حضرت مولاناظہورالحق دیوبندی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناظہورالحق دیوبندی
آپ حضرت شیخ منشی فضل حق سابق مدیر دارالعلوم دیوبند کے صاحب زادے تھے،آپ اپنے زمانے کی برگزیدہ شخصیات اور قدیم اساتذہ میں سے تھے،۱۳۰۱ھ میں دیوبند کی سرزمین میں پیداہوئے وہیں تربیت اور پرورش پائی ۱۳۱۱ھ میںدارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیکرپہلے فارسی کتب پندنامہ سے قصائد عرفی تک پڑھیں۱۳۱۷ھ میں عربی کتب کی طرف متوجہ ہوئے آپ ؒنے شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن دیوبندیؒ وغیرہ جیسی برگزیدہ شخصیات سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا ، آپ نے اپنی سندفراغ۲۵؍محرم الحرام ۱۳۳۰ھ میںجب دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی تواس پرآپ کے اہم اساتذہ کے دستخط تھے اورآپ کی سیرت واخلاق کی شہادت ’’ولہ بحمداللّٰہ طبع سلیم و فہم مستقیم واخلاق سمحۃ‘‘ جیسے وقیع الفاظ سے دی گئی ہے۔
فراغت کے بعددارالعلوم دیوبند ہی میں تدریس کے لئے مننخب ہوگئے ،لیکن صرف چھ ماہ تدریسی خدمات انجام دینے کے بعدموانہ کلاںضلع میرٹھ میںکسب معاش کیلئے تشریف لے گئے پھر مظاہرعلوم سہارنپور تشریف لائے اوریہاںملازمت اختیار کرلی، مدرسہ کے مختلف شعبہ جات میں کام کے بعد آپ کومدرس بنادیاگیااورآخرحیات تک تدریس کے ذریعہ خدمت کرتے رہے۔آپ کے سرچشمۂ علم وعرفان سے سیکڑوںطلبہ نے اکتساب فیض کیا اور اطراف عالم میں پھیل گئے۔
حضرت مولانااطہرحسینؒ کی ایک غیرمطبوعہ تحریرمیں ہے کہ
’’حضرت مولاناسیدظہورالحق دیوبندیؒمظاہرعلوم کی مایہ ناز شخصیتوں میں سے ہیں،نہایت متقی ، متورع ،عابدوزاہداورانتہائی محتاط علماء میں آپ کا شمارہوتاہے،ذکروتسبیحات کادائمی معمول تھا،آپ کو حضرت گنگوہیؒ سے شرف عقیدت وزیارت حاصل تھا،صاف گو،حق پسندلوگوں کے امام تھے،صف اولیٰ کا نہایت ہی اہتمام تھا،موسم گرمامیں جبکہ دوڈھائی بجے ظہر کی نمازہوتی ہے، اکثروبیشترایک ڈیڑھ بجے مسجدمیں آجاتے اورمشغولِ ذکررہ کرجماعت کا انتظارفرماتے تھے،بعض مسائل شرعی میں خصوصی ذہن وفکررکھتے تھے،ہلدی اورڈالڈا (گھی)استعمال نہ فرماتے تھے‘‘۔
آپ نے تقریباً پچاس سال تدریس کے ذریعہ مظاہرعلوم کی خدمت کی ،آپؒامام ربانی حضرت گنگوہیؒ کی خدمت میںبیعت ہونے کے لئے پہنچے،بیعت کی درخواست کی لیکن حضرت مولانا گنگوہی ؒنے صرف اسلئے بیعت کرنے سے منع فرمادیاکہ آپؒتدریس اورتعلیم وتعلم میںمشغول تھے، پھرآپ کواتنی فرصت نہیںمل سکی کہ حضرت گنگوہیؒ سے بیعت ہوپاتے۔
آپ متقی پرہیز گار،عابدوزہد،دنیاداری سے بینرار،دین اورآخرت سے رغبت رکھتے تھے، آپ ؒمسجد میںاذان سے پہلے ہی بلکہ وقت سے پہلے تشریف لیجاتے تھے۔نمازباجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ پہلی صف میں اداکرنے کا معمول تھا ،اذکارواوراد، معمولات ونوافل کی پابندی کرتے تھے،سنت نبوی کا اتباع اور بدعت ومنکرات سے اجتناب فرماتے ،حق بات کے اظہار میں کسی ملامت گرکی ملامت کی پرواہ نہ کرتے ،عزلت اورگوشہ نشینی کوپسندکیالوگوںسے ملنے جلنے اورخواہ مخواہ تعلقات بڑھانے سے کنارہ کشی اختیار کی،آپنے اپنی پوری زندگی دین کی خدمت اور اس کی نشر واشاعت میںخمول وگمنامی اورتنگئی معاش کے ساتھ صرف فرمائی۔
آپ بعض فقہی مسائل میں اپنی منفردرائے بھی رکھتے تھے،۱۳۸۰ھ میں حج بیت اللہ کیا،۱۳۸۴ھ میں انتقال ہوا…آپ کی تصانیف میں حاشیہ مطول (تفتازانی)حاشیہ نوالایضاح،حاشیہ مفید الطالبین وغیرہ قابل ذکر ہیںموخر الذکردونوں کتابیں فارسی میں ہیں اور طبع ہوچکی ہیں۔
 
Top