خواتین کا عالمی دن
پاکستان میں خواتین کی حالت زار ، ایک جائزہ
پاکستان سیمت دینا بھر میں 8 مارچ کا عالمی دن ہر سال با قاعدگی سے منایا جاتا ہے، اس موقع پر دینا بھر میں خواتین کے حقوق کے متعلق سیمینار،ریلیاں اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے. جہاں عالمی سطح پر عورتوں کے حقوق اور ان کے جانے والے نشدد کے خلاف ئواین او جیسے عالمی ادارے آواز بلند کر رہے ہیں وہاں مختلف مقامی تنظیمیں بھی اس ضمن میں کام کر ری ہیں. اس کے باجواد پچھلے کئی سالوں سے پاکستان سیمت دینا بھر میں خواتین کے خلاف نشدد کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے. صرف امرنکہ میں عورت پرظلم کا یہ حال ہے. کہ روانہ 280 خوتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایاجاتا ہے. اور ان میں اسی فیصد کو قتل کر دیتا جاتاہے. دنیا بھر میں ہر سال 40 لاکھ خواتین کو عصمت فروشی کے دھندہ میں دھکیل دیا جاتا ہے. پاکستان،ہندوستان اور بنگہ دیش میں ہر سال 10 لاکھ سے زائد خواتین کی فروخت ہوتی ہے ، جبکہ بنگہدیش، سرلنکا، ہندوستاناور پاکستان کے بعض علاقوں سے انسانی اسمگلر ہر سال لاکھوں خواتین جوبیرون ممالک جسم فروشی اور بیگار لینے کیلئے اسمگل کرتے ہیں.
عورتوں کے عالمی دن کے موفع پر پاکستان مین عورتوں کے ساتھ زیادتیوں کی تفصیل پر ایک ریورٹ شائع ہوئی ہے جس مین چونکا دینے والے حقائق یبان کئے گئے ہیں. اس کے مطابق صرف پنجاب میں گزشتہ 5 سالوں میں 9679 حوا کی بیٹیاں موت کا شکار ہوہیں. ان میں 1638 کو باپ، بھای،شوہر یا دیگر رشتہ داروں نے موت کے گھاٹ اتاردیا جبکہ 8014 خواتین کو جائیداد کی خاطر دشمنی کا بدلہ لینے اور دیگروجوہات کی بنائ پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا. جہیز نہ لانے ،حقوق مانگنے اور گھریلوزعات کی بنائ پر 3379 خواتین کو آگ لگا کر یاتیزاب بینک کر زندہ جلا دیا گیا. جبکہ کاروکاری، کالا کالی، وٹہ سٹہ، ونی کی رسوم، اور حدود آردنینس کی بھینٹ چڑھنے والی ہزاروں خواتین کی چیخ و پکا سننے والا کوئی نہیں.
اس وقت ملک کی جیلوں میں 60 فیصد خواتین حدود آرڈ یننس کے تحت قید ہیں . ان میں اکثریت ان خواتین کی ہے جن کے ساتھ جنسی زیادتی ہی ان کا جرم بن گیا ہے. اسی سال ملک بھر میں 183 عورتیں اغواء ہیو ہئں. 177 خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایاگیا.
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی سالانہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہر گھنٹے میں ایک عورت کی عصمت دری ہوتی ہے. کاروکاری کی آڑ میں عورت کو جان سے ماردیاجاتا ہے. اس سلسلے میں افشین مسرت اور شائستہ کیس قابل ذکر ہیں.
ہمارے معاشرے میں بچپن سے ہی لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتاہے. اور وہ اس محبت اور گرم جوشی سے محروم رہتی ہیں. جو کہ اس کا فطری حق ہے. ہوش سنبھالتے ہیں پدایات واحکامات کا ایک سلسہ شعروع ہوجاتا ہے. بات بات پر روک ٹوک اور قدم قدم پر نصیحت کی جاتی ہے یہ وہ دورہے جس کے لیے ماہرین نفسیات نے کہا ہے. کہ بچے کی زندگی کی عمارت کھڑی ہو رہی ہوتی ہے. اور بچے کے صغت مند ذہنیوجسمانی ارققاع کیلئے ضروری ہے کہ اسے آزاد چھوڑ دیاجائے. لیکن صرف لڑکی ہیونے کی وجہ سے اس دور میں جبکہ اس کا شعر بن رہا ہوتاہے . اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جاتاہے. پابندیاں عائد کی جاتی ہیں.
گھر سے باہر نکلنے والی عورت کو ہر قدم پر ذہنی وردحانی ازیت اور مردوں کے جارحانہ کردار کا سامنا کرنا پڑتا ہے. راہ چلتے لوگوں کی چبھتی ہوئی نظریں نا شائستہ جملے، بے ہودہ مذاق ، فملی گانے متیز سیٹیاں اور ٹھنڈی آہیں دو پٹہ کھینچ لینا، کہنی مار دینا، جان بوجھ کر ٹکراتے ہوئےچلنا مردوں کے روہے کی نہایت عام مثالیں ہیں یہ رویہ انہوں نے بھری پری جگہوں بازاروں اور بس اسٹاپ پر اپنا رکھا ہے. تو تصور کیجئے کہ ایک تنہا لڑکی کا کسی سنسان راستے سے گزرنا کتنا بڑا مسلئہ بن گیا ہے. مردوں کا ایک گروہ جو اپنی عورتوں کو گھر میں مقید رکھتا ہے. اور اس سلسلے میں معاشرتی ومذہبی دلائل کا استعمال بڑی خوبصورتی سے کرتا ہے. اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا. یہ اس کے قول و عمل کا تضاد ہے. جس کی بناء پر وہ لاشعوری طور پر اپنے جیسے ہی کسی ایسے شخص سے خوفزدہ ہوتاہے. جو اس کے گھر سے باہر نکلنے والی عورت پر ویسی ہی نگاہ ڈالے گا. جیسی کہ وہ دوسری عورتوں پر ڈالتا پے.
مرد کی ایک عام خصوصیت جو ہ ہر چبقے کے مرد میں پائی جاتی ہے وہ ہے عورت پرہاتھ اٹھانا گویا کہ یہ بھی مردانگی اور برتری کی نشانی ہے. ازدواجی زندگی سے متلقہ بہت سے حقائق اور مسائل مثلا اولاد پیدا نہ ہونے ہا لڑکا پیدا نہ ہونے کی تمام ذمہ دار عورت ٹھہرائی جاتی ہے. اور ایسی صورتحال میں مرد شدید جارحانہ انداز اختیار کرتا ہے، اپنے سب سے بڑے ہتھئیار، طلاق کے بل بوتے پر عورت کے ساتھ اتتہائی بدتر اور غیر انسانی رویے کا مظاہرہ کرتاہے. چلاق کے داغ سے بچنے کی خاطر عورت جسمانی نشدد کے مسلسل کرب کو پہنے پر مجبور ہو جاتی ہے. اور یوں مرد ذہنی اور جسمانی جارحیت کے نت نئے طریقے آزماتا چلاجاتاہے.اس پس منظر میں مسلم لیک ق سے تعلق رکھنے والی رکن پنجاب اسمبلی ڈاکڑ انجم امجد کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشددکے انسداد کابل پیش ہونے کے بعد اس امید نے جنم لیا کہ اس قانوں سے عام عورت کو فوری ریلیف چاہئےتا ہم گھر کی چاردیواری کے اندر اس پر ہونے والا نشدد جرم تو قرار پاے گا لیکن مختلف سیاسی جماعتوں کے مرداراکین نے اس بل کی جس طرح مخالفت کی اس نے اس حقیقت کو عیاں کر دیا ہے، کہ گریجوایٹ اسمبلی کے اراکین اور دوسرے مرد حضرات عورت کے معامے میں ایک ہی سوچ رکھتے ہیں حالانکہ یہ بل عورت کو صرف اتنا حق دیتا ہے کہ وہ خود پر ہونے والے تشدد سے بچنے کئے لئے کسی سے مدد مانگ سکتی ہے.
غریب اور نچلے طبقے کی عورتیں ( جن میں گھروں میں کام کرنے والی عورتیں یا صفائی کرنے والی عورتیں خصوصیت سے سامل ہیں) جن کے شوہر بے روزگار، عادی مجرم یا نشے کے عادی ہوتے ہیں. اور کوی کام نہیں کرتے.
موجودہ حکومت نے خواتین پر نشدد کے حوالے سے بیانات ترتیب دیئے ہیں مگر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے. لمحہ فکریہ ہے. کہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد بھی چل رہی ہے. اور حکومت کے بیانات بھی چل رہے ہیں، مگر حقیقت اپنی جگہ ہے کہ حواکی بیٹی معاشرتی جبر سے لگنے والی آگ میں مسلسل جل رہی ہے. جس کی اہم وجوہات میں قانون اور اس پر عملرار آمدکا جھکاؤ مرد کی طرف ہونا. سماجی دباؤ کی ذریعے عورتوں کو خاموش کرانا، عورتوں کا خود قانون سے بے خبر ہونا اور مجموعی طور پر نشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کے متعلق معاشرے اور ریاستی اداروں کا غیر ہمد ردانہ رویہ ہیں۔
پاکستان میں خواتین کی حالت زار ، ایک جائزہ
پاکستان سیمت دینا بھر میں 8 مارچ کا عالمی دن ہر سال با قاعدگی سے منایا جاتا ہے، اس موقع پر دینا بھر میں خواتین کے حقوق کے متعلق سیمینار،ریلیاں اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے. جہاں عالمی سطح پر عورتوں کے حقوق اور ان کے جانے والے نشدد کے خلاف ئواین او جیسے عالمی ادارے آواز بلند کر رہے ہیں وہاں مختلف مقامی تنظیمیں بھی اس ضمن میں کام کر ری ہیں. اس کے باجواد پچھلے کئی سالوں سے پاکستان سیمت دینا بھر میں خواتین کے خلاف نشدد کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے. صرف امرنکہ میں عورت پرظلم کا یہ حال ہے. کہ روانہ 280 خوتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایاجاتا ہے. اور ان میں اسی فیصد کو قتل کر دیتا جاتاہے. دنیا بھر میں ہر سال 40 لاکھ خواتین کو عصمت فروشی کے دھندہ میں دھکیل دیا جاتا ہے. پاکستان،ہندوستان اور بنگہ دیش میں ہر سال 10 لاکھ سے زائد خواتین کی فروخت ہوتی ہے ، جبکہ بنگہدیش، سرلنکا، ہندوستاناور پاکستان کے بعض علاقوں سے انسانی اسمگلر ہر سال لاکھوں خواتین جوبیرون ممالک جسم فروشی اور بیگار لینے کیلئے اسمگل کرتے ہیں.
عورتوں کے عالمی دن کے موفع پر پاکستان مین عورتوں کے ساتھ زیادتیوں کی تفصیل پر ایک ریورٹ شائع ہوئی ہے جس مین چونکا دینے والے حقائق یبان کئے گئے ہیں. اس کے مطابق صرف پنجاب میں گزشتہ 5 سالوں میں 9679 حوا کی بیٹیاں موت کا شکار ہوہیں. ان میں 1638 کو باپ، بھای،شوہر یا دیگر رشتہ داروں نے موت کے گھاٹ اتاردیا جبکہ 8014 خواتین کو جائیداد کی خاطر دشمنی کا بدلہ لینے اور دیگروجوہات کی بنائ پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا. جہیز نہ لانے ،حقوق مانگنے اور گھریلوزعات کی بنائ پر 3379 خواتین کو آگ لگا کر یاتیزاب بینک کر زندہ جلا دیا گیا. جبکہ کاروکاری، کالا کالی، وٹہ سٹہ، ونی کی رسوم، اور حدود آردنینس کی بھینٹ چڑھنے والی ہزاروں خواتین کی چیخ و پکا سننے والا کوئی نہیں.
اس وقت ملک کی جیلوں میں 60 فیصد خواتین حدود آرڈ یننس کے تحت قید ہیں . ان میں اکثریت ان خواتین کی ہے جن کے ساتھ جنسی زیادتی ہی ان کا جرم بن گیا ہے. اسی سال ملک بھر میں 183 عورتیں اغواء ہیو ہئں. 177 خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایاگیا.
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی سالانہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہر گھنٹے میں ایک عورت کی عصمت دری ہوتی ہے. کاروکاری کی آڑ میں عورت کو جان سے ماردیاجاتا ہے. اس سلسلے میں افشین مسرت اور شائستہ کیس قابل ذکر ہیں.
ہمارے معاشرے میں بچپن سے ہی لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتاہے. اور وہ اس محبت اور گرم جوشی سے محروم رہتی ہیں. جو کہ اس کا فطری حق ہے. ہوش سنبھالتے ہیں پدایات واحکامات کا ایک سلسہ شعروع ہوجاتا ہے. بات بات پر روک ٹوک اور قدم قدم پر نصیحت کی جاتی ہے یہ وہ دورہے جس کے لیے ماہرین نفسیات نے کہا ہے. کہ بچے کی زندگی کی عمارت کھڑی ہو رہی ہوتی ہے. اور بچے کے صغت مند ذہنیوجسمانی ارققاع کیلئے ضروری ہے کہ اسے آزاد چھوڑ دیاجائے. لیکن صرف لڑکی ہیونے کی وجہ سے اس دور میں جبکہ اس کا شعر بن رہا ہوتاہے . اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جاتاہے. پابندیاں عائد کی جاتی ہیں.
گھر سے باہر نکلنے والی عورت کو ہر قدم پر ذہنی وردحانی ازیت اور مردوں کے جارحانہ کردار کا سامنا کرنا پڑتا ہے. راہ چلتے لوگوں کی چبھتی ہوئی نظریں نا شائستہ جملے، بے ہودہ مذاق ، فملی گانے متیز سیٹیاں اور ٹھنڈی آہیں دو پٹہ کھینچ لینا، کہنی مار دینا، جان بوجھ کر ٹکراتے ہوئےچلنا مردوں کے روہے کی نہایت عام مثالیں ہیں یہ رویہ انہوں نے بھری پری جگہوں بازاروں اور بس اسٹاپ پر اپنا رکھا ہے. تو تصور کیجئے کہ ایک تنہا لڑکی کا کسی سنسان راستے سے گزرنا کتنا بڑا مسلئہ بن گیا ہے. مردوں کا ایک گروہ جو اپنی عورتوں کو گھر میں مقید رکھتا ہے. اور اس سلسلے میں معاشرتی ومذہبی دلائل کا استعمال بڑی خوبصورتی سے کرتا ہے. اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا. یہ اس کے قول و عمل کا تضاد ہے. جس کی بناء پر وہ لاشعوری طور پر اپنے جیسے ہی کسی ایسے شخص سے خوفزدہ ہوتاہے. جو اس کے گھر سے باہر نکلنے والی عورت پر ویسی ہی نگاہ ڈالے گا. جیسی کہ وہ دوسری عورتوں پر ڈالتا پے.
مرد کی ایک عام خصوصیت جو ہ ہر چبقے کے مرد میں پائی جاتی ہے وہ ہے عورت پرہاتھ اٹھانا گویا کہ یہ بھی مردانگی اور برتری کی نشانی ہے. ازدواجی زندگی سے متلقہ بہت سے حقائق اور مسائل مثلا اولاد پیدا نہ ہونے ہا لڑکا پیدا نہ ہونے کی تمام ذمہ دار عورت ٹھہرائی جاتی ہے. اور ایسی صورتحال میں مرد شدید جارحانہ انداز اختیار کرتا ہے، اپنے سب سے بڑے ہتھئیار، طلاق کے بل بوتے پر عورت کے ساتھ اتتہائی بدتر اور غیر انسانی رویے کا مظاہرہ کرتاہے. چلاق کے داغ سے بچنے کی خاطر عورت جسمانی نشدد کے مسلسل کرب کو پہنے پر مجبور ہو جاتی ہے. اور یوں مرد ذہنی اور جسمانی جارحیت کے نت نئے طریقے آزماتا چلاجاتاہے.اس پس منظر میں مسلم لیک ق سے تعلق رکھنے والی رکن پنجاب اسمبلی ڈاکڑ انجم امجد کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشددکے انسداد کابل پیش ہونے کے بعد اس امید نے جنم لیا کہ اس قانوں سے عام عورت کو فوری ریلیف چاہئےتا ہم گھر کی چاردیواری کے اندر اس پر ہونے والا نشدد جرم تو قرار پاے گا لیکن مختلف سیاسی جماعتوں کے مرداراکین نے اس بل کی جس طرح مخالفت کی اس نے اس حقیقت کو عیاں کر دیا ہے، کہ گریجوایٹ اسمبلی کے اراکین اور دوسرے مرد حضرات عورت کے معامے میں ایک ہی سوچ رکھتے ہیں حالانکہ یہ بل عورت کو صرف اتنا حق دیتا ہے کہ وہ خود پر ہونے والے تشدد سے بچنے کئے لئے کسی سے مدد مانگ سکتی ہے.
غریب اور نچلے طبقے کی عورتیں ( جن میں گھروں میں کام کرنے والی عورتیں یا صفائی کرنے والی عورتیں خصوصیت سے سامل ہیں) جن کے شوہر بے روزگار، عادی مجرم یا نشے کے عادی ہوتے ہیں. اور کوی کام نہیں کرتے.
موجودہ حکومت نے خواتین پر نشدد کے حوالے سے بیانات ترتیب دیئے ہیں مگر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے. لمحہ فکریہ ہے. کہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد بھی چل رہی ہے. اور حکومت کے بیانات بھی چل رہے ہیں، مگر حقیقت اپنی جگہ ہے کہ حواکی بیٹی معاشرتی جبر سے لگنے والی آگ میں مسلسل جل رہی ہے. جس کی اہم وجوہات میں قانون اور اس پر عملرار آمدکا جھکاؤ مرد کی طرف ہونا. سماجی دباؤ کی ذریعے عورتوں کو خاموش کرانا، عورتوں کا خود قانون سے بے خبر ہونا اور مجموعی طور پر نشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کے متعلق معاشرے اور ریاستی اداروں کا غیر ہمد ردانہ رویہ ہیں۔