السلام علیکم
[size=x-large]پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری
از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
قسط:21
جواب از مولانا محمد منظور نعمانی صاحبؒ(۱)
باسمہٖ سبحانہ وتعالیٰ
مخلص ومکرم ………………… وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مفصل خط ملا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ آپ کو تبلیغی جماعت اور اس کے کام سے بحمد اللہ محبت ہے۔ اور آپ اس کو صحیح دینی خدمت یقین کرتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ اندازہ ہوا کہ ابھی آپ کا مزاج پورا تبلیغی نہیں بنا ہے۔ اگر آپ پورے ’’تبلیغی‘‘ ہوتے تو آپ کو اس کی فکر نہ ہوتی کہ جماعت ِ اسلامی کے حضرات کی ان باتوں کا کسی تحریر یا مضمون کی شکل میں جواب دیا جائے۔ اس کے بجائے آپ کی کوشش صرف یہ ہوتی کہ کسی طرح ان بھائیوں کے عمل تبلیغ کو اس طرح دکھایا جائے کہ وہ اس کے سب پہلوؤں اور اثرات ونتائج کو خود دیکھ لیں۔ تبلیغ والوں کی حکمت عملی یا کہئے کہ طریق کاریہی ہے اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب لوگ تقریر وتحریر سے کسی طرح مطمئن نہیں ہوسکتے وہ ذاتی علم ومشاہدے کے بعد کام کرنے والوں کے شریک حال ہوجاتے ہیں الا یہ کہ اللہ کی طرف سے توفیق مقدر ہی نہ ہو۔
سب سے پہلے خود میرا قصہ سنئے :شاید آپ نے کسی سے سنا ہو کہ میں جماعت ِ اسلامی کے قیام سے بہت پہلے سے مرحوم مولانا مودودی صاحب کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا تھا۔ ان کے فکر اور ان کی تحریروں سے بہت متأثر تھا، گویا ان کا عاشق تھا۔ (آج جو لوگ جماعت ِ اسلامی میں بہت نمایاں ہیں ان میں اکثر اس وقت ان کو جانتے بھی نہ ہوں گے) پھر جب ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو میں مولانا موصوف کے ساتھ اس کے بانیوں میں تھا، پھر جب جماعت ِ اسلامی کا مرکز ۱۹۴۲ء میں لاھور سے ’’دارالاسلام‘‘ منتقل ہوا اور مولانا مودودی وہیں تشریف لے آئے تو میں بھی ہجرت کرکے وہیں پہنچ گیا، پھر ان کے ساتھ اسی قیام ہی کے زمانے میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ میں شرعی طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ مجھے جماعت ِ اسلامی کا رکن رہنا چاہئے یا نہ رہنا چاہئے۔ چند مہینے غور وفکر کرنے کے بعد میں اپنے حق میں یہی طے کرلیا کہ اب مجھے رکن رہنا نہیں چاہئے، لیکن اس وقت اس فیصلے کی بنیاد میرے اور مودودی صاحب کے درمیان کوئی اصولی اختلاف نہیں تھا میں اس وقت بھی ان کی اصل دعوت اور جماعت ِ اسلامی کے کام کو صحیح سمجھتا تھا۔
میں اس وقت تک حضرت مولانا الیاسؒ کے بارے میں کوئی خاص واقفیت نہیں رکھتا تھا، اگرچہ ایک دو دفعہ دیکھا تھا اور ملا تھا لیکن میرے دل نے اس سے کوئی خاص تأثر قبول نہیں کیا، اور ان کے تبلیغی کام اور اس کے طریقِ کار سے تو بالکل ہی ناواقف تھا۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ اگر اس وقت کوئی صاحب مجھے اس تبلیغی کام میں شرکت کی دعوت دیتے اور تقریر یا تحریر سے سمجھانے کی کوشش فرماتے تو غالباً میں بالکل متأثر نہ ہوتا۔ اس وقت میرے سوچنے کا خاص ڈھنگ تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا کہ جماعت ِ اسلامی سے قطع تعلق کے کچھ ہی دن بعد ایک عجیب اتفاق سے (جس کو لطیفۂ غیبی ہی کہا جاسکتا ہے) چند روز میرا قیام رائے پور ضلع سہارنپور کی خانقاہ میں حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ کی خدمت میں رہا۔ میں اگرچہ حضرتؒ سے بیعت نہیں تھا؛ بلکہ اس زمانے میں مجھے خانقاہی اذکار واشغال سے کوئی مناسبت ہی نہیں تھی لیکن حضرت کی شخصیت سے میں بہت متأثر اور بہت معتقد تھا۔ ایک دن حضرت نے ایک سلسلۂ کلام میں حضرت مولانا محمد الیاسؒ کا ذکر بہت بلند کلمات میں فرمایا جو حضرت کی عام عادت نہیں تھی اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ آپ کا جب دہلی جانا ہوا کرے تو حضرت کی خدمت میں ضرور حاضر ہوا کریں۔ اس کے دوچار دن بعد میں اپنے اس وقت کے مستقر بریلی واپس ہونے کے لئے رائے پور سے سہارنپور آیا تو یہاں میں نے سنا کہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب بہت سخت بیمار ہیں میں نے سوچا کہ مجھے ابھی دہلی جاکر ان کی عیادت وزیارت کرنی چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اسی بیماری میں رُخصت ہوجائیں، اور مجھے محرومی کا ہمیشہ افسوس رہے۔ میں سہارنپور سے سیدھا دہلی پہنچا، دیکھا کہ حضرت مولانا سخت مریض ہیں اور انتہائی درجہ میں کمزور ہیں۔ جسم میں ہڈی، چمڑے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں نے مصافحہ کرنا چاہا تو بجائے مصافحہ کے حضرت مولانا نے میرے دونوں ہاتھ زور سے پکڑ لئے اور بغیر کسی گفتگو اور تمہید کے فرمایا مجھے دیکھنے کیوں آئے ہو، دین کی فکر کرو۔ میں نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں۔ فرمایا کہ وعدہ کرو کم سے کم ایک ہفتہ ضرور دوگے۔ میں نے ان کی بیماری اور کمزوری کی حالت دیکھتے ہوئے بغیر کچھ سوچے سمجھے وعدہ کرلیا۔ یہ گفتگو رات میں عشاء کے دیر بعد ہوئی۔ میں اسی وقت نظام الدین پہنچا تھا پھر فجر کی نماز کے بعد حاضر ہوا تو فرمایا کہ اب آپ چلے جائیے، مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ اس بیماری سے میں اچھا ہوجاؤں گا۔ پھر جب کام کے سلسلے میں میرا سفر ہوگا تو اطلاع دوں گا۔ اس وقت آپ ایک ہفتے کے لئے آجائیں۔ میں بریلی چلا آیا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ بات اس وقت کے میرے مزاج کے خلاف تھی کہ یہ جانے بغیر کہ ایک ہفتہ کس کام کے لئے دینا ہوگا میں نے وعدہ کرلیا (یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی کا کرشمہ تھا) اب یاد نہیں کہ کتنی مدت کے بعد مولانا کی طرف سے اطلاع آئی کہ فلاں تاریخ کو میں جماعت کے ساتھ لکھنؤ جانے والا ہوں آپ بریلی سے لکھنؤ پہنچ جائیں میں مقررہ وقت پر پہنچ گیا۔ حضرت مولانا دہلی سے تشریف لے آئے، پہلی ہی ملاقات میں فرمایا آپ بس میرے ساتھ رہیں اور جب تک ایک ہفتہ پورا نہ ہوجائے کام کے بارے میں آپ مجھ سے کوئی سوال اور کوئی بات نہ کریں۔ جو کچھ بات کرنی ہو ہفتہ پورا ہونے کے بعد کریں۔ میں نے اپنے کو اس کا پابند کرلیا۔ چار پانچ دن گزرنے کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ امت میں ایمان اور ایمان والی زندگی پیدا کرنے اور عام کرنے کا یہ نہایت صحیح طریقہ ہے۔ یہ یقین دن رات کی رفاقت اور مشاہدے سے ہوا اور ساتھ ہی یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ اگر حضرت مولانا مجھے گفتگو فرماکر مطمئن کرنا چاہتے تو غالباً میں مطمئن نہ ہوتا۔
قرآن مجید سے بھی اس حکمت ِ عملی کااشارہ ملتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کے سلسلے میں بیان فرمایا گیا ہے کہ جب عزیز مصر کی بیوی (جس کا نام زلیخا مشہور ہے اور جس کے گھر میں حضرت یوسف علیہ السلام ایک زرخرید غلام کی حیثیت سے رہتے تھے) ان پر فریفتہ ہوگئی تو مصر کی عورتوں میں اس کا چرچا پھیل گیا اور ا س کی سہیلیوں نے اس کی اس حرکت کو بہت ہی ذلیل حرکت سمجھا تو قرآن مجید میں بیان فرمایا گیا ہے کہ جب زلیخا کو ان سہیلیوں کی لعنت ملامت کی باتیں پہنچی تو اس نے یہ تدبیر کی کہ ان سب کی دعوت کی اور ان کے سامنے کھانے کی ایسی چیزیں رکھی گئیں جن کو چھری سے کاٹ کاٹ کر کھانا تھا اس لئے ہر ایک کو چھری بھی دے دی گئی اور ٹھیک اس وقت زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بلایا وہ بیچارے غلام کی حیثیت میں تھے فوراً حاضر ہوگئے، جب مہمان عورتوں کی ان پر نظر پڑی تو ان کے تو ہوش غائب ہوگئے، قرآن شریف میں ہے کہ انھوں نے اس بے ہوشی اور وارفتگی کے عالم میں چھریوں سے اپنے ہاتھ کاٹ لئے
(قَطَّعْنَ اَیْدِیَہُنَّ) پھر زلیخا نے ان سے کہا:
’’ذٰلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِی فِیْہِ‘‘ (یہی ہے وہ جس کی محبت کی گرفتاری پر تم مجھے ملامت کرتی تھیں اب یہ خود تمہارا کیا حال ہوا؟)
تو زلیخا نے ان عورتوں کی لعنت وملامت کا جواب دینے اور ان کو مطمئن کرنے کے لئے ان سے لمبی چوڑی بات نہیں کی، کوئی مقالہ پڑھ کر نہیں سنایا۔ بس حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک نظر دکھلادیا۔ تو حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے اسی حکمت عملی کے مطابق عمل کیا۔ اس ذاتی تجربے کے بعد تبلیغی کام کے سلسلے میں میں نے خود بھی یہی رویہ اختیار کرلیا تھا اور میں نے اس کو ہمیشہ کامیاب پایا۔ حضرت مولاناؒ کے وصال کے بعد ۱۹۴۴ء یا ۱۹۴۵ء میں ایک تبلیغی جماعت کے ساتھ دہلی سے پشاور تک کا میں نے سفر کیا تھا۔ مجھ کو ہی جماعت کا امیر بنادیا گیا تھا اور دو تین دن ہمارا قیام لاہور بھی رہا۔ قیام حسب ِ معمول ایک مسجد میں تھا۔ آخری دن صبح کے وقت ایک صاحب تشریف لائے انھوں نے تعارف کرایا کہ حاجی عبدالواحد صاحب ایم۔اے، جو آپ کے دوست ہیں میرے بھی خاص دوستوں میں ہیں انھوں نے مجھے آپ کی جماعت کے بارے میں اور خود آپ کے بارے میں بتلایا ہے۔ میں اس وقت اسی لئے آیا ہوں کہ آپ کی جماعت کے کام اور نظام کو آپ سے سمجھوں اور اگر سمجھ میں آجائے تو اس میں حصہ بھی لوں۔ ان کی گفتگو سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ ٹیلیفون یا تار کے محکمہ کے ایک افسر ہیں۔ میں نے ان سے نیازمندانہ طریقہ سے عرض کیا کہ میں اپنے کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ آپ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کو اس کام کے بارے میں کچھ عرض کرکے مطمئن کرسکوں، یہ کام دیکھنے سے اور عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ خود میں نے بھی اسے دیکھ کے اور عمل کرکے ہی کچھ سمجھا ہے۔ اس لئے آپ سے میری مخلصانہ گزارش ہے کہ آج ہم لوگوں کی یہاں سے روانگی ہے فلاں وقت فلاں ٹرین سے انشاء اللہ روانہ ہوں گے، آپ کے لئے ممکن ہو تو دوچار دن کے لئے ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں، وہ یہ سن کر خفا ہوگئے، بولے ’’وہ دنیا کا کون سا کام ہے جو بتانے، سمجھانے سے سمجھ میں نہیں آسکتا۔ میں نے سنا تھا کہ آپ لوگ ہر ایک سے یہی کہتے ہیں کہ ساتھ چلو دیکھو تو سمجھ میں آئے گا، آپ ساری دنیا کو بے وقوف اور بے عقل سمجھتے ہیں ہم مودودی صاحب کے پاس جاتے ہیں اور ان سے ان کی جماعت اور ان کے کام کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ فرماتے ہیں کہ پہلے میری الماری بھری کتابیں پڑھ لو اس کے بعد بات کرو۔ آپ لوگوں کے پاس آتے ہیں تو آپ کہتے ہیں پہلے چلّہ بھر کے لئے یا دس یا تین دن کے لئے ساتھ چلو‘‘ بہرحال وہ خفا ہوکر یہ فرماتے ہوئے واپس چلے گئے۔ میں نے ان کی خفگی زائل کرنے کے لئے کچھ عرض کیا لیکن بظاہر وہ خفا ہی رہے۔
ٹرین کے وقت پر جب ہماری جماعت اسٹیشن پہنچی تو دیکھا کہ وہی صاحب بیگ ہاتھ میں لئے تشریف لارہے ہیں مجھ سے ڈانٹ کر فرمایا لیجئے میں تین دن آپ کے ساتھ رہنے کے لئے آگیا ہوں۔ چنانچہ وہ تین دن ہمارے ساتھ رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسا فضلفرمایا کہ ان تین ہی دنوں میں تبلیغی کام کے بارے میں ان کو پورا اطمینان اور شرحِ صدر ہوگیا۔ اور پھر تو پورے ’’تبلیغی‘‘ ہوگئے۔ (حالانکہ خود یہ عاجز کبھی پورا ’’تبلیغی‘‘ نہیں ہوسکا— یہ اللہ کی دین ہے۔
ذٰلکَ فضلُ اللّٰہِ یُؤتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ)
یہ تھے ہمارے محترم دوست عبدالحمید صاحب (جو آخر میں پاکستان کے ٹیلیفون اور تار کے ڈائریکٹر جنرل ہوگئے تھے اور اسی عہدے سے غالباً ریٹائر ہوئے) تین دن پورے ہونے پر وہ روتے ہوئے ہم لوگوں سے رخصت ہوئے اور مجھ سے فرمایا کہ آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا کہ مجھ سے زبانی گفتگو کرنے سے انکار کردیا اگر آپ مجھے زبانی سمجھانے کی کوشش کرتے تو شاید میں نہ سمجھ سکتا اور اس طرح مطمئن نہ ہوتا۔
اسی سفر میں ایک دوسرا واقعہ راولپنڈی میں پیش آیا۔ مسجد میں ہمارا قیام تھا، میرا معمول تھا کہ فجر کی نماز کے بعد جماعت کے اپنے ساتھیوں کو اور مسجد کے نمازیوں میں سے جو لوگ ٹھہر جاتے ان کو بھی ساتھ بٹھاکر ’’ریاض الصالحین‘‘ سے حدیثیں پڑھ کر ان کا ترجمہ اور کچھ تشریح کیا کرتا تھا۔ اس درس کے ختم پر ایک صاحب نے جو بڑے متین اور سنجیدہ معلوم ہوتے تھے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے چند منٹ الگ کچھ بات کرنا چاہتا ہوں، میں ان کے ساتھ الگ بیٹھ گیا۔ انھوں نے فرمایا: کہ میں اس تبلیغی کام کو آپ سے سمجھنا چاہتا ہوں اور مجھے کچھ اشکالات ہیں، آپ اجازت دیں تو وہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنے معمول کے مطابق ان سے بھی نیازمندی سے عرض کیا کہ میں اپنے کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ میں آپ جیسے حضرات کے اشکالات رفع کرسکوں اور مطمئن کرسکوں۔ البتہ میری آپ سے مخلصانہ گزارش ہے کہ ہماری جماعت کل انشاء اللہ یہاں سے پشاور کے لئے روانہ ہوگی، آپ جماعت کے ساتھ تشریف لے چلیں جو کچھ ہوتا ہے سب آپ خود دیکھ لیں گے۔ اس کے بعد آپ کی جو رائے قائم ہوگی وہ زیادہ صحیح ہوگی۔ انھوں نے بتلایا کہ میں یہاں ایک اسکول سے متعلق ہوں اس لئے میرے لئے آپ کے ساتھ چلنے کا امکان نہیں ہے میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں عرض کرسکتا کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ آپ کو موقع دے آپ کسی جماعت کے ساتھ رہ کر خود دیکھیں۔ اس گفتگو کے بعد وہ صاحب تشریف لے گئے، میں یہی سمجھا کہ وہ اپنے گھر تشریف لے گئے۔
اگلے دن صبح کو میں نے ان کو فجر کی نماز میں بھی دیکھا اس کے بعد وہ ’’ریاض الصالحین‘‘ کے درس میں بھی شریک رہے۔ درس کے ختم پر آج پھر انھوں نے فرمایا: کہ میں چند منٹ علیحدہ بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں ان کے ساتھ الگ بیٹھ گیا۔ انھوں نے فرمایا کہ میں آپ کے ساتھ سفر تو نہیں کرسکتا لیکن کل صبح آپ سے گفتگو کرنے کے بعد میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ میں یہیں آج کا دن اور رات جماعت ہی کے ساتھ گذاروں گا۔ میں برابر جماعت ہی کے ساتھ رہا۔ اس وقت میں آپ سے صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خدا کے فضل سے آپ کی جماعت کے ساتھ رہنے سے مجھے بہت دینی نفع ہوا اور مجھے ایمان میں تازگی محسوس ہوئی اور میرے بہت سے اشکالات کا جواب بھی مل گیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے رخصت ہوگئے۔ راولپنڈی سے ہماری جماعت پشاور چلی گئی، وہاں سے کوہاٹ وغیرہ بھی جانا ہوا۔ وہی ہمارے سفر کی آخری منزل تھی اس کے بعد واپس ہوگئی۔
اس واقعہ کے دو تین مہینے کے بعد مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں (جو اس وقت تک غالباً جماعت ِ اسلامی کا واحد ترجمان تھا) کسی صاحب کا ایک خط شائع ہوا جو انھوں نے امیر جماعت کے نام لکھا تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا کہ:
’’میں تین سال سے جماعت ِ اسلامی کا رکن ہوں اور مجھے جماعت کے تعلق سے بہت کچھ علمی اور دینی نفع ہوا ہے۔ لیکن ابھی حال میں ایک دوسری دینی جماعت کے چند لوگوں کے ساتھ مجھے صرف چوبیس گھنٹے گزارنے کا موقع ملا۔ میں نے محسوس کیا کہ ان لوگوں کا دین کا تصور تو مکمل نہیں ہے ناقص ہے، لیکن ان کے ساتھ رہ کر اور انھیں دیکھ کر دل کہتا تھا کہ یہ لوگ جنتی ہیں جو کیفیت مجھے ان لوگوں کے ساتھ رہ کر نصیب ہوئی وہ اس سے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئی اس لئے آپ سے میری گزارش ہے کہ جماعت کے ذمہ دار حضرات کو غور فرمانا چاہئے کہ ہم میں کیا کمی ہے اور اس کا کیا تدارک کرنا چاہئے؟‘‘
یاد آتا ہے کہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں خود مولانا مودودی یا جماعت اسلامی کے کسی دوسرے ذمہ دار کی طرف سے اس خط کا جواب بھی ساتھ ہی شائع ہوا تھا۔
یہ خط پڑھ کر مجھے خیال ہوا کہ غالباً یہ صاحب جنھوں نے مولانا مودودی صاحب کو یہ لکھا ہے ان کو کسی تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت گزارنے کا اتفاق ہوا ہوگا۔ اس وقت تک دفتر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں کام کرنے والے بعض حضرات سے میرا اچھا ربط وتعلق تھا۔ میں نے دریافت کرایا کہ یہ خط کن صاحب کا تھا؟ اور وہ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ تو معلوم ہوگیا کہ وہ صاحب راولپنڈی کے ہیں نام بھی لکھا تھا، جو اب مجھے یاد نہیں رہا، پھر میں نے راولپنڈی کے اپنے دوستوں سے اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ وہی صاحب تھے جو راولپنڈی میں مجھ سے ملے تھے اور جماعت کے ساتھ ایک دن رات دئیے تھے، اگر وہ دوچار دن بھی ساتھ رہے ہوتے تو امید تھی تصورِ دین کے ناقص یا کامل بلکہ غلط یا صحیح ہونے کے بارے میں ان کا ذہن صاف ہوجاتا۔
الغرض میرا سوفیصدی تجربہ ہے کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ نے اس طریقے پر عمل کرنے کی توفیق دی اور اس کے ساتھ دعاء کے اہتمام کی بھی توفیق ملی تو نتیجہ ایسا ہی نکلا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ دراصل مولانا مودودی صاحب کی تحریروں نے ان بے چاروں کے دلوں میں یہ بٹھادیا ہے کہ ان کے علاوہ سب لوگوں کا تصورِ دین ناقص ہے۔ دین کو بس انھوں نے صحیح سمجھا ہے، اگلوں نے بھی صحیح نہیں سمجھا تھا۔ لاالٰہ الا اللہ کا مطلب تک صحیح نہیں سمجھا تھا۔
اس لئے آپ سے میری گزارش ہے کہ جب جماعت ِ اسلامی کے کوئی صاحب اس طرح کی بات کریں جو آپ نے خط میں لکھی ہے یا آپ کو خود ہی ان حضرات سے بات کرنے کا اتفاق ہو تو صرف اس کی کوشش کریں کہ وہ حضرات چند بار مرکز نظام الدین تشریف لے جائیں اور خاص کر صبح بعد نماز فجر کا بیان سنیں جو اکثر مولانا محمد عمر صاحب پالنپوری فرماتے ہیں۔ اور جماعت کی روانگی کے وقت جو ہدایات دی جاتی ہیں ان کو بھی غور وتوجہ سے سنیں۔ روانگی کی دعاء میں بھی شرکت کریں اگر دوچار دفعہ بھی انھوں نے ایسا کیا تو انشاء اللہ انھیں معلوم ہوجائے گا کہ اس تبلیغی کام میں اسلام کے کسی خاص جزو یا اجزاء کی دعوت دی جاتی ہے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تمام ہدایت وتعلیمات پر ظاہراً وباطناً عمل پیرا ہونے کی۔ اگر اللہ نے قلب ِ سلیم سے محروم نہیں فرمایا ہے تو انشاء اللہ ساری غلط فہمیاں دور ہوکر حقیقت سامنے آجائے گی۔ ہاں تقریر وبیان میں جدید فیشنی اصطلاحات میں اور لیڈرانہ ماڈرن تعبیرات نہیں ہوں گی، جو زیادہ تر صرف گذشتہ چالیس پچاس سال کے اندر گھڑی گئی بلکہ قرآن پاک اور ارشاداتِ نبوی ﷺ کی پرانی اصطلاحات اور تعبیرات میں دین کی دعوت اسی طرح انشاء اللہ سامنے آئے گی جس طرح اپنے اپنے زمانے میں حضرت حسن بصریؒ اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، امام غزالیؒ حضرت مجدد الف ثانیؒ جیسے اللہ کے مقبول بندے ہمیشہ دیتے رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی کے لٹریچر کے حساب سے ان سب کا تصورِ دین ناقص تھا اور یہ دین کے کسی کسی جزو ہی کی دعوت دیتے تھے، پورے دین کی دعوت لے کر بس ہمارے اس زمانے میں مولانا مودودی صاحب مرحوم ہی کھڑے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ ان بھائیوں کو عقل سلیم دے اور مولانا کی مغفرت فرمائے۔
بہرحال میرے نزدیک ان حضرات کی خدمت اور خیرخواہی کا طریقہ یہی ہے جو میں نے عرض کیا لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اس راستے سے بھی ہر ایک کو ہدایت مل ہی جائے، قرآن پاک جو کلامِ الٰہی اور سراپا ہدایت ہے اس کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے:
{یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا} اب آپ کا کام صرف یہی ہے کہ اخلاص کے ساتھ اور صحیح طریقے پر اپنے ساتھ اپنے ان بھائیوں کی بھی اصلاح کی کوشش کریں۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعاء کا بھی اہتمام کریں۔ ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔
اگر آپ جواب اور صفائی کے پیچھے پڑیں گے تو کس کس چیز کا جواب اور کس کس الزام کی صفائی پیش کریں گے۔ یہ جو باتیں آپ نے اپنے خط میں نقل کی ہیں یہ تو اونچے معیار کے حضرات کی باتیں ہیں۔ ان لوگوں میں جو گھٹیا معیار اور پست ذہنیت کے لوگ ہیں وہ تو ایسی ایسی خرافات تبلیغ والوں کے بارے میں صرف کہتے ہی نہیں بلکہ لکھتے ہیں، میرا گمان ہے کہ اس سے جماعت ِ اسلامی کے شریف الطبع حضرات کو بھی شرم آتی ہوگی۔
قریباً ایک سال ہوا ہوگا، یا کچھ کم وبیش کسی صاحب نے رسالہ ’’تجلی‘‘ کا ایک پرچہ دکھایا، اس میں جماعت ِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے کسی صاحب نے لکھا تھا کہ ایمرجنسی کے زمانے میں جب جماعت ِاسلامی سے تعلق رکھنے والے جیلوں میں بند کردئیے گئے تھے تو تبلیغی جماعت کے لوگ ان سے کہتے تھے کہ آپ لوگ اگر ہماری جماعت میں داخل ہوجائیں تو چھوٹ جائیں گے۔
یہ کتنی ذلیل اور تکلیف دہ بات ہے اور ظاہر ہے کہ جس نے یہ گھڑی ہے وہ بیچارہ تبلیغی جماعت سے اتنا ناواقف ہے کہ یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ ’’جماعت ِاسلامی‘‘ یا ’’جمعیۃ العلمائ‘‘ جیسی منظم جماعتوں اور پارٹیوں کی طرح کی کوئی تنظیم نہیں ہے جس کے ارکان یا ممبران یا ہمدردان یا متفقین بنائے جاتے ہوں وہ تو صرف اپنی اور امت کی اصلاح کے لئے محنت اور قربانی کی دعوت ہے اور اس کا ایک طریقۂ کار ہے۔ اس کا نہ دفتر ہے، نہ رجسٹر ہے، نہ لٹریچر ہے، نہ کچھ ہے، حتی کی اس کا نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ بھی کبھی اس طرح نہیں رکھا گیا جس طرح جماعتوں اور تنظیموں کے مخصوص نام رکھے جاتے ہیں۔ حضرت مولانا الیاس صاحبؒ فرماتے تھے کہ یہ نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ ہم نے نہیں رکھا، ہم تو بس کام کرنا چاہتے تھے اس کا کوئی خاص نام رکھنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی تھی، لوگ کام کرنے والوں کو ’’تبلیغی جماعت‘‘ کہنے لگے۔ پھر یہ اتنا مشہور ہوا کہ خود ہم بھی کہنے لگے۔
تو آپ سے مجھے عرض کرنا ہے کہ جماعت ِاسلامی کے بعض لوگ تو تبلیغی جماعت کے بارے میں اس طرح کی ذلیل باتیں بھی کرتے ہیں۔ آپ کہاں تک اور کس کس بات کی صفائی دیں گے۔
نیز آپ کے خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ بریلوی حضرات سے آپ کا واسطہ نہیں پڑتا۔ میرا خیال ہے کہ آپ جس علاقے میں ہیں وہ علاقہ اس بلا سے محفوظ ہے۔ تبلیغی جماعت کے خلاف بریلویوں کی سرگرمیوں سے متعلق لوگ مختلف علاقوں سے مجھے خطوط لکھتے رہتے ہیں اور ان کے پمفلٹ اور اشتہارات بھی بھیجتے رہتے ہیں۔ اگر آپ ان کے وہ اشتہارات اور پمفلٹ دیکھیں تو جماعت اسلامی والوں کو بہت ہی غنیمت سمجھیں۔ ان بریلوی حضرات سے میرا ایک زمانے میں زیادہ واسطہ رہا ہے۔ اس لئے میں ان سے اور ان کی فطرت سے زیادہ واقف ہوں ان لوگوں کو یہ خیال ہوگیا ہے کہ تبلیغی جماعت کے کام کے نتیجہ میں زمین ہمارے پاؤں کے نیچے سے نکلتی جارہی ہے اور ہماری چراگاہیں ہمارے لئے بے آب وگیاہ بنجر ہوتی جارہی ہیں۔ اس لئے انھوں نے اپنی ساری طاقت اب تبلیغ والوں ہی کے خلاف پروپیگنڈہ پر لگادی ہے۔ ان کے پاس جماعت ِاسلامی والوں کی طرح اخبارات ورسائل تو ہیں نہیں وہ بس پمفلٹ اور اشتہارات کے ذریعہ گولہ باری کرتے ہیں اور ان کے پیشہ ور مقررین تقریروں میں زہر اُگلتے ہیں، لیکن ان کا یہ پروپیگنڈہ بہت ہی گھٹیا قسم کا ہوتا ہے۔ وہ صرف ان لوگوں پر اثرانداز ہوسکتا ہے جن میں تعلیم کے علاوہ عقل وشعور کی بھی بہت کمی ہو۔ اور شاید وہ انھیں کو اپنی جائداد سمجھتے ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ ’’تبلیغ‘‘ والوں کے اس رویے سے بہت پریشان ہیں کہ یہ کسی بات کا جواب ہی نہیں دیتے۔ چھوٹے سے چھوٹے اور گندے سے گندے بہتانوں کی بھی تردید نہیں کرتے جس کی وجہ سے اکھاڑے میں گرمی نہیں آتی اور جنگ آگے نہیں چلتی۔
واقعہ یہ ہے کہ میں خود ایک زمانے تک تبلیغی اکابر کے اس رویے سے متفق نہیں تھا میں چاہتا تھا کہ جو باتیں سراسر بہتان کے طور پر کہی جاتی ہیں ان کی تو ضرور تردید کی جائے اور پوری قوت کے ساتھ تردید کی جائے لیکن تجربہ نے مطمئن کردیا کہ اس تبلیغی کام اور اس کے ذمہ داروں کے لئے یہی رویہ صحیح ہے جو انھوں نے اپنا رکھا ہے، بس اپنا کام کرو، مخالفین کے معاملہ کو خدا کے سپرد کرو اور اس سے دعاء کرو۔ ہاں اپنا احتساب خود کرتے رہو۔
قریباً ۲۰-۲۵ /سال پہلے کا واقعہ ہے۔ حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ حیات تھے۔ پاکستان میں تبلیغی اجتماع ہوا اس میں حضرت مولانا مرحوم تشریف لے گئے۔ اجتماع کے بعد جماعت ِ اسلامی پاکستان کے کسی اخبار یا رسالے میں حضرت مولانا مرحوم سے نسبت کرکے ایک ایسی بات شائع ہوئی جو میرے نزدیک بلاشبہ غلط تھی۔ میں نے اس کی تردید ضروری سمجھی اور مولانا مرحوم کی خدمت میں عریضہ لکھا۔ مولانا نے مجھے جواب میں لکھوایا کہ آپ اس کی تردید میں کچھ نہ لکھئے۔ اگر آپ تردید کریں گے تو وہ لوگ آپ کی تردید کی تردید کریں گے۔ اور دوبارہ وہی پھر لکھیں گے اور پہلے سے بھی زیادہ زور سے لکھیں گے، آپ پھر تردید کریں گے تو وہ تیسری بار لکھیں گے اور زیادہ زور کے ساتھ لکھیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جو غلط بات اب تک صرف ایک دفعہ چھپی ہے وہ دو دفعہ اور تین دفعہ اور زیادہ زور کے ساتھ چھپے گی۔
حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ اور ان کے بعد حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ شدت کے ساتھ اس پر قائم رہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے اب بھی اسی شدت کے ساتھ اس پر عمل ہورہا ہے۔
ایک بات اور بھی آپ کے سوچنے کی ہے اگر جماعت ِ اسلامی کے حضرات کی ان باتوں کا جواب دینے کی کوشش کی جائے جو آپ نے خط میں لکھی ہیں تو اس کا ذریعہ کیا ہوگا؟ میری طرح آپ کو بھی اندازہ ہوگا کہ نشر واشاعت اور پروپیگنڈے کے وسائل اور ان کے استعمال کی مہارت کے لحاظ سے جماعت ِ اسلامی ہندوستان وپاکستان میں دوسری تمام منظم جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں سے بھی فائق ہے۔ اور تبلیغی جماعت کا حال آپ کو معلوم ہے کہ اخبار یا رسالہ نکالنے یا اشتہار وپمفلٹ کے ذریعہ اپنی بات پہنچانے کی وہ قائل ہی نہیں اور اس معاملے میں اس حد تک پہنچے ہوئے ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ جماعت کے کام کی دوسرے اخبارات ورسائل میں اشاعت ہو۔
میرے ذاتی علم میں یہ واقعہ ہے کہ ایک جگہ تبلیغی اجتماع ہونے والا تھا۔ تبلیغ والوں کے علم میں آیا کہ بعض اخبارات نے اس کا خاص انتظام کیا ہے کہ وہ روزانہ پورے اہتمام سے اجتماع کی کارروائی شائع کریں گے۔ تو چند باوقار حضرات کی ایک جماعت نے اخبارات کے دفتروں کا گشت کیا اور لجاجت وخوشامد سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ آپ کا بڑا تعاون یہی ہے کہ آپ ہمارے کام کی اپنے اخبارات کے ذریعہ تشہیر نہ کریں۔ ان کو سمجھایا کہ ہمارا کام اگرچہ کوئی راز نہیں ہے لیکن اس کی مصلحت اسی میں ہے کہ اخبارات کے ذریعہ اس کی تشہیر نہ ہو۔ اس نظریہ سے کسی کو اتفاق ہو یا نہ ہو لیکن تبلیغی کام کرنے والوں نے اسی کو اپنا رکھا ہے۔ بعض حضرات تبلیغی جماعتوں میں ایسے لوگوں کو دیکھ کر جن کی شکل صورت دین داروں کی نہیں ہوتی مخلصانہ طور پر اعتراض کرتے ہیں ان کو بتلانا چاہئے کہ تبلیغ والے تو ایسوں کو بلکہ زانیوں، شرابیوں کو بھی خوشامد کرکے ساتھ لیتے ہیں۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ فرماتے تھے کہ میں نے تو دھوبی کی بھٹی لگائی ہے اس میں بھنگی کے گھر کا کپڑا بھی آئے گا اور گوہ میں سنا کپڑا بھی آئے گا، پھر اللہ جسے چاہے گا پاک فرمادے گا میں نے آپ کے خط کا جواب لکھوانا شروع کیا تھا کہ آپ کے خط سے کچھ بڑا ہوجائے گا، لیکن بات میں بات نکلتی چلی گئے اور بجائے خط کے یہ اچھا خاصہ مضمون ہوگیا، بلکہ اب سوچ رہا ہوں کہ ’’الفرقان‘‘ کا اکتوبر کا شمارہ جو اس وقت تیار ہورہا ہے، آپ کا خط اور اپنا جواب اس میں شائع کردوں۔ چونکہ آپ نے خط اشاعت کے لئے نہیں لکھا ہے اس لئے اس میں آپ کا نام نہیں دیا جائے گا۔
آخر میں ایک بات اور عرض کرتا ہوں۔ جماعت ِ اسلامی کے بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپ جیسے حضرات کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور کسی طرح معاف نہیں کرتے۔ اور اس میں وہ بالکل مخلص ہوتے ہوں گے۔ ان سے پیچھا چھڑانے کی ایک آسان ترکیب میں آپ کو بتاتا ہوں اور ہوسکتا ہے کہ وہی ان کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے۔ ابھی حال میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے(افسوس ہے کہ اس کا نام میرے نزدیک انتہائی نامناسب بلکہ خود کتاب کے مقصد کے لئے بھی مضر ہے۔ اگر کتاب کی اشاعت سے پہلے مجھے معلوم ہوجاتا تو میں کتاب کے مصنف ومرتب صاحب کو اصرار سے مشورہ دیتا کہ وہ یہ نام ہرگز نہ رکھیں) اس کا نام ہے ’’آپ بیتی کی روشنی میں مودودیت بے نقاب‘‘۔ یہ دراصل چند ایسے حضرات کے مضامین اور ان کے مضامین کی تلخیص کا مجموعہ ہے جو جماعت ِ اسلامی کے صف ِ اوّل کے ارکان میں تھے۔ اور اس کے بڑے پرجوش وسرگرم داعی رہے تھے۔ جماعت ِ اسلامی کے بانی مرحوم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے خاص رفقاء میں تھے۔ پھر برسوں کے بعد انھوں نے یہ محسوس کرکے بلکہ گویا آنکھوں سے دیکھ کے کہ مودودی صاحب دین کی جو تشریح کررہے ہیں اور جس پر جماعت ِ اسلامی کی بنیاد ہے وہ حقیقت میں ایک طرح کی تحریف ہے۔ اور یہ راستہ زیغ وضلال کا ہے۔ مولانا مودودی کا ساتھ چھوڑا اور جماعت ِ اسلامی سے علیحدگی اختیار کی اور پھر انھوں نے اپنی یہ آپ بیتی پوری تفصیل کے ساتھ لکھی۔ یہ حضرات اس عاجز کے بھی جانے پہچانے ہیں۔ یہ سب جماعت کے عام رکن اور ورکر نہیں بلکہ اس کے رہنماؤں میں اور بعض بانیوں میں تھے۔ انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ’’شہادتِ حق‘‘ ہے۔ اور جماعت ِ اسلامی کے لوگوں پر اللہ کی حجت ہے۔ میں نے ان مضامین کو پڑھا ہے اور میری رائے یہ ہے کہ جو بھی حق کا طالب اور مخلص ان مضامین کو پڑھے گا اگر اللہ نے اس کو قلب ِسلیم عطا فرمایا ہے تو وہ ان حضرات کے موقف کو برحق سمجھے گا اور ان سے اتفاق کرے گا اور اس کو معلوم ہوجائے گا کہ جماعت ِ اسلامی کے حضرات مودودی صاحب کے بارے میں اور دین کے بارے میں کیسی غلط فہمی میں ہیں۔ اس لئے میرا مشورہ ہے کہ آپ یہ کتاب منگوالیں۔ اور آپ کے جو دوست احباب آپ سے اس طرح کی باتیں کرتے ہوں جو آپ نے خط میں لکھی ہیں ان کو مطالعہ کے لئے بس یہ کتاب دے دیں۔ میرا خیال ہے کہ دین کے بارے میں مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کی سنگین وخطرناک غلطیوں سے عام مسلمانوں کو واقف کرانے کے لئے جو کتابیں اب تک لکھی گئی تھیں ان میں سے جو میری نظر سے گذری ہیں یہ کتاب ان میں سب سے زیادہ مفید ہے۔ فقط والسلام ۲۳/ذی قعدہ ۱۳۹۹ھ- ۱۶/اکتوبر ۱۹۷۹ء
(ماخوذاز: ماہنامہ ’’الفرقان‘‘ اکتوبر ۱۹۷۹ء)
[/size]
جاری ہے