مدتوں سے بنی نوع انسان کا دوست اور مددگار ہونے کا فریضہ سرانجام دینے کے ناطے کتا ایک وفادار جانور کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ کئی شاعروں نے اس کی تعریف و توصیف میں بے شمار قصیدے بھی لکھے جبکہ بحیثیت مزاح نگار پطرس بخاری بھی اس جانور پر ایک شاہکار مضمون لکھ چکے ہیں جو اُردو مزاحیہ ادب میں ایک خوبصورت اضافہ سمجھا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں لوگ کتوں کو انسانوں کا بہترین ساتھی سمجھتے ہیں اور اولاد کی طرح اُن کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہاں یہ انگریزوں کے بڑھاپے کا واحد سہارا، ان کی جائز اولاد اور خاندان کا والی وارث بھی تصور ہوتا ہے جبکہ ہم اپنی سماجی زندگی میں اسے بے عزتی کی علامت سمجھتے ہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں کسی انسان کو کتے سے تشبیہ دینا ایک گالی بن چکا ہے۔ کتا وفادار تو ہے مگر اس میں بعض ایسی عادتیں بھی پائی جاتی ہیں جو اس کی وفاداری پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ انسانوں کو کتوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے لیکن اگر اس جانور سے انسانوں میں سرایت کر جانے والی خطرناک بیماری کتاپن یا کتا خوری کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ نہ صرف کتوں کے ساتھ زیادتی ہوگی بلکہ ان کی تاریخ بھی ادھوری رہ جائے گی۔
کتا پن ایک ایسی بیماری ہے جیسے آوارہ پن، ضدی پن، بھگوڑا پن، بھکاری پن، ڈھیٹ پن، دوغلہ پن یا کمینہ پن جبکہ کتا خوری کو سمجھنے کیلئے رشوت خوری، حرام خوری، بھتہ خوری، مفت خوری، سود خوری اور چغل خوری کو سمجھنا ضروری ہے۔ بلاشبہ یہ تمام بیماریاں بہت سے لوگوں میں پائی جاتی ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ کتاپن یا کتا خوری کی بیماری انسانوں میں اس جانور کی نسبت سے منتقل ہوئی جسے عرفِ عام میں کتا کہا جاتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کتے کم جبکہ کتاپن زیادہ پایا جاتا ہے۔ کتاپن یا کتا خوری کی بیماری انسانوں میں کیسے آئی اسے سمجھنے کیلئے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔
یہ برسوں پرانی بات ہے کہ شاہی دور میں بادشاہ کا ایک بستی کے قریب سے گزر ہو رہا تھا کہ اسے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیں۔ بادشاہ کو بہت سے کتوں کا ایک ساتھ بھونکنا انتہائی ناگوار گزرا اور اُس نے اپنے وزیر سے اس بابت دریافت کیا۔وزیر بادشاہ کے غصے کو فوراً سمجھ گیا اور اُس نے بادشاہ کی سخاوت کے پیش نظر عرض کی، بادشاہ سلامت! یہ کتے بھونک نہیں بلکہ بھوک کی وجہ سے رو رہے ہیں۔ بادشاہ کی سخاوت اور دریا دلّی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے اس لیئے کتوں کا بھوکا رہنا وہ اپنی توہین سمجھتا تھا۔ اُس نے افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ پورے شہر میں منادی کرادو کہ تمام لوگ اپنے کتے لے کر دربار آئیں اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں۔
وزیر نے بادشاہ کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے پورے شہر میں یہ اعلان کرا دیا کہ لوگ کتے لے کر دربار میں آئیں۔ اگلے روز بادشاہ نے تمام کتوں کے لئے انتہائی اعلیٰ قسم کا کھانا تیار کروایا۔ وقت کی پابندی کے پیش نظر تمام لوگ کتوں کو لا چکے تھے۔ اب کھانا تیار ہو چکا تھا اور کتوں کے لئے رنگ برنگے کھانے دسترخوان پر سجا دیئے گئے تھے لیکن جب کتوں کو کھانے پر چھوڑا گیا تو تمام کتے ایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑے۔ کسی کتے کا پاﺅں دوسرے کا منہ، کسی کی گردن دوسرا کتا دبوچے ہوئے ہے، کوئی کتا دوسرے کی دُم کاٹ رہا ہے تو کوئی کان چبا رہا ہے۔کتوں کے ساتھ ساتھ دربار اور دسترخوان بھی خون سے لہو لہو ہو چکے تھے۔ بادشاہ حیران تھا کہ اتنے لذیذ اور عمدہ کھانوں کے ہوتے ہوئے کتے آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کا بدن کیوں نوچ رہے ہیں۔ اُس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے وزیر سے دریافت کیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وزیر نے سہمے ہوئے عرض کی، بادشاہ سلامت! یہ کتے ہیں اور اپنا کتاپن دکھا رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ان کی عادت اور فطرت میں شامل ہے اور یہی کتا پن کی اصل پہچان ہے۔
انسان کی جو بُری عادات اس کی زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اُن میں سے ایک کتاپن بھی ہے۔ بظاہر یہ ایک ایسی بیماری ہے جسے ڈاکٹر بھی سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں لیکن اس بیماری کی تشخیص کا پتہ اُس وقت چلتا ہے جب سیمیناروں، مذاکروں ، کانفرسوں اور دوسری قسم کی تقریبات کے بعد کھانا کھلتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ تقاریر سننے کے بجائے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ چند منٹوں میں کشتی کے سارے داﺅ پیچ، جوڈو کراٹے، ہر طرح کی زور آزمائی سپیڈوں سے جاری ہو جاتی ہے اور تاثر یہ مل رہا ہوتا ہے جیسے ان لوگوں کو آج ہی کھانے کو ملا ہے حالانکہ قسمت میں جو لکھا ہے وہ انسان کو مل کر ہی رہتا ہے اور قسمت کا لکھا انسان ہر صورت کھاتا ہے۔کھانا ضرور کھانا چاہئے مگر انسانوں کی طرح جبکہ کتاخوری کی مرض میں مبتلا مریض کسی کی شادی میں کھانا کھانے کے دو اُصولوں کو مدنظر رکھتے ہیں یعنی پہلی بار اس طرح کھاﺅ کہ دوسری بار ملے گا نہیں جبکہ دوسری بار اس طرح کھاﺅ کہ پہلی بار ملا ہی نہیں۔ دراصل یہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ اس بیماری سے مجبور ہو کر کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صرف شادی اور دیگر تقریبات کے پُرتکلف اور عمدہ کھانے ہی نہیں بلکہ کتاپن کی کئی دیگر نشانیاں بھی ہیں جو ہمارے معاشرے میں عام پائی جاتی ہیں۔ کتے کی وفاداری کے چرچے ضرور ہیں لیکن بعض اوقات وہ اپنا کتاپن بھی دکھا دیتا ہے، چونکہ وہ نسلاً کتا ہوتا ہے اس لیئے اس کی سوچ بھی کتوں والی ہوتی ہے اور ہمیشہ کتا ہی رہتا ہے۔
ایک کسان نے گدھا اور کتا دونوں پال رکھے تھے۔ ایک بوجھ اٹھانے کے کام آتا جبکہ دوسرا گھر کی رکھوالی کرتا۔ دونوں کو اپنی اپنی حد میں رہ کر کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ایک دن گھر میں چور داخل ہو گیا۔ ڈیوٹی کتے کی تھی کہ آواز سن کر بھونکنا شروع کر دے مگر وہ آرام سے سویا رہا۔گدھے نے کتے کو جگا کر اسے فرائض سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا اور بتایا کہ گھر میں چور گھس آیا ہے۔ کتے نے ایک آنکھ کھول کر کہا میرا گلا خراب ہے اور مست ہو کر دوبارہ سو گیا۔ گدھے کو اپنے باپ کی نصیحت یاد آ گئی اور اپنے مالک سے وفاداری نبھانے کی خاطر اس نے زور سے آوازیں نکالنا شروع کر دیں کیونکہ اُس وقت کتا اپنے کتے پن کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ چور گدھے کی آواز سے گھبرا کر بھاگ گیا لیکن مالک اس بے وقتی راگنی سے پریشان ہو کر اُٹھ بیٹھا اور گدھے سے کہا! او بیوقوف گدھے سونے کیوں نہیں دے رہا۔ گدھے نے سینا تان کر کہا جناب گھر میں چور آ گیا تھا اس لیئے میں نے آپ کو خبردار کرنا ضروری سمجھا۔ مالک نے موٹا سا ڈنڈا پکڑ کر گدھے کی پٹائی شروع کر دی کہ یہ تیری ذمہ داری نہیں ہے۔ کتا چونکہ آرام سے سویا ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ چور نہیں آیا اور تو جھوٹ بھول کر میری ہمدردیاں حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ کتا بڑے مزے سے کانی آنکھ کے ساتھ مالک کے ڈنڈے سے گدھے کی مرمت دیکھتا رہا۔ جب مالک چلا گیا اور گدھا رو رہا تھا تو کتے نے اس سے کہا ”آج کل کا انسان بہت بے رحم ہے اس کی انتہاپسندی میں اتنی وفاداری ٹھیک نہیں۔ تم سارا دن بوجھ اٹھاتے ہو اور رات کو پٹائی ہوتی ہے جبکہ میں صرف مالک کے آگے دُم ہلاتا ہوں، مالک مجھے موتی کہہ کر پکارتا ہے جبکہ تجھے گدھا کہتا ہے۔ تم ہمیشہ گدھے پن کا مظاہرہ کرتے ہو کبھی کتا پن بھی دکھا دیا کرو۔“
ہمارے معاشرے میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو کہ کتاپن کے زمرے میں آتی ہیں۔ ہم انسانوں کے لئے یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ جب کتے اپنی عادات و اطوار تبدیل نہیں کر سکتے تو ہم بحیثیت اشرف المخلوقات اپنی انسانی عادات تبدیل کرکے ”کتے پن“ کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔