پرانی یادیں،نئی باتیں
قائد ملت حضرت مولانافضیل احمدقاسمیؒ
ناصرالدین مظاہریزندگی بھی کیاچیزہے؟ایک انسان جب پیداہوتاہے تواس کی پیدائش پربہت ہی محدودلوگ خوش ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنازیادہ صحیح ہوگاکہ صرف اپنے لوگ ہی مسرت سے دوچارہوتے ہیں لیکن وہی انسان جب اپنی طبعی عمر پوری کرکے دنیاء دنی سے رخت سفرباندھتاہے توایک عالم سوگوارہوتاہے،زندگی کی نیاجب ساحل سے دورمنجدھارمیں ڈوبتی ہے توساحل پرکھڑے لوگ صرف کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں،کشتی کوڈوبنے اوراس میں سوارکو بچانے کی ہمت وقوت کسی میں نہیں ہوتی۔
زندگی کی رنگینیاں،بچپن کی رعنائیاں،شباب کی جولانیاں اوربڑھاپے کی نیرنگیاں انسان کو سکون ملنے نہیں دیتیں،ایک بچہ جب ہوش سنبھالتاہے تو اس کے والدین خوش ہوجاتے ہیں کہ اب میرابچہ اتنے سال کا ہوگیاہے ،والدین یہ بھول جاتے ہیںکہ میرے بچے کی طبعی عمرمیں سے اتنے سال کم ہوچکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا یہ نظام قدرت ہے،اس نے ایک باغ کی ویرانی کے پیچھے دوسرے باغ کی تیاری کا پلان بنایاہواہے،خزاں کے بعدربیع اورربیع کے بعدخزاں،عسرکے بعدیسراوریسرکے بعدعسر،دنیوی زندگی کے ساتھ موت اورموت کے ساتھ اخروی زندگی،خوشیوں کے ساتھ غم اورغموں کے ساتھ خوشی ایک اٹل قدرتی نظام ہے جس میں لیل ونہارکی گردشیں حبہ برابرفرق نہیں کرسکے،سائنس اورجدیدٹیکنالوجی سے آراستہ وپیراستہ دماغوں نے ہزاروںبارخداکے اس نظام میں دخل اندازی کی کوششیں کیں اورناکام ونامراد ہوگئے۔
اللہ کی سرزمین پر اللہ کے برگزیدہ ولی؛ اگردیکھاجائے توعالم رنگ وبومیں اسی طائفہ کی وجہ سے خوشیوں کے کنول کھلتے ہیں،غورکیاجائے تواسی طبقہ کی وجہ سے عوام اورخواص زندگی کی صحیح سمتوں اورجہتوں پرگامزن ہوکراپنی دنیوی اوراخروی سعادتوں کاذخیرہ فراہم کرتے ہیں اوران ذاکرین وشاغلین کے باعث کائنات میں رنگ اورحیات انسانی میں ترنگ باقی ہے۔
راقم الحروف کے ہاتھوں نے بے شمارلوگوں کے سچے اوراچھے حالات زندگی لکھے،ان گنت افرادوشخصیات کے شذرات تحریرکئے، بہت سے عارفین وکاملین کی زندگی کے قابل تقلیدموتی ان کے مریدین ومتوسلین تک پہنچانے کی باربارکوششیں کیں اوربارباراللہ کے دوستوں کی رحلت پر(یہ معلوم ہونے کے باوجودکہ موت ایک اٹل سچائی ہے)آنکھوں نے اشکوں کے ذریعہ خراج عقیدت پیش کیا۔
حضرت مولانافضیل احمدقاسمی ؒ صرف مرکزی جمعیۃ علماء ہندکے سکریٹری جنرل ہی نہیں تھے بلکہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کورٹ کے ممبراورجامعہ اردوعلی گڑھ کے چانسلربھی تھے ،ان کے زیراہتمام وانتظام سیکڑوں دینی مدارس اورمکاتب قائم تھے۔
ان کے قابل قدرکارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں مکاتب دینیہ کاقیام،بیواؤں اورغریبوں کا تعاون،مساجدکی تعمیرات، افرادسازی،ملک وملت اورسماج ومعاشرہ کیلئے ان کی جدوجہد،ملکی اورغیرملکی دعوتی اسفار،مرکزی دینی مدارس سے نیازمندانہ تعلقات، برگزیدہ شخصیات سے عقیدت مندانہ روابط اورمرکزی جمعیۃ میں آنے جانے والے مہمانوں کے آرام واکرام کاخیال بعض ایسے روشن گوشے ہیں جن پربہت کچھ لکھاجا سکتا ہے۔
مظاہرعلوم سہارنپوراوراس کے اکابربالخصوص شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریا مہاجرمدنیٔ، فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین اجراڑویؒ ٔاورشیخ الادب حضرت مولانااطہرحسینؒ سے ان کے نیازمندانہ تعلقات استوارتھے،موخرالذکردونوں شخصیات سے حضرت مولانافضیل احمدقاسمی کو جوتعلق تھااس کو راقم السطورنے باربار دیکھااوردہلی مرکزی جمعیۃ کے دفترمیں جب بھی جاناہواتومولانانے مظاہرعلوم کے حالات اوراِن دونوں شخصیات کی خیرخیریت ضرورمعلوم کی۔
وہ جب کبھی فرصت میں ہوتے توتفصیل سے مظاہرعلوم کے حالات بتلاتے،یہ بھی بتاتے کہ حضرت مفتی مظفرحسینؒ کو کس طرح ان ہی کے شاگردوں اورپروردہ لوگوں نے ستایاتھا،کس طرح مفتی صاحب کو مظاہرعلوم سے ہٹانے اوردبانے کی کوششیں کی گئیں تھیں،پھران تخریب کاریوں کا مفتی صاحب نے کس ثابت قدمی اورجرأت مندی کے ساتھ مقابلہ کیاتھا اورمخالفین ومعاندین کوکس طرح شکست وہزیمت سے دوچارہونا پڑا تھا ۔ اس پوری تفصیل میں مولانافضیل احمدصاحبؒ اپنے کرداراوراپنی خدمات کو بالکل نظراندازکردیتے تھے اور استفسارپرپھرایک لمبی چوڑی تفصیل بیان کرتے ،جس کوسن کرتعجب ہوتاتھاکہ مولانااتنے بڑے تن وتوش کے مالک ہیں پھر بھی اس قدرفعال اورمتحرک کہ نوجوانوں کو بھی رشک آئے۔
خودمولانافضیل احمدصاحب قاسمی کو بھی مختلف مصائب اورآزمائشوں سے گزرناپڑا،ایک عرصہ تک انہوں نے جمعیۃ علماء ہندمیں خدمات انجام دیکربڑوں کی حوصلہ افزائیوں سے سرفرازہوئے،لیکن اس ناسوتی دنیامیں ایک عجیب وغریب بیماری’’حسد‘‘ہے جس کی جڑیں بہت ہی مضبوط ہیں،یہاں ناکاروں کی پیٹھ تھپتھپائی جاتی ہے اورکارآمدلوگوں کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں کی جاتی ہیں،اپنے منصب اوراقتدارکوبچانے کے لئے خداجانے کتنی زندگیوں کوداؤپرلگادیاجاتاہے،کتنی صلاحیتوں کوزنگ لگاکرناکارہ بنادیاجاتاہے،کتنے دماغوں کومثبت کے بجائے منفی ڈگرپرڈال کرخوشیاں منائی جاتی ہیں۔
مولانابھی اچھی صلاحیتوں کے مالک،فہم وفراست اوربہترین دماغ رکھتے تھے ،ان کی فعالیت اورشبانہ روزمحنت سے دین کے ہمدردوں کوتوخوشی ہورہی تھی لیکن اقتدارکے لالچیوں کومولاناکی یہ محنتیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔نتیجہ وہی ہواجوعام طورپراس دنیامیں ہوتاہے ،تالاب سے گندی مچھلیاں نہیں نکالی جاتیں بلکہ اچھی مچھلیاں نکال کرجی خوش کیاجاتاہے،حضرت مولانافضیل احمدقاسمی نے حالات کودیکھ پرکھ کرایک نعرۂ مستانہ لگایاکہ
میں آشیاں خودہی پھونک لوں گا نزول برق وشررسے پہلے
مولانانے بلاکسی نزاع کے خاموشی کے ساتھ جمعیۃ سے الگ ہوکراپنامیدان بنایا،مولانانے اپنی جمعیۃ بھی ایسی جگہ بنائی جہاں پہنچانے کے لئے لوگ ایک دوسرے کے درپے رہتے ہیں ،جہاں پہنچاکرطاغوت کوخوشی ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے مولاناکوجوفہم عطافرمایاتھا اس فہم کے باعث مولانانے پہلے ہی اس حصۂ زمین کو منتخب کیاجس کو قبرستان کہاجاتاہے اوراخیرتک اسی خطۂ ارضی سے دینی،ملی،سیاسی اورسماجی جوبھی تعلیمی وتعمیری کام مولاناکرناچاہتے تھے اورپہلے نہیں کرپارہے تھے ان کوپایہ تکمیل تک پہنچاکرروح کو سکون پہنچایااورعوام وخواص نے مولاناکی خدمات کو قدرکی نگاہوں سے دیکھا۔
ایک بارحاضرخدمت ہواکہنے لگے آئینہ مظاہرعلوم میں یہودیوں کی ایک تنظیم ’’فری میسن‘‘کے بارے میں تم نے بڑااچھاسلسلہ شروع کیاہے،حقیقت یہی ہے کہ آج پورے عالم اسلام کوسب سے زیادہ یہودیوں سے نقصان پہنچ رہاہے، علماء کو اس سلسلہ میں عملی اقدام کرناچاہئے اوراپنے مدارس میں طلبہ کو اس مذہب کی تخریب کاریوں اورمنصوبہ بندیوں سے آگاہ کرناچاہئے۔پھر کہنے لگے برصغیرکے مسلمان اگریہ چاہیں کہ علماء کے بغیرسارے دینی امورطے پاجائیں توناممکن ہے،اسی طرح اگرہندویہ سوچنے لگیں کہ وہ پنڈتوں کی شرکت کے بغیرکوئی دھارمک کام انجام دے لیں گے تویہ بھی خام خیالی ہے…اورجب راقم الحروف نے واپسی کی اجازت چاہی توفرمایاکہ یہودیوں کی تحریک اورمشن سے طلبہ اورعوام کوہوشیاراورخبردارکرتے رہنا۔
مولانامرحوم کا دسترخوان ان کے تن وتوش کی طرح بہت وسیع تھا ،مہمانوں کا اکرام اوران کی ضیافت کیسے کی جاتی ہے اس بارے میں مولانامثالی نمونہ تھے۔رمضان المبارک کے موقع پرتواعلیٰ سطح پرعوام وخواص کیلئے افطار وسحرکامعیاری نظم فرماتے تھے ۔
مولانانے مظاہرعلوم کے موقف ’’وقف علی اللہ‘‘کی بھرپورحمایت کی تھی،حضرت مفتی مظفرحسینؒ کے شانہ بشانہ بھی وہ کسی لالچ اورکسی مفادکی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے موقف کی صداقت کے باعث قریب ترین افرادمیں سے ہوگئے تھے۔
۲۸؍رمضا ن المبارک ۱۴۲۴ھ کو جب حضرت مفتی صاحبؒ کا وصال ہواتومولانااس وقت انگلینڈکے سفرپرتھے،حضرت مفتی صاحب ؒکے انتقال کی خبرجنگل کی آگ کی طرح اچانک پھیل گئی ،افریقہ کے ایک اردوچینل نے حضرت مفتی صاحب ؒکے انتقال کی خبربھی نشرکردی،بہرحال حضرت مولانافضیل احمدقاسمی کو جب مفتی صاحب کے انتقال کی خبرملی تواتنی جلدجنازہ میں شرکت کے لئے پہنچناناممکن تھااور جنازہ میں تاخیرشرعاً غلط ہے اس لئے مولانانے وہاں اپنے حلقہ میں حضرت مفتی صاحب کیلئے قرآ ن خوانی اوردعاء مغفرت کا اہتمام کرایا،جگہ جگہ مفتی صاحب کے متعلقین اورمظاہرعلوم کے ہمدردان کوفون کرکے دعاء مغفرت کی اپیل کی اور جانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہٗ کے نام اپنے تعزیتی مکتوب میں حضرت مفتی صاحبؒ سے تعلقات اورعقیدت مندی کے جذبات کو یوں تحریرفرمایا:
’’ حضرت اقدس مفتی صاحبؒ کے انتقال کی خبر نے ہزاروں متعلقین متوسلین کے دلوںپربجلی گرادی ساراماحول سوگوارہوگیااناللّٰہ وانا الیہ راجعون ۔
یہ ایسی روح فرساخبر تھی کہ سارابرطانیہ ،افریقہ ،کناڈاجہاں جہاں فون پراطلاع دی لوگ حیرت میں پڑگئے ، اکثرمساجد مدارس میں اب تک دعائیں اورایصال ثواب کی مجلسیں ہورہی ہیں ،برطانیہ میں برماکے فضلاء جو حضرت سے متعلق تھے ،مسلسل ختم شریف وغیرہ کررہے ہیں ، میرا حال تو اب تک خراب ہے سوچتا ہوں تو کلیجہ منھ کو آتا ہے کہ دنیا میں اب ہماراایسا سرپرست جو ہر غم وخوشی کا سہاراہو نہ رہا ‘‘۔
مظاہرعلوم میںحضرت مفتی صاحبؒ کی خدمت میں بارہاحاضرہوتے،مظاہرعلوم سے متعلق اپنے نیک مشورے بھی عرض کرتے اوراپنے لئے حضرت مفتی صاحب کی مشفقانہ نصیحتوں کو حرزجان بناتے ۔اسی طرح مظاہرعلوم کے اہم اجتماعات اورخصوصی پروگراموں میں بھی مولاناضرورتشریف لاتے تھے اوراپنے تاثرات کا بھی اظہارفرماتے تھے چنانچہ حضرت مفتی مظفرحسینؒ کے بارے میں یہاں تعزیتی اجلاس میں مولانانے اپنی رقت آمیزتقریرمیں حضرت مفتی صاحبؒ کی خدمات اورکارناموں پرتفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی تھی۔
اسی طرح حضرت فقیہ الاسلام ؒکے برادراصغرشیخ الادب حضرت مولانااطہرحسینؒ کے وصال پرناظم مدرسہ حضرت مولانا محمدسعیدی مدظلہٗ کے نام مولانامرحوم نے جومکتوب ارسال فرمایاتھااس میں گویامولانانے اپنادل کھول کررکھ دیا تھا،مولانامحمدسعیدی کوصبرکی تلقین،حضرت مولانااطہرحسینؒ کی عبقری شخصیت کی عظمتوں کا اعتراف اورماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم کی خصوصی اشاعت کے بارے میں اپنے قلبی تاثرات کا بھرپوراظہاران لفظوں میں فرمایاتھا
’’عارف باللہ حضرت مولانا اطہر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اچانک انتقال سے سخت صدمہ ہوا ، اناللّٰہ وانا الیہ راجعون !
اس صدمہ سے میں بھی گذر چکا ہوں یہ حقیقت ہے کہ حق تعالیٰ ہی آزماتے ہیں اور وہی صبر کی توفیق بھی دیتے ہیں ورنہ انسان کی کیا مجال ،اس سلسلہ میں فاطمۃ الزہرا کے مرثیہ کامصرعہ ۔
صبت علی مصائب لوانھا
صبت علی الایام صرن لیالیا
صبر کے لئے کافی وَوافی ہے یو ں تو ہر شخص کو دنیا سے جانا ہے لیکن موت العالِم موت العالَم والدصاحب علیہ الرحمۃ پر صادق ہے اورایسی عبقری شخصیت کم پیدا ہوتی ہے آپ کو کیا تحریر کیاجائے کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کا مصداق ہے ۔
ماہنامہ آئینہ ٔ مظاہرعلوم حضرت مولانااطہر حسین ؒ کے کمالات،اوصاف ومحاسن اوران کی علمی وتدریسی خدمات کواہم دستاویز بنانا چاہتا ہے یہ معلوم ہوکرخوشی ہوئی اورامید بندھی کہ سابقہ خصوصی شمارے ’’فقیہ الاسلام نمبر‘‘ اور ’’محی السنۃ نمبر ‘‘کی طرح یہ شمارہ بھی اپنی افادیت سے بھرپورہوگا ۔
اللہ نے آپ جیسا عالم با عمل بیٹا نصیب فرمایا یہی ان کے صدقہ جاریہ کے لئے کافی ہے ،حق تعالیٰ اپنے شایانِ شان اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے ۔
یہ خبر سن کر مسرت ہوئی کہ آپ حضرات نے ماہنامہ آئینہ ٔ مظاہر علوم کے ذریعہ حضرت مولاناؒ کی شخصیت کو دستاویز کی شکل میںمحفوظ کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے ع۔ اللہ کرے زورِ قلم اورزیادہ ‘‘
مولاناکومظاہرعلوم سے جووالہانہ قلبی تعلق تھا اس کا اندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ مرکزی جمعیۃ علماء ہند میںآنے والے غیرملکی مہمانوں کوہندوستان کی روحانی وعرفانی خانقاہوں اوراداروں کی فہرست میں مظاہرعلوم کو بھی ضروریادرکھتے تھے چنانچہ انتقال سے صرف چندیوم قبل بھی ایک غیرملکی وفدکواپنے فرزندمولوی سہیل احمد کے ہمراہ مظاہرعلوم بھیجاتھا،اسی طرح مظاہرعلوم کے خزانے میں مولانااپنے توسط سے آئی ہوئی رقوم بھی جمع فرماتے رہتے تھے ۔
۱۴؍صفرالمظفر۱۴۳۰ھ مطابق ۹؍فروری ۲۰۰۹ء پیرکے دن مولانافضیل احمدقاسمیؒ کی زندگی کا۵۷سالہ سورج دہلی میں غروب ہوگیافاِناللّٰہ واِناالیہ راجعون۔
ان کے انتقال کی خبرکلفت اثرجیسے ہی یہاں مظاہرعلوم میں پہنچی تو رنج وغم کاماحول طاری ہوگیا،ناظم مدرسہ حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ نے فوری طورپرنمازجنازہ میں شرکت کے لئے مدرسہ کے دواساتذہ حضرت مولانانثاراحمدمظاہری اورحضرت مولانامحمدزکریاکیرانوی کودہلی بھیجااورعزیز ی مولوی سہیل احمدسلمہ کودرج ذیل تعزیتی مکتوب بھی ارسال کیا۔
’’قائد ملت حضرت مولانا فضیل احمد قاسمی بانی جنرل سکریٹری مرکزی جمعیۃ علماء ہند دہلی کے انتقال پرملال کی خبر کلفت اثرمعلوم ہوکر نہایت رنج وقلق ہوا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ورحمہ اللّٰہ رحمۃً واسعۃً۔
رنج وغم زندگی کا حصہ ہے ،ہر خوشی کے بعد پریشانی یقینی ہے، حیات ممات کا پیش خیمہ ہے ، رضا بالقضاہی ایمان کا تقاضاہے اورایسے افسوسناک حالات میں صبر جمیل کا درجہ اعلیٰ وارفع ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْت۔
حضور ا کاارشاد ہے عجباً للمومن ان اصابہ خیرحمداللّٰہ وشکر اللّٰہ وان ا صابتہ مصیبۃ حمد اللّٰہ وصبر فالمومن یؤجر فی کل امرہ یعنی تعجب ہے اس شخص پر اسے اگر بھلائی پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے اورشکر بجالاتاہے اوراگر مصیبت پہنچے تو بھی اللہ کی تعریف کرتا ہے اورصبر کرتا ہے پس مومن کو تو ہر کام میں اجر ملتا ہے ۔
ایک دوسرے موقع پر آپ ا نے ارشاد فرمایا فان العین دامعۃ والقلب مصاب والعہد قریبکہ اعزاء واقارب کی موت سے آنکھ روتی ہے اوردل غمزدہ ہوتا ہے کیونکہ تازہ تازہ موت کا سانحہ درپیش ہوتا ہے ۔
حضرت مولانا مرحوم کی ذات گرامی قحط الرجال کے اس دورمیںبساغنیمت تھی ،وہ اکابر علماء دیوبند کی فکر ومشرب کے علمبردار،بے لوث اورباکردارقائدین میں سے تھے ،دینی غیرت اورخدمت خلق کے جذبات ان کواپنے والد ماجد اوراہل خانہ کی آغوشِ تربیت سے ہی حاصل تھے ۔مولاناکی عظیم الشان ملی مذہبی اورسماجی خدمات ان کی بافیض شخصیت کی آئینہ دار ہیں،اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو قبول فرمائیں۔ ان کے انتقال پرملال سے امت اسلامیہ ایک بڑے رہنمااورعالم دین سے محروم ہوگئی۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے ان کے خلاء کو پر فرمادے اوران کے اہل خانہ ومتعلقین کو انہی کی طرح امت کے لئے نفع رسانی کاذریعہ بنائے ۔
مظاہر علوم (وقف) سہارنپورمیںمولانا موصوف کیلئے ایصال ثواب اوردعاء مغفرت کااہتمام کیاگیاہے ۔
اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ چین وسکون نصیب فرمائے اورجملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق ارزانی فرمائے ‘‘۔
اسی طرح حضرت ناظم صاحب مدظلہ نے مظاہرعلوم کے تمام مکاتیب میں حضرت مولانافضیل احمدصا حب مرحوم کیلئے قرآن خوانی اوردعاء مغفرت کاحکم جاری فرمایا۔
محی السنہ حضرت مولاناشاہ ابرارالحقؒ کے سانحہ ارتحال پرحضرت ناظم صاحب مدظلہٗ نے ماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم کا خصوصی شمارہ نکالنے کا فیصلہ کیااوردوردورتک اس کی اطلاعات پہنچنے لگیں تو حضرت مولانافضیل احمدقاسمی ؒنے ایک مکتوب ارسال فرمایاجس میں حضرت شاہ صاحبؒ کی شخصیت اورآئینہ مظاہرعلوم کی خصوصی اشاعت پرمبارکباد پیش کی ۔
برادر محترم مولانا محمدصاحب سعیدی زید لطفہ
(ناظم ومتولی مظاہر علوم وقف سہارنپور )
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
خدا کرے مزاج گرامی بخیر ہوں!آپ نے اُحب الصالحین کا عملی نمونہ پیش کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور حضرت ہردوئی کی حیات وخدمات پر مشتمل ’’آئینۂ مظاہر علوم‘‘کی خصوصی اشاعت منظر عام پر لارہے ہیں،اس خبر نے ہمیں بہت مسرور کیا ، مظاہر علوم وقف جیسے بین الاقوامی ادارہ کی جانب سے ایک بین الاقوامی روحانی پیشوا کی زندگی کے مثالی نمونوں کو نئی نسل کے لئے پیش کرنا چراغ روشن کرنا ہے اورفبہداہم اقتدہ کی دعوت دینا ہے ،قرآن کریم نے انبیاء کی زندگی کو واقعات وقصص کی شکل میں گلدستہ بنا کر پیش کیا اور گل چینی کی دعوت فبہداہم اقتدہ کے عالی فرمان کے ذریعہ دی ہے۔
اولیاء اللہ کی زندگیاں انبیاء کی پیروی واتباع میں گزرتی ہیں ،اسلئے سیرت رسول کے بعد خاموش مربی بزرگوں کی سوانح عمریاں ہیں،ابھی کچھ دن پہلے جب ہماری نگاہیں پورے بر صغیر میں کسی بزرگ کو ڈھونڈتیں تو حضرت ہردوئی پر جاکر ٹک جاتیں ،افسوس اب نگاہوں کا ایسا کوئی مرکز نہ رہا ،ہمیں امید ہے کہ حضرت کی خصوصیات وخدمات اور اعلیٰ صفات کا تذکرہ آپ کے خصوصی نمبر میں پڑھنے کو ملے گا ، ہمارے تو وہ سرپرست تھے ، ہر موقع پر انہوں نے ہمیں یاد رکھا ،آج ہم ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے میں کوشاں ہیں۔
حضرت کی بڑی خصوصیت امر بالمعروف اورنہی عن المنکر تھی وہ اس معاملہ میں کسی کی رعایت نہ فرماتے، دعوت ان کی پرحکمت ہوتی ،دل کی دنیا بدل جاتی ،کیفیات قلب میں تلاطم پیدا ہوتااور قلب جاری ہوجاتا،میں تو خردوں کا خرد ہوں مجھ پربھی بڑی عنایات رہتیں،حضرت والاہردوئیؒ جب دہلی تشریف لاتے تو شفقت فرماتے ، فون کرواتے اور ہم دعا کیلئے ،خدمت با برکت میں حاضر ہوجاتے۔
اللہ غریق رحمت کرے ہمیں ان کی ہدایات پر عمل کر نے کی تو فیق دے ،آپ کی مساعی کو قبول فرمائے اور اس خصوصی اشاعت کو شرف قبولیت ومقبولیت سے نوازے۔لعل اللّٰہ یرزقنا صلاحا ‘‘
اللہ تعالیٰ مولاناکوکروٹ کروٹ چین سکون نصیب فرمائے ،ان کے درجات کو بلندفرمائے اوراپنی خوشنودی عطافرمائے۔
زندگی کی رنگینیاں،بچپن کی رعنائیاں،شباب کی جولانیاں اوربڑھاپے کی نیرنگیاں انسان کو سکون ملنے نہیں دیتیں،ایک بچہ جب ہوش سنبھالتاہے تو اس کے والدین خوش ہوجاتے ہیں کہ اب میرابچہ اتنے سال کا ہوگیاہے ،والدین یہ بھول جاتے ہیںکہ میرے بچے کی طبعی عمرمیں سے اتنے سال کم ہوچکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا یہ نظام قدرت ہے،اس نے ایک باغ کی ویرانی کے پیچھے دوسرے باغ کی تیاری کا پلان بنایاہواہے،خزاں کے بعدربیع اورربیع کے بعدخزاں،عسرکے بعدیسراوریسرکے بعدعسر،دنیوی زندگی کے ساتھ موت اورموت کے ساتھ اخروی زندگی،خوشیوں کے ساتھ غم اورغموں کے ساتھ خوشی ایک اٹل قدرتی نظام ہے جس میں لیل ونہارکی گردشیں حبہ برابرفرق نہیں کرسکے،سائنس اورجدیدٹیکنالوجی سے آراستہ وپیراستہ دماغوں نے ہزاروںبارخداکے اس نظام میں دخل اندازی کی کوششیں کیں اورناکام ونامراد ہوگئے۔
اللہ کی سرزمین پر اللہ کے برگزیدہ ولی؛ اگردیکھاجائے توعالم رنگ وبومیں اسی طائفہ کی وجہ سے خوشیوں کے کنول کھلتے ہیں،غورکیاجائے تواسی طبقہ کی وجہ سے عوام اورخواص زندگی کی صحیح سمتوں اورجہتوں پرگامزن ہوکراپنی دنیوی اوراخروی سعادتوں کاذخیرہ فراہم کرتے ہیں اوران ذاکرین وشاغلین کے باعث کائنات میں رنگ اورحیات انسانی میں ترنگ باقی ہے۔
راقم الحروف کے ہاتھوں نے بے شمارلوگوں کے سچے اوراچھے حالات زندگی لکھے،ان گنت افرادوشخصیات کے شذرات تحریرکئے، بہت سے عارفین وکاملین کی زندگی کے قابل تقلیدموتی ان کے مریدین ومتوسلین تک پہنچانے کی باربارکوششیں کیں اوربارباراللہ کے دوستوں کی رحلت پر(یہ معلوم ہونے کے باوجودکہ موت ایک اٹل سچائی ہے)آنکھوں نے اشکوں کے ذریعہ خراج عقیدت پیش کیا۔
حضرت مولانافضیل احمدقاسمی ؒ صرف مرکزی جمعیۃ علماء ہندکے سکریٹری جنرل ہی نہیں تھے بلکہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کورٹ کے ممبراورجامعہ اردوعلی گڑھ کے چانسلربھی تھے ،ان کے زیراہتمام وانتظام سیکڑوں دینی مدارس اورمکاتب قائم تھے۔
ان کے قابل قدرکارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں مکاتب دینیہ کاقیام،بیواؤں اورغریبوں کا تعاون،مساجدکی تعمیرات، افرادسازی،ملک وملت اورسماج ومعاشرہ کیلئے ان کی جدوجہد،ملکی اورغیرملکی دعوتی اسفار،مرکزی دینی مدارس سے نیازمندانہ تعلقات، برگزیدہ شخصیات سے عقیدت مندانہ روابط اورمرکزی جمعیۃ میں آنے جانے والے مہمانوں کے آرام واکرام کاخیال بعض ایسے روشن گوشے ہیں جن پربہت کچھ لکھاجا سکتا ہے۔
مظاہرعلوم سہارنپوراوراس کے اکابربالخصوص شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریا مہاجرمدنیٔ، فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین اجراڑویؒ ٔاورشیخ الادب حضرت مولانااطہرحسینؒ سے ان کے نیازمندانہ تعلقات استوارتھے،موخرالذکردونوں شخصیات سے حضرت مولانافضیل احمدقاسمی کو جوتعلق تھااس کو راقم السطورنے باربار دیکھااوردہلی مرکزی جمعیۃ کے دفترمیں جب بھی جاناہواتومولانانے مظاہرعلوم کے حالات اوراِن دونوں شخصیات کی خیرخیریت ضرورمعلوم کی۔
وہ جب کبھی فرصت میں ہوتے توتفصیل سے مظاہرعلوم کے حالات بتلاتے،یہ بھی بتاتے کہ حضرت مفتی مظفرحسینؒ کو کس طرح ان ہی کے شاگردوں اورپروردہ لوگوں نے ستایاتھا،کس طرح مفتی صاحب کو مظاہرعلوم سے ہٹانے اوردبانے کی کوششیں کی گئیں تھیں،پھران تخریب کاریوں کا مفتی صاحب نے کس ثابت قدمی اورجرأت مندی کے ساتھ مقابلہ کیاتھا اورمخالفین ومعاندین کوکس طرح شکست وہزیمت سے دوچارہونا پڑا تھا ۔ اس پوری تفصیل میں مولانافضیل احمدصاحبؒ اپنے کرداراوراپنی خدمات کو بالکل نظراندازکردیتے تھے اور استفسارپرپھرایک لمبی چوڑی تفصیل بیان کرتے ،جس کوسن کرتعجب ہوتاتھاکہ مولانااتنے بڑے تن وتوش کے مالک ہیں پھر بھی اس قدرفعال اورمتحرک کہ نوجوانوں کو بھی رشک آئے۔
خودمولانافضیل احمدصاحب قاسمی کو بھی مختلف مصائب اورآزمائشوں سے گزرناپڑا،ایک عرصہ تک انہوں نے جمعیۃ علماء ہندمیں خدمات انجام دیکربڑوں کی حوصلہ افزائیوں سے سرفرازہوئے،لیکن اس ناسوتی دنیامیں ایک عجیب وغریب بیماری’’حسد‘‘ہے جس کی جڑیں بہت ہی مضبوط ہیں،یہاں ناکاروں کی پیٹھ تھپتھپائی جاتی ہے اورکارآمدلوگوں کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں کی جاتی ہیں،اپنے منصب اوراقتدارکوبچانے کے لئے خداجانے کتنی زندگیوں کوداؤپرلگادیاجاتاہے،کتنی صلاحیتوں کوزنگ لگاکرناکارہ بنادیاجاتاہے،کتنے دماغوں کومثبت کے بجائے منفی ڈگرپرڈال کرخوشیاں منائی جاتی ہیں۔
مولانابھی اچھی صلاحیتوں کے مالک،فہم وفراست اوربہترین دماغ رکھتے تھے ،ان کی فعالیت اورشبانہ روزمحنت سے دین کے ہمدردوں کوتوخوشی ہورہی تھی لیکن اقتدارکے لالچیوں کومولاناکی یہ محنتیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔نتیجہ وہی ہواجوعام طورپراس دنیامیں ہوتاہے ،تالاب سے گندی مچھلیاں نہیں نکالی جاتیں بلکہ اچھی مچھلیاں نکال کرجی خوش کیاجاتاہے،حضرت مولانافضیل احمدقاسمی نے حالات کودیکھ پرکھ کرایک نعرۂ مستانہ لگایاکہ
میں آشیاں خودہی پھونک لوں گا نزول برق وشررسے پہلے
مولانانے بلاکسی نزاع کے خاموشی کے ساتھ جمعیۃ سے الگ ہوکراپنامیدان بنایا،مولانانے اپنی جمعیۃ بھی ایسی جگہ بنائی جہاں پہنچانے کے لئے لوگ ایک دوسرے کے درپے رہتے ہیں ،جہاں پہنچاکرطاغوت کوخوشی ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے مولاناکوجوفہم عطافرمایاتھا اس فہم کے باعث مولانانے پہلے ہی اس حصۂ زمین کو منتخب کیاجس کو قبرستان کہاجاتاہے اوراخیرتک اسی خطۂ ارضی سے دینی،ملی،سیاسی اورسماجی جوبھی تعلیمی وتعمیری کام مولاناکرناچاہتے تھے اورپہلے نہیں کرپارہے تھے ان کوپایہ تکمیل تک پہنچاکرروح کو سکون پہنچایااورعوام وخواص نے مولاناکی خدمات کو قدرکی نگاہوں سے دیکھا۔
ایک بارحاضرخدمت ہواکہنے لگے آئینہ مظاہرعلوم میں یہودیوں کی ایک تنظیم ’’فری میسن‘‘کے بارے میں تم نے بڑااچھاسلسلہ شروع کیاہے،حقیقت یہی ہے کہ آج پورے عالم اسلام کوسب سے زیادہ یہودیوں سے نقصان پہنچ رہاہے، علماء کو اس سلسلہ میں عملی اقدام کرناچاہئے اوراپنے مدارس میں طلبہ کو اس مذہب کی تخریب کاریوں اورمنصوبہ بندیوں سے آگاہ کرناچاہئے۔پھر کہنے لگے برصغیرکے مسلمان اگریہ چاہیں کہ علماء کے بغیرسارے دینی امورطے پاجائیں توناممکن ہے،اسی طرح اگرہندویہ سوچنے لگیں کہ وہ پنڈتوں کی شرکت کے بغیرکوئی دھارمک کام انجام دے لیں گے تویہ بھی خام خیالی ہے…اورجب راقم الحروف نے واپسی کی اجازت چاہی توفرمایاکہ یہودیوں کی تحریک اورمشن سے طلبہ اورعوام کوہوشیاراورخبردارکرتے رہنا۔
مولانامرحوم کا دسترخوان ان کے تن وتوش کی طرح بہت وسیع تھا ،مہمانوں کا اکرام اوران کی ضیافت کیسے کی جاتی ہے اس بارے میں مولانامثالی نمونہ تھے۔رمضان المبارک کے موقع پرتواعلیٰ سطح پرعوام وخواص کیلئے افطار وسحرکامعیاری نظم فرماتے تھے ۔
مولانانے مظاہرعلوم کے موقف ’’وقف علی اللہ‘‘کی بھرپورحمایت کی تھی،حضرت مفتی مظفرحسینؒ کے شانہ بشانہ بھی وہ کسی لالچ اورکسی مفادکی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے موقف کی صداقت کے باعث قریب ترین افرادمیں سے ہوگئے تھے۔
۲۸؍رمضا ن المبارک ۱۴۲۴ھ کو جب حضرت مفتی صاحبؒ کا وصال ہواتومولانااس وقت انگلینڈکے سفرپرتھے،حضرت مفتی صاحب ؒکے انتقال کی خبرجنگل کی آگ کی طرح اچانک پھیل گئی ،افریقہ کے ایک اردوچینل نے حضرت مفتی صاحب ؒکے انتقال کی خبربھی نشرکردی،بہرحال حضرت مولانافضیل احمدقاسمی کو جب مفتی صاحب کے انتقال کی خبرملی تواتنی جلدجنازہ میں شرکت کے لئے پہنچناناممکن تھااور جنازہ میں تاخیرشرعاً غلط ہے اس لئے مولانانے وہاں اپنے حلقہ میں حضرت مفتی صاحب کیلئے قرآ ن خوانی اوردعاء مغفرت کا اہتمام کرایا،جگہ جگہ مفتی صاحب کے متعلقین اورمظاہرعلوم کے ہمدردان کوفون کرکے دعاء مغفرت کی اپیل کی اور جانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہٗ کے نام اپنے تعزیتی مکتوب میں حضرت مفتی صاحبؒ سے تعلقات اورعقیدت مندی کے جذبات کو یوں تحریرفرمایا:
’’ حضرت اقدس مفتی صاحبؒ کے انتقال کی خبر نے ہزاروں متعلقین متوسلین کے دلوںپربجلی گرادی ساراماحول سوگوارہوگیااناللّٰہ وانا الیہ راجعون ۔
یہ ایسی روح فرساخبر تھی کہ سارابرطانیہ ،افریقہ ،کناڈاجہاں جہاں فون پراطلاع دی لوگ حیرت میں پڑگئے ، اکثرمساجد مدارس میں اب تک دعائیں اورایصال ثواب کی مجلسیں ہورہی ہیں ،برطانیہ میں برماکے فضلاء جو حضرت سے متعلق تھے ،مسلسل ختم شریف وغیرہ کررہے ہیں ، میرا حال تو اب تک خراب ہے سوچتا ہوں تو کلیجہ منھ کو آتا ہے کہ دنیا میں اب ہماراایسا سرپرست جو ہر غم وخوشی کا سہاراہو نہ رہا ‘‘۔
مظاہرعلوم میںحضرت مفتی صاحبؒ کی خدمت میں بارہاحاضرہوتے،مظاہرعلوم سے متعلق اپنے نیک مشورے بھی عرض کرتے اوراپنے لئے حضرت مفتی صاحب کی مشفقانہ نصیحتوں کو حرزجان بناتے ۔اسی طرح مظاہرعلوم کے اہم اجتماعات اورخصوصی پروگراموں میں بھی مولاناضرورتشریف لاتے تھے اوراپنے تاثرات کا بھی اظہارفرماتے تھے چنانچہ حضرت مفتی مظفرحسینؒ کے بارے میں یہاں تعزیتی اجلاس میں مولانانے اپنی رقت آمیزتقریرمیں حضرت مفتی صاحبؒ کی خدمات اورکارناموں پرتفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی تھی۔
اسی طرح حضرت فقیہ الاسلام ؒکے برادراصغرشیخ الادب حضرت مولانااطہرحسینؒ کے وصال پرناظم مدرسہ حضرت مولانا محمدسعیدی مدظلہٗ کے نام مولانامرحوم نے جومکتوب ارسال فرمایاتھااس میں گویامولانانے اپنادل کھول کررکھ دیا تھا،مولانامحمدسعیدی کوصبرکی تلقین،حضرت مولانااطہرحسینؒ کی عبقری شخصیت کی عظمتوں کا اعتراف اورماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم کی خصوصی اشاعت کے بارے میں اپنے قلبی تاثرات کا بھرپوراظہاران لفظوں میں فرمایاتھا
’’عارف باللہ حضرت مولانا اطہر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اچانک انتقال سے سخت صدمہ ہوا ، اناللّٰہ وانا الیہ راجعون !
اس صدمہ سے میں بھی گذر چکا ہوں یہ حقیقت ہے کہ حق تعالیٰ ہی آزماتے ہیں اور وہی صبر کی توفیق بھی دیتے ہیں ورنہ انسان کی کیا مجال ،اس سلسلہ میں فاطمۃ الزہرا کے مرثیہ کامصرعہ ۔
صبت علی مصائب لوانھا
صبت علی الایام صرن لیالیا
صبر کے لئے کافی وَوافی ہے یو ں تو ہر شخص کو دنیا سے جانا ہے لیکن موت العالِم موت العالَم والدصاحب علیہ الرحمۃ پر صادق ہے اورایسی عبقری شخصیت کم پیدا ہوتی ہے آپ کو کیا تحریر کیاجائے کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کا مصداق ہے ۔
ماہنامہ آئینہ ٔ مظاہرعلوم حضرت مولانااطہر حسین ؒ کے کمالات،اوصاف ومحاسن اوران کی علمی وتدریسی خدمات کواہم دستاویز بنانا چاہتا ہے یہ معلوم ہوکرخوشی ہوئی اورامید بندھی کہ سابقہ خصوصی شمارے ’’فقیہ الاسلام نمبر‘‘ اور ’’محی السنۃ نمبر ‘‘کی طرح یہ شمارہ بھی اپنی افادیت سے بھرپورہوگا ۔
اللہ نے آپ جیسا عالم با عمل بیٹا نصیب فرمایا یہی ان کے صدقہ جاریہ کے لئے کافی ہے ،حق تعالیٰ اپنے شایانِ شان اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے ۔
یہ خبر سن کر مسرت ہوئی کہ آپ حضرات نے ماہنامہ آئینہ ٔ مظاہر علوم کے ذریعہ حضرت مولاناؒ کی شخصیت کو دستاویز کی شکل میںمحفوظ کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے ع۔ اللہ کرے زورِ قلم اورزیادہ ‘‘
مولاناکومظاہرعلوم سے جووالہانہ قلبی تعلق تھا اس کا اندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ مرکزی جمعیۃ علماء ہند میںآنے والے غیرملکی مہمانوں کوہندوستان کی روحانی وعرفانی خانقاہوں اوراداروں کی فہرست میں مظاہرعلوم کو بھی ضروریادرکھتے تھے چنانچہ انتقال سے صرف چندیوم قبل بھی ایک غیرملکی وفدکواپنے فرزندمولوی سہیل احمد کے ہمراہ مظاہرعلوم بھیجاتھا،اسی طرح مظاہرعلوم کے خزانے میں مولانااپنے توسط سے آئی ہوئی رقوم بھی جمع فرماتے رہتے تھے ۔
۱۴؍صفرالمظفر۱۴۳۰ھ مطابق ۹؍فروری ۲۰۰۹ء پیرکے دن مولانافضیل احمدقاسمیؒ کی زندگی کا۵۷سالہ سورج دہلی میں غروب ہوگیافاِناللّٰہ واِناالیہ راجعون۔
ان کے انتقال کی خبرکلفت اثرجیسے ہی یہاں مظاہرعلوم میں پہنچی تو رنج وغم کاماحول طاری ہوگیا،ناظم مدرسہ حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ نے فوری طورپرنمازجنازہ میں شرکت کے لئے مدرسہ کے دواساتذہ حضرت مولانانثاراحمدمظاہری اورحضرت مولانامحمدزکریاکیرانوی کودہلی بھیجااورعزیز ی مولوی سہیل احمدسلمہ کودرج ذیل تعزیتی مکتوب بھی ارسال کیا۔
’’قائد ملت حضرت مولانا فضیل احمد قاسمی بانی جنرل سکریٹری مرکزی جمعیۃ علماء ہند دہلی کے انتقال پرملال کی خبر کلفت اثرمعلوم ہوکر نہایت رنج وقلق ہوا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ورحمہ اللّٰہ رحمۃً واسعۃً۔
رنج وغم زندگی کا حصہ ہے ،ہر خوشی کے بعد پریشانی یقینی ہے، حیات ممات کا پیش خیمہ ہے ، رضا بالقضاہی ایمان کا تقاضاہے اورایسے افسوسناک حالات میں صبر جمیل کا درجہ اعلیٰ وارفع ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْت۔
حضور ا کاارشاد ہے عجباً للمومن ان اصابہ خیرحمداللّٰہ وشکر اللّٰہ وان ا صابتہ مصیبۃ حمد اللّٰہ وصبر فالمومن یؤجر فی کل امرہ یعنی تعجب ہے اس شخص پر اسے اگر بھلائی پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے اورشکر بجالاتاہے اوراگر مصیبت پہنچے تو بھی اللہ کی تعریف کرتا ہے اورصبر کرتا ہے پس مومن کو تو ہر کام میں اجر ملتا ہے ۔
ایک دوسرے موقع پر آپ ا نے ارشاد فرمایا فان العین دامعۃ والقلب مصاب والعہد قریبکہ اعزاء واقارب کی موت سے آنکھ روتی ہے اوردل غمزدہ ہوتا ہے کیونکہ تازہ تازہ موت کا سانحہ درپیش ہوتا ہے ۔
حضرت مولانا مرحوم کی ذات گرامی قحط الرجال کے اس دورمیںبساغنیمت تھی ،وہ اکابر علماء دیوبند کی فکر ومشرب کے علمبردار،بے لوث اورباکردارقائدین میں سے تھے ،دینی غیرت اورخدمت خلق کے جذبات ان کواپنے والد ماجد اوراہل خانہ کی آغوشِ تربیت سے ہی حاصل تھے ۔مولاناکی عظیم الشان ملی مذہبی اورسماجی خدمات ان کی بافیض شخصیت کی آئینہ دار ہیں،اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو قبول فرمائیں۔ ان کے انتقال پرملال سے امت اسلامیہ ایک بڑے رہنمااورعالم دین سے محروم ہوگئی۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے ان کے خلاء کو پر فرمادے اوران کے اہل خانہ ومتعلقین کو انہی کی طرح امت کے لئے نفع رسانی کاذریعہ بنائے ۔
مظاہر علوم (وقف) سہارنپورمیںمولانا موصوف کیلئے ایصال ثواب اوردعاء مغفرت کااہتمام کیاگیاہے ۔
اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ چین وسکون نصیب فرمائے اورجملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق ارزانی فرمائے ‘‘۔
اسی طرح حضرت ناظم صاحب مدظلہ نے مظاہرعلوم کے تمام مکاتیب میں حضرت مولانافضیل احمدصا حب مرحوم کیلئے قرآن خوانی اوردعاء مغفرت کاحکم جاری فرمایا۔
محی السنہ حضرت مولاناشاہ ابرارالحقؒ کے سانحہ ارتحال پرحضرت ناظم صاحب مدظلہٗ نے ماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم کا خصوصی شمارہ نکالنے کا فیصلہ کیااوردوردورتک اس کی اطلاعات پہنچنے لگیں تو حضرت مولانافضیل احمدقاسمی ؒنے ایک مکتوب ارسال فرمایاجس میں حضرت شاہ صاحبؒ کی شخصیت اورآئینہ مظاہرعلوم کی خصوصی اشاعت پرمبارکباد پیش کی ۔
برادر محترم مولانا محمدصاحب سعیدی زید لطفہ
(ناظم ومتولی مظاہر علوم وقف سہارنپور )
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
خدا کرے مزاج گرامی بخیر ہوں!آپ نے اُحب الصالحین کا عملی نمونہ پیش کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور حضرت ہردوئی کی حیات وخدمات پر مشتمل ’’آئینۂ مظاہر علوم‘‘کی خصوصی اشاعت منظر عام پر لارہے ہیں،اس خبر نے ہمیں بہت مسرور کیا ، مظاہر علوم وقف جیسے بین الاقوامی ادارہ کی جانب سے ایک بین الاقوامی روحانی پیشوا کی زندگی کے مثالی نمونوں کو نئی نسل کے لئے پیش کرنا چراغ روشن کرنا ہے اورفبہداہم اقتدہ کی دعوت دینا ہے ،قرآن کریم نے انبیاء کی زندگی کو واقعات وقصص کی شکل میں گلدستہ بنا کر پیش کیا اور گل چینی کی دعوت فبہداہم اقتدہ کے عالی فرمان کے ذریعہ دی ہے۔
اولیاء اللہ کی زندگیاں انبیاء کی پیروی واتباع میں گزرتی ہیں ،اسلئے سیرت رسول کے بعد خاموش مربی بزرگوں کی سوانح عمریاں ہیں،ابھی کچھ دن پہلے جب ہماری نگاہیں پورے بر صغیر میں کسی بزرگ کو ڈھونڈتیں تو حضرت ہردوئی پر جاکر ٹک جاتیں ،افسوس اب نگاہوں کا ایسا کوئی مرکز نہ رہا ،ہمیں امید ہے کہ حضرت کی خصوصیات وخدمات اور اعلیٰ صفات کا تذکرہ آپ کے خصوصی نمبر میں پڑھنے کو ملے گا ، ہمارے تو وہ سرپرست تھے ، ہر موقع پر انہوں نے ہمیں یاد رکھا ،آج ہم ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے میں کوشاں ہیں۔
حضرت کی بڑی خصوصیت امر بالمعروف اورنہی عن المنکر تھی وہ اس معاملہ میں کسی کی رعایت نہ فرماتے، دعوت ان کی پرحکمت ہوتی ،دل کی دنیا بدل جاتی ،کیفیات قلب میں تلاطم پیدا ہوتااور قلب جاری ہوجاتا،میں تو خردوں کا خرد ہوں مجھ پربھی بڑی عنایات رہتیں،حضرت والاہردوئیؒ جب دہلی تشریف لاتے تو شفقت فرماتے ، فون کرواتے اور ہم دعا کیلئے ،خدمت با برکت میں حاضر ہوجاتے۔
اللہ غریق رحمت کرے ہمیں ان کی ہدایات پر عمل کر نے کی تو فیق دے ،آپ کی مساعی کو قبول فرمائے اور اس خصوصی اشاعت کو شرف قبولیت ومقبولیت سے نوازے۔لعل اللّٰہ یرزقنا صلاحا ‘‘
اللہ تعالیٰ مولاناکوکروٹ کروٹ چین سکون نصیب فرمائے ،ان کے درجات کو بلندفرمائے اوراپنی خوشنودی عطافرمائے۔