حضرت مولانا عبداللطیف پورقاضوی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانا عبداللطیف پورقاضویؒ
حضرت مولاناسید عبد اللطیفؒ ابن مولانا جمعیت علیؒ ۱۸۷۹ء؁ بمقام قصبہ پورقاضی ضلع مظفرنگرپیداہوئے، والد ماجد صاحبِ علم وعمل شخصیت کے مالک تھے جن کی کئی پشتیں علمی، روحانی اور اصلاحی خدمات سے آراستہ چلی آرہی ہیں مولانا عبداللطیف نے قرآن پاک اپنے وطن کے نامور حافظ جناب امانت علیؒ سے حفظ کیا اور ابتدائی تعلیم والد محترم مولانا جمعیت علی سے حاصل کی جو اس وقت بہاول پور میں تدریسی خدمات میں مشغول تھے بعد ازاں حضرت مولانا خلیل احمد انبیٹھوی کے ایماء پر مظاہر علوم سہارنپور تشریف لائے اور بقیہ جملہ درس نظامی کی تکمیل کی سعادت انہی بزرگوں کے زیر سایہ حاصل کی۔
آپ نے ۱۳۱۵ھ؁ میں مظاہر علوم میں داخلہ لیا اور ۱۳۲۲ھ؁ میں اعلیٰ نمبرات سے فراغت پائی دورانِ تعلیم بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ کی کتب حضرت مولانا خلیل احمد انبیٹھویؒ سے پڑھیں اور نسائی شریف مولانا عنایت علی سے پڑھی۔
۱۳۲۳ھ میں حضرت شاہ عبدالرحیم کی تجویز پر مظاہر علوم میں مسند درس سنبھالا اسی سال پہلی بار حج بیت اللہ کو گئے ۔
۱۳۳۳ھ میں حضرت سہارنپوریؒ کی روانگیٔ بیت اللہ کے موقع پر آپ کو از خود حضرت سہارنپوریؒ مدرسہ کا اہتمام سونپ گئے۔
۱۳۳۹ھ میں مدرسہ کی جملہ انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز کیا گیا ان کے عہد نظامت میں مظاہر علوم نے جو ترقی کی وہ مظاہر علوم کی تاریخ کا روشن باب ہے،کتب خانہ کی عمارت کی تعمیر، جدید دار الاقامہ اور اس میں مسجد کی تعمیر اور دار التجوید کی عمارت خاص طور پر قابل ذکر ہیں،مظاہر علوم کی نظامت کے متعلق مدرسہ کی مجلس شوریٰ کی ایک تجویز مندرجہ ذیل ہے۔
’’ناظم ومہتمم تقریباً ایک چیز ہے پہلے سے بھی وہی کام جو اہتمام کا تھا ناظم صاحب کر رہے تھے، بمصالح نام مرحوم پر باقی تھا اب حافظ صاحب ناظم ومہتمم دونوں کے ساتھ موسوم ہوں تاکہ ڈاک وغیرہ جو مہتمم کے نام آتی ہے اس میں دقت نہ ہو اور حسب قانون مطبوعہ جو اختیارات مہتمم کے ہیں وہی حافظ صاحب کے ہیں البتہ دفتر میں مرحوم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک محاسب دیانت دار کا اضافہ ضروری ہے‘‘۔
چنانچہ آپؒ کو زمام اہتمام بھی سونپی گئی اس طرح پر کہ دو نائب ایک مالیات کا دوسرا تعلیمات کا علیحدہ علیحدہ ہو اور دونوں آپؒ کی زیر نگرانی اپنے متعلقہ امور انجام دیں۔
مولانا عبداللطیف ؒ نے نہ صرف مظاہر علوم کے منصبِ اہتمام کے فرائض بحسن و خوبی انجام دئے بلکہ مسند درس کو بھی اپنی علمی صلاحیتوں سے جلا بخشی آپ کا بخاری وترمذی شریف جیسی بڑی کتابوں کا درس بہت مقبول تھا نیز دورانِ درس ہزاروں طلبہ نے اپنی علمی تشنگی بجھائی یہ وہ شاگرد وطالبعلم تھے جن کے فیوض و برکات آج بھی روئے زمین پر ظاہر ہیں، اس پچاس سالہ طویل علمی سفر میں نہ معلوم کتنے مسافرانِ علم وعمل نے آپ سے کسبِ فیض کیا ان میں یہ چند نام قابلِ ذکر ہیں۔
مولانا ظفر احمد عثمانیؒ،مولانا شیخ الحدیث محمد زکریا ؒ،مولانا ابرار الحق ہردوئیؒ، مولانا صدیق احمد باندویؒ ، مولانا محمد ثانی حسنی،ؒ حضرت مولانا یوسف کاندھلویؒ، مولانا احتشام الحسن کاندھلویؒ، الحاج مفتی محمد جمیل احمد تھانوی۔
مندرجہ بالا شخصیات نے عالم اسلام کو اپنی تعلیم وتربیت سے جو کچھ بخشا ہے وہ محتاج تعارف نہیں بلاشبہ آسمان علم اور احیاء السنن کے یہ وہ آفتاب وماہتاب ہیں کہ جن کی روشنی میں مسلمانوں نے راہِ حق وصداقت کی منزلیں طے کی ہیں نیز ہندوستان سمیت دیگر ممالک میں بھی اسلامی، روحانی تعلیمات کو عام کیا اور لاتعداد گمراہوں کو صراطِ مستقیم پر چلنا سکھایا۔
انہوں نے مظاہرعلوم کے عروج وترقی میں شبانہ روزمحنت کی تھی، اپنی مختصرزندگی میں اپنوں کی ایذارسانیاں بھی بہت برداشت کیں لیکن کبھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے،ان کی زندگی کاایک ایک ورق اور ان کی کتاب حیا ت کاایک ایک حرف ہم خردوں کے لئے رہبری ورہنمائی کا باعث ہے۔ان کے دوراہتمام میں مظاہرعلوم کا انتظام وانصرام بہت ہی معیاری ومثالی تھا حتیٰ کہ اپنی انتظامی اوراصولی صلاحیتوں میں معروف حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ بھی حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ کی انتظامی خوبیوں کے معترف ومداح تھے اور ہمیشہ مظاہرعلوم کے نظام کی غائبانہ تعریف کیاکرتے تھے۔شایدیہی وجہ ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی قربتیں اور نزدیکیاں کافی حد تک بڑھی ہوئی تھیں ،ٹھیک اسی زمانہ میں حضرت تھانویؒ مظاہرعلوم کے سرپرست بھی تھے،یہی وہ زمانہ تھا جب مظاہرعلوم کے اساتذہ وملازمین کے ایک بڑے طبقہ نے حضرت تھانویؒ سے اپنااصلاحی تعلق استوارکررکھاتھا۔
آپؒ کے زمانۂ اہتمام ۱۳۳۳ھ؁ سے ۱۳۷۴ھ؁ تک متعدد دینی مدارس کا قیام عمل میں آیا، یہ دور دینی مدارس کے لیے عہد زرّیں ثابت ہوا بلاشبہ دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم کے فضلاء نے اسلامی دنیا میں ایک نئے دور کی ابتداء کی ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں میں دینی علمی رجحان پیدا کیا نیز دونوں مدرسوں نے مسلمانوں میں باہمی محبت جوش وجذبہ کے ساتھ کام کرنے کا سبق دیا آج ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ قومی اتحاد اور اسلامی تعلیمات دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلا رہے ہیں بلاشبہ ہمارے اکابر علماء ایسے چراغ روشن کر گئے جن کی روشنی تا قیامت پھیلتی رہے گی۔
آپؒنے زمانہ اہتمام وتدریس میں نہایت ایمان داری اور خلوص نیت سے کام کیا اورمدرسہ کی ترویج وترقی کے لیے ہزاروں میل کے سفر کئے جن میں ۱۳۲۷ھ میں رنگون، برما وغیرہ کے مقامات قابلِ ذکر ہیں اس کے علاوہ میں مظاہر علوم نے زبردست ترقی کی طلبہ کی تعداد، تعمیرات میں اضافہ ہوا آپ کا دورِ انتظامی تاریخِ مدارس میں سدا قابل رشک رہے گا۔
آپؒ نے ۵۰؍سال مظاہر علوم کی شاندار خدمات انجام دیں بالآخر ۱۹۵۴ء کویہ علم وعرفان اور رشد وہدایت کا پیکر اپنے خالق حقیقی سے جاملا اور اپنے پیچھے ایسے نور افشاں ستارے روشن کر گیا کہ جن کی روشنی میں ہزاروں مسلمانوں کو اپنی اصلاح اور تحصیل علم کے مواقع فراہم ہوتے رہیں گے۔
آپ کی تدفین قبرستان حاجی شاہ کمال الدین سہارنپورمیں ہوئی۔فرحمہ اللّٰہ رحمۃ واسعۃ​
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مناظراسلام حضرت مولانا محمد اسعد اللہ ؒ
حضرت مولانامحمداسعداللہ ؒابن مولانا رشید اللہ ؒابن مفتی بشارت اللہؒ ابن مفتی محمدسعداللہ رام پوریؒ ابن مولانانظام الدین مردآبادی ؒشوال ۱۳۱۴ھ مطابق مارچ ۱۸۹۷ء ریاست رام پورمیں پیداہوئے ،تاریخی نام مرغوب اللہ اورچراغ علی ہے مگرمحمداسعداللہ سے پورے عالم میں مشہورہوئے۔
قرآن شریف اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھ کر کچھ عرصہ رام پور کے ایک سرکاری اسکول میں انگریزی تعلیم حاصل کی ۔
شوال ۱۳۲۹ھ کے آخر میں آپ اپنے چچا حکیم محمد فضل اللہ صاحب کے ساتھ رام پورسے تھانہ بھون تشریف لے آئے۔ یہاں پہنچ کر مولانا الحاج عبد اللہ صاحب گنگوہی سے تعلیمی رشتہ قائم فرمایا ۔ابتدائی عربی سے متوسط کتابوں تک آپ کے استاذ مولانا مرحوم رہے ۔ ترجمہ قرآن پاک اورمشکوۃ شریف حضرت اقدس تھانوی نوراللہ مرقدہٗ سے پڑھی ۔
تھانہ بھون کے زمانہ ٔ قیام میں آپ نے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ،حضرت مولاناشبیر علی ؒسے بھی متعدد کتابیں پڑھیں۔
۲۲؍شوال ۱۳۳۳ھ میں آپ تھانہ بھون سے مظاہر علوم سہارنپورتشریف لائے ،یہاںمشکوۃ ،ہدایہ اولین مختصر المعانی ،سلم العلوم مقامات حریری ،ہدیہ سعیدیہ ،ملا حسن ،نخبۃ الفکر سے اپنی تعلیم کا آغاز فرمایا ۔
۱۳۳۴ھ میں دورہ ٔ حدیث میں داخلہ لے کر صحاح ستہ کی تکمیل فرمائی ۔کتب صحاح کے ساتھ جلالین شریف ،شر ح عقائد نسفی مع خیالی ،ملا جلال بھی پڑھی ۔کتب صحاح میں آپ کے اساتذہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب حضرت مولانا یحییٰ صاحب ، حضرت مولانا ثابت علی صاحب اورحضرت مولانا عبد اللطیف صاحب ہیں ۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی ؒ،حضرت مولانا خیر محمد مظفرگڑھی مہاجر مکی ؒبانی رباط منزل الخیر مدینہ منورہ ، حضرت مولانا عبد الغنی ؒسابق استاذ جامعہ مظاہر علوم سہارنپوروبانی مدرسہ مدینۃ العلوم رسولی ضلع بارہ بنکی،امام النحو والمنطق حضرت علامہ صدیق احمد کشمیری ؒ،اورمولانا محمد بخش صاحب ڈیرہ غازی خان (پاکستان )آپ کے دورۂ حدیث شریف کے خصوصی رفقاء میں سے تھے۔
۱۳۳۵ھ میں آپ نے درجہ ٔ فنون میں داخلہ لے کر پہلے سال بیضاوی ،مسلم شریف ،ہدایہ اخیرین ،سراجی ،حمدا للہ، قاضی مبارک ،میرزاہد ،توضیح وتلویح پڑھیں۔
اوردوسرے سال ۱۳۳۶ھ میں ابو داؤد اقلیدس ،صدر ا شمس بازغہ ،در مختار ،سبع شداد ،شرح چغمینی ،تصریح ،مسلم الثبوت پڑھ کردرس نظامی سے فارغ ہوئے۔
۱۳۳۷ھ میں آپ مظاہر علوم کے معین مدرس بنائے گئے ۔ایک سال بعد شوال ۱۳۳۸ھ میں پندرہ روپے مشاہرہ پر مستقل استاذ تجویز کئے گئے ۔اوراسی زمانہ میں آپ انجمن ہدایت الرشید کے ناظم بنے ،مظاہر علوم میں آپ نے تمامی علوم وفنون کی کتابیںپڑھائیں درجہ ابتدائی کے علاوہ درجہ اعلیٰ کی یہ کتابیں بھی بہت سی مرتبہ آپ کے یہاں ہوئیں ۔جلالین ،شرح عقائد خیالی ،امورعامہ ،خلاصۃ الحساب ،دیوان متنبی ،دیوان حماسہ ،توضیح تلویح ،صدر ا ،اقلیدس ،شمس بازغہ ،بیضاوی ،تفسیر مدارس ،ہدایہ رابع ،حمد اللہ ،رسم المفتی ۔
اہالیان برما کے مخلصانہ اصرار پر آپ ان کے یہاں دو مرتبہ تشریف لے گئے یہ دونوں سفر جامعہ راندیریہ رنگون کے ناظم اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے کئے گئے ۔پہلا سفرربیع الثانی ۱۳۴۸ھ میں ہوا ، ایک سال وہاں قیام فرمایا،دوسراسفر ماہ صفر ۱۳۵۴ھ میں ہوا ،وہیں سے حج کے لئے تشریف لے گئے ۔حج وزیارت سے فارغ ہوکر آپ برما واپس ہوگئے ۔
یکم صفر ۱۳۶۵ھ میں آپ اپنی مادر علمی جامعہ مظاہر علوم سہارنپورکے نائب ناظم بنائے گئے اورحضرت مولانا عبد اللطیفؒ کے سانحہ ٔ ارتحال کے بعد یکم محرم الحرام ۱۳۷۴ھ میں آپ ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے ۔
۱۳۷۴ ھ سے ۱۳۸۵ھ تک آپ نے مظاہر علوم کے بار انتظام کو تن تنہا اٹھائے رکھا۔لیکن حضرت موصوف کے اعذا ر وامراض اورضعف وکمزوری کو دیکھتے ہوئے یکم رمضان المبارک ۱۳۸۵ھ کوحضرت مولانا الحاج مفتی مظفر حسین ؒکو مظاہر علوم کو نائب ناظم کاعہدہ تفویض کیاگیا ۔
مسلسل عوارض وعلالت کی وجہ سے ۱۳۸۹ء میں آپ نے درس وتدریس کا سلسلہ بند فرمایا۔
آپ کی پوری زندگی علم وعمل اوراحیائے دین کے لئے قربانیاںدینے میں گزری ۔ریواڑی پنجاب ،راجپوتانہ ،متھرا ، آگرہ ،نوگانوہ وغیرہ میں آپ نے ارتداد اورشدھی کے سنگین اورہولناک زمانہ میں وہاں جاکر انجام دیں ۔
آپ نے اپنا اصلاحی تعلق حکیم الامت حضرت اقدس مولانااشرف علی تھانوی ؒسے قائم کیا،کثرت کے ساتھ تھانہ بھون حاضر ہوتے اوربعض مرتبہ طویل قیام کی نوبت آتی ۔
آپؒ کے اہم خلفاء میں تین اہم شخصیات بہت ہی مشہورومتعارف ہوئیں اوران سے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے فروغ کابڑاکام لیا اُن میں ایک توعارف باللہ حضرت مولاناقاری سیدصدیق احمدباندویؒ ہیں،دوسری عظیم شخصیت فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکی ذات گرامی ہے اورتیسری اہم ہستی شیخ طریقت حضرت مولاناعبداللطیف نلہیڑوی ؒکی ہے ۔
اِن تینوں حضرات سے علم وروحانیت کے وہ چشمے جاری ہوئے ہیں جن کا فیض اِن شاء اللہ تاقیامت جاری رہے گا۔
اِن حضرات کے علاوہ متعددافراد آپ کے فیض صحبت سے صاحب نسبت وتعلق ہوئے اور سب الحمد للہ مخلوق خدا کے لئے ذریعہ ٔ خیروبرکت بنے ہوئے ہیں ۔
آپؒبہترین مقرر،شاندارصاحب قلم انشاء پرداز،اردو،عربی اورفارسی کے قادرالکلام شاعرونثرنگار،بیباک مناظر، مقبول مدرس،محبوب ترین روحانی مرشداورمنبرومحراب کے عظیم الشان خطیب تھے۔
اسعادالنحو،تکمیل العرفان فی شرح حفظ الایمان،القطائف من اللطائف،رہبرحجاج،اسعادالطالبین،صحائف اسعد،کلام اسعد،مصباح الطحاوی،اسعادالاسعد،المکالمہ بینی وبین بعض المعقولیین،التحفۃ الحقیرہ،ہفت اختر،الحواشی علی الطحاوی،شرح التقصیرفی التفسیر،عروض باقافیہ،شرح حماسہ،آمین بالجہر،قراء ۃ فاتحہ خلف الامام،رفع یدین،شیعی تقیہ وغیرہ دودرجن سے زیادہ،ادبی،درسی اورعلمی کتابیں آپ نے بطورقلمی یادگارچھوڑی ہیں۔
آخر حیات میں مختلف عوارض وامراض کی وجہ سے ضعف وکمزوری بہت بڑھ گئی تھی حیات کے آخری دنوں میں عموماً دنیاوی امورسے انقطاع رہتا تھا اسی حالت میں ۱۴/۱۵رجب ۱۳۹۹ھ (۱۰؍جون ۱۹۷۹ء )کی درمیانی شب میںوصال ہوا نماز جنازہ اگلے دن حسب وصیت فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ نے پڑھائی اور قبرستان حاجی شاہ کمال میں بانی مظاہرعلوم حضرت مولانامحمدمظہرنانوتوی ؒکے سرہانے نیزاستاذالکل حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضوی ؒکے دائیں جانب تدفین عمل میں آئی ۔​
 
Last edited by a moderator:
Top