا کہ ایک سال بعض جگہ سے اطلاع ملی کہ یہاں بالکل بارش نہیں جس کی وجہ سے فصل برباد ہورہی ہے، بعض جگہ سے خبر آئی کہ یہاں بارش بہت ہے، زمین میں پانی ٹھہرگیا جس کی وجہ سے فصل بیکار ہوگئی؛ اسی طرح جب میں پنجاب بھالپور گیا تودیکھا شاندار فصل ہے، پکی کھڑی ہے نہ بارش کی کمی ہے نہ زیادتی؛ مگر کھیتی کاٹنے والا کوئی نہیں اس لیے کہ سب شدید بخار میں مبتلا ہیں؛ پھرفرمایا کہ اس دنیا میں جس چیز پراعتماد ہوتا ہے، حق تعالیٰ شانہٗ اس کوناکام بنادیتے ہیں؛ اسی طرح جوچیز نفع دینے والی سمجھی جاتی ہے، اس کونقصان دہ ثابت کردیتے ہیں
(جیسا کہ کھیتی کاٹنے والوں پراعتماد تھا، ان کوبیمارکرکے ناکام بنادیا، بارش نفع کی چیز سمجھی جاتی ہے، اس کو نقصان دہ اور کھیتی کوتلف کرنے والا بنادیا)۔
بیوی سے وطی میں اجر ہے
ارشاد فرمایا کہ اگربیوی سے اس نیت کے ساتھ وطی کی جائے کہ نظر محفوظ رہے نامحرم پرنہ پڑے تواس میں اجر ہے:
"لَکَ فِیْ جِمَاعِ زَوْجتک أَجْر"۔
(مجموعہ چہلِ حدیث:۳۱، مطبوعہ: یحیویٰ سہارنپور)
ترجمہ:تیرےلیے اپنی بیوی سے جماع کرنے میں اجر ہے۱۲۔
حقیقتِ تقویٰ
ارشاد فرمایا کہ حضرت عمرؓ نے ایک صحابی سے دریافت کیا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے پوچھا کبھی خاردار وادی کانٹوں والے راستہ پر چلے ہو؟۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا جی ہاں! دریافت کیا کیسے چلے ہو؟ فرمایا دامن سمیٹ کر اور بدن کوبچاکر کہیں ایسا نہ ہو کوئی کانٹا بدن یاکپڑوں میں لگ جائے، فرمایا کہ بس! اسی کا نام تقویٰ ہے؛ پھر فرمایا (حضرت قدس سرہٗ نے) روزہ دار روزہ کی حالت میں مختلف چیزیں کھانے پینے کی دیکھتا ہے؛ مگرچکھتا نہیں اس اندیشہ سے کہ کہیں حلق سے نیچے اُترکر روزہ کوفاسد نہ کردے؛ حالانکہ منہ میں کسی چیز کے رکھنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا؛ مگرپھربھی اس کوفکر ہوتی ہے؛ اسی طرح جب لڑکی کی منگنی کردی جاتی ہے توخود اس کوبھی اور اس کے گھروالوں کوبھی فکر ہوجاتی ہے؛ ایسا نہ ہو کہ لڑکی سے کوئی ایسا امرسرزد ہوجائے جولڑکے یالڑکے والوں کوپسند نہ ہو اور ان کوخبر ہوجانے پر رشتہ منقطع کرنے کی نوبت آئے، بس! اس طرح کی فکر ہرمعاملہ میں ہوجائے ایسا نہ ہوکہ کوئی قول وفعل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مرضی کے خلاف صادر ہو یہی ہے تقویٰ۔
پیٹ بھرکر کھانا
ارشاد فرمایا کہ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے "الشبع بدعۃ حدثت بعدالمأتین" یعنی پیٹ بھرکھانا ایسی بدعت ہے جودوسری صدی ہجری کے بعد وجود میں آئی ہے
(مگربدعت سے مراد اصطلاحی بدعت نہیں جس کوحدیثِ پاک میں ضلالت کہاگیا ہے)۔
زبان کی حفاظت
ارشاد فرمایا کہ زبان حق تعالیٰ شانہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس سے مختلف پاکیزہ اعمال (طاعات وعبادات تلاوت ذکر تسبیح استغفاروغیرہ) کیئے جاتے ہیں، اس کوانہی میں مشغول رکھنا چاہیے گندی چیزوں میں جھوٹ، غیبت، چغلخوری، بہتان، گالی گلوچ وغیرہ میں اس کومشغول کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی صاف ستھرے کپڑے کوغلاظت میں ڈالدیا جائے۔
زبان ملک نہیں امانت ہے
ارشاد فرمایا کہ زبان اپنی ملک نہیں کہ اس سے جوچاہو کام لو؛ بلکہ امانت ہے، اس لیے اس کوانہی کاموں میں مشغول رکھنا چاہیے، جن کے لیے یہ عطا کی گئی ہے، یعنی ذکر تلاوت وغیرہ میں گندے کام یعنی غیبت، چغلخوری وغیرہ سے اس کوبچانا چاہیے
(ایک موقع پرحضورﷺ نے حضرت معاذؓ سے زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اِس کولایعنی باتوں سے روکو؛ انہوں نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے نبیﷺ! کیا ہم سے مواخذہ کیا جائیگا، ان باتوں پرجوہم زبان سے بولتے ہیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے معاذؓ تجھ کوتیری ماں ضائع کرے بہت سے لوگوں کوجہنم میں منہ کے بل زبان کی کٹی ہوئی کھیتیاں ہی ڈالیں گی)۔
(مشکوٰۃ:۱/۱۴)
سب سے افضل دعائیں
ایک صاحب نے کچھ مطبوعہ دعائیں
(جن کے بڑے بڑے فضائل بھی لکھے تھے؛ حالانکہ وہ اسی طرح ان کے فضائل احادیث سے ثابت نہ تھے) حضرت کودکھلائیں اور دریافت کیا کہ ان دعاؤں کا پڑھنا کیسا ہے؟۔
توملاحظہ فرماکر ارشاد فرمایا کہ دعائیں توصحیح ہیں اور ان کا پڑھنا بھی درست ہے؛ مگراس نیت سے پڑھنا کہ یہ سب احادیث سے ثابت ہیں درست نہیں؛ نیز فرمایا کہ سب سے افضل دعائیں وہ ہیں جوقرآنِ پاک میں وارد ہیں ان کے بعد وہ جوحدیث شریف سے ثابت ہیں۔
فرشتے جب چاہیں تلاوت نہیں کرسکتے
ارشاد فرمایا جوملائکہ وحی لانے پر مقرر تھے وہ وحی لاکر پہنچاگئے جب اور جس وقت بھی جی چاہے، وہ تلاوت کرلیں، اس پر وہ قادر نہیں، یہ نعمتِ عظمیٰ انسان کوحاصل ہے کہ جب چاہے تلاوت کرلے پس! مسلمان کوچاہیے کہ اس نعمتِ عظمیٰ کی قدر کرے اورجس قدر ہوسکے کلامِ پاک کی تلاوت میں مشغول رہے کہ بہت ہی اجروثواب کا کام ہے، ایک ایک حرف پردس دس نیکیاں ملتی ہیں
(یہ بھی اس وقت جب کہ بے وضو نماز سے باہر تلاوت کرے باوضو نماز سے باہر تلاوت کرے توایک حرف پر پچیس نیکیاں ملتی ہیں اورنماز میں بیٹھ کر تلاوت کرے توایک حرف پر پچاس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں اور نماز میں کھڑے ہوکر تلاوت کرے توایک حرف پرسو نیکیاں دیجاتی ہیں
(قالہ علی احیاء العلوم:۱/۲۷۵))۔
آنے والوں کے قدم نجات کا ذریعہ
ایک صاحب نے حضرت کے پاس لکھا کہ لوگوں کی اپنے پاس آمد ورفت سے وحشت ہوتی ہے، جی تنگ ہوتا ہے اور ان پر غصہ آتا ہے توبندہ (مرتب) کومخاطب بناکر املاکراتے ہوئے، ارشاد فرمایا کہ:حضرت حاجی امداداللہ صاحب نوراللہ مرقدہٗ نے فرمایا کہ آنے والوں کے قدموں کواپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں، جوآتے ہیں وہ خود نہیں آتے؛ بلکہ بھیجے جاتے ہیں
(من جانب اللہ آتے ہیں، ان کی خدمت ظاہر ہے کہ نجات کا ذریعہ ہے)۔
خدمت کا ثمرہ
ارشاد فرمایا: "ہرکہ خدمت کرد اومخدوم شد" جوشخص اپنے بڑوں کی خدمت کرتا ہے حق تعالیٰ شانہ اس کومخدوم بنادیتے ہیں، اس کے چھوٹے اس کے لیے خادم بن جاتے ہیں۔
ایک شعر کا مطلب
سوال: اس شعر کا کیا مطلب ہے؟ شعر یہ ہے: ؎
بمے سجادہ رنگین کن گرت پیرمغاں گوید کہ سالک بے خبر نبود زراہ ورسم منزلہا
ترجمہ:مصلے کوشراب میں رنگین کرلو اگرپیرمغاں ہے، اس لیے کہ سالک منزل کی راہ ورسم سے بے خبر نہیں ہوتا۔
جواب:ارشاد فرمایا کہ جوشخص علم، عمل، تقویٰ، ورع اور اخلاق وغیرہ میں کامل ہوگا وہ خلافِ شرع کا حکم نہیں دے گا، اس لیے اس کی اطاعت کروگووہ کسی ایسے کام کا حکم کرے جوبظاہر خلافِ شرع معلوم ہو؛ لیکن دعویٰ کرنے کوتوبہت ہیں کہ میں ایسا ہوں ویسا ہوں؛ مگرہوتے ہیں ایسے خال خال ہی۔
شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے شعرِ بالا کے متعلق سوال
پھرفرمایا کہ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ کے یہاں ایک طالب علم تھا اس نے شاہ صاحب سے اس شعر کا مطلب پوچھا شاہ صاحبؒ نے اس سے ایک رات فرمایا کہ فلاں جگہ فلاں طوائف کے یہاں جاؤ، کچھ رقم بھی وہاں کے خرچ کے لیے دی، یہ سن کربڑا حیران.. آخرشاہ صاحبؒ کیا فرمارہے ہیں، شاہ صاحب نے پھر کہا اور اصرار کے ساتھ کہا تومجبوراً وہاں گیا، ساتھ میں مصلی بھی لے گیا اوررات بھروہاں باہر نفلیں پڑھ کر صبح کوواپس آگیا، شاہ صاحبؒ نے دریافت فرمایا کہ کہو رات کیسی گزری؟ اس نے بتایا، شاہ صاحبؒ نے اگلی شب پھر بھیجا یہ اس رات بھی صبح تک نفلیں پڑھ کر آگیا، جب رات آئی توشاہ صاحب نے پھربھیجا یہ گیا اور کچھ حصہ رات کا نفلوں میں گزار کر مصلی لپیٹ کر رکھدیا کہ دیکھنا توچاہئے آخرماجرا کیا ہے، شاہ صاحب روزانہ بھیجتے ہیں، اتنے میں آہ آہ کی آواز اس کے کان میں پڑی، یہ اندر گیا اور اس طوائف سے آہ آہ کرنے کی وجہ معلوم کی، اس نے بتایا کہ اب تک تومیری عصمت محفوظ تھی، اب مجھے فکر ہے؛ کیونکہ آج تونے جلدی ہی مصلی اٹھالیا، اس نے پوچھا کہ جب تیری عصمت محفوظ ہے تویہاں تیرا قیام کیسے؟ یہاں تودوسری طرح کی عورتیں رہتی ہیں، اس نے جواب دیا کہ میری شادی ایک نوجوان سے ہوئی تھی، جب بارات مجھے لیکر چلی توراستہ میں ڈاکوؤں نے بارات کولوٹ لیا اور مجھے بھی یہاں لاکرفروخت کرگئے، اس طالب علم نے تحقیق کی اس کا وطن پوچھا اس کے والد کا نام پوچھا شوہر کا نام وغیرہ معلوم کیا، تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اس کی بیوی ہے اور یہ اس کا شوہر ہے، اس نے پوچھا آپ کہاں رہے؟ اس نے بتلایا کہ جب بارات لٹ گئی میں نے بھی شاہ صاحبؒ کے یہاں آکر طالب علمی اختیار کرلی، اس کے بعد جوکچھ ہونا تھا ہوا، صبح کوشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا توشاہ صاحبؒ اس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گئے اور فرمایا کہو بھائی! اس شعر کا مطلب سمجھ میں آگیا، اس نے جواب دیا: جی ہاں! خوب سمجھ میں آگیا۔
مدرسین کے لیے جامع نصیحت
ایک صاحب نے تحریراً عرض کیا کہ میں فلاں مدرسہ میں پڑھاتا ہوں اور فلاں سے بیعت ہوں، آپ کچھ نصائح فرمادیں، اس پر ارشاد فرمایا کہ طلبہ اور کتابوں کا پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کریں، طلبہ کواپنا محسن سمجھیں کہ انہوں نے آپ کے علوم کی تخم ریزی کے لیے اپنے قلوب کوپیش کیا اور اس طرح آپ کے علوم متعدی ہوئے؛ ورنہ تومحدود ہوکر رہ جاتے، اس لیے صلبی اولاد کی طرح اپنے طلبہ پر شفقت کریں آپ کی خامیوں کوآپ کے اساتذۂ کرام نے دور کیا ہے، اپنے طلبہ کی خامیوں کوآپ دور کریں جوکتاب پڑھائیں، پورے مطالعہ کے بعد پڑھائیں؛ اگرچہ متعدد بار پڑھاچکے ہوں، حق تعالیٰ شانہ ہرمطالعہ میں کچھ نہ کچھ نیا فیض عطا فرماتے ہیں، دل سے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ علم وعمل میں برکت دے۔
بیعت بغرضِ خلافت
میرے والد صاحب سناتے تھے کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں کوئی گاؤں کا آدمی آیا، بیعت ہوا اس کے بعد کچھ دیرتک توخاموش رہا کہ حضرت ہی خود ارشاد فرمائیں گے؛مگرجب حضرت نے کچھ نہ فرمایا توبولا ہجرت جی! وہ سجراپجرا مجھے بھی دیدیا ہوتا، حضرت نے فرمایا توکیا کرے گا؟توجواب دیا کہ میں بھی تھاری طرح مرید مراد کرلیا کرونگا۔
حضرت تھانویؒ سے سوال خلافت
حضرت تھانویؒ کی خدمت میں ایک شخص نے دوروپیہ کا ہدیہ پیش کیا اور عرض کیا کہ مجھے بھی خلافت دیدی ہوتی؟ حضرت نے فرمایا خلافت اتنی سستی ہے؟ دوروپیہ میں توکسبت
(یعنی نائی کا وہ تھیلا وغیرہ جس میں وہ اپنے اوزار استرہ، قینچی وغیرہ رکھتا ہے) بھی نہیں آتی خلافت کیا ملے گی۔
فائدہ: منشاء ان دونوں واقعوں کے ذکر کا یہ ہے کہ مشائخ کی خدمت میں حاضر ہونا،بیعت ہونا اپنی اصلاح کی نیت سے ہونا چاہیےخلافت ومجاز بننے کا خیال ہرگز نہ ہونا چاہئے کہ یہ محرومی کا سبب ہے، اس کے ہوتے ہوئے فیض نہیں پہنچتا۔
اہل اللہ کوستانے سے بہت ہی ڈرنا چاہیے
(ایک عبرت ناک واقعہ)
کچھ روافض نے ایک بزرگ کا مذاق بنانا چاہا، فرضی طور پر ایک شخص کومردہ بنایا اور چار پائی پر لٹاکر ان بزرگ کے پاس گئے کہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھادیں، طے یہ کیا تھا کہ جب وہ نماز پڑھائیں گے تودوتین تکبیر ہوجانے کے بعد وہ شخص جس کومیت بنایا گیا ہے ان بزرگ کولپٹ جائے، ان بزرگ نے کہا کہ اس کوغسل تودلادو تب نماز پڑھیں گے انہوں نے کہا کہ غسل تودے رکھا ہے، فرمایا کہ وہ غسل معتبر نہیں پھرغسل دو، اس پروہ اس کووہاں سے اُٹھاکر لے آئے دیکھا تووہ مرا پڑا ہے؛ اسی لیے ان بزرگ نے غسل کے لیے فرمایا تھا کہ زندگی کا غسل معتبر نہیں مرنے کے بعد غسل دینا چاہیے۔
فائدہ:ان لوگوں نے ان بزرگ کوستانا چاہا، حق تعالیٰ شانہ نے اس کا انتقام لے لیا، اہل اللہ کوستانے سے بہت ہی ڈرنا چاہیے کہ ان کی الٹی بھی سیدھی ہوجاتی ہے، حدیثِ قدسی میں ہے کہ جوشخص میرے ولی سے دشمنی رکھتا ہے، اس کواذیت دیتا ہے، اس سے میرا اعلانِ جنگ ہے۔
(کذا فی البخاری)
علم کوعمل کی تلاش
ارشاد فرمایا ،علم عمل کوتلاش کرتا ہے، عمل نہ ہونے پررخصت ہوجاتا ہے، جیسے کوئی آدمی اونٹ پرسوار مکان کے دروازہ پر اس کے مالک کوآواز دیتا ہے، اس کے جواب نہ دینے پر چلاجاتا ہے، پھر فرمایا علم ایک نور ہے اور جہالت ظلمت ہے؛ اسی واسطے جب کوئی چیز سمجھ میں آجاتی ہے توکہا جاتا ہے کہ مجھے روشنی مل گئی، اندھیرے سے روشنی میں آگیا۔
کتے کا تقویٰ
ارشاد فرمایا کتا ایک ٹانگ اُٹھاکر ایسے طریق سے پیشاب کرتا ہے کہ اس کی ٹانگ اور جسم کا کوئی حصہ ملوث نہ ہو، یہ اس کا تقویٰ ہے، یعنی احتیاط ہے۔
فائدہ: اس سے مادی ومعنوی گندگیوں سے بچنے کا جوسبق ہمیں ملتا ہے ظاہر ہے۔
آدمی اپنے آپ کوبے قصور نہ سمجھے
کسی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت عامل وغیرہ سے بہت پریشان ہوں سحروآسیب ہے یاکچھ اور، دعا وتوجہ فرمائیں۔
ارشاد فرمایا: آدمی اپنے آپ کوبے قصور نہ سمجھے خبر نہیں کونسی بات پر کس طرح پکڑ ہوجائے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی سمجھتا ہے کہ میں نے کوئی قصور نہیں کیا حالانکہ بے خبری میں وہ اس کوکئے ہوئے ہوتا ہے، اس پرپکڑ ہوجاتی ہے۔
مرید کوشیخ کے ساتھ غائبانہ ربط
عرض:مرید کوشیخ کے ساتھ غائبانہ ربط کیسے رہتا ہے؟ قلبی طور پر استفادہ جاری کھنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟۔
ارشاد:یہ الفاظ کی باتیں نہیں باقی اتنا سمجھ لوکہ آدمی جب کسی شیخ کواپنا مقتدا مان لیتا ہے، ان کے اقوال واعمال کا اتباع کرتا ہے، ہرچیز میں اس کی کوشش کرتا ہے کہ ان کے طریقے کواختیار کرے تواس سے آہستہ آہستہ ربط پیدا ہوجاتا ہے، جیسے مولانا الیاس صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ میں نے حضرت مولانا خلیل احمدصاحبؒ کی خدمت میں خط لکھا تھاکہ میرا دل چاہتا ہے کہ چندروز حضرت کی خدمت میں رہوں، حضرت نے فرمایا کہ تم کومجھ سے کچھ حاصل کرنے کے لیے یہاں آنے کی ضرورت نہیں دورنزدیک سب برابر ہے، جوفائدہ یہاں آکر ہوسکتا ہے، وہی فائدہ وہاں بیٹھے بیٹھے ہوگا؛ اسی طرح مولانا ظفراحمد صاحب تھانویؒ مدرسہ مظاہر علوم کے بالائی کمرے میں تہجد کے وقت ذکر میں مشغول تھے ایک دم ان کی طبیعت میں تقاضہ پیدا ہوا کہ نیچے چلوں، نیچے آکر دیکھا توحضرت سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہیں، مولانا کودیکھ کر فرمایا کہ اندر سے چار پائی لاکر یہاں ڈالدو؛ انہوں نے چار پائی ڈالدی، حضرت لیٹ گئے، یہ جاکرپھرذکر میں مشغول ہوگئے وہ جوتقاضہ تھا ختم ہوگیا۔
نسبت مع اللہ کی حقیقت
عرض: نسبت مع اللہ کی حقیقت کیا ہے؟۔
ارشاد: اللہ سے ایک خاص قسم کا تعلق پیدا ہوجائے کہ آدمی اس کی نافرمانی نہ کرے، اس کی اطاعت کرتا رہے، ہرکام میں نیت خالص رکھے اور اس فکر میں رہے کہ وہ مجھ سے راضی ہوجائے ناراض نہ ہو؛ یہاں تک کہ یہ تعلق قوی ہوجائےتواس کونسبت مع اللہ کہتے ہیں، حضرت تھانویؒ نے ایساہی فرمایا ہے۔
اصلاح بغیر سختی کے ہوسکتی ہے
عرض: اصلاح بغیر سختی کے ہوسکتی ہے یانہیں؟۔
ارشاد:ہرایک کی اصلاح بغیر سختی کے ہوجائے ایسا بھی نہیں اور ہرایک کی اصلاح سختی سے ہوجائے ایسا بھی نہیں؛ بلکہ کسی کے لیے نرمی اور کسی کے لیے سختی کی ضرورت پیش آتی ہے "طرق الوصولِ الی اللہ بعددانفاس الخلائق" اللہ تعالیٰ تک پہونچنے کے راستے اتنے ہیں جتنے مخلوق کے سانس ہیں، صر ف ایک دونہیں، باقی یہ ذوقی چیز ہے، حضرت تھانویؒ کا ذوق یہ ہے کہ بغیرسختی کے اصلاح نہیں ہوتی؛ چنانچہ اس کے شواہد ان کوملتے چلے گئے، دوسروں کا ذوق اس سے مختلف ہے۔
یہ بھی ایک طریقہ ہے اصلاح کا
پھرفرمایا کہ ایک شخص دیوبند آئے مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ان کے مہمان خانہ میں ٹھہرگئے، اب ناشتہ کا وقت ہوتا توحاضرِ خدمت دن کا کھانا، رات کا کھانا ہوتا توحاضرِ خدمت؛ مگرنماز کے وقت غائب؛ کیونکہ وہ نماز نہیں پڑھتے تھے، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے ایک رشتہ دار نے جووہاں پڑھتے تھے، انہیں ڈانٹ دیا کہ آپ عجیب آدمی ہیں، کھانے میں حاضر نماز میں غائب، نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کوعلم ہوا، توحضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کوڈانٹا کہ وہ خدا کا قصور کرتے ہیں، آپ کا قصور نہیں کرتے، آپ ہوتے کون ہیں ڈانٹنے واے؛ اسی روز سے انہوں نے نماز شروع کردی، یہ طریقہ بھی ہے اصلاح کا۔
ایضاً
پھرفرمایا کہ ایک صاحب حضرت (مدنی رحمۃ اللہ علیہ) کے پیردبانے بیٹھے بہت ہی عقیدت مندی کے ساتھ، حضرت کوکچھ نیند کا اثر ہوا، انہوں نے موقع غنیمت سمجھا، جیب میں سے بٹوا نکال لیا، حضرت بالکل سوتے ہوئے بن گئے؛ گویا ان کوخبر ہی نہیں؛ یہاں تک کہ وہ اُٹھ کرچلے گئے؛ اسی طرح ایک جگہ تشریف لے گئے، کھانا کھاکر لیٹےشیروانی اتار کرکھونٹی پرٹانگ دی ایک صاحب آئے اور بہت ہی احتیاط سے پیسے نکال کرلے گئے، حضرت کے پاس ان کے علاوہ اور پیسے تھے نہیں، اس لیے قرض لےکر سفرپورا کیا؛ مگراس کے بعد وہ اتنے متاثر ہوئے کہ کبھی چوری نہیں کی یہ بھی ایک طریقہ ہے، اصلاح کا مگر اس طریقہ میں اپنے نفس پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔
مولانا گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں اصلاح میں سختی
فرمایا: حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادآبادیؒ اصلاح میں سختی کرتے تھے، بہت ڈانٹتے تھے اور ایسی سختی کرتے کہ مولانا تھانویؒ جیسے آدمی گھبراگئے، مولانا تھانویؒ نے خود لکھا ہے (یعنی کانپور سے گنج مرادآباد مولانا سے ملنے جانے کا واقعہ) پھر فرمایا کہ مولانا فضل الرحمن صاحبؒ کے یہاں حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی آئے ہیں اور وہ تین دعا کرکے آئے، ایک تویہ کہ کسی سے راستہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئے، بغیرراستہ پوچھے وہاں تک پہونچ جاؤں، ایک یہ کہ مجھ سے ناراض نہ ہوں، ایک یہ کہ مجھے دعادیدیں؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ راستہ پوچھنے کی نوبت نہیں آئی، بغیر راستہ پوچھے وہاں پہنچ گئے، ناراض بھی نہیں ہوئے، ان پر اور دعا بھی دیدی؛ پھرفرمایا کہ: مفتی عزیزالرحمن صاحب دیوبندیؒ بھی ان کے یہاں آئے ہیں، ان کودور سے آتے دیکھ کر ہی ناراض ہوگئے کہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں، واپس ہوجاؤ، وہ واپس ہوگئے اس کے بعد یکایک الہام ہوا کہ بڑے اونچے آدمی ہیں، فوراً ایک آدمی بھیجا کہ ایسی ایسی صورت کے آدمی ہیں ان کوبلاکر لاؤ، وہ گیا اور مفتی صاحب کوبلالایا یہ آگئے ان کا اعزاز فرمایا۔
ذکر "لَاإِلٰہ إِلَّااللہ" میں ہردس مرتبہ پر کلمہ پورا کرنے کی حکمت
ایک صاحب کوذکرِ جہری تلقین فرمایا کہ دوسومرتبہ "لَاإِلٰہ إِلَّااللہ" پڑھ لیا کریں اس طرح کہ ہردس مرتبہ پر کلمہ پورا کرلیا کریں "مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ" اس واسطے کہ"لَاإِلٰہ إِلَّااللہ" کی تاثیر گرم ہے، اس میں اعتدال پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہ "مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ" سے حاصل ہوتا ہے۔
مراقبہ کس لیے ہوتا ہے
عرض:آپ کوکبھی کسی وقت مولانا احمد رضا خان صاحب کے متعلق مراقبہ میں نظر آیا کہ کس حالت میں ہیں؟۔
ارشاد: کیا مراقبے اسی لیے ہوا کرتے ہیں کہ دنیا بھرکے لوگوں کے عیوب اور گناہ ٹٹولیں، مراقبہ اس لیے نہیں ہوتا، مراقبہ اپنے گناہوں کے لیے ہوتا ہے کہ اپنےگناہوں کودیکھیں اور غورکریں کہ ان سے توبہ کی کیا صورتیں ہیں، باقی میں ان کی شان میں کچھ کہتا نہیں، میں نے کبھی ان کے متعلق نازیبا لفظ نہیں کہا، ان کے لوگ مجھے براکہہ لیں؛ مگرمیں نہیں کہتا۔
عرض:ایک بزرگ فرمارہےتھے کہ مولانا احمد رضاخان صاحب میں اتنا زیادہ عشقِ رسول تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عشق کے طفیل ان کومعاف کردیں۔
"بہ مئے سجادہ رنگین گرت پیرِمغاق گوید" مع واقعہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ
مولانا حامدمیاں صاحبؒ نے سوال کیا کہ حضرت! "بہ مئے سجادہ رنگین کن گرت پیرمغاں گوید" کا کیا مطلب ہے، تواس پرفرمایا کہ قصہ مشہور ہے، اورنگ زیب عالمگیرؒکی حکومت میں کسی ہندولڑکی پرنظر پڑگئی کسی پولیس افسر کی، پولیس افسر مسلمان تھا اسے پسند آگئی یہ اندر بیٹھ گئی، اس پولیس افسر نے کیا کیا، جب اس کی شادی کا وقت آیا، اس کا ڈولاتیار ہوا، اس پولیس افسر نے مطالبہ کیا کہ پہلی رات ڈولا میرے یہاں رہےگا، لڑکی اس کے لیے تیار نہیں؛ حتی کہ کوشش کرکے لڑکی نے براہِ راست اورنگ زیب عالمگیرؒ سے عرض کیا؛ انہوں نے کچھ سوچا، سوچنے کے بعد کہا کہ تمھیں اس کی بات مان لینی چاہئے، لڑکی نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ توکہا کہ بیٹی اسکا کہنا مان لو، تواس نے اور تعجب سے کہا کہ آپ مجھے بیٹی بھی کہہ رہے ہیں اور ایسی بات کے لیے کہہ رہے ہیں، آپ بتائے کہ اگرواقعی میں آپ کی بیٹی ہوں اور ایسا معاملہ ہوتو کیا آپ برداشت کریں گے؛ تواورنگ زیبؒ نے کہا کہ ہمارا حکم توماننا ہی پڑیگا، اب وہ لڑکی آگے کیا بولے، کچھ نہیں کہا؛ چنانچہ طے ہوگیا، اس پولیس افسر کے یہاں جانا، وہ پولیس افسر (ڈولا اس کے گھر جانے سے پہلے) نذرانۂ عقیدت لیکر آیا، ماتحتوں کوخیرات تقسیم کی اور بادشاہِ وقت کے سامنے نذرانۂ عقیدت لے کرگیا، خوشی ومسرت کے ساتھ ساتھ؛ چونکہ سب حال معلوم ہوگیا تھا کہ اورنگ زیبؒ نے یہ کہا، لڑکی نے یہ کہا، جب افسر نذرانہ لیکر آیا توپوچھا یہ نذرانہ کیسا ہے؟ کیا بات ہے، کہا وہی تواورنگ زیب عالمگیرؒ نے زور سے ایک تھپڑمارا جس سے اس کا سرپھٹ گیا اور بڑی عبرت ناک سزادی اور کہا کہ ڈولا دولہا کے ہی گھر جائیگا، لڑکی سے کہہہ رہے ہیں کہ کہنا ماننا پڑے گا، بات کیا ہے پورے طور پر دیکھنا تھا کہ شکایت غلط تونہیں؛ تاکہ آئندہ کسی کی جرأت نہ ہو، دیکھنے والوں کوتو معلوم ہوکہ بری سخت بات کہہ رہے ہیں اورنگ زیب عالمگیرؒ باقاعدہ صاحب طریقت اور صاحب نسبت شخص ہیں اور وہ ایسی بات کہہ رہے ہیں، کچھ بات ضرور ہے، باقی جس طرح کھرے کھوٹے روپئے چلتے ہیں، اس لائن میں بھی کھرے کھوٹے چلتے ہیں، کھوٹے کھرے بن کراس پر اشکال کرتے ہیں، یہ نہایت خطرناک چیز ہے، اس واسطے جوشخص اپنے لیے پیرمغاں بنائے، اس کے متعلق خوب تحقیق کرلے کہ واقعی یہ ظاہروباطن کا ماہر ہے یانہیں؛ اگرہے توپھر اب آگے کچھ اور پوچھنا ہی نہیں، جس کے پاس علمِ ظاہر بھی ہے اور علمِ باطن بھی ہے، تزکیہ نفس کئے ہوئے ہے، تصور بھی نہیں کرسکتا شراب کا جوآپ پیرِمغاں کی طرف منسوب کررہے ہیں۔
یہ صورت توشراب پینے والے کی نہیں
ایک زمانہ میں شیخ الحدیث صاحبؒ دلی جایا کرتے تھے، اکیلے جایا کرتے تھے، کسی اسٹیشن پرپیاس شدید لگ رہی تھی، سامنے دیکھا توبوتلیں ہیں، دوکان ہے، اس سے خرید نے کے لیے پہونچ گئے، اس نے ایک نظر ڈالی اور کہا کہ آپ کے پینے کی نہیں یہ سمجھے کہ یوں دیکھا ہوگا کہ طالب علم آدمی ہے، اس کے پاس پیسے نہیں ہونگے توکہا کہ پیسے جتنے کہوگے اتنے دیدونگا، بوتل دیدو، اس نے کہا: نہیں دیتا، شیخ نے فرمایا کہ بات توبتادو، تواس نے ڈانٹ کے کہا کہ نہیں بیچتا میں آپ کے ہاتھ، آپ یہاں سے جائیے، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ چلے آئے، بات کیا ہے، دراصل وہ شراب کی بوتلیں تھیں، اللہ نے بچایا، یہ توبے خبری میں پہونچ گئے تھے، اس نے دیکھ کرسمجھ لیا کہ یہ مغالطہ میں آگئے ہیں، یہ صورت توشراب پینے والے کی ہے نہیں (پھرمولانا حامد میاں صاحبؒ سے مخاطب ہوکر فرمایا) حضرت مولانا وصی اللہ صاحبؒ نے حکیم افہام اللہ صاحبؒ سے کتنے عرصہ پہلے کہدیا تھا کہ یہ تمہارے پاس آئینگے، ذرا ان کا خیال رکھنا، آپ ان کے یہاں گئے اورحکیم افہام اللہ صاحبؒ نے آپ کا خیال رکھا، بس جوعلم ظاہر اور علم باطن میں کامل ہے تووہ غلط بات کہے گاہی نہیں لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے اس کی بات کوغلط کہہ رہے ہیں؛ لیکن درحقیقت وہ غلط بات نہیں کہے گا۔
لمّۃ الشیطان اور لمّۃ الملک میں فرق اور شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ
کسی صاحب کے استفسار پرارشاد فرمایا کہ لمّۃ الشیطان (شیطانی اثر) اور لمّۃ الملک (فرشتہ کا اثر) میں فرق علم سے ہوگا؟ اس کے بعد فرمایا کہ پیرانِ پیرسیدعبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکشوف ہوا توکشف کی حالت میں ایسا لگا کہ میں اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوگیا ہوں؛ اسی حالت میں سخت پیاس محسوس ہوئی، فوراً ایک سونے کا پیالہ دکھائی دیا جومیرے جانب بڑھا، تامل ہوا کہ پیئوں یانہ پیئوں؛ کیونکہ سونے کا برتن استعمال کرنا ناجائز ہے، اس کے بعد خیال ہوا کہ اللہ ہی نے حرام کیا ہے اور وہی دے رہے ہیں؛ پھرخیال ہوا کہ نہیں پیئوں گا؛ کیونکہ شریعتِ محمدیﷺ میں نسخ نہیں، یہ یقین کرلینے کے بعد لاحول پڑھا، پڑھتے ہی شیطان بھاگ گیا؛ لیکن ایک ٹانگ مارگیا کہ تواپنے علم کے ذریعہ بچ گیا؛ ورنہ اتنوں کومیں نے اس مقام پرلاکر جہنم میں ڈالا ہے، میں نے کہا علم کے ذریعہ نہیں؛ بلکہ فضلِ خداوندی سے بچا ہوں، اس پر مولانا محمدشاہ گنگوہیؒ نے عرض کیا معلوم ہوا کہ اصل چیز فضلِ خداوندی ہے اور علم ذریعہ احساس ہے، حضرت نے ارشاد فرمایا: جی ہاں۔
علماء کی غیبت تباہی ہے
ارشاد فرمایا کہ علامہ عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے "الیواقیت والجواہر" سے نقل کیا ہے کہ "لحوم العلماء مسمومۃ" اس کا مطلب یہ ہے کہ علماء کا گوشت زہریلا ہوتا ہے، ارشاد ہے، آیتِ کریمہ:
"وَلَايَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ"۔
(الحجرات:۱۲)
ترجمہ:اورکوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کوپسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس کوتم ناگوار سمجھتے ہو۔
(بیان القرآن)
مراد یہ ہے کہ ان کی غیبت دین ودنیا دونوں کی تباہی، بربادی ہے، اس سے احتراز لازم ہے، بس حق تعالیٰ حفاظت فرمائے۔
بدنظری کا علاج
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت نامحرموں پرنظر پڑنے سے نہیں بچاجاتا اس کے لیے دعا فرمادیں، ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے ہرآنکھ پردوکواڑ لگارکھے ہیں، جب غلط جگہ نظر پڑے فوراً ان کوبند کرلو، دوسری طرف منہ پھیرلیا کرو، اچانک بلاارادہ نظر پڑگئی تواس پر کوئی گناہ نہ ہوگا، ہاں اس نظرکوباقی رکھے گا یابالاختیار نظر ڈالے گا توگناہ ہوگا، اس لیے کہ معصیت وہ چیز ہے جواختیار سے ہو۔
طالبِ علم کا نصب العین
طالب علم کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ حضورِاقدسﷺ کواللہ نے جوہدایات دیکربھیجا تھا، ان کی تفصیلات معلوم کریں؛ تاکہ اپنی زندگی ان کی زندگی کے موافق بنائیں؛ کیونکہ رنج وخوشی دونوں ہی قسم کے حالات پیش آتے ہیں، طالب علم کومعلوم ہونا چاہیے کہ ان حالات میں میرا نصب العین کیا ہوگا، وسوسے توآتے ہی ہیں، ان کا علاج بس یہی ہے کہ ان کی طرف توجہ نہ کی جائے، تسبیحات جس قدر دل لگاکر ادا کی جائینگی اسی قدر نفع ہوگا، طالب علم کویہ نیت کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کومعلوم کریں کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے اور کن باتوں سے راضی ہوتا ہے، راضی ہونے والی باتوں پر عمل کریں، ناراض ہونے والی باتوں سے پرہیز کریں، سارا دین ایک دم ہی قابومیں نہیں آجاتا اللہ تعالیٰ توفیق دے آپ کو بھی مجھے بھی۔
مصالحت کا طریقہ
ارشاد: جب دوفریقوں میں باہم منازعت ہوپھر وہ مصالحت کے لیے آمادہ ہوں تواس کے لیے ضروری ہے کہ جوخدائے پاک اور رسولِ اکرمﷺ کے منشا کے بھی خلاف ہے اور اس کی سزا بھی سخت ہے؛ پھراس پر قلب سے نادم ہوکر مکافات کے لیے آمادہ ہوں؛ خواہ اس کے لیے کتنی بھی قربانی دینی پڑے؛ اگریہ جذبہ قلب میں ہے تومصالحت، مصالحت ہے جس کے ذریعہ سے منازعت ختم ہوجاتی ہے اور اللہ پاک کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں؛ اگریہ جذبہ نہیں بلکہ کسی خارجی دباؤ سے مصالحت کی جارہی ہے، مثلاً کوئی لالچ ہے، یاڈر، یابدنامی، یابے عزتی کا خوف ہے تووہ حقیقی مصالحت نہیں؛ بلکہ مخادعت (دھوکہ دہی) ہے، ہرفریق دوسرے کودھوکہ دینے کی کوشش کریگا اور نزاع کی جڑختم نہیں ہوگی؛ بلکہ قلوب میں پختہ ہوجائے گی، جس کا نتیجہ ظاہر ہے۔
غصہ کا علاج
ایک شخص کے استفسار پر ارشاد فرمایا کہ اگرکسی کی خلافِ طبع بات پر غصہ آجائے تویہ سمجھ کرپینا چاہیے کہ یہ میرے گناہوں کا کفارہ ہے اور یہ شخص دھوبی ہے، جس طرح دھوبی کپڑے سے میل کوصاف کرتا ہے؛ اسی طرح یہ شخص میرے قلب سے گناہوں کوصاف کررہا ہے۔
اکابر کے قول وفعل میں تاویل
عرض: بزرگانِ دین سے بظاہر خلافِ شرع کوئی بات صادر ہوجاتی ہے تواس میں تاویل کی جاتی ہے؛ جب کہ عام لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں برتا جاتا اس کی کیا وجہ ہے۔
ارشاد: چونکہ ان حضرات کی زندگی شریعت کے مطابق ہوتی ہے، اس لیے شاذ ونادر بظاہر کوئی امرخلافِ شریعت ان سے سرزد ہوتا ہے، تواس کوان کے عام حالاتِ زندگی کے موافق بنانے کے لیے اور پوری زندگی کی روشنی میں اس کا صحیح محل تلاش کرنے کے لیے تاویل کی جاتی ہے، اوّل تومسلمان سے نیک گمان رکھنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں؛ کیونکہ اس کا اسلام خود اس بات کا مقتضی ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ ظن رکھا جائے؛ مگرجب کہ وہ ارکانِ اسلام کومکمل طور پربجالارہا ہے اور غلط کاموں سے بچ رہا ہے تویہ حسنِ ظن اور بڑھ جاتا ہے؛ پھرجس قدر اس شخص میں احکامِ شرع پرپختگی آتی جاتی ہے، اسی قدر اس کے ساتھ نیک گمان بڑھتا چلاجاتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کا اتباع کیا جاتا ہے، اس کی بات مانی جاتی ہے، ایسی حالت میں اگرکوئی امر بظاہر خلافِ شریعت اس سے صادر ہوتا ہے تواس کی زندگی کے یہ سب حالات بتاتے ہیں کہ وہ شخص ایسا نہیں کرسکتا، ایسا نہیں کہہ سکتا، ایسانہیں ہوسکتا۔
کیا عورت بیعت کرسکتی ہے؟
عرض: حضرت عورتیں بھی بیعت کرسکتی ہیں؟۔
ارشاد: فرمایا کہ: تذکرۃ الرشید:۲/۳۳۷ میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے کہ اگرعورتوں کوبیعت کرنے کی اجازت ہوتی تومیری صفیہ مرید کیا کرتی۔
بیعت کیا چیز ہے کس لیے ہوتے ہیں؟
استفسار کیا گیا کہ مرید کس کوکہتے ہیں؟۔
ارشاد: فرمایا کہ مولوی وکیل عبداللہ جان صاحب نے حضرت سہارنپوریؒ سے پوچھا تھا بیعت کیا چیز ہے؟ کس لیے ہوتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ مرید توبہ کرتا ہے اور مراد (شیخ)کواس پرگواہ بناتا ہے وہ کہتے تھے کہ مراد کا لفظ پیر کے معنی میں اس روز میںنے پہلی بار سنا تھا، اس سے طبیعت میں شبہ پیدا ہوا کہ توبہ توخدا کے سامنے کی جاتی ہے اور وہ دل کی حالات سے خوب واقف ہے، اس کوگواہ کی کیا ضرورت ہے "يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَاتُخْفِي الصُّدُورُ" (غافر:۱۹) "ترجمہ:وہ آنکھوں کی چوری کوجانتا ہے اور ان کوبھی جوسینوں میں پوشیدہ ہیں" (بیان القرآن) خود ہی دل میں جواب آیا کہ انسان کے اعضاء بھی تووہاں (آخرت میں) میں گواہی دیں گے لہٰذا گواہی پرکیا اشکال مولوی صاحب موصوف بڑے زیرک اور وسیع المطالعہ شخص تھے، دل میں کافی شکوک وشبہات لیکر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے کہ آج بحث کرونگا؛ مگربات اتنی ہی ہوپائی تھی کہ تمام شکوک وشبہات دفع ہوگئے، اس کے بعد حضرت سے بیعت کی درخواست کی حضرت نے فرمایا کہ آپ کوبیعت کی کیا ضرورت ہے؛ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے توکبھی ضرورت سمجھ کرکوئی کام کیا نہیں؛ انگریزی معاشرت رکھتا ہوں وہ بلاضرورت، بیعت بھی بلاضرورت ہی ہوجاؤنگا، اس کے بعد بیعت ہوگئے اور حضرت نے ان کواسمِ ذات کا ورد بتایا جتنا کثرت سے ہوسکے پھران کے حالات بہت عجیب ہوگئے تھے اللہ نے بہت کچھ نوازا تھا۔