عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کاارشاد

zakwan

وفقہ اللہ
رکن
عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ
آپؒ حافظِ حدیث ہیں، اونچے درجے کے محدثین میں آپ کا شمار ہوتا ہے، شیخ الاسلام ہیں، فخرالمجاہدین اور قدوۃ الزاہدین ہیں، آپ کے اساتذہ میں سلیمان تیمی اور امام عاصم رحمہما اللہ جیسے جلیل القدر حضرات ہیں اور آپ کی شاگردی عبدالرحمن بن مہدیؒ، یحییٰ بن معینؒ، ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہم اللہ جیسے اکابر محدثین وائمہ جرح وتعدیل نے اختیار کی ہے، احادیث کے اندر آپؒ کوامیرالمؤمنین فی الحدیث کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور مسلم شریف اور بخاری شریف کے راویوں میں ہیں۔
(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۵)
آپ رحمۃ اللہ علیہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاص شاگردِ رشید ہیں اور ان کے عقیدت مندوں میں ہیں آپ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص امام ابوحنیفہؒ کا نام برائی سے لے تومیں اس کوگوارا نہیں کرسکتا کہ میں اس کواپنی نگاہوں کے سامنے دیکھوں اور مجھے یہ بات بھی پسند نہیں کہ میں اس کے ساتھ بیٹھوں، مجھے خوف ہوتا ہے کہ کہیں اللہ پاک کی طرف سے کوئی آیۃ من آیات اللہ نہ نازل ہوجائے اور میں بھی اسی کے ساتھ ہوجاؤں، اللہ کی قسم امام ابوحنیفہؒ متقی تھے، اپنی زبان کی حفاظت بری باتوں سے کیا کرتے تھے، آپ کی مجلس بہتر ہوا کرتی تھی اور آپ بہت زیادہ حلیم وبردبار تھے۔
(سیراعلام النبلاء:۶/۱۴۰۰۔ خبار ابی حنیفہ واصحابہ:۳۲)
نیز فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلہ پر امام ابوحنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ متفق ہوجائیں توچاہئے کہ آدمی اس کوقبول کرلے، آپؒ کی مجلس میں ایک شخص امام صاحبؒ کی طعن وتشنیع کررہا تھا توآپ نے کہا خاموش ہوجاؤ؛ اگرتم امام صاحبؒ کو دیکھ لیتے توزبردست عقلمند اور ذی ہوش پاتے، ابوسلیمان جرجانیؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرمارہے تھے کہ سفیان ثوریؒ اللہ پاک سے زیادہ ڈرتے تھے اور میں کسی کونہیں دیکھا جوامام ابوحنیفہؒ سے زیادہ عقلمند ہو۔
(الانتقاء:۲۰۷،۲۰۶)
ایک مرتبہ آپؒ نے فرمایا کہ اپنی رائے سے دین کی بابت کچھ کہنا مناسب ہوتا توامام ابوحنیفہؒ اس مرتبہ کے ہیں کہ ان کواپنی رائے سے کہنا مناسب ہونا چاہئے، وہ فرماتے ہیں کہ اگرکسی مسئلہ میں کوئی حدیث نہ مل سکے اور رائے کی ضرورت پڑے توامام مالکؒ، سفیان ثوریؒ اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کی رائے کی طرف رجوع کیا جائے گا؛ لیکن امام ابوحنیفہؒ ان میں سب سے اچھے ہیں، سب سے زیادہ باریک بیں ہیں، علم فقہ میں ان سب سے زیادہ غوطہ زن ہیں اور ان تینوں میں زیادہ فقیہ ہیں۔
خطیبؒ نے حضرت عبداللہ بن المبارکؒ کا قول نقل کیا ہے کہ اگر اللہ نے امام ابوحنیفہؒ اور سفیان ثوری رحمہما اللہ سے میری دستگیری نہ کی ہوتی تو میں عام لوگوں کی طرح ہوتا؛ اگرہم رسول اللہﷺ اور حضراتِ صحابہؓ کا اثر نہ پائیں توامام ابوحنیفہؒ کا قول ہمارے نزدیک ایسا ہی ہے جیسے رسول اللہﷺ کا اثر، صمیری، منصور بن ہشام سے روایت کی ہے کہ ہم حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کے پاس تھے، ایک آدمی امام ابوحنیفہؒ کی برائی بیان کرنے لگا توآپؒ نے فرمایا: برا ہوا تمہارا! کیا تم ایسے آدمی کی برائی بیان کرتے ہو جس نے چالیس سال تک پانچوں نمازیں ایک ہی وضوء سے ادا کی، جوسارا قرآنِ کریم دورکعتوں میں پڑھتا تھا؛ نیزیہ کہ جوکچھ علمِ فقہ ہے وہ میں نے امام ابوحنیفہؒ ہی سے سیکھا ہے، ایک مرتبہ آپ حدیث بیان کررہے تھے طلبہ لکھ رہے تھے؛ اسی درمیان فرمانے لگے:
"حَدَّثَنِیْ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ"۔
کسی نے کہا: "آپ کس کومراد لے رہے ہیں"۔
آپ نے جواب دیا: "امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کوجو علم کے مخزن ہیں"۔
یہ سن کربعض طلبہ نے حدیث لکھنا بند کردیا توآپؒ تھوڑی دیرخاموش رہے، اس کے بعد فرمایا:
"اے لوگو! آپ لوگ کتنے بے ادب ہیں، ائمہ کرام کے مراتب سے کس قدر ناواقف ہیں، علم اور اہلِ علم سے آپ لوگوں کی معرفت کتنی کم ہے، کوئی بھی امام ابوحنیفہؒ سے بڑھ کر اقتداءکے لائق نہیں، اس لیے کہ وہ امام تھے، متقی تھے، صاف وبے داغ تھے، پرہیزگار تھے، عالم تھے، فقیہ تھے؛ انہوں نے علم کو بصیرت، فہم وفراست اور تقویٰ کے ذریعہ اس طرح کھول کر بیان کیا؛ جیسے کہ کسی اور نے نہیں کیا"۔
(تذکرہ النعمان:۱۵۲،۱۵۱،۱۵۰)
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
آپ نے جواب دیا: "امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کوجو علم کے مخزن ہیں"
حضرت عبد اللہ بن مبارک فر ماتے ہیں میں امام اوزاعی کو شام میں ملا ۔۔۔۔۔ ان نے کہا او خراسانی کوفہ میں کون بدعتی ہے جس کی کنیت ابوحنیفہ ہے میں گھر گیا اور امام ابوحنیفہ کی کتاب لے کر آیا اور کچھ مسائل پر میں نے لکھ دیا نعمان اس کے متعلق یوں فر ماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔امام اوزاعی نے ساری کتاب دیکھنے کے بعد فر مایا یہ نعمان کون ہیں میں نے کہا ایک بزرگ ہیں جن سے عراق میں ملاقات ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ فر مایا امام اوزاعی نے یہ تو بہت بلند پاے کے بزرگ ہیں اور ان سےعلم حاصل کرو۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا یہ نعمان وہی ابو حنیفہ ہیں جن کے پاس جانے سے آپ نے روکا تھا (تاریخ بغداد ص 238 ج 13)
 
Top