Me “Trick” اور میٹرک :: مسکراتی تحریر

پیامبر

وفقہ اللہ
رکن
Me “Trick”
حفظ کرکے مدرسہ سے باہر آئے تو ہماری عمر ، ان حدود سے گزر گئی تھی جس میں رفاقت ِصنفِ نازک ابتدائی اسکول میں نصیب ہوجاتی ہے، جس کے واقعات سن سن کر ہم سُن سے ہونے لگتے تھے، اس عمر کو آپ بچپن کہہ سکتے ہیں،(بچپن والدین کی غلط فہمی کا دوسرا نام ہے) اس لیےان کلاسز میں بیٹھنے کاسوال ہی نہیں تھا۔ حفظ کا سن کر سب عزت کرتے تھے، (مگر ہمارے دل کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتاہے) یار دوست پوچھتے تھے قاری صاحب میٹرک کرلی؟ ہم کہتے ، یہ کیا ہوتاہے؟ جبکہ ازرُوئے گرامر سوال یہ ہونا چاہیے تھا “یہ کیا ہوتی ہے؟”
اب ہمیں شوق چرایا کہ یار میٹرک کرلی جائے!ابو سے بات ہوئی۔ بس پھر اسکولوں کے چکر لگنے لگے کہ بس ہمیں میٹرک کرنی ہے۔ ابو نے ایک جاننے والے کے اسکول میں بھیج دیا کہ میاں ہمارے صاحبزادے میٹرک کرنا چاہتے ہیں، کروادو۔ انہوں نے کہا کہ کل اتنے بجے آجانا۔اسکول پہنچ گئے، داخلہ ہوا اور ہماری تعلیم شروع۔ چونکہ ہم قومی لباس میں اسکول جاتے تھےاور مخصوص شکل و صورت میں، چنانچہ کوریڈور سے گزرتے ہوئےمختلف القاب سے نوازے جاتے۔ وہاں جاتے ہی ہمارے لیے ایک جملہ مشہور ہوگیا تھا کہ میں وہاں صنفِ نازک کو قاعدہ پڑھانے آیا ہوں۔ اگر موقع ملتا تو کیا برا تھا؏
سرِ تسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے
مگر افسوس! اس کا موقع دیا نہیں گیا ورنہ نیکی میں دیری! سوال ہی پیدانہیں ہوتا! کچھ واقعات بھی پیش آئے جن کو نظر اندازکردینا ہمارے عزتِ نفس کی حفاظت کےلیے موزوں ہے۔ چونکہ اس وقت طالبان اور بن لادن معزز کیریکٹرز تھے اس لیے ہم یہ خطاب حاصل کرنے سے محروم رہے۔
اب آپ سوچیے!کہ مدرسہ کے طالب کو نویں کلاس میں بٹھا دیا جائے تو کیا ہوگا! انگلش (اس وقت انگریزی) سے میری فقط واقفیت اتنی تھی کہ میں اس کے بولنے والوں کو پکّا کافر سمجھتا تھا، باقی آپ سمجھدار ہیں۔ڈرائنگ کی ہوا تو ہماری روح کو بھی نہیں لگی تھی، اب ایسے میں آپ ہم سے بائیولوجی کی ڈائیاگرامز بنوائیں تو کھجل تو ہونا تھا، ہم بھی ہوئے۔ہم مزید کھجل نہیں ہوسکتے ، سمجھ کر لو متھے کنال دے کے لیکن!
اس دوران سندھی میں کچھ اسباق بھی پڑھے جس کےکچھ الفاظ آج بھی یاد آتے ہیں، ایک اجرکوں ہے، غالباً یہ اجرک کی جمع ہے، ہم اسے عربی قواعد کی رُو سے “اَجرَکُون” پڑھے تو بہت قہقہے بلند ہوئے تھے۔ایک حمد کے الفاظ بھی کچھ یاد آتے ہیں “جن جو وارث توں”شام کو امی کو سنانے کے لیے ذرا اونچی آواز سے دہراتے تھے، مطالب تو ہمارے فرشتے بھی نہ جانیں!
معلوم ہوا کہ ایک جگہ رات کو ٹیویشن بھی ہوتا ہے، ہم بھی جانے لگے ۔ تعلیم تو یہاں بھی نہ لی، البتہ امید کی کوئی “کِرن” یہاں بھی (روشن )نہ “ملی”۔کِرن نام کی ایک فیلو تھی تو!
دن یونہی گزرتے رہے، سکول کے پیریڈز میں روز ایک ہی واقعہ ہوتا۔ سندھی میں پٹائی کھاتے۔ اسلامیات تو اپنا میدان تھا، اس میں واہ واہ ہوجاتی۔ اسلامیات کے استاد گویا ہمارے لیے اچھے وقت کی نوید تھے، ان کا بڑا سا ہاتھ کسی حریف لڑکے کے چمکیلے گال پر پڑتا، ہم تِرچھے ہوکر دانت دِکھاتے تو کڑوی یادوں کے لیے مرہم کا سامان ہوجاتا۔ بائیو میں ڈائیاگرامز سب سے چھُپ کر بناتا تھا، کیوں کہ دِکھا کر بنانے کی کوئی وجہ نہیں نہیں تھی، ڈائیاگرامز بنانے کا ایک ہی مقصد ہوا کرتا تھا “ٹیچر” کو ہنسنے کا سامان فراہم کرنا۔ خیر! یہ اتنا سستا سودا نہیں تھا ۔ انگریزی میں اور کچھ سیکھا نہ سیکھا ، اتنا جان گئے کہ اس میں ایک Tenses نامی چیز ہوتی ہے جو بہت tense دیتی ہے۔ ٹیکسٹ بک خریدی نہ اس کی ضرورت سمجھی گئی، انگریزی ہمارے لیے اتنی ہی عجیب تھی جتنا معصوم بچے کے لیے بڑا ہونا!
وقت گزرتے ساتھ ساتھ وہ ہمارے حریف ہمارے قریب آنے لگے کہ انہیں ہماری ذات میں وہ نہیں ملتا تھا جس کی انہیں تلاش تھی، پھر شامیں اکثر شہر سے باہر ساتھ گزرتی تھیں اور ساتھ مل کر گنگناتے تھے؏
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
پھر یہ خبر کانوں کو لگی کہ پیپرز آرہے ہیں۔کسی سے معلوم پڑا کہ گیس پیپرز ملتے ہیں، ان سے تیاری ہوسکتی ہے۔ تب بہت سوچا کہ “ گیس” کا پیپر سے کیا تعلق ہے پر نہ سمجھے! یہ عُقدہ بہت بعد میں کھُلا کہ یہ وہ والا گیس نہیں، جو ہم سمجھتے تھے۔دوستوں اور اساتذہ کی جانب ہمیں ان تمام “دشواریوں” کا احساس دلایا گیا تھا جو ہمیں اس پر آشوب راہ میں پیش آنے والے تھے اور اس کے لیے مختلف جِہات سے اس کی تیاری بھی سمجھائی گئی تھی۔ یہ تیاریاں کچھ اس طرح تھیں کہ مختلف اداروں سے نوٹس منگوائے، مقوّی دماغ ادویہ اور حکیمی معاجِن کا استعمال شروع کردیا۔ ہر وقت “پڑھائی” کی دُھن میں رہنے کی وجہ سے امی کا بار بار پوچھنا کہ “بیٹا کچھ چاہیے تو نہیں!” اور آخری مگر اہم ترین تیاری یہ تھی کہ متعدد خفیہ جیبوں والے سوٹ کا آرڈر بھی دے دیا۔ اس کے ساتھ “مشکل وقت” میں کام میں لانے کے لیے ایک “موٹی” رقم کا انتظام بھی ہوچکا تھا۔ جیبوں کی تعداد اس بات پر منحصر تھی کہ پرچے میں سوالات کی تعداد کتنی ہوتی ہے!
نوٹس ملنے لگے تو “تیاریاں” بھی شروع ہوگئیں، تیاری وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں، بلکہ ضروری کاغذات متعلقہ جیبوں میں اہتمام سے پہنچا دئیے گئے۔ حفظ ما تقدّم کے طور پر اپنے امتحان گاہ کے پرنسل صاحب سے بھی “سلام دعا” ہوگئی۔
ہم امتحان کی “تیاریوں ”میں اتنے مگن تھے کہ ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا، اور امتحان سر پر آپہنچا۔ ہمارے ایک استاد کا کہنا تھا کہ؛
“جو طالب علم مکمل لگن اور دلجمعی سے کام کرتا ہے اس کی تیاری وقت پر مکمل ہوجاتی ہے ۔”
ہمیں اب بھی فخر ہے کہ ہم ان کے اس قول پر پورے اترے، تیاری کی نوعیت بدل جائے تو کیا ہوا! تیاری بہر حال تیاری ہوتی ہے۔ خیر اس سے پہلے کہ فخر، غرور کی سطح تک پہنچتا، اس خیال کو یہ سوچ کر ختم کردیا کہ
“ کہ یہ سب تو بس فضل ہے ورنہ ہم اس قابل کہاں”
دواؤں نے اپنا اثر دکھا نا شروع کردیا تھا جس کے نتیجے میں ہمیں اچھی طرح سے یاد ہوگیا کہ کونسا “مواد” کس جیب میں ملے گا کیوں کہ محنت کا ثمر ضرور ملتا ہے۔
ہم امتحان دینے کو بے تاب تھے، علم کے دریا بس بہنا چاہتے تھے لیکن ایک رکاوٹ تھی کہ تاریخ آ کے نہیں دے رہی تھی۔اپنی تیاری کی بدولت ہمیں اللہ پر بھروسہ کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا تھا، البتہ جیبوں پر پورا اعتماد تھا کہ وہ ناکام نہیں ہونے دیں گے۔
اب تک تو ہم نے صرف ظاہری اسباب اختیار کیے تھے، معاً بڑوں کا قول یاد آیا کہ اسبابِ ظاہریہ کے ساتھ ساتھ اسباب پیدا کرنے والے سے بھی تعلق جوڑنا چاہیے۔
لہٰذا ہم نے اللہ سے ہر سال امتحانوں میں ہر خاص و عام مانگی جانے والی دعا تہہ دل سے گڑگڑاکر مانگی کہ؛
“اے اللہ ! بس اس سال پاس کروادے، اگلے سال خوب محنت سے پڑھوں گا۔”
امتحان کی تاریخ آئی، مقررہ وقت پر گھر سے نکلے، ہماری چال میں ایک عجیب سُرُور تھا، نہ لگتا تھا کہ پیپر دینے جارہے ہیں، ہماری چال ایسی تھی جیسی فلم بینوں کی سینما سے نکلنے پر ہوتی ہے۔ بس سٹاپ پر پہنچے تو اس میں سوار ہوگئے۔ بے خیالی میں بس کو امتحان گاہ سمجھ بیٹھے اور کنڈیکٹر کو نگران،جب کنڈکٹر نے کرایہ مانگا توسوچنے لگے ، اتنی ڈھٹائی! لیکن لفظ “کرایہ”پر غور کیا تو معمہ حل ہوا۔
کمرۂ امتحان میں پہنچ کر ہم نے کھڑکی سے متصل نشست منتخب کی جو امپورٹ اور ایکسپورٹ کا اچھا ذریعہ بن سکتی تھی۔ دی گئی ہدایات کے مطابق اب کبھی “چھوٹے” کی تلاش تھی، جو بوقت ضرورت “سامان” کی ڈیلیوری دے سکے۔ ایک صاحب کی جو شکل پر یہ عبارت لیے پھرتے تھے کہ“کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے” ہم نے اشاروں اشاروں میں بلایا کہ ہم آپ کی بات سمجھتے ہیں۔ ہم نے دانت نکالے، اس کے پہلے ہی نکلے ہوئے تھے۔ اس لیے ہم دونوں نے اپنے اپنے “کچھ” کا تعین کیا ۔ وہ صاحب دوبارہ آنے کا وعدہ لے کر رخصت ہوگئے۔ اب ہم تھے اور ہمارا پیپر۔
ہم نے اللہ کا نام لیا اور جیبوں کا سہارا لیتے ہوئے اس میں موجود مواد کو جوابیہ پرچہ میں “حل” کرنا شروع کردیا۔ سارا ماحول پرسکون تھا۔ سب طلبہ “اپنے کام ” میں مگن تھے۔ بس کبھی کبھار ممتحن کی آواز آتی تھی، “خاموشی سے لکھو، ورنہ چھین لوں گا۔” کچھ دیر گزری تھی کہ “چھوٹا”برآمد ہوا اور مژدہ سنایا کہ “کام” ہورہا ہے، آپ جب تک اپنا ترکش خالی کریں، تب تک مزید کمک مہیا کردی جائے گی۔ اس خبر سے بہت سکون ملا۔ چھوٹے میاں نیوز دینے کے بعد وہاں سے ٹلے نہیں، ہم نے سوالیہ نظریں ان کے چہریں پر گاڑدیں، کہنےلگے“کچھ” دیجیے، آپ کے لیے “کچھ” لانا ہے۔ یہ کھلی چیٹنگ تھی، کیوں الکمونیا میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ ہم نے سوچا انہیں مارکیٹنگ کا اصول سمجھائیں پہلے ڈیلیوری پھر پیمنٹ، مگر حالات بحث کے لیے آہنگ نہیں تھے، اس لیے جناب کا مطالبہ مان لیا گیا۔
اتنے میں اعلان ہوا کہ ہشیار باش! بورڈ کی ٹیم آیا چاہتی ہے۔ قارئین چند ایسے افراد کو ذہن میں رکھیں جن کے ڈیل ڈول کو کاٹن کے سوٹ نے سنبھالا دینے کی ناکام کوشش کی ہو، اورآپ کو مضحکہ خیز لگے تو آپ کامیاب ہیں۔ہم سمجھے کہ بورڈ کی ٹیم آتے ہی ظالم سنگھ کی طرح ہم سب کو“نہتا” کرکے دم لیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ انہیں گیسٹ روم میں موجود فرحت انگیز کھانوں کی خوشبوؤں نے آگے بڑھنے نہ دیا، اور وہ وہیں کے ہو رہے۔ کچھ دیر بعد پرنسپل صاحب فاتحانہ مسکراہٹ لبوں پر سجائے گیسٹ روم سے نمودار ہوئے، یہ فتح کی علامت تھی۔ گویا کہہ رہے ہوں!
روک سکو تو روکو! :: Somebody stop me!
بس پھر کیا تھا!
نگرانی پر مامور اساتذہ کرام نگرانی کم اور تن آسانی زیادہ فرما رہے تھے۔ اکثر وبیشتر آگے کی نشستوں پر جام روح فزا سے شوق فرماتے تھے۔ امتحال ہال میں عملاً ان چھوٹوں کا راج تھا جن میں سے ایک سے ہمارا ٹاکرا ہوا تھا۔پیپر کے دوران ہم نے اپنے آس پاس کے ان “ بے چاروں” کا بھی بھر پور خیال رکھا جن کی “مدد” طلب نگاہیں ہماری منتظر رہتی تھی، کیوں کہ؏
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
تمام سوالات کے جوابات بخوبی انجام پاگئے ۔ البتہ جب پرچہ ختم ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی رہ گیا تب ایک مشکل آن کھڑی ہوئی، ہمارے دوسوال اب بھی باقی تھے، جیبیں ٹٹولیں اور امپورٹڈ مٹیرئیل دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہماری “محنت” اور “بیرونی امداد ”ان باقی ماندہ سوالوں کو حل کرنے سے قاصر ہے، ہماری پیشانی بھیگنے لگی تھی، ہم نے آخری تیر پھینکنے کی کوشش کی اور ایک نگران کو آواز دینے کی کوشش کی۔ پریشانی کے عالم میں ایک ہلکے سے “اِی”کے سوا کچھ نہ نکلا۔ پھر ان کی جانب waveکیا جیسے بس کو رکنے کا اشارہ دے رہے ہیں، وہ تشریف لے آئے۔ ان سے پریشانی ذکر کی تو گویا ہماری پریشانی میں بے چین سے ہوگئے۔ کچھ لمحے“سوچ و بچار” کے بعد ان کو ایک حل سوجھا جو انہوں نے اپنا منہ ہمارے کان کے قریب لاکر ہمیں بتایا۔ اگرچہ ہماری جیب اس وقت تک ہلکی ہوگئی تھی۔ لیکن وہ استاد بہت زیادہ اعتماد کرنے والے معلوم ہوتے تھے کیوں کہ ابھی دو پیپرز باقی تھے اور انہیں اس “احسان” کا پھل ملنے کی پوری امید تھی،ہمیں اپنی نشست سے اٹھاکر وہ ایسے کمرے میں چھوڑ آئے جہاں باقاعدہ ایک معززاستاد جوابات باقاعدہ بورڈ پر تحریر فرمارہے تھے۔ ہمیں خوش آمدید کہا اور ہم بھی علم کے دریا میں بہنے لگے۔
میٹرک کے آخر میں “ٹِرِک” آتا ہے اس لیے ٹِرِکس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ اتنی محنت اور (جان کے بجائے) “مال” جوکھوں میں ڈال کر کی جانے والی محنت بھلا کہاں ضائع جاتی ہے، اس لیے ہم بھی کامیاب ہوگئے تھے۔

عطاء رفیع
2003 میں لکھی گئی ایک تحریر۔
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
واہ بھائی ۔ اتنییییییییییییییییییییییییییییییییی زیادہ محنت
بلاشبہ آپ کا نام آب زر سے لکھنا چاہئے ۔[]---
میں درخواست کروں گا الغزالی فورم انتظامیہ سے کہ ایسی محنتی طالب علم کے لئے کسی ایسی ڈگری کا اجرا کیا جائے جو صرف اورصرف ایسے ہی ذہین و فطین اور محنتی طالب علموں کا اعزاز خاص ہو :->~~
 

پیامبر

وفقہ اللہ
رکن
بلاشبہ آپ کا نام آب زر سے لکھنا چاہئے ۔Cook
میں درخواست کروں گا الغزالی فورم انتظامیہ سے کہ ایسی محنتی طالب علم کے لئے کسی ایسی ڈگری کا اجرا کیا جائے جو صرف اورصرف ایسے ہی ذہین و فطین اور محنتی طالب علموں کا اعزاز خاص ہو Spooky
بس جی کبھی غرور نہیں کیا۔
 

پیامبر

وفقہ اللہ
رکن
@[احمدقاسمی] @[مفتی عابدالرحمٰن مظاہری] @[مغموم] @[مفتی رضوان یونس،] @[محمد ارمغان] @[ابو انس] @[qureshi] @[محمد ابوبکر] @[محمد نبیل خان] @[Abdur Rauff]@[Irfan Ahmed] @[محمد اسحاق رشادی] @[سیف] @[عامر] @[اسداللہ شاہ] @[صدیق اکبر امیر] @[ناصرنعمان] @[محمدداؤدالرحمن علی] @[teast account] @[مفتی رضوان یونس،] @[Masood Sadiq] @[بےلگام] @[سیفی خان] @[حیدرآبادی] @[مولانانورالحسن انور] @[محمد شعیب نواز] @[نورمحمد] @[ابن ہمام] @[sahj] @[صف شکن] @[مجمداشرف یوسف] @[محمد نعمان] @[نورانی] @[ابونجمہ سعید] @[zakwan] @[أضواء] @[مزمل شیخ بسمل] @[محمد اشرف يوسف] @[شکیل یونس]@[گلاب خان] @[سارہ خان] @[فوزیہ فرحان] @[رجاء] @[اعجازالحسینی]
 

نورمحمد

وفقہ اللہ
رکن
لاجواب ۔ ۔ ۔ ۔۔ میرے پاس تو الفاظ ہی نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔:->~~ :->~~ :->~~ :->~~ :->~~

“ہمیں اپنی نشست سے اٹھاکر وہ ایسے کمرے میں چھوڑ آئے جہاں باقاعدہ ایک معززاستاد جوابات باقاعدہ بورڈ پر تحریر فرمارہے تھے۔ ۔ ۔ ۔۔ کاش کہ ہمیں بھی کوئی ایسی ٹرک نصیب ہوتی تو ہمارے نصیب ہی کھل جاتے ۔ ۔ ہا ہا ہا :->~~ :->~~
 

اسداللہ شاہ

وفقہ اللہ
رکن
کچھ پڑھا لیکن بہت کچھ سمجھ گیا تقریباَ یہ صورتحال خادم کے ساتھ بھی پیش آئی لیکن اس میں نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے جو مجھ میں نہ تھی۔ بھائی بس معافی چاہتا ہوں نقل سے بڑا بیزار ہوں۔ ایک دفعہ میرے میٹرک کے امتحان اور اسلامیات میں نقل کرواتے ہوئے نگران عالم دین نے مجھے کہا کہ شاہ جی زکٰوۃ تقسیم نہ کریں۔
 

پیامبر

وفقہ اللہ
رکن
اسداللہ شاہ نے کہا ہے:
کچھ پڑھا لیکن بہت کچھ سمجھ گیا تقریباَ یہ صورتحال خادم کے ساتھ بھی پیش آئی لیکن اس میں نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے جو مجھ میں نہ تھی۔ بھائی بس معافی چاہتا ہوں نقل سے بڑا بیزار ہوں۔ ایک دفعہ میرے میٹرک کے امتحان اور اسلامیات میں نقل کرواتے ہوئے نگران عالم دین نے مجھے کہا کہ شاہ جی زکٰوۃ تقسیم نہ کریں۔

یعنی آپ کی ”یادیں” تازہ ہوگئی ہیں۔ []---
 

اسداللہ شاہ

وفقہ اللہ
رکن
پیامبر نے کہا ہے:
اسداللہ شاہ نے کہا ہے:
کچھ پڑھا لیکن بہت کچھ سمجھ گیا تقریباَ یہ صورتحال خادم کے ساتھ بھی پیش آئی لیکن اس میں نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے جو مجھ میں نہ تھی۔ بھائی بس معافی چاہتا ہوں نقل سے بڑا بیزار ہوں۔ ایک دفعہ میرے میٹرک کے امتحان اور اسلامیات میں نقل کرواتے ہوئے نگران عالم دین نے مجھے کہا کہ شاہ جی زکٰوۃ تقسیم نہ کریں۔

یعنی آپ کی ”یادیں” تازہ ہوگئی ہیں۔ []---
جی بہت مزا آیا
اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
 
Top