پوری دنیا میں چھ ہزار ایک سو بانوے زبانے

گلاب خان

وفقہ اللہ
رکن
پوری دنیا میں چھ ہزار ایک سو بانوے(6192)زبانیں بولی اور سمجھتی جاتی ہیں۔21فروری اقوام متحدہ کے چارٹر یونیسکو کی ایک قرارداد 2001ء کے مطابق مادری زبانوں کا عالمی دن قرار پایا ہے ۔ جس کا بنیادی مقصد وراثتی وعلاقائی رنگوں سے مزین ثقافت کی شناخت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مادری زبان کے تحفظ فروغ اور ابتدائی تعلیم کو مادری زبان میں دینے کے حق کو تسلیم کیاگیا ہے ۔ انسان مادری زبان کے ذریعے اپنے تہذیب ، ثقافت اور تاریخ سے شناخت حاصل کرتاہے اور دھرتی ماں کا تعلق ماں بولی سے ہوتا ہے ۔ ماں بولی انسانی شخصیت ، کردار ، محبتوں ، یگانگت ، خاندان کی پہچان ، خطے او رملک سے رشتہ و تعلق کو استوار کرنے میں معاون ہے ۔ انسان جس ماحول میں آنکھ کھولتا ہے ، وہ اسے بڑا عزیز ہوتا ہے ۔اسی ماحول سے علاقائی زبانیں جنم لیتی ہیں ۔

چھ ہزار ایک سو بانوے زبانوں کی تفصیلات میں جائیں تو امریکہ میں238،چین میں236، جاپان میں15،روس میں105'انڈیا میں428بنگلہ دیش میں 39، ترکی میں 36، افغانستان میں47،سری لنکا میں7،سعودی عرب میں 5،ایران میں18اور پاکستان میں72زبانیںبولی ، سمجھی اور لکھی جاتی ہیں لیکن سب زبانوں کے درمیان ایک ایسی زبان بھی ہے جسے سب نے فراموش کردیا ہے ۔ یہ زبان ہر زمانے ہروقت اور ہرانسان ، چرند پرند اور جانوروں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ یہ زبان ''پیار کی زبان'' ہے جو کہیں ان بڑی زبانوں کے درمیان کھوگئی ہے ۔ یہ زبان انسان کو باہم جوڑنے میںلگی رہتی ہے ۔ آج معاشرہ اور پوری دنیا میں ماں کی محبت کی طرح مٹھاس ، نرم ، خلوص سے بھرپور مزین امن اور شانتی کی زبان بڑھتے ہوئے تشدد ' وحشت ، شور ، بم وبارود، دھماکوں اورہماری انا کے خول اور شعور میں کہیں کھوگئی ہے اور یہی زبان سرفہرست اور ماں بولی ہے ۔ سال2008ء بین الاقوامی طور پر زبان کاسال تھا جس کے لئے اقوام متحدہ کے ممبر ممالک نے سینکڑوں منصوبے اپنے ملک کی زبانوں کے لئے تیار کئے تھے لیکن ہمارے حکمرانوں نے اپنی علاقائی مادری زبانوں کے لئے کیا کیا ' یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔

مادری زبانوں کے فروغ میں سب سے بڑا دشمن گلوبائزیشن کاعمل ہے ۔ ساری دنیا ایک طرف کھڑی ہوجائے لیکن صرف ایک زبان ( انگلش) کو زندہ رکھنے کا عمل جاری وساری ہے اور گلوبائزیشن کے ذریعہ دوسری زبانوں کی پہچان اور شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس خطرے کوچین ، جاپان اور یورپ کے بعض مماخطرے کوچین ، جاپان اور یورپ کے بعض ممالک نے بخوبی سمجھ لیا ہے ۔ لہذا وہ اپنی زبان کو چھوڑنے ، چھیڑنے اور تبدیلی کے لئے قطعی تیار نہیں ہیں ۔

آج پاکستان کی علاقائی مادری زبانوں میں آرٹ، فلسفہ ، تاریخ 'معاشیات، سماجیات ، لسانیات، جغرافیہ ، طب اور قانون وغیرہ کافلسفہ عملی شاہکاروں کی صورت میں موجود ہے لیکن پاکستان میں مادری زبانوں کے تحفظ او رفروغ کی صورتحال قابل اطمینان بخش نہیں ہے ۔ آج پاکستان کی مادری زبانوں کی اہمیت وافادیت اور قومی تقاضوں ، قومی تشخیص اور ثقافتی چہرے کے خدوخال واضح نہیں ہیں ۔ قومی تشخص نے زبانوں کو بالادست قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ آج علاقائی زبانوں میں چلنے والے الیکٹرانک چینل ہمارے گھروں کے اندر پوری دنیاکابے ہنگم کلچر اور زبان ساتھ لارہے ہیں ۔ گلوبل ویلیج میں میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کی ثقافت کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل گیا ہے لیکن حالات کایہ رخ تصادم کی طرف لے کر جارہا ہے ۔ مادری زبانوں کی گرائمر کی طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ مادری زبانوں کے فروغ میں کشش اور پائیداری کو فروغ دینے کے لئے پاکستان قومیتوں کے مسائل کااسی وقت بہتر سمجھا جاسکتا ہے ۔ جب تاریخی طور پر ان کی تشکیل وساخت کو سمجھا جائے ۔ 62سال گزرنے کے باوجود بہتری کے اقدامات نہیں کئے گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں الجھا ئو اور تصادم پیدا ہوا ہے ۔ا س الجھائو اور تصادم کو ختم یا کم کرنا ہم سب کی اہم ذمہ داری ہے ۔

 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
لیکن سب زبانوں کے درمیان ایک ایسی زبان بھی ہے جسے سب نے فراموش کردیا ہے ۔ یہ زبان ہر زمانے ہروقت اور ہرانسان ، چرند پرند اور جانوروں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ یہ زبان ''پیار کی زبان'' ہے
بے شک یہ زبان اب دنیا میں بہت کم استعمال ہوتی نظر آتی ہے
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
لیکن سب زبانوں کے درمیان ایک ایسی زبان بھی ہے جسے سب نے فراموش کردیا ہے ۔ یہ زبان ہر زمانے ہروقت اور ہرانسان ، چرند پرند اور جانوروں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ یہ زبان ''پیار کی زبان'' ہے جو کہیں ان بڑی زبانوں کے درمیان کھوگئی ہے
کاش یہ زبان ان سب زبانوں پہ سبقت لے جائے جن زبانوں کے درمیان کھو گئی ہے
 
Top