]شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضوی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضوی
ناصرالدین مظاہری
عالم جلیل ،فقیہ نبیل ،استاذالاساتذہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدعبد اللطیف پورقاضوی نے حفظ قرآن کی تکمیل اپنے وطن پورقاضی میں کی ،فارسی کتب اپنے والد ماجد حضرت مولانا جمعیت علی صاحبؒ کے پاس بھاولپور میں پڑھیں پھر ۱۳۱۵ھ میں مظاہر علوم میں داخلہ لیکر یہاں کے شیوخ اساتذہ اورکبار مدرسین سے مختلف علوم حاصل کئے ۔
چنانچہ حدیث شریف حضرت مولانا مفتی عنایت الٰہی ،حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہار نپو ر ی ؒ اور اپنے چچا حضرت مولانا ثابت پورقاضوی ؒسے پڑھی اور حدیث شریف میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے حتی کہ آپ کی لیاقت وصلاحیت کی اس سال کے امتحان میں آپ کی تعریف کی گئی کہ آپ جید الاستعداد،علم کیلئے کوشاں ، فقہ پر خصوصی درک اوررسوخ اوریہ کہ کسی بھی فن کی کتاب ہوآپ اس کو کما حقہ پڑھانے کی لیاقت اورصلاحیت رکھتے ہیں۔
اسی سال آپ کو معین مدرس مقر ر کیا گیاچنانچہ آپ نے تدریس کا حق اداکردیا آپ کے درس کی اہمیت اور افادیت سے دوسرے بھی متاثر ہوئے ،طلبہ میں آپ کے درس کو قبول عام حاصل ہوا ،یہاں تک کہ مختلف تدریجی ترقیات کے بعد ۱۳۲۱ھ میں آپ کوبخاری شریف اور ترمذی شریف جیسی اہم کتابیں پڑھانے کوملیں ۱۳۴۴ھ میں ناظم مدرسہ منتخب ہوئے ،چنانچہ تدریس کے ساتھ ساتھ آخرحیات تک ناظم مدرسہ بھی رہے۔
آپؒ کامعمول تھا کہ بخاری جلد اول کتاب العلم تک اور بخاری شریف جلد ثانی کاکچھ حصہ پڑھاتے تھے باقی حصہ دوسرے اساتذہ پڑھاتے تھے لیکن ۱۳۷۳ھ سے آپ کے اس معمول میں تبدیلی ہوگئی کیونکہ آپ مختلف امراض واسقام اورضعف وپیرانہ سالی کے باعث معذور ہوگئے تھے ،جس سے آپ نے بخاری شریف کے شروع کے کچھ ابواب اور جلد ثانی کا اکثر حصہ پڑھایاتھا ،اس کا کچھ حصہ حضرت مولانا محمد اسعد اللہ صاحب ؒ اورمفتی سعید احمدؒ نے اور کچھ حصہ حضرت مولانا محمد زکریا ؒ نے پڑھایا ،اس کتاب کے ختم کا آپ کے پاس شروع ہی سے معمول تھااور یہ آپؒ کی زندگی کا آخری درس تھا،اس کے بعد درس وتدریس آپ کے لئے آسان نہ رہا۔
بڑے بڑے صاحبان علم وتصوف تشریف فرماتھے،حضرت مولاناعبداللطیفؒ کی پیرانہ سالی،ضعف ونقاہت اورکمزوری ومعذوری اپنی انتہاکوپہنچی ہوئی تھی اور صاحبان بصیرت نے اندازہ لگالیاتھاکہ اب حضرتؒ چراغ سحری ہوچکے ہیں اورزندگی کی کشتی منزل پرپہنچنے ہی والی ہے ،حضرت مولانامحمداسعداللہ ؒ نے بھی اپنی ایمانی بصیرت اورمؤمنانہ فراست سے اس کو محسوس فرمالیااورنہایت ہی رقت کے ساتھ یہ شعرپڑھا
دورمیں ساغررہے،گردش میں پیمانہ رہے
میکشوں کے سرپہ یارب پیرمیخانہ رہے
یہ سن کرحضرت شیخ الاسلامؒ پرگریہ وزاری طاری ہوگئی یہاں تک کہ آواز بلند ہوگئی اہل مجلس کے قلوب دہل گئے اورحاضرین مجلس اورموجود ین کے قلوب پر عجیب وغریب تاثیر اور رقت طاری ہوگئی۔
آپ کا حلقۂ درس نہایت مشہور ومعروف تھا یہی وجہ ہے کہ علماء اوراساتذہ ٔحدیث کی ایک بڑی تعداد مظاہر علوم میں آپ کے پاس خصوصیت سے استفادہ کیلئے حاضر ہوتی تھی، آپ کاچشمۂ علم وعرفاں اور فیضان جلیل ملک اورملک سے باہر بخاریٰ ،افغانستان ،برما،پاکستان ،سعودی عرب اوردیگر ممالک تک پہنچ گیا تھا۔
آپؒنہایت فقیہ ،متبحر،وسیع النظر،دقیق الفکر،اصول وفروع کے ماہرتھے،فتاویٰ اپنے اسلاف کے طریق پرلکھتے اورنہایت ضبط وتدبر اور حزم واحتیاط سے کام لیتے تھے،مدرسہ سے جو اہم فتاویٰ صادر ہوتے تھے اجراء سے پہلے نظر ثانی اور تصحیح کے لئے آپ کی خدمت میں پہنچتے تھے۔
حضرت مولانا مرحوم طلبہ اوراساتذہ سبھی کے مرجع تھے ،اہم اورمشکل مسائل میں آپ سے رجوع کرتے تھے اور سبھی آپ سے مستفیدہوتے تھے ،آپ نہایت ہی ذکی وذہین ،صاف دل ،سلیم الطبع ، منکسر المزاج ، حسن سیرت اورحسن خلاق کے پیکر،سنجیدگی وقناعت اور امانت ودیانت نیز نہایت رعب دار اور پرہیبت تھے ، عفیف وپاکباز،معقولات ومنقولات کے ماہر،ذکر وعبادت ،تہجد وغیرہ کو ہرحال میں چاہے سفر ہویا حضر ادافرماتے تھے ،طلبہ کی غلطیوں اورکوتاہیوں پرنرمی اورعطوفت کامعاملہ فرماتے تھے معاملات اورامورمدرسہ کے بارے میں نہایت سخت تھے۔اسی لئے حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پور یؒنے مظاہر علوم کے منصب نظامت واہتمام کے لئے آپ کاانتخاب فرمایا،چنانچہ آخرحیات تک آپ مدرسہ کے ناظم ومہتمم رہے آپ کے دوراہتمام میںمظاہرعلوم ترقیات کی اعلیٰ منزلوںتک پہنچ گیاتھاآپ نے دوبارحج بیت اللہ بھی اداکیاپہلی بار ۱۳۴۶ ھ میںاوردوسری بار۱۳۶۸ھ یں اسی طرح آپ نے برماکاسفردوبارکیااس کے علاوہ دعوت وتبلیغ اورامورمدرسہ کیلئے آپ نے مختلف اسفارکئے، آپ نے اہل باطل سے مناظروںمیںشرکت کی اورجمعیۃ علماء ہند کے پروگراموں میں بعض اہم موضوعات اورمسائل پرمنعقدہ محاضرات میں بھی شریک ہوئے اوران کی بعض آراء سے اختلاف بھی کیا۔
آپ نہایت متصلب تھے آزادیٔ فکرسے متنفراوربیزاررہتے تھے آپ کی شخصیت عوام اورمعاصرعلماء میں بہت قابل احترام تھی۔
حکیم الامت حضرت تھانویؒآپ کی تکریم وعزت فرماتے تھے،شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنیؒ اورشیخ عبدالقادررائے پوری بھی آپ کی نہایت تکریم فرماتے تھے اورآپ کے سامنے تواضع کے سبب دونوںحضرات مؤدب بیٹھتے تھے۔
شیخ الاسلام حضرت مولاناسید عبد اللطیف پورقاضویؒ مفتی اعظم حضرت مولانامفتی سعیداحمداجراڑوی ؒسے تومحبت فرماتے ہی تھے ان کے خانوادہ بالخصوص فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ اور شیخ الادب حضرت مولانااطہرحسینؒ سے بھی بہت شفقت اورمحبت فرماتے تھے۔
شیخ الاسلام حضرت مولاناسید عبد اللطیف صاحبؒ فقیہ الاسلامؒ کی صلاحیتوں اورسعادت مندیوںکے باعث شروع ہی سے اپنی شفقتوںاورمحبتوں سے نوازتے رہے ،قدم قدم پر استاذ ہونے کے ناطے رہنمائی فرمائی ،درسیات کی متعدد کتب کے علاوہ مقدمہ تقریب اورمقدمہ قاموس کوخارج میں پڑھایا،اپنے عزیزوں اوربیٹوں جیسا معاملہ فرمایا،صرف ۲۴؍سال کی عمر میں فقیہ الاسلامؒ کو اپنے ہمراہ بر ما لے گئے ،مظاہر علوم میں دوران درس آپ پر خصوصی نگاہ رکھی اورامتحانات میں دلچسپی لیتے رہے ،مسجد کمبوہ کٹہرہ میں حضرت شیخ الاسلام ؒ کے لائق فائق فرزند مولاناسید عبد الرؤف عالی اور فقیہ الاسلام ؒ باری باری تراویح سناتے تھے اورسامع خود حضرت شیخ الاسلا مؒ ہوتے تھے کبھی کبھی اندھیری راتوںاورتاریک راہوں کی پرواہ کئے بغیر حضرت شیخ الاسلام ؒ فقیہ الاسلام کے گھر پہنچتے اورکنڈی کھٹکھٹاکر بلاتے اوراپنے ہمراہ مسجد کمبوہ کٹہرہ لے جاتے جہاںاپنے فرزندعالی اورشاگرد رشید دونوں کو باری باری تراویح پڑھانے کا حکم فرماتے تھے ۔
دفتر مدرسہ قدیم کی مسجد میں متعدد نمازیں فقیہ الاسلام ؒ کی اقتداء میں حضرت شیخ الاسلام ؒ نے ادا فرمائی تھیں ایک بار مسجد مدرسہ قدیم میں تراویح کے بعد حضرت شیخ الاسلامؒ فقیہ الاسلام ؒ اورآپ کے برادراصغر مولانااطہر حسین صاحب اپنے ہمراہ لے گئے اورضیافت کے لئے آم پیش فرمائے ۔
ہندوستان میں دینی مدارس کے نصاب تعلیم اورنظام تربیت پرآپ کی ایک مدلل تحریر’’فکرلطیف‘‘کے عنوان سے طبع ہوئی تھی جومطالعہ کے لائق ہے۔
 
Last edited by a moderator:

zakwan

وفقہ اللہ
رکن
اس شانداراورجاندارشیرنگ کے لئے بہت بہت مبارک بادقبول فرمائیں۔اللہ ہمیں عمل کی توفیق بخشے۔
 
Top