شیخ ابو محسن:
حضرت عائشہ صدیقہ ؓحضرت ابو بکر صدیقؓ کی بیٹی ہیں جن کا سلسلہ نسب یہ ہے ابوبکر ابن قحافہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرو، آٹھویں پشت پر حضرت عائشہ صدیقہ ؓکا سلسلہ نسب حضور اکرم ﷺسے جا ملتا ہے۔ آپ ؓ کے والد حضرت ابو بکر صدیق ؓ حضوراکرم ﷺ کے قریبی دوست اور صحابی تھے، جو مردوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔ عمر میں حضوراکرم ﷺ سے دو برس چھوٹے تھے پیشہ تجارتھااور دولت کی فراوانی تھی۔ اس وقت کے چند پڑھے لکھے لوگوں میں سے ایک تھے۔ نسلی اعتبار سے حضرت ابوبکرصدیق ؓ حضوراکرمﷺ کے چچیرے بھائی تھے۔ واقعہ کی معراج کی تصدیق یہودو نصاریٰ کے سامنے آپ ؓہی نے کی تھی۔ غار ثور میں ہجرت کے موقع پر رفیق سفر تھے جس کا ذکر قرآن حکیم میں سورہ توبہ میں موجود ہے۔ عشرہ و مبشرہ میں سے ایک ہیں بچپن سے لے کر حضوراکرمﷺ کے سفر آخرت تک شریک رہے۔
حضرت عائشہ ؓکی والدہ کا نام ام رومان تھا جن کا شجرہ نسب گیارہویں پشت پرکنانہ میں حضوراکرم ﷺسے مل جاتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓکے بارے میں لکھا ہے کہ یہ وہ خاتون ہیں جن کی اسلامی خون سے ولادت ہوئی یعنی باپ اور دادا مسلمان تھے اور اسلامی شیر سے پرورش ہوئی تھی یعنی والدہ بھی مسلمان تھیں اس لئے آپ ؓ بھی پیدائشی مسلمان تھیں۔
حضرت عائشہ ؓ کا لقب صدیقہ خطاب ام المومنین لقب حمیرا تھا۔ حضوراکرم ﷺنے شعبان کی 15 ویں شب کو اسی لقب سے پکار تھا۔ آپ ؓ کی کنیت ام عبداللہ تھی وہ اس لئے کہ آپ ؓنے اپنے بھانجے عبداللہ بن زبیر کو اپنا متنبیٰ بنا لیا تھا س وجہ سے آپ ؓ کی یہ کنیت مشہور ہو گئی۔ آپ ؓ کی پیدائش نبوت کے پانچویں سال اور ہجرت سے سات سال قبل شوال میں ہوئی جو سن عیسوی کے مطابق جولائی 614ءہے۔ آپ ؓ کا رنگ سرخ و سفید تھا اور چھریرے جسم کی مالک تھیں۔ بچپن ہی سے ملنسار تھیں، محلے کی اکثر لڑکیاں آپؓ کے گھر آ کر گڑیوں کا کھیل کھیلا کرتی تھیں۔ جب رسول کریم ﷺکو آتا دیکھتیں تو گڑیوں کو چھپالیتیں تاہم آنحضوراکرمﷺ نے کبھی آپ ؓ کو اس کھیل سے نہ روکا۔ آپ بچپن ہی سے بلاکی ذہین تھیں حافظے کا یہ عالم تھا کہ ایک اےک بات ذہن نشین کر لیتی تھیں۔
حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد حضرت محمد ﷺ اکثر ملول اور افسردہ دکھائی دیتے تھے۔ ایک دن حضرت عثمان بن مطعون کی بیوی خولہ بنت حکیم آپ ﷺکے پاس آئیں اور عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ آپ دوسرا نکاح کر لیں۔ آپﷺ نے پوچھا کس سے؟خولہ نے جواب دیا ”کنواری اور بیوہ دونوں موجود ہیں، کنواری عائشہ بنت ابوبکر ہیں جب کہ بیوہ سودہ بنت زمعہ ہیں۔“
حضورﷺ نے خولہ کو ان رشتوں پر بات کرنے کی اجازت فرما دی۔ چنانچہ آپ پہلے ابوبکرؓ کے پاس آئیں، ان سے رشتہ مانگا جو منظور ہوا۔ حضرت عائشہ ؓنکاح سے پہلے حضوراکرمﷺ کا ایک واقعہ بیان کرتی ہیں، رسول کریمﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹے ہوئے مجھے کوئی چیز پیش کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ فرشتے نے جواب دیا آپ ﷺکی بیوی، میں نے کھول کر دیکھا تو وہ عائشہ ؓ تھیں۔ حضرت صفیہ ؓ،حضرت عائشہ ؓکے نکاح کے بارے میں فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ لڑکیوں میں کھیل رہی تھیں کہ ان کی انا آئیں اور انہیں اٹھا کر لے گئیں۔ پھر ابوبکرؓنے ان کا نکاح پڑھا دیا۔ آپؓ کا مہر 400 درہم تھا۔ حضوراکرم ﷺنے مہر میں ایک مکان بھی پیش کیا تھا۔ ایک اور روایت کے مطابق آپ ؓ کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا یعنی 500 درہم۔ آج کل جو لوگ شرعی مہر 32 روپے رکھ رہے ہیں وہ متوجہ ہوں کہ کہیں وہ شریعت کی خلاف ورزی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے جو مہر اس وقت 400 سے 500 درہم تھا وہی آج بھی رائج ہونا چاہئے۔ وہ لوگ جو شرعی مہر پر اصرار کرتے ہیں اور 32/50 روپے پر بضد ہوتے ہیں انہیں چاہئے کہ کرنسی مارکیٹ یا بنک سے ان درہم کی موجودہ ویلیو یعنی مالیت معلوم کر لیں اورنکاح نامے پر وہ مالیت رقم کروا لیں تب ہی صحیح شرعی مہر ہو ،گا کیونکہ وہ پندرہ سو سال والے پرانے مہر جس کی مالیت 32 روپے بتائی جاتی ہے وہ اب کیسے قابل اعتبار کہلائے گی جب کہ اس وقت ہر چیز کی مالیت میں سینکڑوں گنا تک اضافہ ہو چکا ہے تو پھر مہر کے معاملے میں یہ قدامت پسندی کیوں؟ جب کہ مہر خالصتاً لڑکی کا شرعی حق کہلاتا ہے۔ مزید تفصیلات کیلئے مفتیان کرام سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا نکاح مکہ میں شوال کے مہینے میں ہوا تھا۔ اس وقت عرب کے دستور کے مطابق اس مہینے میں شادی کو معیوب بلکہ نحوست قرار دیا جاتا تھا جو کمزور عقیدے کی بنیاد پر تھا۔ کسی زمانے میں شوال میں طاعون کی وبا پھیلی تھی۔ تاریخ میں اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے یہ نکاح شوال 10 نبو ی میں منعقد کر کے عرب کے اس جاہلانہ تصور کی دھجیاں بکھیر دیں، یہی نہیں بلکہ رخصتی بھی ماہ شوال میں کر کے اسلام کے نظریات کو مزید استحکام بخشا۔ رخصتی ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ عرب کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ وہ منہ بولے بھائی کی بیٹی سے نکاح کو برا تصور کرتے تھے، چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ ؓکا نکاح حضوراکرمﷺ سے کر کے ان کے باطل نظریئے کو زد پہنچائی اور یوں اسلامی نظریات و عقائد کو مزید تقویت پہنچانے کا باعث بنے۔
رخصتی کے بعد حضرت عائشہ ؓ جس مکان میں منتقل ہوئیں وہ کوئی بلندو بالا عمارات نہ تھی بلکہ بنی نجار کے محلہ میں بنی ہوئی مسجد نبوی ﷺمیں چاروں اطراف بنے چھوٹے چھوٹے حجرے تھے، ان میں سے ایک حجرہ آپ ؓ کا بھی تھا جو مسجد کے مشرقی جانب واقع تھا۔ گویا مسجد نبوی ﷺاس حجرے کا صحن تھا کیونکہ اس کا ایک دروازہ صحن ہی کی جانب کھلتا اور بند ہوتا تھا۔ حضور اکرم ﷺ اسی ایک پٹ کے دروازے کو مسجد میں آ مدورفت کیلئے استعمال فرمایا کرتے تھے۔ اس حجرے کی وسعت چھ سے سات ہاتھ تھی۔ دیواریں مٹی کی تھیں۔ چھت کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ہوئی تھی جو اتنی بلند تھی کہ بس آدمی کھڑا ہو جائے۔ اس حجرے کے ایک پٹ کے دروازے سے متعلق لکھا ہے کہ یہ دروازہ بند نہیں ہوتا تھا ہر وقت کھلا ہی رہتا تھا۔ اس گھر کی کل کائنات میں ایک چارپائی ایک چٹائی ایک بستر، ایک تکیہ، جس میں چھال بھری ہوئی تھی، آٹا اور کھجور رکھنے کیلئے دو مٹکے تھے، پینے کیلئے پانی کا ایک برتن اور صرف ایک پیالہ تھا۔یہ تھی مسکن نبویﷺ کے گھر کی منظر کشی جو پوری کائنات کیلئے انوار و تجلی کا منبع تھی۔ مگر عالم یہ تھا کہ چالیس چالیس دن تک یہاں چولہانہ جلتا تھا۔ اکثر کھجور، ستو اور صرف پانی پر گزارہ رہتا تھا۔ بعض اوقات اشیائے خوردونوش گھر میں موجود ہوتیں۔ عین کھانے کے وقت کوئی سائل مستحق یا مسافر آتا تو اسے عطا کر دی جاتیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضور اکرمﷺ کی محبوب ترین رفیقہ حیات تھیں۔ وہ حسین و جمیل ہی نہیں بلکہ نہایت ذہین، عقل مند، معاملہ فہم، دور رس نگاہ کی حامل تھیں۔ تفسیر، علم حدیث فقہ و قیاس، عقائد اور خواتین کے بارے میں خصوصی علم کی حامل تھیں۔ آپ ؓ نہایت عبادت گزار خاتون تھیں، سخت گرمی میں بھی روزے رکھا کرتی تھیں۔ خادمہ کی موجودگی میں آٹا خود پیستیں، حضوراکرمﷺ کو روٹی پکا کر دیتیں، آپﷺ کا بستر بچھاتیں، کپڑے دھوتیں وقت نماز وضو کیلئے پانی اور مسواک مہیا کرتی تھیں۔ بیوی کا سب سے بڑا جوہر شوہر کی فرمانبرداری ہوتا ہے جو آپ میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ آپ ﷺ کے ساتھ نو برس تک رہیں۔
آپ ﷺ وفات سے پیشتر 13 دن بیمار رہے جن میں سے آپﷺ 8 دن حضرت عائشہ ؓکے پاس رہے۔ آپ ؓ نے حضور ﷺکی دل و جان سے تیمارداری کی، اس وقت آپ ؓ کی عمر اٹھارہ برس تھی۔ آپؓ کے بطن سے کوئی اولاد نہیں، حضرت عائشہ ؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ حضورﷺنے جب دنیا سے وصال فرمایا تو آپ ؓ کے حجرہ مبارک میں مدفون ہوئے۔ صحین میں آپ ؓ سے روایت کردہ 286 احادیث ہیں۔ آپ ؓ کا شمار کثیر الروایات صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ آپ ؓ کے پاس ان کا ایک قلمی نسخہ بھی موجود تھا۔ آپ ؓ کی وفات 17 رمضان المبارک 58ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔