عورت کا المیہ
اس سے انسان ہونے کا حق چھین لیا گیا ہے.
پاکستان معاشرے میں عورتوں کا استحصال ایک تکلیف دہ حقیقت ہے عورتوں کو کبھی جہیز میں کمی کے حوالے سے اور کبھی وٹہ سٹہ کی لعنت کے حوالے سے ایک بکاؤ مال سمجھ کر بیچ دیا جاتاہے چولہے پھٹنے کے واقعات کے پیچھے بھی یہی عوامل کار فرمانظر آتے ہیں وہ خواتین جو کہ تعلیم حاصل کر کے شعور کی منزل طے کرتی ہیں . ان کو بھی ذہنی اذیت کا نشانہ بنا کر دوہرے عذاب میں مبتلا کر دیا جاتاہے. مذہب اسلام اور قانون پاکستان نے عورتوں کو جو جائز حقوق دیئے ہین عورتوں کی ایک غالب اکثریت تعلیم کے فقدان کی وجہ سے ان سے لاعلم ہے اور جن کو تھوڑی بہت اگاہی ہے وہ بھی ان سے محروم ہیں کیونکہ ان کی بات یہ ہے کہ وہ ان کی مخالف لابیان ان کو کسی بھی حالت میں ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتیں. دیہی علاقوں میں تو عورت کی حیثیت ایک بھیڑ بکری سے زیادہ نہیں ہے کیسی منافقت ہے کہ آپ کی آبادی کی غالب اکثریت کھیتی باڑی اور کارخانوں میں کام کر کے ملکی معاشی نظام کو ایک واضح مقصد ہونے کے باوجود صحت، تعلیم اور سماجی طور پر ایک کم ترمخلوق کی حیثیت سے جانی جاتی ہے حتٰی کہ وہ عورتیں جو کہ کنگ ریپ اور جرائم ریزی کا شکار ہوئی ہوں ان کو حصول انصاف کے لئے شرمناک عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رحم وکرم پر رہ جاتی ہیں ایک شادی شدہ عورت چاہے وہ روزانہ مار کھاتی رہے اور خاوند کے ظلم وستم کا شکار ہوتی رہے طلاق کا نام اس کے لئے ایک داغ سے کم نہیں ہوتا.
عورت اپنی مرضی سے کوئی کام کرنا چاہے تو معاشرتی رویے اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں. خاندانی دشمنی میں عورت کو انتقام کا ذریعہ بنایا جاتا ہے. متوسط اور غریب طبقوں میں تو عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے جب چاہے پہن لو اور جب چاہے اتار کر پھینک دو. جاگیردار گھرابوں میں عورتوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں انہیں جائیداد میں سے حصہ بھی نہیں دیا جاتا. اکثر اوقات عورت کو جائیداد سے محروم کرنے کے بعد اسے شادی جیسے مقدس بندھن سے روکا جاتا ہے. قرآن سے شادی یا کاروکاری کی رسمیں آج بھی سرحد، سندھ اور پنجاب کے کئی دیہاتوں میں رائج ہیں.