حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی کے حفظ کاواقعہ اورتفصیل

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت نانوتوی کے حفظ قرآن کریم کاواقعہ
حضرت نانوتوی نور اللہ مرقدہ کے متعلق مشہور یہ ہے کہ حضرت نے پورا قرآن شریف جہاز میں یاد کیا ۔ دن کو ایک پارہ حفظ کر لیتے اور رات کو سنادیتے تھے ۔ ارواح ثلٰثہ ص ۲۶۷ میں حضرت نانوتوی نور اللہ مر قدہ کی روایت سے یہی نقل کیا ہے ۔ لیکن حضرت مولانامحمد یعقوب صاحب نور اللہ مرقد ہ نے سوانح عمری میں خود حضرت نانوتوی کی روایت سے نقل کیا ہے کہ میںنے فقط دوسال رمضانوں میں قرآن پاک یاد کیا ہے۔ وہ تحریر فر ماتے ہیں کہ مولانا جمادی الثانیہ ۱۲۷۷؁ھ میں حج کے لئے روانہ ہوئے اور آخری ذی قعدہ میں مکہ مکرمہ پہنچے ۔بعد حج مدینہ شریف روانہ ہوئے اور ماہ صفر میں مدینہ پاک سے مراجعت فر مائی ۔ ربیع الاول کے اخیر میں بمبئی پہنچے اور جمادی الثانی تک وطن پہنچے، جاتی دفعہ کراچی سے جہاز بادبان میں سوار ہوئے تھے۔ رمضان کا چاند دیکھ کر مولوی صاحب نے قرآن شریف یاد کیا تھا اور اول وہاں سنا یا بعد عید مکلا پہنچ کر حلواء مسقط خرید فر ما کر شرینی دوستوں کو تقسم فر مائی ۔ مولوی صاحب کا اس سے پہلے قرآن یاد کر نا کسی کو ظاہر نہ ہوا تھا ۔بعدقرآن ختم مولوی صاحب فر ما تے تھے کہ فقط دوسال رمضان میں میں نے یاد کیا اور جب یاد کیا پاؤ سیپارہ کی قدر یا کچھ اس سے زائد یاد کر لیا ۔ پھر تو بہت کثرت سے پڑھتے ۔ایک بار یاد ہے کہ ستائیس پارے ایک رکعت میں پڑھے، اگر کوئی اقتداء کر تا رکعت کراکر اس کو منع فر مادیتے اور تمام شب تنہا پڑھتے رہتے ۔ (سوانح عمری مولانا محمد قاسم صاحب ص۳۸)
مشہور روایت یکسالہ میں اور اس میں جمع تو آسا ن ہے کہ کچھ حصہ پہلے رمضان میں یاد کر لیا ہواور بیشتر حصہ سفر حج کے رمضان میں یاد کیا ہو اور اسی سال پہلی مر تبہ تراویح میں قرآن پاک سنایا جس کے ختم پر مسقط کے حلوے کی تقسیم فر مائی ہو۔
مولاناعاشق الٰہی صاحب ؒ تذکرۃ الخلیل میں میرے والد صاحب ؒ کے حالات میں لکھتے ہیں کہ ایک مر تبہ میری درخواست پر رمضان میں قرآن شریف سنانے کے لئے میرٹھ تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ دن بھر میں چلتے پھر تے پورا قرآن مجید ختم فر ما لیتے اور افطار کا وقت ہو تا تو ان کی زبان پر قل اعوذ برب الناس ہو تی تھی ۔ ریل سے اترے عشاء کا وقت آگیا تھا ہمیشہ باوضو رہنے کی عادت تھی اس لئے مسجد میں قدم رکھتے ہی مصلے پر آگئے اور تین گھنٹے میں دس پارے ایسے صاف اور رواں پڑھے کہ نہ کہیں لکنت تھی نہ متشابہ، گویا قرآن شریف سامنے کھلا رکھا ہے اور باطمینان پڑھ رہے ہیں ، تیسرے دن ختم فرماکر روانہ ہو گئے کہ نہ دور کی ضرورت تھی نہ سامع کی۔ (تذکر ۃ الخلیل ص ۲۰۴)
میرٹھ کے اس سفر کے متعلق والد صاحب نے یہ بھی فر مایا کہ میرٹھ کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ جب لوگوں میں یہ تذکرہ ہوا کہ ایک شخص سہارنپور سے تین دن میں قرآن شریف سنا نے کے لئے آرہا ہے تو تیس چالیس حافظ محض امتحان کے لئے میرے پیچھے تراویح پڑھنے آ تے تھے ۔ والد صاحب کو رمضان المبارک میں میری طرح سے بخار نہیں آتاتھا ۔ دوستوں کے اصرار پرایک دودن کے لئے ان کے یہاں جا کر دو شب زیادہ سے زیادہ تین شب میں تراویح میں ایک قرآن پڑھ کر واپس آجاتے تھے۔ مساجد میں عموماً تین شب میں ہو تا تھا ، غیر مساجد میں ایک یا دو شب میں بھی ہو جاتا تھا ۔ ایک مر تبہ شاہ زاہدحسین صاحب مرحوم کے اصرار پر دو شب کے اندر قصبہ بہٹ میں ان کے مردانہ مکان میں قرآن پاک سنا کر آئے تھے ۔ مسجد نواب والی قصاب پورہ دہلی میں بھی ایک دفعہ کا قرآن سنا نا مجھے بھی یادہے۔ عزیز مولوی نصیر الدین سلمہ ٗ اسحٰق صاحب مر حوم کی مسجد میں ایک مرتبہ قرآن پاک سنا رہے تھے میرے والد صاحب نو اللہ مر قدہ ٗ کسی سفر سے واپس تشریف لارہے تھے حکیم اسحٰق صاحب کی بیٹھک میں استراحت فر ما رہے تھے ، نصیر الدین کا چودھواں پارہ تھا سامع بار بار لقمہ دے رہا تھاوہ باوضو تھے مسجد میں تشریف لے گئے، نصیر الدین کو سلام پھیرنے کے بعد مصلے پر سے ہٹا کر سولہ رکعت میں سولہ پارہ ختم کردئیے، نمازیوں کو گراں تو ضرور ہوا مگر لوگوں کو جلد قرآن پاک ختم ہو نے کی خوشی مشقت پر غالب ہو اکر تی ہے۔ بارہویں رات میں قرآن پاک ختم کر کے تکان بھول گئے ۔ بعض اعزہ کے اصرار پر کاندھلہ میں بھی امی بی رحمۃ اللہ علیہما کے مکان پر اخیر زمانہ میں ایک دفعہ قرآن سنا نے کا حال تو مجھے بھی معلوم ہے اور اپنی جوانی کاوہ قصہ سنایا کر تے تھے کہ ساری رات نوافل میں قرآن سنانے میں گزر تی تھی اور چونکہ ہمارے یہاں نوافل میں چار سے زیادہ مقتدیوں کی اجازت نہیں ہو تی تھی اس لئے مستورات تو بدلتی رہتی تھیں اور میرے والد صاحب مسلسل پڑھتے رہتے تھے۔ میرے چچا جان نور اللہ مرقدہ ٗ نے بھی کئی رمضان المبارک امی بی ؒ کی وجہ سے کاندھلہ گزارے ۔تراویح تقریبا ً ساری رات میں پوری ہو تی تھی ۔ مسجد سے فرض پڑھنے کے بعد مکان پر تشریف لے جاتے تھے اور سحر تک تراویح میں چودہ پندرہ پارے پڑھتے تھے ۔ مولانا رؤف الحسن صاحب نور اللہ مرقدہٗ میرے والد صاحب کے حقیقی ماموں اور میری سابقہ اہلیہ مرحومہ کے والد ان کا مفصل قصہ تو عنقریب تقویٰ کے مضمون میں آرہا ہے اس کا یہ جز یہاں کے مناسب ہے کہ ۳۰ رمضان المبارک کو الٓم سے قل اعوذ برب الفلق تک ایک رکعت میں او ردوسری میں قل اعوذ برب الناس پڑھ کر سحر کے وقت اپنی والدہ یعنی امی بی ؒ سے یہ کہہ کر دورکعت میں نے پڑھادیں۔ اٹھارہ آپ پڑھ لیں او ر ان کی والدہ امی بی ؓ نے سارا قرآن کھڑے ہو کر سنا۔ بات پر بات نکلتی جاتی ہے مگر یہ واقعات بھی اکابر کے مجاہدات میں داخل ہیں اس لئے زیادہ بے محل نہیں ۔ (۱)
اعلیٰ حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب نو ر اللہ مرقدہٗ رائے پوری کے رمضان المبارک کے معمولات تذکرۃ الخلیل میں یہ لکھے ہیںکہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کوتعلیم قرآن پاک سے شغف تھا (دون کے دیہات میں بیسوں مکاتب قرآن پاک کے جاری کرائے ) اسی طرح خود تلاوت کلام اللہ سے عشق تھا۔ آپ حافظ قرآن تھے اور شب کا قریب قریب سار ا وقت تلاوت میں صرف ہو تا تھا ، رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں شاید آپ گھنٹہ بھر سے زیادہ ہ سوتے ہوں اور اسی لئے آپ کو لوگوں سے وحشت ہو تی تھی کہ معمول تلاوت میں حرج ہو تا تھا۔عصر و مغرب کے درمیان کاوقت عام در بار اور سب کی ملاقات کے لئے مخصوص تھا، (از زکریا) صبح کے وقت میں بھی نو دس بجے کے قریب ایک گھنٹہ مہمانوں کی عمومی ملاقات کا تھااور اس کے علاوہ بغیر کسی خاص ضرورت کے آپ کسی سے نہ ملتے تھے اور حجرہ شریف کا دروازہ بند فر ماکر خلوت کے مزے لوٹتے اور اپنے مولائے کریم سے روزانہ نیاز میں مشغول رہا کر تے تھے۔ خورا ک آپ کی بہت ہی کم تھی اور ماہ رمضان میں تو مجاہدہ اس قدر بڑھ جاتا تھا کہ دیکھنے والوں کوترس آتا تھا (ماہ مبارک میں صبح و عصر کے بعد کی مجلس بھی موقوف رہتی تھی۔ زکریا) افطار و سحر دونوں کا کھانا بمشکل دو پیالی چائے اور آدھی یا ایک چپاتی ہو تا تھا۔شروع میں آپ قرآن مجید تراویح میں خود سناتے اور دو بجے ڈھائی بجے فارغ ہوتے تھے ۔ (ھکذا فی الاصل )مگر آخر میں دماغ کا ضعف زیادہ بڑھ گیا تو سامع بنتے اور اپنی تلاوت کے علاوہ تین چار ختم سن لیا کر تے تھے ماہ مبارک میں چونکہ تمام رات دن آپ کا مشغلہ تلاوت کلام اللہ رہتا تھا اس لئے تمام مہمانوں کی آمد آپ روک دیا کر تے تھے ۔
(از زکریا، مہمانوں کاہجوم تو رمضان میں اعلیٰ حضرت رائے پوری کے یہاں بہت بڑھ جا تا تھا ، البتہ ملاقات بالکل بند تھی ۔ جب حضرت قدس سرہٗ نمازوں کے لئے مسجد میں آتے جاتے اس وقت دور سے زیارت کر لیا کر تے تھے اور مراسلت بھی پورے مہینے بند رہتی تھی کہ کوئی خط کسی کا بھی( الا ماشاء اللہ) عید سے قبل دیکھا یا سنا نہ جاتا تھا۔ اللہ جل جلالہٗ کا ذکر جس پیرایہ پر بھی ہو آپ کی اصل غذا تھی اور اسی سے آپ کو وہ قوت پہنچتی تھی جس کے سامنے دواء المسک اور جواہر مہرہ ہیچ تھا۔ (تذکرۃ الخلیل ص ۲۴۸)
(آپ بیتی حضرت شیخ سے ماخوذ)​
 
Top