السلام علیکم
قسط:56
مذاہب عالم کے نزدیک معرفت حق تعالیٰ شانہ کے لئے دو ہی طریقہ منتخب ہیں (۱)زبان اور اعضائے جسمانیہ سے اس کی حمد و ثنا اور تابعداری (۲)ضرور یات انسانی اور مقتضیات جسمانی میں کمی اور حتی الامکان انکو ترک کرنا یہی دو طریقے مختلف صورتوں میں مختلف اسموں کے ساتھ تمام مذہبی کتب اور لٹریچر (خواہ وہ آسمانی مذاہب ہوں یاخود رووخود ساختہ)میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام نے اول طریقہ عبادت کو صلوٰۃ اور ثانی کو صوم نام سے موسوم کیا ہے۔قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر مذہنی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں صلوٰۃاور صوم کو فرضیت کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے اجمالی طور سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ایمان والو !تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلوںپر
فرض کیا گیا تھا۔ (بقرہ)
چنانچہ جس وقت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا،دریافت کیا تو جواب ملا کہ یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے آزاد کیا اور اس کو غرقاب کردیا تھا چنانچہ اس دن حضرت موسیٰؑ اور تمام بنی اسرائیل نے روزہ رکھا ۔تب آپ ؐنے ارشاد فرمایا:
اَنَا اَحَقُّ بِمُوسیٰ مِنْکُم فَصَامَہُ وَأَمَرَ بِصِیَامِہ ۔ الحدیث
(متفق علیہ)
میں بہ نسبت تمہارے اتباع موسیٰؑ کا زیادہ حقدارہوں لہٰذا آپ ﷺنے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا۔ لیکن بخاری ومسلم کی ایک دوسری روایت جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس میں اتنا اضافہ اور ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ قرآن سے قبل بھی عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے۔
ان دونوں روایتوں میں تھوڑا سا تعارض معلوم ہوتا ہے جس کی تطبیق اس طرح مناسب معلوم ہوتی ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل صوم عاشوراء کو نفلی حیثیت حاصل تھی لیکن آپ ﷺ کو مدینہ منورہ پہنچنے پر جب اس کی و جہ تسمیہ معلوم ہوئی تو آپ نے اس کو واجب کی حیثیت حاصل دیدی اور دوسروں پر بھی واجب کردیا۔ اس کے بعد ۲ھ میں غزوۂ بدر سے قبل رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس کو منسوخ قرار دے دیا گیا لیکن نفلی حیثیت اب بھی برقرار ہے۔ (تفسیر کبیر، ج:۲، ص:۱۶۹و مظہری، ج:۲، ص:۱۸۹)
اسی طرح سے نصاریٰ پر رمضان المبارک کے روزے واجب تھے لیکن ان کے علماء نے بالاتفاق موسم ربیع مقرر کردیا اور اس تبدیلی کا کفارہ دس روزوں کے اضافہ کی صورت میں ادا کیا اس کے بعد نصاریٰ میں کوئی بادشاہ بیمار ہوا تو اس نے بطور نذر کے سات روزوں کا اضافہ کردیا، اسی طرح تیسرے بادشاہ نے بقیہ تین کو شامل کرکے پورے پچاس کردئیے۔ اسی تاریخی حقیقت کی طرف حضرت مجاہدؒ نے اشارہ کیا ہے:
اَصَابَہُم مَوتَانِ فَقالُوا زِیدُوا فی صِیامکُم فَزَادُوا عَشرًا قَبلُ و عشرًا بَعدُ الخ۔
(تفسیر مظہری، ج:۱،ص:۱۸۲)
نصاریٰ میں دو موت واقع ہوئیں جس سے بچنے کے لئے انھوں نے مشورہ کرکے کہا کہ اپنے روزوں میں اضافہ کردو لہٰذا دس روزے قبل اور دس روزے بعد میں اضافہ کردئیے۔
اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ نصاریٰ کی مشابہت مت اختیار کرو کہ ایک دن قبل اور ایک دن بعد رمضان المبارک کے روزے رکھو بلکہ ایک دن بعد کا روزہ شریعت نے حرام قرار دے دیا۔ اسی طرح سے رمضان المبارک سے ایک دن قبل کا روزہ مکروہ قرار دے دیا گیا۔ چنانچہ امام شعبی کہتے ہیں کہ اگر میں پورے سال روزہ رکھوں تب بھی یومِ شک میں روزہ نہ رکھوں گا۔ الحاصل روزے تمام انبیاء وتمام امتوں پر فرض یا واجب رہے ہیں اسی کی طرف امام فخر الدین رازی اور علامہ سید محمود آلوسی بغدادی نے اپنی تفاسیر میں اشارہ کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: روح المعانی ج:۲،ص:۵۶، تفسیر کبیر،ج:۲ص:۱۸۹)
غرض کہ اقوامِ عالم میں روزے کو عبادات کے عنوان میں خاص حیثیت حاصل رہی ہے اور اسلام میں تو صوم کو رُکن کی حیثیت حاصل ہے۔ ہاں یہ بات دگر ہے کہ اس قوم کا روزہ کن اوصاف اور کن خصوصیات کا مالک ہوتا ہے۔ اسلام میں بھی روزے میں مختلف تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، چنانچہ ابتدائی طور پر روزے کو موجودہ صورت حاصل رہی تھی اس کی طرف قرآنِ کریم نے اس طرح اشارہ کیا ہے:
’’تمہارے لئے (اب) روزے کی راتوں میں اپنی عورتوں سے تعلق کو حلال قرار دے دیا گیا (کیونکہ) وہ تمہارے لئے لباس (زینت) ہیں اور تم ان کے لئے لباس (زینت) ہو‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوگیا (اس معاملے میں) تم اپنے نفوس کے ساتھ خیانت کرتے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ اب تم پر متوجہ ہوا اور تم کو معاف کردیا۔ اب تم ان سے (روزے کی راتوں میں) مباشرت کرسکتے ہو‘‘۔ الآیۃ (سورۃ البقرۃ)
اس آیت سے ظاہر ہے کہ ابتدائے اسلام میں رمضان المبارک کے مہینے میں رات میں اپنی عورتوں سے مباشرت کرنا حرام تھا بعد میں یہ حکم منسوخ کردیا گیا۔
۲- کھاؤ اور پیو اس وقت تک جب تک کہ سپیدۂ فجر ظاہر ہو اس کے بعد رات ہونے تک روزہ کو پورا کرو۔ (البقرۃ)
اس آیت کے شانِ نزول سے صاف واضح ہے کہ روزے کی تحدید یہ نہیں تھی جو آج ہے بلکہ عشاء کے بعد سے روزہ شروع ہوجاتا تھا گویا کہ تھوڑی دیر کے لئے کھانے پینے کی اجازت تھی لیکن بعد میں یہ حکم اُٹھالیا گیا اور اس کی جگہ موجودہ حکم نازل فرمادیا گیا۔
اس سے بڑھ کر روزے کی اہمیت اور کیا بیان ہوسکتی ہے کہ جو خدائے تعالیٰ نے بیان فرمادی ہے {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ} تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ انسان میں جتنی بری خصلتیں اور بدکرداریاں وخباثت نفس اور شرارتیں موجود ہیں وہ سب فنا ہوجائیں اور انسان شرافت کا سرچشمہ اور تمام اخلاقِ کریمانہ کا گہوارہ بن کر اس روئے زمین کو خدا تعالیٰ کی بندگی سے بھر دے اور شرارتوں وشیطانوں کے اڈوں اور طاغوتوں کے بسیروں کو اُجاڑ دے اور فنا کردے۔ غرض کہ انسان میں وہ تمام خصوصیات اور کمالات پیدا ہوجائیں جو اعلیٰ درجہ کے دارالاسلامی شہروں کے لئے تصور کئے جاسکتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی مضمون حدیث کی کتابوں میں پھیلا ہوا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے صرف ایک لفظ میں بیان فرمادیا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان المعظم کے آخری دن ایک بلیغ خطبہ میں رمضان المبارک اور اس کے روزوں کی اہمیت کے متعلق ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینے نے سایہ کیا ہے۔ ا س میں ایک رات ہے جو ہزاروں مہینوں سے خیر وبرکت میں فوقیت رکھتی ہے۔ اور اس مہینے کا روزہ فرض اور رات کو عبادت کرنا خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ اس مہینے میں جس آدمی نے کسی کارِ خیر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا چاہا اس کی حیثیت فرض کی ادائیگی کے برابر ہے اور جس نے کوئی فرض ادا کیا اس کا درجہ ستر فرض کے برابر محسوب ہوگا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ محبت کا مہینہ ہے اس مہینے میں رزق میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جس کسی نے کسی روزے دار کو افطار کرایا یہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ اور دوزخ سے آزادی کا پروانہ ہوگا۔ اور اس کو مثل روزے دار کے ثواب عنایت کیا جائے گا، لیکن اس افطار کرنے والے کے ثواب میں کمی نہ ہوگی۔ صحابہؓ نے دریافت فرمایا: ہم میں سے ہر آدمی اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ ثواب ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی افطار کرانے والے کو بھی حاصل ہوگا۔ اور جس کسی نے روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلایا اللہ تعالیٰ اس کو میری مرضی سے سیراب کرے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک پھر اس کو پیاس نہ لگے گی۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کا اوّل رحمت، اوسط مغفرت اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی کے پروانہ پر مشتمل ہے۔ اس میں چار چیزوں کی کثرت کرو: (۱)کلمۂ شہادت۔ (۲)استغفار۔ (۳)جنت کا سوال۔ (۴)دوزخ سے پناہ مانگا کرو۔ (رواہ بغوی وبیہقی)
روزے کی فضیلت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ مختصر اور جامع الفاظ میں بیان فرمادیا ہے اس کا احاطہ دوسرے کے لئے دشوار نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَن صــامَ رمضــانَ ایمــانًا واحتسابًا غُفِرَ لہُ ما تقدَّمَ من ذنبِہٖ ومَن قامَ رمضانَ ایمانًا واحتسابًا غفر لَہُ ما تقدَّم من ذنبہٖ الخ۔ (متفق علیہ)
جس نے رمضان کا روزہ ایمانا اور احتساباً رکھا اس کے گذشتہ گناہوں کو معاف کردیا جائے گا (اسی طرح) جس نے قیامِ رمضان ایماناً واحتساباً کیا اس کے گذشتہ گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔
اس حدیث میں صومِ رمضان اور قیامِ رمضان کے ساتھ ایمان اور احتساب کی دو قیدیں لگی ہیں جس کے معنی اور مطالب بیان کرنے میں شراحِ حدیث نے بہت زیادہ تفصیل سے کام لیا ہے، جس کو اجمالاً ہم یہاں بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ علامہ بدرالدین عینی نے شرح بخاری میں جلد ۱، ص:۲۶۷، لغایۃ،ج:۱،ص:۲۷۸ منتشراً ان دونوں لفظوں کا ذکر کیا ہے جس میں بتلایا ہے کہ یہ دونوں لفظ مترادف ہیں یا متداخل، ایک دوسرے کی تاکید کے لئے لائے گئے ہیں۔ علامہ موصوف کا کہنا ہے کہ جو مومن ہے وہ محتسب بھی ہے۔ ہم علامہ موصوف کی بحث کو صرف دو لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی ’’مومن مخلص‘‘۔ حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ جو آدمی مومن ہونے کے ساتھ مخلصانہ روزہ رکھے اس کے لئے یہ بشارت ہے۔ اسی تعبیر کو علامۂ وقت حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث مظاہر العلوم سہارنپور نے لامع الدراری حاشیہ تقریر بخاری امام ربانی حضرت گنگوہیؒ کے جلد ۱، ص:۲۶ میں اختیار کیا ہے۔
لیکن علامۂ زماں علامہ کشمیری نے اپنی تقریر فیض الباری میں احتساب کے جو معنی بیان فرمائے ہیں اُردو زبان میں اس کا ترجمہ دُشوار تر ہے۔ علامہ موصوف نے احتساب کا ترجمہ ’’توقیر النیۃ‘‘ اور ’’علم العلم‘‘ ’’استشعار القلب‘‘ ’’استحضار النیۃ‘‘ اور ’’عدل الذہول عنہا‘‘ سے کیا ہے۔ جس کو اگر ہم سمیٹنا چاہیں تو اخلاص کا اعلیٰ مرتبہ ’’احسان‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یعنی مومن ہونے کے ساتھ مخلص اور محسن ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے بعد مذکورہ حدیث قرآنِ پاک کی تفسیر کا بحر ذخار لیکن دریا میں کوزہ کا مصداق ہوجائے گی۔ اس کے بعد روزہ کا تعارف اگر انسانیت کی کسوٹی سے کیا جائے گا تو زیادہ مناسب ہوگا۔ واللہ اعلم
روزہ کے علاوہ دوسری چیز جو مذکورہ حدیث میں ذکر فرمائی ہے اور جو وعدے اور بشارت میں روزے کے برابر ہیں وہ قیامِ رمضان ہے۔ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے یہ استثنائِ شاذ ہے اور اس سے صلوٰۃِ تراویح مراد لیا ہے۔ ویسے تو بعض علماء نے دوسرے معنیٰ بھی مراد لئے ہیں، بعض نے کہا ہے کہ رمضان کی راتوں میں مطلقاً بیدار ہونا بھی اس میں داخل ہے، لیکن اس قول کو کالعدم کے درجہ میں رکھا جائے گا کیونکہ جمہور اس پر متفق نہیں ہیں۔
بہرحال رمضان المبارک کے مہینے میں ہر دو طریقۂ عبادت یعنی صلوٰۃ میں اضافہ کردیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنی معرفت حاصل کرنے کے لئے انسانوں کو دعوت دی ہے کہ وہ دنیا میں جہاں ایک اعلیٰ ترین داعی قائد کی حیثیت سے زندہ رہیں ان کو ہماری معرفت کے اعلیٰ مدارج بھی حاصل ہونے لازمی ہیں۔
وفقنا اللّٰہ وإیاکم لما یحبّ ویرضیٰ۔ آمین!
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری
از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
قسط:56
رمضان اور اس کی فضیلت
ایک مفید اور علمی مقالہ
من جانب: جامعہ عربیہ مدینۃالعلوم بجنور
ایک مفید اور علمی مقالہ
من جانب: جامعہ عربیہ مدینۃالعلوم بجنور
مذاہب عالم کے نزدیک معرفت حق تعالیٰ شانہ کے لئے دو ہی طریقہ منتخب ہیں (۱)زبان اور اعضائے جسمانیہ سے اس کی حمد و ثنا اور تابعداری (۲)ضرور یات انسانی اور مقتضیات جسمانی میں کمی اور حتی الامکان انکو ترک کرنا یہی دو طریقے مختلف صورتوں میں مختلف اسموں کے ساتھ تمام مذہبی کتب اور لٹریچر (خواہ وہ آسمانی مذاہب ہوں یاخود رووخود ساختہ)میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام نے اول طریقہ عبادت کو صلوٰۃ اور ثانی کو صوم نام سے موسوم کیا ہے۔قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر مذہنی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں صلوٰۃاور صوم کو فرضیت کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے اجمالی طور سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ایمان والو !تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلوںپر
فرض کیا گیا تھا۔ (بقرہ)
چنانچہ جس وقت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا،دریافت کیا تو جواب ملا کہ یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے آزاد کیا اور اس کو غرقاب کردیا تھا چنانچہ اس دن حضرت موسیٰؑ اور تمام بنی اسرائیل نے روزہ رکھا ۔تب آپ ؐنے ارشاد فرمایا:
اَنَا اَحَقُّ بِمُوسیٰ مِنْکُم فَصَامَہُ وَأَمَرَ بِصِیَامِہ ۔ الحدیث
(متفق علیہ)
میں بہ نسبت تمہارے اتباع موسیٰؑ کا زیادہ حقدارہوں لہٰذا آپ ﷺنے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا۔ لیکن بخاری ومسلم کی ایک دوسری روایت جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس میں اتنا اضافہ اور ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ قرآن سے قبل بھی عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے۔
ان دونوں روایتوں میں تھوڑا سا تعارض معلوم ہوتا ہے جس کی تطبیق اس طرح مناسب معلوم ہوتی ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل صوم عاشوراء کو نفلی حیثیت حاصل تھی لیکن آپ ﷺ کو مدینہ منورہ پہنچنے پر جب اس کی و جہ تسمیہ معلوم ہوئی تو آپ نے اس کو واجب کی حیثیت حاصل دیدی اور دوسروں پر بھی واجب کردیا۔ اس کے بعد ۲ھ میں غزوۂ بدر سے قبل رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس کو منسوخ قرار دے دیا گیا لیکن نفلی حیثیت اب بھی برقرار ہے۔ (تفسیر کبیر، ج:۲، ص:۱۶۹و مظہری، ج:۲، ص:۱۸۹)
اسی طرح سے نصاریٰ پر رمضان المبارک کے روزے واجب تھے لیکن ان کے علماء نے بالاتفاق موسم ربیع مقرر کردیا اور اس تبدیلی کا کفارہ دس روزوں کے اضافہ کی صورت میں ادا کیا اس کے بعد نصاریٰ میں کوئی بادشاہ بیمار ہوا تو اس نے بطور نذر کے سات روزوں کا اضافہ کردیا، اسی طرح تیسرے بادشاہ نے بقیہ تین کو شامل کرکے پورے پچاس کردئیے۔ اسی تاریخی حقیقت کی طرف حضرت مجاہدؒ نے اشارہ کیا ہے:
اَصَابَہُم مَوتَانِ فَقالُوا زِیدُوا فی صِیامکُم فَزَادُوا عَشرًا قَبلُ و عشرًا بَعدُ الخ۔
(تفسیر مظہری، ج:۱،ص:۱۸۲)
نصاریٰ میں دو موت واقع ہوئیں جس سے بچنے کے لئے انھوں نے مشورہ کرکے کہا کہ اپنے روزوں میں اضافہ کردو لہٰذا دس روزے قبل اور دس روزے بعد میں اضافہ کردئیے۔
اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ نصاریٰ کی مشابہت مت اختیار کرو کہ ایک دن قبل اور ایک دن بعد رمضان المبارک کے روزے رکھو بلکہ ایک دن بعد کا روزہ شریعت نے حرام قرار دے دیا۔ اسی طرح سے رمضان المبارک سے ایک دن قبل کا روزہ مکروہ قرار دے دیا گیا۔ چنانچہ امام شعبی کہتے ہیں کہ اگر میں پورے سال روزہ رکھوں تب بھی یومِ شک میں روزہ نہ رکھوں گا۔ الحاصل روزے تمام انبیاء وتمام امتوں پر فرض یا واجب رہے ہیں اسی کی طرف امام فخر الدین رازی اور علامہ سید محمود آلوسی بغدادی نے اپنی تفاسیر میں اشارہ کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: روح المعانی ج:۲،ص:۵۶، تفسیر کبیر،ج:۲ص:۱۸۹)
غرض کہ اقوامِ عالم میں روزے کو عبادات کے عنوان میں خاص حیثیت حاصل رہی ہے اور اسلام میں تو صوم کو رُکن کی حیثیت حاصل ہے۔ ہاں یہ بات دگر ہے کہ اس قوم کا روزہ کن اوصاف اور کن خصوصیات کا مالک ہوتا ہے۔ اسلام میں بھی روزے میں مختلف تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، چنانچہ ابتدائی طور پر روزے کو موجودہ صورت حاصل رہی تھی اس کی طرف قرآنِ کریم نے اس طرح اشارہ کیا ہے:
’’تمہارے لئے (اب) روزے کی راتوں میں اپنی عورتوں سے تعلق کو حلال قرار دے دیا گیا (کیونکہ) وہ تمہارے لئے لباس (زینت) ہیں اور تم ان کے لئے لباس (زینت) ہو‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوگیا (اس معاملے میں) تم اپنے نفوس کے ساتھ خیانت کرتے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ اب تم پر متوجہ ہوا اور تم کو معاف کردیا۔ اب تم ان سے (روزے کی راتوں میں) مباشرت کرسکتے ہو‘‘۔ الآیۃ (سورۃ البقرۃ)
اس آیت سے ظاہر ہے کہ ابتدائے اسلام میں رمضان المبارک کے مہینے میں رات میں اپنی عورتوں سے مباشرت کرنا حرام تھا بعد میں یہ حکم منسوخ کردیا گیا۔
۲- کھاؤ اور پیو اس وقت تک جب تک کہ سپیدۂ فجر ظاہر ہو اس کے بعد رات ہونے تک روزہ کو پورا کرو۔ (البقرۃ)
اس آیت کے شانِ نزول سے صاف واضح ہے کہ روزے کی تحدید یہ نہیں تھی جو آج ہے بلکہ عشاء کے بعد سے روزہ شروع ہوجاتا تھا گویا کہ تھوڑی دیر کے لئے کھانے پینے کی اجازت تھی لیکن بعد میں یہ حکم اُٹھالیا گیا اور اس کی جگہ موجودہ حکم نازل فرمادیا گیا۔
اس سے بڑھ کر روزے کی اہمیت اور کیا بیان ہوسکتی ہے کہ جو خدائے تعالیٰ نے بیان فرمادی ہے {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ} تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ انسان میں جتنی بری خصلتیں اور بدکرداریاں وخباثت نفس اور شرارتیں موجود ہیں وہ سب فنا ہوجائیں اور انسان شرافت کا سرچشمہ اور تمام اخلاقِ کریمانہ کا گہوارہ بن کر اس روئے زمین کو خدا تعالیٰ کی بندگی سے بھر دے اور شرارتوں وشیطانوں کے اڈوں اور طاغوتوں کے بسیروں کو اُجاڑ دے اور فنا کردے۔ غرض کہ انسان میں وہ تمام خصوصیات اور کمالات پیدا ہوجائیں جو اعلیٰ درجہ کے دارالاسلامی شہروں کے لئے تصور کئے جاسکتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی مضمون حدیث کی کتابوں میں پھیلا ہوا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے صرف ایک لفظ میں بیان فرمادیا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان المعظم کے آخری دن ایک بلیغ خطبہ میں رمضان المبارک اور اس کے روزوں کی اہمیت کے متعلق ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینے نے سایہ کیا ہے۔ ا س میں ایک رات ہے جو ہزاروں مہینوں سے خیر وبرکت میں فوقیت رکھتی ہے۔ اور اس مہینے کا روزہ فرض اور رات کو عبادت کرنا خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ اس مہینے میں جس آدمی نے کسی کارِ خیر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا چاہا اس کی حیثیت فرض کی ادائیگی کے برابر ہے اور جس نے کوئی فرض ادا کیا اس کا درجہ ستر فرض کے برابر محسوب ہوگا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ محبت کا مہینہ ہے اس مہینے میں رزق میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جس کسی نے کسی روزے دار کو افطار کرایا یہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ اور دوزخ سے آزادی کا پروانہ ہوگا۔ اور اس کو مثل روزے دار کے ثواب عنایت کیا جائے گا، لیکن اس افطار کرنے والے کے ثواب میں کمی نہ ہوگی۔ صحابہؓ نے دریافت فرمایا: ہم میں سے ہر آدمی اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ ثواب ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی افطار کرانے والے کو بھی حاصل ہوگا۔ اور جس کسی نے روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلایا اللہ تعالیٰ اس کو میری مرضی سے سیراب کرے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک پھر اس کو پیاس نہ لگے گی۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کا اوّل رحمت، اوسط مغفرت اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی کے پروانہ پر مشتمل ہے۔ اس میں چار چیزوں کی کثرت کرو: (۱)کلمۂ شہادت۔ (۲)استغفار۔ (۳)جنت کا سوال۔ (۴)دوزخ سے پناہ مانگا کرو۔ (رواہ بغوی وبیہقی)
روزے کی فضیلت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ مختصر اور جامع الفاظ میں بیان فرمادیا ہے اس کا احاطہ دوسرے کے لئے دشوار نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَن صــامَ رمضــانَ ایمــانًا واحتسابًا غُفِرَ لہُ ما تقدَّمَ من ذنبِہٖ ومَن قامَ رمضانَ ایمانًا واحتسابًا غفر لَہُ ما تقدَّم من ذنبہٖ الخ۔ (متفق علیہ)
جس نے رمضان کا روزہ ایمانا اور احتساباً رکھا اس کے گذشتہ گناہوں کو معاف کردیا جائے گا (اسی طرح) جس نے قیامِ رمضان ایماناً واحتساباً کیا اس کے گذشتہ گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔
اس حدیث میں صومِ رمضان اور قیامِ رمضان کے ساتھ ایمان اور احتساب کی دو قیدیں لگی ہیں جس کے معنی اور مطالب بیان کرنے میں شراحِ حدیث نے بہت زیادہ تفصیل سے کام لیا ہے، جس کو اجمالاً ہم یہاں بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ علامہ بدرالدین عینی نے شرح بخاری میں جلد ۱، ص:۲۶۷، لغایۃ،ج:۱،ص:۲۷۸ منتشراً ان دونوں لفظوں کا ذکر کیا ہے جس میں بتلایا ہے کہ یہ دونوں لفظ مترادف ہیں یا متداخل، ایک دوسرے کی تاکید کے لئے لائے گئے ہیں۔ علامہ موصوف کا کہنا ہے کہ جو مومن ہے وہ محتسب بھی ہے۔ ہم علامہ موصوف کی بحث کو صرف دو لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی ’’مومن مخلص‘‘۔ حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ جو آدمی مومن ہونے کے ساتھ مخلصانہ روزہ رکھے اس کے لئے یہ بشارت ہے۔ اسی تعبیر کو علامۂ وقت حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث مظاہر العلوم سہارنپور نے لامع الدراری حاشیہ تقریر بخاری امام ربانی حضرت گنگوہیؒ کے جلد ۱، ص:۲۶ میں اختیار کیا ہے۔
لیکن علامۂ زماں علامہ کشمیری نے اپنی تقریر فیض الباری میں احتساب کے جو معنی بیان فرمائے ہیں اُردو زبان میں اس کا ترجمہ دُشوار تر ہے۔ علامہ موصوف نے احتساب کا ترجمہ ’’توقیر النیۃ‘‘ اور ’’علم العلم‘‘ ’’استشعار القلب‘‘ ’’استحضار النیۃ‘‘ اور ’’عدل الذہول عنہا‘‘ سے کیا ہے۔ جس کو اگر ہم سمیٹنا چاہیں تو اخلاص کا اعلیٰ مرتبہ ’’احسان‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یعنی مومن ہونے کے ساتھ مخلص اور محسن ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے بعد مذکورہ حدیث قرآنِ پاک کی تفسیر کا بحر ذخار لیکن دریا میں کوزہ کا مصداق ہوجائے گی۔ اس کے بعد روزہ کا تعارف اگر انسانیت کی کسوٹی سے کیا جائے گا تو زیادہ مناسب ہوگا۔ واللہ اعلم
روزہ کے علاوہ دوسری چیز جو مذکورہ حدیث میں ذکر فرمائی ہے اور جو وعدے اور بشارت میں روزے کے برابر ہیں وہ قیامِ رمضان ہے۔ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے یہ استثنائِ شاذ ہے اور اس سے صلوٰۃِ تراویح مراد لیا ہے۔ ویسے تو بعض علماء نے دوسرے معنیٰ بھی مراد لئے ہیں، بعض نے کہا ہے کہ رمضان کی راتوں میں مطلقاً بیدار ہونا بھی اس میں داخل ہے، لیکن اس قول کو کالعدم کے درجہ میں رکھا جائے گا کیونکہ جمہور اس پر متفق نہیں ہیں۔
بہرحال رمضان المبارک کے مہینے میں ہر دو طریقۂ عبادت یعنی صلوٰۃ میں اضافہ کردیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنی معرفت حاصل کرنے کے لئے انسانوں کو دعوت دی ہے کہ وہ دنیا میں جہاں ایک اعلیٰ ترین داعی قائد کی حیثیت سے زندہ رہیں ان کو ہماری معرفت کے اعلیٰ مدارج بھی حاصل ہونے لازمی ہیں۔
وفقنا اللّٰہ وإیاکم لما یحبّ ویرضیٰ۔ آمین!
عیدمبارک
اسلا می مساوات کا بے نظیر مظاہرہ
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلا می مساوات کا بے نظیر مظاہرہ