نئے کتے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ہاں توصاحبان قدردان کتے والے میرے ریمارک پرہنسی آئی ہوگی،مگرمجھے بالکل نہیں آئی کیونکہ آج معاشرہ میں کتوں کی زندگیاں عام انسانوں سے بھیلی اوربہترہوچکی ہیں،ان کامعیارزندگی بہت بلندہوچکاہے،اب توکتوں کے کھانوں کے لئے اعلیٰ قسم کی اشیاء بننے لگی ہیں،انسانی دنیاپرکتوںکے اثرات بھی محسوس ہونے لگے۔بات بات میں ہم لوگ سنتے ہیں غصہ میں ایک شخص دوسرے کوکتاکہتاہے،کتے کی اولاد کہتاہے،کتے کی طرح مت بھونکوکہتاہے،حالانکہ پینٹ شرٹ والوں کواس قسم کی باتیں کرنے کاکوئی حق نہیں بنتا،کتاکھڑے کھڑے کھاناکھاتاہے،پینٹ والے کتے بھی کھڑے کھڑے کھاتے ہیں،کتے مادرپدرآزادگھوماکرتے ہیں اب آپ کتانماانسانوں کودیکھیں کتے اورکتی دونوں نے کپڑوں سے آزادی حاصل کرلی ہے،اسی لئے مارکیٹ میں کپڑوں کی قیمتیں سستی ہونے کے قریب ہیں،کپڑوں کاکاروبارکرنے والے کنگال ہونے کے دہانے پر ہیں،اب وہی کپڑازیادہ پسندکیاجاتاہے جوچست اورتنگ ہو،جس میں کتے کی طرح ٹانگیں نظرآتی ہوں،اب توعام مشاہدہ ایک اوربھی ہونے لگاہے اب کتانمالوگ کھڑے کھڑے پیشاب بھی کرنے لگے۔کتوں کی طرح ’’حرکتیں‘‘بھی کرنے لگے ہیں۔ان کاکل معیارزندگی کتانماہوچکاہے اس لئے اب ان تمام کتوں کوایک تنظیم بنالینی چاہئے جس کانام عالمی کتے‘‘رکھ کرشریفوں کے خلاف اٹھ کھڑاہوناچاہئے۔ابھی کچھ دن پہلے پڑھاتھاکہ یورپ میں کسی شخص پراس کے پالتوکتے نے حملہ کردیا،مجھے حیرت ہوئی کہ یہ بھی کوئی نئی بات ہے ایک شریف کتے نے ایک شریرکتے پرحملہ کردیاہوناچاہئے تھا۔
اب تورنگ برنگے کتے نظرآنے لگے،پچھلے ہفتے دہلی میں ایک شاندارکارکی ڈرائیورسیٹ پرایک لیڈی صاحبہ نے پہلومیں کتے کواس شان سے بٹھارکھاتھاکہ جیسے کتانہ بلکہ ان کاشوہرنامدارہے۔اب کیاہوگا،نوجوان لڑکیوں کی گودمیں جہاں بچہ ہوناچاہئے کتانظرآتاہے،کتوں سے اس درجہ پیارکودیکھ کرمحوحیرت ہوں کہ دنیاکیاسے کیاہونے والی ہے۔(ابھی باقی ہے)
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
اب تورنگ برنگے کتے نظرآنے لگے،پچھلے ہفتے دہلی میں ایک شاندارکارکی ڈرائیورسیٹ پرایک لیڈی صاحبہ نے پہلومیں کتے کواس شان سے بٹھارکھاتھاکہ جیسے کتانہ بلکہ ان کاشوہرنامدارہے۔اب کیاہوگا،نوجوان لڑکیوں کی گودمیں جہاں بچہ ہوناچاہئے کتانظرآتاہے،کتوں سے اس درجہ پیارکودیکھ کرمحوحیرت ہوں کہ دنیاکیاسے کیاہونے والی ہے
واقعی یہ کتوں کی تاریخ کا سنہری دور ہے
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ابھی میں اسی موضوع پرغورہی کررہاتھاکہ ہاتف نے فیض احمدفیض کی اس بدصورت نظم تک رہنمائی کردی ۔
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈّیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلّت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
فیض احمدفیض
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
جی ہاں توصاحبان لیجئے ہماری لے میں لے ملاتے ہوئے جناب پطرس بخاری بھی نظرآتے ہیں اورانہوں نے بھی خبرلینے والے کتوں کی اچھی خاصی خبراپنے اس مضمون میں لی ہے ۔
“کتے“ از پطرس بخاری​
علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا۔ سلوتریوں سے دریافت کیا۔ خود سرکھپاتے رہے۔ لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کافائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجئے دودھ دیتی ہے۔ بکری کو لیجئے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کتا وفادار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم ليے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے۔تو ہم لنڈورے ہی بھلے، کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انہوں نے باہر سڑک پر آکر طرح کا ایک مصرع دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتے نے مطلع عرض کردیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا، ایک حلوائی کے چولہے میں[size=xx-large]
سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال مشرق کی طرف ایک قدر شناس کتےنے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہواکہ کچھ نہ پوچھئے، کم بخت بعض تو دو غزلے سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے، وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ "آرڈر آرڈر" پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پر دھان کی بھی کوئی بھی نہیں سنتا۔ اب ان سے کوئی پوچھئے کہ میاں تمہیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جاکر طبع آزمائی کرتے یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے۔ اورپھر ہم دیسی لوگوں کے کتے بھی کچھ عجیب بدتمیز واقع ہوئے ہیں۔ اکثر تو ان میں ایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک حد تک قابل تعریف بھی ہے۔ اس کا ذکر ہی جانے دیجئے اس کے علاوہ ایک اور بات ہے یعنی ہمیں بارہا ڈالیاں لے کر صاحب لوگوں کے بنگلوں پر جانے کا اتفاق ہوا، خدا کی قسم ان کے کتوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے کتے نے برآمدے میں کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی "بخ" کردی اور پھر منہ بند کرکے کھڑا ہوگیا۔ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں پھر "بخ" کردی۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی۔ ہمارے کتے ہیں کہ نہ راگ نہ سُر۔ نہ سر نہ پیر۔ تان پہ تان لگائے جاتے ہیں، بےتالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں، گل بازی کيے جاتے ہیں۔ گھمنڈ اس بات پر ہے کہ تان سین اسی ملک میں تو پیدا ہوا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے تعلقات کتوں سے ذرا کشیدہ ہی رہے ہیں۔ لیکن ہم سے قسم لے لیجئے جو ایسے موقع پر ہم نے کبھی سیتا گرہ سے منہ موڑا ہو۔ شاید آپ اس کو تعلّی سمجھیں لیکن خدا شاہد ہے کہ آج تک کبھی کسی کتے پر ہاتھ اُٹھ ہی نہ سکا۔ اکثر دوستوں نے صلاح دی کہ رات کے وقت لاٹھی چھڑی ضرور ہاتھ میں رکھنی چاہئے کہ دافع بلیات ہے لیکن ہم کسی سے خواہ مخواہ عداوت پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ کتے کے بھونکتے ہی ہماری طبعی شرافت ہم پر اس درجہ غلبہ پا جاتی ہے کہ آپ اگر ہمیں اس وقت دیکھیں تو یقیناً یہی سمجھیں گے کہ ہم بزدل ہیں۔ شاید آپ اس وقت یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے۔ یہ البتہ ٹھیک ہے ایسے موقع پر کبھی گانے کی کوشش کروں تو کھرج کے سُروں کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ اگر آپ نے بھی ہم جیسی طبیعت پائی ہو تو آپ دیکھیں گے کہ ایسے موقع پر آیت الکرسی آپ کے ذہن سے اُتر جائے گی اس کی جگہ آپ شاید دعائے قنوت پڑھنے لگ جائیں۔ بعض اوقات ایسا اتفاق بھی ہوا ہے کہ رات کے دو بجےچھڑی گھماتے تھیٹر سے واپس آرہے ہیں اور ناٹک کے کسی نہ کسی گیت کی طرز ذہن میں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں چونکہ گیت کے الفاظ یاد نہیں اور نومشقی کا عالم بھی ہے اس ليے سیٹی پر اکتفا کی ہے کہ بےسرے بھی ہوگئے تو کوئی یہی سمجھے گا کہ انگریزی موسیقی ہے، اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا، ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔ گویا بہت ہی کتا۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے چھڑی کی گردش دھیمی دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول، زاوئیے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔ سیٹی کی موسیقی بھر تھرتھرا کر خاموش ہوگئی لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔گویا ایک بےآواز لَے ابھی تک نکل رہی ہے ۔طب کا مسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے۔ چونکہ ہم طبعاً ذرا محتاط ہیں۔ اس ليے آج تک کتے کے کانٹے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ یعنی کسی کتے نے آج تک ہم کو کبھی نہیں کاٹا اگر ایسا سانحہ کبھی پیش آیا ہوتا تو اس سرگزشت کی بجائے آج ہمارا مرثیہ چھپ رہا ہوتا۔ تاریخی مصرعہ دعائیہ ہوتا کہ "اس کتے کی مٹی سے بھی کتا گھاس پیدا ہو" لیکن۔۔۔ کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا جب تک اس دنیا میں کتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مصُر ہیں سمجھ لیجئے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور پھر ان کتوں کے بھونکنے کے اصول بھی تو کچھ نرالے ہیں۔ یعنی ا یک تو متعدی مرض ہے اور پھر بچوں اور بوڑھوں سب ہی کو لاحق ہے۔ اگر کوئی بھاری بھرکم اسفندیار کتا کبھی کبھی اپنے رعب اور دبدبے کو قائم رکھنے کے ليے بھونک لے تو ہم بھی چاروناچار کہہ دیں کہ بھئی بھونک۔ (اگرچہ ایسے وقت میں اس کو زنجیر سے بندھا ہونا چاہئیے۔) لیکن یہ کم بخت دو روزہ، سہ روزہ، دو دو تین تین تولے کے پلے بھی تو بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ باریک آواز ذراسا پھیپھڑا اس پر بھی اتنا زور لگا کر بھونکتے ہیں کہ آواز کی لرزش دُم تک پہنچتی ہے اور پھر بھونکتے ہیں چلتی موٹر کے سامنےآکر گویا اسے روک ہی تو لیں گے۔ اب اگر یہ خاکسار موٹر چلا رہا ہوتو قطعاً ہاتھ کام کرنے سے انکار کردیں لیکن ہر کوئی یوں ان کی جان بخشی تھوڑا ہی کردے گا؟ کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی آواز سوچنے کے تمام قویٰ معطل کردیتی ہے خصوصاً جب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے ان کا ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کردے تو آپ ہی کہیے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ ہر ایک کی طرف باری باری متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ کچھ ان کا شور، کچھ ہماری صدائے احتجاج (زیرلب) بےڈھنگی حرکات وسکنات (حرکات ان کی، سکنات ہماری۔) اس ہنگامے میں دماغ بھلا خاک کام کرسکتا ہے؟ اگرچہ یہ مجھے بھی نہیں معلوم کہ اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مارلے گا؟ بہرصورت کتوں کی یہ پرلےدرجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔ اگر ان کا ایک نمائندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آکر کہہ دے کہ عالی جناب، سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چون وچرا کئے واپس لوٹ جائیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہم نے کتوں کی درخواست پر کئی راتیں سڑکیں ناپنے میں گزاردی ہیں لیکن پوری مجلس کا یوں متفقہ و متحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے (قارئین کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر ان کا کوئی عزیزومحترم کتا کمرے میں موجود ہو تو یہ مضمون بلند آواز سے نہ پڑھا جائے مجھے کسی کی دل شکنی مطلوب نہیں۔) خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کئے ہیں۔ کتے اس کے کلئے سے مستثنیٰٰ نہیں۔ آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہوگا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارگناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غوروفکر کے ليے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بندکرلیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیوجانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سرکو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا ۔ صورت حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ کسی نے ایک چابک لگا دیاتو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اُٹھ کر ایک گز پرے لے جالیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کردیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے ليے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ رات کے وقت یہی کتا اپنی خشک، پتلی سی دم کو تابحد امکان سڑک پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ جہاں آپ نے غلطی سے اس پر پاؤں رکھ دیا، انہوں نے غیظ وغیب کے لہجہ میں آپ سے پرسش شروع کردی، "بچہ فقیروں کو چھیڑتا ہے، نظر نہیں آتا، ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں"۔ بس اس فقیر کی بددعا سے سے اسی وقت رعشہ شروع ہوجاتا ہے۔ بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظر آتے رہتے ہیں کہ بےشمار کتے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے تو پاؤں چارپائی کی ادوان میں پھنسے ہوتے ہیں۔ اگر خدا مجھے کچھ عرصے کے ليے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے، تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے۔ رفتہ رفتہ سب کتے علاج کے ليے کسولی پہنچ جائیں۔ ا یک شعر ہے: عرفی تو میندیش زغو غائے رقیباں آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا یہی وہ خلاف فطرت شاعری ہے، جو ایشیا کے ليے باعث ننگ ہے، انگریزی میں ایک مثل ہے، کہ "بھونکتےہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے" یہ بجا سہی۔ لیکن کون جانتا ہے، کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کردے، اور کاٹنا شروع کردے۔(باقی ہے)
[align=justify]​
[/size]
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
کیابتایاجائے اگرکسی کے پیچھے کتے پڑجائیں توسیفی خان کے بقول گھرتک چھوڑکراورکئی جگہ جھنجھوڑکرآتے ہیں اس عنوان میں بھی کچھ ایسی ہی تاثیرنظرآتی ہے میں نے نیٹ پرکتوں کی تحقیق کی تومعلومات کاایک انبارموجودتھا۔اگرفرصت ملے تواس کوبھی ضرورپڑھئے تاکہ میری بات کی تمہیدبخوبی سمجھ میں آجائے۔
توبہ توبہ ، غلط سمجھ رہے ہیں آپ میں ہرگز ہرگز کسی امریکی کو کُتا نہیں کہ رہا ، بھلا میری کیا مجال میں کسی امریکی کو گالی دوں ، یہ تحریر خالصتاَ امریکی کتوں کے بارے میں ہے بالکل ایسے ہی جیسے پطرس بخاری کی تحریر “کُتے“ تھی ، ظاہر ہے وہ تحریر دیسی کتوں کے بارے میں تھی ہم ولائیتی کتوں کے بارے میں یعنی امریکی کتوں کے بارے میں معلومات دینا چاہتے ہیں
امریکہ میں سب کو پتہ ہے کہ امریکی زیادہ تر گورے ہوتے ہیں ، اور کتے انکے خاندان کا حصہ ہوتے ہیں ، کھانے کی میز سے لیکر بستر تک وہ انکے ساتھ ہوتے ہیں ، کبھی وہ انہیں چاٹتے ہیں کبھی کتے انہیں چاٹتے ہیں ، اس معاشرے میں انسان اکیلے ہو سکتے ہیں کتے نہیں ، انکے ساتھ یا تو کوئی کتا ہو گا یا پھر انسان تو ضرور ہو گا ، اسی وجہ سے پتہ نہیں چلتا کہ کتا امریکیوں کے ساتھ ہے یا امریکی کتے کے ساتھ ۔ ۔ ۔
مگر سب سے زیادہ مشہور نسل یارک شائیر ٹیریز ہے ، یہ کتا چھوٹا سا ہوتا ہے اور بہت دو سال کی عمر میں ہی جوان ہو جاتا ہے یعنی اگر کسی امریکی کاکے کو کوئی یارک ٹیریز پیدائش پر گفٹ کرے تو جب تک بچہ پایاں پایاں چلنے کے قابل ہو گا ، اسکا کتا کتنی ہی کتیوں کا محبوب بن چکا ہو گا ، اسی لئے یہ نسل بہت ہہی ذھین اور تیز طرار سمجھی جاتی ہے ، جسکی سب سے بڑی خصوصیات اسکا چھوٹا سا قد اور وزن آدھے کلو سے پانچ کلو تک ہو سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مگر ان کتوں کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے بس بارہ سے پندرہ سال ، اور اس کی وجہ انکی ایک بیماری ہے جو انکے گوڈوں میں ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ انسانوں کی تیسری دنیا میں ایسے حکمران امریکی پالتے ہیں ، جو بہت جلدی جوان ہو جاتے ہیں ، مگر انکی حرکتیں انہیں گوڈوں بٹھا دیتی ہیں ، اور پھر یہ ننھا سا کتا ۔ ۔۔ اوہ ۔ ۔۔ میرا مطلب ہے حکمران ، امریکیوں کے ہاتھوں ہی سورگ باشی ہو جاتا ہے یا لم لیٹ ہو جاتا ہے
مگر ایک نسل اور بھی ہے جوامریکی گوروں کو بہت پسند ہے شاید اسلئے کہ یہ بھی گورا کتا ہے ، جی جناب یہ نسل کہلاتی ہے گولڈن ریٹریور ، بہت خوبصورت اور انتہائی خصوصیات کا حامل ہے یہ جانور ، سیکھنے میں انتہائی ذھانت کا مظاہرہ کرتا ہے ، اور اپنے آپ کو انتہائی مہذب اور مؤدب پرسنیلٹی رکھنے والا دیکھاتا ہے ، اسے پانی پسند ہے ، اچھلتا کودتا رہتا ہے ، اکثر ہالی وڈ کی فلموں میں نظر آتا ہے ، ماہرین اسے گھر کے اندر رکھنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ یہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہتا ہے ، اسکے لئے امریکی الگ سے ڈاگ ہاؤس بناتے ہیں ، اور اسکا بہت خیال بھی رکھتے ہیں ، مگر اپنے ساتھ گھر میں لے جانا نہیں پسند کرتے ، انسانوں میں ایسی نسل کو تارکین وطن کہا جاتا ہے ، جو امریکہ میں موجود ہیں مگر امریکی انہیں الگ الگ ڈاگ ہاؤسز میں رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔۔
انکے علاوہ ایک اور کتا جو بہت ہی کتا ہے وہ کہلاتا ہے باکسر یہ بہت سارے رنگوں میں پایا جاتا ہے ، اور چھوٹی دم اور بڑآ جسم رکھتا ہے ، خوبصورت نہیں ہوتا مگر وفادار بہت ہوتا ہے ، اور اسکے بالکل ہی الٹ ایک چھوٹا سا کتا ہے جو انہیں خصوصیات کا حامل ہے اور کہلاتا ہے ڈیچ سونڈ ، یہ بھی امریکیوں کا بہت ہی منظور نظر ہے ، امریکی جہاں بھی جاتے ہیں ان کو ساتھ رکھنا پسند کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
ایسے ہی خوبصورت اور فیشن ایبل کتوں کی ایک نسل پوڈلز بھی ہے ، جو امراء کا پسندیدہ ہے ، پسندیدہ تو شی زس بھی ہے ، اسے دیکھیں تو سہی ۔ ۔ ۔ ۔ انتا معصوم کہ ۔ ۔ ۔ بس دیکھتے ہی رہ جائیں ، امریکی ساری دنیا کے اداکار ، فنکار ، گلوکار اور دانش وروں کو اسی نسل کا سمجھتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور کبھی کبھی ساتھ میں چپکا کہ ایسے رکھتے ہیں کہ وہ انہیں کا حصہ لگتے ہیں
کچھ کتے کتے لگتے ہی نہیں بلی بھی لگ سکتے ہیں جیسے چھائی ہوسس ، یا پھر پومی میرینز، ذرا انہیں دیکھیں تو سہی کیا معصوم شکلیں ، اپنی بلیاں بھی اتنی معصوم نہیں ہوتیں ۔ ۔ ۔
ہوں
مگر سب کتوں کا بادشاہ جی ہاں امریکی کتوں کا بادشاہ کیویلیر کنگ چارلس سپینل کہلاتا ہے ، من موجی اور سب کے ساتھ مل جل جانے والا سب کا ساتھی اور سبھی کا دوست ۔ ۔ ۔ ہر طرح کے ماحول میں خود کو ڈھال لیتا ہے ۔ ۔۔ ۔ کیا آپ ایسے کسی انسان کو جانتے ہیں ؟؟
جاننا چاہتے ہیں تو امریکی کتوں سے ملیئے ، ویسلاہور انتظامیہ نے شہریوں کی شکایت پر کتے مار مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ پہلے ہفتے ہی میں 850 کتے مار گرائے۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ یہ کتے وبال جان بن چکے ہیں۔
سٹاف آفیسرطارق زمان کا کہنا تھا کہ زیادہ شکایات اقبال ٹاؤن اور عزیز بھٹی ٹاؤن کے لوگوں کو ہیں۔

انکا کہنا ہے کتے مار مہم کے لیئے چار شکاری ٹولیاں بنائی گئی ہیں۔ صرف 19 نومبر سوموار کو ان لوگوں نے 234 کتے مار ڈالے۔ بلے بلےکتوں کو زندگی بچانی مشکل ہوگئی۔ کتے کے اس ہولوکاسٹ پر کتوں کے حقوق کی تنظیموں کی طرف سے شدید احتجاج کا خدشہ۔
ے میں بھی کافی مخمصے میں ہوں کہ یہ امریکی کتے ہیں یا کتے امریکی ہیں ؟؟؟؟ ذرا سوچیے گا ۔ ۔ ۔۔
نوٹ :-
اس مضمون کی تیاری کے لئے انسائکلو پیڈیا آف ڈاگ بریڈ Encyclopedia of Dog Breeds
جسکے مصنف ہیں
D. Caroline Coile Ph.D.
تصاویرکے لئے
http://www.squidoo.com/popular-dog-breeds
امید ہے اب آپ امریکی کتوں کو اچھی طرح پہچان سکیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
یورپ جوبے گناہوں پرتوپوں،بارودوں،ٹینکوں اورمیزایلوں کے حملوں سے نہیں تھکتامگرجانوروں خاص کرکتوں کی کتنی اہمیت ہے ان کی نظروں میں اس خبرسے اندازہ کریں۔
کیلی فورنیا …امریکا میں ڈوبتے کتے کی جان بچانے والے میاں بیوی ہلاک ہوگئے۔ جبکہ 16 سالہ لڑکا لاپتہ ہوگیا۔ شمالی کیلیفورنیا کی پولیس کے مطابق پیسفیک اوشن میں تیز لہروں کے باعث کتا ڈوبنے لگا۔ 16 سالہ بچے نے کتے کی جان بچانے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگادی جس کے بعد بچے کے والدین اس کے پیچھے گئے اور ہلاک ہوگئے ۔ لڑکے کی تلاش کی جارہی ہے۔​
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
افسوس! آج یہ جراثیم مسلمانوں میں بھی بہت سرایت کر چکا ہے، جو حد سے باہر ہوتا نظررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔
افسوس! آج ہم نے کتے کو ہی معیارِ زندگی بنا لیا ہے، ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ رُوح کانپ اُٹھتی ہے اور یہ مناظر مغربی ممالک کے نہیں بلکہ ہمارے ہی ملک میں مسلمانوں کے ہیں۔
افسوس! آج ہم ایک انسان کے مقابلے میں کتے کو ترجیح دیتے ہیں کہ اسے تکلیف نہ ہو چاہے کتنے ہی انسان تکلیف میں رہیں۔ایک کتے کی خاطر لڑائی جھگڑا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے بدسلوکی اور بدزبانی کرنے کو خون جوش مارنے لگتا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
افسوس! آج جانوروں کے حقوق کی آواز بلند کی جاتی ہے مگر انسانوں کے حقوق کی کوئی صدا سننے میں نہیں آتی۔ بے شک جانوروں کے حقوق بھی ہیں مگر جس حد تک ہیں وہیں رکھنے چاہیے حد کو پار کرنا زیادتی میں شمار ہو گا۔
افسوس! ایک کتے کو معمولی سی تکلیف پہنچنے پر دُنیا بھر کی میڈیا حرکت میں آ جاتی ہے مگر روزانہ ہزاروں مسلمان مارے جا رہے ہیں اور جانوروں سے بدتر سلوک کیا جا رہا ہے لیکن اس پر خاموشی ہے۔
اے مسلمان! تُو کیوں اپنا مقام کھو رہا ہے، اُن لوگوں کا تو کوئی مذہب ہی نہیں آزاد ہیں جو من چاہے وہ کرتے ہیں دِل چاہا تو کتے کے غلام بن جاتے ہیں، لیکن تیرے پاس اتنا عظیم و پاکیز دین اسلام ہے جس کی بدولت تو اپنے خالق و مالک کو پہچانتاہے اس کی قدر کر کہیں یہ بے قدری تجھے اپنے رَب سے دُور نہ لے جائے اور پھر ہاتھ مَلتا رہ جائے ۔۔۔
اَب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئی کھیت​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سب سے پہلے میں ارمغان بھائی کاشکریہ اداکروں گاکہ انہوں نے میری ناقص تحریرپراپنی کامل تحریرکی سندعطافرمائی۔اس بعدمیں اپنی بات شروع کرتاہوں۔
اس دنیامیں اللہ تعالیٰ کی ہرمخلوق اپنی کچھ نہ کچھ خوبیاں رکھتی ہے،بلاضرورت اللہ تعالیٰ نے کوئی شئی پیدانہیں فرمائی ہے۔کتابھی اسی میں سے ہے ،حضرت خواجہ حسن بصری کاملفوظ اوپرگزرچکاہے یہاں حضرت شیخ سعدی شیرازی کی گلستاں سے ماخوذایک صاحب کی مختصرمگرقیمتی تحریرنقل کرتاہوں۔
’’شیخ سعدی نے گلستان سعدی لکھی یہ ذومعنی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتاب میں نے جب پہلی بار پڑھی تو میں آٹھویں جماعت میں تھا۔ اس وقت مجھے وہ بچوں کی کہانیاں لگیں مگر آدھی صدی گزرنے کے بعد آج میں سوچتا ہوں کہ یہ کہانیاں ہر عمر کے آدمیوں کے لۓ ہیں اور ان کو پڑھ کر آدمی انسان بن سکتا ہے۔ آپ فالحال مندرجہ دو کہانیاں پڑھئیے۔ایک درویش کے پاس سے ایک بادشاہ کا گذر ہوا۔ درویش کے پاس اس کا کتا بیٹھا تھا۔ بادشاہ نے مذاق کے طور پر پوچھا ” آپ اچھے ہیں یا آپ کا کتا ؟ “۔ درویش نے جواب دیا ” یہ کتا میرا کہنا مانتا ہے اور میرا وفادار ہے۔ اگر میں اپنے مالک کا وفادار رہوں اور اس کا کہنا مانوں تو میں اچھا ورنہ یہ کتا مجھ سے اچھا ہے “۔
ایک آدمی کو کتے نے کاٹ لیا۔ درد سے اس کے آنسو نکل آۓ۔ اس کی کمسن بچی اسے کہنے لگی ” بابا روتے کیوں ہو۔ کتا آپ سے بڑا تو نہیں ہے۔ آپ بھی اس کو کاٹ لیں”۔ آدمی نے کہا ” بیٹی ٹھیک ہے کہ کتا مجھ سے بہت چھوٹا ہے مگر میں انسان ہوں اور انسان کتے کو نہیں کاٹتا “۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
امیریکی ’’کتے‘‘ جوانسان نماحیوان ناطق پرہمیشہ بھونکتے دکھائی دیتے ہیں میرے خیال سے وہ مسلمان جس نے سب سے پہلے امریکہ کودریافت کیاتھااس کوتعزیرات ہندکے تحت (اوابھی نہیں بنی ہے)ضرورسزادی جانی چاہئے تھی بندہ خدانے امریکہ کاسراغ کیالگایاامریکہ ہمارے سروں کاسرہوگیااوردکھاوے کے لئے سیداحمدخان کوسرکہدیاحالانکہ اس کوپتہ ہے کہ اصل میں سرکون ہے ۔ہاں تومیں کہ یہ رہاتھاکہ کچھ منچلوں نے امریکہ کے ہزارشوروغوغاکے باوجودایک کتاگاڑی بنادی سس گاڑی میں ایک شخص کوبیٹھے اور’’ کتے‘‘ کوگاڑی کھینچتے دکھایاگیاہے لنک دے رہاہوں مرضی ہوتووہاں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔باقی باتیں بعدمیں ہوتی رہیں گی۔
http://photos.hamariweb.com/detail.aspx?id=323​
 

m.usman

وفقہ اللہ
رکن
بجا فرمایا آپ نے جناب
كبھی كبھي تو انسان سیدھے سادھے كتے كو بیٹھے دیكھ كر یونہی لات ماردیتا ہے۔ كتا بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے كہ ’’كتا میں ہوں اور حركتیں یہ كرتا ہے‘‘
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ہمارے بعض دوستوں نے مشورہ دیاہے کہ جناب ممکن ہے کوئی ایساملک ہوجہاں کتے نہ ہوں ان آپ کس طرح سمجھائیں گے کہ کتاکیاہوتاہے؟میں نے اس وقت توصاف صاف کہ دیاکہ جناب روئے زمین کچھ بھلے ہی نہ ہومگرکتے ضرورہوں گے کیونکہ یہ ایک ایسی نسل ہے جوسب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھل پھول رہی ہے اوراگراصل میں کتے کی نسل ختم بھی ہوجائے تب بھی اس کی’’ ذریت ‘‘باقی رہے گی۔لیکن ان کی بے چینی کے لئے اوراتمام حجت کے لئے کتے کاتعارف پہلے۔تعریف بعدمیں۔
کتا بھیڑیئے کی نسل سے تعلق رکھنے والا پالتو جانور ہے۔ پالتو کتا انسان کا سب سے قدیم ساتھی ہے۔ کتا کی نسل کے نر کو کتاکہتے ہیں جبکہ مادہ کو کتیا کہا جاتا ہے۔
کتا پالتو بننے کے فوراً بعد ہی دنیا بھر کی ثقافتوں کا اہم جز بن گیا ہے۔ ابتدائی تہذیبوں میں اسے انتہائی اہم مقام حاصل تھا۔ بیرنگ سٹریٹ کے راستے نقل مکانی کتوں کے بغیر ممکن نہیں مانی جاتی۔ اس کے علاوہ کتے انسانوں کے لئے بے شمار خدمات سر انجام دیتے ہیں جن میں شکار ، گلہ بانی ، حفاظت ، پولیس اور فوج کی معاونت، بطور ساتھی اور حال ہی میں معذور افراد کے لئے خصوصی معاون وغیرہ شامل ہیں۔ انہی فوائد کی بدولت اسے انسان کا سب سے بہترین دوست گردانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں چالیس کروڑ سے زیادہ کتے موجود ہیں۔
یہ تعدادچارپاؤں والے کتوں کی ہے اگردوپیروالے کتے بھی شامل کرلئے جائیں توتین ارب سے زیادہ پہنچ جاتی ہے۔(ابھی باقی ہے)​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سب سے زیادہ قابل رحم دھوبی کاکتاہوتاہے ،دھوبی کاکتاہی اصل میں کتاہے ،کمزوربھی ہوتاہے،گندہبھی،بدبوداربھی ہوتاہے اوربدبوسے طبعی مناسبت بھی رکھتاہے ،شریف بھی ہوتاہے ،ملنساربھی،غیرت مندبھی ہوتاہے صابروشاکربھی،وفاداربھی ہوتاہے،مالک کے اشاروں پرناچنے والابھی،مگراس بے چارے کی اردومحاورات میں ایسی گت بنائی گئی ہے کہ خداکی پناہ ،جہاں جہاں اردوبولی جاتی ہے وہاں ’’یہ کہاوت مشہورہے کہ ’’دھوبی کاکتاگھرکانہ گھاٹ کا‘‘حالانکہ دھوبی کاکتاہی دونوں جگہ نظرآتاہے ۔ہمارے ایک مضمون نگارکوپتہ نہیں کیاسوجھی کہ انہوں نے اسی موضوع پرخامہ فرسائی فرمائی ہے لنک آپ بھی دیکھتے چلیں۔
http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?136628-%D8%AF%DA%BE%D9%88%D8%A8%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%DA%A9%D8%AA%D8%A7-%DA%AF%DA%BE%D8%B1-%DA%A9%D8%A7-%D9%86%DB%81-%DA%AF%DA%BE%D8%A7%D9%B9-%DA%A9%D8%A7
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
کتے کی زبان
از:نصرت ظہیر
توبات کتے کی زبان کی چل رہی تھی۔اُس زبان کی نہیں، جسے کتا اکثر منھ سے باہر لٹکائے رکھتا ہے اور یوں لگتا ہے، جیسے ہوا میں موجود رطوبتِ نسبتی Relative Humidityناپنے کی کوشش کررہا ہو۔ذکر اس زبان کا تھا،جس میں وہ دوسروں کا کہا، سنتاسمجھتا اور اپنی بات کہتا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ دنیا کے سارے کتے ایک ہی زبان میں ہم کلام ہوتے ہیں اور شکل و صورت اور رنگ ونسل کے زبردست فرق کے باوجود ایک ہی زبان میں بولتے ہیں۔یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ امریکہ کا کتاانگریزی میں ٹِٹ بِٹ کر رہا ہو، چین کا کتا چینی زبان میں چیائوں میائوں کرتا ہو اور عرب کا کتا عربی میں رطب اللسان ہو۔ہر ملک اور ہر صوبے کے کتے ایک ہی زبان میں بھونکتے ہیں۔یہ شرف صرف حضرتِ انسان کو حاصل ہے کہ ہر دس کوس چلنے کے بعد ان کی زبان بدل جاتی ہے۔
لیکن تعریف کی بات یہ ہے کہ کتاآپس کی زبان ایک ہونے کے باوجود دوسروں کی زبانیں بڑی آسانی سے سیکھ لیتا ہے۔تمل بولنے والا کوئی شخص اپنا کتا کسی پنجابی کو بیچ دے توشروع میں چند روز ضروروہ پنجابی زبان سے حیران اور پریشان نظر آئے گا، بلکہ ہوسکتا ہے کہ مالک کے ٹھیٹھ پنجابی لہجے سے ڈر کر بھونکنے بھی لگے،لیکن آپ دیکھیں گے کہ چند ہفتوں میں ہی وہ سلیس اور بامحاورہ پنجابی میں دسترس حاصل کر لے گااورشستہ پنجابی میں احکامات کی تعمیل شروع کر دے گا۔لسانی امور میں کتوں کو بالعموم صلح کل کا قائل اور پابند دیکھا گیا ہے۔ زبان کے اختلاف پر آپ انہیں کبھی کسی سے لڑتے نہیں پائیں گے۔ یہ وصف صرف انسانوں میں ہے کہ مذہب، علاقہ، رنگ ،نسل اور ذات پر ہی نہیں، زبان کے فرق پر بھی ایک دوسرے کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
دنیا کو اضافیت کا عظیم سائنسی نظریہ دینے والے سائنس داں آئنسٹائن سے خاموش فلموں کے عظیم ترین اداکار چارلی چپلن کی پہلی ملاقات ہوئی تو آئنسٹائن نے چپلن کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ''آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ساری دنیا میں آپ کی شہرت ہے اورہر شخص آپ کی زبان سمجھتا ہے۔''چارلی چپلن نے اس پر کہا:''شکریہ جناب!مگر آپ اس معاملے میں مجھ سے بھی بڑھ کر ہیں کہ ساری دنیا میں مشہور ہیں اور کوئی آپ کی زبان نہیں سمجھتا!''
چارلی چپلن کی طرح کتابھی زبان میں کم اور ترسیل میں زیادہ یقین رکھتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنے دلی جذبات و خیالات کے اظہار کے لئے منھ سے کم اور اپنی دُم سے زیادہ کام لیتا ہے۔ محبوب کی آنکھیں اس کی دلی کیفیات کی غماز ہوتی ہیں، چنانچہ شاعروں نے محبوب کی آنکھوں پر لاتعداد شعر کہے ہیںاور ان میں جھیل، تالاب اورسمندرہی نہیں،بلکہ بہت سے سر بستہ راز، گمنام جزیرے، انجان خواب، اجنبی سائے، نیند، پیاس، شراب، پیالے، کٹورے اور دوسرے کئی برتن خود بھی دیکھے ہیں اور اپنے سامعین و قارئین کو بھی دیکھنے کی پرزور سفارش و تلقین کی ہے۔ایک شاعر نے کہا ہے کہ
' محبت میں زباں چپ ہو توآنکھیں بات کرتی ہیں'
یعنی جو دل میں ہے وہ آنکھوں سے ظاہر ہوجاتا ہے،لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک بات شاعر نے یوں کہی ہے کہ:
لب کچھ بھی کہیں اس سے حقیقت نہیں کھلتی
انسان کے سچ جھوٹ کی پہچان ہیں آنکھیں
کتا بھی بے چارہ اپنی آنکھوں سے یہی سب کام لینے کی کافی کوشش کرتا ہے،لیکن اس کی ناک کی طوالت بیچ میںآجاتی ہے۔چنانچہ یہ سب کام اسے دُم سے لینے پڑتے ہیں، جو اس کے خیالات کی ترسیل کواس کی زبان کے مقابلے میں کہیں زیادہ صفائی کے ساتھ انجام دیتی ہے،بلکہ کئی بار تو وہ سب بھی کہہ دیتی ہے جسے کتا کہنا نہیں چاہتااوربے چارہ بزبانِ اقبال دُم سے بس شکوہ ہی کر کے رہ جاتا ہے کہ بے وقوف ، نا معقول:
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو ہی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
کتے کی طرح محبوب کی بھی دُم ہواکرتی تو شاعروں کو وہ تمام شعر دُم کی تعریف میں کہنے پڑتے، جو انہوں نے آنکھوں پر کہے ہیں۔ البتہ دُم پر انہیں سمندر، تالاب، جزیرے اور جملہ برتن و آلات وغیرہ کو جمانے، ٹکانے یا لٹکانے میں خاصی دقت پیش آتی، جوانہوں نے محبوب کی آنکھوں میں بڑی آسانی سے بھردئیے ہیں۔فلمی گانوں کے بول بھی کچھ یوں ہواکرتے کہ:
چلو دُم دار چلو چاند کے پار چلو ...
دُم سے ملا کے دُم پیار کیجئے، کوئی سہانا اقرار کیجئے...
چرا لیا ہے تم نے جو دُم کو، نظر نہیں چرانا صنم...
کتے کو وفاداری کی بھی سب سے بڑی علامت مانا جاتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ کتا ہمیشہ دوسروں کے ساتھ ہی وفاداری نبھاتا ہے، جہاں تک اپنی ذات اور نسل کا تعلق ہے تو وہ اپنی اولاد اور ان کی والدہ تک کا وفادار نہیں ہوتا۔ وہ بے چارے تکلیف میں بھوکوں مرتے ہیں اور یہ کم بخت یہاں وہاں منھ مارتا پھرتا ہے۔ پھر والدہ ماجدہ کی آبرو اور نیت بھی کسی ایک جگہ ٹک کر نہیں رہتی، جدھر جی میں آیا دل بہلانے پہنچ جاتی ہے۔
لیکن انسان کے ساتھ کتے کی وفاداری خود انسان کو بھی حیران کر دیتی ہے۔دونوں کی دوستی، وفاداری اور ہمدردی کی ایسی ایسی محیّرالعقول و دل دوز داستانوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں کہ پڑھیں اور سنیںتو آنکھیںبھر آئیں۔ خود راقم کا بھی ایک ایسے شریف النفس کتے سے واسطہ پڑ چکا ہے کہ آج بھی اس کی یاد آتی ہے تو دل کو دکھا جاتی ہے، لیکن وہ قصہ پھر کبھی۔اس وقت تو یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اس قدر دیرینہ و نزدیکی مفاہمت و دوستی کے باوجود کتا بے چارہ آج تک انسان کے لئے ایک گالی بنا ہوا ہے۔ ایک طرف وہ وفاداری کا نمونہ ہے تو دوسری طرف ذلت کی علامت بھی ہے۔کوئی انسان کسی کتے سے کتنی بھی محبت کیوں نہ رکھتا ہو، اس کی کتنی ہی ناز برداری کیوں نہ کر تا ہو، ذرا آپ اسے ''کتے کا بچہ'' کہہ کر دیکھئے۔وہ آپ کا سر توڑ دے گا۔ یہاں تک کہ یہ بات آپ اسے پیار سے بھی کہیں،یا کتے کا بچہ کہنے کی بجائے کسی قدر مہذب اندازمیں، کتے کی اولاد،کتے کا بیٹا یا کتے کا فرزند، بلکہ کتے کا فرزندِ ارجمندہی کیوں نہ کہہ دیں،تب بھی اس کا ردّ ِ عمل تقریباً یہی ہو گا۔ [/COLOR
]پتہ نہیں خود کتا بھی انسان کو اپنے لئے گالی سمجھتا ہے یا نہیں۔ یہ راز جاننے کے لئے ایک دن میں نے ایک پڑوسی کے کتے کا دل ٹٹولنے کی کوشش کی تھی، میں نے اس کے قریب جا کر کہا: ''ابے او کتے کی اولاد!''
سنتے ہی وہ دم ہلانے لگا،جس سے ظاہر ہوگیا کہ کم از کم اپنی نسل پر اسے کوئی اعتراض یا شک وشبہ نہیں ہے۔اب انسان کے بارے میں اس کی رائے جاننا تھی ۔ چنانچہ دم ہلاکر نزدیک آتے ہوئے کتے سے اس بار میں نے کہا: ''ابے او انسان کے بچے! ''
اُس نے بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیا!
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
کتوں کی محفل
سرسید احمد خان
حالانکہ سرسیداحمدخان انگریزوں کے بڑے وفادارتھے اورانگریزوں کی پسندکوبھی پسندکرتے تھے،انگریزوں کی کھل کرحمایت اوراپنوں کی جم کرمخالفت کرتے تھے لیکن پتہ نہیں انہوں نے کتوں کی محفل نامی درج ذیل مضمون کیاسوچ کرلکھ دیاہوگاممکن ہے اس وقت تک انگریزوں کی تہذیب میں اتنی ترقی نہ آئی ہواوراس وقت تک کچھ نہ کچھ انسانی صفات موجودرہی ہوں۔بہرحال پیش ہے سرسیداحمدخان کاایک مختصرمضمون ۔
جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل دیکھنا شروع کرتے ہیں. پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے اور پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں .اور حلق سے آوازیں نکلنا شروع ہوتی ہیں.پھر باچھیں چر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے داڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں. آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں. منۂ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور عنیف آواز کے ساتھ ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں .اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اس کی ٹانگ اس کی کمر میں، اس کا کان اس کے منۂ میں، اس کا ٹینڈوا اس کے جبڑے میں، اس نے اس کو کاٹا اس نے اس کو بچھاڑ کر بھنبوڑا جو کمزور ہوا دم دبا کر بھاگ نکلا.
نا مہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی آپس میں اسی طرح تکرار ہوتی ہے پہلے صاحب سلامت کرکے آپس میں مل بیٹھتے ہیں پھر دھیمی دھیمی بات چیت شروع ہو جاتی ہے ایک کوئ بات کہتا ہے دوسرا بولتا ہے واہ یوں نہیں یوں ہے وہ کہتا ہے واہ کیا تم کیا جانو، وہ بولتا ہے تم کیا جانو. دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے، تیوری چڑھ جاتی ہے، رخ بدل جاتا ہے , آنکھیں ڈراؤنی ہو جاتی ہیں، باچھیں چر جاتیں ہیں، دانت نکل پڑتے ہیں، تھوک اڑنے لگتا ہے باچھوں تک کف بھر آتے ہیں، سانس جلدی چلتا ہے، رگیں تن جاتی ہیں، آنکھ ، ناک، ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں. عنیف عنیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں. آستین چڑھا، ہاتھ پھیلا، اس کی گردن اس کے ہاتھ میں ، اس کی داڑھی اس کے مٹھی میں. لپا ڈگی ہونے لگتی ہے. کسی نے بیچ بچاؤ کر کر چھڑا دیا تو غراتے ہوے ایک ادھر چلا گیا ایک ادھر کو اور اگر کوئ بیچ بچاؤ کرنے والا نہ ہوا، تو کمزور نے پٹ کر کپڑے جھاڑ کر سر سہلاتے اپنی راہ لی.
جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے . کہیں تو تکار تک نوبت آجاتی ہے. کہیں آنکھیں بدلنے اور ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے پر خیر گزر جاتی ہے. مگر ان سب میں کسی نہ کسی طرح کتوں کی مجلس کا اثر پایا جاتا ہے. . .
انسان کو لازم ہے کہ ، اپنے دوستوں سے کتوں کی طرح بحث و تکرار کرنے سے پرہیز کرے-
 

أضواء

وفقہ اللہ
رکن
مفتی ناصرمظاہری نے کہا ہے:
[size=xx-large
جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے .

انسان کو لازم ہے کہ ، اپنے دوستوں سے کتوں کی طرح بحث و تکرار کرنے سے پرہیز کرے-
[/size]​



أحسنت وجزاك الله خير وبارك الله فيكـ ،
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
کہہ رہا تھا ایک کتا دوسرے کتے سے یہ
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
[align=center]
ایک خبرکلفت اثر
ان کتوں کے کاٹنے کی وجہ سے ہر ہفتے 20 سے 30 مریض ہسپتال میں لائے جا رہے ہیں۔
اک اندازے کے مطابق گذشتہ چھ سالوں میں کتوں کی تعداد میں 154000 کا اضافہ ہوا ہے۔
گذشتہ 35 برس میں کتے مار عملے کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
امیریکی ’’کتے‘‘ جوانسان نماحیوان ناطق پرہمیشہ بھونکتے دکھائی دیتے ہیں میرے خیال سے وہ مسلمان جس نے سب سے پہلے امریکہ کودریافت کیاتھااس کوتعزیرات ہندکے تحت (اوابھی نہیں بنی ہے)ضرورسزادی جانی چاہئے تھی بندہ خدانے امریکہ کاسراغ کیالگایاامریکہ ہمارے سروں کاسرہوگیااوردکھاوے کے لئے سیداحمدخان کوسرکہدیاحالانکہ اس کوپتہ ہے کہ اصل میں سرکون ہے ۔ہاں تومیں کہ یہ رہاتھاکہ کچھ منچلوں نے امریکہ کے ہزارشوروغوغاکے باوجودایک کتاگاڑی بنادی سس گاڑی میں ایک شخص کوبیٹھے اور’’ کتے‘‘ کوگاڑی کھینچتے دکھایاگیاہے لنک دے رہاہوں مرضی ہوتووہاں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔باقی باتیں بعدمیں ہوتی رہیں گی
حضرت کتوں کو اتنا بھی بد نام نہ کرئیں کتے وفادار بھی ہوتے ہین اور کتوں سے یہ سبق بھی ملتا ہے جو ہمارے ایک صوفی شاعر بابا بلھے شاہ نے کہا ہے
راتیں جاگیں تے شیخ سدائیں راتی جاگن کتے
رکھا سکھا ٹکڑا کھا کے جا رکھا وچ ستے
تو ناشکرا پلنگا اتے او شاکر روڑیاں اتے
در مالک دا مول نہ چھڈ ن بھاوئیں ماریں سو سوجتے
اٹھ بھلیا یار منا لے نہیں تے بازی لے گے کتے​
مفتی صاحب کے لئے ترجمہ
رات کو شیخ بھی جاگتا ہے اور کتا بھی دوگھڑی جاگ کر تو اپنے آپ کو شیخ کہلانے لگتے ہو ،،۔۔۔۔۔۔۔۔ جاگتا تو کتا بھی ہے
2۔۔۔کتا سوکھا ٹکڑا کھا کر درختوں کی چھاوں میں زمین پر سو جاتا ہے
3۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اے بندے تو بیڈ پر سوکر بھی شکر نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کتا کچرے کے ڈھیر پہ بھی سوکر شکر کرتا ہے
4۔۔۔ وہ اپنے مالک کادر چھوڑ کر نہیں جاتا چاھے آپ اسے سو جوتے بھی ماردو
5 اے بلھے اٹھ کر اپنے یار(رب) کو منالے رات کو جاگ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وگرنہ جاگنے مین کتے بازی لے جائیں گے
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل دیکھنا شروع کرتے ہیں. پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے اور پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں .اور حلق سے آوازیں نکلنا شروع ہوتی ہیں.پھر باچھیں چر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے داڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں. آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں. منۂ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور عنیف آواز کے ساتھ ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں .اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اس کی ٹانگ اس کی کمر میں، اس کا کان اس کے منۂ میں، اس کا ٹینڈوا اس کے جبڑے میں، اس نے اس کو کاٹا اس نے اس کو بچھاڑ کر بھنبوڑا جو کمزور ہوا دم دبا کر بھاگ نکلا.
ان میں سے اکثر بلکہ سب صفات دور حاضر کے سیاہ ستدانوں میں پائی جاتی ہیں
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
میری بات کامطلب کچھ کچھ نبیل نے سمجھاہے بس فرق اتناہے کہ موجودہ سیاست دانوں کے اندرکچھ کچھ صفات مان رہے ہیں حالانکہ موجودہ سیاست دانوں سے کتوں نے بہت کچھ سیکھاہے۔اس سلسلہ کواگرچلنے دیاجائے تومیں ثابت کردوں گاکہ دورحاضرکے چارپیروالے کتے سیاست کی گلیوں کے دوپیروالے کتوں سے توبہترہی ہوتے ہیں۔تفصیل کاانتظارفرمائیں ۔
 
Top