کل رات بزم میں جو مِلا، گلبدن سا تھا
خوشبو سے اُس کے لفظ تھے، چہرہ چمن سا تھا
دیکھا اُسے تو بول پڑے اُس کے خدّوخال
پوچھا اُسے تو چپ سا رہا، کم سُخن سا تھا
تنہائیوں کی رُت میں بھی لگتا تھا مُطمئن
وہ شخص اپنی ذات میں اِک انجمن سا تھا
سوچا اُسے، تو میں کئی رنگوں میں کھو گیا
عالم تمام اُس کے حسِیں پیرہن سا تھا
جو شاخ شوخ تھی، وہ اُسی کے لبوں سی تھی
جو پھول کھِل گیا، وہ اُسی کے دہن سا تھا
وہ سادگی پہن کے بھی دل میں اُتر گیا
اُس کی ہر اک ادا میں عجب بھولپن سا تھا
آساں سمجھ رہے تھے اُسے شہرِ جاں کے لوگ
مشکل تھا اِس قدر، کہ مِرے اپنے فن سا تھا
وہ گفتگو تھی اُس کی، اُسی کے لیے ہی تھی!
کہنے کو، یوں تو میں بھی شریکِ سُخن سا تھا
تارے تھے چاندنی میں، کہ تہمت کے داغ تھے
مُحسن کل آسمان بھی، میرے کفن سا تھا
محسن نقوی
خوشبو سے اُس کے لفظ تھے، چہرہ چمن سا تھا
دیکھا اُسے تو بول پڑے اُس کے خدّوخال
پوچھا اُسے تو چپ سا رہا، کم سُخن سا تھا
تنہائیوں کی رُت میں بھی لگتا تھا مُطمئن
وہ شخص اپنی ذات میں اِک انجمن سا تھا
سوچا اُسے، تو میں کئی رنگوں میں کھو گیا
عالم تمام اُس کے حسِیں پیرہن سا تھا
جو شاخ شوخ تھی، وہ اُسی کے لبوں سی تھی
جو پھول کھِل گیا، وہ اُسی کے دہن سا تھا
وہ سادگی پہن کے بھی دل میں اُتر گیا
اُس کی ہر اک ادا میں عجب بھولپن سا تھا
آساں سمجھ رہے تھے اُسے شہرِ جاں کے لوگ
مشکل تھا اِس قدر، کہ مِرے اپنے فن سا تھا
وہ گفتگو تھی اُس کی، اُسی کے لیے ہی تھی!
کہنے کو، یوں تو میں بھی شریکِ سُخن سا تھا
تارے تھے چاندنی میں، کہ تہمت کے داغ تھے
مُحسن کل آسمان بھی، میرے کفن سا تھا
محسن نقوی