حضرت شیخ العرب و العجم دامت برکاتہم العالیہ کا مدینہ منورہ سے واپس ہوتے ہوئے کلام، جس کا ایک ایک حرف سوز و عشق اور دردِ دل میں ڈوبا ہو ا اور قلب میں اُترتا ہوا ہے۔ جیسے محبّ کو محبوب سے محبت ہوتی ہے ایسے ہی محبوب سے وابستہ ہر شئے بھی محبوب ہوتی ہے اسی لیے تو مذکورہ کلام کے اس مصرعہ میں ‘‘مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ’’ کی تکرار بھی بہت لطف دیتی ہے اور وجدانہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
یہ صبحِ مدینہ یہ شامِ مدینہ
مبارک تجھے یہ قیامِ مدینہ
بھلا جانے کیا جام و مینائے عالم
تِرا کیف اے خوش خرام مدینہ
مدینہ کی گلیوں میں ہر اِک قدم پر
ہو مدِّ نظر احترامِ مدینہ
مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ
بڑا لطف دیتا ہے نامِ مدینہ
نگاہوں میں سلطانیت ہیچ ہو گئی
جو پائے گا دِل میں پیامِ مدینہ
سکونِ جہاں تم کہاں ڈھونڈتے ہو
سکونِ جہاں ہے نظامِ مدینہ
ہو آزاد اخترؔ غم دو جہاں سے
جو ہو جائے دِل سے غلام مدینہ
مبارک تجھے یہ قیامِ مدینہ
بھلا جانے کیا جام و مینائے عالم
تِرا کیف اے خوش خرام مدینہ
مدینہ کی گلیوں میں ہر اِک قدم پر
ہو مدِّ نظر احترامِ مدینہ
مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ
بڑا لطف دیتا ہے نامِ مدینہ
نگاہوں میں سلطانیت ہیچ ہو گئی
جو پائے گا دِل میں پیامِ مدینہ
سکونِ جہاں تم کہاں ڈھونڈتے ہو
سکونِ جہاں ہے نظامِ مدینہ
ہو آزاد اخترؔ غم دو جہاں سے
جو ہو جائے دِل سے غلام مدینہ