ذکروفکر
انسان گناہوں کاپتلاہے،عصیان وطغیان سے عبارت ہے،سرکشی ونافرمانی اس کی فطرت اورسرشت ہے،خیرکے کاموں سے بغاوت ،نیکی کی راہوں سے غباوت ایک فطری امرہے،کیونکہ اللہ نے انسان کوانسان بنایاہے اس لئے سہواورنسیان اس کی فطرت ثانیہ اورطبیعت بن گیا-تاہم ہرچیزاپنی اصل کی جانب لوٹتی ہے،چنانچہ آگ کی خاصیت اوپرجاناہے تووہ اوپرکوہی جاتی ہے،اس کی لپٹیں آسمانوں سے باتیں کرتی ہیں ،مٹی کی خاصیت نیچے جاناہے سوآپ کتنی ہی زورسے مٹی کوآسمان کی جانب پھینکیں مگرنتیجہ آخرکویہی ہوگا مٹی کاوہ ڈھیلاپھرفضاسے زمین پرآجائے گا۔
انسان کی خلقت اورپیدائش مٹی سے ہوئی ہے،اس کے اندراللہ تعالیٰ نے خودروح پھونکی ہے اس لئے سعادت اورنیک بختی کوآخرکارفتح حاصل ہوتی ہے۔شقاوت اوربدبختی اپنی نحوستوں سمیت پیوندزمین ہوجاتی ہیں۔
مظاہرعلوم سہارنپورکواللہ تعالی نے ہردورمیں نیک اورنیکوں سے مالامال رکھاہے،یہاں ہرسونیکوں اورنیکیوں کی بہاریں نظرآتی ہیں،ہرسمت قال اللہ اورقال الرسول کاماحول نظرآتاہے،ہرمسجدذکرالہی اورفکرایمانی سے لبریزنظرآتی ہے،یہاں کے درودیوارسے عشق الہی محسوس ہوتاہے،ذکرالہی کی خیرگی محسوس ہوتی ہے،علوم نبوت کی جھلکیاں اورپرچھائیاں یہاں چارسودیکھ سکتے ہیں،مجھے کہنے دیجئے یہی وہ صاحبان علم وذکرہیں جن کودیکھ کرایک عربی عالم وطن واپسی کے بعدیہ کہنے پرمجبورہوگیاکہ آپ لوگ ہندوستان کی کیابات کرتے ہیں؟خدائے پاک کی قسم اگرمیں یہ کہوں کہ میں نے ہندوستان میں فرشتوں کوزمین پرچلتے پھرتے پایاہے تومبالغہ نہ ہوگا۔
بڑی سعادت اورخوش قسمتی کی بات ہے کہ مشہورسلسلہ تصوف نقشبندیہ اویسیہ کے کچھ بزرگ پاکستان سے ہندوستان اورپھرمظاہرعلوم میں قدم رنجہ ہوئے ہیں ،یہاں پانچ روزہ قیام کے دوران ذکرالہی،پاس انفاس اورحلاوت ایمانی سے یہاں کے دروبام کوروشن ومنورکرناشروع کردیا۔یہ قافلہ حکمت الحمدللہ چاردن تک مزیدقیام کرے گااوراس دوران طلبہ و علمائے کرام کوپاس انفاس،ذکرحقیقی،فکرایمانی اورحلاوت ایمانی میں جدت وندرت کے کچھ ایسے طریقے بتائے گاجواب تک عام طورپرعوام کی نظروں سے اوجھل محض کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔(ن م)
انسان کی خلقت اورپیدائش مٹی سے ہوئی ہے،اس کے اندراللہ تعالیٰ نے خودروح پھونکی ہے اس لئے سعادت اورنیک بختی کوآخرکارفتح حاصل ہوتی ہے۔شقاوت اوربدبختی اپنی نحوستوں سمیت پیوندزمین ہوجاتی ہیں۔
مظاہرعلوم سہارنپورکواللہ تعالی نے ہردورمیں نیک اورنیکوں سے مالامال رکھاہے،یہاں ہرسونیکوں اورنیکیوں کی بہاریں نظرآتی ہیں،ہرسمت قال اللہ اورقال الرسول کاماحول نظرآتاہے،ہرمسجدذکرالہی اورفکرایمانی سے لبریزنظرآتی ہے،یہاں کے درودیوارسے عشق الہی محسوس ہوتاہے،ذکرالہی کی خیرگی محسوس ہوتی ہے،علوم نبوت کی جھلکیاں اورپرچھائیاں یہاں چارسودیکھ سکتے ہیں،مجھے کہنے دیجئے یہی وہ صاحبان علم وذکرہیں جن کودیکھ کرایک عربی عالم وطن واپسی کے بعدیہ کہنے پرمجبورہوگیاکہ آپ لوگ ہندوستان کی کیابات کرتے ہیں؟خدائے پاک کی قسم اگرمیں یہ کہوں کہ میں نے ہندوستان میں فرشتوں کوزمین پرچلتے پھرتے پایاہے تومبالغہ نہ ہوگا۔
بڑی سعادت اورخوش قسمتی کی بات ہے کہ مشہورسلسلہ تصوف نقشبندیہ اویسیہ کے کچھ بزرگ پاکستان سے ہندوستان اورپھرمظاہرعلوم میں قدم رنجہ ہوئے ہیں ،یہاں پانچ روزہ قیام کے دوران ذکرالہی،پاس انفاس اورحلاوت ایمانی سے یہاں کے دروبام کوروشن ومنورکرناشروع کردیا۔یہ قافلہ حکمت الحمدللہ چاردن تک مزیدقیام کرے گااوراس دوران طلبہ و علمائے کرام کوپاس انفاس،ذکرحقیقی،فکرایمانی اورحلاوت ایمانی میں جدت وندرت کے کچھ ایسے طریقے بتائے گاجواب تک عام طورپرعوام کی نظروں سے اوجھل محض کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔(ن م)