ابو حنیفہ

ذیشان نصر

وفقہ اللہ
رکن
ابو حنیفہؒ

ماخوذ

سیرۃ النعمان علامہ شبلی نعمانیؒ

تذکرۃ النعمان علامہ محمد بن یوسف دمشقیؒ


ابو حنیفہؒ

جمع و ترتیب :عبد الباسط قاسمی

اشراف : محمد ذکی اللہ

ناشر

اقراء ویلفئر ٹرسٹ، بنگلور
IQRA PUBLICATIONS #332, 1ST FLOOR, DARUS SALAM QUEENS ROAD, BANGALORE- 560,052 INDIA


ابو حنیفہؒ
=
ابو حنیفہؒ​

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس کتاب کے بارے میں

امام اعظم ابو حنیفہؒ کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ انہیں کے مسلک کے پیروکار اور ماننے والے موجود ہیں،جو اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، امام صاحب کے حالات زندگی پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں اور ہر پہلو و گوشے پر لکھی گئیں، جن میں کچھ بہت ہی ضخیم ہیں اور کچھ مختصر، ان میں سے اکثر کتابیں علمی مباحث پر مشتمل ہیں جن سے علماء اور پڑھا لکھا طبقہ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے، عام آدمی اور کم پڑھے لکھے لوگوں کے لئے اس کو پڑھنا اور سمجھنا ممکن نہیں ہے، اس لئے ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جو عام لوگوں کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی ہو، جس میں امام صاحبؒ کی مکمل سوانح آسان اور سلیس زبان میں ہو، اس کے علاوہ فقہ حنفی کی خصوصیات، ترجیحات اور دلائل موجود ہوں تاکہ اس کتاب کے پڑھنے والے کو اگر ایک طرف امام صاحبؒ کے حالات زندگی سے واقفیت اور آگاہی ہو تو دوسری طرف فقہ حنفی کی خصوصیات اور ترجیحات کا بھی علم ہو، زیر نظر کتاب انہی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر تیار کی گئی ہے جس میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، یہ کتاب اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہے اس کا اندازہ اس کو پڑھنے کے بعد ہی ہو گا۔

تعارف

تقریباً تیرہ سو برس سے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں پھیلے ہوئے مسلمان امامِ اعظم ابو حنیفہؒ کے اجتہادی مسائل سے استفادہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ دنیا کا غالب حصہ آپ کے مسائل کا پیرو ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عربی، فارسی، ترکی بلکہ یورپ کی زبانوں میں بھی آپؒ کی نہایت کثرت سے سوانح عمریاں لکھی گئیں۔ افسوس کہ ان میں سے اکثر کتابیں ہمارے ملک میں ناپید ہیں اور آپ کی سیرت پر اردو زبان میں معیاری کتب کی بے حد کمی ہے۔

بعض معتقدین نے جوشِ اعتقاد میں امام صاحبؒ کی ایسی تصویر کھینچی ہے جس سے ان کی اصلی صورت پہچانی نہیں جاتی مثلاً تیس برس تک متصل روزے رکھنا، تورات میں آپ کی بشارت کا موجود ہونا، چالیس سال تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنا وغیرہ وغیرہ‘‘ بالکل اسی طرح کچھ حاسدین نے تقلید کی مخالفت اور بغض و عداوت میں آپ کی بلند بالا شخصیت کو مجروح اور داغدار بنانے کی کوشش بھی کی ہے، کچھ لوگوں نے تو (معاذ اللہ) آپؒ پر ملحد، گمراہ اور مخالفِ سنتِ نبویﷺ کا الزام تک لگایا ہے۔

اس مدح سرائی اور الزام بازی کا سلسلہ آپؒ کے دور سے لے کر آج تک جاری ہے۔

لہذا اقراء و یلفیئر ٹرسٹ نے یہ ضرورت محسوس کی کہ ایک ایسی کتاب زیرِ طبع لائی جائے جو آپؒ کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہو نیز افراط و تفریط سے بالا تر ہو۔

"تذکرۃ النعمان" جو در اصل علامہ شیخ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن یوسفؒ صالحی دمشقی شافعی متوفی ۹۴۲ھ کی تصنیف "عقود الجمان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمانؒ" کا اردو ترجمہ ہے جسے حضرت مولانا عبد اللہ بن عبدالوہاب بستوی مہاجر مدنیؒ نے کیا ہے، اپنے موضوع پر نہایت ہی معرکۃ الآرا اور استنادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔

اسی طرح علامہ شبلی نعمانیؒ کی تالیف’’ سیرۃ النعمان‘‘ امام اعظمؒ کے سوانح حیات، انکے فقہ کی خصوصیات اور شاگردوں کے حالات پر ایک جامع اور بصیرت افروز کتاب ہے۔

زیرِ نظر کتاب کا ماخذ انہی دونوں کتابوں کو بنایا گیا ہے جس میں امام اعظمؒ کی قوتِ ایجاد، جدتِ طبع، دقتِ نظر، وسعتِ معلومات، حیات و خدمات، شانِ اجتہاد اور ان کے ذریعہ سے مسلمانوں میں جو تفقہ فی الدین کا شعور بیدار ہوا اس کا مختصر خاکہ، حتی الوسع غیر مستند واقعات اور اختلافی روایات و مسائل سے گریز کر تے ہوئے مثبت انداز میں آپ کے شیوخِ حدیث، تلامذہ، تدوینِ فقہ کا پسِ منظر، فقہ حنفی کی ترجیحات، تلامذہ، تصنیفات، آپ کی امتیازی خصوصیات، حیرت انگیز واقعات، دلپذیر باتیں اور آپ کی زندگی کے آخری احوال مثلاً عہدۂ قضا کی پیش کش، ایک سازش اور قید خانہ میں درد ناک موت وغیرہ وغیرہ کو ایک خاص اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ غرض یہ کتاب امام اعظم ابو حنیفہؒ کے تمام احوال و کمالات کا ایک مختصر علمی آئینہ ہے جو امام صاحبؒ کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔

دعاء ہے کہ اللہ رب العزت اس کتاب کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ ( آمین)

عبد الباسط قاسمی
ریسرچ اسکالر
اقراء ویلفیئر ٹرسٹ، بنگلور​
 

ذیشان نصر

وفقہ اللہ
رکن
شخصی احوال
نام و نسب

نعمان نام، ابو حنیفہ کنیت اور امام اعظم آپ کا لقب ہے۔ خطیب بغدادیؒ نے شجرۂ نسب کے سلسلہ میں امام صاحبؒ کے پوتے اسماعیل کی زبانی یہ روایت نقل کی ہے کہ ’’میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن نعمان بن مرزبان ہوں۔ ہم لوگ نسلِ فارس سے ہیں اور کبھی کسی کی غلامی میں نہیں آئے۔ ہمارے دادا ابو حنیفہ ۸۰ھ میں پیدا ہوئے۔ ہمارے پر دادا ثابت بچپن میں حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، حضرت علیؓ نے ان کے لئے بر کت کی دعا کی، اللہ نے یہ دعا ہمارے حق میں قبول فرمائی۔

امام صاحبؒ عجمی النسل تھے۔ آپؒ کے پوتے اسماعیل کی روایت سے اس قدر اور ثابت ہے کہ ان کا خاندان فارس کا ایک معزز اور مشہور خاندان تھا۔ فارس میں رئیسِ شہر کو مر زبان کہتے ہیں جو امام صاحبؒ کے پر دادا کا لقب تھا۔

اکثر مورخین فرماتے ہیں کہ آپ ۸۰ھ میں عراق کے دارالحکومت کوفہ میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت وہاں صحابہ میں سے عبداللہ بن ابی اوفیؓ موجود تھے، عبد الملک بن مروان کی حکومت تھی اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا۔

یہ وہ عہد تھا کہ رسول اللہﷺ کے جمالِ مبارک سے جن لوگوں کی آنکھیں روشن ہوئی تھیں (یعنی صحابہؓ ) ان میں سے چند بزرگ بھی موجود تھے جن میں سے بعض امام حنیفہؒ کے آغازِ شباب تک زندہ رہے۔ مثلاً انس بن مالکؓ جو رسول ﷺ کے خادمِ خاص تھے ۹۳ھ میں انتقال کیا اور ابو طفیل عامر بن واثلہؓ ۱۱۰ھ تک زندہ رہے۔ ابن سعد نے روایت کی ہے۔ جس کی سند میں کچھ نقصان نہیں۔ کہ امام ابو حنیفہؒ نے انس بن مالکؓ کو دیکھا تھا حافظ ابن حجر نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ امام صاحبؒ نے بعض صحابہؓ کو دیکھا تھا۔

جائے ولادت

کوفہ جو امام ابو حنیفہؒ کا مولد و مسکن ہے، اسلام کی وسعت و تمدن کا گویا دیباچہ تھا۔ اصل عرب کی روز افزوں ترقی کے لئے عرب کی مختصر آبادی کافی نہ تھی۔ اس ضرورت سے حضرت عمرؓ نے سعد بن وقاصؓ کو جو اس وقت حکومتِ کسریٰ کا خاتمہ کر کے مدائن میں اقامت گزیں تھے، خط لکھا : ’’مسلمانوں کے لئے ایک شہر بساؤ جو ان کا دارالہجرت اور قرار گاہ ہو‘‘ سعدؓ نے کوفہ کی زمین پسند کی۔

۱۷ ھ میں اس کی بنیاد کا پتھر رکھا گیا۔ اور معمولی سادہ وضع کی عمارتیں تیار ہوئیں۔ اسی وقت عرب کے قبائل ہر طرف سے آ کر آباد ہونے شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ تھوڑے دنوں میں وہ عرب کا ایک خطہ بن گیا۔

حضرت عمرؓ نے یمن کے بارہ ہزار اور نزار کے آٹھ ہزار آدمیوں کے لئے جو وہاں جا کر آباد ہوئے روزینے مقرر کر دیئے۔ چند روز میں جمعیت کے اعتبار سے کوفہ نے وہ حالت پیدا کی کہ جنابِ فاروقؓ کوفہ کو ’’رمح اﷲ، کنز الایمان، جمجمۃ العرب‘‘ یعنی خدا کا علم، ایمان کا خزانہ، عرب کا سر، کہنے لگے۔ اور خط لکھتے تو اس عنوان سے لکھتے تھے ’’الیٰ رأس الا سلام، الی رأس العرب۔ ‘‘ بعد میں حضرت علیؓ نے اس شہر کو دارالخلافہ قرار دیا۔

صحابہؓ میں سے ایک ہزار پچاس اشخاص جن میں چوبیس وہ بزرگ تھے جو غزوۂ بدر میں رسول اﷲﷺ کے ہمرکاب رہے تھے، وہاں گئے اور بہتوں نے سکونت اختیار کر لی۔ ان بزرگوں کی بدولت ہر جگہ حدیث و روایت کے چرچے پھیل گئے تھے اور کوفہ کا ایک ایک گھر حدیث و روایت کی درسگاہ بنا ہوا تھا۔
 

ذیشان نصر

وفقہ اللہ
رکن
بشارتِ نبویﷺ

ایک حدیث میں نبیﷺ نے فرمایا: لوکان الا یمان عند الثریا لاتنالہ العرب لتناولہ رجل من ابناء فارس۔

اگر ایمان ثریا ستارہ کے پاس بھی ہو اور عرب ا س کو نہ پا سکتے ہوں تو بھی اس کو ایک فارسی آدمی پالے گا۔

جلیل القدر عالم و حافظ علامہ جلال الدین سیوطیؒ اس حدیث سے قطعی طور پر امام ابو حنیفہؒ کو مراد لیتے ہیں اس لئے کہ کوئی بھی فارس کا رہنے والا امام صاحبؒ کے برابر علم والا نہیں ہو سکا۔

شکل و صورت

خطیب بغدادیؒ نے امام ابو یوسفؒ سے روایت کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ متوسط قد، حسین و جمیل، فصیح و بلیغ اور خوش آواز تھے، دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ امام صاحبؒ خوبصورت داڑھی، عمدہ کپڑے، اچھے جوتے، خوشبودار اور بھلی مجلس والے رعب دار آدمی تھے۔ آپ کی گفتگو نہایت شیریں، آواز بلند اور صاف ہوا کرتی تھی۔ کیسا ہی پیچیدہ مضمون ہو نہایت صفائی اور فصاحت سے ادا کر سکتے تھے۔ مزاج میں ذرا تکلف تھا۔ اکثر خوش لباس رہتے تھے، ابو مطیعانؒ کے شاگرد کا بیان ہے کہ ’’میں نے ایک دن ان کو نہایت قیمتی چادر اور قمیص پہنے دیکھا جن کی قیمت کم از کم چار سو درہم رہی ہو گی۔


بچپن کا زمانہ

امام صاحبؒ کے بچپن کا زمانہ نہایت پر آشوب زمانہ تھا۔ حجاج بن یوسف، خلیفہ عبد الملک کی طرف سے عراق کا گورنر تھا۔ ہر طرف ایک قیامت برپا تھی۔ حجاج کی سفاکیاں زیادہ تر انہیں لوگوں پر مبذول تھیں جو ائمہ مذاہب اور علم و فضل کی حیثیت سے مقتدائے عام تھے۔

خلیفہ عبد الملک نے ۸۶ھ میں وفات پائی اور اس کا بیٹا ولید تخت نشین ہوا۔

اس زمانہ کی نسبت حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ فرمایا کر تے تھے۔ ’’ولید شام میں، حجاج عراق میں، عثمان حجاز میں، قرہ مصر میں، واللہ تمام دنیا ظلم سے بھری تھی‘‘۔

ملک کی خوش قسمتی تھی کہ حجاج ۹۵ھ میں مر گیا۔ ولید نے بھی ۹۶ھ میں وفات پائی۔ ولید کے بعد سلیمان بن عبد الملک نے مسندِ خلافت کو زینت دی جس کی نسبت مورخین کا بیان ہے کہ خلفاء بنو امیّہ میں سب سے افضل تھا۔ سلیمانؒ نے اسلامی دنیا پر سب سے بڑا یہ احسان کیا کہ مرتے دم تحریری وصیت کی کہ میرے بعد عمر بن عبد العزیزؒ تخت نشیں ہوں۔ سلیمان نے ۹۹ھ میں وفات پائی اور وصیت کے موافق عمر بن عبد العزیزؒ مسندِ خلافت پر بیٹھے جن کا عدل و انصاف اور علم و عمل معروف و مشہور ہے۔

غرض حجاج و ولید کے عہد تک تو امام ابو حنیفہؒ کو تحصیلِ علم کی طرف متوجہ ہونے کی نہ رغبت ہو سکتی تھی نہ کافی موقع مل سکتا تھا۔ تجارت باپ دادا کی میراث تھی ا س لئے خز (ایک خاص قسم کے کپڑے) کا کارخانہ قائم کیا اور حسنِ تدبیر سے اسکو بہت کچھ ترقی دی۔
 
Top