مظاہرعلوم سہارنپورکے بانی
حضرت مولانا مفتی محمدسعادت علی ؒ فقیہ سہارنپور
حضرت مولانا مفتی محمدسعادت علی ؒ فقیہ سہارنپور
آ پؒ مجاہدکبیرحضرت مولاناسیداحمد شہیدؒ کی جماعت کے خاص رکن،حضرت مولانااحمدعلیؒمحدث سہارنپوری کے استاذ،حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒکے استاذالاساتذہ،مظاہرعلوم سہارنپورکے بانی مبانی،حضرت مولاناشاہ محمداسحق دہلویؒکی معتمدخصوصی اورعبقری شخصیات میں سے تھے۔
فقہ وفتاویٰ سے خصوصی مناسبت کی وجہ سے آپ کو’’ فقیہ سہارنپور‘‘کے نام سے جاناجاتاتھا،دیگراعیان علم کے علاوہ حضرت شاہ محمداسحق محدث دہلویؒکوآپ کے فقہی فیصلوں اورمسائل پرشرح صدرتھا۔
انگریزی سامراج اوراس کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ کی بگڑتی ساکھ کودیکھ کرآپ کے دل میں یہ خیال گزراکہ ہندوستان میں سرمایۂ ملت کی نگہبانی اورنسل نوکی جہانبابی کے لئے دینی مدارس کاوجودازبس ضروری ہے اس خیال نے جب پختگی پیداکرلی اورحالات نے مدرسہ قائم کرنے پر مجبورکردیاتوسب سے پہلے آپؒنے طلبہ کواپنے گھرپرہی پڑھاناشروع کردیا،ان کے قیام اورطعام کانظام بھی آپ ہی فرماتے تھے۔
حضرت مولانا شاہ محمد اسعد اللہ ؒصاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
’’حضرت مولانا سعادت علی ؒ کچھ اسباق پڑھاتے تھے اور بقیہ وقت مدرسہ کی توسیع وترقی میں خرچ کرتے تھے اور لوگوں کو اس مدرسہ کی مالی اعانت کی طرف توجہ دلاتے تھے اور خودبھی فراہمی چند ہ کے لئے تکلیف فرماتے تھے‘‘
(حیات اسعد ص ۲۹ بحوالہ نظام کانپور بابت مئی ۱۹۶۳ئ)
طلبہ کی تعدادبڑھنے پرآپ نے کرایہ کے مکانات،محلہ قاضی کی مسجدوغیرہ میں مدرسہ کوپھیلادیااس طرح کزرع اخرج شطأہ کامصداق بن کرجب مدرسہ قبولیت تامہ وعامہ حاصل کرنے لگاتو اساتذہ میں اضافے کی ضرورت محسوس کی گئی چنانچہ حضرت مولاناسخاوت علی ؒاسی دورمیمون میں استاذمتعین کئے گئے۔
’’عربی مدرسہ‘‘ سے’’ مظاہرعلوم ‘‘تکیہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیم وتعلم کا مبارک سلسلہ حضرت مولانامفتی سعادت علیؒ کے دولت کدہ پرایک عرصہ سے جاری تھاجس کاباقاعدہ کوئی نام نہیں تھالیکن طلبہ کی کثرت،کرایہ کے مکانوں میں مدرسہ کی منتقلی اوراساتذہ کی تعدادمیں اضافہ کے بعدیکم رجب المرجب ۱۲۸۳ھ م ۹؍نومبر۱۸۶۶ء سے اس مکتب کو ’’عربی مدرسہ‘‘کے نام سے پکاراجانے لگااورکئی سال تک کی رودادیں اسی نام سے مطبوع ہوتی رہیں۔
اسی درمیا ن ۱۲۸۶ھ میں بانی مظاہرعلوم حضرت مولانااحمدعلی محدث سہارنپوریؒ وصال فرماگئے لیکن علم اورعلماء کاجو بابرکت سلسلہ شروع فرمادیاتھاوہ چلتارہا۔
طلبہ کے رجوع اورحالات کے تقاضوں کے پیش نظریہ ضرورت بہرحال مسلم تھی کہ مدرسہ کرایہ کی عمارت میں کب تک چلتارہے گااس فکروخیال کی پختگی نے حضرت حافظ فضل حق جیسے مخیراورمخلص حضرات کو میدان علم عمل میں لاکھڑاکیا،حافظ صاحب موصوف نے اپنی وہ زمین جومحلہ چوب فروشان میں متصل مسجدواقع تھی وقف کردی ۔
اسی عہدمیں حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒمظاہرعلوم میں تشریف لائے اورکچھ ہی عرصہ کے بعدحضرت مولانااحمدعلی محدث سہارنپوریؒکوبانی مظاہرعلوم کی خواہشات کے باعث کلکتہ کی ملازمت چھوڑکرسہارنپورآناپڑا،سہارنپورمیں حضرت محدث سہارنپوریؒ نے چونکہ باقاعدہ مظاہرعلوم کی عمارت تعمیرنہیں ہوئی تھی اس لئے اپنے دولت کدہ پر ایک سال تک پڑھاتے رہے،دوسری طرف دس ہزارروپے سے زائدیکمشت رقم چندہ کرکے بغرض تعمیرداخل مدرسہ فرمائی اوردفترمدرسہ قدیم کے نام سے موجودہ عمارت آپؒ کی فراہم کردہ رقم سے تیارہوئی۔
۱۲۹۱ھ میں اس عمارت کی تعمیرشروع ہوئی اورایک سال کے اندرمکمل ہوگئی توحضرت حافظ فضل حقؒنے جنہوں نے خودایک خطیررقم مدرسہ کے خزانہ میں جمع فرمائی تھی ایک دعوتی تقریب منعقدفرمائی اورتمام شرکاء کو کھاناکھلایا۔
قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒکو اس عمارت کا باقاعدہ اففتاح کرنے کے لئے مدعوکیاگیاچنانچہ حضرت نانوتویؒنہ صرف تشریف لائے بلکہ مسلسل تین گھنٹے تک اس عمارت کے صحن میں بیٹھ کروعظ فرمایا۔
مدرسہ کی نسبت:
چونکہ مدرسہ مظاہرعلوم کا تعلیمی سلسلہ قیام مظاہرسے مدتوں پہلے سے جاری تھا مستقل مدرسہ قائم کرنے کا کوئی تصور بھی نہ تھا اورکوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک مکتب کبھی جامعہ کی شکل میں دنیا بھر میں اپنی علمی وعرفانی روشنی بکھیرے گا اسی وجہ سے مدرسہ کا کوئی مستقل نام تجویز نہیں ہوا ،لیکن ۱۲۹۲ھ میں جب یہ مدرسہ بازداران سے منتقل ہوکر اپنی اصلی عمارت میں پہنچا تو اس کے اصل نام کا خیال پیدا ہوا اس زمانہ میں مشہور عالم حضرت مولانا محمدمظہر نانوتویؒ (جو علم وعرفان کے مرکز تھے)اپنے علم وفضل کی بناء پر بہت مشہور تھے، اتفاق رائے سے یہ طے ہوا کہ’’ مظہرعلوم‘‘ نام رکھا جائے لیکن مظہرعلوم کے اعدادبارہ سواکیانوے نکلے اور صرف الف کے اضافے سے(مظاہرعلوم)مدرسہ کا تاریخی سن ۱۲۹۲ھ برآمدہوتا تھا چنانچہ حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوریؒ نے مظاہرعلوم (جو مدرسہ کے پہلی عمارت کی تعمیر کا تاریخی نام ہے تجویز ہوا لیکن پھربھی حضرت مولانا محمد مظہرنانوتویؒ کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے)
مدرسہ کی لوجہ اللہ خدمت اور محنت
مدرسہ کے طلباء کو کھانا کھلانا ،ان کی بیماریوں کا علاج اور ملبوسات ومشروبات کا تکفل خود حضرت مولانا مفتی سعادت علی ؒ فرماتے تھے نیز رودادمظاہرعلوم کے مطابق پوری زندگی حضرت موصوف نے کبھی بھی مدرسہ کا ایک پیسہ اپنی ذات پرصرف نہیں کیا اور مدرسہ کی کامیابی وکامرانی اور تعمیر وترقی بہترین تعلیمی معیاراورطلبہ کی ذہن سازی کی ہمیشہ فکر فرماتے تھے اس ضمن میں حضرت موصوف اپنے شاگردخاص حضرت اقدس الحاج حافظ قمرالدین ؒامام جامع مسجدسہارنپورکے ساتھ دوردراز مقامات کے اسفار کرکے مدرسہ کے لئے چندہ جمع کرتے اور خود بھی مستقل امدادفرماتے رہے۔
روداد مظاہرعلوم ۱۲۸۳ھ ۱۲۸۴ھ کے مطابق متعدد کتب مدرسہ کو عنایت فرمائیں اور مستقل چند ہ بھی دیتے تھے چنانچہ بعض روداد میں ’’فہرست سالانہ چندہ دہندگان‘‘میں آپ کا بھی نام نامی مرقوم ہے نیز مدرسہ کی خاطر میرٹھ کے کئی اسفار فرمائے اور لوگوں کو’’چندہ دہندگان ‘‘میں شامل فرمایا۔
چند اولین متعلمین
آپ کے اولین شاگردوں اور طالب علموں کی بڑی تعداد ہے ان میں سے بعض شخصیات خود اپنے وقت کے جلیل القدرمحدث ،نابغہ روزگار،مفسر اور مشہور ومعروف مصنف ہوئے مثلاًحضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ،حضرت حافظ قمرالدین صاحبؒ،حضرت مولانا امیرباز خان سہارنپوریؒ، حضرت مولانا عنایت الٰہی سہارنپوریؒاورحضرت مولانا مشتاق احمد انبیہٹویؒ۔
Last edited by a moderator: