حضرت مولانامحمداسعداللہ رام پوری

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانامحمداسعداللہ رام پوری
ناصرالدین مظاہری
حضرت مولانا محمد اسعد اللہ صاحب رام پور یؒ نامورعلماء میں سے تھے،عقلی اورنقلی علوم پرمہارت تامہ رکھتے تھے ،قرآن کریم اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھی انگریزی تعلیم ایک عصری درسگاہ میں حاصل کی ۔
پھر اپنے ماموں اوررشتہ دارشیخ حکیم محمدفضل اللہ کے ہمراہ تھانہ بھون تشریف لے گئے ،وہاں آپ نے عربی کتب کے علاوہ مشکوۃ المصابیح کاکچھ حصہ حضرت مولانا عبد اللہ گنگوہی ؒسے، ترجمۂ قرآن اورمشکوۃ کا اکثرحصہ حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒؒ سے پڑھا ،آپ نے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور حضرت مولانا شبیر علی تھانویؒ سے بھی علم حاصل کیا تھا،پھر۱۳۳۳ھ میں مظاہر علوم میں داخل ہوئے اور یہاں کے نصاب کے مطابق تعلیم مکمل کی ،۱۳۳۶ھ میں فارغ ہوئے ۱۳۳۷ھ میں معین مدرس مقررہوئے، آئندہ سال مستقل استاذ منتخب ہوگئے ،چنانچہ آپ نے معقولات ومنقولات کی مختلف کتابوںکا درس دیا۔ حدیث شریف میںترمذی ،نسائی ،مسلم، طحاوی اور ابوداؤد شریف آپ کے زیر درس رہیں ۔
حضرت مولانااطہرحسینؒ نے مولانا موصوف سے ۱۳۸۳ھ میں سنن نسائی ،شرح معانی الآثار ،بخاری شریف کا کچھ حصہ ،مسلسل باالشعراورتصریح پڑھی ہیں۔
آپ ؒتصریح کادرس بعد نماز فجردیتے تھے، حکیم الامت حضرت تھانوی کے دست حق پر بیعت ہوئے اور ان سے خوب فیض حاصل کیا ،حضرت مولانامحمد اسعداللہ صاحب علوم میں ماہر ،فلسفہ ،ریاضت،ہیئت ، تفسیر، حدیث مناظرہ اوربحث وغیرہ میں ملکہ خصوصی رکھتے تھے ۔
آپؒ نہایت ذکی وذہین ،ٹھوس طبیعت ،پختہ استعداد، کثیرالمطالعہ ،خوبصورت ،نیک سیرت کریم الطبع، بااخلاق ،نرم دل، متقی پرہیز گار ،دین پر ڈٹے اور جمے رہنے والے ،بدعات ومنکرات سے نفرت کرنے والے ، بالخصوص غیبت اور ایذا ء سے دور، ذکروعبادت اور تہجد کے پابند، غایت درجہ محتاط بالخصوص معاملات میں حددرجہ احتیاط رکھتے تھے۔
آپؒ کوادب سے خصوصی لگاؤ اور ددلچسپی تھی ،نظم ونثر یکساں قدرت رکھتے تھے ،عربی ،فارسی اوراردو زبان کے ماہر اور اِن زبانوںمیں شعر گوئی اور نثر نگاری پربھی دسترس رکھتے تھے۔
آپ کی مجلس میں اہل علم کثرت سے حاضرہوتے ،وقت کے بڑے بڑے شعراء بارگاہ اسعدمیں اپناکلام پیش کرکے تصدیق وتائیدکے منتظرنظرآتے۔
معاصر ممتاز شعراء نے آپ کی رفعت ومنزلت اور شعروادب میں تفوق وبرتری کااعتراف کیاہے،آپ کی خدمت بابرکت میں عموماً ممتاز شعراء اور ادباء حاضر ہوکر فیضیاب ہوتے تھے،حضرت جگر مرادآباد ی،حضرت تسکین قریشی میرٹھی وغیرہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ۔
آپ نے دعوت وتبلیغ اورعلم کی نشرواشاعت کے لئے مختلف سفر بھی فرمائے ،چنانچہ میرٹھ ،راجپوتانہ، اکبرآباد، الہ آباد ،متھراوغیرہ میں مسلمانوں میں ارتداد کے پھیلنے کے باعث نہ صرف سفر فرمائے بلکہ دعوت وتبلیغ کا حق ادا فرمایا ،اسی طرح آپ ؒ نے کفار اوراغیارکے گڑھ میں کامیاب مناظرے کرکے اپنی علمیت ،مہارت اور صلاحیت سے کفار کو دندان شکن جواب دیکر خاموش کیا ،یہاں تک کہ بہت سے لوگ تائب ہوئے اور بہت سوں کواسلام میں داخل ہونے کی توفیق ہوئی،جالندھر تشریف لے گئے اور وہاں۱۳۴۸ھ میں قادیانیوں سے مناظرہ کیا اس کے علاوہ بھی آپ نے مناظرے کئے۔۱۳۴۸ھ میں برماتشریف لے گئے وہاں مدرسہ راندیریہ کے مہتمم ہوئے اوراپنی ذات گرامی ،صحبت ،وعظ اور تذکیر سے عوام کو فیضیاب کیا ،پھر ۱۳۵۴ ھ میں حرمین شریفین جاکر حج وزیارت سے مشرف ہوئے ،۱۳۵۶ھ تک آپ برمامیں تشریف فرمارہے پھرمظاہرعلوم واپس تشریف لائے اور درس وتدریس میں مشغول ہوگئے ۔۱۳۷۳ھ میں ناظم مقرر ہوئے اور پوری زندگی درس وتدریس سے وابستہ رہے ،آپ نے اپنے فیوض وبرکات سے طلبہ اور مسترشدین کو خوب فیضیاب کیا ،آپ ؒ چاروںسلسلوں میں بیعت فرماتے تھے۔
آپ کے خلفاء بھی خدمت دین اور سلوک وطریقت میں مصروف رہے جن میں حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ مفتی جامعہ اشرفیہ لاہور ،حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندویؒ حضرت مولانا مفتی مظفرحسین اجراڑوی ؒحضرت مولاناشیخ محمد یونس جون پوری مدظلہ وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
آپ کی تصانیف میں اسعاد النحو ،اسعاد الطالبین القطائف من اللطائف،تحفۃ الحقیرۃفی نسبۃ سبع عشرۃ ،مسالمۃ شرح مکالمۃ نیز آپ کے مکتوبات کا مجموعہ ’’صحائف اسعد ‘‘ جو جگرمرادآبادی کے مکتوبات کیساتھ طبع ہوچکا ہے،آپ کا ایک دیوان اردوزبان میں بھی ہے،رجب ۱۳۹۹ھ میں وفات پائی ۔
 
Last edited by a moderator:

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ ۔ ۔ جناب عالی آپ الغزالی پہ علماء امت کا تعارف کروا ہیں دل خوش ہوجاتا ان ہستیوں کے بارے میں پڑھ کر
جزاک اللہ خیرا ۔ ۔ ۔ ۔
 

zakwan

وفقہ اللہ
رکن
اس شانداراورجاندارشیرنگ کے لئے بہت بہت مبارک بادقبول فرمائیں۔اللہ ہمیں عمل کی توفیق بخشے۔
 
Top