امینہ جناں نے اسلام کی خاطر چہیتے خاوند کو خیر باد کہہ دیا

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
امینہ جناں کی پیدائش جنوری1945ء میں امریکا کی ریاست لاس اینجلس کے علاقہ ویسٹ میں ہوئی تھی ۔ امینہ کا خاندان پروٹسٹنٹ عیسائی تھا اور گھر میں مذہب کا کافی چرچا رہتا تھا۔ جب امینہ 8 ویں میں تھی تو ان کے والدین فلوریڈا منتقل ہو گئے۔ امینہ کو بائبل سے خاص دلچسپی تھی اور وہ بہت دل لگا کر اسے پڑھتی تھی، بہت سے حصے اسے زبانی یاد تھے ، وہ وومن لبریشن موومنٹ (تحریک آزادی نسواں) کی پرجوش کارکن تھی۔

ہائی اسکول کے بعد اس کی شادی ایک اچھی جگہ کر دی گئی ، شادی کے بعد امینہ ماڈلنگ کرنے لگیں او راس میں اس نے کافی ترقی کی، شوبز میں اس کا کافی نام ہو گیا، پیسے کی بھر مار ہو گئی، غرض آسائش کا ہر سامان مہیا ہو گیا۔ بعض اوقات امینہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی خریداری کے لیے ہوائی سفر کرکے دوسرے شہر جاتی تھی، اسی دوران امینہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی کی ماں بن گئی، مگر ہر طرح کے آرام اور آسائش کے باوجود اسے سکون نہیں تھا۔ زندگی میں کسی چیز کی کمی محسوس کرتی ، سکون کی تلاش میں امینہ نے ماڈلنگ چھوڑ دی ، دو بارہ مذہبی زندگی اختیار کر لی اور مختلف تعلیمی اداروں میں مذہبی تبلیغ کا کام کرنے لگی اور 30 سال کی عمر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونی ورسٹی میں داخلہ لے لیا۔

یونی ورسٹی میں امینہ کو ایک ایسی کلاس میں داخلہ ملا، جس میں سیاہ فام اور ایشیائی مسلمانوں کی تعداد خاصی بڑ ی تھی ، امریکا اور یورپ کے عام مصنفین او رمؤرخین مسلمانوں کو دہشت گرد وجاہل، غیر مہذب ، عیاش اور عورتوں پر ظلم کرنے والے لکھتے آرہے تھے، جس کی وجہ سے عام یورپین اورامریکن ،مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ امینہ کواپنی کلاس میں مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے گھٹن کااحساس ہوتا۔ پہلے وہ بھی مسلمانوں سے نفرت کرتی تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امینہ کو یہ دیکھ کر خاص حیرت ہوئی کہ مسلم سیاہ فام نوجوان عام امریکی نوجوانوں کے برعکس نہ لڑکیوں سے بے تکلف ہونا پسند کرتے، نہ آوارگی اور عیش پسندی کے رسیہ تھے۔ نہ مارکاٹ نہ دہشت گردی کی کوئی بات کرتے۔ یہاں تک کہ امینہ انہیں عیسائیت کی دعوت دیتی تو وہ بڑے احترام سے اس کی باتیں سنتے اوربحث میں پڑنے کے بجائے مسکرا کر خاموش ہو جاتے۔ امینہ کو ان مسلم نوجوانوں میں ایسی کوئی برائی نظر نہ آئی جیسی وہ مسلمانوں میں سنتی آرہی تھی ، اسی وجہ سے امینہ نے اسلام کا مطالعہ کرنے او رحقیقت حال سے آگاہی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ اسی مقصد کی خاطرامینہ نے سب سے پہلے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ پڑھنا شروع کیا اور یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کتاب دل کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی اپیل کرتی ہے۔

بائبل کے مطالعہ کے دوران ذہن میں کتنے ہی سوال پیدا ہوتے تھے مگر کسی دانشور کے پاس ان کا کوئی جواب نہ تھا مگر قرآن پڑھا توان سارے سوالوں کے جواب مل گئے جو عقل وشعور کے عین مطابق تھے۔ امینہ کو لگا وہ ابھی تک اندھیروں میں ہی بھٹک رہی تھی۔

امریکن اور یورپین مصنفین پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں بھی بڑا پروپیگنڈہ کرتے ہیں، اس لیے امینہ نے مزید اطمینان کے لیے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی زندگی اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کیا تو یہ دکھ کر حیرت میں رہ گئی کہ پیغمبر اسلام بنی نوع انسان کے سچے خیر خواہ ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے لیے ہی نہیں، غیر مسلموں سے بھی محبت کا پیغام دیا اور خاص طور سے عورتوں کا درجہ اس قدر بلند فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے او رتم میں سب سے اچھا شخص وہ ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کر ے اور بیٹیوں سے محبت اور شفقت کو آخرت میں اپنی قربت کا سبب بھی بتایا۔ یہ سب پڑھ کر امینہ جھوم اٹھی۔ اچھی طرح غور وخوض کرکے امینہ سمجھ گئی کہ سچا سکون اسلام میں ہے اور اس نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 21 مئی 1977ء کو ڈینور کی مسجد کے امام کے سامنے امینہ نے اسلام قبول کر لیا۔ امینہ کے قبول اسلام سے پورے خاندان میں جیسے کہرام مچ گیا ۔ امینہ اور اس کے شوہر کے تعلقات مثالی تھے اور ان دونوں میں آپس میں بہت محبت تھی۔ امینہ کے شوہر نے اس سے اسلام یا اس میں سے ایک کو چننے کو کہا ۔ امینہ نے اسلام کو چنا اور دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ عارضی طور پر بچے امینہ کے پاس رہے، اس کے شوہر نے بچوں کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔

معاشی ضرورتوں کے پیش نظر امینہ کو ملازمت کرنی تھی ، کئی جگہ صرف اس لیے ملازمت نہیں ملی کہ اس نے اسلام قبل کر لیا تھا۔ بڑی مشکل سے ایک دوست کی مدد سے امینہ کو ملازمت مل گئی۔ امینہ کا ایک بچہ بچپن سے معذور تھا۔ ملازمت کے بعد بچے کا علاج بلامعاوضہ ہونے لگا۔ ڈاکٹروں نے دما غ کے آپریشن کا فیصلہ کیا۔ امینہ نے الله کے حضور گڑ گڑا کر خوب دعائیں کیں ۔ الله کے فضل سے آپریشن کام یاب رہا۔ بچوں کی تحویل کا مقدمہ 2 سال تک چلا اور اس فیصلے پر ختم ہوا کہ اگر امینہ اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے تو اسے اسلام سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ اس فیصلے سے امینہ ٹوٹ سی گئی پر الله کی رحمت نے اسے تھام لیا اور اس نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ میں اپنے بچوں سے جدائی گوارا کر لوں گی، پر اسلام سے دست بردار نہیں ہو سکتی اور دنیا کی کسی چیز کی محبت ایمان سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی ۔ دونوں بچے باپ کی تحویل میں دے دیے گئے۔

ایک سال تک امینہ قرآن وحدیث اور دینی کتب کے مطالعہ میں مشغول رہی، ساتھ ہی الله تبارک وتعالی سے اپنا تعلق گہرا کرنے کے لیے تبلیغ دین میں لگ گئی۔خیر خواہوں کے اصرار پر ایک مراکشی مسلمان سے نکا ح کر لیا۔ یہ صاحب مالی طور پر زیادہ مضبوط نہیں تھے۔ امینہ نے ایک بڑی رقم اپنے خاوند کو دی جس سے وہ کوئی کاروبار کر لیں۔ 3مہینے بعد ہی اس مراکشی نے امینہ کو طلاق دے دی اور تحریر موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس نے امینہ کی بھاری رقم بھی ہضم کر لی اور اس رقم کی مدد سے جلد ہی دوسری شادی بھی رچالی۔ طلاق کے چند ماہ بعد الله نے امینہ کو ایک چاند سے بیٹے سے نوازا جس کا نام امینہ نے محمد رکھا۔

امینہ نے اپنی ساری زندگی دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے وقف کر دی ۔ امینہ نے عربی زبان سیکھی، اس وقت امریکا میں قرآن کے 27 ترجمے دست یاب ہیں، جن میں سے 10 کا امینہ نے مطالعہ کیا ہے ۔ مختلف حدیث کی کتابوں یعنی بخاری ، مسلم ، ابوداؤد او رمشکوٰة کا کئی کئی بار مطالعہ کر چکی ہیں او رمختلف مسلمان علماء کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی رہتی ہیں۔ امنیہ کا خیال ہے کہ جب تک ایک مسلمان قرآن وحدیث اور اسلام کے بارے میں بھرپور معلومات نہ رکھتا ہو وہ تبلیغ کے تقاضوں سے کماحقہ عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔ امینہ مانتی ہیں کہ یہ بھی الله کی مہربانی ہے کہ امریکا جیسے ملک میں رہتے ہوئے بھی میں پردہ کر رہی ہوں۔

امینہ نے مختلف مقامات پر مسلم وومن اسٹڈی سرکل قائم کیے ہیں، جہاں مسلم خواتین کے ساتھ ساتھ غیر مسلم خواتین بھی آتی ہیں ۔ امینہ خواتین کو بتاتی ہے کہ اسلام نے 14 سو سال پہلے خواتین کو جو حقوق عطا کیے ،چاہے وہ ماں ہو ، بیٹی ہو ، بیوی یا بہن ہو دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اسے جائیداد میں بھی حق دار بنایا خاوند سے کہا گیا کہ اپنی بیوی سے بہترین سلوک کرے ، باپ کو بیٹی کی بہترین پرورش پر جنت کا حق دار بتایا، ماں کے قدموں میں جنت قرار دی گئی اور باپ کے مقابلے میں اسے 3 گناہ زیادہ واجب الاحترام قرار دیا گیا۔ یہ سب باتیں سن کر امریکا کی غیر مسلم خواتین کے منھ حیرت سے کھلے رہ جاتے ہیں ۔ امینہ کی کوشش سے بہت بڑی تعداد میں غیر مسلم خواتین دائرہ اسلام میں داخل ہو چکی ہیں ۔ امینہ کی کوشش سے اس کے خاندان کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا، امینہ کا بڑا بیٹا جواپنے عیسائی باپ کے پاس رہتا ہے، اکثر امینہ سے ملنے آتا رہتا تھا، امینہ ہمیشہ اسے دین اسلام کی اچھائیوں کے بارے میں بتاتی اور امینہ نے مناسب وقت پر اپنے بیٹے کو اسلام کی دعوت پیش کی جسے اس نے قبول ہی نہیں کیا، بلکہ اپنا نام بھی اپنی مرضی سے فاروق رکھا، وہ بہت سچا او رپکا مسلمان ہے۔ امینہ خود کہتی ہیں کہ ساری محرومیوں کے باوجود دین کی تبلیغ سے مجھے لگتا ہے کہ ایک خاص قسم کے سکون وا طمینان کی دولت میرے پاس ہے۔

محترمہ ام فاکہہ زنجانی، جدہ
 
Top