ق
قاسمی
خوش آمدید
مہمان گرامی
دل کے بہلانے والا فن، کل تک میں دقیانوسی تھی، تب بھی عورت ہی تھی اور آج بھی ماڈرن بن کر میں عورت ہی ہوں ۔ بازاروں میں معمولی سوئی سے لے کر ہوائی جہازوں تک خرید و فروخت میں مجھے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ مردوں کے استعمال میں آنے والی چیزوں کی مارکیٹنگ بڑھانے کے لئے بھی میرا ہی استعمال نسخے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے بڑی شرم آتی ہے لکھنے میں۔
آج کا زمانہ شایدشمع خانہ کا نہیںرہا۔ وہ زمانے لدگئے جب عورت کا گھر سے نکلنا ممنوعہ سمجھا جاتاتھا آج عورت شمع خانہ کی بجائے شمع محفل بنائی اور بنتی جارہی ہے۔ آج یو ںلگتا ہے جیسے عورت کے لئے دنیا میں کوئی حد ہی باقی نہ رہی۔ اگر اشتہاروں کو ہی لیا جائے تو عورت ماچس سے لے کربلیڈ اور بلیڈ سے لے کر بڑی بڑی مشینوں اور غذائی اشتہاروں میں دکھائی دیتی ہے۔ افسوس تواس بات کا ہے کہ آج ہندوستان میں عورتوں کی بڑی بڑی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ عورت مردوں کے شانہ بہ شانہ خلاء تک پہنچ گئی ہے آج کہیں کوئی ایسا محکمہ نہیںجہاںعورت براجمان نہ وہ۔ اس حقیقت کوبھی ٹھکرایا نہیں جاسکتا کہ عورت نے آج ایسے ایسے معرکے سر کئے ہیں کہ سوچنے اور سننے سے عورت کی بہادری اور ہمت کی داد دئیے بغیر نہیں رہا جاتا۔ عورت کا ہوائی جہاز اڑانا سے لے کر ریل گاڑی چلانا۔ اس کے حوصلے اورہمت کی مثال ہے لیکن آج جب وہی عورت جب اشتہاروں میں دکھائی دیتی ہے تو دل میں ایک عجیب سی ہلچل اور دماغ میں سنسناہٹ پیدا کر تی ہے۔عورت کوخدا نے حسن ضروردیا ہے لیکن اس حسن کی پاسداری بھی ـضروری ہے۔ یہ حسن جو خدا نے اس کے شوہر تک محدود رکھنے کی ہدایت کی ہے آج بازاروں اورچوراہوں پر سر عام اپنی دیوانگی کا ثبوت دیتا دکھائی دیتا ہے۔ آج عورتوں کو اشتہاروں میں کچھ ایسے ایسے رخ سے دکھایا جاتا ہے کہ انہیںدیکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے،بڑے بڑے بینروں اور ہورڈنگس پر کچھ اس طرح کے زاویوں میں دکھایا جاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک عورت کیسے اس طرح کی تصویر دے سکتی ہے۔جوبچے اوربوڑھے تو کیا نوجوان بھی دیکھ کر شرما جائیں۔ آج فلموں میں عورتوں کی ایسی ایسی تصویر کشی کی جاتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا شوہر بیوی بھی ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ آج اگر سیاسی پہلو دیکھا جائے تو معمولی بات کے لئے لوگ راستوں پر نکل آتے ہیں، چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور غلط فہمیوں کے لئے خون خرابہ ہوتا ہے۔ لیکن آج تک کسی تنظیم نے عورتوں کے ننگے پن کے لئے کبھی بھی کہیں بھی دھرنا نہیں دیا مخالفت نہیںکی۔ آخر کیوں؟ کہا یہ سماج میں پھیلی برائی نہیں ہے۔ یا پھر ہم اپنے راستوں سے بھٹک رہے ہیں۔ آج کا دور ترقی کا دور ہے لیکن وہ دور بھی کیا جہاں کپڑوں کی حیثیت سمٹ کرصرف انچوں پر آجائے۔ کسی نے کہا ہے-زروزیور نے کی کپڑوں کی جگہ شرم باقی نہ رہی مفلسی غنیمت تھی یوں کپڑوں کی تنگی تو نہ تھی- رہی مفلسی کافی مہینے ہوگئے اندھیری ویسٹ میں لوکھنڈوالا کے راستے کے ایک چوراہے پر ایک عورت کی ایسی تصویر لگی تھی جس کا آدھا سینہ برہنہ لگتا تھا ٹانگیں بالکل کھلی تھیں آپ جانتے ہیں آج کل تصویر بھی اس طرح بنتی ہیں جیسے لگتا ہے کوئی جاندار انسان کھڑا ہو۔! اس طرح ، شاید سال بھر پہلے کی بات ہے باندرا،ٹرنر روڈ جنکشن پر Levis Jeansکا ایک اشتہارلگا تھا دیکھا تو لاکھوں لوگوںنے ہوگا کس طرح میرا استعمال ہوا تھا ۔ لکھتے اور کہتے ہوئے تو شرم محسوس ہو ہی رہی ہے جن عورتوں نے، مردوں کی بات تو رہنے دیجئے دیکھا ہوگا اپنے آپ میں کیسا محسوس کیا ہوگا ۔ شایدمیں اپنے احساسات لکھ ہی نہیں پا رہی ہوں۔ دنیا جیسے جیسے ترقی کی راہ اختیار کررہی ہے ہم عورتوں کا استحصال بھی ترقی اور جدیدیت کے نام پر آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ہم مغرب کی تقلید میں نہ جانے کہاں سے کہاں جا رہے ہیں۔ گذشتہ سال میں نے اردوٹائمز میں پڑھا تھا کہ’’ کیا کرکٹ کے پرموشن کے لئے چیئر گرل کا ہونا ضروری ہے ‘‘؟ پڑھ کر شرم بھی محسوس ہوئی اوراچھا بھی لگا کہ دنیا عورتوں کو کبھی بھی کم سے کم لباس میں دیکھنا پسند نہیں کرتی۔
اس سال بھی پھر IPL-IIمیں آپ نے بھی دیکھا ہوگااور میں نے بھی دیکھا ہے کہ مشہور فلم ایکٹریس مندرا بیدی کا لباس کیسا تھا۔ آج زمانے کی ترقی کے ساتھ فیشن کے نام پر ہر چیز چلتی ہے دیکھا جائے تو آج مرد ایسے لباس زیب تن کرنے لگے ہیں کہ پورا جسم کپڑوں سے ڈھک جاتا ہے لیکن جنہیں اپنا جسم ڈھکنا چاہئے وہ کم سے کم لباس پہن کر اپنے جسم کی نمائش کر رہی ہیں۔ عورت کی عریانیت کو اپنی غیرت کا پاس ہمیشہ اور ہر حال میں ہونا چاہئیے۔ 29؍ اپریل 2009ء کے انقلاب میں لکھا وفا ناہید کا مـضمون ’’ بنت حوا پر ظلم کرنے والی عورت ہی ہے‘‘! ایک بڑا اچھا سبق آموز مضمون تھا۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں اور عورت کو یا پھر مرد کو بھی یہ لباس تار تار کرنے کا کوئی حق نہیں ۔عورت کی غیرت کا ایک واقعہ جس کا ذکر وفا ناہید نے اپنے مضمون میں کیا ہے یہاں رقم کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ کسی جنگ میں ایک صحابیہ کو اپنے اکلوتے بیٹے کی شہادت کی خبر موصول ہوئی وہ صحابیہ با پردہ دیوانہ وار میدان جنگ کی طرف دوڑ پڑیں ۔ لوگوں نے کہا کہ اتنی اندوہناک خبر سننے کے بعد بھی انہیں اپنے پردے کی پڑی ہے۔ ان عظیم صحابیہ نے کیا خوب جواب دیا تھا۔ ’’میںنے جنگ میں اپنا بیٹا گنوایا ہے اپنی غیرت نہیں۔‘‘
شاید آج ایسی عظیم مائیں ہم کھو چکے ہیں یا پھر ہماری یہ مائیں آزادی نسواں کا خواب دیکھتے دیکھتے اپنے آپ میں ہی کہیں کھو رہی ہیں۔ آزادیٔ نسواں ایک سنہرا خواب ہے ہر عورت چاہتی ہے وہ اس خواب کی تعبیر بن کررہے لیکن آج اس خواب کی تعبیر کتنی گھناؤنی ہے یہ صرف عورت ہی جانتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ اس تعبیر کے لئے اسے کیا کچھ نہیں گنوانا پڑتا ہے۔ کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اپنے جسم کو سڈول بنانے سے لے کر بڑی بڑی کرسیوں کے حاصل کرنے تک کن کن مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ ہم عورتیں نہیں سوچتیں کہ اس پوزیشن کے پیچھے کتنے زخم چھپے ہوتے ہیں، میں خود عورت ہوں، عورت کی آزادی کے خلاف نہیں ہوں، لیکن وہ بے جا آزادی ہمارے لئے بالکل بھی نہیں ہے جو معاشرے کو سدھارنے کی بجائے پستیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ دنیا میں اگر کسی مذہب نے عورت کو تحفظ اور آزادی دی ہے تو وہ ہے’ اسلام‘ اور آج ہم اسی اسلام کی تعلیم کو بھول کر مغرب کی طرف گامزن ہیں اور نتیجہ دیکھئے-
یہ مغربی فضاء پھیلی ہے دیکھو مشرق میں
جہاں شارب ترقی سب حیا چھین لیتی ہے
یہ حیاہی ہے جس نے عورت کو ایک اچھی ماں، اچھی بیوی، اچھی بھابی اور بہن بیٹی بنا کر پیش کیا اور یہ حیا ہی ہے جس نے عورت کو ڈائن تک بنا ڈالا۔ ہم اکثر اخبار میں عجیب عجیب خبریں پڑھتے ہیں کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے جیسے ہم اخبارپڑھنا شروع کرتے ہیں ہماری آنکھیں شرم سے جھکنے لگتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں میرا روڈ کا معاملہ آپ لوگوں نے پڑھا ہوگا کس طرح ایک عورت ہی نے اپنی بیٹیوں کے لئے گھر ہی جہنم بنا رکھا تھا۔ کیا اس طرح کی عورتیں ماں بہن اور بیوی کہلانے کے قابل ہو سکتی ہیں۔ آج ہندوستان میں کئی عورتوں کی تنظیمیں اور تحریکیں چل رہی ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے لئے لڑنے والی یہ تنظیمیں پتا نہیں کہاں تک عورتوں کے حقوق کا دفاع کرنے میں کامیاب ہیں۔ آج Advertisementکے نام پر عورت نے تو اپنا پورا لباس ہی اتار دیاہے۔ اور اس کے بعد یہ آواز بھی اٹھائی جاتی ہے کہ ہندوستان میں سرعام عورت کی عزت لوٹی جاتی ہے میںتو سمجھتی ہوں اگر عو رت اپنا لباس ہی ڈھنگ سے پہنے تو کیا مجال ہے کہ کوئی مرد اس کی طرف تڑچھی نظر ہی کرے۔ میری ایک دوست ہے ،بات میں بالکل سچائی ہے، دوران گفتگو ایک دن یہ تذکرہ ہو رہا تھا کہ آج آخر گھرو ں میں بھی عورتیں اتنا تنگ اور چھوٹا لباس کیوں پہنتی ہیں؟ اپنے بچوں اور بھائیوں ،بڑوں کے سامنے ۔ میری دوست کا کہنا تھا کہ جب بچے TVاور فلموں میں لڑکیوں کو Swimming Costumeمیں بالکل مختصرلباس میں دیکھتے ہیں تو برا نہیں لگتا ۔پھریہاں کیوں؟ جواب معقول بھی لگالیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ حالات کا ذمہ دار کون ہے۔ فلم یا TVیا پھر ہم ناظرین جو اس طرح کے مناظر فلموں میں دیکھ کر مخالفت کرنے کی بجاے تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں ۔ میں جانتی ہوں عورت کوبازار میںلانے میں مردوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن اس ہاتھ سے زیادہ ان حالات کے لئے ذمہ دار خودعورت ہی ہے جو ایک سنہرے مستقبل کے جال میں پھنس کر خود ہی اپنا استحصال کروا کے خوش ہے۔ جب عورت کی زندگی گھر تک ہی محدود تھی عورت شمع محفل نہیں بنی تھی ہر طرف سکون تھا، اطمینان تھا، لیکن جیسے ہی عورت نے گھر سے باہر قدم نکالے شمع خانہ سے محفلوں کی رونق بنی، اپنی حیاء اپنی نزاکت بھول گئی۔ آج اخباروں کی سرخیاں عورت کے نام سے جلوہ افروز ہیں۔ چوری سے لے کر ڈاکہ اور قتل گری تک عورت ہی عورت جلوہ افروز ہے-
عورت کا بیوپار کرنے والی بھی آج عورت ہی ہے، بڑی شرم محسوس ہوتی ہے لکھنے تک میں، معاف کرنا عورت کا ریپ کرنے میں تک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پتا نہیں آج اس حوا کی بیٹی کو کیا ہو گیا ہے۔ کسی زمانے میں عورت کو ا پنی پاکبازی ثابت کرنے کے لئے اگنی پریکشہ تک دینی پڑی تھی۔ لیکن آج عورت خود دوسروں کی اگنی پریکشہ لیتی نظر آتی ہے۔ سالوں پہلے جب کوئی عورت رکشا اورٹیکسی چلاتی دکھائی دیتی تھی تو دیکھنے والوں کا ہجوم لگ جاتا تھا لیکن آج عورت رکشا اور ٹیکسی چلاتی ہے خود اپنے دفاع کے لئے جوڈو کراٹے سیکھ رہی ہے۔ ہوائی جہاز اڑانا اور گولیاں چلانا بھی آج عورت کے لئے معمولی بات ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ، روزگار اور ملک کی ترقی میں مردوں میں کندھے سے کندھے ملا کر چلنے والی یہ عورت خود اپنے گھر میں کتنی خوشحال ہے کتنی Secureہے یہ خود عورت ہی جانتی ہے۔ سماج اور مارکیٹ میں نام کمانے کی اس دوڑ میں نہ جانے کتنی عورتیں اپنی گھریلو زندگی میں گھٹ گھٹ کر دم توڑ رہی ہیں اس کا اندازہ وہی عورت لگا سکتی ہے جو اپنی گھریلوزندگی کے ساتھ روز گار میں زندگی کو بھی لے کر چل رہی ہے۔
اسلام نے ہم عورتوں کو گھروں تک محدود رکھا یہ سچ ہے لیکن دیکھا جائے توجتنی آزادی اور برابری اسلام نے عورت کودی اتنی کسی اور مذہب نے نہ دی اور نہ دوسرے مذہب میں یہ ممکن ہی ہے۔ آج ہم عورتوں نے سچ کہوں تو نظام قدرت میں دخل اندازی کرکے بھی معاشرے کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ عورت کے کام کرنے اور بزنس سنبھالنے سے مردوں میں جو بے کاری اور بے روزگاری بڑھی ہے وہ بھی ہماری دین ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ ہمیں دنیاوی زندگی سے دور رہنا چاہئے لیکن ماں کی گود بچے کی سب سے بڑی درسگاہ ہے اگرایک عورت اپنی ابتدائی درسگاہ ہی میں ناکام ہوتی ہے تو آنے والا کل آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کتنا روشن ہو سکتاہے؟ آج میاں بیوی کے گھریلو جھگڑوں کی اصل وجہ بھی عورت کا گھرسے باہر رہنا ہے۔ آپ سوچ رہی ہونگی ایک عورت ہو کر میں اس طرح کیوں لکھ رہی ہوں یہ توایک خدائی قانون ہے جس سے بغاوت ہمارے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ جہاں بھی ہم نے گھر سے باہر پاؤں نکالا ہمیں بدنامی اور بے عزتی ہی ملی ہم عورتوں کی بقاء اور تحفظ گھر کی چہار دیواری میں ہے، پردے میں ہے لیکن آج ہم دنیا کے بچھائے ہوئے سنہرے جال میں اس طرح الجھ رہی ہیں کہ ہمیں خودہماری بھی خبر نہیں ہے۔ حالات چاہے جو بھی ہوں عورت ملک کی سر براہ ہو یا معمولی مزدور، عورت کی نسوانیت ہی اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ مردچاہے جتنا آزاد خیال ہو چاہے جتنا ترقی پسند جب عورت کا معاملہ ہوتا ہے سب سے پہلے وہ عورت میں نسوانیت تلاش کرتاہے۔ مردکے لئے عورت ہی پہلے ہوتی ہے اس کے بعداس کے سارے اوصاف۔
آج ہم عورتوں نے عورتوں کا لباس چھوڑ کر مردانے کپڑے زیب تن کرنا شروع کر دئیے ہیں اسلام میں تواس کی سخت ممانیت ہے۔ عورت شاید یہ بھول رہی ہے کہ بال کٹوانے اور مردوں جیسے کپڑے پہننے سے عورت مرد جیسی تو دکھ سکتی ہے پر مرد نہیں بن سکتی۔ جو عزت جو نام عورت نے ماں بن کر پایا شاید کسی اور کے نصیب میں نہیں آیا۔ ماں کے قدموں تلے اللہ نے جنت رکھی ہے سوچئے کتنی بڑی بات ہے کتنا بڑا اعزاز ہے۔ اگرماں، ماں نہ بن سکی تو سوچئے کسی قوم کے بہکنے اور برباد ہونے میں وقت نہیںلگے گا۔ میرے ایک اندازے کے مطابق شاید میں غلط بھی ہوسکتی ہوں ۔ ہر عورت بیوی بننا تو ضرور چاہتی ہے لیکن جب ماں بننے کی باری آتی ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میںعورت ذات سے بغاوت کرنا چاہتی ہوں نہ انہیں خوش فہمی ہی میں رکھنا چاہتی ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کااصلی مقام اس کاگھر اس کا شوہر اس کے بچے ہیں۔ دنیا ایک چھوٹا سا Stageہے ہر آدمی کا کردار چند لمحوں اور دن و سالوں کیلئے ہی ہوتا ہے۔ آخر اسے اپنے گھر اپنے لوگوں ہی میں لوٹ آنا پڑتا ہے۔ آفس کاروبار ہماری دنیا ہماری آخرت نہیں ہے۔ ایک سوال یہاںبھی اٹھتا ہے کہ پھر لڑکیوں کو کیوں تعلیم دیں۔بھئی تعلیم کا مقصد صرف نوکری اور کمانا ہی نہیں ہوتا۔ تعلیم انسان میںشعور پیدا کرتی ہے سلیقہ اور رکھ رکھاؤ دیتی ہے۔ جتنی اہمیت تعلیم کو اسلام نے دی ہے شاید کسی اورمذہب نے اس بارے میں سوچا بھی نہیں۔ آج عورت کی آزادی کولے کر بڑی بڑی باتیں ہو رہی ہیں لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہمارے معاشرے میںعورت ہمیشہ مرد کی سر پرستی ہی میں زیادہ محفوظ اور مطمئن رہی ہے۔ مردکی سرپرستی میں اسے ایکسوئی نصیب ہوئی ہے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے بھی عورت کے لئے مرد کا سایہ اورمہربان ہاتھ زیادہ کارگر ثابت ہوا ہے۔بے بنیاد الزاموں اور بہتانوں سے بچنے کے لئے بھی عورت کے لئے مرد کاساتھ زیادہ فائدے مند رہا ہے ۔ بہر حال عورت وہ آبگینہ ہے جس کی ذمہ داری اور حفاظت کیلئے ایک مضبوط ہاتھ کی ضرورت ہر دور میںرہی اور رہتی دنیاتک رہے گی چاہے پھر وہ ہابیل اور قابیل کا معاملہ ہو یا پھر سیتا رام کا۔ آج وہ عورتیں جو کہتی ہیں کہ انہیں مردوں کی ضرورت نہیں ہے مردوں کے بغیر بھی وہ زندگی کا سفر خوش اسلوبی سے گذار سکتی ہیں ۔ اپنے ساتھ یا تو سراسردھوکہ کررہی ہیں یا پھر ایک ایسی غلطی فہمی میں جی رہی ہیں جس کا انجام ہم اس دنیا اور ان بڑے بڑے شہروںمیں دیکھ رہے ہیں-
عورت آج بھلے ہی کتنی ہی نڈر اور بے باک ہو وہ اس سماج سے نہیںلڑ سکتی ۔ جہاں کی اجاراداری مردوںکے ہاتھ ہے۔ عورت کے لئے سائبان اتنا ہی ضروری ہے جتنا بارش سے بچنے کیلئے ایک چھت۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مرد کو عورت کے لئے ایک ہمدرد ایک مختارکل بنا کر پیش کیا جو ہر الگ الگ شخصیت میںاس کا پاسباں اور ذمہ دار ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا مشاہدہ کیا ہوگا آدمی کتنا ہی بڑا، کتنا ہی قابل ہوتا ہے۔ اپنے بل بوتے پر دنیا کو پلٹنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن آخر میں وہ وہیں لوٹتا ہے جس کی اسے کبھی اہمیت ہی نہیں ہوتی ، جی ہاں اپنے گھر، چاہے وہ اس کا ٹوٹا پھوٹا جھونپڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہی قدرت کا نظام ہے۔
عورت کتنی ہی ماڈرن ہوجائے کتنی ہی ترقی کرلے ایک دن اسے پھر اپنوں میں لوٹنا ہی ہے۔ آزادی عورت کو وہ سکون وہ اطمینان دے ہی نہیں سکتی جو خدا نے اسے کسی کی چھترچھایا میں مہیا کر رکھی ہے۔ آج بھی آزادی نے نام پر عورت نے کئی کئی روپ دھار لئے ہیں لیکن ہر روپ میں وہ عورت ہی عورت ہے۔ عورت کی نسوانیت کو چھپانا اس کے لئے کبھی بھی نہ تھا اور نہ کبھی ہو سکے گا۔عورت کی نسوانیت اور شرم و حیا کی ایک زندہ مثال ہی لے لیجئے شاید آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا، بات ہنسی کی نہیں ہے بلکہ یہ عورت کا وہ پہلو ہے جو اس کی پاکیزگی اس کا وقار اور اس کی پاکدامنی کو ظاہر کرتی ہے کہ عورت چاہے وہ ماں ہوں، یا بہن، بھابی یابیوی کپڑے دھونے کے بعد جب وہ سوکھنے کے لئے چھوڑ دیتی ہے وہ اپنے Under Garmentدوپٹے اور ساڑیوں کے نیچے چھپا یا کرتی ہے۔ تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے عورت کی پاکیزگی کی اس سے بڑی مثال ہو ہی نہیں سکتی لیکن آج عورت بظاہر انہیں لباسوں میں محفلوں اور فلموں میںدکھائی دیتی ہے-
لوگ کہتے ہیں مرد نے عورت کوبازار میں لا کھڑا کیا ہے لیکن کیا آپ کونہیں لگتا کہ اس میں عورت کا ہاتھ بھی برابر کا ہے۔ اگر آپ نہ چاہیں توکیا مجال ہے کہ کوئی آپ سے زبردستی کچھ کرائے۔ حقیقت تویہ ہے کہ آج پیسوں کے پیچھے بھاگتی اس دنیا نے عورت کو بھی مقابلہ جاتی دنیا میں لا کھڑا کر دیا ہے۔حالات ایسے ہوگئے ہیںکہ اب عورت نہ پیچھے مڑنا چاہتی ہے نہ مرد اور معاشرہ ہی عورت کو لوٹ جانے کی صلاح دیتا ہے۔ عورت کا مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ مل کر چلنے کا خواب توآج پورا ہوگیا لیکن اس خواب کے لئے اس نے کیا کچھ نہیںکیا، کیا کچھ نہیں کھویا یہ صرف وہی جانتی ہے۔ کہیں اس نے اپنے Job کے لئے اپنے خاندان کی قربانی دی، تو کہیں اس خواب کے لئے لوگوں کے لعن طعن سنے۔ خیرجو بھی ہو اس معاشرے میں عورت کا ایک خاص مقام ہے۔ ہمیں، ہماری تنظیموں کو کچھ کرنا ہے تو سب سے پہلے اس کی عزت اس کی حفاظت کے لئے بلا جھجھک اس کی مختصر ہوتے اس لباس کے بارے میں کچھ کرنا ہوگا۔ اگر دنیا کے لئے پاک و صاف معاشرے کی بنیاد رکھنا ہوگی تو انہیں عورتوں کے حقوق کے لئے لڑنے کے ساتھ عورت کے ظاہری رکھ رکھاؤ کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔ ایک بچی ہی آگے چل کر بیوی اور ماں بنتی ہے اور یہی ماں یہی بیوی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ ہمیں ان درسگاہوں کی بنیاد ایک اچھے اور صاف ستھرے ماحول پر رکھنی ہوگی۔ آج کی بچیاں کل کی مائیں ، کل کا مستقبل ہیں۔ آنے والا معاشرہ انہیں کا مرہون منت ہوگا لیکن کیا آنے والے وقتوں میں ہر صنف نازک کی وہ خاصیت جو اس کا انمول خزانہ ہے قائم و دائم۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ ترقی کے نام پر آج ہرچیز اور ہرکام جائز ہوتا جارہا ہے۔ میں ایک بار پھر کہہ رہی ہوں دنیاوی ترقی غلط نہیں ہے بری نہیں ہے لیکن ہمارے لئے ہمارے معاشرے کے لئے وہاں بھی ایک حد مقرر ہے۔ چار دنوں کی یہ دنیا ہمیں کچھ نہ دے سکے گی۔ ہمارا ایمان ہماری حقیقت ہی ہمارے لئے آخرت کی بنیادہے۔ خدا اور رسول ؐ نے بھی کبھی ترقی کے لئے منع نہیں کیا حضور ؐ کی حدیث ہے کہ اگر علم حاصل کرنے چین بھی جانا پڑے تو جاؤ مگر خدا اور اس کے رسول ؐ کو مت بھولو۔ ترقی اور علم ہماری میراث ہے،لیکن اس کے نام پر بے جا آزادی اور اپنے آپ کی بے حرمتی ہمارا شیوہ نہیں ہے- اگر ہم بھی اس دنیا کے ساتھ بہک گئے، ہماری حدیں پار کرگئے توشاید ہمیں بھی یہی کہنا پڑے گا جیسے شاعر نے کہا ہے:
قوم نے ا تنی ترقی کی کہ پہنچی عرش پر
اب کم نظر آتی ہے وہ مسجدوں کی فرش پر
اور
انقلاب وقت نے بدلے اگر بچوں کے نام
کون پھر کہلائے گا اکرم علی،امجد حسین
کیا عجب کہ اگلی نسلوں میںکچھ ایسے نام ہوں
مس مزائل فاظمہ، ایٹم علی راکٹ حسین
بشکریہ ۔زریں شعائیں بنگلور
آج کا زمانہ شایدشمع خانہ کا نہیںرہا۔ وہ زمانے لدگئے جب عورت کا گھر سے نکلنا ممنوعہ سمجھا جاتاتھا آج عورت شمع خانہ کی بجائے شمع محفل بنائی اور بنتی جارہی ہے۔ آج یو ںلگتا ہے جیسے عورت کے لئے دنیا میں کوئی حد ہی باقی نہ رہی۔ اگر اشتہاروں کو ہی لیا جائے تو عورت ماچس سے لے کربلیڈ اور بلیڈ سے لے کر بڑی بڑی مشینوں اور غذائی اشتہاروں میں دکھائی دیتی ہے۔ افسوس تواس بات کا ہے کہ آج ہندوستان میں عورتوں کی بڑی بڑی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ عورت مردوں کے شانہ بہ شانہ خلاء تک پہنچ گئی ہے آج کہیں کوئی ایسا محکمہ نہیںجہاںعورت براجمان نہ وہ۔ اس حقیقت کوبھی ٹھکرایا نہیں جاسکتا کہ عورت نے آج ایسے ایسے معرکے سر کئے ہیں کہ سوچنے اور سننے سے عورت کی بہادری اور ہمت کی داد دئیے بغیر نہیں رہا جاتا۔ عورت کا ہوائی جہاز اڑانا سے لے کر ریل گاڑی چلانا۔ اس کے حوصلے اورہمت کی مثال ہے لیکن آج جب وہی عورت جب اشتہاروں میں دکھائی دیتی ہے تو دل میں ایک عجیب سی ہلچل اور دماغ میں سنسناہٹ پیدا کر تی ہے۔عورت کوخدا نے حسن ضروردیا ہے لیکن اس حسن کی پاسداری بھی ـضروری ہے۔ یہ حسن جو خدا نے اس کے شوہر تک محدود رکھنے کی ہدایت کی ہے آج بازاروں اورچوراہوں پر سر عام اپنی دیوانگی کا ثبوت دیتا دکھائی دیتا ہے۔ آج عورتوں کو اشتہاروں میں کچھ ایسے ایسے رخ سے دکھایا جاتا ہے کہ انہیںدیکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے،بڑے بڑے بینروں اور ہورڈنگس پر کچھ اس طرح کے زاویوں میں دکھایا جاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک عورت کیسے اس طرح کی تصویر دے سکتی ہے۔جوبچے اوربوڑھے تو کیا نوجوان بھی دیکھ کر شرما جائیں۔ آج فلموں میں عورتوں کی ایسی ایسی تصویر کشی کی جاتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا شوہر بیوی بھی ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ آج اگر سیاسی پہلو دیکھا جائے تو معمولی بات کے لئے لوگ راستوں پر نکل آتے ہیں، چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور غلط فہمیوں کے لئے خون خرابہ ہوتا ہے۔ لیکن آج تک کسی تنظیم نے عورتوں کے ننگے پن کے لئے کبھی بھی کہیں بھی دھرنا نہیں دیا مخالفت نہیںکی۔ آخر کیوں؟ کہا یہ سماج میں پھیلی برائی نہیں ہے۔ یا پھر ہم اپنے راستوں سے بھٹک رہے ہیں۔ آج کا دور ترقی کا دور ہے لیکن وہ دور بھی کیا جہاں کپڑوں کی حیثیت سمٹ کرصرف انچوں پر آجائے۔ کسی نے کہا ہے-زروزیور نے کی کپڑوں کی جگہ شرم باقی نہ رہی مفلسی غنیمت تھی یوں کپڑوں کی تنگی تو نہ تھی- رہی مفلسی کافی مہینے ہوگئے اندھیری ویسٹ میں لوکھنڈوالا کے راستے کے ایک چوراہے پر ایک عورت کی ایسی تصویر لگی تھی جس کا آدھا سینہ برہنہ لگتا تھا ٹانگیں بالکل کھلی تھیں آپ جانتے ہیں آج کل تصویر بھی اس طرح بنتی ہیں جیسے لگتا ہے کوئی جاندار انسان کھڑا ہو۔! اس طرح ، شاید سال بھر پہلے کی بات ہے باندرا،ٹرنر روڈ جنکشن پر Levis Jeansکا ایک اشتہارلگا تھا دیکھا تو لاکھوں لوگوںنے ہوگا کس طرح میرا استعمال ہوا تھا ۔ لکھتے اور کہتے ہوئے تو شرم محسوس ہو ہی رہی ہے جن عورتوں نے، مردوں کی بات تو رہنے دیجئے دیکھا ہوگا اپنے آپ میں کیسا محسوس کیا ہوگا ۔ شایدمیں اپنے احساسات لکھ ہی نہیں پا رہی ہوں۔ دنیا جیسے جیسے ترقی کی راہ اختیار کررہی ہے ہم عورتوں کا استحصال بھی ترقی اور جدیدیت کے نام پر آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ہم مغرب کی تقلید میں نہ جانے کہاں سے کہاں جا رہے ہیں۔ گذشتہ سال میں نے اردوٹائمز میں پڑھا تھا کہ’’ کیا کرکٹ کے پرموشن کے لئے چیئر گرل کا ہونا ضروری ہے ‘‘؟ پڑھ کر شرم بھی محسوس ہوئی اوراچھا بھی لگا کہ دنیا عورتوں کو کبھی بھی کم سے کم لباس میں دیکھنا پسند نہیں کرتی۔
اس سال بھی پھر IPL-IIمیں آپ نے بھی دیکھا ہوگااور میں نے بھی دیکھا ہے کہ مشہور فلم ایکٹریس مندرا بیدی کا لباس کیسا تھا۔ آج زمانے کی ترقی کے ساتھ فیشن کے نام پر ہر چیز چلتی ہے دیکھا جائے تو آج مرد ایسے لباس زیب تن کرنے لگے ہیں کہ پورا جسم کپڑوں سے ڈھک جاتا ہے لیکن جنہیں اپنا جسم ڈھکنا چاہئے وہ کم سے کم لباس پہن کر اپنے جسم کی نمائش کر رہی ہیں۔ عورت کی عریانیت کو اپنی غیرت کا پاس ہمیشہ اور ہر حال میں ہونا چاہئیے۔ 29؍ اپریل 2009ء کے انقلاب میں لکھا وفا ناہید کا مـضمون ’’ بنت حوا پر ظلم کرنے والی عورت ہی ہے‘‘! ایک بڑا اچھا سبق آموز مضمون تھا۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں اور عورت کو یا پھر مرد کو بھی یہ لباس تار تار کرنے کا کوئی حق نہیں ۔عورت کی غیرت کا ایک واقعہ جس کا ذکر وفا ناہید نے اپنے مضمون میں کیا ہے یہاں رقم کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ کسی جنگ میں ایک صحابیہ کو اپنے اکلوتے بیٹے کی شہادت کی خبر موصول ہوئی وہ صحابیہ با پردہ دیوانہ وار میدان جنگ کی طرف دوڑ پڑیں ۔ لوگوں نے کہا کہ اتنی اندوہناک خبر سننے کے بعد بھی انہیں اپنے پردے کی پڑی ہے۔ ان عظیم صحابیہ نے کیا خوب جواب دیا تھا۔ ’’میںنے جنگ میں اپنا بیٹا گنوایا ہے اپنی غیرت نہیں۔‘‘
شاید آج ایسی عظیم مائیں ہم کھو چکے ہیں یا پھر ہماری یہ مائیں آزادی نسواں کا خواب دیکھتے دیکھتے اپنے آپ میں ہی کہیں کھو رہی ہیں۔ آزادیٔ نسواں ایک سنہرا خواب ہے ہر عورت چاہتی ہے وہ اس خواب کی تعبیر بن کررہے لیکن آج اس خواب کی تعبیر کتنی گھناؤنی ہے یہ صرف عورت ہی جانتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ اس تعبیر کے لئے اسے کیا کچھ نہیں گنوانا پڑتا ہے۔ کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اپنے جسم کو سڈول بنانے سے لے کر بڑی بڑی کرسیوں کے حاصل کرنے تک کن کن مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ ہم عورتیں نہیں سوچتیں کہ اس پوزیشن کے پیچھے کتنے زخم چھپے ہوتے ہیں، میں خود عورت ہوں، عورت کی آزادی کے خلاف نہیں ہوں، لیکن وہ بے جا آزادی ہمارے لئے بالکل بھی نہیں ہے جو معاشرے کو سدھارنے کی بجائے پستیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ دنیا میں اگر کسی مذہب نے عورت کو تحفظ اور آزادی دی ہے تو وہ ہے’ اسلام‘ اور آج ہم اسی اسلام کی تعلیم کو بھول کر مغرب کی طرف گامزن ہیں اور نتیجہ دیکھئے-
یہ مغربی فضاء پھیلی ہے دیکھو مشرق میں
جہاں شارب ترقی سب حیا چھین لیتی ہے
یہ حیاہی ہے جس نے عورت کو ایک اچھی ماں، اچھی بیوی، اچھی بھابی اور بہن بیٹی بنا کر پیش کیا اور یہ حیا ہی ہے جس نے عورت کو ڈائن تک بنا ڈالا۔ ہم اکثر اخبار میں عجیب عجیب خبریں پڑھتے ہیں کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے جیسے ہم اخبارپڑھنا شروع کرتے ہیں ہماری آنکھیں شرم سے جھکنے لگتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں میرا روڈ کا معاملہ آپ لوگوں نے پڑھا ہوگا کس طرح ایک عورت ہی نے اپنی بیٹیوں کے لئے گھر ہی جہنم بنا رکھا تھا۔ کیا اس طرح کی عورتیں ماں بہن اور بیوی کہلانے کے قابل ہو سکتی ہیں۔ آج ہندوستان میں کئی عورتوں کی تنظیمیں اور تحریکیں چل رہی ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے لئے لڑنے والی یہ تنظیمیں پتا نہیں کہاں تک عورتوں کے حقوق کا دفاع کرنے میں کامیاب ہیں۔ آج Advertisementکے نام پر عورت نے تو اپنا پورا لباس ہی اتار دیاہے۔ اور اس کے بعد یہ آواز بھی اٹھائی جاتی ہے کہ ہندوستان میں سرعام عورت کی عزت لوٹی جاتی ہے میںتو سمجھتی ہوں اگر عو رت اپنا لباس ہی ڈھنگ سے پہنے تو کیا مجال ہے کہ کوئی مرد اس کی طرف تڑچھی نظر ہی کرے۔ میری ایک دوست ہے ،بات میں بالکل سچائی ہے، دوران گفتگو ایک دن یہ تذکرہ ہو رہا تھا کہ آج آخر گھرو ں میں بھی عورتیں اتنا تنگ اور چھوٹا لباس کیوں پہنتی ہیں؟ اپنے بچوں اور بھائیوں ،بڑوں کے سامنے ۔ میری دوست کا کہنا تھا کہ جب بچے TVاور فلموں میں لڑکیوں کو Swimming Costumeمیں بالکل مختصرلباس میں دیکھتے ہیں تو برا نہیں لگتا ۔پھریہاں کیوں؟ جواب معقول بھی لگالیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ حالات کا ذمہ دار کون ہے۔ فلم یا TVیا پھر ہم ناظرین جو اس طرح کے مناظر فلموں میں دیکھ کر مخالفت کرنے کی بجاے تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں ۔ میں جانتی ہوں عورت کوبازار میںلانے میں مردوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن اس ہاتھ سے زیادہ ان حالات کے لئے ذمہ دار خودعورت ہی ہے جو ایک سنہرے مستقبل کے جال میں پھنس کر خود ہی اپنا استحصال کروا کے خوش ہے۔ جب عورت کی زندگی گھر تک ہی محدود تھی عورت شمع محفل نہیں بنی تھی ہر طرف سکون تھا، اطمینان تھا، لیکن جیسے ہی عورت نے گھر سے باہر قدم نکالے شمع خانہ سے محفلوں کی رونق بنی، اپنی حیاء اپنی نزاکت بھول گئی۔ آج اخباروں کی سرخیاں عورت کے نام سے جلوہ افروز ہیں۔ چوری سے لے کر ڈاکہ اور قتل گری تک عورت ہی عورت جلوہ افروز ہے-
عورت کا بیوپار کرنے والی بھی آج عورت ہی ہے، بڑی شرم محسوس ہوتی ہے لکھنے تک میں، معاف کرنا عورت کا ریپ کرنے میں تک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پتا نہیں آج اس حوا کی بیٹی کو کیا ہو گیا ہے۔ کسی زمانے میں عورت کو ا پنی پاکبازی ثابت کرنے کے لئے اگنی پریکشہ تک دینی پڑی تھی۔ لیکن آج عورت خود دوسروں کی اگنی پریکشہ لیتی نظر آتی ہے۔ سالوں پہلے جب کوئی عورت رکشا اورٹیکسی چلاتی دکھائی دیتی تھی تو دیکھنے والوں کا ہجوم لگ جاتا تھا لیکن آج عورت رکشا اور ٹیکسی چلاتی ہے خود اپنے دفاع کے لئے جوڈو کراٹے سیکھ رہی ہے۔ ہوائی جہاز اڑانا اور گولیاں چلانا بھی آج عورت کے لئے معمولی بات ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ، روزگار اور ملک کی ترقی میں مردوں میں کندھے سے کندھے ملا کر چلنے والی یہ عورت خود اپنے گھر میں کتنی خوشحال ہے کتنی Secureہے یہ خود عورت ہی جانتی ہے۔ سماج اور مارکیٹ میں نام کمانے کی اس دوڑ میں نہ جانے کتنی عورتیں اپنی گھریلو زندگی میں گھٹ گھٹ کر دم توڑ رہی ہیں اس کا اندازہ وہی عورت لگا سکتی ہے جو اپنی گھریلوزندگی کے ساتھ روز گار میں زندگی کو بھی لے کر چل رہی ہے۔
اسلام نے ہم عورتوں کو گھروں تک محدود رکھا یہ سچ ہے لیکن دیکھا جائے توجتنی آزادی اور برابری اسلام نے عورت کودی اتنی کسی اور مذہب نے نہ دی اور نہ دوسرے مذہب میں یہ ممکن ہی ہے۔ آج ہم عورتوں نے سچ کہوں تو نظام قدرت میں دخل اندازی کرکے بھی معاشرے کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ عورت کے کام کرنے اور بزنس سنبھالنے سے مردوں میں جو بے کاری اور بے روزگاری بڑھی ہے وہ بھی ہماری دین ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ ہمیں دنیاوی زندگی سے دور رہنا چاہئے لیکن ماں کی گود بچے کی سب سے بڑی درسگاہ ہے اگرایک عورت اپنی ابتدائی درسگاہ ہی میں ناکام ہوتی ہے تو آنے والا کل آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کتنا روشن ہو سکتاہے؟ آج میاں بیوی کے گھریلو جھگڑوں کی اصل وجہ بھی عورت کا گھرسے باہر رہنا ہے۔ آپ سوچ رہی ہونگی ایک عورت ہو کر میں اس طرح کیوں لکھ رہی ہوں یہ توایک خدائی قانون ہے جس سے بغاوت ہمارے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ جہاں بھی ہم نے گھر سے باہر پاؤں نکالا ہمیں بدنامی اور بے عزتی ہی ملی ہم عورتوں کی بقاء اور تحفظ گھر کی چہار دیواری میں ہے، پردے میں ہے لیکن آج ہم دنیا کے بچھائے ہوئے سنہرے جال میں اس طرح الجھ رہی ہیں کہ ہمیں خودہماری بھی خبر نہیں ہے۔ حالات چاہے جو بھی ہوں عورت ملک کی سر براہ ہو یا معمولی مزدور، عورت کی نسوانیت ہی اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ مردچاہے جتنا آزاد خیال ہو چاہے جتنا ترقی پسند جب عورت کا معاملہ ہوتا ہے سب سے پہلے وہ عورت میں نسوانیت تلاش کرتاہے۔ مردکے لئے عورت ہی پہلے ہوتی ہے اس کے بعداس کے سارے اوصاف۔
آج ہم عورتوں نے عورتوں کا لباس چھوڑ کر مردانے کپڑے زیب تن کرنا شروع کر دئیے ہیں اسلام میں تواس کی سخت ممانیت ہے۔ عورت شاید یہ بھول رہی ہے کہ بال کٹوانے اور مردوں جیسے کپڑے پہننے سے عورت مرد جیسی تو دکھ سکتی ہے پر مرد نہیں بن سکتی۔ جو عزت جو نام عورت نے ماں بن کر پایا شاید کسی اور کے نصیب میں نہیں آیا۔ ماں کے قدموں تلے اللہ نے جنت رکھی ہے سوچئے کتنی بڑی بات ہے کتنا بڑا اعزاز ہے۔ اگرماں، ماں نہ بن سکی تو سوچئے کسی قوم کے بہکنے اور برباد ہونے میں وقت نہیںلگے گا۔ میرے ایک اندازے کے مطابق شاید میں غلط بھی ہوسکتی ہوں ۔ ہر عورت بیوی بننا تو ضرور چاہتی ہے لیکن جب ماں بننے کی باری آتی ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میںعورت ذات سے بغاوت کرنا چاہتی ہوں نہ انہیں خوش فہمی ہی میں رکھنا چاہتی ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کااصلی مقام اس کاگھر اس کا شوہر اس کے بچے ہیں۔ دنیا ایک چھوٹا سا Stageہے ہر آدمی کا کردار چند لمحوں اور دن و سالوں کیلئے ہی ہوتا ہے۔ آخر اسے اپنے گھر اپنے لوگوں ہی میں لوٹ آنا پڑتا ہے۔ آفس کاروبار ہماری دنیا ہماری آخرت نہیں ہے۔ ایک سوال یہاںبھی اٹھتا ہے کہ پھر لڑکیوں کو کیوں تعلیم دیں۔بھئی تعلیم کا مقصد صرف نوکری اور کمانا ہی نہیں ہوتا۔ تعلیم انسان میںشعور پیدا کرتی ہے سلیقہ اور رکھ رکھاؤ دیتی ہے۔ جتنی اہمیت تعلیم کو اسلام نے دی ہے شاید کسی اورمذہب نے اس بارے میں سوچا بھی نہیں۔ آج عورت کی آزادی کولے کر بڑی بڑی باتیں ہو رہی ہیں لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہمارے معاشرے میںعورت ہمیشہ مرد کی سر پرستی ہی میں زیادہ محفوظ اور مطمئن رہی ہے۔ مردکی سرپرستی میں اسے ایکسوئی نصیب ہوئی ہے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے بھی عورت کے لئے مرد کا سایہ اورمہربان ہاتھ زیادہ کارگر ثابت ہوا ہے۔بے بنیاد الزاموں اور بہتانوں سے بچنے کے لئے بھی عورت کے لئے مرد کاساتھ زیادہ فائدے مند رہا ہے ۔ بہر حال عورت وہ آبگینہ ہے جس کی ذمہ داری اور حفاظت کیلئے ایک مضبوط ہاتھ کی ضرورت ہر دور میںرہی اور رہتی دنیاتک رہے گی چاہے پھر وہ ہابیل اور قابیل کا معاملہ ہو یا پھر سیتا رام کا۔ آج وہ عورتیں جو کہتی ہیں کہ انہیں مردوں کی ضرورت نہیں ہے مردوں کے بغیر بھی وہ زندگی کا سفر خوش اسلوبی سے گذار سکتی ہیں ۔ اپنے ساتھ یا تو سراسردھوکہ کررہی ہیں یا پھر ایک ایسی غلطی فہمی میں جی رہی ہیں جس کا انجام ہم اس دنیا اور ان بڑے بڑے شہروںمیں دیکھ رہے ہیں-
عورت آج بھلے ہی کتنی ہی نڈر اور بے باک ہو وہ اس سماج سے نہیںلڑ سکتی ۔ جہاں کی اجاراداری مردوںکے ہاتھ ہے۔ عورت کے لئے سائبان اتنا ہی ضروری ہے جتنا بارش سے بچنے کیلئے ایک چھت۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مرد کو عورت کے لئے ایک ہمدرد ایک مختارکل بنا کر پیش کیا جو ہر الگ الگ شخصیت میںاس کا پاسباں اور ذمہ دار ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا مشاہدہ کیا ہوگا آدمی کتنا ہی بڑا، کتنا ہی قابل ہوتا ہے۔ اپنے بل بوتے پر دنیا کو پلٹنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن آخر میں وہ وہیں لوٹتا ہے جس کی اسے کبھی اہمیت ہی نہیں ہوتی ، جی ہاں اپنے گھر، چاہے وہ اس کا ٹوٹا پھوٹا جھونپڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہی قدرت کا نظام ہے۔
عورت کتنی ہی ماڈرن ہوجائے کتنی ہی ترقی کرلے ایک دن اسے پھر اپنوں میں لوٹنا ہی ہے۔ آزادی عورت کو وہ سکون وہ اطمینان دے ہی نہیں سکتی جو خدا نے اسے کسی کی چھترچھایا میں مہیا کر رکھی ہے۔ آج بھی آزادی نے نام پر عورت نے کئی کئی روپ دھار لئے ہیں لیکن ہر روپ میں وہ عورت ہی عورت ہے۔ عورت کی نسوانیت کو چھپانا اس کے لئے کبھی بھی نہ تھا اور نہ کبھی ہو سکے گا۔عورت کی نسوانیت اور شرم و حیا کی ایک زندہ مثال ہی لے لیجئے شاید آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا، بات ہنسی کی نہیں ہے بلکہ یہ عورت کا وہ پہلو ہے جو اس کی پاکیزگی اس کا وقار اور اس کی پاکدامنی کو ظاہر کرتی ہے کہ عورت چاہے وہ ماں ہوں، یا بہن، بھابی یابیوی کپڑے دھونے کے بعد جب وہ سوکھنے کے لئے چھوڑ دیتی ہے وہ اپنے Under Garmentدوپٹے اور ساڑیوں کے نیچے چھپا یا کرتی ہے۔ تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے عورت کی پاکیزگی کی اس سے بڑی مثال ہو ہی نہیں سکتی لیکن آج عورت بظاہر انہیں لباسوں میں محفلوں اور فلموں میںدکھائی دیتی ہے-
لوگ کہتے ہیں مرد نے عورت کوبازار میں لا کھڑا کیا ہے لیکن کیا آپ کونہیں لگتا کہ اس میں عورت کا ہاتھ بھی برابر کا ہے۔ اگر آپ نہ چاہیں توکیا مجال ہے کہ کوئی آپ سے زبردستی کچھ کرائے۔ حقیقت تویہ ہے کہ آج پیسوں کے پیچھے بھاگتی اس دنیا نے عورت کو بھی مقابلہ جاتی دنیا میں لا کھڑا کر دیا ہے۔حالات ایسے ہوگئے ہیںکہ اب عورت نہ پیچھے مڑنا چاہتی ہے نہ مرد اور معاشرہ ہی عورت کو لوٹ جانے کی صلاح دیتا ہے۔ عورت کا مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ مل کر چلنے کا خواب توآج پورا ہوگیا لیکن اس خواب کے لئے اس نے کیا کچھ نہیںکیا، کیا کچھ نہیں کھویا یہ صرف وہی جانتی ہے۔ کہیں اس نے اپنے Job کے لئے اپنے خاندان کی قربانی دی، تو کہیں اس خواب کے لئے لوگوں کے لعن طعن سنے۔ خیرجو بھی ہو اس معاشرے میں عورت کا ایک خاص مقام ہے۔ ہمیں، ہماری تنظیموں کو کچھ کرنا ہے تو سب سے پہلے اس کی عزت اس کی حفاظت کے لئے بلا جھجھک اس کی مختصر ہوتے اس لباس کے بارے میں کچھ کرنا ہوگا۔ اگر دنیا کے لئے پاک و صاف معاشرے کی بنیاد رکھنا ہوگی تو انہیں عورتوں کے حقوق کے لئے لڑنے کے ساتھ عورت کے ظاہری رکھ رکھاؤ کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔ ایک بچی ہی آگے چل کر بیوی اور ماں بنتی ہے اور یہی ماں یہی بیوی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ ہمیں ان درسگاہوں کی بنیاد ایک اچھے اور صاف ستھرے ماحول پر رکھنی ہوگی۔ آج کی بچیاں کل کی مائیں ، کل کا مستقبل ہیں۔ آنے والا معاشرہ انہیں کا مرہون منت ہوگا لیکن کیا آنے والے وقتوں میں ہر صنف نازک کی وہ خاصیت جو اس کا انمول خزانہ ہے قائم و دائم۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ ترقی کے نام پر آج ہرچیز اور ہرکام جائز ہوتا جارہا ہے۔ میں ایک بار پھر کہہ رہی ہوں دنیاوی ترقی غلط نہیں ہے بری نہیں ہے لیکن ہمارے لئے ہمارے معاشرے کے لئے وہاں بھی ایک حد مقرر ہے۔ چار دنوں کی یہ دنیا ہمیں کچھ نہ دے سکے گی۔ ہمارا ایمان ہماری حقیقت ہی ہمارے لئے آخرت کی بنیادہے۔ خدا اور رسول ؐ نے بھی کبھی ترقی کے لئے منع نہیں کیا حضور ؐ کی حدیث ہے کہ اگر علم حاصل کرنے چین بھی جانا پڑے تو جاؤ مگر خدا اور اس کے رسول ؐ کو مت بھولو۔ ترقی اور علم ہماری میراث ہے،لیکن اس کے نام پر بے جا آزادی اور اپنے آپ کی بے حرمتی ہمارا شیوہ نہیں ہے- اگر ہم بھی اس دنیا کے ساتھ بہک گئے، ہماری حدیں پار کرگئے توشاید ہمیں بھی یہی کہنا پڑے گا جیسے شاعر نے کہا ہے:
قوم نے ا تنی ترقی کی کہ پہنچی عرش پر
اب کم نظر آتی ہے وہ مسجدوں کی فرش پر
اور
انقلاب وقت نے بدلے اگر بچوں کے نام
کون پھر کہلائے گا اکرم علی،امجد حسین
کیا عجب کہ اگلی نسلوں میںکچھ ایسے نام ہوں
مس مزائل فاظمہ، ایٹم علی راکٹ حسین
بشکریہ ۔زریں شعائیں بنگلور