السلام علیکم
قارئین کی دلچسپی اور ان کی فرمائش سے حوصلہ پاکر میں اپنے والد محترم کی خود نوشت سوانح حیات قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کررہاہوں مجھے اس فورم میں آکر ایسی اپنائیت اور محبت کا احساس ہوا جس کو میں اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔اللہ تعالیٰ آپ تمام حضرات کی خدمات اور اخلاص کو قبول فرمائے اٰمین لیجئے میرے والد مرحوم کی سوانح حیات ملاحظہ فرمائیں یہ چند قسطوں پر مشتمل ہوگی۔ اصل کتاب کانام ہے{ تذکرہ دیرو حرم} (قسط اول)
اگر ان (نیکوں) جیسے نہ بن سکو تو ان کی مشابہت اختیار کرو
اس لئے کہ نیکوں کے ساتھ مشابہت بھی کامیاب ہے۔
[align=center]چو من بخیر کنم یادِ رفتگاں دارم اُمید آنکہ مراکہ ہم بخیر یاد کنند
چوشاد می کنم ارواحِ دیگراں شاید کساں رسند مرا نیز روح شاد کنند
جب میں گذرے ہوئے لوگوں کو خیر کے ساتھ یاد کروں گا
تو اُمید ہے کہ دوسرے بھی مجھے خیر کے ساتھ یاد کریں گے۔
جب میں دوسرے کی روح کو خوش کروں گا تو ہوسکتا ہے
کہ لوگ میری روح کو بھی خوش کریں گے۔[/align]
ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک ہر دور میں اللہ بزرگ وبرتر نے انسان کی فلاح وبہبود و رشد وہدایت کے لئے مخصوص وبرگزیدہ اشخاص کو پیدا فرمایا۔ تکمیل دین تک اس کام کو انبیاء ورسل علیہم السلام نے انجام دیا ان کے بعد ان کے نائبین یعنی صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے اس فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ ان کے بعد تابعین، تبع تابعینؒ نے تمام تر تکالیف، مصائب وآلام کے باوجود اس اہم ذمہ داری کو ادا کیا۔ ان کے بعد اس کارِ رسالت اور بارِ امانت کو علمائے کرام ومشائخ عظام نے اپنے کاندھوں پر لیا اور بڑی ذمہ داری وامانت داری کے ساتھ بڑی بڑی قربانیاں دے کر اس کام کو انجام دیا۔ اور فرمانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم: العُلمائُ ورثۃُ الأنبیائِ کا پورا پورا حق ادا کیا۔ اس پر پورے اُترے۔ انہیں کی شان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {اِنَّمَا یَخْشٰی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَائُ} اور قیامت تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ الغرض علماء جو کہ دین کے ستون اور اساس ہیں، جن پر قوم کی فلاح وبہبود کا دارومدار ہے اور قوم کو بہت کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں، اس وقت بالکل دو مختلف صورتوں میں نظر آتے ہیں: علمائے سوء اور علمائے خیر، (بے عمل اور باعمل)۔ بے عمل علماء ان درختوں کی مانند ہیں جو بظاہر خوبصورت ہیں لیکن پھل دار نہیں ہوتے۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ گوہر ِ بے آب اور آفتاب بے نور۔ انہیں کے بارے میں قرآنِ کریم کی یہ آیت ہے: {وَ اِذَا رَاَیْتَہُمْ
تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ وَ اِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ} (ترجمہ: جب تم ان کو دیکھو گے تو ان کے جسم تمہیں پسند آئیں گے اور جب وہ گفتگو کریں گے تو تم ان کے کلام کو (توجہ سے سنوگے) جیسا کہ وہ اُٹھے ہوئے شہتیر ہوں)۔
اور انہیں کے بارے میں ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
بار بردار اونٹوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ جو بوجھ وہ صبح سے شام تک لادے پھرتے ہیں ان کے اندر کیا ہے؟
اگر مطلق علم سے بنا عمل کے بزرگی اور شرافت حاصل ہوتی تو یہ شرف معلم الملائک اور بوجہل کو حاصل ہوتا اور صفحۂ ہستی پر ان سے زیادہ کوئی اشرف اور بزرگ نہ ہوتا۔
یوں تو برصغیر ہندوپاک کی سرزمیں سے بہت سے اولوالعزم اور اولوالفضل اور اولو العلم حضرات پیدا ہوئے لیکن ان میں سے چند ایک حضرات ایسے بھی گذرے ہیں جنھوں نے عالم اسلام پر گہرے نقوش مرتب کئے ہیں، جو علومِ ظاہریہ وباطنیہ میں لاثانی وبے نظیر تھے اور اپنے کارناموں کی وجہ سے زندہ جاوید ہوگئے۔
ان گنے چنے نفوسِ قدسیہ میں سے ایک میرے والد، میرے شیخ، اور میرے استاذ حکیم الامت، امام العصر، فقیہ الملت، شیخ طریقت حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب قدس سرہ العزیز ہیں۔جن کی باکمال شخصیت آج بھی طالبانِ شریعت وطریقت کے لئے مشعل راہ ورُشد وہدایت ہیں اور مانند منارۂ افروزاں کےہیں ۔ حضرت موصوف کی ذات ستودہ صفات میں بیک وقت بہت سی خوبیاں جمع تھیں، آپ علم وعمل کے ساتھ ساتھ تقویٰ، پارسائی، للہیت، جفاکشی وجانفشانی، خلوص وہمدردی، تعلیم وتربیت، وقار وتمکنت، جرأت وہمت وعزیمت واستقلال کے پیکر تھے ،جوشِ مذہب وخدمت خلق، اعلائِ کلمۃ الحق، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، اتباعِ سنت اور امحائِ بدعت کے لازوال جذ بے نے آپ کی شخصیت کو غیرمعمولی حد تک پرتا ثیر اور سحرانگیز بنا دیا تھا۔ آپ کے اند ر مسلمانوں کی اصلاح اور ان کی روحانی ومادّی ترقی کا نہ صرف جذبہ تھا بلکہ عملاً متعدد افراد کو ضلالت وگمراہی کے عمیق غاروں میں سے نکال کر روشنی بخشی۔ اور پستی سے بلندی پر پہنچایا۔ آپ یقینا اپنے کارناموں اور اوصافِ حمیدہ ہی کی وجہ سے ان برگزیدہ شخصیات میں سے ایک تھے جن کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اُوْلٰئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْویٰ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَ اَجْرٌ عَظِیْمٌ} الآیۃ۔
آپ کو علم فقہ میں بڑی مہارت حاصل تھی اور فقہی مسائل کی بہت عمدہ توضیح فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ معاصر علمائِ کرام اور مفتیانِ عظام آپ کی علمی قابلیت وعلمی کارناموں کے کھلے دل سے معترف تھے۔ فقہ میں آپ امامِ دوراں اور فخر زماں تھے۔ فقہ میں جو دسترس اور خداداد صلاحیت آپ کو حاصل تھی وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے دینی مسائل کے حل کے لئے آپ کی طرف ہی دیکھتے تھے ان کے لئے آپ کا فتویٰ ایک سند اور دستاویز کی حیثیت رکھتا تھا۔
ہند وبیرونِ ہند خاص کر بجنور اور اس کے اطراف سے بڑی تعداد میں روزانہ مختلف سوالات آتے تھے۔ عوام کے علاوہ خواص ممتاز علمائ، وصاحب فقہ وفتاویٰ حضرات بھی اپنی علمی تشنگی دور کرنے کے لئے حضرت والد صاحبؒ کی خدمت میں نہ صرف خطوط اور سوالات ارسال کرتے تھے بلکہ بسااوقات خود بھی تشریف لاتے تھے اور حضرت والد صاحبؒ ہر ایک کا نہایت تسلی وتشفی بخش جواب مرحمت فرماتے تھے۔
اور بقولِ شفق بجنوری ؎
آپ غیرمعمولی ذہانت وحافظے کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی فراخدلی سے یہ قوتیں عطا فرمائی تھیں۔ فقہی وغیرفقہی کتابوں کی عبارتیں کی عبارتیں وسیکڑوں احادیث اور آیاتِ قرآنیہ آپ کو یاد تھیں(جب کہ آپ حافظِ قرآن نہ تھے) اور کئی مشاہیر شاعروں کے دیوان کے دیوان آپ کے حافظے میں محفوظ تھے۔ استفتاء یعنی مسائل کے جوابات لکھتے وقت بہت ہی کم ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ آپ کو مراجعت کتب کی ضرورت پیش آتی ہو۔ فقہ کے تمام تفصیلی اصول وفروع مستحضر تھے۔ عوام وخواص آپ کو چلتا پھرتا کتب خانہ یا موبائل لائبریری کہنے لگے تھے۔ آپ کی تبحر علمی اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اطرافِ شہر بجنور ودور دراز کے عوام وخواص اپنے مسائل لکھ کر رکھتے تھے اور متلاشی ومنتظر رہتے تھے کہ کب حضرت تشریف لائیں اور ان سے فیضیاب ہوں۔ لفظ ’’مفتی‘‘ آپ کی ذاتِ گرامی پر ایسا چسپاں ہوا کہ بیشتر عوام آپ کے اسم گرامی ہی سے واقف نہ تھے، بس جہاں ’’بجنور والے مفتی صاحب‘‘ کا ذکر آیا فوراً سمجھ جاتے تھے کہ فلاں آدمی مراد ہے۔ سچ ہے: لَمْ تَرَی العُیُونُ مِثلَہُ وَ لَمْ یَرَہُو مِثلَ نَفسِہٖ۔
اور بقولِ شاعر:
رجال آکر پڑھیں تجھ سے جسے شوقِ تفاخر ہو
تواتر میں توحد ہو، توحد میں تواتر ہو
بات طویل توضرور ہوجائے گی لیکن فائدہ سے خالی بھی نہیں۔ لفظ ’’مفتی‘‘ کا خطاب آپ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ کیون کر مشہور ومقبول ہوا؟ اس بارے میں مختلف مجالس میں آپ نے بذاتِ خود ارشاد فرمایا کہ لفظ ’’مفتی‘‘ کا خطاب مجھ کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے عنایت کردہ ہے۔ و جہ اس کی یہ ہے کہ جب میں نے قاضی پاڑہ کے مدرسہ کو خالی کیا تو اس وقت مجھے اپنے مدرسہ کے لئے جگہ کی سخت تلاش تھی اور میں بہت پریشان تھا اور ان دنوں محلہ کی ایک مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے تھا۔ تقریباً ایک ماہ سے زائد معتکف رہا۔ اسی پریشانی کے عالم میں ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں کاغذ کا ایک رول ہے۔ پریشانی کے عالم میں جھپٹا ہوا، حضرت خواجہ اجمیریؒ کے مزار کی طرف جارہا ہوں جیسے ہی میںآ ہنی دروازہ پر پہنچا دروازہ ایک جھٹکے کے ساتھ خود بخود کھلا اور جیسے ہی میں اندر داخل ہوا یکایک قبر مبارک شق ہوئی اور میں نے حضرتؒ کی خدمت میں وہ کاغذ کا پلندہ پیش کردیا، آپ نے کاغذ کو پھیلاتے ہوئے اشارہ کرکے فرمایا: ’’مفتی صاحب! ہم نے یہ زمین بھی آپ کو دی اور یہ بھی آپ کو دی‘‘۔ اس واقعے کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ فرمایا: لفظ ’’مفتی‘‘ کا خطاب مجھے حضرت خواجہؒ نے عنایت فرمایا ہے، پھر یہ خطاب اتنا عام ہوا کہ لوگ مجھے میرے نام سے نہیں بلکہ مفتی صاحب کے نام سے جانتے ہیں۔ آگے فرمایا: کچھ دنوں کے بعد (میں مختصراً عرض کررہا ہوں) میں نے مدرسہ کی زمین خریدی، مدرسہ کی یہ زمین دو حصوں میں تقسیم ہے۔ شروع میں جو جگہ میں نے خریدی وہ تھوڑی سی تھی اور خواب میں جو جگہ دکھائی گئی تھی اس کا ایک حصہ تھی، میں حیران وپریشان تھا کہ وعدہ تو دو جگہوں کا کیا گیا تھا اور ملی ایک جگہ، غرض کہ اسی خیال میں غلطاں وپریشاں تھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت خواجہؒ کی خدمت میں حاضر ہوں، میں نے ان سے عرض کیا کہ حضرت! آپ نے تو دو جگہوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا اور ملی ایک جگہ، فرمایا: مفتی صاحب! یہ جگہ بھی ہم نے آپ کو دی۔ پھر وہ جگہ دکھائی، اتنا بیان کرنے کے بعد والد صاحب نے حاضرین کو وہ جگہ دکھائی جس کو خواب میں حضرت خواجہؒ نے دکھایا تھا اور یہ جگہ ہے نصف صحن سے لے کر اس جگہ تک جہاں مدرسہ کا کتب خانہ اور مطبخ وغیرہ ہے اور صحن کے اسی نصف کے بارے میں والد صاحبؒ نے ہم اہل خانہ کو کئی مرتبہ وصیت فرمائی تھی اور نشاندہی فرمائی تھی کہ اس جگہ مجھے اور اپنی والدہ کو دفن کیا جائے(۱)۔
علم فقہ کے ساتھ ساتھ آپکو علم تفسیر میں بھی کمام درجہ کا عبور حاصل تھا۔ایک مفسر کے لئے جن علوم میں ماہر اور ان سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے ان تمام علوم میں حضرت والد صاحب ؒ کو کما حقہٗ مہارت حاصل تھی۔آپ کی آٹھ جلدوں میں قرآن شریف کی تفسیر عظیم ’’تقریر القرآن ‘‘اور حضرت شیخ الہندؒ کے متَرجَم قرآن پاک پر حاشیہ اور دو کتابیں’’تقصیرات تفہیم القرآن ‘‘اور ’’تاریخ الاحکام ‘‘آپکے مفسر عظیم ہو نے کی واضح دلیل ہیں۔ ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشائ۔
علوم شریعت کے علاوہ آپ کو فن طب میں بھی کافی مہارت حاصل تھی آپ ایک مستند حکیم تھے اور باقاعدہ آپ نے اس فن کو پڑھا اور سیکھا تھا ۔اور بہت اچھے نبّاض تھے جو کہ آج کل نا پید ہے،خواص الادویہ سے آپ کو خاصی واقفیت تھی جو ایک ماہر حکیم کے لئے نہایت ضروری ہے۔ دیوبند سے فراغت کے بعدآپ نے اس فن شریف کو ذریعہ معاش بنالیا تھا، اور قصبہ نہٹور (جو کہ آبائی وطن ہے)میں ایک مطب کھول لیا تھا ،لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا،چنانچہ حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر جوہر شناس نےاس جوہرپوشیدہ کوپہچان لیا تھا ،اس لئےآپ رحمۃ اللہ علیہ کو فکرہوئی کہ کہیں یہ ضائع نہ ہوجائے چنانچہ آپؒنے حضرت والد صاحبؒ کو مشورہ دیاکہ میں چاہتا ہوںکہ آپ شہر بجنور جاکرعلم دین کی خدمت انجام دیں۔ا ہل بجنور کو ایک عالم کی ضرورت ہے ۔اور اس کیلئے میں آپ کو زیادہ موزوں سمجھتا ہوں۔ لہٰذا آپ نے حضرت شیخ ؒکے مشورہ کو حکم جانا اور فوراًمطب کو بند کیااور اہل خانہ کو اللہ کے سپرد کیا اور بجنور کو ہجرت فرمادی۔ یہاں آکرآپ نے ’’مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ (تفصیلی حالات وواقعات اندرون کتاب ملاحظہ فرمائیں)
آپ نہایت اولوالعزم اور با ہمت انسان تھے۔تھکنا آرام کرناگویا آپ نے جانا ہی نہ تھا ،بچپن سے لیکر وفات تک آپ نے نہ صرف مصائب وآلام کابڑی جوانمردی اور ہمت واستقلال وصبر کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑی تندہی عزم وہمت وحوصلے کے ساتھ دین کی اور مسلمانوں کی خدمات انجام دیں۔عزم وہمت کے ساتھ انتھک کام کرنے کی یہ کیفیات زندگی کے کسی ایک شعبۂ خاص کے ساتھ وابستہ نہ تھی بلکہ بہت سے شعبوں میں منقسم ہو گئی تھی ۔ابھی آپ درسی خدمات انجام دے رہے ہیںتو ابھی سالکین کورشدوہدایات سے فیضیاب فرمارہے ہیں،ابھی فتویٰ نویسی میں مشغول ہیںتو ابھی کتب بینی وتصنیف وتالیف میں مشغول ہیں۔ابھی وعظ و نصیحت فرمارہے ہیںتو ابھی مہمانوں کی ضیافت میں مصروف ہیں۔ ابھی مدرسہ کے نظم ونسق میں لگے ہیں تو ابھی مدینہ اخبار کی ترتیب واداریہ لکھنے میں مشغول ہیں۔نیز کبھی سفر میں ہیں تو کبھی حضر میں۔گویا ایک کمپیوٹرتھے جو بیک وقت مختلف کام انجام دیتا ہے۔
کتابوں کی طباعت واشاعت اور ان کی فروختگی کا انتظام کرنا،اسی کے ساتھ اہل خانہ کے حقوق کی ادائیگی کی فکر بچوںکی پرورش اور ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام فرمانا۔ غرض کہ ہرکام کو اس کے وقت پر کرتے تھے،اور کسی کام میں کوئی نقص اور جھول واقع نہ ہوتا تھا۔
آپ کے ہم عصر علماء کرام حیران وانگشت بدنداں تھے کہ یہ ننھی سی جان کس طرح سے اتنے متضاد کاموں کوبیک وقت بحسن و خوبی انجام دے لیتی ہے۔ان انتہائی تھکا دینے والے مشاغل کے باوجود ،بکائِ سحری،میں کوئی فرق نہ آتا تھا۔اخیر شب میں اللہ رب العزت کے سا منے انتہائی عاجزی وانکساری سے سربسجود ہونا،اسکی تسبیح بیان کرنا ،اور انتہائی لجاجت وعاجزی کے ساتھ اس کے سامنے گڑگڑانا،توبہ واستغفار کرنا، غرض اس منظر سے وہی حضرات محظوظ ہوسکتے ہیں جنہوں نے ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔غرض کہ آپ کی پوری زندگی،وباللیل رھبان وبالنھارفرسان، کا عملی نمونہ تھی۔آپ کے ان اوصاف حمیدہ ہی کی وجہ سے ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تأمل نہیں کہ ؎
بزرگوں کی زندگی کے واقعات وحالات مردہ قلوب اور نفوس میں عمل کی حرارت پیدا کرتے ہیں،غلط سوسائٹٰی یا غلط افکار یا جہالت کی وجہ سے جب انسانی قلوب زنگ آلود ہوجاتے ہیںاور اعمال میں سستی وکوتاہی پیدا ہونے لگتی ہے تو ایسے موقعوں پر ان کا تدارک اور علاج ان برگزیدہ ہستیوں کی روش اور طریقہ زند گی کو معلوم کرکے ہوجاتا ہے۔ اکابر کے تذکروںسے قلوب میں نئی توانائی اور قوت ارادی میں پختگی آتی ہے۔اور سوئی ہوئی قوم پھر سے بیدار اور فَعّال ہوجاتی ہے۔اور جذبات خفتہ پھر سے بیدار ہوجاتے ہیں،اور پھرسے ذلت وخواری کے عمیق غاروں سے نکل کر بام عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ بزرگوں کے واقعات وحالات ،قومی تہذیب وتمدن کے ارتقاء کا اہم سبب ہیں،جبکہ اصول یہ ہے کہ ہر نئی تہذیب پرانی تہذیب کو مٹادیتی ہے ،اور ہر نئی نسل پرانی نسل کو کمتر اور دقیانوسی سمجھتی ہے ، اور خود کو ترقی یافتہ اور مہذب سمجھتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ ان کی نادانی اور خام خیالی ہے ،در حقیقت جو قوم اپنے بزرگوں کو اور ان کے رہنما ااصولوں کو فراموش کردیتی ہے وہ قوم بہت جلد مٹ جاتی ہے،موجودہ دور میں جب کہ باطل قوتیں پوری قوت کے ساتھ ان نئی نسلوں کی ذہنی تطہیر میں لگی ہوئی ہیں،ایسے حالات میں ہمارے ان بزرگوں کے حالات اور ان کے رہنما اصول مشعل راہ اور راہ نجات کا کام انجام دیتے ہیں،نتیجتاًہمیں ان باطل قوتوں کے طلسم کدہ اور سراب نمامہلک خیالات سے نجات مل جاتی ہے
اصل کام تو حضرت والد صاحبؒ نے ہمارے اور دیگر احباب ومتعلقین کے پیہم اسرار سے خود ہی انجام دیدیا تھا ،اور فائنل ٹچنگ اور تصحیح، ترمیم وتنسیق ،وفات سے تقریباًڈھائی ماہ قبل ماہ مئی میں فرمادی تھی۔ لیکن بہت سے حالات وواقعات پر آپ نے سکوت اختیارفرما یا، یاان کو نظر انداز کیا ،اور کچھ واقعات پر آپ نے چشم پوشی بھی فرمائی ،اور ان پر صبر فرمایا۔ چنانچہ جن واقعات پرآپ نے چشم پوشی فرمائی ،انکی ہم نے بھی پردہ پوشی کی ۔اللہ تعالیٰ آپ کو اس عمل پر اجر عظیم عطا فرمائے۔لیکن جن واقعات پر آپ نے سکوت فرمایا اور ان کا اظہار قارئین ومتعلقین کے لئے کار آمد اور مفید تھا ان کا اظہارمیں نے حاشیہ اور ضمیمہ میں کردیا ہے۔ کچھ واقعات طویل تھے ان پر الگ سے عنوان قائم کرکے بیان کردیا ہے،اخبارات ورسائل میں شائع شدہ چند مضامین کو اور وہ معلومات جو ہماری اوراحباب یا والد صاحبؒکے شاگردوں کی مین تھیں ان سب کو ضمیمہ میں شامل کردیا ہے۔آپکی بیماری اور وفات سے متعلق واقعات کو الگ سے عنوان قائم کرکے بیان کردیا ہے۔غرض کہ ضمیمہ کو میں نے قارئین خاص کر متوسلین وطالبان طریقت(سالکین)کے لئے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کی ہے۔فضولیات ورطب ویابس باتوں سے میں نے گریز کیا ہے۔ان تمام امور میںمیرے برادر مکرم مولانا مفتی عبیدالرحمن صاحب مد ظلہ العالی نے میری بھر پور مدد اور رہنمائی فرما ئی ہے۔اور اس خدمت کے لئے بڑی فراخ دلی سے مجھے اجازت مرحمت فرمائی ا ور اس کے بعد کتا ب کی تزئین وترتیب میں بھی حضرت موصوف نے میری مدد فرمائی ا للہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ مقدمۃ الکتاب کو میں نے قصداً طویل کیا ہے ۔اس لئے کہ :
اسی پر اکتفا کررہا ہوں۔اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔آمین۔
دعا کا طالب
خاک پائے عزیز (حضرت والد مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ)
عابدالرحمٰن غفر لہٗ
خادم التدریس والافتاء
مدرسہ عربیہ مدینۃالعلوم
محلہ مردہگان بجنور
[/size]
قارئین کی دلچسپی اور ان کی فرمائش سے حوصلہ پاکر میں اپنے والد محترم کی خود نوشت سوانح حیات قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کررہاہوں مجھے اس فورم میں آکر ایسی اپنائیت اور محبت کا احساس ہوا جس کو میں اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔اللہ تعالیٰ آپ تمام حضرات کی خدمات اور اخلاص کو قبول فرمائے اٰمین لیجئے میرے والد مرحوم کی سوانح حیات ملاحظہ فرمائیں یہ چند قسطوں پر مشتمل ہوگی۔ اصل کتاب کانام ہے{ تذکرہ دیرو حرم} (قسط اول)
{ازتذکرہ دیروحرم}
فَتُشَبِّہُــوا إنْ لَــمْ تُکُــونُوا مِثلَہُم
إنَّ التشَبُّـــہَ بالکِـــرامِ فـــلاحُ
إنَّ التشَبُّـــہَ بالکِـــرامِ فـــلاحُ
اگر ان (نیکوں) جیسے نہ بن سکو تو ان کی مشابہت اختیار کرو
اس لئے کہ نیکوں کے ساتھ مشابہت بھی کامیاب ہے۔
[align=center]چو من بخیر کنم یادِ رفتگاں دارم اُمید آنکہ مراکہ ہم بخیر یاد کنند
چوشاد می کنم ارواحِ دیگراں شاید کساں رسند مرا نیز روح شاد کنند
جب میں گذرے ہوئے لوگوں کو خیر کے ساتھ یاد کروں گا
تو اُمید ہے کہ دوسرے بھی مجھے خیر کے ساتھ یاد کریں گے۔
جب میں دوسرے کی روح کو خوش کروں گا تو ہوسکتا ہے
کہ لوگ میری روح کو بھی خوش کریں گے۔[/align]
مقدمہ از عابد الرحمٰن
ألحمـــدُ للّٰہِ الحیِّ القیّومِ الَّذِی تفرَّدَ بالبَقَائِ والدَّوامِ، وَ کَتَبَ المَوتَ والفَنــائَ علیٰ جمیعِ الأنامِ، والصَّلوٰۃُ والسلاَمُ علیٖ حبیبہٖ ورسُولِــہٖ محمَّدٍ أفضلِ الأنبیائِ وإمـامِ الأصفِیائِ إلیٰ یومِ القیامِ، وصلیَّ اللّٰہُ تعالیٰ علیٰ خیرِ خلقِہٖ محمَّـــدٍ وآلــہٖ وأزواجہٖ وذُرِّیاتِہٖ وأہلِ بیتِہٖ وخُلفائہٖ وأصحابہٖ وبارک وسلِّم ـ اما بعد! ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک ہر دور میں اللہ بزرگ وبرتر نے انسان کی فلاح وبہبود و رشد وہدایت کے لئے مخصوص وبرگزیدہ اشخاص کو پیدا فرمایا۔ تکمیل دین تک اس کام کو انبیاء ورسل علیہم السلام نے انجام دیا ان کے بعد ان کے نائبین یعنی صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے اس فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ ان کے بعد تابعین، تبع تابعینؒ نے تمام تر تکالیف، مصائب وآلام کے باوجود اس اہم ذمہ داری کو ادا کیا۔ ان کے بعد اس کارِ رسالت اور بارِ امانت کو علمائے کرام ومشائخ عظام نے اپنے کاندھوں پر لیا اور بڑی ذمہ داری وامانت داری کے ساتھ بڑی بڑی قربانیاں دے کر اس کام کو انجام دیا۔ اور فرمانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم: العُلمائُ ورثۃُ الأنبیائِ کا پورا پورا حق ادا کیا۔ اس پر پورے اُترے۔ انہیں کی شان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {اِنَّمَا یَخْشٰی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَائُ} اور قیامت تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ الغرض علماء جو کہ دین کے ستون اور اساس ہیں، جن پر قوم کی فلاح وبہبود کا دارومدار ہے اور قوم کو بہت کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں، اس وقت بالکل دو مختلف صورتوں میں نظر آتے ہیں: علمائے سوء اور علمائے خیر، (بے عمل اور باعمل)۔ بے عمل علماء ان درختوں کی مانند ہیں جو بظاہر خوبصورت ہیں لیکن پھل دار نہیں ہوتے۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ گوہر ِ بے آب اور آفتاب بے نور۔ انہیں کے بارے میں قرآنِ کریم کی یہ آیت ہے: {وَ اِذَا رَاَیْتَہُمْ
تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ وَ اِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ} (ترجمہ: جب تم ان کو دیکھو گے تو ان کے جسم تمہیں پسند آئیں گے اور جب وہ گفتگو کریں گے تو تم ان کے کلام کو (توجہ سے سنوگے) جیسا کہ وہ اُٹھے ہوئے شہتیر ہوں)۔
اور انہیں کے بارے میں ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
زوامِلُ الأسفارِ لا عِــلمَ عِندَہُمْ یجدِہُــا إلاَّ کعِــلِمِ الابـاعِــرِ
لِعُمرِکَ مایَدرِی البعِیرُ إذَا غَدَا مَا وساقَہُ أو راخَ ما فِی الغوائِرِ
وہ بڑی بڑی کتابوں کا بوجھ لادے ہوئے ہیں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے بلکہ ان کا علم ایسا ہے جیسا کہ لِعُمرِکَ مایَدرِی البعِیرُ إذَا غَدَا مَا وساقَہُ أو راخَ ما فِی الغوائِرِ
بار بردار اونٹوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ جو بوجھ وہ صبح سے شام تک لادے پھرتے ہیں ان کے اندر کیا ہے؟
اگر مطلق علم سے بنا عمل کے بزرگی اور شرافت حاصل ہوتی تو یہ شرف معلم الملائک اور بوجہل کو حاصل ہوتا اور صفحۂ ہستی پر ان سے زیادہ کوئی اشرف اور بزرگ نہ ہوتا۔
لَوکانَ العِلمُ دُونَ التُّقیٰ شرف لکانَ أشرفُ الخَلقِ إبلِیسُ
معلوم ہوا کہ مولانا، مفتی ،قاری، صوفی، شیخ کہلوانا تو آسان ہے مگر خالص اسلامی ہونا وشریعت ِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا پابند ہونا نہایت مشکل ہے۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
بہرحال ہر ذی علم اور ذی شعور جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم سے نوازا ہے جانتا ہے کہ ہر دور میں مسلمانوں کی مذہبی وسیاسی مشکلات کا حل اور علاج صرف اور صرف علمائِ کرام ہی نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علماء کو کسی خاص طبقہ یا کسی خاص خطہ یا ملک کے لئے نہیں بلکہ تمام نسل بنی آدم علیہ السلام کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ مصلحین امت اور علماء ومشائخ دین نے بلاشبہ اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جن کی و جہ سے لاتعداد بندگانِ خدا کو ہدایت نصیب ہوئی اور یہ سلسلۂ فیض رسالت تاقیامت ان وارثینِ انبیاء کے ذریعہ جاری رہے گا۔ درحقیقت یہی علمائے خیر ہیں اور انہیں کے بارے میں فرمانِ رسالت ِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے: العُلمائُ ورثۃُ الأنبیائ، الحدیث۔ اور ایک جگہارشاد فرمایا: عُلمائُ أمَّتِی کأنبیائِ بنی إسرائِیلَ۔ (الحدیث) دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
یوں تو برصغیر ہندوپاک کی سرزمیں سے بہت سے اولوالعزم اور اولوالفضل اور اولو العلم حضرات پیدا ہوئے لیکن ان میں سے چند ایک حضرات ایسے بھی گذرے ہیں جنھوں نے عالم اسلام پر گہرے نقوش مرتب کئے ہیں، جو علومِ ظاہریہ وباطنیہ میں لاثانی وبے نظیر تھے اور اپنے کارناموں کی وجہ سے زندہ جاوید ہوگئے۔
قَد ماتَ قومٌ وما ماتَتْ مکارِمُہُمْ وَعَاشَتْ وہُم فِی النَّاسِ أمواتٌ
ایک جماعت (علماء) فوت ہوگئی مگر ان کے شریفانہ کارنامے مردہ نہیں ہوتے،
وہ اب بھی زندہ ہیں، حالانکہ وہ لوگوں کے نزدیک مردہ ہیں۔
وہ اب بھی زندہ ہیں، حالانکہ وہ لوگوں کے نزدیک مردہ ہیں۔
ان گنے چنے نفوسِ قدسیہ میں سے ایک میرے والد، میرے شیخ، اور میرے استاذ حکیم الامت، امام العصر، فقیہ الملت، شیخ طریقت حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب قدس سرہ العزیز ہیں۔جن کی باکمال شخصیت آج بھی طالبانِ شریعت وطریقت کے لئے مشعل راہ ورُشد وہدایت ہیں اور مانند منارۂ افروزاں کےہیں ۔ حضرت موصوف کی ذات ستودہ صفات میں بیک وقت بہت سی خوبیاں جمع تھیں، آپ علم وعمل کے ساتھ ساتھ تقویٰ، پارسائی، للہیت، جفاکشی وجانفشانی، خلوص وہمدردی، تعلیم وتربیت، وقار وتمکنت، جرأت وہمت وعزیمت واستقلال کے پیکر تھے ،جوشِ مذہب وخدمت خلق، اعلائِ کلمۃ الحق، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، اتباعِ سنت اور امحائِ بدعت کے لازوال جذ بے نے آپ کی شخصیت کو غیرمعمولی حد تک پرتا ثیر اور سحرانگیز بنا دیا تھا۔ آپ کے اند ر مسلمانوں کی اصلاح اور ان کی روحانی ومادّی ترقی کا نہ صرف جذبہ تھا بلکہ عملاً متعدد افراد کو ضلالت وگمراہی کے عمیق غاروں میں سے نکال کر روشنی بخشی۔ اور پستی سے بلندی پر پہنچایا۔ آپ یقینا اپنے کارناموں اور اوصافِ حمیدہ ہی کی وجہ سے ان برگزیدہ شخصیات میں سے ایک تھے جن کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اُوْلٰئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْویٰ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَ اَجْرٌ عَظِیْمٌ} الآیۃ۔
آپ کو علم فقہ میں بڑی مہارت حاصل تھی اور فقہی مسائل کی بہت عمدہ توضیح فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ معاصر علمائِ کرام اور مفتیانِ عظام آپ کی علمی قابلیت وعلمی کارناموں کے کھلے دل سے معترف تھے۔ فقہ میں آپ امامِ دوراں اور فخر زماں تھے۔ فقہ میں جو دسترس اور خداداد صلاحیت آپ کو حاصل تھی وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے دینی مسائل کے حل کے لئے آپ کی طرف ہی دیکھتے تھے ان کے لئے آپ کا فتویٰ ایک سند اور دستاویز کی حیثیت رکھتا تھا۔
ہند وبیرونِ ہند خاص کر بجنور اور اس کے اطراف سے بڑی تعداد میں روزانہ مختلف سوالات آتے تھے۔ عوام کے علاوہ خواص ممتاز علمائ، وصاحب فقہ وفتاویٰ حضرات بھی اپنی علمی تشنگی دور کرنے کے لئے حضرت والد صاحبؒ کی خدمت میں نہ صرف خطوط اور سوالات ارسال کرتے تھے بلکہ بسااوقات خود بھی تشریف لاتے تھے اور حضرت والد صاحبؒ ہر ایک کا نہایت تسلی وتشفی بخش جواب مرحمت فرماتے تھے۔
اور بقولِ شفق بجنوری ؎
[align=center]فیض جاری ہے مسلسل ان کا سب کے واسطے
تشنگی جب ہو مقدر میں تو دریا کیا کرے
[/align]تشنگی جب ہو مقدر میں تو دریا کیا کرے
آپ غیرمعمولی ذہانت وحافظے کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی فراخدلی سے یہ قوتیں عطا فرمائی تھیں۔ فقہی وغیرفقہی کتابوں کی عبارتیں کی عبارتیں وسیکڑوں احادیث اور آیاتِ قرآنیہ آپ کو یاد تھیں(جب کہ آپ حافظِ قرآن نہ تھے) اور کئی مشاہیر شاعروں کے دیوان کے دیوان آپ کے حافظے میں محفوظ تھے۔ استفتاء یعنی مسائل کے جوابات لکھتے وقت بہت ہی کم ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ آپ کو مراجعت کتب کی ضرورت پیش آتی ہو۔ فقہ کے تمام تفصیلی اصول وفروع مستحضر تھے۔ عوام وخواص آپ کو چلتا پھرتا کتب خانہ یا موبائل لائبریری کہنے لگے تھے۔ آپ کی تبحر علمی اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اطرافِ شہر بجنور ودور دراز کے عوام وخواص اپنے مسائل لکھ کر رکھتے تھے اور متلاشی ومنتظر رہتے تھے کہ کب حضرت تشریف لائیں اور ان سے فیضیاب ہوں۔ لفظ ’’مفتی‘‘ آپ کی ذاتِ گرامی پر ایسا چسپاں ہوا کہ بیشتر عوام آپ کے اسم گرامی ہی سے واقف نہ تھے، بس جہاں ’’بجنور والے مفتی صاحب‘‘ کا ذکر آیا فوراً سمجھ جاتے تھے کہ فلاں آدمی مراد ہے۔ سچ ہے: لَمْ تَرَی العُیُونُ مِثلَہُ وَ لَمْ یَرَہُو مِثلَ نَفسِہٖ۔
اور بقولِ شاعر:
رجال آکر پڑھیں تجھ سے جسے شوقِ تفاخر ہو
تواتر میں توحد ہو، توحد میں تواتر ہو
بات طویل توضرور ہوجائے گی لیکن فائدہ سے خالی بھی نہیں۔ لفظ ’’مفتی‘‘ کا خطاب آپ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ کیون کر مشہور ومقبول ہوا؟ اس بارے میں مختلف مجالس میں آپ نے بذاتِ خود ارشاد فرمایا کہ لفظ ’’مفتی‘‘ کا خطاب مجھ کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے عنایت کردہ ہے۔ و جہ اس کی یہ ہے کہ جب میں نے قاضی پاڑہ کے مدرسہ کو خالی کیا تو اس وقت مجھے اپنے مدرسہ کے لئے جگہ کی سخت تلاش تھی اور میں بہت پریشان تھا اور ان دنوں محلہ کی ایک مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے تھا۔ تقریباً ایک ماہ سے زائد معتکف رہا۔ اسی پریشانی کے عالم میں ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں کاغذ کا ایک رول ہے۔ پریشانی کے عالم میں جھپٹا ہوا، حضرت خواجہ اجمیریؒ کے مزار کی طرف جارہا ہوں جیسے ہی میںآ ہنی دروازہ پر پہنچا دروازہ ایک جھٹکے کے ساتھ خود بخود کھلا اور جیسے ہی میں اندر داخل ہوا یکایک قبر مبارک شق ہوئی اور میں نے حضرتؒ کی خدمت میں وہ کاغذ کا پلندہ پیش کردیا، آپ نے کاغذ کو پھیلاتے ہوئے اشارہ کرکے فرمایا: ’’مفتی صاحب! ہم نے یہ زمین بھی آپ کو دی اور یہ بھی آپ کو دی‘‘۔ اس واقعے کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ فرمایا: لفظ ’’مفتی‘‘ کا خطاب مجھے حضرت خواجہؒ نے عنایت فرمایا ہے، پھر یہ خطاب اتنا عام ہوا کہ لوگ مجھے میرے نام سے نہیں بلکہ مفتی صاحب کے نام سے جانتے ہیں۔ آگے فرمایا: کچھ دنوں کے بعد (میں مختصراً عرض کررہا ہوں) میں نے مدرسہ کی زمین خریدی، مدرسہ کی یہ زمین دو حصوں میں تقسیم ہے۔ شروع میں جو جگہ میں نے خریدی وہ تھوڑی سی تھی اور خواب میں جو جگہ دکھائی گئی تھی اس کا ایک حصہ تھی، میں حیران وپریشان تھا کہ وعدہ تو دو جگہوں کا کیا گیا تھا اور ملی ایک جگہ، غرض کہ اسی خیال میں غلطاں وپریشاں تھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت خواجہؒ کی خدمت میں حاضر ہوں، میں نے ان سے عرض کیا کہ حضرت! آپ نے تو دو جگہوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا اور ملی ایک جگہ، فرمایا: مفتی صاحب! یہ جگہ بھی ہم نے آپ کو دی۔ پھر وہ جگہ دکھائی، اتنا بیان کرنے کے بعد والد صاحب نے حاضرین کو وہ جگہ دکھائی جس کو خواب میں حضرت خواجہؒ نے دکھایا تھا اور یہ جگہ ہے نصف صحن سے لے کر اس جگہ تک جہاں مدرسہ کا کتب خانہ اور مطبخ وغیرہ ہے اور صحن کے اسی نصف کے بارے میں والد صاحبؒ نے ہم اہل خانہ کو کئی مرتبہ وصیت فرمائی تھی اور نشاندہی فرمائی تھی کہ اس جگہ مجھے اور اپنی والدہ کو دفن کیا جائے(۱)۔
علم فقہ کے ساتھ ساتھ آپکو علم تفسیر میں بھی کمام درجہ کا عبور حاصل تھا۔ایک مفسر کے لئے جن علوم میں ماہر اور ان سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے ان تمام علوم میں حضرت والد صاحب ؒ کو کما حقہٗ مہارت حاصل تھی۔آپ کی آٹھ جلدوں میں قرآن شریف کی تفسیر عظیم ’’تقریر القرآن ‘‘اور حضرت شیخ الہندؒ کے متَرجَم قرآن پاک پر حاشیہ اور دو کتابیں’’تقصیرات تفہیم القرآن ‘‘اور ’’تاریخ الاحکام ‘‘آپکے مفسر عظیم ہو نے کی واضح دلیل ہیں۔ ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشائ۔
علوم شریعت کے علاوہ آپ کو فن طب میں بھی کافی مہارت حاصل تھی آپ ایک مستند حکیم تھے اور باقاعدہ آپ نے اس فن کو پڑھا اور سیکھا تھا ۔اور بہت اچھے نبّاض تھے جو کہ آج کل نا پید ہے،خواص الادویہ سے آپ کو خاصی واقفیت تھی جو ایک ماہر حکیم کے لئے نہایت ضروری ہے۔ دیوبند سے فراغت کے بعدآپ نے اس فن شریف کو ذریعہ معاش بنالیا تھا، اور قصبہ نہٹور (جو کہ آبائی وطن ہے)میں ایک مطب کھول لیا تھا ،لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا،چنانچہ حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر جوہر شناس نےاس جوہرپوشیدہ کوپہچان لیا تھا ،اس لئےآپ رحمۃ اللہ علیہ کو فکرہوئی کہ کہیں یہ ضائع نہ ہوجائے چنانچہ آپؒنے حضرت والد صاحبؒ کو مشورہ دیاکہ میں چاہتا ہوںکہ آپ شہر بجنور جاکرعلم دین کی خدمت انجام دیں۔ا ہل بجنور کو ایک عالم کی ضرورت ہے ۔اور اس کیلئے میں آپ کو زیادہ موزوں سمجھتا ہوں۔ لہٰذا آپ نے حضرت شیخ ؒکے مشورہ کو حکم جانا اور فوراًمطب کو بند کیااور اہل خانہ کو اللہ کے سپرد کیا اور بجنور کو ہجرت فرمادی۔ یہاں آکرآپ نے ’’مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ (تفصیلی حالات وواقعات اندرون کتاب ملاحظہ فرمائیں)
آپ نہایت اولوالعزم اور با ہمت انسان تھے۔تھکنا آرام کرناگویا آپ نے جانا ہی نہ تھا ،بچپن سے لیکر وفات تک آپ نے نہ صرف مصائب وآلام کابڑی جوانمردی اور ہمت واستقلال وصبر کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑی تندہی عزم وہمت وحوصلے کے ساتھ دین کی اور مسلمانوں کی خدمات انجام دیں۔عزم وہمت کے ساتھ انتھک کام کرنے کی یہ کیفیات زندگی کے کسی ایک شعبۂ خاص کے ساتھ وابستہ نہ تھی بلکہ بہت سے شعبوں میں منقسم ہو گئی تھی ۔ابھی آپ درسی خدمات انجام دے رہے ہیںتو ابھی سالکین کورشدوہدایات سے فیضیاب فرمارہے ہیں،ابھی فتویٰ نویسی میں مشغول ہیںتو ابھی کتب بینی وتصنیف وتالیف میں مشغول ہیں۔ابھی وعظ و نصیحت فرمارہے ہیںتو ابھی مہمانوں کی ضیافت میں مصروف ہیں۔ ابھی مدرسہ کے نظم ونسق میں لگے ہیں تو ابھی مدینہ اخبار کی ترتیب واداریہ لکھنے میں مشغول ہیں۔نیز کبھی سفر میں ہیں تو کبھی حضر میں۔گویا ایک کمپیوٹرتھے جو بیک وقت مختلف کام انجام دیتا ہے۔
کتابوں کی طباعت واشاعت اور ان کی فروختگی کا انتظام کرنا،اسی کے ساتھ اہل خانہ کے حقوق کی ادائیگی کی فکر بچوںکی پرورش اور ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام فرمانا۔ غرض کہ ہرکام کو اس کے وقت پر کرتے تھے،اور کسی کام میں کوئی نقص اور جھول واقع نہ ہوتا تھا۔
آپ کے ہم عصر علماء کرام حیران وانگشت بدنداں تھے کہ یہ ننھی سی جان کس طرح سے اتنے متضاد کاموں کوبیک وقت بحسن و خوبی انجام دے لیتی ہے۔ان انتہائی تھکا دینے والے مشاغل کے باوجود ،بکائِ سحری،میں کوئی فرق نہ آتا تھا۔اخیر شب میں اللہ رب العزت کے سا منے انتہائی عاجزی وانکساری سے سربسجود ہونا،اسکی تسبیح بیان کرنا ،اور انتہائی لجاجت وعاجزی کے ساتھ اس کے سامنے گڑگڑانا،توبہ واستغفار کرنا، غرض اس منظر سے وہی حضرات محظوظ ہوسکتے ہیں جنہوں نے ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔غرض کہ آپ کی پوری زندگی،وباللیل رھبان وبالنھارفرسان، کا عملی نمونہ تھی۔آپ کے ان اوصاف حمیدہ ہی کی وجہ سے ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تأمل نہیں کہ ؎
ولیس من اللّٰہ بمستنکر ان یجمع العالم فی واحدٍ
ایسی ہی بر گزیدہ ہستیون کے باریمیں مولانا حالی ؒنے ایک جگہ کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ ،قطب وقت کو پہاڑوں ،جنگلوں،اور ویرانیوں کی تنہائی اور عزلت میں نہ ڈھونڈو، بلکہ بازاروں،بال بچوں،خریدوفروخت میں،اورتمام دنیاداری کے تعلقات میں تلاش کرو،سو یہ قول حضرت والد صاحب ؒکی شان میں پوراپورا صادق آتاہے۔حضرتؒ کے نزدیک ترک وتجریدکا نام فقر ودرویشی نہ تھا بلکہ دنیا کو مزرعہ آخرت اور تمام معاملات کو اللہ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق طے کرنا اور بے ہمہ وبا ہمہ رہنا اسی کو درویشی سمجھتے تھے ؎ پاک ہیں آلائشوں میں بند شوں میں بے لگاؤ
رہتے ہیں دنیا میں سب کے درمیاں سب سے الگ
رہتے ہیں دنیا میں سب کے درمیاں سب سے الگ
(حالیؒ)
سوانح نگاری ،یا سیرت نگاری ،یا بایوگرافی ،ہر علمی زبان یا تہذیب کی انتہائی کارآمد اور مفید صنف ہے۔اس صنف کو اپنے گونا گوںفوائد و برکات کی وجہ سے لٹریچر کا نہایت مفید اور دلچسپ شعبہ ماناگیا ہے۔بزرگوں کی زندگی کے واقعات وحالات مردہ قلوب اور نفوس میں عمل کی حرارت پیدا کرتے ہیں،غلط سوسائٹٰی یا غلط افکار یا جہالت کی وجہ سے جب انسانی قلوب زنگ آلود ہوجاتے ہیںاور اعمال میں سستی وکوتاہی پیدا ہونے لگتی ہے تو ایسے موقعوں پر ان کا تدارک اور علاج ان برگزیدہ ہستیوں کی روش اور طریقہ زند گی کو معلوم کرکے ہوجاتا ہے۔ اکابر کے تذکروںسے قلوب میں نئی توانائی اور قوت ارادی میں پختگی آتی ہے۔اور سوئی ہوئی قوم پھر سے بیدار اور فَعّال ہوجاتی ہے۔اور جذبات خفتہ پھر سے بیدار ہوجاتے ہیں،اور پھرسے ذلت وخواری کے عمیق غاروں سے نکل کر بام عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ بزرگوں کے واقعات وحالات ،قومی تہذیب وتمدن کے ارتقاء کا اہم سبب ہیں،جبکہ اصول یہ ہے کہ ہر نئی تہذیب پرانی تہذیب کو مٹادیتی ہے ،اور ہر نئی نسل پرانی نسل کو کمتر اور دقیانوسی سمجھتی ہے ، اور خود کو ترقی یافتہ اور مہذب سمجھتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ ان کی نادانی اور خام خیالی ہے ،در حقیقت جو قوم اپنے بزرگوں کو اور ان کے رہنما ااصولوں کو فراموش کردیتی ہے وہ قوم بہت جلد مٹ جاتی ہے،موجودہ دور میں جب کہ باطل قوتیں پوری قوت کے ساتھ ان نئی نسلوں کی ذہنی تطہیر میں لگی ہوئی ہیں،ایسے حالات میں ہمارے ان بزرگوں کے حالات اور ان کے رہنما اصول مشعل راہ اور راہ نجات کا کام انجام دیتے ہیں،نتیجتاًہمیں ان باطل قوتوں کے طلسم کدہ اور سراب نمامہلک خیالات سے نجات مل جاتی ہے
اصل کام تو حضرت والد صاحبؒ نے ہمارے اور دیگر احباب ومتعلقین کے پیہم اسرار سے خود ہی انجام دیدیا تھا ،اور فائنل ٹچنگ اور تصحیح، ترمیم وتنسیق ،وفات سے تقریباًڈھائی ماہ قبل ماہ مئی میں فرمادی تھی۔ لیکن بہت سے حالات وواقعات پر آپ نے سکوت اختیارفرما یا، یاان کو نظر انداز کیا ،اور کچھ واقعات پر آپ نے چشم پوشی بھی فرمائی ،اور ان پر صبر فرمایا۔ چنانچہ جن واقعات پرآپ نے چشم پوشی فرمائی ،انکی ہم نے بھی پردہ پوشی کی ۔اللہ تعالیٰ آپ کو اس عمل پر اجر عظیم عطا فرمائے۔لیکن جن واقعات پر آپ نے سکوت فرمایا اور ان کا اظہار قارئین ومتعلقین کے لئے کار آمد اور مفید تھا ان کا اظہارمیں نے حاشیہ اور ضمیمہ میں کردیا ہے۔ کچھ واقعات طویل تھے ان پر الگ سے عنوان قائم کرکے بیان کردیا ہے،اخبارات ورسائل میں شائع شدہ چند مضامین کو اور وہ معلومات جو ہماری اوراحباب یا والد صاحبؒکے شاگردوں کی مین تھیں ان سب کو ضمیمہ میں شامل کردیا ہے۔آپکی بیماری اور وفات سے متعلق واقعات کو الگ سے عنوان قائم کرکے بیان کردیا ہے۔غرض کہ ضمیمہ کو میں نے قارئین خاص کر متوسلین وطالبان طریقت(سالکین)کے لئے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کی ہے۔فضولیات ورطب ویابس باتوں سے میں نے گریز کیا ہے۔ان تمام امور میںمیرے برادر مکرم مولانا مفتی عبیدالرحمن صاحب مد ظلہ العالی نے میری بھر پور مدد اور رہنمائی فرما ئی ہے۔اور اس خدمت کے لئے بڑی فراخ دلی سے مجھے اجازت مرحمت فرمائی ا ور اس کے بعد کتا ب کی تزئین وترتیب میں بھی حضرت موصوف نے میری مدد فرمائی ا للہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ مقدمۃ الکتاب کو میں نے قصداً طویل کیا ہے ۔اس لئے کہ :
عندذکر الصالحین تتنزل الرحمۃ
اور
احب الصالحین ولست منہــم
لعـــل اللہ یـرزقنـی صـلاحــاً
جی تو یہی چاہ رہا تھا کہ اس ذکر کو اور طویل کروں،لیکن اس خوف سے کہیں قارئین کرام کو نا گوار گزرے بسلعـــل اللہ یـرزقنـی صـلاحــاً
اسی پر اکتفا کررہا ہوں۔اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔آمین۔
دعا کا طالب
خاک پائے عزیز (حضرت والد مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ)
عابدالرحمٰن غفر لہٗ
خادم التدریس والافتاء
مدرسہ عربیہ مدینۃالعلوم
محلہ مردہگان بجنور
[font=Trad Arabic Bold [size=xx-large[b]] ۱۱؍محرم الحرام ۱۴۲۶ھ مطابق ۱۱ ؍فروری ۲۰۰۵ء- یوم الجمعہ
[/b]
[/font]
[/font]