دلہن وہ جو جہیز لائے
مہذب دنیا کے کسی بھی معاشرے مین جہیز کی حوصلہ افزائی کا تصور ممکن نہیں. لیکن ہمارے ہاں جہیز نہ لانے کی صورت میں چولہے بھی پھٹ جاتا ہےاورجہیز نہ لانے کی پاداش میں بنت حوا کو جلا بھی دیا جاتا ہے. ایسے واقعات پڑھ لکھ کر لگتا ہے کہ ہمارا مہذب دنیا سے دور دور تک واسظہ بھی نہین ہے.لڑکیوں کو جہاں بہت سے مساءل کا سامناہے وہاں ایک مصیبت جہیز بھی ہے. جسے اس کیلئے ناگزیر سمجھا جاتاہے.یہ کڑوا سچ جگہ کہ ہمارا معاشرہ بھی اخلاقی اقرار کے حوالے سے بہت پیچھے ہیں مگر افسوسناک امریہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں اگر اخلاقی ترقی ہوئی بھی ہے تو اس کے فوائد کم ازکم خواتین کو نہیں ملے. بدقسمتی سے جہیز جیسی لعنت کو صرف کہنے کی حدتک برا خیال کیا جاتاہے. لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیونگے جو عملی طور پر اپنی زندگی میں اسے ایک لعنت سمجھ کر فرسودہ رسم قرار دیتےہیں. ہمارے معاشرے کا تاریک پہلویہ بھی ہے کہ جہیز کی لعنت کے خاتمے کے لئے میڈیا نے وہ کردارادا نہیں کیا جو اس کرنا چاہئے تھا اور نہ ہی سیاسی حلقوں نے اپنی ذمہ داریاں نبھاہئں جو کہ پر فرض تھی. اسلام سمیت سبھی مذاہب نے خواتین کو بوجھ کے جبائے مقدس قرار دیا اور انہیں باعثِ رحمت کہا. اج بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ایسے اصولوں کی بنیادوں پر کھڑا ہے. جن کا تعلق کسی بھی مذہیب سے نہیں لیکن یہ گناہ کیسے بھی مذہیب کے نام کئے جاتے ہیں. افسوسناک امریہ ہے کہ ہمارے ہاں دلہن کے ساتھ ساتھ قیمتی سامان کا تقاضا ہے کہ جو شخص بیٹی جیسے دل کا ٹکڑا دے رہاہےکیا اس کا پہلے ہی یہ احسان کم ہے؟ ایسی مثالیں ڈھونڈ نے بیٹھیں تو بے شمار ملے گی. جن میں بہوکو محض اس لیے جلا دیا گیا کہ اس کے والدین سسرال والوں کی طرف سے جہیز کا تقاضا پورانہ کر سکے.
ہمارے معاشرے میں جہیز کو اولین قرار دیا جاتاہے. جبکہ تعلیم جیسے زیور کوثا ضرورت سمجھاجاتاہے .طلاق کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ جہیز بھی ہے.
ایک محتاط اندازے کے مطابق% 40طاقوں میں جہیز کا عمل دخل ہوتا ہے جبکہ سسرال کی طرف سے تشدد کانشانہ بنےبنےوالی %90سے زائد خواتین یہ ظلم اس لیے سہتی ہیں کہ ان کے والدین سسرالیوں کی خواہشات کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے. ہم یہ تمام حقائق تسلیم کرتے ہوئے بھیکہ اسلام اور مذہیب معاشرہ جہیز کی لعنت کو ہر گز پسند نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود اس سے چھٹکارا پانے کے لئےتیارنہیں. یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے مین ایسی خواتین کی تعداد مین بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے. جنکی عمر25برس کی حد سے تجاوز کر چکی ہے اور شادی میں رکاوٹ محض جہیز کی کمی ہے.
مہنگائی کے اس زمانے مین کوئی بھی شخص اپنی بیٹی کی شادی کا تصور کرتے وقت کم از کم یہ تو ضرور سوچتا ہے کہ اس کی ادائیگی کے لئے اس کے پاس لاکھوں روپے ہونے چاہئیں . آج کے دور مین جب دووقت کی روٹی کمانا مشکل ہے کتنے لوگ ہوں گے جن کے پاس لاکھوں روپے ہیں؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم اس وقت تک بہتری کی طرف آہی نہین سکتے جب تک خود اپنا احتساب نہ کریں. روز ایسے واقعات جنم لیتے رہیں گے کئی گھر اجڑیں گے اور کئی معصوم لڑکیوں زندگی کی بازی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی. ہنستے بولتے گھروں مین اگر جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے تو کتنے گھر خوشحال ہوسکتےہیں. تاہم جہیز جیسی لعنت کو نظر انداز کر کے لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے کردار کو مدنظر رکھا جائے تو بہت سارے خاندان آباد ہوسکتے ہیں.